Topics
مشہور بادشاہ علا ؤالدین
خلجی کو بو علی شاہ قلندرؒ سے بڑی عقیدت تھی۔ ایک مرتبہ اس نے ازراہ عقیدت کچھ
تحائف آپ کی خدمت میں بھیجنا چاہے لیکن وہ آپ کی ناراضگی اور جاہ و جلال سے خوف
زدہ تھا۔ امراء سے مشورہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ تحائف امیر خسرو کے
ذریعے بھجوائے جائیں۔
امیر خسرو کو فوراً طلب
کیا گیا اور بادشاہ نے اپنی پریشانی بتائی اور کہا کہ تم یہ تحائف حضرت بو علی
قلندرؒ کی خدمت میں لے جا ؤ۔ امیر خسرو نے کہا:
‘‘جناب آپ کا ارشاد بجا مگر
میں بو علی قلندرؒ کے پاس اس وقت تک نہیں جا سکتا جب تک مجھے میرے مرشد عالی حضرت
نظام الدین اولیاءؒ اجازت نہ فرما دیں۔ سلطان نے فوراً بات مان لی اور حضرت محبوب
الٰہی کی خدمت میں اپنا آدمی روانہ کیا اور حضرت بو علی قلندرؒ کے پاس امیر خسرو
کے جانے کی اجازت چاہی۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے فوراً اور بلا تامل اجازت
مرحمت فرما دی۔
اس واقعہ سے یہ بات سامنے
آتی ہے کہ مریدین اپنے مرشد کی اجازت کے بغیر کوئی بھی عملی قدم نہیں اٹھاتے تھے۔
آج بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ کسی بھی کام کے سلسلے میں پیر و مرشد کی
اجازت ضرور لینی چاہئے۔
حضرت خواجہ شمس الدین
سیالویؒ ایک دفعہ سیال شریف سے تونسہ مقدسہ زیارت کے لئے جا رہے تھے۔ راستہ میں
ایک جنگل سے گزر ہوا۔ وہاں ایک نورانی شکل بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فرمایا
کہ درود کبرت احمر پڑھا کرو۔ آپ نے جواب دیا کہ میرے لئے پیر کا فرمان کافی ہے۔
تونسہ شریف حاضر ہوئے تو مرشد کریم نے فرمایا کہ راستہ میں تمہیں ایک آدمی ملا تھا
اس نے جو وظیفہ بتایا ہے وہ پڑھا کرو۔ وہ صاحب حضرت پیران پیر دستگیر حضرت غوث
الاعظمؒ تھے۔ یہ درود پاک (اکبریت احمر) اس سے پہلے طریقہ چشتیہ کے ادوار میں شامل
نہ تھا۔ حضرت پیر سیال کے ذریعے یہ نعمتِ عظمیٰ چشتیہ سلسلہ کو نصیب ہوئی۔
حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ
اپنی کتاب تذکرہ غوثیہ میں لکھتے ہیں کہ زمانہ طفلی میں ہم کو ایک سنیاسی نے جڑ
تازی کپالی تعلیم کی (کپالی یعنی حبس دم) اس شغل میں حواس ظاہری مفقود ہو جاتے ہیں
اور روح دماغ میں آ جاتی ہے جس خیال میں انسان بیٹھتا ہے اسی میں رہتا ہے جب ہم کو
مشق ہو گئی تو ایک دن خیال آیا کہ دیکھیں تو دوسرے پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے یا
نہیں۔ ہم نے اپنے بھائی کو کپالی چڑھائی اور وہ بالکل بیہوش ہو کر بشکل مردہ گر
پڑے اتارنا ہم کو آتا نہ تھا نہایت حیرانی دامن گیر ہوئی کہ اب کیا علاج کریں۔
والدہ صاحبہ کو خبر ہوئی مضطرب ہو کر تشریف لائیں اور فرمایا ایک تو گیا ہے دوسرا
بھی چلا۔ لوگ گمان کریں گے کہ اس نے بھائی کو مار ڈالا ہے۔ ایک پیالہ دہی کا لا کر
اس کے سامنے گرا دیا جو آن کر پوچھتا اس سے فرماتیں نہیں معلوم کیا ہوا دہی کھا کر
قے کی ہے۔ میں گھبرا کر اس سنیاسی فقیر کے پاس گیا اور سارا حال بیان کیا انہوں نے
بہت ملامت کی اور کہا کہ کیا تم کو اس واسطے یہ عمل سکھایا تھا کہ لوگوں کا تماشہ
دیکھو۔ ہم نے تو اس لئے سکھلایا تھا کہ یاد الٰہی میں مشغول رہو گے یہ کہہ کر
ہمارے گھر آئے اور بھائی کے سر پر مشکیں چڑھوائیں جب تیسری مشک کی نوبت پہنچی تو
اٹھ بیٹھے۔ پھر ہم نے بھائی سے بیہوشی کی کیفیت دریافت کی کہا میں زندہ تھا اور تم
سب کو پکار پکار کر کہتا تھا کہ میں زندہ ہوں تم گھبرا ؤ مت لیکن تم سنتے نہ تھے
اور مجھے کسی طرح کی تکلیف بھی نہ تھی۔ اس دن سے ہم نے توبہ کر لی کہ بلااجازت پھر
ایسا کام ہرگز نہ کریں گے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی