Topics
سوال: قرآن پاک نے ہمیں بہت سے عالموں سے
متعارف کرایا ہے مثلاً حشر و نشر، جنت و دوزخ، عرش و کرسی وغیرہ ۔ ان میں سے ایک
نام اعراف بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اعراف کی روحانی حیثیت کیا ہے اور اہل سلوک اعراف
کو کیا سمجھتے ہیں؟ اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب: عام طور سے مرنے کا مفہوم ختم
ہوجانا لیا جاتا ہے۔ مرنے کا مفہوم ختم ہونا ہرگز نہیں ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے
اگر اس لفظ کے معنی پر غور کیا جائے تو اس کا مفہوم اور ترجمہ منتقل ہونا ہے۔ یعنی
ایک آدمی اس گوشت پوست کے جسم کو چھوڑ کر دوسرے عالم میں منتقل ہو گیا۔ ہماری
مادری زبان میں انتقال کا لفظ مرنے کے لفظ کے مترادف ہے یعنی آدمی مر گیا۔ مرنے کے
لفظ کا ترجمہ بھی امر ہوتا ہے۔ اب ہم یوں کہیں گے کہ آدمی اس عارضی زندگی کو چھوڑ
کر ایسے عالم میں چلا گیا جہاں موت نہیں ہے یعنی اس نے دائمی زندگی اختیار کر لی۔
روحانی طور پر مرنا اور جسمانی طور پر مرنا بظاہر الگ الگ دو حالتیں نظر آتی ہیں
لیکن ان دو حالتوں میں فرق اگر ہے تو صرف یہ ہے کہ ایک آدمی اس جسم کی موجودگی میں
اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ جسم کو چھوڑ کر مر جاتا ہے اور دوسری حالت یہ ہے کہ
اس جسم کو اس طرح چھوڑ دیتا ہے کہ پھر اس جسم کی اپنی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
اس کی مثال ہماری زندگی میں بھی ملتی ہے ہم جب سو جاتے ہیں تو خواب دیکھتے ہیں۔
خواب کی حالت میں ہزاروں میل کے فاصلے پر
خود کو دیکھتے ہیں، وہاں جو چیزیں کھاتے ہیں، اس کا مزا بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس
ملک کا جو موسم ہے اس کے اثرات کو بھی قبول کرتے ہیں۔ ایک آدمی کسی گرم ملک میں
رہتے ہوئے یہ خواب دیکھتا ہے کہ وہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوا ہے، ایسا پہاڑ جو
برف پوش ہے، خواب میں اسے اتنی زیادہ سردی محسوس ہوتی ہے کہ جب اس کی آنکھ کھلتی
ہے تو اس کے اوپر سردی کے تمام اثرات غالب ہوتے ہیں۔ یہی صورت خواب میں عالم اعراف
میں منتقل ہونے کے بعد بھی ہوتی ہے۔ آدمی ایک دو یا زیادہ ایسے خواب ضرور دیکھتا
ہے جس میں اس کی ملاقات اس کے عزیزوں، رشتہ داروں اور پیاروں کی ارواح سے ہوتی ہے۔
مرے ہوئے لوگوں کی روحوں سے ملاقات اس بات کی نشاندہی ہے کہ آدمی خواب میں عالم
اعراف میں منتقل ہو گیا۔
تصوف اور روحانیت کا منشاء یہی ہے کہ
انسان کے اندر وہ صلاحیت جو خواب میں کام کرتی ہے بیداری میں اپنے اوپر طاری کر لی
جائے۔ آدمی کے اندر وہ صلاحیت جو اس کو Time and
Spaceسے آزاد کر دیتی ہے، موت ہے۔ ’’موتو قبل ان تموتوا‘‘(مرجاؤ مرنے سے پہلے)کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس زندگی میں زمان و مکاں
کی گرفت سے آزاد ہو کر اس عالم كامشاہدہ
کر لے جہاں Time and Spaceسے آزاد ہوئے بغیر کوئی بندہ نہیں پہنچ سکتا۔ اب ہم بیداری میں رہتے ہوئے
ایک خواب دیکھتے ہیں یعنی بیداری میں خواب کے حواس اپنے اوپر غالب کر کے عالم
اعراف میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے۔ ذہن کو یکسو کر کے ایسے مقام پر لے
جانا چاہئے کہ جن ذہنی کیفیات میں آدمی سوتا ہے۔ سونے میں سب سے پہلے جو عمل سرزد
ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی نہایت آرام و سکون کے ساتھ بستر پر لیٹ جاتا ہے۔ دوسرا
کام یہ ہے کہ ذہن اور دماغ کو بیداری کے حواس سے ہٹا کر ان حواس میں منتقل کر دیتا
ہے جن حواس کا نام نیند ہے۔ تیسرے یہ کہ آنکھیں بند کر لیتا ہے اور بالآخر وہ سو
جاتا ہے۔ آیئے بیداری میں سوتے ہیں نہایت سکون اور آرام سے بیٹھ جائیں۔ ذہن کو
تمام دنیوی خیالات سے آزاد کر لیں، آنکھیں بند کر لیں اور شعور سے لا شعور میں
داخل ہو جائیں۔ جیسے ہی شعور کی گرفت کمزور پڑے گی، بند آنکھوں کے سامنے لا شعور
کا دروازہ آئے گا۔ یہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو جایئے۔ اب آپ عالم اعراف میں
ہیں۔ جس طرح کوئی مسافر کسی بڑے شہر میں داخل ہوتا ہے اسی طرح آپ بھی عالم اعراف
کے ایک بڑے شہر میں ہیں۔ جس طرح آپ اس زمین پر آباد شہر دیکھتے ہیں یہاں بھی آپ کو
آبادیاں نظر آ رہی ہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ ہے کہ آدمی کے اوپر لباس کی نوعیت
بدلی ہوئی ہے۔ یہاں روح نے گوشت پوست اور پٹھوں کو جمع کر کے اپنے لئے لباس بنایا
تھا۔ گوشت پوست، رگ و پے کا تانا بانا مٹی کے ذرات تھے۔ وہاں روح نے گوشت پوست اور
پٹھوں کا جو لباس بنایا ہے اس کا تانا بانا روشنیوں سے بنا ہوا ہے۔ چونکہ مٹی میں
وزن ہوتا ہے مٹی کشش ثقل کا دوسرا نام ہے اس لئے آدمی اس زمین پر خود کو پابند اور
مجبور دیکھتا ہے اس دنیا میں چونکہ تانا بانا روشنیوں کے اوپر بنا ہوا ہے اس لئے
وہاں آدمی خود کو پابند اور مجبور نہیں دیکھتا۔ پابند دنیا میں سفر کرنے کے لئے
پابند وسائل کی ضرورت پیش آتی ہے۔ رفتار تیز اور کم ہو سکتی ہے لیکن وسائل سے
چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ ایک آدمی ایک گھنٹے میں پیدل چل کر تین میل کا سفر طے کرتا
ہے اس وقفہ میں دوسرا آدمی سائیکل پر آٹھ میل کا سفر طے کر لیتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھ
کر ساٹھ، ستر، اسی میل کا سفر طے کر لیتا ہے۔ ہوائی جہاز میں ہزاروں میل کا سفر طے
ہو جاتا ہے۔ رفتار کی تیزی اپنی جگہ ہے لیکن وسائل کی محتاج ہے اس لئے محتاج ہے کہ
اس کا جسم یا روح کا لباس بھی مٹی کا بنا ہوا ہے اور جتنے اس کے ساتھ کام کرنے
والے وسائل ہیں وہ بھی مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ ایک سائیکل مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اس لئے کہ سائیکل کے اندر جتنے کل پرزے ہیں وہ سب لوہے سے مرکب ہیں اور لوہا مٹی
ہے۔ مٹی کو بہت سے مراحل سے گزارا جاتا ہے تو مٹی کے مخصوص ذرات لوہا بن جاتے ہیں۔
ہوائی جہاز میں جتنے کل پرزے ہیں وہ بھی مٹی ہیں۔ سطح زمین پر کوئی بھی دھات اس کا
بنیادی مصالحہ مٹی ہے اور مٹی اپنی شکلیں بدل رہی ہے۔ یہی مٹی کے ذرات کہیں آدمی
بن جاتے ہیں، کہیں سائیکل بن جاتے ہیں، کہیں موٹر سائیکل بن جاتے ہیں اور کہیں
ہوائی جہاز کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہی مٹی کے ذرات خوبصورت درخت بن جاتے ہیں،
پرندے بن جاتے ہیں، ایک چھوٹے سے چھوٹا ذرہ کبھی وائرس بن جاتا ہے، کبھی چیونٹی بن
جاتا ہے اور کبھی ہاتھی بن جاتا ہے۔ یہ ذرات اللہ تعالیٰ کی صناعی اور قدرت کی
واضح نشانیاں ہیں۔ اس صناعی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہماری
نشانیوں میں غور کرو اور وہ لوگ قابل ستائش ہیں، منزل رسیدہ ہیں ، پسندیدہ ہیں جو
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں غور کرتے ہیں۔مٹی کو گوندھ کر اس سے ہر شکل بنتی ہے۔
مٹی کے گارے سے آپ چڑیا بھی بنا سکتے ہیں مٹی کے گارے سے آپ عمارت بھی کھڑی کر
سکتے ہیں، مٹی کے گارے سے آپ انسانی پتلا بھی بنا سکتے ہیں اور مٹی سے آپ بڑی سے
بڑی تخلیق بھی عمل میں لا سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مٹی کے اندر اللہ
تعالیٰ کی جاری و ساری صفات کا علم حاصل ہو جائے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔