Topics

طرز فکر


سوال: انسان کسی بھی ڈھنگ سے زندگی گزارے اس کے پیچھے ایک سوچ، ایک طرز فکر کارفرما ہوتی ہے۔ کیا روحانیت ہمیں کوئی ایسی کسوٹی فراہم کرتی ہے جس پر پرکھا جا سکے کہ کون سی طرز فکر درست ہے؟

جواب: معاشرے کو سامنے رکھ کر تفکر کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ معاشرے میں موجود زندگی گزارنے اور زندگی میں سوچ بچار کی طرزیں ایک ہی طرح کام کرتی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ آدمی کی سوچ بچار اور مخصوص طرز فکر کی بنیاد پر الگ الگ گروہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ کی طرز فکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس گروہ پر اتنا ہی فضل ہو جائے وہ ناشکرا ضرور ہوتا ہے۔ ایک گروہ کی عادت یہ ہے کہ وہ فیاض ہے، سخی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے گروہ کی جبلت یہ بن گئی ہے کہ وہ بخیل ہے، کنجوس ہے اور اس کے دل میں دولت کی محبت اس حد تک جاگزیں ہے کہ اس کے اوپر دولت کی پرستش کا گمان ہوتا ہے۔ ایک گروہ ایسا ہے کہ اسے اس بات میں خوشی ہوتی ہے کہ وقت ضائع کیا جائے، ایک گروہ وعظ و نصیحت سننے کا شوقین ہے، دوسرا گروہ سیاسی تقاریر سننے کا خواہش مند رہتا ہے۔ کچھ لوگوں کو ناچنے گانے کا شوق ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کو پینے پلانے کا اور ان لوگوں کے برعکس ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو خوش عقیدہ ہیں اور اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دینے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔

مختصر یہ کہ زمین پر موجود نوع انسانی مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ننانوے فی صد گروہوں کی زندگی اور ان کی طرز فکر کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ ننانوے فیصد گروہ شک اور وسوسوں میں مبتلا ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ شک اور وسوسہ کی زندگی سے آدمی کے اوپر غم، خوف اور پریشانی مسلط ہو جاتی ہے۔

روحانیت ہمیں صحیح طرز فکر کی جو کسوٹی فراہم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اندر غم اور خوف موجود نہ ہو۔ دنیا کی چار ارب آبادی اپنا محاسبہ کر سکتی ہے۔ ننانوے فیصد افراد ایسے ملیں گے جن کی ساری زندگی خوف اور غم میں گزر گئی ہے۔

تخلیقی فارمولوں کے سلسلے میں ہم یہ بتا چکے ہیں کہ کوئی تخلیق دو رخ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اس تخلیقی قانون کے تحت جس بندے کے اندر شک اور وسوسہ موجود ہے اس بندے کے اندر یقین بھی موجود ہے۔ جب کوئی بندہ یقین کی طاقت حاصل کر لیتا ہے تو شک اور وسوسہ والا رخ مغلوب ہو جاتا ہے اور جب کسی بندے پر شک اور وسوسے کا رخ غالب ہو جاتا ہے تو یقین کا رخ مغلوب ہو جاتا ہے۔ بے یقینی کا دوسرا نام شک ہے، شک شیطنت ہے اور شیطنت غم اور خوف ہے۔

انبیاء علیہم السلام کے بتائے ہوئے قاعدوں اور ضابطوں پر اگر عمل کیا جائے تو شک اور وسوسے کا رخ مغلوب ہو جاتا ہے اور یقین کا رخ غالب آ جاتا ہے۔ روحانی طرز فکر یہی ہے کہ روحانی علوم سکھانے والا استاد ، شیخ یا مرشد قدم قدم چلا کر اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ شک اور وسوسہ کا رخ مغلوب ہو جائے اور یقین کا رخ غالب آ جائے اور بندہ الا ان اولیاء اللّٰہ لاخوف علیہم ولا ھم یحزنونکی زندگہ تفسیر بن جائے۔ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق اللہ کے دوست ایسی طرز فکر میں زندگی گزارتے ہیں کہ ان کو نہ خوف ہوتا ہے، نہ غم۔


 


Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔