Topics
اقرا باسم ربک الذی خلق۔
خلق الانسان من علق۔ اقرا و ربک الاکرم۔ الذی علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم۔
‘‘پڑھ اپنے رب کے حکم سے جو
ہر چیز کا خالق ہے۔ بنایا انسان کو جمے ہوئے خون سے ۔ پڑھ اور تمہارا پروردگار بڑا
کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے اور انسان کو وہ باتیں سکھا دیں جن کا اس
کو علم نہ تھا۔’’
اللہ تعالیٰ نے آدم کو
تخلیق کرنے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر اپنا نائبب بنانے
والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا کہ یہ تو زمین پر فساد کرے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ جو میں
جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ نے آدم کو تخلیق فرمایا اور آدم کو صفات
کے علوم منتقل کئے اور کہا کہ فرشتوں کے سامنے بیان کرو۔ آدم نے جب وہ علوم بیان
کئے تو فرشتوں نے کہا کہ یا اللہ بے شک ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں
علم دیا اور اللہ کے حکم کے مطابق فرشتے سربسجود ہو گئے۔ گویا آدم کی فضیلت علم
ٹھہری۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
کہ انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کو سنتا، دیکھتا بنا دیا یعنی جب تک پتلے
کے اندر دیکھنا اور سننا موجود نہیں تھا وہ ناقابل تذکرہ شئے قرار پایا گویا
دیکھنا اور سننا بھی ایک علم کا درجہ رکھتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے
کہ تم ہماری سماعت سے سنتے ہو ہماری بصارت سے دیکھتے ہو اور ہمارے فواد سے سوچتے
ہو۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی سماعت کو اور اللہ کی بصارت کو ہم غیب سے الگ نہیں کہہ
سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے اپنی صفات کی صورت میں ہمیں غیب منتقل کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے پتلے کے اندر اپنی روح ڈال دی اس طرح انسان کی تمام صفات کو ہم غیب
ہی کہیں گے۔ اللہ کی روح یا اللہ کی پھونک یا اللہ کی جان کو غیب سے الگ کوئی نام
نہیں دیا جا سکتا۔ تصوف میں غیب سے مراد وہ نظام ہے جو ظاہر کی بنیاد ہے جو ظاہر
کو فیڈ (Feed) کر
رہا ہے۔ لہٰذا انسان کے اندر روح سے زندگی برقرار ہے اور جب تک زندگی ہے حواس
موجود ہیں۔ حواس میں دیکھنا، سننا، چکھنا، چھونا، سونگھنا تمام باتیں شامل ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ
انسان کی بنیاد غیب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایسا غیب جو اللہ نے اپنی مرضی اپنی
منشاء اور اپنی مشیئت کے مطابق انسان کو عطا کیا ہے۔ یہ نعمت اللہ نے اس لئے عطا
کی ہے کہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے۔
قرآن حکیم میں ہے:
‘‘ہم نے لقمان کو حکمت عطا
کی تا کہ وہ اس کا استعمال کرے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو
استعمال کرتے ہیں اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اس کا فائدہ انہی کو پہنچتا ہے اور
جو لوگ اللہ کی نعمتوں کا کفران کرتے ہیں۔ اس کا نقصان ان ہی کو پہنچتا ہے۔ اللہ
ان دونوں باتوں سے ماوراء ہے۔’’
انسانی زندگی کا ارتقاء
علم کے اوپر قائم ہے۔ ایک انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وقت کے ساتھ
ساتھ اس کے شعور کی داغ بیل پڑتی جاتی ہے۔ جس طرح وقت گزرتا رہتا ہے بچہ کے علم
میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک دن کے بچہ کے پاس ایک دن کا علم
ہے اور آہستہ آہستہ یہی علم اس کی پہچان بن جاتا ہے۔ پھر جب ہم اس انسان کا نام
لیتے ہیں تو نام لینے کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں اس کی ذات سے متعلق علم آشکار ہو
جاتا ہے مثلاً اس کے چہرے کے نقوش، اس کی عادات، اچھائیاں، برائیاں سب ہمارے ذہن
میں نمودار ہو جاتی ہیں۔ گویا اس شخص کی صفات کا علم ہمارے علم میں آ جاتا ہے۔ اسی
طرح ظاہری دنیا میں پائی جانے والی ہر شئے کے بارے میں مثال دی جا سکتی ہے گویا
ذات صفات کا مجموعہ ہے جتنا زیادہ ان صفات کا علم ہو گا، ذات کا علم ہمارے علم میں
آشکار ہوتا جائے گا یعنی ہر شئے ایک علم کی حیثیت رکھتی ہے۔ علم کے علاوہ کائنات
کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس طرح ظاہر ایک علم ہے اسی طرح بان یا غیب بھی ایک علم ہے
جس کی بنیاد پر ظاہر کا وجود قائم ہے۔ اسی علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:
الٓمٓ۔ ذلک لکتب لاریب
فیہ ھدی للمتقین۔ الذین یومنون بالغیب
‘‘بیشک یہ کتاب ہدایت دیتی
ہے ان لوگوں کو جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں اور اس
طرح یقین رکھتے ہیں کہ غیب ان کے مشاہدے میں آ جاتا ہے۔’’
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو
دو رخوں پر تخلیق فرمایا ہے۔ تمام صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کا فرمان ہے کہ
غیب صرف اللہ کی ذات برحق ہے لیکن اس ذات برحق نے جتنا علم انسان کو عطا کر دیا وہ
انسان کے اوپر اللہ کا انعام و اکرام اور انسان کے لئے اول سعادت ہے۔ روحانی نقطہ
نظر سے غیب وہ علم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مخصوص فرما لیا ہے جو کسی کو
حاصل نہیں ہے اور جو علم اللہ تعالیٰ نے بندوں پر آشکار کر دیا ہے اور اپنے بندوں
کی روح میں انڈیل دیا ہے وہ اس غیب کے دائرے میں آتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ ظاہر
کرنا پسند فرماتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں اللہ تعالیٰ نے ایک بندے
کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر سفر کی صعوبتیں اور
تکالیف برداشت کر کے جب اس بندے تک پہنچے تو اللہ نے فرمایا:
‘‘موسیٰ علیہ السلام نے ہمارے
بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جس کو ہم نے اپنی رحمت خاص سے ایک علم عطا کیا اور
ہم نے اسے علم لدنی سکھایا۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام
جلیل القدر پیغمبر اور صاحب کتاب نبی ہیں۔ ظاہر ہے کتاب کا نازل ہونا غیب سے باہر
نہیں ہے اس لئے کہ ذات حق غیب ہیں۔ جلیل القدر پیغمبر کی بظاہر ایک عام انسان سے
ملاقات ہوئی اور پھر جو واقعات پیش آئے مثلاً کشتی میں سوراخ کرنا، بچے کا قتل کر
دینا، گرتی ہوئی دیوار کا بنا دینا، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اس بندے کے درمیان
یہ معاہدہ ہونا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بندے کی کسی بات پر نہیں بولیں گے۔
پھر اپنی بات پر قائم نہ رہنا اور اس بندے سے الگ ہو جانا اور اس بندے کا یہ بتانا
کہ ان واقعات میں اللہ کی کیا حکمت ہے۔ یہ ثابت کر رہا ہے کہ علم غیب کو اللہ نے
بندے پر منکشف کر دیا ہے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی