Topics

پیش لفظ


بسم اللہ الرحمن الر حیم

پیش لفظ

 

حضو ر قلندربابا اولیا ء ؒ جو اس دور کے عظیم روحانی ہستی ہیں اپنی گر انقدر تصنیف " تذکرہ تاج الدین بابا ؒ " ارشاد فر ما تے ہیں :۔

" انسانوں کے درمیان ابتدا ئے آفر نیش سے بات کر نے کا طر یقہ رائج ہے " آواز کی لہریں جن کے معنی متعین کر لئے جا تے ہیں سننے والوں کو مطلع کر تی ہے ۔ یہ طر یقہ اس ہی تبا دلہ کی نقل ہے جو انا کی لہروں کے درمیان ہو تا ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہو نٹوں کی جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں ۔ یہ طر یقہ بھی پہلے طر یقے کا عکس ہے جانور آواز کے بغیر ایک دو سرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں ۔یہاں بھی انا کی لہریں کام کر تی ہیں درخت بھی آپس میں گفتگو کر تے ہیں یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درخت میں نہیں ہو تی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہو تی ہے جو ہزاروں میل کے فا صلے پر واقع ہے یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے ۔ کنکروں ، پتھروں مٹی کے ذرات میں من و عن اسی طر ح تبا دلہ خیال ہو تا ہے ۔ انبیا ء اور روحانی طا قت رکھنے والے انسانوں کے کتنے ہی واقعات اس کے شاہد ہیں ساری کا ئنات میں ایک ہی لا شعور کا ر فر ما ہے ۔ اس کے ذریعے غیب وشہود کی ہر  لہردوسری لہر کے معنی سمجھتی ہے ،چا ہے یہ دو نوں لہریں کائنات کےدومخالف کنا روں پر واقع ہو ں ۔ غیب وشہود کی فرا ست اور معنویت کا ئنات کی رگِ جاں ہے ۔ ہم اس رگ ِ جاں میں  جوخود ہماری اپنی رگ جاں بھی ہے۔ تفکر اور تو جہ کر کے اپنے سیا ر ے اور دو سرے سیا رو ں کے آثارو ااحوال کا انکشاف کر سکتے ہیں ۔ انسانوں اور حیوانوں کے تصورات ، جنات اور فر شتوں کی حر کا ت و سکنات ، نبا تات و جمادات کی اندرو نی تحر یکات معلوم کر سکتے ہیں ۔ " مسلسل توجہ دینے سے ذہن کا ئناتی لا شعور میں تحلیل ہو جا تا ہے اور ہمارےسراپا کا معین پرت انا کی گر فت سے آزاد ہو کر ضرورت کے مطابق چیزدیکھتا، سمجھتا اور شعور میں محفوظ کر لیتا ہے ۔ "

اپر یل ؁ ۱۹۷۹ء میں جب رو حانی ڈائجسٹ میں ٹیلی پیتھی کے اسباق شروع کئے گئے تو ہمارے پیش نظر یہی مقصد تھا کہ اس ذزیعے سے پاکیزہ نفسوں شفاف ذہنوں پر قدم قدم چل کر غیب و شہود کی وہ فراست معنویت، توفیق و سعادت کی حدود میں منکشف ہو جائے جو فراست اور معنویت  حضور بابا صاحب ؒ کے الفاظ میں  کائنات کی اور ہماری اپنی بھی رگ جاں ہے ۔ مقام تشکروا متنان ہے  کہ اللہ ربُ العزت نے ہماری کوشش کو درجہء قبولیت عطا کیا ۔ آئندہ صفحات میں محفوظ ٹیلی پیتھی کے اسباق پر عمل  پیرا ہونے والے  طلبا ءو طالبات کی رو ح پر و ر واردات وکیفیات اس  کی شہادت دیتی ہیں۔ ٹیلی پیتھی یعنی انتقال خیال کی تکنیک اسّری علوم کی وہ شاخ ہے جسے عصر حاضر میں سب سے زیادہ عام توجہ حاصل ہوئی ۔ مغربی ممالک میں اور خود ہمارے ملک میں بھی ٹیلی پیتھی کے موضوع پر بے شمارکتابیں ابتک شائع ہو چکی ہیں جن کی علمی و عملی حیثیت پر کو ئی تبصر ہ کر نا اس وقت مقصود نہیں تا ہم اتنا ضرور کہنا ہے کہ انتقال ِخیال کے علم کو ، پہلے رو حانی ڈائجسٹ کے صفحات میں اوراب  اس مکمل کتاب کی صورت میں ،جس نظری تشریح اور عملی رہنما ئی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس کی مثال کتابی علوم میں اس سے پہلے نہیں ملتی ۔وجہ اس کی یہ ہے ہم نے جو کچھ پیش کیا ہے اس کا ماخذ انگر یز ی کتب نہیں بلکہ اس کا سر چشمہ ہماری رو حانی اسلاف کا وہ عظیم و شان ورثہ ہے ۔ جو سینہ بہ سینہ منتقل ہو تا رہا ہے یہ ہمارے بزرگوں کا فیضان ہی  ہے جس  کی بدولت ٹیلی پیتھی سیکھنے والےحضرات و خواتین  میں وہ طرزِ فکر منتقل ہوتی چلی گئی جسے رحمانی طرزِ فکر کہا جاتاہے ۔ ان کے رُخ درست ہو گئے اور وہ صرا ط مستقیم پر گا مزن ہو گئے ۔!

اَللّٰھُمَّ لك الْحَمْدُ وَلك اشُّکْرُط

اس کتاب کی اشاعت کے  اعلان  کےبعد سے ایسا لگتا ہے ٹھہر ے ہو ئے پا نی میں کو ئی کنکری پھینک دی گئی ہے ۔ا یک سرے سے دو سرے سرے تک دائرے بنتے چلے گئے ۔ او رہر دائرہ قبول عا م کی زندہ تصویر بن گیا اللہ لطیف و خبیر کی طر ف سے یہ بہت بڑا انعام ہے کہ یہ کتاب چھپنے سے پہلے ہی شہر شہر ، قریہ قریہ ، بازاروں اور نجی محفلوں میں اس کاتذکرہ عام ہو گیا ۔ میں اپنے کر مفر ما دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے خلو ص و محبت کی دو لت بخشی ہے ۔ بواسطہ رحمت اللعالمین ﷺ اللہ کے حضور دعا ہے کہ میری یہ کوشش مخلوق خدا کے لئے ذریعہ نجات بنے اور پر یشان حال لو گ اس مقام پر فا ئزہو جا ئیں ۔ جس کا تذکرہ خود خالق کائنات نے ان الفاظ میں کیا ہے ۔ اَلَا اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا خَوْفُ عَلِیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْن ۔جس طر ح دنیا میں کسی بھی رائج علم کو سیکھنے کے لئے استاد ایک اہم ضرورت ہے اسی طرح اس کتاب میں دی ہو ئی تدبیر وں پر عمل کر نے کے لئے کسی استاد کی راہنما ئی بہت ضروری ہے ۔موجودہ سائنسی دور میں علم نفسیات(PSYCHOLOGY)اور علم بعد النفسیات (PARAPSYCHOLOGY) کے استاد اور رو حانی (SPIRITUAL) سلسلوں کے فیض یا فتہ بزرگ بڑی آسانی تک یہ فرائض انجام دے سکتے ہیں ۔ َ

ومَا تَوْ فِیْقِیْ اَلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوِ کَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْب ط

 

خواجہ شمس الدین عظیمی

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔