Topics
سوال: مراقبہ کسے کہتے ہیں اور مراقبہ کی
حقیقت کیا ہے؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب: جب ہم کوئی علم سیکھتے ہیں یا کسی
چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں اور
وہ یہ ہے کہ اس چیز کو سمجھنے اور جاننے کے لئے تفکر کرتے ہیں اور ہمارے ذہن میں
یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ اس چیز کی اصلیت کیا ہے،یہ کیوں ہے اور کس لئے ہے۔ اگر
چھوٹی سے چھوٹی بات میں تفکر کیا جائے تو اس چھوٹی سی بات کی بڑی اہمیت ہے اور اگر
کسی بڑی سے بڑی بات پر غور و فکر نہ کیا جائے تو وہ بڑی بات غیر اہم اور فضول بن
جاتی ہے۔ تفکر سے ہمیں کسی شئے کے بارے میں علم حاصل ہوتا ہے اور پھر تفکر کے
ذریعہ اس علم میں جتنی گہرائی پیدا ہوتی ہے اسی مناسبت سے کسی چیز اور اس کی صفات
سے ہم باخبر ہو جاتے ہیں۔
مراقبہ دراصل اس تفکر کا نام ہے جس سے
انسان اس علم کو حاصل کر لیتا ہے جو اس کی اپنی انا، ذات، شخصیت یا روح کا علم ہے۔
یہ علم حاصل ہونے کے بعد کوئی انسان اپنی انا یا روح سے وقوف حاصل کر لیتا ہے۔
بظاہر مراقبہ کا عمل یوں لگتا ہے کہ کوئی
شخص آنکھیں بند کر کے اور گردن جھکا کر بیٹھا ہوا ہے لیکن صرف آنکھیں بند کر کے
اور گردن جھکا کر بیٹھنا مراقبہ کے مکمل مفہوم کو پورا نہیں کرتا۔ مراقبہ دراصل
ایک طرز فکر ہے جس کے ذریعہ مراقبہ کرنے والا خود کو ظاہری حواس سے لا تعلق اور
آزاد کر کے باطنی حواس میں سفر کرنے لگتا ہے۔
اب ہم یہ تلاش کریں گے کہ مراقبہ سے ملتی
جلتی کیفیت مراقبہ کی مخصوص نشست کے بغیر بھی ہم میں موجود ہے یا نہیں۔
ظاہری حواس سے آزادی کی کیفیت ہماری زندگی
میں ارادتاً یا غیر ارادی طور پر دونوں طرح ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً ہم سوتے ہیں۔ سونے
کی حالت میں ہمارا دماغ ظاہری حواس سے تعلق منقطع کر لیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ
قطع تعلق عارضی ہوتا ہے لیکن اس کیفیت کو ظاہری حواس سے قطع تعلق کے علاوہ اور
کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مراقبہ
دراصل نیند کو بیداری میں منتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔
ہر انسان پیدائش سے موت تک دو کیفیات میں
سفر کرتا ہے۔ یعنی انسانی دماغ میں ہر آن اور ہر لمحہ دو کیفیات متحرک رہتی ہیں۔
ایک کیفیت کا نام بیداری اور دوسری کیفیت کا نام نیند یا خواب ہے۔ بیداری کی حالت
میں وہ زمان و مکاں میں مقید ہے لیکن خواب کی حالت میں زمان و مکاں کی گرفت سے
آزاد ہو جاتا ہے مراقبہ کے ذریعہ خواب کو بیداری میں منتقل کر کے زمان و مکاں کی
حد بندیوں سے آزادی حاصل کرنے کی مشق کی جاتی ہے۔ مراقبہ میں کم وبیش وہ تمام
حالتیں انسان کے اوپر وارد ہو جاتی ہیں جس کے نتیجہ میں وہ سو جاتا ہے یا خواب
دیکھتا ہے۔
یہ اعتراض کہ خواب کی حیثیت محض خیالی ہے
صحیح نہیں ہے۔ تمام آسمانی کتابوں اور قرآن پاک میں خوابوں کا لامتناہی سلسلہ بیان
ہوا ہے۔ قرآن شریف میں خوابوں کا ذکر واضح طور پر نشاندہی کرتا ہے کہ خواب کی دنیا
زمان و مکاں سے آزاد ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان مراقبہ کے ذریعہ خود کو خواب کی کیفیت
میں منتقل کرتا ہے تو اس پر سے زمان و مکاں کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور مشق کر کے وہ
خواب کی کیفیات میں اسی طرح سفر کرتا ہے جس طرح کہ بیداری کی کیفیات اور واردات
میں سفر کیا جاتا ہے۔ موجودات کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ اس کی کوئی بنیاد ہو،بنیاد
کے بغیر کسی چیز کا قیام ممکن نہیں ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس میں ابہام ہو
اور سمجھ میں نہ آتی ہو۔ مثلاً کرسی کی پہچان کا ذریعہ اس کے چار پیر ہیں۔ کوئی
مکان اس وقت مکان ہے جب زمین کے ایک مخصوص رقبہ پر بنیاد قائم کر کے ان بنیادوں پر
دیواریں تعمیر کی جائیں۔ ہم کسی علم کو اس وقت سیکھ سکتے ہیں جب ہمیں اس کے
فارمولے معلوم ہوں۔ اور یہ فارمولے ہی اس علم کی بنیاد قرار پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ
نے قرآن پاک میں ارشاد کیا ہے۔ ’’اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض‘‘ یعنی۔۔۔اللہ
آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کائنات اور کائنات کے اندر بے شمار عالم اور
کہکشانی نظام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حیثیت اور حکمت کیا ہے یہ بات اللہ تعالیٰ جانتے
ہیں یا وہ مقربین جانتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خود بتا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
کائنات کے تخلیقی فارمولے اپنے مقربین کو کس حد تک اور کتنے بتائے ہیں یہ بات زیر
بحث نہیں ہے۔ بہر کیف ہم اتنا جانتے ہیں کہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کے
لئے تخلیق کی ہے اور اس کا تذکرہ بار ہا قرآن پاک میں کیا گیا ہے۔ کائنات کی بنیاد
پر اللہ کا نور ہے۔ کائنات کے قیام کی بنیاد کے پیش نظر یہ بات لازم اور ضروری ہو
گئی ہے کہ انسان خود اور انسان کے اندر کام کرنے والی تمام صلاحیتیں ایک بنیاد اور
ایک مرکز پر قائم ہوں۔
ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہماری تمام
حرکات و سکنات،توہمات،خیالات،تصورات اور احساسات گوشت پوست کے ڈھانچہ کے تابع نہیں
ہیں۔ کیونکہ جب جسم انسانی سے روح اپنا رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو گوشت پوست کے جسم
میں کوئی حرکت واقع نہیں ہوتی۔ جب تک روح جسم کے ساتھ موجود ہے زندگی کے تمام
تقاضے اور زندگی میں کام آنے والی سب تحریکات موجود ہوتی ہیں یعنی جسم انسانی کی
بنیاد روح ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق روح کا علم
قلیل دیا گیا ہے لیکن محل نظر یہ بات ہے کہ قلیل بھی تو ایک علم ہی ہے۔ واضح یہ
کرنا ہے کہ لامحدود علم کے جاننے والوں نے اس کو سمجھنے کے لئے چند فارمولے بنائے
ہیں اور ان فارمولوں کے اندر رہتے ہوئے اپنے شاگردوں کو اس سے روشناس کرایا ہے اگر
اس پر روشنی ڈالی جائے کہ یہ علم کہاں سے شروع ہوا اور یہ فارمولے کس کس طرح
ارتقاء پذیر ہوئے تو بات طویل ہو جائے گی۔ دراصل ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ انسان
فی الواقع وہ نہیں ہے جسے ہم انسان کہتے یا سمجھتے ہیں۔ ہم گوشت پوست اور ہڈیوں کے
پنجر کو آدمی کہتے ہیں،جبکہ یہ سب مفروضہ ہے۔ دراصل انسان وہ ہے جو اس گوشت پوست
کے جسم کی حفاظت کرتا ہے اور اسے متحرک رکھتا ہے جس کو قرآن پاک نے روح کا نام دیا
ہے۔ہر انسان اس بات سے واقف ہے کہ اس کی زندگی کا دارومدار گوشت پوست کے جسم پر
نہیں ہے اور وہ زندگی میں دو باتوں کا تجربہ ضرور کرتا ہے۔ایک یہ کہ وہ اپنے پورے
شعوری حواس میں ہے اور زندگی رواں دواں ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ سو جاتا ہے لیکن سانس
کی آمد و شد کے ساتھ زندگی کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ انہی دو حالتوں میں وہ زندگی
گزارتا ہے۔سونے کی حالت میں اس کا رشتہ گوشت پوست کے جسم سے غیر شعوری رہ جاتا ہے۔
ان دو حالتوں کے علاوہ تیسری حالت جو ہر
انسان پر وارد ہوتی ہے وہ موت ہے۔ موت ایسی حالت ہے کہ جس میں روح اس خاکی جسم سے
رشتہ منقطع کر لیتی ہے اس گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ انسان کے اوپر تین حالتیں وارد
ہوتی ہیں۔ ایک بیداری،دوسری نیند اور تیسری موت۔ بیداری اور نیند میں قدر مشترک یہ
ہے کہ نیند میں جسم سے روح کا واسطہ براہ راست ہوتا ہے اور بیداری میں بالواسطہ،یعنی
شعور کی معرفت اور موت میں روح اس جسم سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے۔ بات وہی ہے کہ
زندگی کا قیام روح پر ہے ور جسمانی تقاضے جن بنیادوں پر قائم ہیں وہ روح کی
تحریکات ہیں۔
روح زندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اپنا
ایک میڈیم بناتی ہے اس میڈیم کو ہم کروموسوم کا نام دے سکتے ہیں۔ قرآن پاک میں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی‘‘ یعنی روح نے اپنے
لئے ایک میڈیم بنا لیا۔ اور اس میڈیم کو پروان چڑھا کر اسے حواس بخش دیئے۔
روح دراصل اللہ تعالیٰ کا ایک جزو ہے اور
اس جزو میں اللہ کی وہ تمام مشیت اور وہ تمام اوصاف جس کا علم اللہ نے ودیعت کرنا
پسند فرمایا اس میں موجود ہے۔ یہ علم جزو کو کس طرح حاصل ہوا یہ اللہ تعالیٰ کا
ایک راز ہے جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔
انسان کے اندر تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار
لطیفے(جنریٹر) کام کرتے ہیں۔ صوفیائے کرام سے جن اسمائے الٰہیہ کا انکشاف ہوا ہے
ان کی تعداد بھی تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار ہے۔ اللہ کا ہر اسم اللہ کی ایک صفت ہے
اور اللہ کی ہر صفت ایک علم ہے اور یہی علم شاخ در شاخ لامحدود دائروں میں پھیل کر
اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’تمام سمندروں کا پانی روشنائی بن جائے
اور سارے درخت قلم بن جائیں پھر بھی اللہ کی باتیں پوری نہیں ہونگی۔‘‘
غیب کے عالم میں داخل ہونا یا زمان و مکاں
سے ماوراء کسی چیز کو دیکھنا اس وقت ممکن ہے جب آدمی خود زمان و مکاں سے آزاد ہو
جائے۔ زمان و مکاں سے آزاد ہونا اس وقت ممکن ہے جب کہ زمان و مکاں کو دیکھنے والی
نظر زمان و مکاں کی حد بندیوں سے آزاد ہو جائے۔ زمان و مکاں سے آزاد نظر کو متحرک
کرنے کے لئے ایسے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں جن سے انسانی ذہن اگر پوری طرح آزاد
نہ ہو تو ایسی صورتحال ضرور پیدا ہو جائے کہ وہ آزادی سے قریب تر ہو جائے۔
اب یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا کہ آدمی کے
حواس زمان و مکاں کی گرفت سے کب اور کس طرح آزاد ہوتے ہیں۔ اس کی ایک صورت ہمارے
اوپر خواب کی کیفیت کا مسلط ہو جانا ہے۔ سونے کا مطلب دراصل بیداری کے حواس یعنی
زمان و مکاں کے تسلط سے آزادی ہے۔ جب ہم سو جاتے ہیں تو بیداری کے حواس وہاں منتقل
ہو جاتے ہیں جہاں زمان و مکاں کی کیفیت تو موجود ہے لیکن فی الواقع لمحات کے وہ
ٹکڑے موجود نہیں ہیں جن میں ہم لحظہ بہ لحظہ زندگی گزارتے ہیں۔ دوسری صورت جو
بیداری میں واقع ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کا ذہن پوری یکسوئی کے ساتھ کسی ایک
نقطہ پر مرکوز ہو جائے۔ مثلاً ہم کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں اور وہ کتاب ہمارے
لئے اتنی دلچسپی رکھتی ہے کہ ہم ماحول سے بے خبر ہو جاتے ہیں تو بھی زمان و مکاں
کسی حد تک ہمارے ذہن سے نکل جاتے ہیں۔ اور جب ہم کتاب رکھ کر یہ دیکھتے ہیں کہ کئی
گھنٹے گزر گئے اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اتنا
طویل وقفہ گزر گیا۔
قرآن پاک میں جہاں حضرت موسیٰ کو زمان و
مکاں سے ماوراء انکشافات یعنی تورات عطا فرمانے کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں کہ
’’ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور چالیس راتوں میں اسے پورا کر دیا۔‘‘
رات اور دن کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن
پاک میں فرماتے ہیں:
’’ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور
داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’ہم نکالتے ہیں رات کو دن میں سے اور ہر
نکالتے ہیں دن کو رات میں سے۔‘‘
تیسری جگہ ارشاد ہے:
’’ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو اور
دن پر سے رات کو۔۔۔۔۔۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات میں تفکر کرنے
سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رات دن دو حواس ہیں۔ اب ہم اس بات کو یوں کہیں گے کہ
ہماری زندگی دو حواس میں منقسم ہے یا ہماری زندگی دو حواس میں سفر کرتی ہے۔ ایک
حواس کا نام دن ہے اور دوسرے کا رات۔ دن کے حواس میں ہمارے اوپر زمان و مکاں کی
جکڑ بندیاں مسلط ہیں اور رات کے حواس میں ہم زمان ومکاں کی قید سے آزاد ہیں۔اللہ
تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور چالیس راتوں
میں اسے پورا کر دیا۔‘‘ بہت زیادہ فکر طلب ہے کیونکہ حضرت موسیٰ کوہ طور پر صرف
چالیس راتیں نہیں رہے بلکہ آپ کا قیام وہاں چالیس دن اور چالیس راتیں رہا۔ ایسا
بھی نہیں ہوا کہ وہ دن کے وقت کوہ طور سے نیچے آ جاتے ہوں اور رات کے وقت دوبارہ
تشریف لے جاتے ہوں۔ وہ مسلسل چالیس دن اور چالیس راتیں کوہ طور پر قیام فرما رہے۔
فکر طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ صرف رات کا ذکر کرتے
ہیں۔
اس کا مطلب واضح ہے کہ حضرت موسیٰ پر
چالیس دن اور چالیس راتیں،رات کے حواس غالب رہے۔ وہی رات کے حواس جو زمان و مکاں
سے کسی انسان کو آزاد کر دیتے ہیں۔
قانون یہ بنا کہ اگر کوئی انسان اپنے اوپر
رات اور دن کے وقفے میں رات کے حواس غالب کر لے تو وہ زمان و مکاں کی قید سے آزاد
ہو جاتا ہے اور زمان و مکاں سے آزادی دراصل غیبی انکشافات کا ذریعہ ہے۔
قرآن پاک اس پروگرام اور اس عمل کا نام۔
’’قیام الصلوٰۃ‘‘ رکھتا ہے جس کے ذریعے دن کے حواس سے آزادی حاصل کر کے رات کے
حواس میں سفر کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نماز قائم
کرنے کا لازمی نتیجہ دن کے حواس کی نفی اور رات کے حواس میں مرکزیت،حاصل ہونا ہے۔
نماز کے ساتھ لفظ ’’قائم کرنا‘‘ اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی نماز اپنی اس
بنیادی شرط کو پورا نہیں کرتی کہ وہ کسی شخص کو رات کے حواس سے متعارف کرا دے تو
وہ حقیقی نماز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حضرت علیؓ کا ایک مشہور واقعہ سامنے لانا بھی
قیام الصلوٰۃ کی تشریح اور وضاحت میں معاون ثابت ہو گا۔
کسی جنگ میں دشمن کا ایک تیر حضرت علیؓ کی
پشت میں پیوست ہو گیا۔ جب اس تیر کو نکالنے کی کوشش کی گئی تو حضرت علیؓ نے تکلیف
محسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں نماز قائم کرتا ہوں۔‘‘ حضرت علیؓ نے نیت باندھی
لوگوں نے تیر کو نکال لیا اور مرہم پٹی کر دی۔ لیکن حضرت علیؓ کو اس بات کا احساس
تک نہ ہوا کہ تیر نکال کر مرہم پٹی کر دی گئی ہے۔
اس واقعہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی
ہے کہ قیام نماز میں ان حواس کی نفی ہو جاتی ہے جن میں تکلیف اور پابندی موجود ہے۔
حضرت علیؓ نے جب نماز کی نیت باندھی تو وہ دن کے حواس سے نکل کر رات کے حواس میں
پہنچ گئے۔ اور جیسے ہی ان کا ذہن رات کے حواس میں مرکوز ہوا۔ ان کی توجہ دن کے
حواس (پابندی اور تکلیف) سے ہٹ گئی۔
روحانیت کی بنیاد اس حقیقت پر قائم ہے کہ
انسان میں دو حواس،دو دماغ اور دو زندگیاں سرگرم عمل ہیں۔ جیسے ایک ورق کے دو
صفحات۔ یعنی دو رخ دو زندگیوں میں سے ایک کا نام پابندی ہے اور دوسری زندگی کا نام
آزادی۔ پابند زندگی دن،بیداری اور شعور ہے جبکہ آزاد زندگی کا دوسرا نام،رات،راحت،سکون
اور اطمینان قلب ہے۔
اس زندگی کو حاصل کرنے کے لئے روحانیت میں
ایک بہت آسان طریقہ مراقبہ ہے۔ مراقبہ دراصل ایک مشق،کوشش اور طرز فکر کا
نام ہے جس کے ذریعہ کوئی روحانی آدمی
بیداری کے حواس قائم رکھتے ہوے رات کے حواس
میں داخل ہوجاتا ہے -چونکہ بیداری کے حواس
میں داخل ہونا اس کی عادت طرز فکر
اور ماحول کے خلاف ہے اس لئے جب وہ اس راستے پر قدم بڑھاتا ہے تو بیداری کے حواس اور شعور پر
ضرب اتنی شدید ہوتی ہے کہ نہ
صرف شعور ی زندگی کی کڑیوں کو آپس میں
ملانے میں ناکام ہو جاتا ہے- اسی کو عرف عام میں پاگل پن کہا جاتا ہے-
شعور کو اس ضرب سے محفوظ رکھنے کے
لئے کسی ایسے آدمی یا ایسے استاد کی ضرورت پیش آتی ہے جو صاحب نظر ہو اور اس راہ سے
گزر چکا ہو اور اس طرح وہ کسی شخص کو قدم قدم ضرب شدید سے بچاتا ہو ا لاشعور
میں داخل کردے ۔اسی راہ سلوک سے واقف
تجربہ کار استاد کو پیر یا مرشد کہا جاتا ہے۔ اور جب کو ئی شخص کسی ایسے عرفان کے
قانون سے واقف استاد کے دست حق پر بیعت
کرتا ہے تو مرید کہلاتا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔