Topics
صبح
سویرے آنکھ کھلی۔ تقریباً پونے پانچ بجے تھے۔ ابھی تو پرندے بھی گہری نیند میں
تھے۔ سردی کے موسم میں انگلینڈ میں سورج آٹھ بجے نکلتا ہے۔ اسی حساب سے ہر مخلوق
اپنے آرام کے وقت کا تعین کر لیتی ہے۔ رات کے گہرے اندھیرے اور سناٹے نے ذہن کی
یکسوئی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ دماغ میں نہایت ہی پر جلال اور گھمبیر آواز گونجی۔
بسم
اللّٰہ الرحمٰن الرحیمoالحمد
اللّٰہ رب العالمینoالرحمٰن
الرحیمo
اسی
طرح پوری سورہ فاتحہ ذہن میں گونج اٹھی۔ اس لمحے میرے حواس کی یہ حالت تھی جیسے
پانی سے بھرا ایک تالاب ہے جس کی سطح بالکل پر سکون و پر سکوت ہے۔ اس تالاب میں
کوئی کنکر پھینک رہا ہے اور پر سکو سطح پر لہروں کے دائرے بنتے جا رہے ہیں۔ میرے
اندر کی آنکھ ان دائروں کو بنتے اور مٹتے دیکھتی رہی۔ جو آواز کے پریشر سے حواس کی
سطح پر بنتے جا رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ ذہن میں یہ بات آئی کہ سورہ فاتحہ کا حقیقت
میں مطلب وہ نہیں ہے جو قرآن کے لفظی معنی میں بیان کیا گیا ہے۔ میں اندرونی طور
پر یہ جان گئی کہ سورہ فاتحہ کے نورانی تمثلات کا عکس شعور و ذہن کے آئینے میں عکس
ریز ہو رہا ہے۔ بستر پر میری حالت ایسی تھی جیسے کوئی مردہ لاش بے حس و حرکت پڑی
ہو، جس کی آنکھیں بھی بند ہوں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اندر ہی اندر میرا دماغ و ذہن
پوری طرح چل رہا تھا۔ مجھے اس بات کا پورا شعور تھا کہ میں جاگ رہی ہوں اور بستر
پر ہوں، مگر میرا ذہن اور شعور غیب سے آنے والی اطلاعات میں اس قدر منہمک تھا کہ
ارد گرد کے ماحول سے پوری طرح بے نیاز تھا۔ جیسے ہی سورہ فاتحہ کی آواز آنی بند
ہوئی۔ ایک توقف کے بعد دل نے انہی الفاظ کو دعائیہ انداز میں دہرانا شروع کر دیا۔
اس کے انداز میں عاجزی، انکساری اور علم جاننے کا تجسس تھا۔ جیسے ہی دل نے یہ دعا
ختم کی میں نے دیکھا کہ تہہ در تہہ نور کی ایک وسیع و عریض فضا ہے جیسے آسمان پر
تہہ در تہہ بادل۔ ایک نورانی نہایت ہی لطیف ہیولا اس نور کے بادلوں میں اوپر سے
نیچے نہایت تیزی سے اتر رہا ہے۔ جیسے ہی وہ قریب آ یا میں اسے پہچان گئی۔ وہ روح
تھی۔ مجھے اسے دیکھ کر نہایت ہی لطافت کا احساس ہوا۔ پارے کے جیسے رنگ کا جھلمل
کرتا لباس انتہائی لطیف تھا جیسے زیورات پر چاندی یا سونے کی پالش کی جاتی ہے۔ اس
لطیف لباس کے اندر سے اس کے نورانی جسم کے رنگ جھلک رہے تھے۔ دیکھنے میں یوں لگتا
تھا جیسے روح نے ایک پر ایک بہت سے لباس پہن رکھے ہیں اور ہر لباس ایک مختلف رنگ
کا ہے، مگر ہر لباس انتہائی لطیف ہے۔ باہر سے دیکھنے میں نظر گہرائی تک ان رنگوں
کو دیکھ سکتی ہے اور سطح سے دیکھنے میں روح کے ابعاد اور ڈائی مینشن کا احساس ہوتا
ہے۔ میری نگاہ نہایت ہی انہماک کے ساتھ اس کے لباس کے رنگوں کی گہرائی میں اترتی
چلی گئی۔ میں اسی انہماک میں تھی کہ روح کی آواز آئی:
اے
بنت رسولﷺ! آپ کیا جاننا چاہتی ہیں۔ میرے قلب کی آنکھ نے دیکھا کہ روح کے تمام
ڈائیمینشن ایک لہر کی صورت میں بل کھا گئے۔ میری نگاہ گہرائی سے سطح پر آ گئی۔ روح
کا جمالی ادائوں میں لہراتا بدن پھولوں سے لدی نازک ڈالی کی طرح تھا۔ جو ہوا کے
جھولوں میں جھول رہی ہو۔ میری نگاہ خالق کی صناعی پر تعظیماً جھک گئی۔
میں
نے نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ روح کو سلام کیا اور اس کا میری جانب توجہ کرنے
پر شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا۔ اے روح! خالق کونین نے تمہیں اپنے پورے رنگوں کے
ساتھ آراستہ کیا ہے، تم اس کے جمال اور خود نمائی کا بہترین عکس ہو۔ خالق کے امر و
ارادے کی جو عکاسی تمہارے آئینے میں ہو رہی ہے میں اس عکس کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ یہ
الفاظ کہتے کہتے عاجزی اور ادب کے ساتھ میری گردن جھک گئی۔ روح نے میری جانب گہری
نظر سے دیکھا اور اپنی آواز میں روح کی گہرائیوں کو سموتے ہوئے بولی۔
اے
بنت رسولﷺ! یہ ادب کا مقام ہے، بارگاہ ایزدی میں ادب کے قدم ہی جا سکتے ہیں۔ میں
روح کے آگے گھٹنوں کے بل جھک گئی اور نہایت ہی انکساری سے التجا کی۔ اے روح! مجھے
ادب کے وہ قدم عطا فرما دو، جن قدموں سے میں اپنے رب کی بارگاہ تک رسائی کر لوں۔
روح میری عاجزی پر اور میری لگن پر ایک دم خوشی سے کھل اٹھی۔ اسنے بڑھ کر میرے
دونوں کندھوں سے پکڑ کر مجھے اٹھایا اور نہایت جوش و خوشی میں مجھے گلے سے لگا
لیا۔ کہنے لگی۔ اے بنت رسولﷺ! آپ مجھ سے ہیں۔ اس کے سینے سے لگتے ہین مجھے یوں
محسوس ہوا جیسے میں نور کے تہہ در تہہ بادلوں سے گزرتی ہوئی اوپر کی جانب سفر کر
رہی ہوں۔ جہاں سے پہلے میں نے روح کو اترتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہم اوپر ہی اوپر اڑتے
ہوئے ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں آگے راستہ نہ تھا۔ بس ہمارے سامنے ایک کھوہ تھی۔
اس غار سے نور کا زبردست آبشار نکل رہا تھا۔ جیسے ہی ہم اس غار کے قریب پہنچے۔ غار
سے ایک بہت ہی بڑے فوارے کی صورت میں نور نہایت ہی پریشر سے نکلا اور روح کے اندر
تالو کے راستے میں داخل ہو گیا۔ اسی لمحے روح کے لب ہلے۔ روح کے لبوں سے صوت سرمدی
بلند ہوئی۔
بسم
اللہ الرحمن الرحیم پھر اس کے بعد روح کی آواز آئی۔ ازل کے اس مقام پر اللہ نے
اپنی ذات کو ظاہر فرمایا۔ اس غار کے پاس پردہ اصل ذات نے اپنے آپ کو حجابات میں
چھپایا ہوا ہے۔ غار سے نکلنے والا یہ نور اللہ کی ذات کا نور ہے۔ اس نور کے اندر
اللہ تعالیٰ کی دو شاخیں کام کر رہی ہیں۔ ایک شان ربوبیت جس کا نام اللہ تعالیٰ نے
اسم رحمٰن رکھا ہے اور دوسری شان خالقیت ہے جس کو اسم رحیم کا نام دیا ہے۔ شان
ربوبیت شان جلالی ہے۔ جیسے ہی روح نے یہ الفاظ کہے میں نے دیکھا کہ میں روح کے
اندر کھڑی روح کے سر کی جانب دیکھ رہی ہوں۔ اس کا سر اوپر سے بالکل بند ہے۔ اتنے
میں ایک نہایت ہی زور دار آواز آئی۔ ‘‘کن’’ اور اسی آواز کے پریشر سے روح کا تالو
ایک گول دائرے یا کھڑکی طرح کھل گیا اور انتہائی پریشر کے ساتھ نور اندر داخل ہو
گیا۔ شان جلالی اس کی قوت و جبروت کا مظاہرہ ہے۔ مجھے یوں لگا روح کا تالو ایک
مضبوط پہاڑ ہے۔ جس سے مضبوط اور کسی چیز کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کے جلال
کی قوت و جبروت نے روح کے اندر اپنے نور کا راستہ بنا دیا اور روح کے شعور کو اپنے
جلال کی قوت و جبروت کے ساتھ بیدار کر دیا۔ اب پھر روح کی آواز آئی۔ شان خالقیت اس
کی رحمت ہے۔ اب میں نے دیکھا کہ روح کے اندر سر کی کھڑکی سے یہ نور کا آبشار مسلسل
اندر گر رہا ہے اور روح کا وجود اس نور کے رنگوں سے رنگین ہے۔ یہ رنگ دیکھ کر مجھے
روح کے جمال کا احساس ہوا۔ روح بولی۔ اللہ کا جلال روح کی قوت ہے اور اللہ کی رحمت
روح کا جمال ہے۔
روح
اللہ کے جلال اور جمال دونوں کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے
ارادے کی جس قوت کے ساتھ تجلی ذات نے اپنی دونوں شانوں کا مظاہرہ کیا۔ وہ قوت لفظ
‘‘بسم’’ ہے۔ ‘‘بسم’’ کے حروف میں اللہ تعالیٰ کے ارادے کی وہ قوت موجود ہے جو تجلی
ذات کے اندر موجود شان جلالی اور شان جمالی کو متحرک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں قوتیں
ربوبیت اور خالقیت کا نور ہیں۔ ذات باری تعالیٰ کا ارادہ اور امر جب اپنی دونوں
شانوں کو ظاہر کرنے کے ارادے سے ایک نقطے پر جمع ہوا۔ تو یہ نقطہ کائنات کہلایا۔
ذات باری تعالیٰ کی نظر اپنی تجلی کے اندر موجود اپنی شانوں کو اسم رحمٰن اور رحیم
کی صورت میں دیکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے حکم کی قوت صرف ‘‘بسم’’ کے ساتھ
اسم رحمٰن اور رحیم کائنات کے نقطے پر جمع ہوئے۔ کائنات کا نقطہ اسم رحمٰن اور
رحیم کی صفات کے مظاہرے کا مقام بن گیا اور اللہ تعالیٰ کے ارادے کی قوت لفظ
‘‘بسم’’ اسم رحمٰن اور رحیم کا امر کن بن کر کائنات کے نقطے میں اللہ پاک کی دونوں
شانوں کے ساتھ داخل ہو گیا۔ امر کن پر تجلی کا جمال کائنات کی روح اعظم بن کر
حقیقت محمدیﷺ کے روپ میں ربوبیت اور خالقیت کی صفات کے ساتھ شان جلالی اور شان
جمالی کے ساتھ وجود میں آ گئی۔ کائنات کا ہر تخلیقی وجود اسی روح اعظم کا مظاہرہ
ہے۔ روح اعظم کا مظاہرہ کائنات ہے۔ روح اعظم کا دماغ اللہ کے ارادے کا عکس ہے۔ جس
ارادے کے اندر کائنات کی تخلیق کا پروگرام کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی
روح اعظم کے علوم عطا کئے ہیں جو اللہ پاک کی ربوبیت اور خالقیت کی صفت رکھتی ہے۔
بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر اللہ تعالیٰ نے آغاز آفرینش کے اس راز سے حجاب ہٹایا
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ نظر اور شعور بخشا ہے جو تجلی ذات کے پردے پر
اللہ پاک کی شان ربوبیت اور شان خالقیت کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اللہ کی ذات اپنی
دونوں شانوں اسم رحمٰن اور رحیم کے ساتھ اپنی مخلوق پر اور اپنے بندوں پر نہایت ہی
مہربان ہے۔ اس نے اپنی قوت و جبروت اور رحمت کے پردے میں کائنات کو ڈھانپ رکھا ہے۔
اسم رحمٰن اس کی قدرت اور قوت کا حامل ہے اور اسم رحیم اس کی رحمت کا حامل ہے۔ اور
روح اعظم وہ نقطہ ہے جس نقطے کے اندر دونوں اسماء کی قوتوں اور کمال کا مظاہرہ ہے۔
اس نقطے کا پھیلائو کائنات ہے۔ میری نظر روح کے اندر چاروں طرف دیکھنے لگی۔ سر سے
داخل ہونے والی روشنی سے روح کا باطن جگمگا رہا تھا۔ روح کے اندر روشنیاں مسلسل
پھیلتی دکھائی دیں اور ہر پھیلائو روح کا ایک ڈائی مینشن تھا۔ میرے ذہن میں روح کی
فکر کام کرنے لگی۔ جو شعور سے کہہ رہی تھی کہ روشنیوں کے یہ ڈائی مینشن کائناتی
فارمولے ہیں۔ کائنات کی ہر تخلیق میں مقداروں کا تعین ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے
اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ ہم نے ہر شئے کو مقداروں میں بنایا ہے۔ اسی طرح اللہ
تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے ارادے کی قوت کا حرف ‘‘بسم’’ سے تعین کیا ہے اور حرف
‘‘بسم’’ کی قوت سے اسمائے الٰہیہ کی تشکیل ہوئی۔ یہی قوت اسمائے الٰہیہ کے ارادے
کے ساتھ جب عمل میں آئی تو حکم ‘‘کن’’ کہلائی۔ امر کن کی قوت پر کائنات کی روح
اعظم جب متحرک ہو گئی۔ تو اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق کائنات کی عملی تخلیق ہو
گئی۔
بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے
ارادے اور اس کی تکمیل میں کام کرنے والے اسمائے الٰہیہ کے علوم حروف کے پردے میں
بند کر دیئے ہیں۔ ہر حرف میں اللہ تعالیٰ کے ارادے کی ایک حرکت موجود ہے جو اللہ
کا علم ہے جب یہ علم روح کے اندر منتقل ہوا تو حرکات عملی صورت میں سامنے آ گئیں۔
اب پھر میری نظر روح کے سر کی جانب پہنچی۔ سر سے نور کی شعاع اندر آئی۔ اور اس نور
سے آواز آئی۔ الحمدللّٰہ رب العالمینoیہ
نور روح کے باطن میں جہاں جہاں پھیلتا گیا یہ آواز بھی گونجتی رہی۔ مجھے یوں لگا
جیسے ازل سے ابد تک یہ نور پھیل گیا ہے اور نور کے ہر پھیلائو پر یہی الفاظ اور
آواز بلند ہوتی جا رہی ہے۔ میرا دل میرا دماغ کہہ اٹھا۔ بلاشبہ ساری تعریفیں تیری
ربوبیت کے نور کی ہیں۔ جو ازل سے ابد تک روح کی توانائی اور حیات ہے۔ دل کا یقین
زبان بن گیا اور زبان کی حرکت آواز بن گئی۔ میرے ذہن سے آواز آئی۔ الحمدللہٰ
رب العالمینoالرحمٰن
الرحیمo
اب میری نگاہ کے سامنے روح کے باطن میں اس نور کا پھیلائو اور ڈائی مینشن آ گئے۔
دل نے کہا اسم رحمٰن کا ارادہ ربوبیت کی شان ہے جو روح کے شعور کو ازل سے ابد تک
کی وسعتیں بخشتی ہے اور اسم رحیم کا ارادہ خالقیت کی شان ہے جو نور کے جمال کو
مرتبہ کمال تک پہنچا کر نظر کے سامنے مظاہر کی صورت میں پیش کر دیتی ہے۔ بلاشبہ وہ
رحمٰن اور رحیم ہے جو اللہ کے نور کو مرتبہ کمال تک پہنچانے والا ہے۔ میری زبان پر
یہ کلام آ گیا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرا دماغ اور جسم کے اعضاء کسی دوسری
قوت کے زیر اثر ہیں اور یہ قوت روح کی ہے۔ میری زبان سے الفاظ اس طرح ادا ہوئے
جیسے میرے ذہن کی تختی پر ساتھ ساتھ یہ حروف نقش بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں محسوس
ہوتا تھا جیسے میرے شعور کی تختی ایک پہاڑ یا چٹان ہے اور یہ آیتیں اس چٹان یا
پہاڑ پر کندا ہوتی جا رہی ہیں۔
مالک
یوم الدینoاس
کے ساتھ ہی روح کی آواز سنائی دی۔ اے بنت رسولﷺ! یہ یوم الدین ہے۔ یوم الدین حواس
کا وہ لمحہ ہے جس لمحے انسان کے شعور کو عطا کئے گئے تمام اختیارات واپس لے لئے
جائیں گے۔ اس لمحے صرف اللہ پاک کا ارادہ اور اختیار عمل میں آئے گا۔ اس دن خالق
کے سامنے انسان کی حیثیت ایک ایسے محتاج کی ہو گی جو سارے کا سارا اپنے مالک کے
رحم و کرم پر ہو۔ ذہن کی تختی پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
ایاک
نعبدو و ایاک نستعینoمجھے
یوں محسوس ہوا جیسے میری تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت وضاحت سے سمجھا
دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے تمہیں صرف اور صرف اپنے ارادے اور امر کی ت کمیل کا
ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ کے علم، اللہ کے ارادے اور اللہ کے امر کے آگے میری روح،
میرا دل، میرا شعور اور میرا جسم سربسجود ہو گیا۔ اے میرے رب میں تیری شان ربوبیت
اور شان خالقیت کا اعتراف اپنی روح کی تمام تر قوتوں کے ساتھ کرتی ہوں۔ یہی اعتراف
میری بندگی ہے اوراس بندگی پر ثابت قدم رہنے کی تجھ سے توفیق اور مدد چاہتی ہوں۔
اھدنا
الصراط مستقیم۔ مجھے اپنی بندگی کے اس سیدھے راستے
پر قائم رکھ جو راستہ تیری حضوری تک پہنچا دے۔ تیری حضوری تیرے نور کا حصول ہے،
تیرا نور میری نظر ہے۔ نور میں مشاہدہ کرنے والی نظر تیرا مرتبہ احسان ہے۔ مرتبہ
احسان صراط مستقیم کی منزل ہے۔ اے میرے رب مجھے صراط مستقیم پر مرتبہ احسان عطا
فرما تا کہ میری آنکھ تیرے نور سے روشن ہو سکے۔ بلاشبہ میری آنکھ تیرے نور کے بغیر
اندھی ہے۔
صراط
الذین انعمت علیھمoمیرا
شمار ان لوگوں میں کر دے جو تیرے نور سے تجھے دیکھتے ہیں کہ تیری سب سے بڑی نعمت
میری آنکھ کی بینائی ہے۔
غیر
المغضوب علیہم ولاضالینoمیرا
شمار ان لوگوں میں نہ کرنا جو تیرے غضب اور غصہ کا شکار اپنی گمراہیوں اور
نافرمانیوں کی وجہ سے ہو گئے کیونکہ ان لوگوں نے تیری نعمتوں سے اپنی نادانی میں
منہ موڑ لیا ہے۔ بلاشبہ ایسے مغضوب لوگ تیرے نور سے محروم رہیں گے۔ تیرا نور ہی
بینائی ہے، نظر ہے۔ میں نے دیکھا روح کا جسم اس فکر پر ذات باری تعالیٰ کے جلال سے
ایک جھٹکا کھا گیا۔ جیسے روح کانپ گئی۔ روح کی فکر میرے دل میں سما گئی۔ خیال آیا
اگر خدانخواستہ اللہ پاک اپنا نور روح میں سے نکال لیں اور نور کی فراہمی بند کر
دیں تو کیا ہو گا۔ میرے شعور کے آگے اندھیروں کے بادل تہہ در تہہ آنے لگے۔ سر سے
پائوں تک میرا جسم کانپ اٹھا۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا، نہیں نہیں نہیں! ایسا
ہرگز بھی نہ کرنا۔ تو رحمٰن اور رحیم ہے۔ تیری نگاہ صرف اور صرف اپنی شانوں پر ہی
ہونی چاہئے۔
مغرور
بہت تھے ہم بلبل کی عنایت پر
جب
غور سے دیکھا تو زنجیر نظر آئی
٭٭٭٭٭
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94