Topics

ڈوب ڈو ب کر ابھر نا


راولپنڈی سے عقیل احمد لکھتے ہیں :۔

آپ کی ہدا یت کے مطا بق ٹیلی پیتھی کی مشقیں شروع کیں تفصیل حسب ذیل ہے ۔

۱۸ ۔ جون : آنکھیں بند کر کے یہ تصور کر نا شروع کیا کہ نور کا ایک دریا ہے جس میں ساری کائنات اور میں خود ڈوبا ہواہوںبڑی مشکل یہ ہے کہ اردگردخاموشی نہیں ہو تی۔ کہیں سے مسلسل پنکھے چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے تو کہیں سے ریڈیو پر مسلسل گا نے نشر ہو تے رہتے ہیں جو ارتکاز توجہ میں خلل ڈالتے ہیں ۔بہر حال تھوڑی دیر بعد نور کا تصور قائم ہو نا شروع ہوگیا دو ران مشق جس چیز کا بھی خیال آیا وہ کبھی مکمل اور کبھی نہ مکمل طور پر نور میں ڈوبی ہو ئی دکھا ئی دی ۔نور کا مکمل تصور قائم نہ ہو سکا ۔

۲۲۔ جون : نور کا تصور قائم ہو ا اور میں اپنے آپ میں سے نکل کر کھلی فضا میں چلا گیا ۔میں نے نور کے دریا میں غوطے لگا نا شروع کر دئیے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس ہو نے لگا جیسے میں بھی نور کے دریا میں ڈو با ہوا ہوں ۔اور نور میں ڈھل کر نور بن گیاہوں اور ایک بات میں نے یہ نوٹ کی وہ یہ ہے کہ  اب کام کر نے کو بہت جی چا ہتا ہے پہلے حال یہ تھا کہ ہر کام کو نہ کر نے اور ٹالنے کے بہا نے سوچتا رہتا تھا لیکن اب طرز فکر یہ ہو گئی ہے کہ جب کا م کر نا ہی تو کر ڈالو ۔

۲۷۔ جون : سونے کے لئے جب بستر پر لیٹا اور آنکھیں بند ہو ئیں تو یوں محسوس ہو ا جیسے میں نور کے سانچے میں ڈھلا ہوابستر پر لیٹا ہوا ہوں ۔رات کو نیند سے بیدار ہوا تو آ نکھوں میں مدھم مدھم سی رو شنی دکھائی  دی ۔آنکھیں کھو لی تو یہ رو شنی غائب ہو گئی اب نیند بہت گہر ی آتی ہے ۔

۱۔ ستمبر : آج نور کا تصور زیادہ واضح طورپر قائم ہو ا میں نور کے دریا کے اوپر پر واز کر تا رہا نو ر میں غو طہ لگا تا رہا ۔چلتاپھر تا رہا اور ڈوب ڈوب کر ابھر تا رہا میں نے اپنے آپ کو ان گنت جسموں میں تقسیم ہوتے دیکھا ۔

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔