Topics

خیالات کے تبادلہ قانون


انسان تین دا ئروں سے مر کب ہے ۔

پہلا دائرہ فر د کا شعور ہے ۔

دو سرا دائرہ فر د کا لا شعور اور نوع انسان کا شعور ہے ۔

تیسرا دائرہ نوع انسان کا لا شعور اور کائنات کا شعور ہے ۔

ایک انسان جس کو ہم فرد کا نام دیتے ہیں وہ ان تین دائروں سے مر کب ہے یعنی فرد کا اپنا شعور اور لاشعور۔ نوع انسانی کا شعور ، لا شعور اور کائنات کا شعور ۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہو ئی کہ ایک فرد کے اندر نوع انسان اور کا ئنات میں موجود ہر مخلوق کی اطلاعات موجود ہیں ۔ اور ان اطلاعات کو آپس میں تبا دلہ ہو تا رہتا ہے۔اگر فر د کے ذہن میں جنات اور فرشتوں سے متعلق اطلاعات کا ردوبدل نہ ہو تو فر شتے اور جنات کا تذکرہ زیر بحث نہیں آئے گا ۔با الفاظ دیگر کائنات اور کا ئنات میں موجود جتنی بھی مخلوق ہے اس مخلوق کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہو تی رہتی ہیں ۔ خیالات کی منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے ۔ علیٰ ہذ القیاس ہم بھوک اور پیاس سے اس لئے با خبر ہیں کہ بھوک اور پیاس کی اطلاع ہمارے ذہن پر خیال بن کر وارد ہو تی ہے ۔ہم کسی آدمی سے اس لئے متا ثر ہو تے ہیں کہ اس آدمی کی شخصیت  لہروں کے ذریعے ہمارے اندر کام کر کے لہروں میں جذب ہوجا تی ہے جس حد تک ہم کسی خیال کو قبول یا رد کر تے ہیں اسی مناسبت سے ہم کسی اورسے قریب یا دور ہوجاتے ہیں ۔ خیالات کے ردوبدل کا یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو ہم ایک دوسرے کو پہچان نہیں  سکیں گے۔ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں ۔ ان ہی خیالات کوہم اپنی زبان میں توہم تخیل ، تصور اور تفکر کا نام دیتے ہیں ۔ کہنا یہ ہے کہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں  ایک نقطہءمشترک  رکھتی ہیں۔اور یہی نقطہ مشترک ہمیں دوسری مخلوق کی موجود گی کاعلم دیتا ہے ۔ انسان کا لا شعور کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل ایک ربط رکھتا ہے ۔کیوں کہ یہ ربط  ہر وقت قائم ہے اس لئے ہم اپنے خیالات کو ایک نقطہ پر مرکوز کر کے اس ربط کے ذریعے اپناپیغام کائنات کےدور دراز گوشوں  تک  پہنچا سکتے ہیں۔

انسان کو حیوانِ ناطق کہا جاتا ہے ۔ایسا انسان الفاظ کی لہروں کے ذریعے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا تا ہے۔لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں  کہ دوسرے حیوان جن کو حیوانِ غیر ناطق کہا جاتا ہے اپنے خیالات ، الفاظ کا سہارا لئے بغیر  دوسروں تک منتقل کرتے ہیں۔ دوسرے حیوان ان خیالات کو قبول کرتے  اور سمجھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ الفاظ کا سہارا لئے بغیر بھی خیالات اپنے پورے معنی اور مفہوم کےساتھ ردو بدل ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ دو بیل ،دو بکر یاں یا دو کبوتر آپس میں با تیں نہیں کر تے یا ایک دوسرے کے جذبات کاانہیں احساس نہیں ہوتا۔جس طرح ایک انسان  الفاظ  کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتا ہے بالکل  اسی طرح الفاظ کا سہارا لئے بغیر دوسرے حیوان اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔اور فر یق ثانی ان جذبات و احساسات کو پورے معنی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ سمجھتا ہے بلکہ قبول کر تا ہے ۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے چیونٹی اور حضرت سلیمان ؑ  کی گفتگو کا تذکرہ کیا ہے ،وہ بہت غور طلب ہے چیونٹی نے حضرت سلیمان ؑ سے با تیں کیں اور حضرت سلیمان ؑ نے اس کی گفتگو کو سمجھا ۔ظاہر ہے کہ  چیونٹی نے الفاظ میں گفتگو نہیں کی بلکہ اس کے خیالات کی لہریں حضرت سلیمان کے ذہن نے قبول کی۔ اور ان کو سمجھا اس واقعہ میں یہ حکمت ہے کہ خیالات احساسات ، جذبات الفاظ کے بغیر بھی سنے اور سمجھے جا سکتے ہیں ۔

ٹیلی پیتھی الفاظ کے تا نوں با نوں سے مبرا ہو کر خیالات منتقل کرنے کا ایک علم ہے ۔ہم اگر حضرت غوث علی شاہ صاحب ؒکی طرح کسی ایک فرد کو اپنے خیالات کا ہدف بنا لیں تو وہ ایک فر د ہمارے خیالات کی لہروں  سے متا ثر ہو کر وہی کچھ کر نے پر مجبور ہے جو ہم چا ہتے ہیں ۔اور اگر ہم کا ئنات کے نقطہ مشترک سے باخبری حاصل کر لیں اور اپنے خیالات اس نقطہ مشترک میں منتقل کر دیں تو کائنات ہمارا خیال قبول کر نے پر مجبور ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ اور ہم نے تمہا رے لیے مسخر کر دیا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ۔  “

بات صرف اتنی ہے کہ ہم اس قانون سے واقف ہو جا ئیں کہ کائنات کی تمام مخلوق کے افراد خیالات کی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل اور پیہم ربط رکھتے ہیں۔ اور ہر فراد کے خیالات لہروں کے ذریعے  آپس میں تبا دلہ ہو تے رہتے ہیں ۔ہم کیوں کہ تبادلہ خیال کے اس قانون سے واقفیت نہیں رکھتے اس لیے خیال ہماری گر فت سے با ہر رہتا ہے۔ اور ہم زندگی کا زیادہ حصہ خیالات کی شکست و ریخت میں گزارے دیتے  ہیں۔یہ بات عام طور سے کہی جا تی ہے کہ فلاں آدمی کی قوت ارادی (WILLPOWER)بہت زیادہ ہے ۔ ایسا  آدمی عام آدمیوں کی نسبت معاملات زندگی زیادہ بہتر   طریقے سے انجام دیتا ہے۔ قوت ارادی سے مراد یہ ہے کہ اس آدمی کے اندر خیالات کی شکست و ریخت بہت کم ہوتی ہےاور ذہن ایک نقطہ پر مرکوز رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ کسی شخص کو زیادہ آسانی سے متاثر کر سکتا ہے۔جن لوگوں  میں قوتِ ارادی کمزور ہوتی ہے وہ اپنی زندگی کا کوئی خاص نصب العین متعین کرنے  میں ناکام رہتے ہیں ۔ قوت ارادی کو بروئے کار لانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات سے وقوف حاصل کر لیں کہ ہماری پوری زندگی  خیال کے گرد گھومتی ہے۔کائنات اور ہمارے درمیان جو مخفی رشتہ ہے وہ بھی خیال کے اوپر قائم ہے۔

روحانیت میں خیال اس اطلاع کا نام ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ ہمیں زندگی سے قریب کر تی ہے ۔ پیدائش سے بڑھا پے تک زندگی کے سارے اعمال محض اطلاع کے دوش پر رواں دواں ہیں ۔ کبھی ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ ہم ایک بچہ ہیں پھر ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ یہ دور جوانی کا ہے اور پھر یہی اطلاع بڑھا پے کا روپ دھا ر لیتی ہے ۔ سرد ، خشک ، تلخ وشیریں حالات سے گزر کر ہم موت کے قریب ہو جا تے ہیں ۔ اور ہم یہ جان لیتے ہیں کہ اس دنیا سے ہمارا رشتہ منقطع ہو گیا ہے ۔

خیال اور زندگی :

یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہماری پوری زند گی خیال کے گر د گھو متی ہے ، اور یہ کہ ہمارے اور کائنات کے درمیان جو رشتہ ہے وہ مخفی رشتہ ہے وہ بھی خیال پر قائم ہے ۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ خیالات کی اس شکست وریخت کو کم سے کم کیا جا ئے اور اس کا ایک ہی طر یقہ ہے کہ دماغ میں شک اور وسوسوں کو کم سے کم جگہ دی جائے ۔یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ قوت ارادی میں سب سے بڑی وجہ دماغ میں شک کی موجودگی ہے ۔ ذہن کو شک سے نجات دلانے کے لئے یہ معلوم ہو نا بہت ضروری ہے کہ آخر شک ذہن انسانی میں کیوں کر جنم لیتا ہے ۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چا ہئے کہ شک اور وسوسوں کی بنیاد وہم او ر یقین پر ہے ۔ اور اسی کو مذہب میں شک اور ایمان کہا گیا ہے ۔آدمی زندگی کے تمام مراحل وقت کے چھو ٹے چھوٹے ٹکڑوں میں طے کر تا ہے یعنی ایک سیکنڈ کا کو ئی فر یکشن خواہ اس کی زندگی سو برس کیوں نہ ہو ۔لیکن وہ ان ہی لمحوں میں تقسیم ہو تی رہتی ہے غور طلب امر یہ ہے کہ آدمی  اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے ذہن میں وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جو ڑتا ہے اور ان ہی ٹکڑوں سے کام لیتا ہے ۔ ہم یا تو وقت کے اس ٹکڑے سے آگے دو سرے مسلسل ٹکڑے پر آجا تے ہیں یا وقت کے اس ٹکڑے سے پلٹتے ہیں ۔اس کو اس طر ح سمجھنا چاہئے کہ آدمی ابھی سو چتا ہے کہ میں کھا نا کھا ؤں گا لیکن اس کے پیٹ میں گرانی ہے ۔اس لئے وہ یہ ارادہ تر ک کر دیتا ہے ۔ وہ کب تک اس ترک پر قائم رہے گا ۔ اس کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں ۔علیٰ ہذ القیاس اس کی زندگی کے اجزائے تر کیبی کے یہی افکار ہیں جو اسے ناکام یا کامیاب بنا تے ہیں۔ ابھی وہ ایک ارادہ کر تا ہے پھر اسے تر ک کر دیتا ہے ۔چاہے منٹوں میں تر ک کر تاہے ،چاہے گھنٹوں میں چا ہے مہینوں میں چا ہے سالوں میں ، بتا نا یہ مقصود ہے کہ ترک آدمی کی زندگی کا ایک جزواعظم ہے ۔

بہت سی با تیں ہیں جن کو وہ دشواری ، مشکل پریشانی ، بیماری ، بے زاری ، بے عملی ، بے چینی وغیرہ وغیرہ کہتا ہے ۔اب دو سری طر ف وہ ایک چیز کا نام رکھتا ہے سکون یہی وہ سکون ہے جس میں وہ ہر قسم کی آسانیاں تلاش کر تاہے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سب حقیقی ہیں بلکہ ان میں زیادہ مفرو ضات ہیں یہی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو آسان معلوم ہو تی ہیں ۔اور یہی رحجان ہے جوآسانیوں کی طر ف ما ئل کر تا ہے ۔دراصل انسان کے دما غ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ وہ آسانیوں کی طر ف دوڑتا ہے او ر ہر مشکل سے بھا گتا ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ دو سمتیں ہیں اورا ن سمتوں میں آد می افکار کے ذریعے سفر کر تا ہے ۔اس کی ہر حرکت کا منبع ان دو سمتوں میں سے ایک سمت ہے۔ ہو تا یہ ہے کہ ابھی ہم نے ایک تدبیر کی اور جب ہم یہ تدبیر کی تنطیم کر رہے تھے تو وہ ہر طر ح مکمل تھی ۔اور اس کی سمت بھی صحیح تھی لیکن چند قدم چلنے کے بعد ہمارے ذہن میں تبدیلی ہو ئی ۔ تبدیلی ہو تے ہی افکار کا رخ بدل گیا ۔نتیجہ میں سمت بھی تبدیل ہو گئی اب ہم جس منزل کی طر ف رواں دو اں تھے وہ منزل غیب میں چلی گئی اور ہمارے پاس  باقی کیا رہا ؟۔۔۔ ٹٹولنا اور ٹٹول کر قدم اٹھا نا یہی وجہ ہے کہ ایک کروڑ آدمی میں ایک ہی آدمی قدم اٹھا تا ہے ۔جوصحیح سمت میں اٹھتاہے اور پیچھے نہیں ہٹتا ہے ۔۔ واضح رہے کہ یہ تذکرہ یقین اور شک کی درمیانی راہوں کا ہے اب رہی اکثر یت کی بات ، تو اس کے دماغ کا محور وہم اور شک پر ہے اور یہی وہ وہم اور شک ہے جو اس کے دماغ کے خلیوں میں ہمہ وقت عمل کرتا رہتا ہے ۔جس قدر اس شک کی زیادتی ہوگی اسی قدر دماغی خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہو گی ۔ یہاں یہ بتا نا بہت ضروری ہے کہ یہی وہ دماغی خلئے ہیں جن کے زیر اثر تمام اعصاب کام کر تے ہیں۔ اور اعصاب کی تحریکات ہی زندگی ہے کسی چیزپر انسان کا یقین کر نا اتنا ہی مشکل ہے جتنا فریب کو جھٹلا نا ۔اس کی مثال یہ ہے کہ انسان جو کچھ ہے خود کو اس کے خلا ف پیش کر تا ہے وہ ہمیشہ اپنی کمزوریوں کوچھپا تا ہے اور ان کی جگہ مفرو ضہ خو بیاں بیان کر تاہے جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں ۔

آدمی جس معاشرے میں تر بیت پا کر جوان ہو تا ہے وہ معاشرہ اس کا عقیدہ بن جا تاہے اس کا ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ اس عقیدے کا تجزیہ کر سکے ۔ چنا نچہ وہ عقیدہ یقین کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔حالانکہ وہ محض فریب ہے اس کی بڑی وجہ ہم بتاچکے ہیں کہ آدمی جس طر ح خود کو ظا ہر کر تا ہے حقیقتاً وہ ایسا نہیں بلکہ اس کے بر عکس ہے ۔

اس قسم کی زندگی گزارنے میں اسے مشکلات بہت پیش آتی ہیں ۔ ایسی مشکلات جن کا حل ا س کے پاس نہیں ہے ۔اب قدم قدم پر اُسے خطرہ محسوس ہو تاہے کہ اس کا عمل تلف ہو جا ئے گا ۔اور بے نتیجہ ثابت ہوگا ۔بعض اوقات یہ شک یہاں تک بڑھ جا تا ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی زندگی تلف ہو رہی ہے اور اگرتلف نہیں ہو رہی تو سخت خطرے میں ہے ۔ا و ریہ سب کچھ دماغی خلیوں کی وجہ سے ہے جن میں تیزی سے ٹوٹ پھو ٹ واقع ہو رہی ہے ۔

جب آدمی کی زندگی وہ نہیں ہے جسے وہ گزار رہا ہے ۔جسے وہ پیش کر رہا ہے جس پر اس کا عمل ہے اور وہ اس عمل سے وہ نتا ئج بر آمد کر نا چا ہتا ہے جو اس کے حسب خواہ ہوں لیکن دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور ردوبدل قدم  بہ قدم پراس کے عملی راستوں کو بدلتی رہتی ہے ۔اور وہ یا تو بے نتیجہ ثابت ہو تے ہیں یا ان سے نقصان پہنچتا ہے ۔ یا ایسا شک پیدا ہو تا ہے جو قدم اٹھا نے میں رکا وٹ بنتا ہے ۔

آدمی کے دماغ کی ساخت دراصل اس کے اختیار میں ہے ۔ ساخت سے مراد دماغی خلیوں میں تیزی سے ٹوٹ پھو ٹ اعتدال میں ٹوٹ پھوٹ یا کم ٹوٹ پھو ٹ ہو نا ہے ۔یہ محض اتفا قیہ امر ہے کہ دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو ۔ جس کی وجہ سے وہ شک سے محفوظ رہتا ہے ۔ لیکن جس قدر شک اور بے یقینی دماغ میں کم ہو گی اسی منا سبت سے آدمی کی زندگی کامیاب گزرے گی ۔اور جس منا سبت سے بے یقینی اورشک زیادہ ہو گا ۔ زندگی نا کامیوں میں بسر ہو گی۔

آدمی کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس نے اللہ کے عطا کئے ہو ئے علوم کو خود ساختہ اور غلط بنیادوں پر پر کھا ان سے انکا ری ہو گیا ۔اللہ تعالیٰ نے ہر علم کی بنیا د رو شنی کو قرار دیا ہے ۔ یہ بات قرآن کی آیتوں میں تفکر کر نے سے سمجھ میں آتی ہے (ہم پچھلے صفحات میں یہ بتا چکے ہیں کہ خیالات رو شنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں )۔ آدمی کو چا ہئے یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رو شنی کی قسمیں اور روشنی کا طرز عمل معلوم کر تا لیکن اس نے کبھی اس طر ف توجہ نہیں کی اور یہ چیز ہمیشہ پر دے میں رہی ۔آدمی نے اس پر دے میں جھا نکنے کی کو شش اس لئے نہیں کی کہ یا تو اس کے سامنے کو ئی رو شنیوں کا پر دہ موجود ہی نہیں تھا یا اس نے کبھی روشنیوں کی طر ف توجہ ہی نہیں کی ۔ وہ یہ قاعدے معلوم کر نے کی طر ف متوجہ ہی نہیں ہوا جو رو شنیوں کے خلط ملط سے تعلق رکھتے ہیں ۔اگر آدمی یہ طر ز عمل اختیار کر تا تو اسکے دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھو ٹ کم سے کم ہو سکتی تھی اس حالت میں وہ زیادہ سے زیادہ یقین کی طرف قدم  اٹھاتا اور شکوک اس کو اتنا زیادہ پریشان نہ کر تے جتنااب اسے پریشان کئے ہو ئے ہیں۔ اس کی تحر یکات میں جو عملی رکا وٹیں  واقع ہو تی ہیں وہ کم سے کم ہو تیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اس نے رو شنیوں کی قسمیں معلوم نہیں کیں ۔نہ رو شنیوں کی طبیعت کا حال معلوم کر نے کی کو شش کی ۔و ہ تو یہ بھی نہیں  کہ جا نتا رو شنیاں بھی طبیعت اور ما ہیت رکھتی ہیں اور رو شنیوں میں رحجانات بھی موجود ہیں ۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ رو شنیاں ہی اس کی زندگی ہیں اس کی حفا ظت کر تی ہیں ۔ وہ صرف مٹی کے پتلے سے واقف ہیں ۔ اس پتلے سے جس کے اندر اس کی کو ئی زندگی موجود نہیں ہے ۔جس کو اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے کہ وہ سڑی ہو ئی مٹی سے بنایا گیا ہے ۔ اور دو سری جگہ فر مایا گیا ہے کہ وہ  بجنی مٹی (خلا ء ) ہے ۔ اس کے اندر اپنی ذاتی  کو ئی حقیقت نہیں ہے حقیقت تو اللہ تعالیٰ نے پھو نکی ہے ۔

 رو شنیوں کے عمل سے نا واقفیت اللہ تعالیٰ کے اس بیان سے منحرف کر تی ہے جہاں تک انحر اف واقع ہو تا ہے وہاں تک شک اور وہم بڑھتا ہے ۔ایمان اور یقین ٹوٹ جا تے ہیں ۔

یاد رکھئے روحانیت اور دیگر تمام مخفی علوم میں بشمول ٹیلی پیتھی یقین کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیو ں کہ ہر ارادے اور ہر عمل کے ساتھ یقین کی رو شنیاں بھی کام کر تی ہیں ۔ اگر یقین کی ان رو شنیوں کو الگ کر دیا جائے توہر عمل اور ہر حرکت لا یعنی ہو کر رہ جا ئے گا ۔ہم کہنا یہ چا ہتے ہیں جب تک ارادے میں یقین کی روشنیاں شامل نہ ہوں اس پر عمل درآمدنہیں   ہوتا ۔ ما ہرین رو حانیت یقین کی تعریف اس طر ح کر تے ہیں۔

‘’یقین وہ عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو  “۔

ارادہ یقین کی کمزوری دراصل شک کی وجہ سے جنم لیتی ہے جب تک خیالات میں تذبذب رہے گا یقین میں کبھی بھی پختگی نہیں آئے گی ۔ مظاہر اپنے وجود کے لئے یقین کے پا بند ہیں ۔کیوں کہ کو ئی خیال یقین کی رو شنیاں حاصل کر کے ہی مظہر بنتا ہے ۔

ما ہرین نفسیات نے جو مشقیں قوت ارادی کو تقویت پہچاننے کے لئے مرتب کی ہیں ان سب کا منشاہ دراصل یقین کو پختہ کر نا ہو تا ہے ۔

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔