Topics
مرید کو یہ جاننا واجب ہے
کہ اس کے لئے کوئی مقام اور حال اور عبادت مفید نہیں ہو سکتی اگر وہ اخلاص کے ساتھ
نہ ہو۔
جب مرید کو یقین کی کیفیت
حاصل ہو جاتی ہے تو شیطان اس کے قریب نہیں آ سکتا۔ شیطان اس وقت تک قریب آتا ہے جب
شک اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ شیطان خون کی طرح انسان کی رگوں میں پھرتا
ہے لہٰذا جب وہ دیکھتا ہے کہ یقین چلا گیا تو وہ وسوسے ڈالنے شروع کر دیتا ہے حتیٰ
کہ اس کے ہاتھ سے نیکی نکل جاتی ہے۔ یقین کی مثال شہر کی مضبوط فصیل کی ہے چنانچہ
جب تک شہر کی فصیل موجود ہے دشمن کو اس کے اندر داخل ہونے کی امید نہیں ہوتی۔ لیکن
جب اس میں دراڑیں پڑ جائیں تو دشمن فوراً اندر آ جاتا ہے لہٰذا سالک کو چاہئے کہ
اپنی ذات کی فصیل کو مضبوط بنائے۔
اولیائے کرام جن کی ذات
عرفان الٰہی سے سرشار ہو کا کسی بھی مذہب پر پابند رہنا ضروری نہیں۔ ان کے نزدیک
تمام مجتہدین کے مذاہب ایک جیسے ہوتے ہیں اور وہ اپنی وسعت نظر کے باعث ان میں
کوئی فرق نہیں پاتے اس لئے کہ ان کی نظر میں وہ سرچشمہ ہوتا ہے جس سے تمام مجتہدین
نے فیض حاصل کیا لہٰذا کسی اہل حق کو ایک خاص مذہب کا مقید نہیں کیا جا سکتا
کیونکہ تمام مذاہب تو ان کے باطن میں پائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات مرید کے دل میں یہ
بات آ جاتی ہے کہ شیخ نے فلاں بات مذہب کے خلاف کی اگر ایسی بات ہو تو اس کا مطلب
یہ ہے کہ مرشد شریعت کو ٹھیک طریقے سے سمجھ نہیں سکا۔ مرید ایسی بات صرف کم علمی
اور جہالت کے باعث کرتا ہے ایسے شخص کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی جہالت کو دور
کرنے کی طرف توجہ دے اور اپنے باطل اعتقاد کو دور کرنے میں مشغول ہو۔
طالب اگر شیخ سے کچھ
سیکھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے شیخ پر واضح یقین اور پختہ اعتقاد
ہو۔ اس اعتقاد سے اسے اپنے اصل مقصد میں فائدہ حاصل ہو گا، اللہ کے حضور اسے
قبولیت حاصل ہو گی اور جو کچھ وہ شیخ کی خدمت انجام دے رہا ہے اس سے فائدہ پائے
گا۔ جو لوگ اولیائے کرام کے پاس جاتے ہیں، اولیاء ان کی نیتوں کے مطابق رنگ بدلتے
رہتے ہیں چنانچہ جس طالب کی نیت خلوص اور یقین پر قائم وہ وہ ولی کو عین کمال میں
دیکھے گا اور جس کی نیت شک اور وسوسوں پر قائم ہو گی اس کا حال اس کے برعکس ہو گا۔
درحقیقت ہر شخص کو وہی نظر آتا ہے جو اس کے اپنے باطن میں ہو۔ ولی کی مثال ایک
آئینہ کی ہے جس میں اچھی اور بری سب صورتیں دکھائی دیتی ہیں لہٰذا جس شخص کو ولی
کا کمال اور اللہ کی طرف رہنمائی دکھائی دے اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور
جسے کچھ اور دکھائی دے اسے اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جب ارادہ
فرماتے ہیں کہ فلاں لوگ بدبخت ہوں اور وہ ولی سے فائدہ حاصل نہ کر سکیں تو اللہ
تعالیٰ انہیں جس برائی اور مخالفت میں وہ پڑے ہوئے ہیں پختہ کر دیتا ہے لہٰذا وہ
سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ولی بھی انہی کی طرح کا آدمی ہے حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں
ہوتا یہاں تک کہ وہ ولی کے متعلق شک اور وسوسوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ولی اپنے پاس آنے والے
لوگوں کے ظاہر پر نہیں جاتا بلکہ وہ ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ ان لوگوں کا باطن
ولی کے لئے کھلی کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ولی کے نزدیک ان کا باطن کوئی حیثیت نہیں
رکھتا۔ اولیاء کرام کے پاس آنے والے چار طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ وہ
ہوتے ہیں جو ظاہر اور باطن میں ولی پر کامل اعتقاد رکھتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ خوش
بخت ہوتے ہیں دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کا ظاہر و باطن ولی پر تنقید کے لحاظ سے
ایک جیسا ہوتا ہے۔ تیسری قسم وہ ہے جو ظاہر میں تو معتقد ہوتے ہیں مگر باطن میں
معترض یہ لوگ ولی کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ جب ولی ان کے
ظاہر کو دیکھ کر انہیں فائدہ پہنچانا چاہتا ہے تو ان کا باطن انہیں اس بات سے روک
دیتا ہے اور اگر ان کے باطن کو دیکھ کر ان سے دور رہنا چاہے تو ظاہر ان کی طرف
راغب کرتا ہے۔ چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو باطن میں تو معتقد ہوتے ہیں مگر ظاہر
میں معترض۔ ان کا سبب محض حسد ہوتا ہے۔ ولی جس طرح ظاہر کو دیکھتا ہے اسی طرح باطن
کا حال بھی خوب جانتا ہے۔
ولی کامل ہر لمحہ مشاہدہ
حق میں مستغرق رہتا ہے مگر ان کا ظاہر مخلوقات کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے
ظاہر کو آنے والے کی قسمت کے مطابق ان کی طرف لگا دیتا ہے چنانچہ جس کی قسمت میں
رحمت لکھی ہو اللہ تعالیٰ ولی کے ظاہر کو اس کے لئے چھوڑ دیتا ہے اور اس کی زبان
سے علوم نکلنے لگتے ہیں اور اس سے وہ نیکیاں ظہور میں آتی ہیں جن کی کیفیت بیان
نہیں ہو سکتی اور جس کی قسمت میں اس کے ہاتھوں ملنا نہیں لکھا ہوتا تو خدا ولی کو
مصارف بیان کرنے سے روک لیتا ہے۔ ولی کی مثال آنے والوں کے لئے بنی اسرائیل کے
پتھر کی طرح ہے جب وہ پتھر اولیاء اللہ کے سامنے ہوا تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے
اور دشمنوں کے سامنے آیا تو اس سے ایک قطرہ بھی نہ نکلا۔ جو کوئی شخص ولی کو کوئی
ایسا کام کرتے دیکھے جس کام کے مرتکب ہونے کی وجہ اسے معلوم نہیں ہوتی تو وہ فوراً
ولی پر اعتراض کرنا شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس ولی کی برکت سے محروم رہ
جاتا ہے۔
اولیاء اللہ پر ہر وقت
غیب اور محویت کا عالم طاری ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر انہیں ہنسنے یا بیہودہ باتیں کرتے
دیکھے تو ان پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ اگر شیخ کی نسبت خواب میں کوئی غیر شرح
بات دیکھو تو بد اعتقاد نہ ہو جا ؤ کیونکہ اللہ اپنے دوستوں سے مختلف قسم کے
معاملات رکھتا ہے جس طرح دنیاوی دوست اپنے دوست کو سخت و نرم الفاظ کہتا ہے مگر
پھر اس کے برابر کسی اور سے تعلق نہیں رکھتا۔
جو لوگ اپنے مال و دولت
کے ذریعے سے خدا کی راہ حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں راہ نہیں ملتی۔ اولیاء اللہ،
اللہ کا نام نہیں بیچتے۔ ہاں اگر ذوق و شوق ہو طلب اور لگن سچی ہو تو بزرگ بھی
بندہ کی ذہنی سکت کے مطابق تعلیم ضرور کرتے ہیں۔ اگر طلب اور لگن نہ ہو اور بندہ
چاہے کہ دولت خرچ کرنے سے سب کچھ مل جائے تو ایسا کبھی نہیں ہو گا۔
کسی مقام میں ایک درخت
پیپل کا تھا اکثر لوگ اس کی پرستش کیا کرتے تھے ایک مرد متقی کو برا معلوم ہوا۔
رات کے وقت کلہاڑا لے کر کاٹنے کو چل پڑا۔ اس نے ایک دو ہاتھ مارے تھے کہ ایک
خوبصورت عورت نظر آئی اور کہا کہ تو یہ خیال چھوڑ دے اور ایک اشرفی روز لے لیا کر۔
وہ متقی دام طمع میں پھنس گیا اور ایک اشرفی گرہ میں باندھ کر وہاں سے چل دیا۔
دوسرے دن اشرفی لینے آیا تو وہاں کچھ نہ پایا پھر کلہاڑا سنبھالا اور کاٹنے کا
ارادہ کیا تو آواز آئی کہ خبردار تیری گردن توڑ دی جائے گی اگر پتہ بھی توڑا۔
پوچھا۔ کیوں؟ کہا کہ جب تو پہلے آیا تو تیری نیت خالصتاً اللہ تھی اور اب اشرفی کے
لالچ سے تو نے یہ ارادہ کیا ہے جا اپنی راہ لے۔
سالک راہ روکو کہتے ہیں
اور سلوک یہ ہے کہ جو کھچھ مقسوم میں ہے بزرگوں کی تعلیم و تلقین سے آہستہ آہستہ
حاصل ہو جاتا ہے جیسے راہ رو چلتا چلتا اپنی منزل مقصود کو پہنچتا ہے بعض طالب جو
اس امر کے خواہاں رہتے ہیں کہ دفعتاً مل جائے۔ یہ بات ہر شخص کے لئے نہیں ہو سکتی،
لاکھوں کروڑوں میں خدا نے کسی ایک کے لئے یہ بات مقرر کر دی تو ہوئی ورنہ سالک کا
یہی کام ہے کہ بزرگوں سے جو کچھ ان کو پہنچا ہے طالب کو بتلا دیا خدا کو جب کسی پر
رحمت منظور ہوتی ہے تو جس طور سے چاہتا ہے کر دیتا ہے چنانچہ ایک شخص تھا اس کے
خیال میں یہ سمائی کہ ایسے پیر کا مرید ہوں گا جو ذات کا شریف، صورت کا اچھا، عالم
باعمل و صاحب کمال ہو اور جملہ اوصاف حمیدہ سے موصوف ہو پس ایسے شخص کا ملنا دشوار
تھا کافی مدت تک تلاش میں رہا جب کوئی نہ ملا تو ایک دن ناچار دل میں ٹھانی کہ آج
صبح کو جو راہ میں مل جائے اسی کو پیر بنانا چاہئے۔ اتفاقاً ایک چور ملا اس نے
ارادت ظاہر کی اس نے کہا بھائی میں تو نہ پیری سے واقف نہ مریدی سے آگاہ۔ جتنا اس
کو انکار تھا اتنا اس کو اصرار تھا غرض یہ بے پیر ایسا دامن گیر ہوا کہ چور غریب
کو پیچھا چھڑوانا مشکل ہو گیا۔ دیکھا کہ کسی طرح سے باز نہیں آتا تو کہا کہ فلاں
پہاڑ پر جا اور دو رکعت نماز کی نیت باندھ جب دوسری رکعت کے سجدہ کی نوبت آئے تو
جب تک تجھ کو الہام نہ ہو سر نہ اٹھانا اس نے ایسا ہی کیا آخر بحکم خداوندی خضر
علیہ السلام آئے اور کہا سر اٹھائے پوچھا۔ کون ہے جواب دیا کہ میں خضر ہوں اور
تیری تعلیم کے لئے آیا ہوں تو نے جس کو پیر بنایا وہ تو ایک چور تھا۔ طالب نے جواب
دیا کہ حضور پہلے تو آپ کبھی تشریف نہ لائے جب وہ چور پیر ملا تو آپ بھی ملے ہیں۔
آپ کا کہنا ہرگز نہ مانوں گا تب خضر کو جناب باری سے حکم ہوا کہ جا ؤ اول اس چور
کو تعلیم دو۔ خضر جا پہنچے اور اس کو سرکاری سبق پڑھا دیا۔
تب اس پیر کو خیال آیا کہ
ایک شخص ہمارا مرید تھا۔ دیکھیں اس کا کیا حال ہے آئے اور اس کو تعلیم دی۔ اگر
مرید میں خلوص نیت اور کامل یقین نہ ہوتا تو اس درجہ تک نہ پہنچتا۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی