Topics

ٹائم اسپیس


آپ نے ایسے مر یض ضرور دیکھے ہو نگے  کہ ا ن کے دما غ میں یہ بات ضرور نقش ہو گئی  ہےکہ  وہ اگر گھر سے باہر نکلیں گے تو ان کا ایکسیڈنٹ ہو جا ئے گا ۔ خیال کی طاقت اتنی زیادہ ہو تی ہے کہ وہ گھر سے با ہر نکلناچھو ڑ دیتے ہیں ۔کچھ لو گوں کے ذہن میں چھپکلی یا بلی کا خوف بیٹھ جا تا ہے۔اوریہ خوف ان کے دماغ سے اس طر ح چمٹ جا تا ہے کہ وہ ذہنی مر یض بن کر رہ جا تے ہیں حا لانکہ اس خوف کی بظا ہر کو ئی وجہ نہیں ہو تی بس ایک مفرو ضہ کے تحت خیال خوف بن کر دماغ  پر چھا جا تا ہے ۔

میری پاس ایک مریضہ لا ئی گئی جس کو یہ  وہم ہوگیا تھااس پر جادو کیا گیا ہے اور اس جا دو کی وجہ سے کھا نے کے بعد اس کے پیٹ میں درد ہو جا تا ہے ۔ شوہر اس بات کو بے بنیاد قرار دیتے تھے ۔میری تشخیص بھی یہی تھی کہ محض وہم ہے ۔ علاج کے سلسلے میں ہضم سے متعلق کچھ دوائیں دے دی گئیں لیکن مر ض میں افا قہ کے بجا ئے اضا فہ ہو گیا اور درد کی شدت اتنی بڑھئی کہ مریضہ کو دماغی دورے پڑنے لگے۔ اسپتال میں داخل کر دیا گیاس علاج پر کئی ہزار رو پے خر چ ہو نے کے با وجود مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق مرض دگر گوں ہو گیا اس کے بعد نفسیاتی اسپتال میں ایک ماہ تک علاج ہوتارہا پھر عامل حضرات سے رجوع کیا گیا ۔جب کسی بھی صورت سے فائدہ نہیں ہو ا تو مریضہ کو میرے پاس دو بارہ لا یا گیا ۔ میں نے نہا یت اطینان  اور سکون کے ساتھ ان کے تمام  حالات سنےاور ان سے کہا میں دیکھ کربتاؤں گا کہ آپ کے اوپر کس قسم کا اثر ہے اور ان کو ہدا یت کر دی آپ دو تین روز کے بعد معلوم کر یں ۔ پندرہ رو ز تک وہ  اپنے بارے میں مجھ سے پو چھتی رہی اور میں ان سے فرصت نہ ملنے کی معذرت کرتا رہا ۔ جب ان کا یقین اس نقطے پر مر کوز ہوگیا کہ میرے سوا ان کا علاج کو ئی نہیں کر سکتا تو میں نے ان سے کہا " آپ کے اوپر زبر دست اثرہے اوراس کا علاج یہ ہے کہ آپ صبح آذان سے پہلے اتنے بج کر اتنے منٹ پر بند آنکھوں سے میرا تصور کر کے بیٹھ جا ئیں ۔ میں اپنی روحانی قوت سے یہ اثر ختم کر دوں گا ۔

 اب آپ مریضہ کی زبان سے ان کا حال سنئے ۔ مریضہ نے مجھے بتا یا :"

اس خیال سے کہ صبح وقت مقررہ پر میری آنکھ نہ لگ جا ئے  میں ساری رات جا گتی رہی گھڑی دیکھ کر وقت مقررہ پر آنکھیں بند کر بیٹھ گئی میں نے محسوس کیا کہ آپ کے اندر سے میرے دما غ میں لہریں منتقل ہو رہی ہیں ۔ جیسے ہی یہ لہریں میرے دماغ سے ٹکرائیں میں نے دیکھا کہ میں ایک پر انے قبرستان میں ہوں وہاں دو پر انی قبر وں کے درمیان ایک جگہ میں نے مٹی کھو دی اس میں سے ایک گڑ یا بر آمد ہو ئی ۔ اس گڑیا کے سینے پر دل کی جگہ میرا نام لکھا ہوا تھا ۔میں نے وہ گڑیاقبر ستان کے کنواں میں ڈال دی ۔اور اسی وقت پیٹ کا درد ختم ہو گیا ۔

وقت مقررہ پر میں نے صرف یہ عمل کیا کہ اپنے خیال کی قوت سے مریضہ کو یہ بتا یا کہ آپ کے اوپر جو اثر تھا وہ ختم ہو گیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر کوئی اثر یا جا دو نہیں تھا ۔

قانون تخلیق کے تحت انسان تین پر ت کا مجموعہ ہے ایک پر ت صفا تی دوسرا ذاتی ہے اور تیسرا پر ت ذات اور صفات کو الگ الگ کر تاہے۔اس ہی پر ت کو ہم جسد خاکی کہتے ہیں ۔

ہر پر ت کے محسوسات جداگانہ ہیں ذات کا پر ت وہم اور خیال کو بہت قریب سے دیکھتا، سمجھتا اور محسوس کرتاہے صفات کا پر ت وہم اور خیال کو تصور بناکر جسد خاکی کو منتقل کر تا ہے ۔ اور تصور ات کو معنی کا لباس پہنا کرخوشی یا غم کا مفہوم دیتا ہے ،اگر اس کو ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو کسی خو بصور ت با غ سے متعلق ہوں تو اس کے اندر رنگین لہریں رنگین رو شنیاں ، خوشبو کے طو فان،حسن کے حجانات رو نما ہو نے لگتے ہیں اور ایسی معلومات فراہم کی جا ئیں جو کسی حا دثات سے تعلق رکھتی ہوں تو اس کے اندر رنگین رو شنیوں کے بجا ئے تا ریکی ،خوشبو کی جگہ بدبو اور حسن کی جگہ بد صورتی ، خو شی کی جگہ غم ، امید کے بجا ئے ما یو سی اور محبت کی جگہ نفرت جیسے رحجانات رو نما ہو نے لگتے ہیں ۔

قدرت نے جس پر ت کو غیر جانب دار(NEUTRAL) بنا یاہے اس میں دو قسم کے نقوش ہوتے ہیں ایک نقش با طن جس کے اندر لطیف انوار کا ذخیرہ ہو تا ہے ۔اور ٹائم اسپیس (TIME-SPACE)کا عمل داخل نہیں ہو تا ۔ دوسرا نقش ظاہر جس کے اندر غر ض پسندی ، حسد ، ذہنی تعیش ، احساس کمتری کم ظر فی اور تنگ نظری جیسے جذبات تشکیل پا تے ہیں ۔

اصل بات خیالا ت کو معنی پہنانے کی ہے خیالات کو جو معنی دئیے جا تے ہیں وہ تصور بن جا تے ہیں اور پھر یہی تصور مظاہراتی خدوخال اختیار کرکے ہماری زندگی کی راہ متعین کر تا ہے ۔ غم اندوز سے لبریزیا آرام و آسائش سے بھر پور ۔

تصورات میں اگر پیچیدگی ہے تو الجھن ، اضطراب اور پر یشانی کا جا مہ پہن لیتا ہے اور جب ایسا ہو تا ہے تو نقش با طن میں خراشیں پڑ جا تی ہیں ۔یہی خراشیں اخلا قی امر اض کی بنیاد ہیں ۔ ان ہی خرا شوں سے بے شمار امراض پیدا ہوتے ہیں مثلا ً مرگی ، دماغی فتور کا عارضہ ، ما لیخولیا ، خفقان ، کینسر ، بھگندر ، دق اور سیل وغیرہ ۔

جب تک ہماری بنیادی خواہشات غیر آسودہ رہتی ہیں تو ہم مغموم رہتے ہیں یہ غیر آسودگی ہمیں غیر مطمئن اور مضمحل رکھتی ہے ۔زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم ایسی چیز کی تلاش میں سر گر داں رہتے ہیں جس میں مسرت کا پہلو نمایاں ہو ۔ چو نکہ ہم غم زدہ یا پر مسرت زندگی گزارنے سے نا واقف ہیں اس لئے زیادہ تر یہ ہو تا ہے کہ ہم مسرت کی تلاش میں اکثر بیشتر غلط سمت قدم بڑھا تے ہیں اور نا واقفیت کی بنا پر اپنے لئے ایسا راستہ منتخب کر لیتے ہیں جس میں تا ریکی کے سوا کچھ نہیں ہو تا ۔ہم جب زندگی کا تجز یہ کر تے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ زندگی سے روزو شب اور ماہ و سال آدھے سے زیادہ آزردگی اور ما یوسی میں گزر جا تے ہیں ۔ایسا اس لئے ہو تاہے ہم نہیں جا نتے کہ وہ کون سا راستہ ہے جس راستے پر مسرت کی روشن قندیلیں ا پنی رو شنی بکھیر رہی ہیں ۔وہ کون سی فضا ہے جس میں شبنم موتی بن جا تی ہے وہ کون سا ماحول ہے جو معطر اور پر سکون ہے ۔وہ کون سی خوشبو ہے جس سے شعور رو شن ہو جا تا ہے ۔ہم نا خوش اور غیر مطمئن اس لئے ہو تے ہیں ہمارے اندر جو خواہش پیدا ہو تی ہے وہ شعوری ہے اور ہم خواہش کے پس پر دہ ضرورت سے نہ واقف ہیں ۔

 

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔