Topics
سوال: سورہ فاتحہ میں آتا ہے کہ اے اللہ ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جو ترے انعام یافتہ ہیں۔ یہ انعام یافتہ لوگ کون ہوتے ہیں جبکہ بظاہر نافرمان اس دنیا میں مزے کی زندگی گزارتے ہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب: اس بات کی پوری طرح کوشش کی جاتی ہے کہ تصوف اور روحانیت کی راہوں میں چلنے والے مبتدی کے ذہن میں یہ بات واضح ہو جائے کہ زندگی کی بنیاد یا بساط ایک طرز فکر کے اوپر قائم ہے اگر وہ طرز فکر ایسی ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے تو اس کا نام شیطنت ہے اور وہ طرز فکر جو اللہ تعالیٰ سے بندے کو قریب کرتی ہے اس کا نام رحمت ہے یعنی اس کائنات میں دو گروہ ہیں جن میں ایک گروہ انعام یافتہ ہے اور دوسرا گروہ باغی اور ناشکرا ہے۔ قرآن پاک کی تمام تعلیمات کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو مختصر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اس پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں ایک وہ طرز ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے پسندیدہ ہے اور دوسری طرز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے نا پسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارنے والے دوست اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہیں اور اس طرز فکر سے جس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کہا ہے۔ حق آشنا لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے باغی ہیں، سرکش ہیں اور جن کی صفات میں شیطنت بھری ہوئی ہے وہ نعمتوں سے معمور خزانوں کے مالک ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو شیطانی طرزوں سے دور ہیں نعمتوں سے محروم ہیں یہ ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جس کو ہم دنیاوی زندگی کی آسائش کہتے ہیں۔ دوسری بات جو بالکل سامنے کی ہے یہ ہے کہ زندگی کی آسائش سے متعلق وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرز فکر سے ہم آہنگ ہیں دونوں شریک ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ذریت شیطان بھی کھانا کھاتی ہے، وہ بھی لباس پہنتی ہے، اس کے لئے اچھے سے اچھا گھر موجود ہے اور جو لوگ ذریت ابلیس سے کوئی تعلق نہیں رکھتے وہ بھی کھانا کھاتے ہیں، گھر میں رہتے ہیں، لباس پہنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔ جواہرات کے انبار سے ضروریات پورے ہونے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک آدمی کے پاس اگر ایک کروڑ روپیہ موجود ہے تو وہ وہی روٹی کھائے گا۔ دوسرے آدمی کے پاس اگر محل موجود ہے اور اس محل میں 50کمرے ہیں تو سونے کے لئے اسے ایک چارپائی کی جگہ کی ضرورت پیش آتی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا ، نہ ہو گا کہ پچاس کمروں کا مالک کوئی بندہ جب سونے کے لئے لیٹے تو اس کا جسم دراز اور اتنا پھیل جائے کہ وہ دس چارپائیوں کی جگہ گھیر لے۔ سونے کے لئے اسے ایک ہی چارپائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس یہی حال پوری زندگی کے اعمال و حرکات کا ہے۔ اس مختصر تشریح سے یہ ثابت ہوا کہ دنیاوی طرز فکر میں ذریت ابلیس اور اس کے خلاف دوسرے لوگ مادی زندگی کے وسائل میں مشترک قدریں رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انعام کیا ہے کہ جس انعام کے مستحق وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ کہا ہے اور جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے دوست ہیں۔ دوستوں کی تعریف یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو بندہ ہمارا دوست بن جاتا ہے ہم اس کے اوپر سے خوف اور غم اٹھا لیتے ہیں۔ خوف اور غم جس آدمی کی زندگی سے نکل جاتا ہے تو خوشی اور سرور کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔ یہ وہ انعام ہے جو ہمیں ظاہرہ آنکھ سے نظر نہیں آتا یہ وہی انعام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ ہماری ناپسندیدہ طرزوں میں زندگی گزارتے ہیں ہم نے ان کے دلوں پہ مہر لگا دی ہے اور ہم نے ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں۔ ایسا بندہ جس کے دل پر کانوں پر مہر لگی ہوئی ہے اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے وہ اس دنیا میں سوچتا بھی ہے ، سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مہر اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دنیاوی طور پر اندھا ہو گیاہے یا اس کی عقل سلب ہو گئی ہے یا اس کے کانوں میں سیسہ ڈال دیا گیا ہے یا وہ بہرہ ہو گیا ہے۔ عقل پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر سے ان صفات کو نکال لیا گیا ہے جن صفات سے آدمی اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہے اس کی سماعت میں سے وہ صفت نکال لی گئی ہے جس کے ذریعے سے غیب کی آوازیں سنتا ہے۔ فرشتوں سے ہم کلام ہوتا ہے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے جن آنکھوں سے وہ، اگر ان آنکھوں پر پردہ نہ پڑا ہوا ہو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار اقدس میں حاضر ہو کر کھلی آنکھوں سے حضورﷺ کی ذات اقدس کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے قلب میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کر سکیں۔ ان کے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ فرشتوں کی آواز سن سکیں۔ ان کی آنکھوں میں اتنی چمک نہیں ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار کر سکیں۔ وہ سب لوگ ذریت ابلیس میں آتے ہیں۔ بات بہت زیادہ سخت ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ارکان اسلام کی ماہیت اور حقیقت میں اگر فکر کیا جائے تو ہر رکن اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق روحانی طرزوں، روحانی صفات اور روحانی صلاحیتوں سے ہے۔ اسلام میں بنیادی رکن حضورﷺ پر ایمان لانا ہے۔ ایمان لانے کے بعد حضورﷺ کی رسالت کی شہادت دینا ہے لیکن دنیا کا کوئی قانون اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ بغیر دیکھے شہادت معتبر ہو سکتی ہے۔ کلمہ شہادت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان شیطانیت سے آزاد ہو کر فی الواقع ایمان کے دائرے میں قدم رکھ دیتا ہے تو سیدنا حضورﷺ اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور وہ برملا حضورﷺ کی رسالت کی شہادت دیتا ہے۔ قانون شہادت یہ ہے کہ شہادت بغیر دیکھے معتبر نہیں ہوتی۔ مسلمان ہونے کے بعد حق باتوں پر یقین ضروری ہے‘ جو ایمان کی شرائط میں داخل ہیں ان میں پہلی بات غیب پر یقین ہے۔ ہم غیب پر یقین رکھتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ جب تک کوئی بات مشاہدے میں نہیں آتی۔ یقین متزلزل رہتا ہے اس کے بعد ملائکہ کا تذکرہ آتا ہے پھر ان کتابوں کا تذکرہ آتا ہے جو حضورﷺ سے پہلے انبیاء پر نازل ہوئیں پھر یوم آخرت کا تذکرہ آتا ہے یہ تمام تذکرے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ انسان کے اندر کوئی ایسی آنکھ موجود ہے جو پردوں کے پیچھے دیکھتی ہے۔ انسان کے اند رایسے کان موجود ہیں جو ماورائی آوازیں سن کر ان کے معانی اور مفہوم کو سمجھتے ہیں۔ ایسی آنکھیں موجود ہیں جو آنکھیں زمان و مکاں کی تمام حد بندیوں کو توڑ کر عرش پر اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتی ہیں۔ ایسا قلب موجود ہے جو محسوس کرتا ہے۔ قلب اللہ کا گھر ہے اور اس گھر میں مکین کو دیکھتا ہے۔ روحانیت اور تصوف سالکان طریقت کو اسی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ آدمی ظاہرہ حواس سے ہٹ کر ان حواس کا کھوج لگائے جن حواس میں لطافت ہے، نرمی ہے، رحمت ہے، محبت ہے، حلاوت ہے، نور ہے، روشنی ہے۔ جن حواس سے بندہ اپنے آقا رسول اللہﷺ کے قدموں میں سرنگوں ہوتا ہے جہاں تک دنیا زندگی گزارنے کے لئے مفروضہ حواس کا تعلق ہے ان حوا س میں آدم، بکری اور کتا برابر کے شریک ہیں۔ کتا بھی عقل رکھتا ہے ، آدمی بھی عقل رکھتا ہے۔ بعض حالات میں کتا انسان سے زیادہ عقل مند ہے۔ دوسری بات جو زیر بحث آتی ہے وہ ساخت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس ساخت پر تخلیق کیا ہے وہ ساخت اس قسم کی ہے کہ اس ساخت کی وجہ سے وہ عقل سے زیادہ سے زیادہ کام لے سکتا ہے اگر بلی کی ساخت انسانوں کی طرح ہوتی اور جس طرح انسان دو پیروں پر چلتا ہے اسی طرح بلی بھی پیروں پر چلتی تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ بلی کار ڈرائیو نہ کر سکتی۔ دنیاوی عقل کا تعلق جہاں تک ہے اللہ کی سب مخلوق عقل رکھتی ہے۔ جہاں تک عقل میں کمی بیشی کا تعلق ہے وہاں ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ آدمی بھی سب عقل مند نہیں ہوتے۔ ہزاروں لاکھوں میں چند دانش ور نکلتے ہیں اور اس دانش وری کے اندر غوطہ لگا کر جب کوئی گوہر نایاب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہاں بھی بے عقلی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
انسان روزانہ ترقی کے نعرے لگاتا ہے روزانہ ایجادات کے لئے نئے فارمولے زیر بحث آتے ہیں کچھ دن ان فارمولوں کا چرچا رہتا ہے پھر خود ہی ان فارمولوں کی نفی ہو جاتی ہے۔ آج کا دانشور جو کہتا ہے آنے والی کل کا دانشور اسی بات کی نفی کر دیتا ہے جبکہ عقل سلیم یہ جانتی ہے کہ حقیقت میں تغیر و تبدل اور تعطل واقع نہیں ہوتا۔ حقیقت اپنی جگہ اٹل رہتی ہے اربوں کھربوں سال سے چاند چاند ہے، سورج سورج ہے، زمین زمین ہے۔ اربوں کھربوں سال سے چاند کی گردش کے جو فارمولے قدرت نے متعین کر دیئے ہیں ان میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ سورج کے اندر روشنی پیدا کرنے کے جو فارمولے قدرت نے بنا دیئے ہیں ان میں کبھی تغیر و تبدل واقع نہیں ہو گا۔
اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس بات میں تغیر، تبدل، تعطل واقع ہو سکتا ہے وہ حقیقی نہیں ہے اس کی بنیاد فکشن (FICTION) اور مفروضہ حواس پر ہے۔ تصوف اور روحانیت مفروضہ فکشن حواس کی نفی کر کے آدمی کو حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔