Topics
حیات
خالق کے تصور کی ناختم ہونے والی ایک کہانی ہے جس کے اندر کہانی جنم لیتی رہتی ہے۔
کہانی کے یہ نئے جنم ہی کہانی کی بقا ہیں جو کہانی کو جاری و ساری رکھتے ہیں۔ مجھے
یوں لگا میری زندگی کی ایک کہانی آج ختم ہو چکی ہے اور اسی کہانی کے اندر اب دوسری
کہانی نے جنم لیا ہے۔ وہ پہلی کہانی کیا تھی، یہ دوسری کہانی کیا ہے۔ میں سوچ میں
پڑ گئی۔ کہانی کی ابتداء کہاں سے ہوئی تھی، کہانی کی انتہا کہاں پر ہوئی ہے۔ دل
کہنے لگا ہر کہانی کے لئے کردار کی ضرورت ہے بغیر کردار کہانی کا وجود نہیں۔ بچپن
کا وہ دور نظر کے سامنے آ گیا۔ ذہن کی اسکرین پر ایک تصویر ابھری۔ دل نے کہا یہ
اللہ ہے۔ دل کے گہرے سمندر سے عقل و خرد نے سر ابھارا۔ بلاشبہ یہ ذات خالق ہے اور
اسکرین کی تصویر یقین کے رنگوں سے رنگین ہو گئی۔ دل سے دماغ تک رنگوں کا ایک عالم
بس گیا جس کے اندر تصور کی یہ تصویر جیتی جاگتی اتر آئی۔ میں سایہ بن کر اس تصویر
کے ساتھ چسپاں ہو گئی۔ ہم دونوں اس عالم میں اپنے حال میں مگن ہنستے کھیلتے رہے۔
جب میں بچی تھی۔ تصویر کا یہ کردار بھی بچہ تھا، جب میں جوان ہوئی وہ بھی جوان
ہوا۔ دنیا کی جوانیاں ڈھلتی رہتی ہیں۔ ہرے بھرے پتے مرجھا جاتے ہیں مگر تصور کے
باغ کا ہر پھول مسکراتا ہے۔ دل کا گلشن سدا لہلہاتے باغوں میں اپنے سایے کے ساتھ
بہاروں کے مزے لوٹتا ہے۔ دنیا کی زندگی میں کتنے کردار آئے کوئی بھی کردار اس کے
جمال کو نہ پا سکا دنیا کا ہر کردار اس حقیقت کا بہروپ نکلا۔ یہ بہروپ چند لمحے کے
لئے میرے گلشن کا پھول بن کر کھل اٹھا اور جانے کیوں آپ ہی آپ مرجھا جاتا۔ میں ان
سوکھے پھولوں کو پودوں کے گلدستوں میں سجا لیتی کہ ہر شئے کا اپنا ایک حسن ہے۔
میری معصوم حرکتوں پر میرا ازلی دوست مسکرا دیتا اور ان سوکھے پھولوں میں اس کی
مسکراہٹوں کے رنگ اتر آئے اور ہم دونوں پھر سے زندگی کے باغ کی تعمیر میں لگ جاتے۔
پر جانے کیوں آج یہ باغ سونا سونا سا لگتا ہے، جیسے ہر شئے یادوں کے پردے میں چھپ
گئی ہے۔ باغ بھی وہی ہے۔ میں بھی وہی ہوں مگر ہر طرف سے کالی گھٹائوں نے اس طرح
گھیر لیا ہے کہ گلشن کا ہر رنگ اندھیرے کے پردے میں چھپ گیا۔ نہ پھولوں کے رنگ نظر
آتے ہیں نہ راستوں کے موڑ۔ اس اندھیرے میں میری اپنی ذات بھی گم ہوتی معلوم ہوتی
ہے۔ میرے پائوں غم کی دلدل میں جم کر رہ گئے ہیں۔ اے محبوب! تو کہاں چھپا ہے۔ آج
میرا باغ خزاں رسیدہ کیوں نظر آتا ہے، میرے دل کی ساری خوشیاں کہاں چلی گئیں، میرے
گلشن کا ہر پھول کیوں مرجھا گیا، میرے تصور کا شہزادہ کہاں جا چھپا، جو میری کہانی
کا خالق ہے۔ میری دنیا کا سورج ہے، میرے گلشن کی بہار ہے، میری کائنات کا بادشاہ
ہے۔ اس کا ایک پل کو بچھڑنا میری ساری مملکت کی ہلاکت ہے۔ وہی تو میرے نصیب کا
سورج ہے، وہی تو میرا ازلی دوست ہے۔ وہی تو میرے کن کا ظہور ہے، وہی تو میری کہانی
کا آغاز ہے، وہی تو میرا ازلی دوست ہے۔ وہی تو میرے کن کا ظہور ہے، وہی تو میری
کہانی کا آغاز ہے، وہی تو میری کہانی کا انجام ہے۔ اس کا ایک لمحے کو نظر پھیرنا
میری موت ہے۔ آہ! اب میں اسے کہاں ڈھونڈوں۔ حقیقت کی کہانی کے دو ہی تو کردار ہیں۔
ایک تو ہے، ایک میں ہوں تو ذات ہے۔ میں تیرا سایہ ہوں۔ تو ازل ہے، میں ابد ہوں، تو
سورج ہے، میں تیری روشنی ہوں، تیرے بغیر میرا وجود کہاں۔ تیرا میرا جنم جنم کا
ساتھ ہے۔ ہم تم دونوں ایک ہی کہانی کے دو کردار ہیں۔ ایک تخلیق کے دو رخ ہیں۔ ایک
رخ کا چھپنا دونوں رخوں کا پردے میں چلے جانا ہے۔ کیسے اس کہانی کو جاری رکھوں۔
میرے روئیں روئیں سے جان نکلنے لگی۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے ہر ہر روئیں سے
کائنات کی ایک ایک شئے بندھی ہوئی ہے۔ جب روئیں سے حیات کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے
تو اسی لمحے شئے پر موت وارد ہو جاتی ہے۔ دکھ سے میرا سارا وجود بھر گیا۔ دل پکار
اٹھا۔ یوں نہ روٹھ، پھر ایک بار میرے گلشن میں بہار بن کر آ جا، پھر ایک بار میرے
عالم کو شمس بن کر منور کر دے، پھر ایک بار اپنے عشق کی شراب سے میرا ساغر دل بھر
دے۔ میری آنکھ، میرا دل، میری روح قرب دلدار کے لئے تڑپ اٹھی۔ مجھے کچھ سمجھ میں
نہ آیا میں کیا کروں۔ اپنے اندر جدھر نظڑ جاتی ہے۔ موت کی بے حسی دکھائی دیتی ہے۔
کیسے اس تصویر میں رنگ بھروں؟ کائنات کا ہر رنگ نظر سے چھپ گیا ہے۔ اب اس بے رنگ
خاکے میں کون سا رنگ بھروں۔ آنکھ رونے لگی۔ دل درد کی چھری کے پے در پے وار سے
اپنا پرہن چاک کرنے لگا اور میں چکی کے دو پاٹ میں گیہوں بن کر پسنے لگی۔ پاگل چکی
یہ سمجھتی ہے کہ گیہوں کو پیس کر گیہوں کی دکھن کا خاتمہ کر دے گی۔ وہ کیا جانے کہ
پہلے یہ درد ایک وجود میں بند تھا ار اب آٹا بننے پر گیہوں کے ذرے ذرے میں اس کا
درد سما گیا ہے۔ ایک درد نے ہزار دردوں کو جنم دے دیا ہے۔ یہاں سے وہاں تک درد کی
پناگاہیں ہیں۔ اب میں کس طرح دل کو بہلائوں۔ میں نے گھبرا کے روح کو آواز دی۔ اے
روح! تو ہی مجھے ان اندھیروں سے نکال۔ آہستہ آہستہ سیاہ گھٹائیں ڈھلنے لگیں۔ جیسے
صبح نمودار ہونے لگی ہے۔ انہی اندھیروں میں روح کا سراپا سامنے آ گیا۔ ہار سنگھار
کے بغیر سفید لباس کی سادگی میں اس کی حسرتوں کا رنگ جھلکنے لگا۔ میں نے ایک نظر
اسے دیکھا اور چپ چاپ اسے دیکھتی رہ گئی۔ کیا میرے درد نے روح کے رنگ بھی چھپا لئے
ہیں۔ اب میں کیا کروں۔ روح نے میری جانب دیکھا۔ کہنے لگی۔ آج آپ کے سامنے زندگی
اپنے حقائق پیش کر رہی ہے۔ زندگی اللہ کی نظر کا دیکھنا ہے۔ نظر کے لئے کسی نہ کسی
ٹارگٹ کی ضرورت ہے۔ نظر کا پہلا ٹارگٹ کن کے بعد وجود میں آنے والی اسکرین ہے جس
سے ازل کا آغاز ہوتا ہے۔ ازل کے اس لمحے میں نظر کے سامنے آنے والی پہلی ہستی اللہ
تعالیٰ کی ذات تھی۔ اس ذات کو دیکھنے والی دوسری ہستی اللہ کی نظر ہے۔ جتنی دیر
نظر ازل کے اس لمحے پر قائم رہی نظر کے سامنے ذات کا عکس نت نئے روپ میں جلوہ گر
ہوتا رہا اور عشق خداوندی اس میں کائنات کے رنگ بھرتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ کی نظر
نے ازل کے اس لمحے کا پورا پورا ادراک کر لیا۔ ازل سے ابد تک نظر کی روشنی اس لمحے
پر محیط ہو گئی۔ اب نظر کے سامنے حقیقت کی وہ ایک تصویر رہ گئی جو اللہ ہے۔
روحانیت اللہ کی نظر سے دیکھنا ہے۔ روحانی راستوں پر چلتے چلتے جب بندے کے اندر
اللہ کی نظر کام کرنے لگتی ہے تو وہ اپنی زندگی کی ہر حرکت کو دیکھنے اور سمجھنے
کے قابل ہو جاتا ہے۔ نظر جب خود اپنی ذات کو پہچان لیتی ہے تو روح سامنے آ جاتی
ہے۔ روح کی ذات اللہ کی نظر ہے۔ اللہ کی نظر ازل کے اس جلوے کو دیکھ رہی ہے جو کن
کہنے سے ظہور میں آیا ہے۔ اللہ کی نظر کائنات کی حدود میں ازل سے ابد تک جہاں جہاں
جاتی ہے نظر کی روشنی کے ساتھ ساتھ ازل کی تصویر بھی گردش کرتی ہے۔ اللہ کی نظر
زمین پر بھی اس ازلی تفکر سے نہیں ہٹتی۔ اللہ کی صفت وحدانیت ہے پس وحدانیت کا
تفکر ہی بندے کے لئے نظر کا ٹارگٹ ہے۔ جب نظر اور تفکر وحدانیت کے نقطے پر مرکوز
ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ مل جاتا ہے۔
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94