Topics

حصول یا منتقلی

سوال: روحانیت کو ایک مخصوص طرز فکر کا حصول یا منتقلی کہہ کر بیان کیا گیا ہے، طرز فکر کی یہ منتقلی کیوں کر اور کس قانون کے تحت عمل میں آتی ہے؟ اس کو بیان فرما دیں۔

جواب: اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ ہر نوع میں بچے اس مخصوص نوع کے نقش و نگار پر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بلی آپ سے کتنی ہی مانوس ہو لیکن اس کی نسل بلی ہی ہوتی ہے۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ بکری سے گائے پیدا ہوتی ہو یا گائے سے کبوتر پیدا ہوتا ہو۔ کہنا یہ ہے کہ شکم مادر میں ایک طرف نوعی تصورات بچے کو منتقل ہوتے ہیں اور دوسری طرف ماں کے یا باپ کے تصورات بچے کو منتقل ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تصورات میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق مقداریں متعین ہیں۔

تیسویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ’’پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا۔ اور مقداروں کے ساتھ ہدایت بخشی۔‘‘ یہ مقداریں ہی کسی نوع کو الگ کرتی ہیں اور نوعوں میں افراد کو الگ کرتی ہیں۔

اس نقطہ نظر سے جب ہم سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بارے میں غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آ جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں یعنی حاصل کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت ابراہیمؑ سے حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیائے کرام کی معین مقداریں منتقل ہوئیں۔ یعنی تمام انبیاء کا وہ ذہن جس میں اللہ بستا ہے، حضورﷺ کو بطور ورثے کے منتقل ہوا۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ذہن مبارک بعثت سے پہلے ہی تمام انبیاءؑ کی منازل طے کر چکا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنا کرم فرمایا تو حضورﷺ کو وہ مقام عطا ہوا جو کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ بہت زیادہ غور طلب ہے کہ قرآن پاک میں جتنے انبیاءؑ کا تذکرہ ہے وہ تقریباً سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں۔ یعنی ایک نسل کی طرز فکر برابر منتقل ہوتی رہی۔

چونکہ نبوت ختم ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قانون جاری و ساری ہے قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق اللہ کی سنت میں نہ تعطل ہوتا ہے نہ تبدیلی ہواقع ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کو جاری و ساری رکھنے کا پروگرام حضورﷺ نے اپنے ورثاء کو منتقل کیا۔ جو اللہ کے دوست ہیں اور جن کو عرف عام میں اولیاء اللہ کہا جاتا ہے۔ شیخ یا مراد حضورﷺ کی ایسی طرز فکر کا وارث ہوتا ہے۔ جب کوئی بندہ یا مرید اپنے شیخ کی طرز فکر حاصل کرنا چاہے تو اس کے لئے سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ وہ شیخ کی نسبت حاصل کرے۔ شیخ کی نسبت حاصل کرنے میں پہلا سبق ’’تصور شیخ‘‘ ہے۔

جب مرید یا سالک آنکھیں بند کر کے ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اپنے شیخ کا تصور کرتا ہے تو اس کے اندر شیخ کی طرز فکر منتقل ہوتی ہے۔ طرز فکر دراصل روشنیوں کا وہ ذخیرہ ہے جو حوا س بناتی ہیں۔ شعور بناتی ہیں، زندگی کی ایک نہج بناتی ہیں۔ جب ہم اپنے ارادے کے تحت شیخ کا تصور کریں گے تو تصور میں گہرائی پیدا ہونے کے بعد شیخ کے اندر کام کرنے والی وہ روشنیاں جو اسے سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے منتقل ہوئی ہیں، ہمارے اندر منتقل ہو جائیں گی۔

ایسے بے شمار واقعات ہیں کہ جب کوئی مرید اپنے شیخ کے تصور میں گم ہو گیا تو اس کی چال ڈھال، گفتگو اور شکل و صورت میں ایسی نمایاں شباہت پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ پہچاننا مشکل نہیں رہتا کہ یہ اپنے شیخ کا عکس ہے۔ چونکہ شیخ کا تصور شیخ کے اندر کام کرنے والی طرز فکر کی منتقلی کا باعث بنتا ہے اس لئے اس تصور کی گہرائی کے ساتھ ساتھ حضورﷺ کی طرز فکر بھی منتقل ہوتی رہتی ہے اس لئے کہ شیخ حضورﷺ کی طرز فکر کا عکس ہے۔



Taujeehat

خواجہ شمس الدین عظیمی

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

اِنتساب

دل اللہ کا گھر ہے اس گھر میں‘ میں نے
عظیمی کہکشاں دیکھی ہے‘ اللہ کی معرفت اس
منور تحریر کو عظیم کہکشاؤں کے روشن چراغوں
کے سپرد کرتا ہوں تا کہ وہ اس نور سے اپنے
دلوں کو منّور کریں۔