Topics
جانے
کیا بات ہے چند دنوں سے احساس اس قدر لطیف ہو گیا ہے کہ میوزک کی آواز کان میں
پڑتے ہی دل کی گہرائیوں میں اس کا ارتعاش محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے میرا
رب، میرا مالک میرے دل کے قریب ترین پہنچ چکا ہے۔ میرا تن بدن اس کے عشق کے کیف و
سرور میں ڈوبنے لگتا ہے۔ میرے اوپر جذب و عشق کا غلبہ دیوانگی کی حد تک بڑھ جاتا
ہے۔ کتنی بار بیٹھے بیٹھے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں روشنیوں میں آہستہ آہستہ بڑھ
رہی ہوں۔ ان روشنیوں میں مجھے ساز سنائی دیتے ہیں۔ جیسے سمندر کی گہرائیوں میں
لہریں ایک دوسرے کے اندر مدغم ہو رہی ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ہمیشہ کے لئے
اس سمندر میں ڈوب جائوں، اس کے عشق کی گہرائیوں میں کھو جائوں، اس کے عشق کا سارا
سمندر میرے واسطے ہی تو ہے۔ اس کی معصوم سرگوشیاں بار بار میری سماعت میں گونجتی
ہیں۔ نادان لڑکی! ہمت سے آگے قدم بڑھا اپنے ارادے کی انتہائی بلندی سے میرے دل کی
گہرائی میں چھلانگ لگا۔ تجھے محبوبیت کا وہ گوہر آبدار حاصل ہو جائے گا جس کی تلاش
میں زمین و آسمان سرگرداں ہیں، جس کی جستجو میں بہاریں سر پٹختی ہیں، جس کو
ڈھونڈنے کے لئے ہوائیں ازل سے ابد تک ماری ماری پھرتی ہیں اور آخر کار محبوب کی اس
پاگل پکار کو دل دیوانہ نے ساری کی ساری اپنے اندر بھر ہی لیا۔ من کب تک تنہا اس
کے پیار کی آگ میں دھیمے دھیمے سلگتا رہتا۔ ایک دن تو اس کی آگ کی لپیٹ میں تن کو
بھی آنا ہی تھا اور جب تن من دونوں محبوب کے لئے بیقرار ہو جاتے ہیں تو یہی بیقراری
کشش بن کر عاشق کو محبوب کے قرب میں پہنچا دیتی ہے۔
ایک
دن جذب حال نے مجھے دنیا و مافیہا کی ہر شئے سے غافل کر دیا۔ مادی شعور کے اوپر
روح کا احساس غالب آ گیا۔ باطن کی نظر غیب میں کام کرنے لگی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ
میری روح نور کی ایک انتہائی لطیف فضا کے اندر آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔
روشنیاں اسے اس فضا میں آگے بڑھاتی جاتی ہیں۔ روح کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی بہترین
صناعی کا ایک نمونہ ہے۔ اس پیکر حسن کو دیکھ کر مجھے اللہ تعالیٰ کی خالقیت پر
پیار آنے لگا۔ یا اللہ تو واقعی احسن الخالقین ہے۔ اس ساری فضا میں عشق کی چاشنی
گھلی ہوئی تھی جو سانس کے ساتھ روح کے اندر داخل ہوئی تھی۔ عشق حقیقی کا یہ نور جب
روح کے اندر داخل ہوتا تو روح کے اندر قرب خداوندی کا تقاضہ طوفان بن کر ابھرتا۔
اس طوفان کی ہر لہر درد و کرب کی ایک ایسی کیفیت تھی جس کا بیان الفاظ میں ممکن
نہیں ہے۔ ہر لمحہ ایسا لگتا تھا جیسے دن کے روئیں روئیں سے جان کھینچی جا رہی ہے
اور جب روح کی بیقراریاں حد سے گزر گئیں تو اس کے لبوں پر ایک آہ کے ساتھ اپنے رب
کا نام آ گیا۔ اور اسی لمحے اس کا محبوب اس کی رگ گلو سے بھی زیادہ اس کے قریب
پہنچ گیا۔ روشنیوں میں ساز بجتے رہے اور روح اپنے رب سے قریب تر ہوتی رہی۔ روح کی
پشت سے نور کا ایک تار نکلا اور بڑھتے بڑھتے اللہ تعالیٰ کی ہستی میں گم ہو گیا۔
جہاں یہ تار گم ہوا وہاں پر اللہ تعالیٰ کی ہستی دکھائی دی۔ دل کا دروازہ کھلا اور
روح اس دروازے کے اندر اتر گئی۔ روح کے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند ہو گیا۔ یہ
ایک روشن فضا تھی۔ خیال آیا یہ اللہ تعالیٰ کا دل ہے۔ میں نے اس کے اندر دیکھنا
شروع کر دیا۔ اس کے عشق کی گہرائیاں درد و کرب بن کر احساس کی سطح پر وارد ہوتی
رہیں۔ دل کے اس مقام پر روشنی کی فضا کی گہرائی سے ایک رنگ ابھرتا اور یہ رنگین
تار روح سے بندھ جاتا۔ مجھے ایسا لگا جیسے ہر رنگ ایک اسم الٰہی ہے اور یہ اسم
الٰہی اللہ تعالیٰ کا ایک جلوہ ہے اور اس جلوے کے ساتھ میری روح اس رنگین تار سے
باندھ دی گئی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ دل ایک پورا دائرہ بن گیا۔ جیسے یہ دائرہ میری
کائنات ہے۔ میں اس دائرے کے بیچوں بیچ ایک نقطے کی حیثیت سے موجود ہوں۔ دائرے کی
سطح سے رنگین تار نکلتے اور میری روح یا نقطے کے ساتھ بندھ جاتے۔ ہر تار ایسا لگتا
تھا جیسے ایک راستہ ہے۔ اس راستے سے ایک ایک اسم الٰہی کا جلوہ آتا اور روح اس کے
قرب کی لذتوں سے آشنا ہوتی۔ ان لذتوں کا مرکز تو حقیقت میں روح ہی جان سکتی ہے۔
شعور کی سطح پر آتے آتے روح کا ہر ادراک عشق کے درد میں ڈھل جاتا ہے۔
آہستہ
آہستہ دائرے کے سارے تار میری روح سے بندھ گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ تما تار میرے
دل سے بندھے ہیں۔ جب یہ تار ہلتے تو میرے دل کی گہرائیوں میں مدوجزر اٹھتے دکھائی
دیتے۔ عشق کی کسک میرے روئیں روئیں میں محسوس ہونے لگی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری
زندگی کا ہر لمحہ مرتا جا رہا ہے۔ سارا دائرہ مجھے تجلی دکھائی دیااور یہ تجلیاں
قلب میں جذب ہونے لگیں۔ پہلے دل ایک جلتے انگارے کی مانند ہوا پھر آہستہ آہستہ خود
تجلی بن گیا ہر تار ایک راستہ بن گیا۔ اس راستے سے ایک ایک اسم الٰہی کا جلوہ آتا
اور روح کے سر پر اپنی رنگین چادر اوڑھ دیتا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں اللہ تعالیٰ
کی ذات میں فنا ہو رہی ہوں۔ میرے وجود کا ذرہ ذرہ فنا ہو کر اللہ کی ہستی میں گم
ہوتا جا رہا ہے۔ میری روح کے سارے تقاضے نظر میں ڈھل گئے۔ اس لمحے کئی اسمائے
الٰہیہ کے جلوئوں نے قریب آ کر کہا۔ تم نے ہم سے کچھ مانگا نہیں میں نے اسی لمحے
روح کی گہرائیوں سے اٹھتی ہوئی یہ آواز سنی۔ یا اللہ اس ایک لمحے کو میری ساری
زندگی پر محیط کر دے اور اس ایک لمحے میں اپنے اور میرے درمیان کسی اور کو نہ آنے
دے۔ روح کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ آواز انتہائی تیزی کے ساتھ تجلی کے دائرے کی
سطح تک پہنچ گئی اور اسی وقت دائرے سے ایک تجلی پورے دائرے کی شکل میں نکلی۔ یہ
تجلی روح کے قریب آتے آتے ایک جلوے کی شکل بن گئی۔ اس جلوے نے روح کے قریب آ کر بہت
ہی محبت کے ساتھ روح کے سر پر ایک سرخ دوپٹہ اوڑھا دیا۔ کہنے لگا۔ میں ولی ہوں اور
تم شفیع ہو۔ اس کے اتنا کہتے ہی روح کے اوپر ایک عجیب مستی و وارفتگی سی طاری ہو
گئی۔ اور اسی شدت کیفیت میں روح پر ذات کی تجلیاں نازل ہونے لگیں۔ مجھے ایسا محسوس
ہوا جیسے قرآن پاک میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کا ذکر ہے۔ وہ تجلیاں
یکے بعد دیگرے روح کے اوپر نازل ہو رہی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات روح سے بے
پناہ عشق کرتی ہے۔ روح کے قلب میں یہ تجلیاں جذب ہوتی گئیں اور لاشعور سے شعور تک
روح سے جسم تک، باطن سے ظاہر تک، قلب سے ذہن تک، سارے وجود کو اللہ تعالیٰ کے عشق
کا کامل یقین ہو گیا اور میرا سارا وجود لی مع اللہ وقت کے اندر ہمیشہ کے لئے
محصور ہو گیا۔ حقیقت کے اس ایک لمحے میں میرے ساتھ میری ساری کائنات بند ہو گئی۔
میری کائنات میرا عشق ہے، میرا رب ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے آہستہ آہستہ یہ دائرہ
تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ جیسے تمام راستے سمٹتے جا رہے ہیں اور تمام تار میری روح کے
جسم سے لپٹتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگا جیسے تمام اسمائے الٰہیہ کے جلوئوں نے روح کو
اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ سب کی سرگوشی مجھے سنائی دی۔ تمہارے دل میں ہمارا ساز
ہے۔ جب بھی تم اپنے دل کا اتار چھیڑو گی، ہمارے ساز کی آواز سنو گی۔ تم سرگم ہو تو
ہم ساز ہیں، تم نغمہ ہو تو ہم آواز ہیں، تم افسانہ ہو تو ہم الفاظ ہیں۔ بغیر ہمارے
تمہاری کہانی ادھوری ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے روح کے جسم سے لپٹنے والے یہ تار میرے
دل سے لپٹتے جا رہے ہیں، پھر کھل جاتے ہیں تو دائرہ بن جاتا ہے اور جب یہ تار سمٹ
جاتے ہیں تو نقطہ بن جاتا ہے۔ اللہ میری جان ہے، میرا دل ہے، میرا محبوب ہے۔ میں
اس کی ذات کا ایک نقطہ ہوں۔ ذات کا یہ نقطہ جب ذات سے ملتا ہے تو اس کی روشنیاں
ساری کائنات پر محیط ہو جاتی ہے۔ ذات کا یہ نقطہ جب ذات کی گہرائیوں میں جذب ہو
جاتا ہے تو حسن و عشق کی لازوال داستانیں وجود میں آ جاتی ہیں۔ ذات کا یہ نقطہ جب
ذات کے قلب میں فنا ہو جاتا ہے تو قلب کا نور اس نقطے کو ہمیشہ کے لئے اپنے اندر
محصور کر لیتا ہے۔ قلب کی گہرائیوں میں پہنچ کر ذات کا یہ نقطہ نظر بن جاتا ہے اور
یہ نظر قلب کے ہر نور کو اسم الٰہیہ کے جلوئوں کی صورت میں دیکھتی ہے۔ یہ نظر روح
ہے جو تجلی ذات کے نقطے کے اندر کام کر رہی ہے۔ روح کی ساری کائنات تجلی کا یہ
نقطہ ہے اور ذات تو ایک ہی ہے۔ ذات واحد کے رنگ روح کے نقطے میں جذب ہوتے جاتے ہیں
اور روح کی نظر ان رنگوں کو محبوب کے جلوئوں کی صورت میں دیکھتی ہے۔ عشق بھی کیا
عجیب شئے ہے۔ عشق جب روح کی گہرائیوں میں سرایت کر جاتا ہے تو عشق کا ہر رنگ محبوب
کا سراپائے جمال بن جاتا ہے۔
مجھے
ایسا محسوس ہوا جیسے میں روح کی آنکھ کا تل ہوں۔ روح کا ادراک میرا احساس ہے، روح
کی نظر میری بینائی ہے۔ میرا سارا وجود روح ہے۔ روح ہی میری ذات ہے اور ذات کی
روشنیاں میرے روئیں روئیں سے پھوٹ رہی ہیں۔ ذات کا خیال آتے ہی میرا تفکر زمانہ
ازل میں جا پہنچا۔ جب میرے وجود میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی تھی۔ اسمائے
الٰہیہ کا ہر نور میرے وجود کے پیمانے میں بھرا گیا تھا۔ میری ذات حسن معرفت کا
ایک لبریز ساغر ہے جس میں اس نے اپنے عشق کی رنگا رنگ شراب بھر دی ہے۔ جب عشق اپنے
شباب کو پہنچتا ہے تو حسن کے رنگ بکھر جاتے ہیں اور ساغر سے شراب چھلکنے لگتی ہے۔
ساغر اس چھلکی ہوئی شراب کو پھر اپنے وجود میں بھرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش
میں ساغر کا ظاہر باطن دونوں ہی شراب کے رنگوں میں رنگ جاتا ہے۔ ساغر کی نظر ان
رنگین جلوئوں میں ہمیشہ کے لئے الجھ جاتی ہے۔ اندر بھی، باہر بھی اسی کے جلوے ہیں۔
شعور
جب روح کے ادراک کے سمندر میں بہنے لگتا ہے تو سمندر کی ہر لہر سے واقف ہو جاتا
ہے۔ روح کے ادراک کی ہر لہر شعور کو معرفت الٰہی کے جام بھر بھر کر پلاتی ہے۔
ادراک کا ہر لمحہ روح کے تفکر کا ایک نقطہ ہے۔ قلب کی نظر اس نقطے میں تصور کی فلم
کو دیکھتی ہے وہ تصور جو خالق حقیقی نے روح کی زندگی کا پروگرام کہا ہے۔ اسی کا نور
روح کے اندر منتقل ہو کر روح کا تقاضہ بن جاتا ہے۔ روح کا ہر تقاضہ اپنے مالک کے
قرب و دیدار کی خواہش ہے۔ جب شعور روح کے تقاضوں کو اپنا لیتا ہے تو جسم و جان عشق
کی آگ میں سلگنے لگتے ہیں۔ عشق کی گرمی بدن کو موسم کی طرح پگھلا دیتی ہے اور مالک
اس نرم و نازک بدن کو اپنے تفکر کے سانچوں میں ڈھال دیتا ہے۔ ہر سانچے میں وہ اپنے
حسن کا ایک مخصوص رنگ بھر دیتا ہے۔ وہ اپنے ہر رنگ میں یکتا ہے۔ جب تک یہ رنگ روح
کے سانچے میں ہیں اسمائے الٰہیہ کا نور ہے اور جب یہ نور روح کے سانچوں سے باہر آ
جاتا ہے تو کائنات بن جاتا ہے۔ روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بینائی عطا فرمائی ہے۔
اور اللہ کی نظڑ ظاہر باطن دونوں میں یکساں طور پر کام کرتی ہے۔ شعور کو جب روح کا
ادراک حاصل ہو جاتا ہے تو وہ جان جاتا ہے کہ وہ روح کی آنکھ کی پتلی کا تل ہے اور
اللہ کی نظر کی روشنی روح کی آنکھ میں پتلی کے تل سے گزر کر آ رہی ہے۔ پس منظر
ظاہر، باطن دونوں میں یکساں طور پر کام کرتی ہے۔
شعور
اور لاشعور، جسم اور جان، بدن اور روح سب اس کی نظر کے طلسمات میں کھو کر رہ جاتے
ہیں۔ یہ افسوس کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ یہ سحر کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ اللہ
کی نظر کا نور لامحدود ہے۔ روح کی آنکھ کی پتلی میں یہ نور آتا جاتا ہے۔ روح کی
آنکھ جب اس نور میں باہر کا نظارہ کرتی ہے تو ساری کائنات اس کی نظر کے سامنے آ
جاتی ہے اور جب نظر کے اس نور میں روح باطن کی گہرائیوں میں دیکھتی ہے تو قرب
محبوب کے ان رنگین جلوئوں کے نظارے سامنے آ جاتے ہیں۔ جس کا ہر رنگ جدا ہے، جس کا
ہر لطف نیا ہے۔ جو وحدانیت کا سمندر ہے اور توحید کا ہر ذرہ اپنی ذات میں واحد ہے۔
نظر
جب دریائے توحید میں غوطہ زن ہوتی ہے تو دریا کی ہر لہر سے صوت سرمدی سنائی دیتی
ہے۔ صوت سرمدی کی ہر تان نئی ہے، ساز کی ہر آواز نئی ہے۔ روح کے ظاہر اور باطن
دونوں میں رنگا رنگ کائناتیں آباد ہیں۔ باطن میں ذات ہے اور ذات عشق کی گرمی ہے
اور ظاہر میں صفات ہے اور صفات کے رنگ ہیں۔ شعور جب تک نظر میں نہ ڈھل جائے باطن
میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی نظر ہی اللہ کو دیکھ سکتی اور ساز بجتے رہے۔ نظر
ذات کی گہرائیوں میں اترتی رہی۔
میں
کیا ہوں یہ عقدہ تو کھلے گا آخر
پردہ
جو پڑا ہے وہ اٹھے گا آخر
ذرے
کو مرے کوئی تو صورت دیں گے
ساغر
نہ بنا خم تو بنے گا آخر
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94