Topics
جس طرح ساری مخلوق میں
انسان بہترین مخلوق ہے اسی طرح علم حاصل کرنے والا انسان نوع انسانی میں بہترین
ہے۔ طریقت، ایمان، معرفت اور رضائے الٰہی کے حصول میں کسی بھی طرح علم کی افادیت
سے انکار ممکن نہیں۔ ہر مرحلے میں علم بنیادی ضرورت ہے۔ راہ سلوک میں توحیدی عقیدہ
کے ساتھ عبادات کو صحیح طریقے پر پورا کرنا اور معاملات درست رکھنا، احوال قلب،
حسن اخلاق اور تزکیہ نفس ہونا ضروری ہے۔ قرآنی آیات اور احادیث سے علم کی قدر و
منزلت اور عزت و شان کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے۔
۱) کیا جاننے والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں۔
(پارہ ۳۲۔ زمر۹)
۲) اللہ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجے بہت بلند
فرمائے گا۔
۳) اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔
رسول اللہﷺ نے علم کی
فضیلت میں فرمایا:
‘‘جو شخص علم کی تلاش میں
سفر اختیار کرے اللہ اس کے لئے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔ بے شک فرشتے طالب علم
کی عظمت میں اس پر اپنے پر جھکا دیتے ہیں اور بے شک علم سیکھنے والوں کے لئے زمین
اور آسمان کی مخلوق اور پانی کی مچھلیاں مغفرت طلب کرتی ہیں۔’’
بے شک علمائے حق انبیاء
کے ورثاء نے درہم و دینار کی بجائے علم چھوڑا ہے جس نے علم سیکھا اس نے بڑا حصہ
پایا۔ انسان کی شخصیت بنانے اور سنوارنے میں صحبت کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ایک ساتھی
دوسرے ساتھی کے اوصاف سے عملی اور روحانی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ہم
نشینی کے لئے غیب میں اہل ایمان، اہل استقامت اور عارف باللہ لوگوں کو پسند کرتا
ہے تو بہت جلد ان جیسا ہو جاتا ہے، اور ان پاکیزہ نفس حضرات کی راہنمائی میں اللہ
کی معرفت حاصل کر لیتا ہے۔ عیوب اور برے اخلاق سے چھٹکارہ پا لیتا ہے۔ صحابہ کرامؓ
کو اعلیٰ مقام نبی اکرمﷺ کی صحبت و مجالس کے سبب حاصل ہوا ورنہ اس سے قبل وہ جہالت
کے اندھیروں میں تھے اور تابعین نے اس عزم شرف کو صحابہ کرامؓ کی صحبت سے حاصل
کیا۔
رسول اللہﷺ کے وارث علماء
باطن اولیاء اللہ سے قرب اصلاح نفس کا ذریعہ ہے۔ ان کی صحبت میں وقت گزارنے سے
‘‘یومنون بالغیب’’ کی عملی تشریح سامنے آ جاتی ہے۔ جو بات کتابیں پڑھنے سے سمجھ
میں نہیں آتی وہ ان کی مجالس میں حاضر ہونے سے سمجھ آ جاتی ہے۔ انسان کی ظاہری اور
باطنی اغراض، غرور، حسد، کینہ، انانیت، خود پسندی، تکبر اور بخل کا اولیاء اللہ کی
قربت دعا اور توجہ سے شافی علاج ہوتا ہے۔
حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے
کہ ‘‘مومن’ مومن کیلئے آئینہ ہے۔’’ مومن صادق وہ ہے جس کی ذات روشن اور منور ہے۔
وہ اپنے مرشد کا وراث ہوتا ہے اور وراثت کا یہ سلسلہ حضور اکرمﷺ کے ساتھ متصل ہے
اور یہی وہ آئینہ فیض ہے جسے اللہ نے انسانوں کے لئے اعلیٰ مثال اور کامل نمونہ
قرار دیا ہے۔
‘‘اے مسلمانو! بیشک تمہارے
لئے رسول اللہﷺ کی پیروی بہترین نمونہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور قیامت کے
دن کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرتے ہیں۔’’
(پارہ ۱۲۔ احزاب ۱۲)
رسول اللہﷺ کے وارث
اولیاء اللہ کی قربت ہی وہ عملی طریقہ ہے جس سے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ نفس اخلاق
سے مزین ہو جاتا ہے اور انسان اپنی روح کا درجہ بدرجہ عرفان حاصل کر کے اللہ
تعالیٰ کے مقصد تخلیق کی تکمیل کرتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ
علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ نیز آپ نے فرمایا کہ عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے
جس طرح میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر۔ نیز آپﷺ نے فرمایا کہ لوگ دو قسموں
پر منقسم ہیں۔ ایک عالم اور دوسرا متعلم اور باقی بیکار اور ناقابل اعتبار ہیں۔
کہا گیا ہے کہ علم، روح سے اور عمل اس کا جسد ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ علم اصل ہے
اور عمل اس کی فرع ہے۔ علم پکار پکار کر عمل کی جانب توجہ دلاتا ہے اور اگر اس کی
بات کو نہ سنا جائے تو وہ رخصت ہو جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگر تم کسی شخص کے علوم
کے محتاج ہو تو اس کے عیوب پر نظر نہ ڈالو ورنہ اس کے علوم سے فائدہ اٹھانے کی
برکت سے محروم رہو گے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی