Topics

خود آگاہی


اس چمن میں کباب کی بو ہے

دل بلبل جلا دیا کس نے

                جانے کیوں طبیعت بڑی اداس تھی۔ کوئی خاص وجہ بھی نہ تھی بس یونہی جی چاہنے لگا۔ سب سے منہ موڑ کر اس یکتا و تنہا کی آغوش رحمت میں جا چھپوں۔ کبھی کبھی دنیا کی محفلوں سے گھبرا کر دل اپنا ابدی ٹھکانہ تلاش کرنے لگتا ہے۔ نظریں بھٹک بھٹک کر اس ایک نظر کو تلاش کرتی ہیں جو رنگوں کے ہجوم میں جانے کہاں کھو گئی ہے۔ ان کھوئے ہوئے حواس میں جب کسی کی آواز کانوں میں پڑتی ہے تو آواز کانوں سے نہیں دل سے ٹکراتی ہے اور بدن اس طرح چونک اٹھتا ہے جیسے سچ مچ محبوب دبے پائوں آنگن میں اتر آیا ہے۔ پھر بھی دل کیوں اداس ہے۔ آگ کی لہر تن بدن میں دوڑ گئی اور حواس کا پردہ جل اٹھا۔ میں نے دیکھا۔ روح شمع ہاتھ میں اٹھائے ہوئے کسی کی کھوج میں ہے، راہ اندھیری ہے، وہ اکیلی ہے۔ اس انجانے راستے پر سنبھل سنبھل کر چل رہی ہے۔ ایک ہاتھ سے شمع کی لو کو ہوا کے جھونکے سے بچاتی جاتی ہے۔ روح کی حالت دیکھ کر دل کی اداسی اور گہری ہو گئی۔ یا رحمٰن کہاں چھپا ہے تو۔ دل غم سے پانی پانی ہونے لگا۔ روح اس اندھیرے میں بڑھتے بڑھتے ایک جگہ رک گئی۔ اس نے آہستہ سے چراغ زمین پر رکھا اور زمین پر بیٹھ گئی۔ یہ ساحل سمندر تھا۔ اس اندھیری رات میں تنہا ساحل پر اس کا رکنا دل کو اور بھی غمگین کر گیا۔ اس نے سر کو ایک جھٹکا دیا، سنہری زلفیں ریشمی تاروں کی مانند بکھر گئیں۔ چراغ کی روشنی اس کے حسین چہرے پر پڑنے لگی۔ اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں حد نگاہ تک اندھیرے کے ساتھ کچھ نہ تھا۔ اب اس نے سمندر کے پانی میں دیکھا۔ چراغ کی روشنی میں چمکتا چہرہ عکس بن کر سطح آب پر ابھر آیا۔ روح نے سوگوار نظروں سے اپنے حسن شباب کو دیکھا۔ اس کی ویران نظریں کہہ رہی تھیں۔ اب میں جوان ہوں، میرا جوبن اپنے شباب پر ہے۔ کیا کسی کی نظر مجھے دیکھنے والی نہیں ہے؟ اس نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر زور سے پکارا۔

                اے احسن الخالقین! کیا میں احسن تقویم نہیں ہوں؟ کیا میں تیری بہتری صناعی نہیں ہوں؟ اے بنانے والے! کیا تو نے مجھے سب سے اچھا نہیں خلق کیا ہے؟ پھر مجھے دیکھنے والی نظر کہاں ہے۔ میں اکیلی کیوں ہوں۔ اس نے پھر آسمان پر نظر ڈالی۔ دور چاند نے روح کی آواز سن کر بادل سے اپنا چہرہ باہر نکالا۔ اس کا عکس روح سے ذرا فاصلے پر پانی میں ابھر آیا جیسے سورج کے سامنے چراغ۔ وہ پانی میں چاند کے مدھم عکس سے مخاطب ہوئی۔ اے چاند! مجھے دیکھ کیا میں تجھ سے حسین نہیں ہوں۔ چاند نے ترچھی نظروں سے روح کے عکس کو پانی میں دیکھا اور جمال رعب سے شرما کر اپنا مکھڑا بدلی میں چھپا لیا۔ روح کا دل اور بھی بے چین ہو گیا۔ اس نے آسمان پر چاروں طرف نظریں ڈالیں اور پکار کر کہا۔ اے آسمان! میں روح ہوں۔ میرے خالق نے مجھے بے نقص پیدا کیا ہے۔ ذرا مجھ پر نگاہ ڈال کر دیکھ۔ کیا تجھے کوئی فتور دکھائی دیتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال۔ تیری نگاہ ناکام اور درماندہ ہو کر تیری طرف لوٹ آئے گی۔ روح کی کڑک دار آواز سارے آسمان میں بجلی بن کر پھیل گئی۔ آسمان نے حیران ہو کر آنکھیں کھول دیں۔ سبھی آسمان کے گوشے گوشے سے فلیش ہونے لگی۔ سمندر کے پانی میں آسمان نے روح کے عکس جمیل کو ایک نظر دیکھا اور پھر گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں، پھر وہی گھپ اندھیرا، پھر وہی سکوت تنہائی۔ روح نے پانی میں اپنا عکس دیکھ کر اپنے مرمریں بازو پر ہاتھ پھیرا۔ تقاضائے خود نمائی نے اس کے دل کو تڑپا دیا۔ اس نے دونوں بازو پھیلا دیئے اور گہری آواز میں بول اٹھی۔

                اے پہاڑ! سامنے آ کہ تجھے معلوم نہیں میرے رب نے مجھے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے، میرا رب سب سے بہتر بنانے والا ہے۔ اے پہاڑ! اے طور! میرے حسن کی ایک کرن تیرے دامن کو جلا کر خاک کر دے گی، ذرا مجھے چھو کر تو دیکھ۔ روح کی گھمبیر آواز پر سمندر کی تہہ سے پہاڑ کی چوٹی ابھری۔ روح کی آواز اور اس کا نور جمال اس پہاڑ سے ٹکرایا اور چشم زدن میں طور پہاڑ جل گیا۔ اس نے جلدی سے سمندر میں ڈبکی لگا لی۔ مبادا حسن خالقیت میں فنا نہ ہو جائوں۔ سمندر کی ساکت لہروں پر آئینے کی طرح روح کا روشن عکس جگمگا رہا تھا۔ اس کے بدن میں لہریں اٹھنے لگیں۔ کیا کوئی میرے جمال سے محفوظ ہونے والا نہیں ہے؟ اس نے لہراتی آواز میں پکارا۔ اے ہوا! قریب آ، تیری لطافت سے کہیں زیادہ میرا بدن لطیف ہے، میں اپنے رب کی تخلیق میں سب سے ز یادہ لطیف ہوں۔ کیا تو نہیں جانتی۔ ہوا روح کی بات سن کر آہستہ آہستہ قریب آئی، اسے یقین نہیں آتا تھا کہ کوئی اس سے بھی زیادہ لطیف ہو سکتا ہے۔ اس نے روح کی ریشمی زلفوں کو چھوا اور اس کے گالوں کے قریب آ گئی۔ روح کی گرم سانس ٹھنڈی ہوا سے ٹکرائی تو ہوا پشیمان ہو کر سمندر میں اتر گئی۔ سمندر میں اس کی بے چینی نے ہر لہر کو سمندر کر دیا اور پانی کی لہریں ساحل سے ٹکرانے لگیں۔ روح مسکرا دی۔ اس نے لہروں سے مخاطب ہر کر کہا۔ تم تو اس راز سے واقف ہو۔ سمندر میں میرے عکس سے پہلے اور کسی کا عکس نہتھا۔ میں ہی تو ہوں جسے میرے رب نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ تمام لہریں روح کی بات سن کر خاموش ہو گئیں اور سمندر پر سکوت طاری ہو گیا۔

                روح نے سیاہ اندھیرے میں تاروں کو آواز دی۔ اے ستاروں! کیا تم جانتے ہو کہ میری نظر تم سے کہیں زیادہ روشن ہے۔ تم ہزار پردوں میں بھی چھپو گے تب بھی میں تمہیں ڈھونڈ لوں گی۔ میری نظر میرے اللہ کا نور ہے۔ روح کی آواز سن کر تمام ستارے باہر نکل آئے۔ سب کے دل میں اللہ کی جستجو تھی۔ شاید وہ کہیں نظر آ جائے۔ سمندر کے پانی میں ستاروں کے قمقمے روشن ہو گئے۔ ننھے منے جلتے دیئے۔ روح مسرت سے مسکرا اٹھی۔ میرے آنگن میں دیوالی کا سماں ہے۔ مگر اسی لمحے ستاروں کو جھلملاتی آنکھیں روح کی روشنی سے ماند پڑ گئیں۔ سب نے پانی کی آغوش میں منہ چھپا لیا۔ روح فطرت کی اس آنکھ مچولی پر ہنس پڑی۔ اس کے معصوم قہقہے فضا میں گونج اٹھے۔ ہوائوں میں ساز بجنے لگے۔ سمندر کی لہریں جل ترنگ چھیڑنے لگیں، قہقہے کی گونج نے اندھیرے میں زندگی کی لہر دوڑا دی۔ سمندر میں سے ایک ایک کر کے کائنات کی اشیاء ابھرنے لگیں۔ وہ سب روح کی خوشی کو اپنانا چاہتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سمندر سے زمین ابھر آئی۔ اس زمین پر پہاڑ بھی تھے۔ سبزہ اور ہریالی بھی تھی اور پانی کی بہتی ندیاں بھی تھیں۔ ہوا آہستہ آہستہ سبزے کو چھیڑتی اور سبزہ شرم سے لال ہو کر پھول بن جاتا۔ ندی کا پانی روح کے قہقہے کی تال میں اپنے سر ملانے لگا۔ آسمان پر چاند، ستارے روشن ہو گئے۔ روح نے دل کی زمین سے مٹی اٹھائی اور مٹھی میں دبا کر پرندے کی صورت بنا دی۔ اس میں پھونک مار کر فضا میں اڑا دیا۔ پرندے کے ساتھ ساتھ روح کا دل بھی ہوائوں میں اڑنے لگا۔ اس کے لبوں پر نغمے جاری ہو گئے۔ محبت کے نغمے جو اس کے محبوب کے لئے تھے۔ اس کی کائنات میں سب کچھ تھا مگر جانے کیوں اس کے سر خود اس کی اپنی گہرائی میں اترتے جاتے تھے۔ اس کی نظریں کائنات کی رنگینیوں سے گھبرا گھبرا کر بار بار سطح آب پر رک جائیں۔ یہ ساری کائنات اسے بازیچہ اطفال دکھائی دیتی۔ کوئی بھی تو ایسا نہ تھا جو اس کے مزاج کو سمجھ سکتا۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں جھانک سکتا۔ اس کے دود دل کو پہچان سکتا۔ روح کے سر گہرے ہوتے چلے گئے۔ اس کی آواز درد میں ڈوبتی چلی گئی۔ اس کی ہرنی جیسی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور لب پر بے اختیار یہ الفاظ آ گئے۔ یا اللہ! رفیق علیٰ سے ملا دے جو میرے دل کا ترجمان ہو۔ اس نے گھنٹوں میں اپنا منہ چھپا لیا۔ یہاں اس کے آنسوئوں کے رمز کو سمجھنے والا تھا ہی کون؟ فضا پر پھر ایک بار گہری اداسی چھا گئی۔ ہوائیں چلتے چلتے رک گئیں ندی کا پانی ٹھہر گیا پرندہ ڈال پر ساکت بیٹھ گیا۔ درخت قیامت کے خوف سے زرد پڑ گئے۔ ساری کائنات کے لئے روح کا حسین مکھڑا چھپانا قیامت سے کم نہ تھا۔ وقت تھم گیا، یوں لگتا تھا۔ روح نے اپنا مکھڑا دنیا سے کیا چھپایا، ساری کائنات کی حرکت رک گئی۔ خالق کائنات کے دامن رحمت میں روح کے درد کی چنگاری اڑ کر آن گری۔ عالم رحمت جوش میں آ گیا۔ عالم رحمت سے رحمت اللعالمینﷺ کا ظہور ہوا ور نور رحمت نے رفیق اعلیٰ کا روپ دھا لیا۔ روح کے کندھوں پر شفقت کے ہاتھوں کی گرمی پہنچی۔ آہ یہ ہاتھ۔ انہیں تو میں اربوں کھربوں میں پہچان جائوں۔ روح نے سر اٹھایا۔ رحمت کے نور میں ڈوبا ہوا روح کا جمال پکار پکار کر اپنے خالق کی صناعی کی داد دے رہا تھا۔ اور پھر ایک بار فضا گنگنا اٹھی۔ جھرنے بہنے لگے۔ فطرت مسکرانے لگی۔

قریب آ! کہ صبر آزمائی تابہ کہ

گنگنا! کہ ٹوٹنے نہ پائے زندگی کی لے

مسکرا! کہ مجھ کو روشنی کی احتیاج ہے

 

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94