Topics
گزشتہ
تین چار دن سے ذہن کی اسکرین پر ‘‘کن’’ کا لفظ لکھا ہوا دیکھتی رہی اور جب بھی اس
لفظ ‘‘کن’’ پر توجہ ذرا گہری ہو جاتی۔ میرے ذہن میں ‘‘کن، کن’’ کی مستقل آوازیں
آنے لگتیں اور اسی کے ساتھ ہی میرا دل ‘‘کن’’ سے فیکون ہونے تک کے تمام مراحل کو
جاننے کی جستجو میں تڑپ اٹھا اور مرزا غالب کا یہ مصرعہ میری جستجوئے شوق پر
تازیانے کا کام کرتا رہا۔
جانے
کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
اور
ایک دن رحمت حق کو میری اس معصومانہ جسارت پر رحم آ گیا۔ حسب معمول صبح فجر سے ذرا
پہلے مراقبہ میں بیٹھی تو میرے پیارے مرشد کریم، منتہائے عظیم ایک دم میری نظر کے سامنے
آ گئے اور اسی لمحے سکون و تحفظ کی ایک لہر میرے رگ و ریشے میں دوڑ گئی اور اس کے
ساتھ ساتھ میں خالی الذہن ہو گئی۔ میرے رہبر، میرے ہادی، میرے رہنما، میرے پیارے
مرشد نے گردن گھما کر میری جانب دیکھا اور آنکھ کے اشارے سے مجھے اپنے پیچھے آنے
کا حکم فرمایا۔ میں سب کچھ چھوڑ کر تیزی سے آپ کے پیچھے لپکی۔ میرے قدم بڑھاتے ہی
مرشد کریم کا جسم میری نظر سے اوجھل ہو گیا اور جسم کی جگہ ایک شمع روشن دکھائی
دی۔ خیال آیا مرشد کریم علم کی شمع ہیں، اس شمع کی روشنی میں، میں آگے چلنے لگی۔
اب پھر مجھے شمع کی جگہ مرشد کریم کا نورانی جسم دکھائی دیا جو اسم بامسمی ہے اور
جس کی روشنی مثل آفتاب چاروں طرف پھیل رہی ہے اور روشنی کا یہ جسم اللہ تعالیٰ کی
شان استغناء کے ساتھ عجیب دلکش انداز سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ میرے دل سے بیساختہ
یہ صدا نکلی۔
‘‘سبحان
اللہ’’ یہ سب اللہ ہی کی شانیں ہیں۔ اسی لمحے مرشد کریم نے نوری جسم سے نور کی ایک
شعاع نکل کر میرے قلب کے اندر جذب ہو گئی اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ
کی صفت استغناء کی روشی مرشد کریم کے ذریعے میرے اندر حلول کر گئی ہے اور میری چال
ڈھال میں مرشد کریم کا عکس ابھر آیا۔ میرا جسم چاند کی طرح روشن ہو گیا۔ مرشد پاک
بے شمار سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ایک دروازے پر رکے۔ دروازہ کھل گیا اس کے اندر تیز
روشنیاں دکھائی دیں۔ میں جلدی سے تیز قدم بڑھاتی ہوئی ان کے قریب پہنچ گئی۔ مبادا
وہ مجھے پیچھے چھوڑ کر اس دروازے کے اندر داخل ہو جائیں اور میں انہیں ڈھونڈتی ہی
رہ جائوں۔
میری
ہانپتی ہوئی سانسوں کی آواز نے انہیں میرے اس اندیشے سے آگاہ کر دیا۔ انہوں نے
مسکرا کر پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا اور اپنے کندھے سے ایک بڑا اسکارف اتار کر میرے
سر پر نہایت شفقت کے ساتھ باندھ دیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس عالم میں یہ
اسکارف میرے لئے مرشد کریم کے ساتھ پہچان کا ایک نشان ہے اور مجھے اطمینان ہو گیا۔
اندر قدم رکھتے ہی احساس ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے امر کا عالم ہے۔ تیز روشنیوں
میں جگہ جگہ نور کے ذرے چمکتے دکھائی دیتے، ایسا لگا جیسے ہم ستاروں سے بھرے ہوئے
آسمان کے اندر چل رہے ہیں۔ میں نے پوچھا۔
یہ
ستارے کیا ہیں؟ فرمایا۔ یہ نور کے ذرے کائنات کی اشیاء ہیں، جن کا ظہور حکم کن کے
ذریعے سے عمل میں آتا ہے۔ ان کے اس جواب پر جانے کتنے ہی سوال میرے ذہن میں ابھر
آئے۔ میں پھر پوچھ بیٹھی۔ روح کیا ہے، حرکت کیسے ہوتی ہے، لائف اسٹریم کیا ہے؟
میرے ان ڈھیر سارے سوالات پر مرشد پاک نے گہری نظر سے مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے
فرمایا۔ ہم اللہ تعالیٰ کے امر کے اس مقام کی جانب جا رہے ہیں جہاں سے اللہ تعالیٰ
کے کن کا آغاز ہوتا ہے۔ جب تم اس مقام سے کائنات کی طرف نظر کرو گی تو تمہیں
تمہارے تمام سوالوں کے جوابات مل جائیں گے۔ میں نے خوشی میں مرشد پاک کا بازو تھام
لیا تا کہ جلدی جلدی ان کے ساتھ اس مقام پر پہنچ جائوں۔ یہ ایک اونچی سی گیلری
تھی۔ بڑا ہی حسین بالا خانہ تھا جس پر کھڑے ہو کر فضا میں نظر ڈالتے ہی ہر طرف
رنگینی حسن کا احساس ہوتا تھا۔ ایک لمحہ کو ان حسین نظاروں نے جیسے ہمارے دل موہ
لئے۔ میرا ذہن ہر قسم کی جستجو سے خالی ہو کر اس عالم کی رنگینیوں میں کھو گیا۔ جس
شئے پر نظر پڑتی ہے بیساختہ چلا اٹھتی۔ آہا! یہ کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ جانے کتنی
دیر تک ہم اس سیر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ آہستہ آہستہ دل اس نظارے سے سیر ہونے لگا
اور نگاہ کی روشنی کائنات میں چاروں طرف پھیلنے کی بجائے آہستہ آہستہ سکڑنے لگی۔
یہاں تک کہ سکڑتے سکڑتے نظر کی روشنی ایک نہایت تیز شعاع کی حیثیت سے باقی رہ گئی۔
نظر کی یہ شعاع نیچے ایک ذرے پر پڑی۔ ذرے کی سطح کو چھوتے ہی یہ مسلسل روشنی یونٹ
میں تقسیم ہونے لگی۔ یہ تقسیم شدہ یونٹ لمحہ کن ہے۔ میری نظر نے دیکھا کہ ذرے میں
حرکت شروع ہوئی اور ذرہ گردش کرنے لگا۔ ذرے کی گردش کا ہر دائرہ روشنی کی ایک
مخصوص یونٹ دکھائی دیا اور چونکہ روشنی کی ہر یونٹ اپنے اندر روشنی کی مختلف مقدار
رکھتی ہے اس لئے جب ذرہ روشنی کی اس یونٹ کو اپنے اندر جذب کرتا ہے تو اس کی ہر
گردش کی حرکت مختلف ہوتی ہے۔ اس حرکت کا عکس ایک دائرے سے دوسرے دائرے کے درمیان
خلاء میں ابھرتا ہے۔ اس طرح روشنی کے ساتھ ساتھ حرکت کی لہریں ایک تواتر کے ساتھ
ذرے کے اندر سفر کرتی ہیں اور ذرے کو حرکت میں رکھتی ہیں۔
ذرے
کے اندر حرکت کا یہ نظام جب اپنی گہرائیوں میں پہنچ کر ایک مکمل صورت اختیار کر
لیتا ہے تو ذرے کی یہ مخفی حرکت اور روشنی دوبارہ ایک جدید انداز میں اپنے سمائے
ہوئے حکم کن کا اجراء کرتی ہے۔ ذرہ اپنے اندر محفوظ روشنیوں کا ذخیرہ اپنی ذات سے
باہر خارج کرنے لگتا ہے اور حرکت کے جو عکس ذرے کی ذات کے اندر موجود تھے اس دوسرے
حکم کن کے اجراء میں فیکون کے عمل سے گزر کر کائنات کی اشیاء کی صورت میں ڈھل جاتے
ہیں۔ کائنات ذات کا عکس ہے، ذات اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ا مر ہی سے
کائنات کی مخلوق ذات کی حیثیت سے متعارف ہے اور وہ حقیقی ذات حق باری تعالیٰ اپنے
امر سے ماوراء ہے۔ اس ذات باری تعالیٰ تک کسی بھی شعور کی رسائی ناممکن ہے۔ اللہ
تعالیٰ کے امر کا عالم ایک خود کار نظام ہے۔ عالم امر کی حرکت اللہ تعالیٰ کے حکم
کن کی آواز ہے جس کی لہریں سارے عالم میں پھیلی ہوئی ہیں۔ نور کا ہر ذرہ آواز کی
ان لہروں کو اپنی قوت کے مطابق جذب کرتا ہے۔ فیکون کے دائرے میں جب یہ ذرہ اپنے
اندر جذب شدہ روشنیوں کا مظاہرہ کرتا ہے تو حکم کن کا وہ لمحہ جو ازل میں کائنات
کے نقطے میں کام کر رہا ہے۔ اربوں کھربوں یونٹوں میں تقسیم ہو کر نظر کے سامنے آ
جاتا ہے اور یہی تقسیم شدہ یونٹ کائنات کی اشیاء کی شکل میں نظر دیکھتی ہے۔ جیسے
آتش بازی کے انار کو جب جلایا جاتا ہے تو اس کے اندر بارود کے ذرے اپنے اندر ذخیرہ
شدہ روشنی کو باہر خارج کرتے ہیں۔ ہر ذرے کے اندر سے روشنی جب مختلف مقداروں میں
خارج ہونے لگتی ہے تو خلاء میں روشنی کا عکس مختلف شکلوں میں ابھر آتا ہے اور نظر
ہر عکس کو ایک مختلف خاکے کی صورت میں دیکھتی ہے۔
عالم
امر کا ہر ذرہ نور ہے اور نور میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہے۔ نور کے ہر ذرے
کے اندر ازل میں حکم کن کے کہنے سے پہلے جو روشنیاں ذخیرہ تھیں، ان کے اندر بھی
کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ یہ روشنیاں صفات کی روشنیاں ہیں۔ ذات اور صفات
میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہے۔ تبدیلی اس وقت آتی ہے جب ذرے کے اندر سے روشنیاں
باہر نکلتی ہیں۔ یہی روشنیاں جب حرکت کی لہروں پر سفر کرتی ہیں تو کائنات کے اجسام
بناتی ہیں اور یہ اجسام ذات سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی ذات نہیں کہلائے جا سکتے۔
البتہ انہیں ذات کا عکس کہا جا سکتا ہے۔ روح عالم امر کے ذرے کے اندر اپنی ذات کا
شعور ہے۔ لائف اسٹریم عالم امر سے ملنے والی وہ انرجی ہے جو ذرے کے اندر اپنی ذات
کے شعور کو قائم رکھتی ہے۔ یہی شعور جب ذات کی حد سے باہر آتا ہے تو وہ کائناتی
شعور سے متعارف ہوتا ہے اور ذات کی یک رنگی کائنات کے رنگوں کو اپنے اندر سمیٹ
لیتی ہے۔ لائف اسٹریم ذرے کے اندر یہ مستقل نظام جاری کر دیتی ہے کہ ذرے کا ذاتی
شعور اپنی حد سے باہر نکل کر اپنے اندر رنگوں کو جذب کرتا ہے اور پھر یہی شعور
اپنے اندر سے ان رنگوں کو خارج کرتا رہتا ہے۔ شعور کا یہی جسم کائنات کی مخلوق ہے۔
انسان کو ان کے علوم عطا کئے گئے ہیں۔ آدم کے اندر روح پھونکنے سے اللہ تعالیٰ کی
مراد علم الاسماء ہیں۔
جب
تک عالم امر کے ذرے کے اندر اس کی اپنی ذات کا شعور نہیں پایا جاتا۔ یہ ذرہ اللہ
تعالیٰ کی تجلی کا ایک ذرہ ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ناقابل تذکرہ
کہا ہے کہ انسان پر ایک ایسا بھی وقت آ چکا ہے جب وہ ناقابل تذکرہ شئے تھا۔
عالم
امر کے ایک ذرے کے اندر قوت کی یہ ناقابل تسخیر کارفرمائیاں دیکھ کر ذہن میں پھر
سوال ابھرا اور حسب معمول میں نے پھر مرشد کریم سے اپنے تجسس کی تشنگی بجھانا چاہی
کہ عالم امر کو کنٹرول کرنے والی ہستی کون ہے۔ مرشد پاک نے میرے اس سوال پر چونک
کر یری جانب دیکھا۔ پھر بڑے پیار سے مسکرائے اور فرمایا۔ عالم امر اللہ تعالیٰ کے
محبوب حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذہن مبارک ہے اور اسے کنٹرول
کرنے والی ہستی ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارک ہے۔
کائنات کی تخلیق ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دماغ سے وجود میں آئی ہے
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیدا کرنے والی ہستی اللہ تعالیٰ کی ذات
اقدس ہے جس کا تعلق براہ راست حضور پاکﷺ سے ہے، مگر کائنات اور مخلوق کے درمیان
عالم امر کے حجابات حائل ہیں۔ کسی بشر کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ ان حجابات کے بغیر
اللہ تعالیٰ کی ہستی کو دیکھ سکے یا کلام کر سکے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے
کلام میں فرمایا ہے:
سورۃ
الشوریٰ۔ آیت نمبر51:
ترجمہ:
‘‘اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ کلام کرے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ (براہ راست) مگر
وحی کے ذریعے سے یا پس پردہ یا بھیجے کوئی پیغامبر اور وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو
اللہ تعالیٰ چاہے۔ بلاشبہ وہ اونچی شان والا بہت دانا ہے۔’’
سر
لامکاں سے طلب ہوئی سوئے منتہا وہ چلے نبیﷺ
کوئی
حد ہے ان کے عروج کی بلغ العلیٰ بکمالہ
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94