Topics

چھپا ہوا خزانہ


                تجر کے وقت آنکھ کھلی۔ سردیوں کی صبحیں بھی آدھی رات جیسی لگتی ہیں۔ ٹھنڈی اور کالی۔ مگر صبح اٹھنے میں مزا بہت آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اللہ میاں بالکل یہیں کہیں موجود ہیں۔ شاید اس لئے کہ بند کمرے میں دور تک تو نظر جاتی نہیں اس لئے اللہ میاں بھی آس پاس ہی محسوس ہوتے ہیں۔ وضو کر کے فجر کی نماز پڑھنے کھڑی ہوئی۔ ایک دم سر پر اسپاٹ لائٹ لگی۔ مجھے یوں لگا جیسے اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ یہ اسپاٹ لائٹ اللہ کی نظر ہے۔ میں اسپاٹ لائٹ کے دائرے کے بیچوں بیچ ایک نقطے کی طرح ہوں۔ ساری نماز میں دھیان اسی روشنی کی طرف رہا۔ نماز کے فوراً بعد ہی میں مراقبہ میں بیٹھ گئی۔ میں نے سوچا اللہ کی ذات مجھ دیکھ رہی ہے۔ مگر میرا وجود تو روشنی کے اس دائرے کے اندر ایک نقطے کے برابر ہے۔ سیاہ نقطہ جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب میری نگاہ روشنی کے دائرہ پر دوبارہ پڑی تو احساس ہوا کہ اللہ کا نور تو ہر عیب سے پاک ہے۔ عیب تو مجھ میں ہے۔ پاکی نور ہے اور عیب تاریکی اور ظلمت ہے۔ احساس کمتری نے سیاہ نقطے کو خود اپنی نظر میں اس حد کمتر بنا دیا کہ اس کی اپنی نگاہ میں اپنی ذات کی نفی ہو گئی۔ نظر میں بس نور ہی نور رہ گیا۔ دل نہایت ہی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نور کی تعریف اور حمد و ثناء میں مصروف ہو گیا۔ اللہ پاک کی ذات بڑی بے نیاز ہے اس کی نظر میں ‘‘لا’’ کا گزر نہیں ہے۔ ‘‘لا’’ جو تاریکی ہے۔ مجھے محسوس ہوا۔ دھوپ کی طرح چاروں طرف سے مجھ پر روشنی پڑ رہی ہے۔ یہ روشنی سیاہ نقطے میں جذب ہونے لگی۔ سیاہ نقطہ ستارے کی روح روشن ہو گیا۔ نقطے میں روشنی بڑھتی گئی اور روشنی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا تصور بھی بڑھتا گیا۔ خیال آیا۔ سیاہ نقطے کا ادراک اپنی ذات کی نفی ہے۔ اس لمحے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اللہ تعالیٰ بالکل ہی میرے قریب ہیں۔ میں کان سرگوشی سننے لگی۔ مجھے خیال آیا میں اس کے رازوں کی امین ہوں، میں کیا ہوں؟ آہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ اس تڑپ کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی سرگوشی صاف سنائی دی۔ تمہاری نفی ہمارا اثبات ہے۔ اس اثبات کے ساتھ ہی سیاہ نقطے کا وجود ختم ہو گیا۔ اس کی جگہ اب نور کا ایک ستارہ تھا۔ نور نے خود اپنی ذات کا اثبات مقرر کیا۔ ستارے کا نور بڑھنے لگا۔ یہاں تک کے ستارے سے نور کی شعاعیں نکلنے لگیں۔ ان شعاعوں کی تجلی میں ستارہ چھپ گیا۔ ذات خواہ کتنے ہی پردوں میں چھپ جائے ذات کی انا نہیں مٹ سکتی۔ نور کی شعاعیں پھیلتی گئیں، ذات کی انائیں بکھرتی رہیں، نور کی ہر شعاع میں ذات کا ایک نیا رنگ تھا۔ یہ رنگ پھیلتے پھیلتے اسپاٹ لائٹ کے دائرے کی آخری حد تک پھیل گئے۔ دائرے کی حدود سے متصل ایک رنگین ہیولا ظاہر ہوا۔ خیال آیا یہ میں ہوں۔ میں ذات کا ادراک ہوں۔ ذات جو ازل سے ابد تک اس دائرے پر محیط ہے۔ اس رنگین ہیولے نے دائرے کی گہرائی میں نظر الی اور راز دارانہ انداز میں کہنے لگا۔ اے محبوب! تو ہزاروں پردوں میں اپنے آپ کو چھپا لے۔ مگر نظر تیرا سراغ ہر صورت میں پا لے گی۔ ہیولے کی نگاہ دائرے کے مرکز میں بڑھنے لگی۔ ہر گہرائی پر یوں لگتا جیسے ایک ایک پردہ ہٹتا جا رہا ہے۔ نظر ذات کے پردے ہٹاتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک پردہ باقی رہ گیا۔ نظر کے سامنے سیاہ نقطہ آ گیا۔ مگر اب سیاہ نقطہ کا مفہوم بدل چکا تھا۔ نظر کے سیاہ نقطے کی ذات اب میں نہیں بلکہ تو کا تصور تھا۔ میں کا تصور نظر کے ہیولے میں اتر آیا تھا۔ ہیولا ذات کو جان گیا تھا۔ اس ذات کو جو سیاہ پردوں میں چھپی ہوئی تھی۔ اس نے سیاہ نقطے کی گہرائی میں جھانکتے ہوئے کہا۔ اے ذات خالق! میرا وجود تیری ہی روشنی سے قائم ہے۔ تو سورج ہے، تو چاند ہے، تو ستارہ ہے۔ اپنے اوپر سے یہ بادل ہٹا تا کہ نظر تیرے جمال کو پہچان لے۔ ذات نے چہرے سے نقاب ہٹایا جیسے پہاڑوں کی اوٹ سے سورج نکل آیا، جیسے بادل کی چلمن سے چاند نے جھانکا، جیسے آسمان کی پیشانی پر ستارہ جگمگایا۔ ذات کی روشنی میں رنگین ہیولے کے رنگ اس طرح چمک اٹھے جیسے بہار میں پھولوں کے چمن لہلہاتے ہیں۔ ہیولا ذات کے قریب ترین آ گیا۔ اے میرے رب! تو ذات ہے، میں تیرا عکس ہوں۔ تو خالق ہے، میں تیرا بندہ ہوں۔ تو اسرار ہے، میں تیرے اسرار کا امین ہوں۔ نظر ذات کی گہرائی میں اترتی چلی گئی۔ وہ پہچان گئی تھی کہ ذات نے اپنے چہرے سے نقاب صرف اسی کے لئے ہٹایا ہے۔ ذات اور نظر کے سوا یہاں اور کوئی نہیں ہے۔ اس نے سوچا ذات تو چھپا ہوا خزانہ ہے۔ میرے اندر کے سارے رنگ ذات کے ہیں۔ ذات ہیرا ہے۔ میں ہیرے کی چمک ہوں۔ ہیرے کی چمک ہیرے کی ذات کا حصہ ہے۔ میں وہ ادراک ہوں جس نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی خالقیت کو جانا اور پہچانا۔ نظر ذات کی گہرائی میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ ہر قدم پر ذات کا ایک نیا رنگ اس کے سامنے آ جاتا۔ نظر اپنی انتہائی گہرائی میں پہنچ کر ذات کے رنگوں سے ذات کے خزانوں سے بوجھل ہو گئی۔ رحمت خداوندی نے نظر کو مرتبہ احسان عطا کر دیا۔ فرش بندگی پر سجدہ ریزہ ہو گئی۔ اس کے وجود کا ہر ذرہ پکار اٹھا۔ لا الہ الا اللہ اس کی آواز چہار سو پھیل گئی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا کلمہ ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں نہایت تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں یہاں تک کہ آسمانوں اور زمینوں کی گونج یہ کلمہ بن گیا۔ اس کا دل چاہا اور زور سے اپنے رب کی خالقیت اور ربوبیت کا اعلان کرے تا کہ اس کی گونج اس کا کلمہ پھیلتا ہی جائے۔ اس کے آسمانوں اور زمینوں کا پھیلائو بڑھتا جائے۔ اس کی کائنات کی وسعت بڑھتی جائے۔ نظر تحت الثریٰ سے عرش معلیٰ تک جا پہنچی۔ اس کا کلمہ ازل سے ابد تک پھیل گیا۔ ذات کی تجلی سارے عالمین کو محیط ہو گئی۔ ہیرے کی جگمگاہٹ آسمان وحدت کا شمس بن کر دونوں عالم کو منور کرنے لگی۔ وحدت خداوندی نے ہمیشہ کے لئے نظر کے ساتھ رشتہ جوڑ لیا۔ جہاں تو ایک ہے وہاں میں دوسرا ہوں۔ وہ نظر وحدت کی نگاہ بن کر اس کی لامتناہیوں میں دیکھنے لگی۔ نظر نے کائنات کی ہر شئے کو دیکھا۔ کہنے لگی۔ اے میرے رب ساری کائنات تیری ہستی کا پھیلائو ہے۔ ہر شئے کے قلب میں تیرا قیام ہے، تیری تجلی کا پھیلائو ہی کائنات ہے تو ہر شئے کے اندر چھپا بیٹھا ہے۔ اے میرے رب ہر شئے کا وجود ایک ایسا برقعہ ہے جس نے تیری ذات کو چھپا لیا ہے۔ میری نگاہ تجھے بے نقاب دیکھنے کو مچلتی ہے۔ نظر کی روشنی آہستہ آہستہ اپنے دائرے میں سمٹنے لگی۔ یہاں تک کہ سمٹتے سمٹتے ایک نقطہ رہ گئی۔ آنکھ کی پتلی کا سوراخ۔ نظر کی روشنی اس سوراخ سے اندر چلی گئی اس کے اپنے اندر سیاہ نقطے کا قیام تھا۔ نظر کی روشنی میں سیاہ نقطہ روشن ہو گیا۔ ذات کی سرگوشی سنائی دی۔ ہم نے کب تمہاری نگاہ سے اپنے آپ کو چھپایا ہے۔ ادھر دیکھو ہم تمہاری آنکھ کا نور ہیں۔ ادھر دیکھو کائنات کی ہر شئے ہمارے نور کا عکس ہے۔ اول و آخر، ظاہر و باطن سب کا سب ہم ہی ہیں۔ اے نظر! ظاہر بھی میں ہوں، باطن بھی میں ہوں۔ میں ہی تمہارا خالق ہوں۔ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتی؟ نظر بولی۔ اے میرے رب! تُو تو نور ہے پھر مجھے ہر شئے کے قلب میں سیاہ نقطہ کیوں دکھائی دیتا ہے۔ ذات نے کہا۔ اے نظر اپنی آنکھ کو اس طرح کھول کر رکھ کہ تیری پتلی سے بینائی کا نور آتا جاتا رہے۔ تب تیری آنکھ کے ذریعے نور’ نور کو دیکھے گا۔ سیاہ نقطہ تیری آنکھ کا ادراک ہے۔ جیسے جیسے ادراک بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے سیاہ نقطہ روشن ہوتا جاتا ہے۔ اے آنکھ جان لے کہ سیاہ نقطہ جو تجھے ہر شئے کے باطن میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ تجلی کا عکس ہے، ذات کا عکس ہے’ نقطہ ماسکہ ہے۔ تفکر کے اس نقطے سے اس وقت روشنی پھوٹتی ہے جب تو یقین کے ساتھ اس نقطے پر نظر ڈالتا ہے۔ تیرا یقین ایمان ہے۔ ایمان کے نور میں ذات کی جانب نظر اپنا راستہ تلاش کر لیتی ہے۔ ایمان نور ہے، ایمان یقین ہے، ایمان بینائی ہے۔ انسان کے قلب میں سیاہ نقطہ اللہ تعالیٰ کے تصور کا نقطہ ماسکہ ہے۔ اللہ کا یقین اور ایمان اس نقطہ میں جذب ہوتا رہتا ہے۔ نور کی صفت بینائی یا نظر ہے۔ جب دل کا نقطہ نور جذب کر لیتا ہے تو خود نور بن جاتا ہے۔ دل کی آنکھ کھل جاتی ہے اور بندہ روحانی شعور سے واقف ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی بندے کو اللہ تعالیٰ نے مومن کہا ہے۔ جس کے سینے میں ایمان داخل ہو جائے۔ یعنی جس کے قلب کی آنکھ کھل جائے۔

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94