Topics
مغرب
کی نماز کے بعد تسبیح کرتے ہوئے نظر پر سے پردے ہٹ گئے۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بہت
ہی خوبصورت محل ہے۔ میں اس محل کے اندر آتی ہوں اور ادھر ادھر کسی کو نہ پا کر امی
جان، امی جان کہہ کر پکارتی ہوں۔ میری آواز سن کر حضرت بی بی فاطمہؓ آتی ہیں اور
آتے ہی یہ کہہ کر آ گئی میری بچی۔ مجھے اپنے سینے سے لگا کر سر اور ماتھا چومتی
ہیں۔ میرا ڈیل ڈول پورا جوان لڑکی کا نظر آیا۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں
بالکل معصوم بچی ہوں۔ حضرت بی بی فاطمہؓ میرے سر پر اچھی طرح اوڑھنی اوڑاتی ہیں۔
پھر میرے ہاتھ میں قرآن مجید دیتی ہیں۔ جو میں سینے سے لگا لیتی ہوں۔ پھر میرے
ہاتھ ایک گلاب کا پھول دیتی ہیں اور فرماتی ہیں۔ بیٹی اپنے نانا جان کے پاس جائو۔
سب سے پہلے بہت ادب کے ساتھ جھک کر انہیں سلام کرنا۔ پھر یہ پھول پیش کرنا۔ کہنا
کہ بی بی فاطمہؓ نے مجھے بھیجا ہے اور یہ پھول آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا حکم دیا
ہے۔ وہ خوش ہو جائیں گے۔ پھر ان سے نہایت ادب کے ساتھ ساتھ باندھ کر عرض کرنا کہ
میری امیؓ نے فرمایا ے کہ آپ مجھے قرآن مجید پڑھا دیں۔ حضرت بی بی فاطمہؓ خوب اچھی
طرح مجھے سمجھاتی ہیں۔ جیسے کسی چھوٹے سے بچے کو سمجھاتے ہیں۔ پھر سر پر ہاتھ پھیر
کر دعائیں دیتی ہیں اور جانے کی اجازت دیتی ہیں۔ میں جانے کے لئے محل کے دروازے سے
باہر آتی ہوں اور دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب
کھڑا ہوا دیکھتی ہوں۔ قریب جا کر اسی طرح جھک کر سلام کرتی ہوں اور بہت ادب کے
ساتھ پھول پیش کرتی ہوں کہ یہ حضرت بی بی فاطمہؓ نے بھیجا ہے۔ سرکار دو عالمﷺ اپنی
پیاری بیٹی کا نام سن کر فوراً پھول لے لیتے ہیں اور پھول لے کر اسے چوم کر اس کی
خوشبو سونگتے ہیں اور جیسے حضرت بی بی فاطمہؓ کی محبت کے سرور میں ڈوب جاتے ہیں۔
پھر ایک لمحے بعد آنکھیں کھول کر مجھے دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں۔ یہاں آئو بیٹی۔
تم بھی تو ہماری بیٹی ہو اور نہایت ہی محبت کے ساتھ خوب پیار کرتے ہیں۔ پھر فرماتے
ہیں۔ یہ قرآن کس نے دیا ہے۔ میں کہتی ہوں۔ نانا جان یہ امیؓ نے دیا ہے۔ فرماتی
تھیں کہ آپ سے عرض کروں کہ آپ مجھے اس کا درس دے دیں۔ حضور پاکﷺ ایک گہری نظر مجھ
پر ڈالتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں تم کیوں پڑھنا چاہتی ہو بیٹی۔ میں نے کہا مجھے علم
سیکھنے کا بے حد شوق ہے نانا جان۔ اسی وجہ سے خاص طور سے میری امیؓ نے مجھے آپﷺ کے
پاس بھیجا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم بہت زیادہ شفقت کے ساتھ فرماتے ہیں۔
ہماری بیٹی کو قرآن پڑھنے کا شوق ہے تو ہم ضرور پڑھائیں گے، ضرور پڑھائیں گے۔ آئو
بیٹھ جائو۔ میں بیٹھ جاتی ہوں۔ بہت سنبھل کر اور بڑے ادب کے ساتھ اپنے سامنے ایک
رحل رکھتی ہوں۔ یہ رحل حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم مجھے دیتے ہیں۔ پھر اس پر
قرآن مجید رکھتی ہوں۔ سامنے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم تشریف رکھتے ہیں۔ میں آپ
کے حکم سے قرآن کھولتی ہوں۔ پہلی سطر پر حضورﷺ اپنی انگلی رکھ کر فرماتے ہیں۔ پڑھو
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اقراء باسم ربک الذی خلق میں یہی آیت دہراتی ہوں۔ اسی
لمحے میری نظر کے سامنے میرا 1954ء میں دیکھا ہوا خواب آ جاتا ہے۔ میں نے خواب
دیکھا تھا۔ اس وقت میں اسکول میں پڑھتی تھی کہ اس طرح رحل کے اوپر ایک بہت ہی بڑا
قرآن شریف رکھا ہے اور ایک ہاتھ پر ہر سطر پر انگلی رکھ رکھ کر مجھے پورا قرآن
پڑھایا جا رہا ہے۔ مجھے یہی احساس تھا کہ یہ اللہ کا ہاتھ ہے اور اللہ کی آواز ہے۔
اب وہی خواب نظروں میں آ جاتا ہے جیسے میں سوچتی ہوں کہ اس وقت جو میں نے محسوس
کیا تھا کہ یہ اللہ کا ہاتھ ہے تو حقیقت میں تو یہ نانا جان کا ہاتھ ہے۔ اس کی
توجیہہ خود ہی ذہن میں آ جاتی ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے
محبوب ہیں۔ آپ کے اندر اللہ تعالیٰ کی روشنی کام کر رہی ہے۔ کوئی بھی بندہ جو
فرائض اور قرب نوافل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے قریب ہو جاتا ہے تو اس کا رابطہ براہ
راست حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ہو جاتا ہے اور حضورﷺ کا رابطہ براہ راست اللہ
سے ہے۔ اللہ تو بس نور ہے۔ جیسے سمندر اس کی کوئی خاص شکل نہیں ہے۔ اس کے پانی کو
گلاس میں بھریں تو گلاس کی شکل ہو جائے اور پیالے میں بھریں تو پیالے کی شکل ہو
جائے۔ حقیقت میں پیاس تو پانی ہی سے بجھتی ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے
ذریعے سے اللہ ہی اپنے بندوں کے ہر کام کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے
فرمایا ہے کہ جب کوئی بندہ اٹھتے بیٹھتے مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ہاتھ بن
جاتا ہوں، اس کی زبان بن جاتا ہوں۔ وہ میرے ہی ذریعے سے ہر کام کرتا ہے۔ یعنی اس
کے اندر اللہ کا ارادہ یا امر کام کرنے لگتا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ میرے اس خواب کی
یہی حقیقت ہے کہ اصل میں اللہ ہی کا امر مجھے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی
صورت میں پڑھا رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد سنجیدگی کے ساتھ کہتی ہوں۔ نانا جان مجھے اسم
اعظم کے علوم سکھا دیجئے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم غور سے میری جانب دیکھتے
ہیں۔ میں پھر دوبارہ یہی بات دہراتی ہوں۔ حضور پاکﷺ نہایت ہی مدبرانہ انداز م یں
فرماتے ہیں۔ تم جانتی ہو بیٹی کہ اسم اعظم کیا ہے۔ میں اطمینان سے جواب دیتی ہوں۔
نانا میں جانتی ہوں کہ اسم اعظم ذات کے علوم ہیں۔ اسی وقت حضور پاکﷺ یہ سن کر اٹھ
کھڑے ہوتے ہیں اور میرا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ کیوں نہیں آخر تم فاطمہؓ کی اولاد ہو
یہ کہہ کر مجھے لے کر چلتے ہیں۔ کچھ دور چلنے کے بعد ایک سرنگ آتی ہے اس سرنگ میں
بالکل ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ جیسے ہی ہم اس سرنگ میں پہنچتے ہیں۔ حضور پاکﷺ کے نور
سے یہ سرنگ روشن ہو جاتی ہے۔ ہم اس روشنی میں آگے بڑھتے ہیں۔ خیال آتا ہے یہ کوئی
کان ہے۔ لمبی سرنگ پار کر کے کھلی جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ زمین پر ہیرے
پڑے نظر آتے ہیں۔ میں خوش ہو کر کہتی ہوں۔ نانا کیا یہ اسم اعظم ہیں۔ حضورﷺ فرماتے
ہیں۔ بیٹی اسم اعظم تو اس کان کی گہرائی میں ملے گا۔ میں آگے جا کر کان کے سوراخ
کے اندر جھانکتی ہوں۔ سوچتی ہوں۔ اس قدر گہری کان ہے۔ نیچے تہہ کے پاس دیواروں میں
چھوٹے چھوٹے ہیرے چمکتے ہیں۔ میں پھر پوچھتی ہوں۔ نانا کیا یہ اسم اعظم ہے۔ حضورﷺ
کان کے اندر جھانکتے ہیں اور فرماتے ہیں۔ بیٹی یہ جو دیواروں پر اور تہہ کے اندر
رنگین چھوٹے چھوٹے ہیرے ہیں یہ اسمائے الٰہیہ ہیں۔ جو صفاتی اسم ہیں۔ اسم اعظم اس
کان کی تہہ میں ساری کان کے اندر جو ایک ہیرا پھیلا ہوا ہے یہ ہے۔ میں دیکھتی ہوں
یہ حسین ترین ہیرا ہے۔ جو ساری کان جتنا بڑا ہے۔ کان کی تہہ میں فرش پر پورا یہ
ایک ہیرا سمایا ہوا ہے۔ میں کہتی ہوں نانا جان میں اس کو کیسے نکالوں۔ حضورﷺ
فرماتے ہیں۔ بیٹی ہمت کرو اور کان کے اندر اتر جائو۔ تم ہیرا نکال لو گی۔ میں حضور
صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمانے پر اندر اترتی ہوں اور آسانی کے ساتھ ہیرا لے کر اوپر
آ جاتی ہوں۔ یہ ہیرا اتنا بڑا ہے کہ میرے دونوں ہاتھوں پر جیسے کوئی بہت بڑا تھال
رکھا ہے۔ میں خوشی خوشی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لاتی ہوں۔ ہیرا اتنا
بڑا ہوتا ہے کہ میرا آدھا جسم تو اس میں چھپ جاتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ اتنا بڑا
ہیرا ہاتھوں میں سمانا مشکل ہے۔ اسے میں کہاں سجائوں گی۔ نہ گلے میں پہن سکتی ہوں۔
نہ جسم کے کسی اور حصے پر سجا سکتی ہوں اسی لمحے حضورﷺ میرے اس تفکر پر آگاہ ہو کر
ہیرے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اب یہ ہیرا اسی وقت میرے ہاتھ میں چھوٹا ہو جاتا ہے۔
یہ بڑا خوبصورت سرخ رنگ کا ہیرا دکھائی دیتا ہے۔ میں بے حد خوش ہوتی ہوں۔ اور خوشی
خوشی اس کو ہاتھ میں لے کر چومتی ہوں اور ہم دونوں نانا اور نواسی واپس آ جاتے
ہیں۔
واپس
آ کر پھر میں اسی جگہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھ جاتی ہوں۔ حضور صلی
اللہ علیہ و سلم گائو تکیے کے سہارے بیٹھ جاتے ہیں اور مجھ سے بچوں کی طرح کھیلتے
اور پیار کرتے ہیں۔ اس کے بعد کھیلتے کھیلتے میں ایک دم سنجیدگی سے بیٹھ کر سوال
کرتی ہوں۔ نانا اللہ تعالیٰ رب العالمین ہیں اور آپ رحمت العالمینﷺ ہیں۔ اس کا
مطلب یہ ہے کہ ہمارے علاوہ بھی بے شمار دنیائیں اور عالمین ہیں۔ ورنہ اللہ میاں
عالمین نہ کہتے صرف ایک عالم کہتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تمام عالمین کے لئے
باعث رحمت ہیں۔ تو نانا جس طرح ہماری دنیا میں اللہ نے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا
اور آپ پیدا ہوئے۔ اسی طرح دوسری دنیائوں میں بھی آپ کو رحمت بنا کر بھیجا جاتا ہو
گا اور آپ وہاں کے لوگوں کے درمیان پیدا ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ ہر عالم کی مخلوق کو
اللہ کی رحمت کی ضرورت ہے۔ تو نانا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ایک سے زیادہ عالمین
میں پیدا کئے جائیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی طرح گائو تکیے کے سہارے
لیٹے ہوئے ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی اور فرمایا۔ سبحان اللہ بیٹی! تمہارا سوال بہت
غور طلب بات ہے۔ اب تمہاری سمجھ میں یہ بات آ جائے گی کہ ہم تمہیں بتاتے ہیں ہماری
جانب دیکھو۔ میں نے دیکھا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے سر کے اور جسم کے
ایک ایک روئیں سے ایک نور کا تار بندھا ہوا ہے۔ یہ تار بہت دور دور جا رہے ہیں۔
دور ان کے سروں پر ہر تار کے ساتھ ایک نظام شمسی بندھا ہوا ہے۔ اس لمحے ساری
کائنات کا دائرہ میری نظر میں آ گیا۔ دیکھا کہ ساری کائنات حضور پاک صلی اللہ علیہ
و سلم کے بالوں اور روئیں روئیں سے بندھی ہوئی ہے۔ نور کا ہر تار ہمارے تفکر کا
تار ہے۔ ہر نظام شمسی کے اندر ایک تفکر کی روشنی ہے۔ ہر تفکر کی روشنی دوسرے سے
مختلف ہے۔ یہ صفات کی روشنی ہے۔ لہر تفکر ایک آٹو میٹک مکمل نظام ہے۔ ہر نظام شمسی
کو اس تفکر سے روشنی ملتی ہے۔ ہر تفکر مختلف ہونے کی وجہ سے ہر نظام شمسی کے اندر
اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کام کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نظام شمسی کے اندر
مخلوق کے جسم مختلف قسم کے ہیں۔ کہیں مٹی کے، کہیں شیشے کی طرح۔ کہیں روشنی کے،
کہیں پتھر کی طرح کے۔ غرض کہ تفکر کے اندر کی روشنیاں پورے نظام میں منتقل ہوتی
ہیں۔ صفات مختلف ہیں۔ مگر ذات ایک ہی ہے۔ جیسا کہ تم دیکھ رہی ہو کہ ہماری ذات سے
ہی اللہ تعالیٰ کے یہ تمام تفکر نکل رہے ہیں۔ ہماری ذات اللہ تعالیٰ کی ذات کا
مظہر ہے۔
جیسا
کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ واطیعو اللّٰہ و اطیعو الرسول۔ ترجمہ:‘‘اللہ کی
فرمانبرداری رسول کی فرمانبرداری ہے اور رسول کا فرمان اللہ ہی کا فرمان ہے۔ ’’ذات
کا شعور وحدانیت کا شعور ہے اور یہ شعور ہر تفکر کے اندر کام کر رہا ہے۔ کیونکہ ہر
تفکر کا تار ذات سے وابستہ ہے۔ جب مخلوق اپنی حاجت کے لئے ذات خداوندی کی طرف رجوع
کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفت ربانیت حرکت میں آ جاتی ہے۔ ہماری ذات اللہ تعالیٰ
کی صفت ربانیت کا مظہر ہے اور مخلوق کی حاجتیں ہمارے ذریعے سے پوری ہوتی ہیں۔ جب
اس قانون کے تحت جو اس آیت میں کام کر رہا ہے۔ علم اٰدم الاسماء کلھا۔ یعنی ہم نے
آدم کو تمام اسمائے الٰہیہ کے علوم سکھا دیئے۔ اس قانون کے تحت ذات کا تفکر مخلوق
کے اندر کام کرتا ہے۔ تو مخلوق کو علم الاسماء سکھانے کے لئے ذات کا تفکر بشر کا
لباس پہن کر ان کے درمیان آ جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے
تمہیں میں سے ایک رسول بھیجا ہے۔ جو تمہاری طرح کھاتا ہے، پیتا ہے، تمہاری ہی زبان
بولتا ہے اور سب کام تمہاری ہی طرح کرتا ہے۔ تمہاری ہی طرح بشر کی صورت ہے۔ بیٹی
جب تک ذات کی نظر ذات کو نہ دیکھے۔ ذات کی بات کیسے سمجھ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
ہر تفکر کا تار ذات سے وابستہ ہے اور جب مخلوق کو ذات خداوندی کے علوم جاننے کی
ضرورت پڑتی ہے۔ تو ذات مخلوق کے اندر کام کرنے والی صفات کی روشنیوں کا لباس پہن
کر ان کے درمیان اتر آتی ہے۔ تا کہ مخلوق اسے اپنے تفکر سے قریب جان سکے اور سمجھ
سکے۔ یہ سب کام تفکر کے آٹو میٹک نظام کے ذریعے سے عمل میں آتے ہیں۔ میں نے کہا۔
نانا اگر ہر تفکر ایک آٹو میٹک نظام ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہو
رہا ہے۔ اس کی خبر آپﷺ کو نہیں ہو سکتی کیونکہ سب کام تو خود بخود مشین کی طرح عمل
میں آ رہا ہے۔ اس لمحے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے بازو کا ایک رواں
کھینچا۔ میرے منہ سے بیساختہ آں نکل گیا۔ حضورﷺ فرمانے لگے۔ کیا ہوا؟ میں نے کہا۔
نانا درد ہوا۔ فرمایا۔ کہاں ہوا؟ میں نے کہا۔ نانا روئیں کی طرف اشارہ کر کے یہاں
بھی ہوا اور یہ درد سارے جسم میں پھیل گیا۔ حضورﷺ نے فرمایا۔ ہمارے جسم کی طرف
دیکھو۔ ہر تفکر کا تار ہمارے بالوں سے بندھا ہے۔ جب ان تاروں میں حرکت ہو گی تو
بالوں میں ہو گی یا نہیں۔ میں نے کہا۔ ہاں نانا۔ بال میں تکلیف ہوتی ہے اور بلکہ
یہ تکلیف سارا جسم محسوس کرتا ہے۔ یہ درد سارے بدن میں سرائیت کر جاتا ہے۔ فرمایا
پھر ایک روئیں کے درد کا ادراک سارے جسم کو ہو گیا۔ اسی طرح ہمیں بھی کائنات کی ہر
ہر حرکت کا علم رہتا ہے اور ہر حرکت کا ادراک ہماری پوری ذات کو ہوتا ہے۔ کائنات
کا ذرہ ذرہ ہمارے روئیں کی طرح ہے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے ادب اور تعظیم کا
حکم دیا ہے اور امرونوانہی کے اصول بنائے ہیں۔ یہ سن کر میں نے بے ساختہ نہایت ہی
محبت کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم کے اوپر اپنے دونوں ہاتھوں کو
پھیلا دیا۔
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94