Topics
استغناء ایک ایسی کیفیت
کا نام ہے جس میں سالک یہ جان لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست اس کی ذات کے ساتھ
ہم رشتہ ہے۔ یہ ایسی کیفیت ہے جو سالک کے ہر معاملہ میں واسطہ بن جاتی ہے۔ استغناء
ایک مزاج ہے ایک ترتیب وار پروگرام ہے۔ استغناء کوئی لفظی معمہ نہیں ہے یہ ایک
کیفیت ہے، ایک حقیقت ہے، ایسی حقیقت جو حقیقت مطلق کے متصل ہے۔ جب تک کوئی بندہ
حقیقت سے متعارف نہیں ہوتا، مشاہدہ نہیں کر لیتا اس وقت تک اس کے اندر استغناء
پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو صرف اتنا ہوتا ہے کہ محض اس کا تذکرہ کیا
جا سکتا ہے۔
میرے مرشد کریم حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ عام حالات میں جب استغناء کا تذکرہ کیا جاتا
ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی آدمی کو اللہ تعالیٰ کے اوپر کتنا بھروسہ اور
توکل ہے۔ توکل اور بھروسہ کم و بیش ہر آدمی کی زندگی میں داخل ہے۔ لیکن جب ہم توکل
اور بھروسہ کی تعریف بیان کرتے ہیں تو ہمیں بجز اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ہماری
دوسری عبادات کی طرح بھروسہ اور توکل بھی دراصل لفظوں کا ایک خوشنما جال ہے۔
توکل اور بھروسہ سے مراد
یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے لیکن جب ہم فی العمل
زندگی کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ بات محض نعرہ اور غیر یقینی لگتی ہے اور
یہ ایسی بات ہے کہ ہر آدمی کی زندگی میں اس کا عمل دخل جاری و ساری ہے۔ مثلاً ایک
آدمی کسی فرم میں ملازمت کرتا ہے اس کے پیش نظر یہ بات رہتی ہے کہ فرم کا مالک یا
سیٹھ اگر مجھ سے ناراض ہو گیا تو ملازمت سے برخاست کر دیا جا ؤں گا یا میری ترقی
نہیں ہو گی یا ترقی تنزلی میں بدل جائے گی۔ ظاہر ہے یہ بات بھروسہ اور توکل کے
سراسر خلاف ہے۔
اس کے برعکس ہم زندگی میں
یہ بات بار بار دہراتے ہیں کہ اگر کوئی کام نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے۔ یہ
بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب کسی کام کا نتیجہ اچھا مرتب ہوتا ہے تو ہم یہ کہتے
ہیں کہ یہ نتیجہ ہمارے فعل اور ہماری فراست و فہم سے مرتب ہوا ہے۔ اس قسم کی
بیشمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ
کے اوپر توکل اور بھروسہ محض مفروضہ ہے۔ جس بندے کے اندر توکل اور بھروسہ پیدا
نہیں ہوتا اس کے اندر استغناء بھی نہیں ہوتا۔
استغناء سے مراد یہ ہے کہ
ضروریات زندگی گزارنے میں بندے کا اپنا ذاتی ارادہ یا اختیار شامل نہ ہو بندہ اللہ
کی رضا میں راضی برضا رہے۔ اللہ تعالیٰ اگر چٹنی کے ساتھ روٹی کھلاتے ہیں تو تب
بھی خوش رہے اور شکر ادا کرے۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی میں گزارے گئے ہر لمحہ زندگی
میں پیش آنے والے ہر عمل اور حرکت کو اللہ تعالیٰ کی طرف موڑ دیا جائے اس سے بندے
کے اندر توکل اور بھروسہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ استغناء کے دائرے میں داخل
ہوتا ہے۔
توکل اور بھروسہ دراصل
ایک خاص تعلق ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان براہ راست ائم ہے اور جس بندے کا اللہ
تعالیٰ کے ساتھ یہ رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ اس بندے کے اندر سے دنیا کا تمام لالچ
نکل جاتا ہے۔ ایسے بندے کے اندر صفت بے نیازی کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ مخلوق کو
یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دنیاوی تمام وسائل سے اپنی ضروریات اور احتیاج کو توڑ کر
صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ کرے اور اسی وابستگی کا نام توکل اور
بھروسہ ہے۔ مرشد کامل راہ سلوک کے مسافر کو اس بات کی مشق کرواتا ہے کہ زندگی کے
تمام تقاضے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات پیر و مرشد کے تابع ہیں۔ سالک جب اپنی
زندگی کی تمام حرکات و سکنات کو پیر و مرشد کے سپرد کر دیتا ہے تو پیر و مرشد اس
کی تمام ضروریات کا کفیل بن جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک دودھ پیتے بچے کی
کفالت اس کے ماں باپ کرتے ہیں۔ سالک کو زندگی میں ایسے واقعات سے گزارا جاتا ہے کہ
اس کا پیر و مرشد پر یقین کامل ہو جاتا ہے یہی وہ بنیاد ہے کہ جس سے سالک کے ذہن
میں استغناء اور بے نیازی کا ایسا پیٹرن ترتیب پا جاتا ہے جس کی بنیاد پر سالک غیر
اختیاری طور پر اپنے تمام معاملات کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسوب کرتا ہے۔
یقین ایک ایسی کیفیت کا
نام ہے جس میں شک نہیں ہوتا۔ انسانی زندگی کی بنیاد ہی یقین کے اوپر ہے کیونکہ
انسان کو سب سے پہلے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ انسان ایک حد تک
بااختیار ہے اور بڑی حد تک اس کے اوپر غیر اختیاری کیفیات نازل ہوتی رہتی ہیں۔
سانس کا لینا، کھانے کا ہضم کرنا، پلکوں کو جھپکانا، جسم کا درجہ حرارت برقرار
رکھنا، دل پھیپھڑے گردے جگر کی مسلسل حرکت وغیرہ وغیرہ یہ تمام کے تمام وہ کام ہیں
جن کے پیچھے انسان کا اختیار کام نہیں کرتا۔ اگر انسان اپنے ارادے اور اختیار سے
سانس لینا بند کر دے تو وہ بیمار ہو جائے گا یا اس کے دماغ میں خون جم جائے گا۔
انسان اپنی مرضی سے دنیا میں نہیں آتا۔ مرنے پر انسان کا کوئی اختیار نہیں تو پھر
پیدائش اور موت کے درمیان والی زندگی پر انسان کا کس طرح اختیار ہے۔ اگر اللہ
تعالیٰ انسان کو اپاہج اور معذور پیدا کر دے تو انسان ساری زندگی اسی حالت میں
گزارنے پر مجبور ہے۔
ابدال
حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ لوگ نادان ہیں کہتے ہیں کہ ہماری گرفت
حالات کے اوپر ہے انسان اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق حالات میں رد و بدل کر سکتا
ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ انسان ایک کھلونا ہے حالات جس قسم کی چابی اس کھلونے میں
بھر دیتے ہیں اسی طرح یہ کودتا ہے، ناچتا ہے، آوازیں نکالتا ہے۔ اگر فی الواقع
حالات پر انسان کو دسترس حاصل ہوتی تو کوئی آدمی غریب نہ ہوتا۔
بات صرف اتنی ہے کہ ہم
لوگ تفکر نہیں کرتے۔ اتفاق کہہ کر ہم واقعات سے روگردانی کرتے ہیں۔ جب کہ اتفاق
اور حادثے کا کائنات میں ہرگز کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے
جو کہ مربوط ہے، منظم ہے، ہر نظام کی دوسرے نظام کے ساتھ وابستگی ہے۔ اس نظام میں
نہ کہیں اتفاق ہے، نہ کہیں حادثہ ہے اور نہ ہی کوئی مجبوری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس
نظام کو چلانے والے اللہ کے کارندے اس کے حکم اور اس کی مشیئت کے مطابق اسے چلا
رہے ہیں۔ آدمی تو صرف کٹھ پتلی ہے جس طرح کائنات کا نظام چلانے والے کارکن ڈوریوں
کو حرکت دیتے ہیں آدمی چلتا رہتا ہے۔ ان باتوں کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ استغناء
اس وقت تک کسی شخص کے اندر پیدا نہیں ہو سکتا جب تک اس کے یقین میں یہ بات راسخ نہ
ہو جائے کہ ہر چیز منجانب اللہ ہے۔ جب مرید کے اندر یہ بات یقین بن جاتی ہے کہ اس
نظام میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت اور بڑی سے بڑی شئے اللہ کے بنائے ہوئے ایک
مربوط نظام کے تحت قائم ہے تو اس کے اندر ایک ایسا پیٹرن بن جاتا ہے جس کا اصطلاحی
نام استغناء ہے۔ اس پیٹرن کو جب تحریکات ملتی ہیں اور زندگی میں مختلف واقعات پیش
آتے ہیں تو ان واقعات کی کڑیاں اس قدر مضبوط و مستحکم اور مربوط ہوتی ہیں کہ مرید
کی عقل یہ سوچنے اور ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کائنات میں وہی ہوتا ہے جو اللہ
تعالیٰ چاہتے ہیں۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں
کہ کسی چیز کے اوپر یقین کا کامل ہو جانا اسی وقت ممکن ہے جب وہ چیز یا عمل جس کے
بارے میں ہم نہیں جانتے کہ یہ کس طرح واقع ہو گی۔ بغیر کسی ارادے اور اختیار اور
وسائل کے پوری ہوتی ہے۔
میرے مرشد کریم حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی اس ضمن میں اپنی ذاتی زندگی کا ایک واقعہ سناتے ہیں:
‘‘ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ
میں کمرے میں بیٹھا لوح و قلم کے صفحات دوبارہ لکھ رہا تھا۔ عصر اور مغرب کے
درمیان کا وقت تھا کہ لاہور سے کچھ مہمان آ گئے۔ عام حالات میں چونکہ تھوڑی دیر
بعد کھانے کا وقت تھا اس لئے ذہن میں یہ بات آئی کہ ان مہمانوں کو کھانا کھلانا
چاہئے۔ یہ اس دور کا واقعہ ہے جب میں حیرت کے مقام پر سفر کر رہا تھا اور نہ صرف
یہ کہ کوئی کھانے پینے کا انتظام نہیں تھا۔ لباس بھی مختصر ہو کر ایک لنگی اور ایک
بنیان رہ گیا تھا۔ یہ ایک الگ داستان ہے کہ اس لباس میں گردمی سردی اور برسات کس
طرح گزری، جب اللہ تعالیٰ چاہے تو ہمت اور توفیق طا کر دیتے ہیں اور بڑی سے بڑی
مشکلات اور پریشانیاں پلک جھپکتے گزر جاتی ہیں۔ قصہ کوتاہ یہ کہ ذہن میں یہ بات
آئی کہ پڑوس میں سے پانچ روپے ادھار مانگ لئے جائیں اور ان روپوں سے خورد و نوش کا
انتظام کیا جائے۔ خیال آیا کہ اگر روپے دینے سے انکار کر دیا تو بڑی شرمندگی ہو
گی۔ پھر خیال آیا کہ جھونپڑی والے ہوٹل سے کھانا ادھار لے لیا جائے۔ طبیعت نے اس
بات کو بھی پسند نہیں کیا۔ یہ سوچ کر خاموش ہو رہا کہ اللہ چاہے گا تو کھانے کا
انتظام ہو جائے گا۔ اور میں کمرے سے باہر آیا۔ جیسے ہی دروازے سے قدم باہر نکالا۔
چھت سے پانچ روپے کا ایک نوٹ گرا۔ نوٹ اس قدر نیا تھا کہ زمین پر گرنے کی آواز
آئی۔ فرش پر جب ایک نوٹ پڑا ہوا دیکھا تو نامعلوم طریقے سے میرے اوپر دہشت طاری ہو
گئی لیکن یکایک ذہن میں ایک آواز گونجی یہ اللہ کی طرف سے ہے وہ نوٹ اٹھا لیا گیا
اور کھانے پینے کا بے فراغت انتظام ہو گیا۔’’
اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا
ہے کہ جب بندے کا ذہن کسی کام کی طرف لگ جائے تو اللہ تعالیٰ اس چیز کا اس کو
مشاہدہ کرواتے ہیں تا کہ یقین کامل ہو جائے۔ یہ قانون ہے کہ یقین مشاہدے کے بغیر
مکمل نہیں ہوتا۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی کا مشاہدہ کریں تو روزانہ ہمیں کئی قسم
کی مثالیں ملتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص دو سو فٹ اوپر ایک لمبے رسے پر بغیر
کسی سہارے کے بلاخوف ایک کنارے سے دوسرے کنارے جا رہا ہے۔ اگر ہم اس شخص کی زندگی
کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پہلے دن وہ شخص پانچ فٹ اونچے رسے پر چلا ہو
گا۔ جب کئی دن کی مشق کے بعد اسے اس بات کا یقین ہو گیا کہ وہ پانچ فٹ اونچے رسے
پر چل سکتا ہے تو پھر اس نے رسے کی بلندی دس فٹ کر دی اور مشق شروع کر دی جب اسے
یقین ہو گیا کہ اب وہ دس فٹ اونچے رسے پر چل سکتا ہے تو اس نے رسے کی اونچائی
بڑھانا شروع کر دی اور ایک دن آیا کہ اسے یہ یقین ہو گیا کہ وہ دو سو فٹ زمین سے
اوپر رسے پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک بلا خوف و خطر جا سکتا ہے۔ اگر دوران مشق اس
کا یقین ذرا بھر بھی متزلزل ہو جاتا تو وہ کبھی بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے یہ کام
نہ کر سکتا۔
انسان کی بنیادی ضروریات
میں سب سے اہم ہوا، پانی، دھوپ، چاند کی چاندنی وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا میں ایک بھی
آدمی اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ان بنیادی ضروریات میں سے کسی ایک پر بھی اس
کا اختیار ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ جب روٹی کپڑے مکان ک ذکر آتا ہے تو ہم کہتے
ہیں کہ اگر ہم اپنا اختیار استعمال نہ کریں گے تو یہ چیزیں حاصل نہیں کر سکتے۔
ان مفروضات سے منشاء یہ
ہرگز نہیں ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ میں بے اختیار ہوں اور وہ گھر بیٹھ جائے۔ مقصد
صرف یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ یقین پیدا ہو جائے کہ زندگی میں ہر علم اور ہر حرکت
من جانب اللہ ہے۔ انسان بھرپور کوشش کرے مگر نتیجہ پر نظر نہ رکھے نتیجہ اس قادر
مطلق پر چھوڑ دے جس کے ہاتھ میں ساری ڈوریاں ہیں۔ جدوجہد اور کوشش اس لئے ضروری ہے
کہ اللہ تعالیٰ کائنات میں حرکت چاہتا ہے اور اگر حرکت نہ ہو گی تو اعضاء منجمد ہو
جائیں گے۔ آدمی اپاہج ہو جائے گا۔ انسان جس مناسبت سے جدوجہد کرتا ہے جس مناسبت سے
عملی اقدام کرتا ہے بے شک اسے وسائل بھی اسی مناسبت سے نصیب ہوتے ہیں مگر اس کا یہ
مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قانون قدرت پر اسے دسترس حاصل ہو گئی۔
قانون یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے انسان کے لئے زمین و آسمان اور زمین و آسمان کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب
مسخر کر دیا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس تسخیر کو صرف اور صرف مادی
حدود میں استعمال کیا جائے اور دوسرا اور احسن طریقہ یہ ہے کہ وسائل کو اس لئے
استعمال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام وسائل انسان کے لئے پیدا کئے ہیں۔
استغناء اور یقین کے ضمن میں جو بنیادی باتیں ہیں وہ یہ ہیں کہ انسانی زندگی میں
اےسے بے شمار واقعات ہوتے ہیں جن کی وہ کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان
واقعات کے صدور میں اس کی کوئی عملی جدوجہد اور کوشش شامل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
رزق دینے کا وعدہ کیا ہے اور وہ خود ہی اس کے وسائل مہیا کرتا ہے۔ ایک دکان پر
بیٹھے شخص کا ایک گاہک کے آنے میں کتنا اختیار ہے۔
ہمارا خالق اللہ ہے جس نے
ہماری تمام ضروریات کی کفالت اپنے ذمے لے لی ہے۔ ضروریات کا پورا ہونا اور مسلسل
پورا ہونا اور بغیر کسی مادی قانون کے پورا ہونا انسان کو بالآخر یہ سوچنے اور
یقین کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ فی الواقع رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ ساری کائنات کا
خالق و مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور لیتا ہے۔ عزت، ذلت سب
اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی ابتداء ہے وہی انتہا، وہی ظاہر و باطن اور وہی ہر شئے پر
محیط ہے۔ اس منزل میں داخل ہوئے بغیر انسان کے اندر کبھی بھی استغناء پیدا نہیں
ہوتا اور جس بندے کے اندر استغناء پیدا نہیں ہوتا وہ راہ سلوک کا بھٹکا ہوا ایسا
مسافر ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔
انبیاء کرام کی ساری
تعلیمات پر روحانی نقطہ نظر سے اور قلبی مشاہدے کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ پتہ
چلتا ہے کہ انبیاء کی ساری تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ بندے کی زندگی کو اللہ تعالیٰ
کی طرف موڑ دیا جائے یعنی اگر بندہ انفرادی طور پر زندہ رہتا ہے تو اس لئے زندہ نہ
رہے کہ اس کو اس کی مرضی کے بغیر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے بلکہ اس لئے کہ اللہ
تعالیٰ چاہتے ہیں کہ وہ زندہ رہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر صلاحیتوں کا
ذخیرہ جمع کر دیا ہے تو جب اللہ تعالیٰ اسے توفیق دیں اور وہ ان صلاحیتوں کا
استعمال کرے تو اس کے ذہن میں یہ بات رہے کہ میری صلاحیتوں کا اظہار اس لئے ہو رہا
ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے۔
استغناء کا مطلب ہرگز یہ
نہیں کہ آدمی اپنی خواہشات کو ختم کر دے۔ یہ سراسر کوتاہ عقل کی دلیل ہے اس لئے کہ
زندگی خود خواہشات کا نام ہے۔ پانی پینا، بھوک، لگنا، سونا، جاگنا، بچوں کی خواہش،
بچوں کی تربیت کرنا، اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کا تقاضا پیدا ہونا۔ سب خواہشات
میں شامل ہیں۔ استغناء کا مطلب یہ ہے کہ تمام خواہشات پوری کی جائیں لیکن خواہشات کو
پورا کرنے میں انسان کا ذہن یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ چونکہ چاہتے ہیں لہٰذا اس لئے ہم
کر رہے ہیں۔ استغناء یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ وسائل عطا فرمائیں اور آدمی سوکھی
روٹی کھاتا رہے۔ استغناء کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کرے اللہ کے لئے کرے۔ اللہ
اگر مرغی دے تب بھی شکر کرے، اگر چٹنی کے ساتھ روٹی دے تب بھی شکر کرے اور خوش ہو
کر اللہ کی نعمتوں کا استعمال کرے۔ جب یہ بات کسی کی طرز فکر بن جاتی ہے تو یہ بات
اس کے مشاہدہ میں آ جاتی ہے کہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے، جو ہو چکا ہے، ہو رہا
ہے یا آئندہ ہونے والا ہے اس کا براہ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے یعنی جس
طرح اللہ تعالیٰ کے ذہن میں ہے اسی طرح اس چیز کا یا اس عمل کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ
نے فرمایا ہے کہ استغناء بغیر یقین کے پیدا نہیں ہوتا اور یقین بغیر مشاہدے کے
تکمیل نہیں پاتا اور جس آدمی میں استغناء نہیں ہے اس آدمی کا تعلق اللہ تعالیٰ سے
کم اور مادیت سے زیادہ ہے۔
تصوف اور روحانیت دراصل
ایسے اسباق کی دستاویز ہیں جن اسباق میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ
سکون کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر استغناء ہو۔ استغناء کے لئے ضروری ہے کہ
اللہ تعالیٰ پر توکل ہو۔ توکل کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر
ایمان ہو اور ایمان کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر وہ نظر کام کرتی ہو جو نظر
غیب میں دیکھتی ہے۔ بصورت دیگر کسی بندے کو کبھی سکون میسر نہیں آ سکتا۔ سکون ایک
کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور جس کے اوپر کبھی موت واقع نہیں ہوتی۔ یہ ہرگز
کوئی عارضی چیز نہیں لہٰذا ایسی چیزیں ایسی کیفیات جو عارضی اور فانی ہیں کبھی بھی
سکون نہیں دے سکتیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
کہ:
‘‘ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے
اور اللہ کی طرف لوٹ جاتنی ہے۔’’
جب سالک یا مرید کے ذہن
میں یہ آیت یقین کا درجہ اختیار کر لیتی ہے تو اس کے ذہن کی مرکزیت اللہ تعالیٰ ہو
جاتا ہے اور اگر یہ یقین غیر مستحکم ہو تو آدمی ایسے عقیدے اور ایسے وسوسوں میں
گرفتار ہو جاتا ہے جن میں ذہنی انتشار ہوتا ہے، پریشانی ہوتی ہے، غم اور خوف ہوتا
ہے۔
میرے مرشد کریم حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب اپنی زندگی کا ذاتی واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
عید کا چاند دیکھنے کے بعد بچوں کی عید کے سلسلے میں فکر لاحق ہوئی اور میں اپنے
ایک دوست کے پاس کچھ روپے ادھار لینے چلا گیا۔ دوست نے مجھ سے کہا کہ روپے تو میرے
پاس موجود ہیں مگر کسی کی امانت ہیں۔ طبیعت نے اس بات کو گوارہ نہ کیا کہ دوست کو
امانت میں خیانت کرنے کا مجرم قرار دیا جائے۔ وہاں سے چلتا ہوا میں بازار آ گیا۔
وہاں مجھے ایک دوست ملے۔ بہت اچھی طرح پیش آئے اور انہوں نے پیشکش کی کہ آپ کو عید
کے سلسلے میں کچھ روپے پیسے کی ضرورت ہو تو لے لیں۔ میرے پاس کافی رقم موجود ہے۔
نامعلوم طریقے پر میں نے ان کی پیشکش کو نامنظور کر دیا۔ انہوں نے کہا صاحب میں نے
آپ سے کسی زمانے میں کچھ روپے ادھار لئے تھے، وہ میں ادا کرنا چاہتا ہوں اور انہوں
نے میری جیب میں ساٹھ روپے ڈال دیئے۔ میں گھر چلا آیا اور ان ساٹھ روپوں سے عید کی
تمام ضروریات پوری ہو گئیں۔ اس واقعہ پر بہت غور طلب بات یہ ہے کہ دوست سے میں تیس
روپے ادھار لینے گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنے پیسے دلوا دیئے جو میری
ضروریات کے لئے پورے تھے۔ ظاہر ہے اگر تیس روپے قرض مل جاتا تو ضرورت پوری نہ
ہوتی۔ اس قسم کے بے شمار واقعات زندگی میں پیش آئے۔ ان بے شمار واقعات پیش آنے کے
نتیجہ میں یہ یقین مستحکم اور پختہ ہو گیا کہ ضروریات کے واحد کفیل اللہ تعالیٰ
ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وہ
کارندے جن کو اللہ تعالیٰ نے فی الارض خلیفہ کہا ہے اس بات پر کاربند ہیں کہ وہ
مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے وسائل فراہم کریں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ
فرماتے ہیں کہ کسان جب کھیتی کاٹتا ہے تو جھاڑو سے ایک ایک دانہ سمیٹ لیتا ہے اور
جو دانے خراب ہوتے ہیں یا گھن کھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی اکٹھا کر کے جانوروں
کے آگے ڈال دیتا ہے۔ جس زمین پر گیہوں بالیوں سے علیحدہ کر کے صاف کیا جاتا ہے
وہاں اگر آپ تلاش کریں تو مشکل سے چند دانے نظر آئیں گے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ کی مخلوق پرندے اربوں اور کھربوں کی تعداد میں دانہ چگتے ہیں تو یہ
معمہ حل نہیں ہوتا کہ کسان تو ایک دانہ نہیں چھوڑتا۔ ان پرندوں کے لئے کوئی مخصوص
کاشت نہیں ہوتی پھر یہ پرندے کہاں سے کھاتے ہیں؟
قانون یہ ہے کہ پرندوں کا
غول زمین پر اس ارادے سے اترتا ہے کہ ہمیں یہاں دانہ چگنا ہے، اس سے پہلے کہ ان کے
پنجے زمین پر لگیں قدرت وہاں دانہ پیدا کر دیتی ہے۔ اگر پرندہ کی غذا کا دارومدار
حضرت انسان یعنی کسان پر ہوتا تو سارے پرندے بھوک سے مر جاتے۔
دوسری مثال حضور بابا
صاحبؒ نے یہ ارشاد فرمائی ہے کہ چوپائے بہرحال انسانوں سے بہت بڑی تعداد میں زمین
پر موجود ہیں۔ بظاہر وہ زمین پر اگی ہوئی گھاس کھاتے ہیں درختوں کے پتے چرتے ہیں
لیکن جس مقدار میں وہ گھاس اور درختوں کے پتے کھاتے ہیں زمین پر کوئی درخت نہیں
رہنا چاہئے۔ لیکن قدرت ان کی غذا کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اتنی بھاری تعداد
میں درخت اور گھاس پیدا کرتی ہے کہ چرندے سیر ہو کر کھاتے ہیں لیکن گھاس اور پتوں
میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ ان درختوں اور گھاس کا تذکرہ ہے جس میں انسان کا کوئی
تصرف نہیں ہے۔ قدرت اپنی مرضی سے انہیں پیدا کرتی ہے، اپنی مرضی سے درختوں کی
پرورش کرتی ہے اور اپنی مرضی سے انہیں شاداب رکھتی ہے۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جو
زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں دو چار واقعات ایسے ضرور پیش آتے
ہیں جن کی وہ کوئی عقلی یا سائنسی توجیہہ پیش نہیں کر سکتا۔ انہونی باتیں ہوتی
رہتی ہیں مگر آدمی اتفاق کہہ کر گزر جاتا ہے حالانکہ کائنات میں کسی اتفاق کسی
حادثہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔ ضرورت صرف اور صرف تفکر کی ہے۔ تفکر کے سلسلہ میں اللہ
تعالیٰ کا قرآن پاک میں ارشاد ہے:
‘‘ہماری نشانیوں پر غور کرو
اور تفکر کرو اور عاقل بالغ باشعور سمجھدار اور فہیم لوگ وہ ہیں جو ہماری نشانیوں
پر غور کرتے ہیں۔’’
حضور قلندر بابا اولیاءؒ
فرماتے ہیں:
‘‘انبیائے کرام جب کسی چیز
کے متعلق سوچتے ہیں تو اس چیز کے اوپر اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم
نہیں کرتے۔ ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی ہے کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا
مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں بلکہ ہم سے ہر چیز کا
رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے ہیں تو اس چیز کی
طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا۔ انہیں کسی چیز کی طرف
توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی تعلق
نہیں رکھتی اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔ جب ان کی طرز
فکر یہ ہوتی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حرکت میں پہلے اللہ تعالیٰ کا احساس ہوتا تھا
اللہ تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مدنظر قرار پاتا تھا اور قانون کی
رو سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں اور ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کا
قائم مقام بن جاتا تھا۔
استغناء کے ضمن میں غوث
علی شاہؒ صاحب فرماتے ہیں کہ سالک کو تمام ممکنات و موجودات کو واجب الوجود سے
خیال کرنا اور ان فروعات کو اصل اصول سے سمجھنا چاہئے اور تمام وسیلے اور واسطے
درمیان سے اٹھا ڈالنے چاہئیں اور جو کرو جان لو کہ اسی کی مشیت سے کرتے ہیں اور جو
آفت و راحت کسی سے پہنچے منجانب اللہ سمجھے جیسے کتے کو کوئی پتھر مارے تو وہ پتھر
کو نہیں دیکھتا بلکہ جان لیتا ہے کہ مارنے والا کوئی اور ہے پتھر خود نہیں لگا اسی
واسطے پتھر مارنے والے کی طرف دوڑتا ہے۔
رہ عقل پیچ بر پیچ نیست
برعارفان جز خدا ہیچ نیست
ترجمہ: عقل کا راستہ
سوائے مشکلات کے اور کچھ نہیں۔ عارفوں کے لئے خدا کے سوا اور کچھ نہیں۔
کسی شیخ کو بیٹھے بیٹھے
خیال آیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ اللہ ہر وقت اپنا احسان جتاتا رہتا ہے، کبھی کہتا
ہے کہ میں کھلاتا ہوں، میں پلاتا ہوں اور کبھی کہتا ہے کہ میں ہی رزق فراہم کرتا
ہوں۔ اگر ہم کھانا نہ کھائیں تو کوئی طاقت ہمیں کھانے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ یہ
سوچ کر کھانا کھانا چھوڑ دیا۔ جب بیوی بچوں نے زیادہ پریشان کیا تو گھر چھوڑ کر
ایک پرانے قبرستان میں وہ جا بیٹھے۔ شام ہوئی تو ایک صاحب اپنی منت پوری کرنے
کےلئے قبرستان میں موجود ایک مزار پر حاضر ہوئے۔ فاتحہ کے بعد انہوں نے شیخ کو
تبرک دیا۔ شیخ کے انکار اور اس شخص کے اصرار نے عجیب صورت حال پیدا کر دی۔ وہ شخص
یہ سمجھ کر کہ شیخ کوئی دیوانے ہیں ایک پڑیا میں کچھ لڈو لپیٹے اور جھاڑی کے نیچے
رکھ دیئے کہ جب اس شخص کے حواس درست ہوں تو کھا لے گا۔ آدھی سے زیادہ رات گزر گئی،
قبرستان میں چور داخل ہوئے اور انہوں نے چوری شدہ مال کی تقسیم شروع کی تو شیخ اٹھ
بیٹھے۔ چوروں کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ شخص کوئی مخبر ہے۔
انہوں نے جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹ کر پوٹلی میں باندھ لیا اور شیخ پر سوالات کی
بوچھاڑ کر دی۔ شیخ کوئی معقول جواب نہ دے سکے۔ اس تکرار میں چوروں میں سے ایک چور
کی نظر جھاڑی کے نیچے رکھی ہوئی پڑیا پر پڑی۔ پڑیا کو کھول کر دیکھا تو اس میں سات
لڈو تھے اور چور بھی اتفاق سے سات تھے۔ چوروں کا سردار بولا کہ یہ شخص بھی کوئی
چور ہے اور بہت چالاک چور ہے، اس نے لڈو ؤں میں زہر ملا دیا ہے تا کہ ہم سب کھا کر
مر جائیں اور یہ ہمارے مال پر قبضہ کر لے۔ سردار نے کہا یہ سارے لڈو اسے کھلا دیئے
جائیں تا کہ اس کی سازش خود اس کو ہلاک کر دے۔ دو آدمیوں نے دونوں پیر پکڑے، دو
آدمیوں نے دونوں ہاتھ، ایک آدمی نے سر پکڑا، ایک آدمی سینے پر بیٹھ گیا اور ایک
آدمی نے ان کا منہ کھول کر اس میں لڈو ڈال دیا۔ جب شیخ نے اس حال میں بھی لڈو
کھانا نہیں چاہا تو اس شخص نے زور زور سے تھپـڑ
رسید کئے اور انگلی کے ذریعے لڈو شیخ کے حلق میں اتار دیئے۔ اس جبر و تشدد کے
دوران ساتوں لڈو شیخ کے پیٹ میں پہنچ گئے۔ یہ کارنامہ سر انجام دینے کے بعد ساتوں
چور سر پر پیر رکھ کر بھاگ گئے۔
شیخ اٹھے اور بہت حسرت و
یاس کے ساتھ انہوں نے جب آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو آواز آئی۔ ‘‘اے مغرور بندے!
گھر چلا جا، ورنہ ہم روزانہ اسی طرح کھلائیں گے۔’’
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
بڑے ترک و تجرید کی حالت میں رہے ہیں۔ تمام عمر کہیں گھر نہیں بنایا ہمیشہ
قلندرانہ وار پھرتے رہے۔ ایک روز آپ کہیں تشریف لے جارہے تھے اثنائے راہ میں بارش
ہونے لگی۔ ناچار ایک درخت کی آڑ میں کھڑے ہو گئے اتنے میں دیکھتے کیا ہیں ایک
لومڑی دوڑ کر اپنے بھٹہ میں گھس گئی آپ کو خیال آیا کہ سبحان اللہ جانوروں کے لئے
تو ٹھکانہ اور میں خانہ بدوش، خیال کے آتے ہی ایک مکان جواہر انگار نمودار ہوا اور
ندا آئی کہ اے دوست اگر مکان درکار ہو تو یہ موجود ہے۔ ہمارے پاس کسی شئے کی کمی
نہیں۔ لیکن تمہارے واسطے یہ رتبہ قلندری اس مکان سے اعلیٰ ہے۔ آپ نے عرض کیا کہ یا
الٰہی میں اسی حال میں خوش ہوں مجھ کو اور کچھ درکار نہیں۔ ان کی تقدیر میں یونہی
لکھ دیا تھا کہ یہ ہمیشہ خانہ بدوش پھریں گے پھر مکان کیونکر لیتے آخر انہی کی
زبان سے اقرار لے لیا کہ میں کچھ نہیں چاہتا غرض یہ ہے کہ مقدر سے زیادہ کسی کو
کچھ نہیں ملتا۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ
فرماتے ہیں کہ زاہدانہ زندگی یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہشات کو فنا کر کے خود فنا ہو
جائے۔ آدمی اچھا لباس پہننا ترک کر دے پھٹا پرانا اور پیوند لگا لباس پہننا ہی
زندگی کا اعلیٰ معیار قرار دے لے تو دنیا کے سارے کارخانے اور چھوٹی فیکٹریاں بند
ہو جائیں گی اور لاکھوں کروڑوں لوگ بھوک زدہ ہو کر ہڈیوں کا پنجر بن جائیں گے۔
اللہ نے زمین کی کوکھ سے وسائل اس لئے نہیں نکالے کہ ان کی بے قدری کی جائے ان کو
استعمال نہ کیا جائے۔ اگر روکھا سوکھا کھانا ہی زندگی کی معراج ہے تو بارشوں کی
ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ زمین بنجر بن جائے گی۔ زمین کی زیبائش کے لئے اللہ تعالیٰ
نے رنگ رنگ کے پھولوں، پتوں، درختوں، پھلوں اور کوہساروں اور آبشاروں کو بنایا ہے۔
جب حضرت عبدالقدوس
گنگوہیؒ نئی فقیری حاصل کر کے گھر میں تشریف لائے اور اتفاقاً قحط ہو گیا۔ آپؒ نے
ایک دیگ پلا ؤ کی مسلمانوں کے واسطے باورچی سے اور ایک دیگ ہندو ؤں کے واسطے برہمن
سے پکوائی اور شہر میں منادی کروا دی کہ تمام مسلمان اور ہندو آئیں اور کھائیں۔
دیگوں کا یہ حال تھا کہ جتنا کھانا دیگ میں سے نکالتے تھے پھر اسی قدر زیادہ ہو
جاتا تھا اور ہر دم گرما گرم۔ تین دن یہی حال رہا۔ چوتھے روز الہام ہوا کہ عبدالقدوس
فقیری تو کر چکا مگر اب رزاقی میں بھی قدم رکھنے لگا۔ بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ تم
کون ہو۔ عرض کیا کہ تیرا بندہ۔ بھلا وہ لوگ کون ہیں، کہا کہ تیرے بندے۔ حکم ہوا کہ
پھر تو کون ہے دخل دینے والا۔ کیا ہم سے زیادہ حکمت والا یا ہم سے زیادہ مخلوق پر
مہربان ہے۔ اس کے بعد شاہ عبدالقدوس نے توبہ کی اور وہ دیگیں توڑ ڈالیں۔ پس اس کی
مخلوق ہے جس طرح چاہے رکھے۔ ہم سے زیادہ حکیم و رحیم ہے۔ جدھر رب ادھر سب۔
اس واقعہ میں یہ بات بیان
کی گئی ہے کہ ہر امر اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور کوئی امر اس کی اجازت کے بغیر
نہیں ہو سکتا۔ قحط میں ان بزرگ نے دخل اندازی کی اور لنگر جاری کیا۔ جس پر ان کی
پرش کی گئی کہ ‘‘تو کون ہوتا ہے ہمارے حکم میں دخل دینے والا’’ اللہ تعالیٰ بندوں
سے زیادہ جانتے ہیں اور اللہ کا کوئی حکم بغیر کسی وجہ کے نہیں ہوتا۔ لازماً اس
میں کوئی حکمت ہوتی ہے۔
کسی شخص نے ایاز سے سوال
کیا کہ بندہ کے کیا معنی ہیں۔ اس نے کہا کہ پرسوں آنا۔ وہ حسب وعدہ پہنچا تو کیا
دیکھتا ہے کہ ایاز کے گلے میں طوق پاؤں میں زنجیر ہاتھوں میں ہتھکڑی پڑی اور وہ کشاں
کشاں لئے جاتے ہیں۔ پوچھا کہ یہ کیا کہا کہ بند ہ کے یہی معنی ہیں۔ اس دن تعزمن
تشآء کی شان ظہور تھا آج تذل من تن تشآء کی شان نمودار ہے۔ نہ اس میں کچھ خوشی تھی
نہ اس حال میں کچھ رنج ہے۔ ہم جیسے تھے ویسے ہی اب بھی ہیں نہ وہ رہا نہ یہ رہے۔
حضرت غوث علی شاہؒ صاحب
سے کسی نے سوال پوچھا کہ حضرت جب یہ قاعدہ مسلم ٹھہرا کہ ہر امر وابستہ تقدیر الٰہی
ہے تو پیر و مرشد کی کیا ضرورت ہے اور وہ معاملات مقدر میں کیا تصرف کر سکتا ہے۔
اس وقت ارشاد ہوا کہ یہ تو بجا اور درست ہے کہ پیر تقدیر میں کچھ تغیر نہیں کر
سکتا لیکن پیر باخبر کی تدبیر بھی موافق تقدیر ہوتی ہے اور طالب کو غائیت تقدیر تک
پہنچا دیتا ہے۔ چنانچہ نقل ہے کہ:
‘‘کسی شہر میں ایک بڑا امیر
کبیر تھا۔ اس کے مکان پر ایک بزرگ رہا کرتے تھے۔ امیر کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔
اس بزرگ نے فرشتہ تقدیر سے اس لڑکے کا مقدر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک گھوڑا
ہمیشہ اس کے تھان پر رہا کرے گا پھر اس امیر کے گھر دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو معلوم
ہوا کہ یہ چڑی مار ہو گا پھر اس کے گھر ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کا حال منکشف ہوا
کہ یہ بیوہ ہو گی، بازار میں بیٹھے گی اور ہر شب ایک مرد اس پاس رہے گا۔ وہ فقیر
وہاں سے چلا گیا اور ایک مدت کے بعد اس شہر میں آیا اور امیر کا حال دریافت کیا۔
معلوم ہوا کہ سب کارخانہ درہم برہم ہو گیا ہے۔ ایک لڑکا تو سواروں میں پانچ روپوں
کا نوکر ہے۔ دوسرا لڑکا چڑی کا پیشہ کرتا ہے اور اس کی لڑکی بازار میں بیٹھ گئی
ہے۔ وہ فقیر یہ حال سن کر بڑے لڑکے کے پاس گیا۔ اگرچہ خود محتاج تھا مگر فقیر کی
خدمت کرتا رہا۔ چند روز کے بعد فقیر نے ہدایت کی کہ تو نوکری چھوڑ دے اور گھوڑا
اپنا بیچ ڈال۔ اس کو طرح طرح کے خیال پیدا ہوئے لیکن فقیر کا معتقد ہو گیا تھا
ایسا ہی کیا گھوڑا اچھے آدمیوں کو بکا اگلے دن یا اجازت درویش ایک کم قیمت ٹٹو
خریدار اور بیچ ڈالا یہی کام کرتا رہا چنانچہ روز میں مالا مال ہو گیا۔ فقیر نے
کہا بس تم یہی کام کرو تمہارا تھان گھوڑے سے خالی نہ رہے گا، روز خریدو اور بیچو
اب ہم جاتے ہیں۔ پھر دوسرے لڑکے یعنی چڑی مار کے گھر گیا۔ اس کی کیفیت دریافت کی
اور کہا کہ جب شکار کے لئے جا ؤ تو ہم کو ساتھ لے چلو۔ دوسرے روز دونوں جنگل پہنچے
اور جال لگا دیا۔ فقیر نے کہا کہ جب تک شہباز تیرے جال میں نہ آئے کھینچو مت۔ وہ
بولا کہ حضرت بھلا میری تقدیر ایسی کہاں، دو آنہ روز بھی مل جائیں تو غنیمت ہے۔
فقیر نے سمجھایا کہ خیر تو دیکھ تو سہی غرض بہت سے جانور آئے اور نکل گئے وہ چپ
بیٹھا رہا آخر شام کے وقت ایک شہباز جال میں آ ہی پھنسا۔ چڑی مار نہایت خوش ہوا
اور سو روپیہ کے وہ جانور بیچا۔ فقیر نے کہا کہ یہ میری بات یاد رکھ جب تک شہباز
ہی تیرے دام میں نہ پھنسے دوسرے جانور کو نہ پکڑنا۔ چند روز میں وہ بھی اس طریقے
سے خوشحال اور دولتمند ہو گیا۔ اس کے بعد وہ بیوہ عورت کے پاس گیا اور کہا کہ آج
یہ کام کر کہ جب تک کوئی سو روپیہ ایک شب کے تجھ کو نہ دے اس کے پاس مت جا۔ وہ
بولی میاں صاحب میری دو آنہ کی اوقات چھوٹا منہ بڑی بات بھلا مجھ کو سو روپے والا
کیوں پوچھے گا۔ فقیر نے کہا کہ خیر اس کا تجربہ کر دیکھ اس نے تعمیل حکم کی اور جو
خواہش مند آیا اس سے سو روپیہ مانگے۔ لوگوں نے کہا کہ تیری عقل ماری گئی ہے۔ آخر
آدھی رات کے قریب کوئی امیر آنکھوں کا اندھا آن پھنسا۔ چند روز میں وہ عورت بھی
مالا مال ہو گئی۔ فقیر نے وصیت کی کہ سو روپیہ سے کم قبول نہ کیا کر تجھ کو کوئی نہ
کوئی مل ہی جایا کرے گا۔ وہ بولی کہ حضرت آپ تو بزرگ آدمی ہیں کچھ ایسی ہمت اور
دعا کیوں نہیں فرماتے کہ میں ان افعال شنیعہ کی علت سے پاک ہو جا ؤں۔ انہوں نے
فرمایا کہ سنو صاحب ہم تقدیر شکن نہیں ہیں یہ تو جو کچھ ہو رہا ہے مٹ نہیں سکتا۔
اگر خدا کی طرف توجہ ہے تو اسی حال میں وہ بھی سہی۔ یہ کہہ کر رخصت ہو گئے۔ البتہ
پیر باخبر نے ہر ایک کو تحصیل دولت و مال کی ہدایت اسی راہ سے کی جو اس کے لئے
مقدر تھا۔ پس تقدیر کا بدل دینا پیر کا کام نہیں بلکہ پیر دانا طالب کو اسی راہ سے
منزل مقصود کی راہنمائی کرتا ہے جو اس کے لئے مقدور و مقسوم ہے۔
ہر انسان کے شعور میں
توجہ کی ایک مخصوص سمت اور مقدار ہے۔ ایک طرف توجہ کرنے سے دوسری طرف توجہ ہٹ جاتی
ہے۔ کسی انسان کو پرکھنا ہو تو اس کا رجحان دیکھنا پڑتا ہے کہ اس کی توجہ زیادہ تر
کس طرف ہرتی ہے۔ اگر کوئی انسان دنیا کے کاموں کی فکر میں لگا رہے تو بالآخر وہ
عقبیٰ سے غافل ہو جائے گا اور اگر دنیا کی فکر سے بچے گا تو آخرت کی فکر میں لگا
رہے گا۔ یہ عام فہم بات ہے کہ جب کسی پودے کو پانی نہیں ملتا تو وہ سوکھ جاتا ہے۔
اسی طرح اگر روح کو اس کی غذا (عبادت) نہ ملے تو وہ سوکھ جائے گی اور اگر کوئی خاردار
جھاڑیوں کو پانی دے تو ان بیکار جھاڑیوں کی نشوونما ہو گی۔ عقل کی بات تو یہ ہے کہ
انسان پھل دار پودوں کو پانی دے اور کانٹوں والی جھاڑیوں کو پانی نہ دے۔ لہٰذا
انسان کو روح انسانی کی آبیاری کرنا چاہئے نہ کہ نفسانی خواہشات کی۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں
کہ دنیا کے مخمصوں کو جسم تک محدود رکھو، قلب تک نہ پہنچنے دو۔ ہر چیز کو اپنی جگہ
پر رکھو، سرمہ آنکھوں کے لئے ہوتا ہے نہ کہ کانوں پر لگانے کیلئے۔ دل کا کام جسم
سے لینا مناسب نہیں۔ مجاہدے اس وقت تک ہی ہوتے ہیں جب تک انسان مجسم روح اور قلب
نہ بن جائے۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ اگر تو مجسم جسم ہے تو مجاہدوں کو اختیار
کر ایسے شخص کے لئے راہ طلبی مظہر ہے۔ انسان کا جسم ایندھن ہے اور روح سدرٰ
المنتہیٰ کی شاخ ہے۔ مال و دولت کی تلاش کے بجائے استغناء کی تلاش کی جائے۔ یہ
مقصود اعظم کو حاصل کرنے کے برابر ہو گا۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
امارت
کیا شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ
زورِ حیدریؓ تجھ میں نہ استغنائے سلمانیؓ
نہ
ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ
پایا میں نے استغناء میں معراجِ مسلمانی
٭٭٭٭٭
میاں مشتاق احمد عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
"ذہن کو آزاد کر کے کسی
بندے کی خدمت میں پندرہ منٹ بیٹھیں۔ اگر بارہ منٹ تک ذہن اللہ کے علاوہ کسی اور
طرف متوجہ نہ ہو تو وہ بندہ استاد بنانے کے لائق ہے۔ انشاء اللہ اس سے عرفان نفس
کا فیض ہو گا۔"
اس کتاب کی تیاری میں
مجھے بیشمار کتابوں سے اچھی اچھی باتیں حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ آپ کو انشاء
اللہ میری یہ کاوش بہت پسند آئے گی اور سلوک کے مسافروں کو وہ آداب حاصل ہو جائیں
گے جو ایک مرید یا شاگرد کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے
کہ مجھے سلسلہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر
محیط ہو اور مجھے تمام عالمین میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ (آمین)
میاں مشتاق احمد عظیمی