Topics
سوال: آج دنیا میں مسلمان من حیث القوم
رسوائی اور ذلت سے دو چار ہیں۔ کیا اس صورت حال سے نکلنے کی کوئی صورت ہے؟ اگر ہے
تو کیا ہے؟
جواب: ساری زندگی ہم نے یہ سنا کہ قرآن
پاک میں غیر المغضوب علیہم
والالضالین کا مطلب یہودی ہیں۔ ہمارے اسلاف نے ہمیں
یہ بھی بتایا کہ یہودی کبھی برسر اقتدار نہیں آئیں گے۔مگر آج کی حالت عبرت ناک ہے۔
ایک طرف 30لاکھ یہودی ہیں اور دوسری طرف 90کروڑ مسلمان ہیں۔ بات وہی رہی کہ جو
قومیں اپنی حالت نہیں بدلنا چاہتیں اللہ تعالیٰ ان کی حالت میں تبدیلی پیدا نہیں
کرتے۔ ہم نے من حیث القوم اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین سے نظر ہٹا لی ہے اور
اپنے آپ کو صرف عذاب و ثواب کے چکر میں محدود کر لیا ہے۔ تخلیقی فارمولوں سے ہم
بالکل بے بہرہ ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے
زمین، آسمان اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب تمہارے تابع فرمان کر دیا ہے۔
تمہارے لئے سورج کو مسخر کر دیا ہے، تمہارے لئے چاند کو مسخر کر دیا ہے، تمہارے
لئے ستاروں کو مسخر کر دیا ہے اور ہم ہیں کہ ہم نے اس تسخیری عمل کو کبھی آنکھ
اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔‘‘ قرآن ہمارا ہے اور پاک واشگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ
لوہے میں انسانوں کے لئے بے شمار فائدے محفوظ ہیں۔
ظاہر ہے قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ یہ فائدے
جو اللہ تعالیٰ نے لوہے کے اندر محفوظ کر دیئے ہیں۔ انہیں تلاش کرو اور جب تم ان
فائدوں کو تلاش کر لو گے تو ان سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے گا اور اللہ کی
مخلوق میں تمہاری عزت و توقیر ہو گی۔ اللہ کا قانون اپنی جگہ برحق ہے۔ جن لوگوں نے
لوہے کی صلاحیتوں کو تلاش کیا وہ لوگ قومی اعتبار سے عزت دار ہو گئے اور ہم نے
قرآن پاک کی تعلیمات کو نظر انداز کیا، ہم ذلیل و خوار ہو گئے۔ کلمہ، نماز، روزہ،
حج، زکوٰۃ اپنی جگہ اہم ہیں، فرض ہیں، ضروری ہیں۔ اس لئے کہ ان ارکان کی ادائیگی
سے روح کو تقویت ملتی ہے، روحانی صلاحیتیں متحرک اور بیدار ہوتی ہیں لیکن یہاں
معاملہ بالکل الٹا ہے اور برعکس ہے کہ یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ روح کی صلاحیتیں من
حیث القوم یا انفرادی طور پر ہمارے اندر موجود بھی ہیں یا نہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ
ہے کہ ہمارے اندر تفکر موجود نہیں ہے ہم عمل تو کرتے ہیں، عمل کی حقیقت کی طرف
متوجہ نہیں ہوتے۔ جب کوئی بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم الیقین کی دولت سے نوازا
ہے۔ قرآن پاک میں تفکر کرتا ہے تو اس کے سامنے قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ آ
جاتی ہے اور وہ اس بات کا مشاہدہ کر لیتا ہے کہ قوموں کا عروج و زوال اس بات پر
منحصر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر جن قوموں نے تفکر کیا وہ سرفراز
ہوئیں اور جن قوموں نے تفکر کو نظر انداز کر دیا ہے وہ قومیں غلام بن گئیں۔ بڑی
ستم ظریفی ہے کہ ہم جب یہ دیکھتے ہیں کہ موجودہ سائنس کی ترقی میں وہ تمام فارمولے
کام کر رہے ہیں جو ہمارے اسلام نے چھوڑے ہیں اور جو فی الواقع ہمارا ورثہ ہیں لیکن
چونکہ ہم نے اس ورثہ کو کوئی اہمیت نہیں دی اس لئے دوسرے لوگوں نے اس سے فائدہ
اٹھا لیا اور ہم ایک پسماندہ قوم بن گئے۔
ترقی اور تنزل جب زیر بحث آتے ہیں تو ذہن
اس طرف بھی متوجہ ہوتا ہے کہ ترقی یا تنزل میں کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ پچھلے
اسباق میں ہم بتا چکے ہیں کہ انفرادی یا اجتماعی جدوجہد کے نتیجے میں ترقی نصیب
ہوتی ہے اور انفرادی یا اجتماعی تساہل اور عیش پسندی کے نتیجے میں قوموں کو عروج
کی بجائے زوال نصیب ہوتا ہے۔ ترقی کے بھی دو رخ ہیں۔ ترقی یا عزت و توقیر کی ایک
حالت یہ ہے کہ کسی فرد یا کسی قوم کو دنیاوی عزت اور دنیاوی دبدبہ اور دنیاوی شان
و شوکت نصیب ہے۔ لوگوں نے ترقی تو کی لیکن یہ ترقی استغناء کے خلاف ہوتی ہے۔ ترقی
کا دوسرا رخ جو فی الواقع حقیقی رخ ہے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شہود میں رہتے
ہوئے غیب کی دنیا میں جس فرد یا جس قوم کی رسائی ہوتی ہے۔ دراصل وہی اصل ترقی، عزت
اور شان و شوکت ہے۔ ان دو رخوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات پوری طرح ہمارے
سامنے آتی ہے کہ موجودہ دور میں سائنسی ترقی کا دارومدار صرف ظاہری ترقی پر ہے۔ بے
شک وہ قومیں جنہوں نے علوم میں تفکر کیا اور جدوجہد کے نتیجے میں نئی نئی اختراعات
کیں اور دنیاوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہی ترقی یافتہ
قومیں سکون اور اطمینان قلب سے محروم ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہی قومیں
حقیقت سے بے خبر ہیں یا حقیقی دنیا کا ان سے ابھی کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہے۔ اس
لئے کہ حقیقت میں ذہنی انتشار نہیں ہوتا۔ حقیقت کے اوپر کبھی خوف اور غم کے سائے
نہیں منڈلاتے۔ حقیقی دنیا سے متعارف لوگ ہمیشہ پر سکون رہتے ہیں موجودہ دور بے شک
ترقی کا دور ہے لیکن اس ترقی کے ساتھ ساتھ جس قدر صعوبتیں، پریشانیاں اور ذہنی
انتشار سے نوع انسانی دوچار ہوئی ہے وہ اس سے پہلے کے دور میں نہیں ملتی۔ وجہ صرف
یہ ہے کہ اس ترقی کے پیچھے ذاتی منفعت ہے وہ انفرادی ہو یا قومی ہو۔ اگر یہ ترقی
فی الواقع نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی تو قوموں کو اطمینان و سکون نصیب
ہوتا۔ انفرادی یا اجتماعی ذہن کے طرز فکر میں اگر یہ بات ہوتی کہ ہماری کوشش،
جدوجہد اور اختراعات سے نوع انسانی کو اور اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے تو یہ طرز
فکر انبیاء کی طرز فکر ہے اور یہ طرز فکر اللہ کی طرز فکر ہے۔ یہ طرز فکر آدمی کے
اندر استغناء سے پیدا ہوتی ہے۔ استغناء حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان کی
سوچ اور انسان کی طرز فکر اس طرز فکر سے ہم آہنگ ہو جو اللہ کی طرز فکر ہے۔ ہم جب
زمین کے اوپر موجودات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار
وسائل اپنی مخلوق کے لئے پیدا کئے ہیں لیکن ان وسائل میں سے کوئی ایک بھی ایسا
نہیں ہے جس کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی کسی ضرورت سے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز
سے بے نیاز ہیں باوجود یہ کہ ہر چیز سے بے نیاز ہیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت
نہیں، وہ اپنی مخلوق کے لئے ایک قانون کے تحت تسلسل کے ساتھ وسائل فراہم کرتے رہتے
ہیں۔ اگر کسی موسم میں آم کی ضرورت ہے تو ایک روئیں میں درخت پر پھول آئیں گے، آم
لگیں گے اور ان آموں سے لوگوں کی ضروریات پوری ہونگی۔ چونکہ انسان وسائل کا محتاج
ہے اس لئے وہ اس طرح کے وسائل سے بے نیاز نہیں ہو سکتا کہ وہ ہر طرف سے اپنا رشتہ
منقطع کرے لیکن یہ طرز فکر وہ اختیار کر سکتا ہے کہ یہ وسائل جو میری جدوجہد اور
کوشش سے وجود مظہر میں آئے ہیں، پوری نوع انسانی کا حصہ ہیں۔ جس طرح میں ان سے
فائدہ اٹھاتا ہوں اسی طرح پوری نوع انسانی کو فائدہ اٹھانے کا پورا پورا حق حاصل
ہے۔ طرز فکر حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان جس طرز فکر کو حاصل کرنا چاہتا ہے
اس سے ذہنی قربت حاصل ہو مثلاً یہ کہ اگر آپ کسی نمازی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو
وہ تمام مشاغل اپنا لیں جو اللہ والوں کے لئے پسندیدہ اور مرغوب ہیں۔ جس مناسبت سے
ان مشاغل کو یا ان عادات کو اختیار کرتے چلے جائیں گے اسی مناسبت سے آپ کی طرز فکر
بدلتی چلی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرز فکر یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتے
ہیں اور اس خدمت کا کوئی صلہ نہیں چاہتے۔ بندہ جب اختیاری طور پر اس طرز فکر کو
اختیار کر لیتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کی مخلوق کے کام آئے تو اسے اللہ تعالیٰ
کی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے اور جب یہ طرز فکر گہری ہوتی ہے تو اس کا ذہن ہر آن
اور ہر لمحے اس طرف متوجہ رہتا ہے کہ میں وہ کام کر رہا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے لئے
پسندیدہ ہے۔ بار بار اس عادت یا عمل کا اعادہ ہونے سے اس کے مشاہدات میں بے شمار
واقعات ایسے آتے ہیں کہ اس کے اندر یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے ،
جو کچھ ہو چکا ہے یا جو آئندہ ہونے والا ہے وہ سب اللہ کی طرف سے ہے، اسی تعلق کو
استغناء کا نام دیا جاتا ہے۔ مسلمان قوم کا استغناء ورثہ ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ
والسلام کی ساری زندگی اس عمل سے عبارت ہے کہ ہر چیز کی طرف سے، ہر بات اور ہر عمل
آدمی اس وقت انجام دیتا ہے جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ برائی اور بھلائی کا جہاں تک
تعلق ہے کوئی عمل دنیا میں نہ برا ہے نہ اچھا ہے۔ دراصل کسی عمل میں معانی پہنانا
اچھا یا برا ہے۔ معانی پہنانے سے مراد نیت ہے۔ عمل کرنے سے پہلے انسان کی نیت میں
جو کچھ ہوتا ہے وہی اچھائی یا برائی کے پہلو میں ظاہر ہوتا ہے۔ انسان کو عمل پر
اختیار نہیں ہے۔ انسان کو نیت کرنے پر اختیار ہے۔ آگ کا کام جلانا ہے ایک آدمی آگ
کو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کھانا پکانے میں استعمال کرتا ہے۔ یہ عمل خیر ہے
وہی آدمی اس آگ سے لوگوں کے گھر جلا ڈالتا ہے۔ یہ انتہائی درجہ برائی ہے۔ موجودہ
دور کے علماء فضلا جو کچھ کرتے ہیں چونکہ ان کی نیت میں نوع انسانی کی فلاح نہیں
ہے اس لئے تمام اعمال برائی ہیں۔ جن قوموں سے ہم مرعوب ہیں اور جن جن قوموں کے ہم
دست نگر ہیں ان کی طرز فکر کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات دھوپ کی طرح
روشن ہے کہ سائنس کی ساری ترقی کا زور اس بات پر ہے کہ ایک قوم اقتدار حاصل کرلے
اور ساری نوع انسانی اس کی غلام بن جائے یا ایجادات سے اتنے مالی فوائد حاصل کئے
جائیں کہ زمین پر ایک مخصوص قوم یا مخصوص ملک مالدار ہو جائے اور باقی انسان غریب اور
مفلوک الحال بن جائیں کیونکہ اس ترقی میں اللہ تعالیٰ کے ذہن کے مطابق نوع انسانی
کی فلاح مضمر نہیں ہے اس لئے یہ ساری ترقی نوع انسانی کے لئے اور خود ان قوموں کے
لئے جنہوں نے جدوجہد اور کوشش کے بعد نئی نئی ایجادات کی ہیں۔ مصیبت اور پریشانی
بن گئی ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد عالی کے مطابق وہ لوگ جو راسخ فی
العلم ہیں ان کا یقین ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ
نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ جانی
ہے۔ جب تک آدمی کے یقین میں یہ بات رہتی ہے کہ چیزوں کا موجود ہونا یا چیزوں کا
عدم میں چلے جانا اللہ کی طرف سے ہے اس وقت تک ذہن کے مرکزیت قائم رہتی ہے اور جب
یہ یقین غیر مستحکم ہو جاتا ہے تو آدمی ایسے عقیدے میں اور ایسے وسوسوں میں گرفتار
ہو جاتا ہے جن میں ذہنی انتشار ہوتا ہے، پریشانی ہوتی ہے، غم اور خوف ہوتا ہے۔
حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ انسان کا ہر عمل، ہر فعل،
ہر حرکت، کسی ایسی ہستی کے تابع ہے جو ظاہرہ آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔ ماں کے پیٹ
میں بچے کا قیام، 9مہینے تک نشوونما کے لئے غذا کی فراہمی اور پیدا ہونے سے پہلے
ماں کے سینے میں دودھ، پیدائش کے بعد دو سال سوا دو سال تک مسلسل دودھ کی فراہمی،
دودھ کا غذائیت سے ایک اعتدال کے ساتھ توازن کے ساتھ بچے کا بڑھنا۔ نہ صرف قد
بڑھنا بلکہ ہر اعضاء کا اپنی مناسبت اور اعتدال سے رہنا۔ چھوٹا بچہ بڑھ کر سات فٹ
کا ہو جاتا ہے جوانی کے تقاضے، ان تقاضوں کی تکمیل میں وسائل کی تکمیل، وسائل
فراہم ہونے سے پہلے وسائل کی موجودگی۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین کو منع کر دیں کہ وہ
کھیتیاں نہ لگائے تو جوانی کے تقاضے میں حصول روزگار مفقود ہو جائے گا۔ آدمی کے
اندر رزق حاصل کرنے کا تقاضا پیدا ہوتا ہے۔ تو اس تقاضے کی تکمیل میں پہلے سے
وسائل موجود ہو جاتے ہیں۔ موجود وسائل میں انسان جدوجہد کر کے اپنے لئے آسائش اور
آرام کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح شادی کے بعد والدین کے دل میں یہ تقاضا پیدا
ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی نام لینے والا ہو۔ اس تقاضے میں انتہائی درجہ شدت اور اس کے
نتیجے میں ماں باپ بننا، ماں باپ کے دل میں محبت کا پیدا ہونا، غور طلب بات یہ ہے
کہ اگر اللہ تعالیٰ والدین کے دل میں محبت نہ ڈالیں تو اولاد کی پرورش کس طرح ہو
سکتی ہے اور اولاد کی پرورش کے لئے والدین کے دل میں اولاد کی محبت صرف انسانوں کے
لئے مخصوص نہیں ہے ہر مخلوق میں محبت کا یہ جذبہ مشترک ہے اور اسی محبت کے سہارے
ماں باپ اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں، نگہداشت کرتے ہیں اور ان کے لئے وسائل
اکٹھے کرتے ہیں۔
عام طور پر یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ محنت
اور جدوجہد کے بغیر وسائل کا حصول ناممکن ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن وسائل کے
حصول میں ہم جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں اور ایک قاعدے اور قانون کے تحت پہلے سے
موجود ہیں۔ کسان جب محنت کر کے زمین میں بیج ڈالتا ہے اور اس بیج کی نشوونما سے
انسانی ضروریات کے لئے قسم قسم کی غذائیں فراہم ہوتی ہیں۔ یہ سب اس وقت ممکن ہوتا
ہے کہ جب پہلے سے وسائل موجود ہوں۔ مثلاً زمین کا موجود ہونا، زمین کے اندر بیج کو
نشوونما دینے کی صلاحیت ہونا، بیج کی نشوونما کے لئے پانی کا موجود ہونا، چاندنی
کا موجود ہونا، ہوا کا موجود ہونا اور موسم کے لحاظ سے سرد و گرم فضا کا موجود
ہونا۔ اگر بیج موجود نہ ہو یا زمین کے اندر بیج کو نشوونما دینے کی صلاحیت مفقود
ہو جائے یا پانی موجود نہ ہو تو انسانی کوشش تمام بے کار ثابت ہو گی، موجودہ دور
کی ترقی میں بنیادی چیز بجلی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت اگر پانی کے اندر
بجلی موجود نہ ہو تو سائنس کی کوئی بھی ترقی ممکن نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ
وصف ہے کہ جب وہ کسی چیز کو تخلیق کرتے ہیں تو اس ایک تخلیق سے اربوں، کھربوں
تخلیقات وجود میں آتی ہیں۔ موجودہ دور میں بجلی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اللہ کی
ایک تخلیق بجلی ہے اور اس بجلی کے ذریعے ہزار ہا ایجادات منظر عام پر آ چکی ہیں، آ
رہی ہیں اور آئندہ آتی رہیں گی۔ یہ صورت حال سامنے رکھتے ہوئے ہمارے اوپر یہ راز
منکشف ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وسائل اس لیے تخلیق کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی
ایک مخصوص مخلوق ان وسائل کے اندر مخفی قوتوں کو تلاش کر کے ان سے کام لے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔