Topics

کیفیات و واردات سبق ۴


سید اصغر علی ظفر ۔۔۔

۲۴۔ نومبر : آج سے چو تھے سبق کا آغاز کیا اللہ تعالیٰ کے فضل و کر م سے تصور قائم ہو گیا میں نے دیکھا کہ روشنیوں کا آبشار میرے اوپر گر رہا ہے اور یہ رو شنیاں سر میں سے جذب ہو کر پیروں کے ذریعے EARTHہو رہی ہیں۔ جس وقت رو شنیاںسر میں جذب ہو تی ہیں ا س کا رنگ نیلا ہو تا ہے اور جب زمین میں ارتھ ہوتی ہیں تو بے رنگ ہو جا تی ہیں ۔ یوں سمجھئے کہ رنگین لہروں کا رنگ میرے جسم میں پیو ست ہو جا تا ہے کچھ دیر بعد دیکھا کہ میں ایک گلوب میں ہوں اور اس گلوب کے اندر نیلا رنگ بھرا ہوا ہے ۔ یکا یک ایک وسیع و عریض گنبد پر نظر پڑی جس کا رنگ سبز تھا ۔

صبح کی مشق کے دو ران دیکھا کہ میرا سر کھل گیا اور رو شنیوں کے دو مجسم پرت میرے سراپا میں داخل ہو گئے اور انہو ں نے میرے اندر صفا ئی شروع کر دی پھر یہ مجسم پرت روشنی میں تحلیل ہو کر  پیروں کے راستے باہر نکل گئے ۔ روحانی یا جسمانی صفائی کے بعد نیلی شعاعیں تیزی کے ساتھ میرے جسم میں داخل ہو نے لگیں ۔

۲۵۔ نومبر : مشق کے دوران گنبد کی طر ف خیال چلا گیا ۔ دیکھا کہ جو رو شنیاں نیچے آرہی ہیں وہ اصل میں سفید رنگ کی ہیں لیکن گنبد سے گزرتے ہی نیلی ہو جا تی ہیں یہ بھی دیکھا کہ گنبد کی چھت پر رنگوں کے دائرے بنے ہو ئے ہیں ۔پہلا دائرہ بڑے قطر کا ہے پھر اس سے چھو ٹا پھر دائروں کے قطر بتدریج چھوٹے ہو تے چلے گئے ۔ان دائروں میں مو تی اور خوبصورت پتھر جڑے ہو ئے ہیں پھر دیکھا کہ  گر تی ہو ئی روشنیوں کا رنگ وقفے قفے سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اور میرا جسم مقنا طیس کی طر ح کھینچ کر اس کو اپنے اندر جذب کر رہا ہے ۔

۲۷۔ نومبر : دیکھا کہ کو ئی چیز گنبد کی چھت پر بیٹھ گئی اور اس کو ہلانا شروع کر دیا ۔ گنبد کا ہلنا تھا کہ گر ی ہو ئی رو شنیوںمیں شدت پیدا ہو گئی۔ رو شنی کی اس مو سلا دھار با رش کو میں اپنے جسم پر محسوس کر رہا تھا ۔اور کبھی کبھی میرے اوپر کپکپی کی کیفیت طا ری ہو جا تی تھی ۔ذہن میں سوال پیدا ہو ا کہ یہ رو شنیاں کہاں سے آتی ہیں ؟ پتہ چلا کہ گنبد کی چھت پر ایک اینٹینا  کاٹاور ہے جو فضا سے روشنیوں کو جذب کر کے دائروں اور موتیوں کے ذریعے گنبد کے اندر بکھیر رہا ہے ۔

۲۔ ستمبر : طر ح طر ح کے خوبصورت مناظر دیکھے ۔۔۔عالیشان عمارتیں باغات ، پھول ، پودے تالاب ، یہ سب ٹرا سپیرنٹ تھے ہر طرف روشنیوں کا دور دورہ تھا۔ 

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔