Topics
سوال: علم الاسماء کیا ہے؟ اور یہ اللہ
تعالیٰ نے صرف آدمؑ ہی کو کیوں عطا فرمایا؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: وہ لوگ جن کے اندر اللہ تعالیٰ کی
ذات کے ساتھ وابستگی قائم ہے اور جو زندگی کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ
منسلک سمجھتے ہیں اور ان کے اندر یہ طرز فکر راسخ ہو جاتی ہے کہ ہر کام، ہر بات،
ہر عمل، ہر چیز، موت، پیدائش، وسائل، بیماری، صحت، رزق سب کچھ دردبست اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
جب یہ طرز فکر کسی بندے کے اندر پوری طرح قائم ہو جاتی ہے تو روحانیت میں ایسے
بندے کا نام مستغنی ہے۔ استغناء کے بارے میں کافی حد تک نہیں تو اتنی تشریح ضرور
ہو گئی ہے کہ بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جائے۔ جب کوئی بندہ مستغنی ہو جاتا ہے
تو اس کے اندر ایسی طرز فکر قائم ہو جاتی ہے کہ وہ اختیاری اور غیر اختیاری طور پر
زندگی میں پیش آنے والے ہر عمل کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر دیتا ہے۔ زندگی میں کسی
عمل سے اگر اسے راحت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر زندگی میں
اسے کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس تکلیف میں بھی کوئی نہ کوئی اچھی مصلحت تلاش کر لیتا
ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اس کے ذہن کی افتاد یہ ہو جاتی ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لمحہ
اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ رہتا ہے۔ اس عمل کے بعد انسان کے اوپر ایک راز منکشف
ہوتا ہے اور وہ راز یہ ہے کہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ میں ایک ہستی کے ساتھ بندھا
ہوا ہوں یا یہ کہ کوئی ہستی ہے جو میری زندگی پر محیط ہے۔ بار بار جب یہ احساس
ابھرتا ہے تو یہ احساس ایک مظاہراتی شکل اختیار کر لیتا ہے اور وہ یہ دیکھنے لگتا
ہے کہ روشنی کا ایک دائرہ ہے اور میں اس دائرے میں بند ہوں۔ اسی دائرے کے بارے میں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اللّٰهُ
بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطً۔
“اللہ تعالیٰ ہر شے پر محیط ہے۔”یہ احاطہ یا یہ دائرہ ایک نور ہے۔ اس نورانی دائرے میں بشمول انسان ساری
کائنات بند ہے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا
ہے۔
’’اللہ سماوات اور ارض کا نور ہے۔‘‘ یعنی
سماوات اور ارض کی بساط جس چیز پر قائم ہے وہ ایک نور ہے جو ہر لمحہ اور ہر آن
کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ کئے ہوئے ہے۔ مستغنی آدمی کی نظر
جب اس دائرے یا نور کے ہالے پر ٹھہرتی ہے تو اس کی نظروں کے سامنے وہ فارمولے آ
جاتے ہیں جن فارمولوں سے تخلیق عمل میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اللہ
سماوات اور ارض کا نور ہے اور اس نور کی مثال یہ ہے کہ ایک طاق ہے اس میں چراغ ہے،
چراغ ایک قندیل میں ہے اور وہ قندیل ایک چمکدار ستارہ کی طرح ہے، چراغ زیتون سے
روشن ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، اور اگر اس کو آگ نہ چھوے تب بھی ایسا لگتا ہے
کہ ابھی بھڑک اٹھے گا۔ نور کے اوپر نور ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت بخشتے ہیں
جس کو چاہیں۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں انسانی تخلیق کے بنیادی
فارمولے کا تذکرہ ہے۔ پہلا فارمولا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذہن میں یہ بات موجود
ہے کہ مجھے کائنات بنانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بنانے کا ارادہ کیا اور
کن فرماکر تخلیق کر دیا۔ اب جو چیز کائنات کے اندر جو کچھ موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ
کی ذات اقدس کے ذہن سے منتقل ہو کر لوح محفوظ پر آ گیا۔ لوح محفوظ پر پوری کائنات
کا یکجائی پروگرام نقش ہو گیا۔ یکجائی پروگرام میں جب حرکت واقع ہوئی تو نوعی
پروگرام الگ الگ ہو گیا، نوعی پروگرام میں جب حرکت واقع ہوئی تو انفرادی پروگرام الگ
الگ ہو گیا۔ اس بات کو آسان زبان میں اس طرح کہا جائے گا کہ کائنات کے ایک ممتاز
فرد انسان کی ابتدائی تخلیق نور سے ہوئی۔ نور نے جب تنزل کیا تو انسان کے اوپر
روشنی کا ایک غلاف چڑھ گیا۔ روشنی نے جب تنزل کیا تو انسان کے اوپر بے شمار رنگوں
کے پرت آ گئے۔ ہر رنگ کا ہر پرت ایک طرف رنگ ہے اور دوسری طرف روشنی ہے یہ روشنی
جس بنیاد پر قائم ہے وہ نور اور نور کی بنیاد اللہ تعالیٰ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا
کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی تخلیقی صفات بھی منتقل ہوئیں۔ بات
بالکل الگ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تخلیقی صفات کا علم کس کو کتنا دیا۔ کائنات کے
کل پرزے فرشتے بھی اس تخلیق کا علم جانتے ہیں اس تخلیقی علم سے جنات بھی واقف ہیں
لیکن حضرت انسان کو اس علم پر ایسی دسترس حاصل ہے جو کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں
ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا ہے :’’میں زمین میں
اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘ فرشتوں نے کہا کہ یہ خون خرابا کرے گا اور زمین پر
فساد کا باعث ہو گا اور اگر آپ اس کو اپنی تسبیح و تقدیس کے لئے تخلیق کر رہے ہیں
تو تسبیح و تقدیس تو ہم بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم جو جانتے ہیں وہ
تم نہیں جانتے اور پھر آدم کو علم الاسماء سکھا دیا۔ علم الاسماء سے مراد یہ ہرگز
نہیں ہے کہ آدم کو یہ سکھا دیا گیا کہ یہ بلی ہے، یہ بکری ہے، یہ بھیڑ ہے، یہ درخت
ہے یا انگریزی میں بھیڑ کو یہ کہتے ہیں، ہندی میں یہ کہتے ہیں۔
علم الاسماء سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے اپنی ان صفات کا علم سکھا دیا جو صفات تخلیق میں عمل پیرا ہیں یا جن صفات الہیہ
سے تخلیق وجود میں آئی، قائم ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے قائم رہے گی۔ یہی
وہ علم تخلیق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت قرار دیا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ
اپنی امانت کا تذکرہ فرماتے ہیں وہاں ہمیں قرآن اس بات کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے
کہ انسان کی طرح کائنات میں موجود دوسری مخلوق بھی باشعور ہے اور عقل رکھتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے اپنی امانت پیش کی سماوات پر، زمین پر، پہاڑوں پر،
انہوں نے عرض کیا۔ یا اللہ! ہم اتنے بڑے علم کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اگر ہم نے
اس بار کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور ہمارا وجود
صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔‘‘
غور طلب بات یہ ہے کہ جب آدم نے یا انسان
نے اللہ تعالیٰ کی اس امانت کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
کہ یہ ظالم اور جاہل ہے۔ سماوات اور ارض کے بارے میں ظالم اور جاہل کا لفظ نہیں
فرماتے جبکہ سماوات اور ارض کے یہ عرض کر دینے سے کہ ہم اس کے متحمل نہیں ہیں یہ
ثابت ہو جاتا ہے کہ زمین کے ذرے ذرے میں اور آسمان کی ہر مخلوق میں عقل و شعور
موجود ہے۔ یہ بات کہ انسان بحیثیت اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا امین اللہ
تعالیٰ کی تخلیقی صفات کا عالم ہے اور پھر بھی وہ ظالم اور جاہل ہے۔ اس طرف اشارہ
ہے کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنا وہ علم عطا کیا جو بحیثیت خالق
کے اللہ کا اپنا مخصوص علم ہے پھر بھی انسان اللہ تعالیٰ کی صفات سے دور ہے۔ اللہ
تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ کائنات خوشگوار ماحول میں مسلسل متحرک رہے، قائم رہے اور
انسان کی تمام تر کوشش اس بات پر صرف ہو جاتی ہے کہ کائنات کا قیام جتنا زیادہ
مختصر ہو سکے، مختصر ہو جائے حالانکہ کہتا وہ یہ کہ جو کچھ کرتا ہوں وہ طویل زندگی
کے لئے کرتا ہوں۔
یہ صورت حال ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے اپنے بعد اگر کسی تخلیق کو یہ اختیار دیا ہے کہ ذیلی تخلیق کر سکتی ہے تو وہ
انسان ہے لیکن اگر کسی انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستگی نہ ہو۔ باالفاظ
دیگر اس کے اندر استغناء موجود نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ تخلیقی
صلاحیتیں پس پردہ چلی جاتی ہیں اور انسان زمین کی دوسری مخلوق سے بھی کم تر شمار
ہوتا ہے اس لئے کہ دوسری تمام مخلوقات نے اس بات کا اعلان کر کے ہمارے اندر یہ بار
امانت اٹھانے کی سکت نہیں ہے خود کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے اور باوجود اس کے کہ
انسان اللہ تعالیٰ کے علوم کا خزانہ ہے، اللہ تعالیٰ کے تخلیق علوم کا امین ہے وہ
ہر کام ایسا کرتا ہے جس سے نوع انسانی کو راحت و سکون نہ پہنچے اور نوع انسانی
اضطراب اور تکلیف میں مبتلا رہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نوع انسانی کے افراد کے
اندر اللہ تعالیٰ کے اوپر توکل، بھروسہ اور استغناء نہیں ہے۔ نوع انسانی کے افراد
اپنی ذاتی اغراض اپنے سامنے رکھتے ہیں۔
بحیثیت انسان جب ہم عقل و شعور سے کام
لیتے ہیں تو یہ بات ہمارے اوپر پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں یا کائنات
میں جو کچھ موجود ہے دراصل اس کی حیثیت علم کی ہے۔ اگر کسی چیز کے بارے میں ہماری
عقل یا ہمارا شعور علمی طور پر باخبر ہے تو ہم اس چیز سے براہ راست یا بالواسطہ
متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ علم کی دو حیثیتیں ہیں۔
ایک علم یہ ہے کہ شعور اس سے واقف ہو اور
واقفیت کے ساتھ ساتھ وہ چیز وجودی اعتبار سے آنکھوں کے سامنے بھی ہو۔ دوسری حیثیت
علم کی یہ ہے کہ وجودی اعتبار سے ظاہرہ آنکھ کے سامنے وہ چیز موجود نہ ہو لیکن نوع
انسانی کا شعور انفرادی شعور میں منتقل ہو گیا ہو۔ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی
بھی صورت ہو انسان علم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ
کائنات میں موجود ہر شئے اس علم کی بنیاد پر ایک دوسرے سے متعارف ہے۔ تعارف میں
کہیں راحت سرور اور مسرت کے خاکے نمایاں ہوتے ہیں اور کہیں پریشانی، بے قراری اور
اضمحلال موجود ہوتا ہے۔ غم اور خوشی کا جہاں تک تعلق ہے۔ اس کی بنیاد بھی علم کے
اوپر ہے۔ علم جب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس چیز کے نہ ہونے سے ہمارا نقصان ہے تو
ہمارے اوپر تکلیف کی کیفیات مرتب ہوتی ہیں۔ علم جب ہمیں بتاتا ہے کہ یہ کام یا یہ
عمل یا یہ چیز ہمارے فائدے کے لئے ہے تو اس علم کے نتیجے میں ہمارے اوپر جو کیفیات
مرتب ہوتی ہیں ان کا نام ہم خوشی، مسرت، سکون، اطمینان قلب وغیرہ وغیرہ رکھتے ہیں۔
یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ آگ ایک ایسی
مخلوق ہے کہ جو ہمیں راحت بھی پہنچاتی ہے اور نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ چونکہ علم
میں مثبت اور منفی دونوں رخ موجود ہیں اس لئے آگ سے ہم منفی اور مثبت دونوں قدروں
میں متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ پانی سے ہمارے اندر موجود رگوں، پٹھوں
اور اعصاب کی سیرابی ہوتی ہے ساتھ ہی یہ بات بھی ہمارے علم میں موجود ہے کہ اگر
پانی اعتدال سے زیادہ ہو جائے تو یہ زمین اور نوع انسانی کے لئے بربادی کا باعث بن
جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی سے مثبت اور منفی پہلوؤں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں
رہتے۔ علیٰ ہذالقیاس اس قسم کی مثالیں بے شمار ہیں۔ مختصراً عرض یہ کرنا ہے کہ
زندگی کے اندر کام کرنے والے تمام جذبات و احساسات میں اسی قسم کی وسعت پیدا ہوتی
چلی جاتی ہے۔ علم کی حیثیت اگر منفی ہے تو دانستہ اور نادانستہ اس سے ایسے کام
سرزد ہوجاتے ہیں جن کے نتیجے میں نہ صرف یہ ہے کہ وہ پریشان ہوتا ہے اس کی نوع بھی
تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ علم کی حیثیت اگر مثبت ہے تو اس سے دانستہ یا
نادانستہ ایسے اعمال، ایسی حرکات کا صدور ہوتا ہے جن سے وہ خود بھی راحت محسوس
کرتا ہے اور نوع انسانی بھی اس کے پرمسرت جذبات سے فائدہ حاصل کرتی ہے۔ دوسری صورت
جو جذبات و احساسات کی تخلیقی حیثیت ہے وہ یہ ہے کہ انسان علم کے معانی پہناتا ہے
جس قسم کے وہ علم کے اندر معانی اور مفہوم داخل کر دیتا ہے اسی قسم کے تاثرات اس
کے اوپر قائم ہو جاتے ہیں اس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
ہمارا علم ہمیں بتاتا ہے کہ رزق حلال
انسان کو سکون اور راحت پہنچاتا ہے۔ دوسری صورت میں ہمارا علم یہ بتاتا ہے کہ رزق
حرام انسان کے سکون اور راحت کے لئے ایک بہت بڑی دیوار ہے جو انسان کو سکون کے
اندر داخل نہیں ہونے دیتی لیکن جب ہم رزق اور رزق حرام کے بارے میں سوچتے ہیں تو
یہی بات سامنے آتی ہے کہ رزق حرام بھی کھایا جاتا ہے اور رزق حلال بھی کھایا جاتا
ہے۔
رزق حرام سے بھی آدمی آٹا خرید کر روٹی پکاتا
ہے پیٹ بھرتا ہے اور رزق حلال سے بھی آدمی آٹا خرید کر روٹی پکاتا ہے پیٹ بھرتا
ہے۔ کھانا کھانے کی بنیادی ضرورت ایک ہے یعنی بھوک کا تقاضا ایک علم ہے۔ جب تک علم
بھوک کے اندر محدود ہے اس کی حیثیت علم کی ہے کہ بھوک کس طرح رفع کی جائے۔ یہ علم
کے اندر معانی پہنانا ہے اب اگر معانی منفی پہنا دیئے گئے تو باوجود اس کے کہ بھوک
کو رفع کرنے کے لئے ہی سارے کام کئے جا رہے ہیں اور آدمی اسی طرح اہتمام سے
دسترخوان بچھا کر کھانا کھا رہا ہے اس روٹی سے خون بھی بن رہا ہے، اس روٹی سے
انرجی بھی حاصل ہو رہی ہے، اس روٹی میں غذائیت کی وجہ سے قدوقامت بھی بڑھ رہا ہے۔
اس غذائیت اور روٹی کے اعتبار سے تجربات اور احساسات میں بھی روشنی کا پہلو نمایاں
ہو رہا ہے یعنی عقل و شعور میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن چونکہ یہ معانی پہنا دیئے گئے
ہیں کہ یہ روٹی حلال ہے اور حلال نہ ہونے کے علم میں یہ معانی پہنا دیئے گئے کہ اس
سے سکون درہم برہم ہو جائے گا۔ اس لئے اب جب آدمی حرام روٹی کا لقمہ کھائے گا تو
اس کے اندر بے سکونی، پریشانی، بدحالی، ذہنی کشاکش، دماغی کشمکش کا پیٹرن بنا دیا
جائے گا۔ جب یہ دماغ کے اندر بننے والا پیٹرن مستحکم اور مضبوط ہو جاتا ہے تو اب علم
میں جب بھی معانی پہنائے جائیں گے وہ بے سکونی، بے اطمینانی اور پریشانی کے ہونگے۔
اس کے برعکس ہم علم میں مثبت پہلو داخل کرتے ہیں یعنی علم کے اندر جو معانی اور
مفہوم پہناتے ہیں وہ معانی اور مفہوم سکون آشنا زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سکون
آشنا زندگی کا پیٹرن جب دماغ میں مستحکم ہو جاتا ہے تو دماغ کے اندر وہ خلیے جو
علم کے اندر مفہوم اور معانی پہناتے ہیں ہمیشہ سکون اور راحت کے معانی پہنائیں گے۔
سکون اور راحت کی زندگی میں یہ تلاش کرنا ضروری ہے کہ فی الواقع سکون کیا ہے اور
اضطراب کیا ہے؟ یہ بات ہم ابھی بتا چکے ہیں کہ اضطراب ہو یا سکون ہو، پریشانی ہو
یا خوشحالی، غم ہو یا خوشی اس کا تعلق علم کے اندر معانی پہنانے سے ہے اب یہ تلاش
کرنا ہے کہ کون سی ایسی مخلوق ہے سکون آشنا زندگی گزارتی ہے اور جس کے اوپر خوف
اور غم کے سائے اگر منڈلاتے ہیں تو وہ کم سے کم ہوتے ہیں مخلوق کو تلاش کرنے میں
ہمیں کہیں باہر جانا نہیں پڑتا۔ اس زمین پر ہمیں ایسی مخلوق ملتی ہے جو انسانی
زندگی کے اعتبار سے زیادہ پر سکون ہے، زیادہ خوشحال ہے، زیادہ صحت مند ہے، زیادہ
بے فکر ہے جبکہ اس کی تمام ضروریات وہی ہیں جو انسان کی ضروریات ہیں مثلاً کھانا
کھانا اور دوسرے تمام تقاضے جو زندگی میں جب تک داخل نہ ہوں زندگی پوری نہیں ہوتی۔
یہ مخلوق درخت ہیں، پرندے ہیں، چرندے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس نوع کی زندگی میں سکون
کا بڑا واسطہ اور سکون کا بڑا ذریعہ یہ ہے کہ یہ تمام مخلوق جبلت کے اندر رہتے
ہوئے زندگی پوری کرتی ہے۔ یا اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے
علاوہ دوسری نوعیں علم کو صرف ا س حد تک جانتی ہیں جس حد تک علم از خود اپنے معانی
اور مفہوم ان کے دماغ پر ظاہر کرتا ہے۔ ان تمام نوعوں کے برعکس انسان کی ممتاز
حیثیت یا انسان کی اسفل ترین حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے علم میں
معانی پہنا سکتا ہے اور علم میں مثبت یا منفی معانی پہنانے کا اختیار اللہ تعالیٰ
نے اس کو بخش دیا ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
ہے۔ ’’ہم نے اپنی امانت سماوات، پہاڑ اور ارض پر پیش کی، سب نے انکار کر دیا اور
انسان نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا ہے بیشک یہ ظالم اور جاہل ہے۔‘‘ظلم اور جہالت
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے علم کے اندر معانی پہنانے کا نہ صرف یہ
کہ اختیار دیا بلکہ معانی پہنانے کی مشین اس کے اندر فٹ کر دی اور یہ بھی بتا دیا
کہ علم کے اندر معانی اور مفہوم اگر مثبت ہوں گے تو آدمی پر سکون زندگی گزارے گا
اور علم کے اندر معانی اگر منفی ہونگے تو آدمی ایسی زندگی گزارے گا۔ جو کتے،
بلیوں، بھینس، گائے، درخت سے بھی بدتر ہو گی۔ اس وقت جو صورت حال ہے وہ ہم سب کے
سامنے ہے آدمی کے اوپر جس قدر پریشانیاں، خوف، عدم تحفظ کا احساس، نئی نئی
بیماریوں، نئی نئی پریشانیوں، نئی نئی تکالیف کے انبار، موت کا خوف جتنا اشرف
المخلوقات کو ہے اتنا بھیڑ بکری کو بھی نہیں ہے۔ حالانکہ ضروریات زندگی میں جتنے
تقاضے ضروری ہیں۔ وہ بکری بھی پوری کرتی ہے اور آدمی بھی پورے کرتا ہے یہ بات بھی
ذہن نشین ہونی چاہئے کہ سکون آدمی کو وہاں ملتا ہے جہاں سکون موجود ہو۔ راحت آدمی
کو وہاں ملتی ہے جہاں راحت کے وسائل موجود ہوں۔ روشنی آدمی کو وہاں ملتی ہے جہاں
روشنی ہو، خوشبو آدمی کو وہاں ملتی ہے جہاں خوشبو موجود ہو۔ بدبو اور تعفن میں
کوئی بندہ اگر خوشبو تلاش کرتا ہے تو یہ نادانی ہے کچھ اور نہیں۔ کائنات پر نظر
ڈالئے زمین کے طبقات کو کھنگالئے آسمان کی رفعتوں کو چھویئے، فرشتوں کی مجلسوں میں
بیٹھئے، جنت کی مزین صورتوں اور خوبصورت باغات اور نہروں کا مشاہدہ کیجئے، دوزخ کا
مشاہدہ کیجئے۔ کہیں بھی چلے جایئے پر سکون ہستی اگر کوئی ہے تو وہ ایک ہی ذات ہے
اور وہ ذات وہ ہے جو ہر اعتبار سے قادر مطلق ہے اور وہ خالق ہے، اللہ ہے، رب ہے،
معبود ہے۔ جب کوئی بندہ اللہ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے تو اس کے دماغ میں
ایک ایسا پیٹرن بن جاتا ہے کہ اس دماغ کے اندر مخلوق سے احتیاج ٹوٹ جاتی ہے اور وہ
دروبست اللہ کو اپنا حاکم اپنا خالق اپنی خواہشات پوری کرنے والا۔ اپنی ضروریات
زندگی پوری کرنے والا سمجھنے لگتا ہے نتیجے میں اللہ کی ذات کا سکون انسانی دماغ
پر منعکس ہونے لگتا ہے اور پھر انسان سکون آشنا زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی سے
متاثر نہیں ہوتا۔ یہی تعریف ہے ان لوگوں کی جن کو اللہ تعالیٰ نے مستغنی کہا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔