Topics
سوال: کتاب ’’جنت کی سیر‘‘ میں مراقبہ کے بارے میں پرہیز اور احتیاط کے سلسلہ میں پہلا نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ روحانی ترقی کے لئے مٹھاس کم سے کم استعمال کی جائے مگر آپ اکثر مٹھاس زیادہ استعمال کراتے ہیں اور نمک کم استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؟ اس کی وضاحت کریں۔
جواب: روحانی ڈائجسٹ میں ہم بیماریوں کا علاج اور مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہم جہاں پر بتاتے ہیں کہ نمک کم سے کم کر دیا جائے وہ روحانی تسکین کے لئے نہیں کہتے بلکہ نفسیاتی مریض کے لئے مشورہ دیتے ہیں۔ دماغی مریض، نفسیاتی مریض، پاگل پن کے مریض ان کے لئے ہم کہتے ہیں کہ نمک کم کر دو اور مٹھاس زیادہ کر دو اس کی وجہ یہ ہے کہ مٹھاس انسان کے زمینی شعور کو طاقت پہنچاتی ہے اگر مٹھاس کم ہو جائے تو انسان کا زمینی شعور کمزور ہو جاتا ہے۔ جب شعور کمزور ہو جاتا ہے تو بسا اوقات اسے ماورائی آوازیں آنے لگتی ہیں، ماورائی دنیا نظر آنے لگتی ہے۔ وہ اس آواز کے اپنے حساب سے معانی پہناتا رہتا ہے چونکہ عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اس لئے یہ ایک قسم کا پاگل پن بن جاتا ہے جتنا کوئی آدمی مٹھاس زیادہ کھاتا ہے اسی مناسبت سے اس کے زمینی شعور میں کشش ثقل زیادہ ہو جاتی ہے اور پھر وہ دنیاوی زندگی زیادہ اچھی طرح گزارتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس کے اندر شک کی زیادتی ہو جائے تو اس کا شعور کمزور ہو جاتا ہے اور لاشعور متحرک ہو سکتا ہے۔ لاشعور متحرک (Active) ہونے سے دنیاوی کام میں خلل پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی استاد تو ہوتا نہیں ہے وہ اس میں اپنے ہی آپ معنی پہناتا رہتا ہے اس طرح وہ اپنے لئے پریشانی خرید لیتا ہے اور گھر والوں کے لئے بھی عذاب بن جاتا ہے۔ دماغی امراض، ٹینشن، ڈپریشن(اگر لو بلڈ پریشر نہ ہو)، مرگی، ہائی بلڈ پریشر، مرض استفی، جلدی امراض، بے خوابی اور شیزو فرینیا میں نمک کا زیادہ استعمال بہت زیادہ مضر ہے۔ معالج کے مشورہ سے نمک کے استعمال میں احتیاط کرنا ضروری ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔