Topics
موت
ایک ایسا مرحلہ ہے جس مرحلے سے ہر ذی روح کو گزرنا ہے۔ ارادی طور پر یا غیر ارادی
طور پر۔ کسی بھی طرح موت سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
ہے۔ کل نفس ذائقہ الموت ‘‘ہر نفس موت کا ذائقہ چکھے گا۔’’ فرمان الٰہی اللہ تعالیٰ
کی وہ سنت ہے جو نظام کائنات کی صورت میں عالمین میں جاری و ساری ہے۔ سب کچھ بجا
ہے مگر موت کا ذائقہ کیا ہو گا۔ ہم اسے مرتے وقت کیسے چکھیں گے اور کیا مرتے وقت
ہمیں اس بات کا پتہ بھی چل جائے گا کہ موت کا ذائقہ چکھ رہے ہیں کیونکہ اللہ کا
کلام تو برحق ہے۔ جب اللہ نے موت کے ذائقے کی بات کی ہے تو بلاشبہ مرنے والی ہر
شئے موت کا ذائقہ ضرور چکھتی ہے۔ مگر کیسے؟ وہ ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔ میرے دل میں
تجس ابھر آیا۔ جوں جوں دن گزرتا گیا شوق چڑھتے سورج کی روشنی کی طرح بڑھتا ہی گیا۔
میں سوچنے لگی۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنی کتاب ‘‘لوح و قلم’’ میں فرمایا ہے
کہ قوت تجسس اللہ تعالیٰ کے اسم ‘‘محیط’’ کی روشنی ہے۔ ہمارے اندر جب اسم محیط کی
روشنی متحرک ہوتی ہے تو ایک نقطے سے بڑھتے بڑھتے سارے دماغ پر محیط ہو جاتی ہے۔
روشنی کے اس نقطے میں جو بھی فکر ہو۔ وہ فکر اسم محیط کی روشنی میں سارے دماغ پر
چھا جاتی ہے۔ پس دماغ و ذہن کی تمام قوتیں فکر کے اس ایک نقطے میں جذب ہو جاتی
ہیں۔ اسم محیط کی روشنی اپنی فطرت کے مطابق سارے دماغ پر محیط ہو کر فکر کے علوم
تلاش کرنے کی جستجو دل و دماغ میں پیدا کر دیتی ہے اور جستجو فکر کے نقطے کی گہرائی
سے گوہر علم تلاش کر کے عقل و شعور تک لے آتی ہے۔ میرا دل بے اختیار حضور قلندر
بابا اولیاءؒ کو پکار اٹھا۔ قلندر باباؒ آپ نے خود تو موت کا ذائقہ چکھ لیا۔ مجھے
بھی تو اس کی لذت چکھا دیجئے۔ شاید قلندر بابا اولیاءؒ کو میری پاگل جستجو کچھ
پسند آ گئی۔ فکر وجدانی دور آسمانوں میں پہنچ گئی۔ نور کے بادلوں میں حضور قلندر
بابا اولیاءؒ بہ روئے خنداں دکھائے دیئے۔ شگفتہ شگفتہ مکھڑا جیسے تازہ کھلا ہوا
پھول۔ آپؒ نے نیم ہنستے ہوئے فرمایا۔ ہاں بھئی! سعیدہ موت کا ذائقہ چکھنا چاہتی
ہو۔ میں نے فوراً کہا۔ ہاں مگر آپؒ کے جام سے۔ میری بات سن کر آپؒ زور سے ہنس پڑے۔
بہت خوب! آپ کے شفاف دانتوں سے سچے موتیوں کی چمک ظاہر تھی۔ کہنے لگے۔ پھر تیار ہو
جائو۔ آپ کے اتنا کہتے ہی منظر بدل گیا۔ میں نے دیکھا۔ میں بستر پر سیدھی لیٹی
ہوئی ہوں۔ جیسے یہ بستر کسی ہسپتال کا بیڈ ہے۔ یہ کمرہ بھی جیسے آپریشن تھیٹر ہے۔
کمرے کے بیچوں بیچ بیڈ پر میں چٹ لیٹی ہوں۔ اتنے میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ
ڈاکٹری کوٹ پہنے آتے ہیں۔ میرے قریب آ کر کہتے ہیں۔ آپ کو موت کے مرحلے سے گزارا
جاتا ہے۔ آپ تیار ہیں؟ میں نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ بالکل تیار ہوں۔ آپ نے
کمرے کے ایک کونے میں چھت سے قریب لگے ہوئے ایک اسکرین پر اشارہ کیا کہ آپ اپنی
نظریں اس اسکرین پر جمائے رکھیں۔ آپ کو اس پورے مرحلے کا ادراک اس اسکرین پر ہو
جائے گا۔ میں نے اطمینان سے اس اسکرین پر اپنی نگاہیں گاڑ دیں۔ اس اسکرین پر میں
نے اپنے جسم کا باطن دیکھا۔ جیسے ایکسرے۔ مگر یہ ایکسرا جسم کے اندر موجود روح کا
تھا۔ میں نے دیکھا کہ میں لیٹی ہوں۔ میرے جسم کے اندر روشنی بھری ہوتی ہے، جیسے
غبارے کے اندر ہوا بھری ہوتی ہے۔ اس طرح جسم کے اندر روح کی روشنی سر سے پائوں تک
سمائی ہوئی تھی۔ مجھے یوں دکھائی دیا جیسے روح کی روشنی ہی اصل حواس ہیں۔ جسم محض
ایک خول ہے جو روح کی حفاظت کیلئے ہے۔ یوں محسوس ہوا جیسے روح کو اس خول کے اندر
مقید کر دیا گیا ہے۔ جیسے بچہ رحم میں بند ہوتا ہے۔ روح جسم کے اندر اس طرح بند ہے
کہ پائوں کے اندر پائوں، ہاتھ کے اندر ہاتھ، گردن کے اندر گردن غرضیکہ جسم کے اندر
روح اسی طرح سمائی ہوئی ہے جیسے جسم دکھائی دیتا ہے۔ اب قلندر بابا اولیاءؒ
(روحانی ڈاکٹر) نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ایک روشنی کے آلے کو جسم کے پائوں سے
چھوا۔ اس آلے کے جسم سے چھوتے ہی اس کا لمس روح کے پائوں نے محسوس کیا اور پائوں
اوپر کی جانب سمیٹ لئے مگر جسم کے پائوں اس طرح بیڈ پر رکھے تھے۔ مجھے محسوس ہوا
میرے پائوں سے جان نکل کر اوپر کی جانب سمٹ آئی ہے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب پائوں
کے اندر چلنے کی حس فراہم کر رہی ہے۔ اس روشنی سے جسم کے پائوں محروم ہو چکے ہیں۔
میری نگاہ روح کے پائوں کی جانب گئی۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ نہیں نہیں میرے
پائوں ابھی سلامت ہیں۔ میری توجہ جسم سے ہٹ کر پھر روح کی جانب مبذول ہو گئی۔
روحانی ڈاکٹر میرے جسم کے ایک ایک حصے کو نیچے سے اوپر آلے سے چھوتے اور چھوتے ہی
روح اس حصہ جسم کو چھوڑ کر اوپر کی جانب سمٹ آتی، جیسے سیدھا لیٹا ہوا شخص آہستہ
آہستہ جسم کو سمیٹتا چلا جائے۔ روح کی پھیلی ہوئی روشنیاں بھی آہستہ آہستہ اوپر
سمٹتی جاتی تھیں۔ روح جس حصہ جسم کو چھوڑتی وہ حصہ جسمانی حس سے محروم ہو جاتا۔ جب
پیٹ روح کی روشنیوں سے خالی ہوا تو معدے کی مشینری بند ہو گئی۔ بھوک پیاس کا احساس
بھی ختم ہو گیا۔ میں نے حسرت سے سوچا۔ آہ اب مجھے بھوک پیاس نہیں لگے گی، میں
کھانا نہیں کھا سکوں گی۔ اسی لمحے خیال آیا۔ بھوک پیاس کی حس ختم ہوئی ہے، مگر
بھوک پیاس کا علم باقی ہے۔ جب تک علم باقی ہے تقاضہ باقی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
بھوک پیاس کا تقاضہ چلنے پھرنے کا تقاضہ سب کچھ روح کا ہے۔ اب تک روح اپنا تقاضہ
جسم کے ساتھ پورا کرتی رہی۔ اب جسم کے بغیر بھی تقاضہ پورا کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ
روح کے تقاضے پورے کرنا ربوبیت کی شان ہے اور اللہ اپنی شانوں سے خوب واقف ہے۔
میرا دل سکون سے بھر گیا۔ میں نے دیکھا جسم کے جس جس حصے کو روح چھوڑتی جا رہی ہے
جسم تو مردہ ہوتا جا رہا ہے مگر جسم کی پھیلی روشنیاں روح کے ان حصوں میں سماتی جا
رہی ہیں اور وہ حصے روح کی روشنیوں سے اور زیادہ روشن ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے روح
کی روشنی بڑھتی جا رہی ہے میرا موت کا خوف ختم ہو کر سکون و اطمینان میں تبدیل
ہوتا جا رہا ہے۔ گویا جسم سے حس منتقل ہو کر روح میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ جیسے
بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے بچہ اپنے تمام تقاضے ماں سے پورے کرتا ہے۔ ماں
کھاتی ہے تو بچہ کھاتا ہے، ماں پیتی ہے تو بچہ کی پیاس بجھتی ہے، ماں چلتی ہے تو
بچہ بھی ماں کے ساتھ ہی کہیں جاتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو بچے کے تمام
تقاضے انفرادی بن جاتے ہیں۔ اب بچے کو خود اپنی نشوونما کے لئے کھانا پینا پڑتا
ہے، سانس لینا پڑتا ہے۔ میں نے سوچا۔ اے روح! موت کا لمحہ تیرے لئے حواس کی تبدیلی
کا لمحہ ہے۔ قانون قدرت کے اعتبار سے ہر شئے دو رخوں پر بنی ہے۔ حواس کے بھی دو رخ
ہیں۔ جسمانی حواس اور روح کے حواس۔ دونوں حواس ایک ورق کے دو صفحے ہیں جو رخ سامنے
ہو حواس اسی رخ میں کام کرتے ہیں۔ میں نے سوچا اگر دونوں رخ سامنے ہوں تو حواس
دونوں رخوں میں کام کریں گے۔ جیسے صفحہ کھڑا کر دیا جائے تو دونوں رخ کی عبادت
دکھائی دیتی ہے۔ حواس کی اسی بلندی کو اعراف کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
کہ کچھ انسان اعراف کی بلندی پر بیٹھے ہوں گے اور وہاں سے جنت دوزخ کا مشاہدہ کریں
گے۔ یعنی اعراف وہ فصیل ہے جہاں زمانی اور مکانی فاصلے ایک لائن میں آ جاتے ہیں۔
مکانی فاصلہ جسمانی حواس اور زمانی فاصلہ روحانی حواس کو تخلیق کرتا ہے۔ جہاں
زمانی اور مکانی فاصلے ایک حدود پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ وہ لاشعور کی وہ حد ہے جہاں
سے شعور شروع ہوتا ہے۔ اس مقام پر شعور لاشعور کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اس طرح غیب
میں روح کے ساتھ پیش آنے والی کارکردگی کو دیکھ لیتا ہے۔
اب
روح کی روشنیاں دل کے مقام سے آہستہ آہستہ اوپر کی جانب سمٹیں۔ دل کی مشین اس
جھٹکے سے بند ہو گئی، مگر مشین روٹین میں چلتے چلتے بند ہو جائے تب بھی کچھ جھٹکے
تو لگتے ہیں۔ نبضیں ڈوبنے لگیں، دل کی حرکت غیر معمولی ہو گئی۔ مجھے لگا میرا دل
مردہ ہو گیا ہے۔ زندہ رہنے کی خواہش ختم ہو گئی اور اس کے ساتھ زندگی سے تعلق
رکھنے والا ہر جذبہ مر گیا ہے۔ میں نے سوچا میں مر گئی ہوں۔ اب میرے جسم کے ساتھ
جو بھی پیش آئے اس سے مجھے کیا غرض ہے۔ اب تو میری زندگی روح ہے۔ میں جسم نہیں
بلکہ روح ہوں اور اس خیال کے ساتھ ہی ساری توجہ روح کی جانب مبذول ہو گئی۔ یوں لگا
جیسے روح کی روشنی ایک دم سے نہایت تیزی سے سمٹ کر حلق میں آ گئی ہے۔ میری سانسیں
تیز اور بے ترتیب ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ہی حلق میں پانی کی ایک بوند ٹپکی۔ ساتھ ہی
سمندر کی لہروں کی شائیں شائیں سنائی دی اور پھر نہایت تیزی سے میرے اندر یہ خیال
آیا کہ سمندر کی ایک بوند ہوں اور اسی لمحے روح کی ساری روشنیاں سمٹ کر آنکھوں میں
آ گئیں۔ آنکھ کی پتلی کے سوراخ سے روح کی روشنی باہر نکل آئی۔ میں نے دیکھا یعنی
روح کی نظر نے دیکھا۔ نور کا وسیع و عریض سمندر ہے۔ اس سمندر کے اندر سے روح مچھلی
کی طرح آہستہ آہستہ باہر نکلتی جا رہی ہے۔ باہر نکلتے ہی اس نے ایک نظر پانی کے
اندر دیکھا۔ اسے سمندر کی تہہ میں اپنا مردہ جسم بیڈ پر لیٹا دکھائی دیا وہ اسے
اچٹتی نگاہ سے دیکھ کر سمندر کی لہروں پر چلنے لگی۔ اس وقت میرے ذہن میں خیال آیا
یہ سمندر اللہ تعالیٰ کے ادراک کا سمندر ہے۔ ادراک کا سمندر لمحہ کن ہے۔ سمندر کی
ہر بوند لمحہ کن کی یونٹ ہے۔ ہر بوند میں لمحہ کن کی تقسیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کن
کہنے سے سمندر کے ادراک نے کروٹ بدلی۔ سمندر کے اندر موجود ادراک اللہ تعالیٰ کے
حکم سے اپنے اندر کے خزانے ظاہر کرنے لگا۔ جس لمحے سمندر کو اللہ تعالیٰ کا حکم کن
ملا کہ اپنے چھپے ہوئے خزانے کو ظاہر کر دے۔ ادراک کا یہ لمحہ روح پھونکنے کا عمل
ہے۔ سمندر کے ہر قطرے نے حکم کن کے ادراک کو جذب کیا اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر
متوجہ ہو گیا۔ قطرے کا اللہ تعالیٰ کی آواز پر متوجہ ہونا روح کا ادراک ہے۔ اللہ
کی آواز قطرے کے اندر داخل ہو کر روح کے حواس بن جاتی ہے۔ جب تک روح کے حواس قطرے
کے خول کے اندر کام کرتے ہیں وہ سمندر کے اندر رہ کر بھی سمندر سے بیگانہ رہتا ہے،
مگر جب روح کی روشنی قطرے سے باہر نکلنے لگتی ہے۔ تو پھر وہ سمندر کی حقیقت سے
واقف ہو جاتا ہے۔
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے چھ دنوں میں کائنات بنائی یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کن
کو کائنات ادراک نے چھ اسٹیج پر سنا۔ گویا روح پھونکنے کا عمل چھ مراحل میں طے
ہوا۔ ہر مرحلہ روح کی مرکزیت ہے جس مرکز سے اس مرحلے کا ادراک تقسیم ہو رہا ہے۔
روح کی ایک مرکزیت عالم نفس ہے۔ جہاں سے روح کو عالم ناسوت کے حواس تقسیم ہوتے
ہیں۔ جب روح کے حواس اس مرکز تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر اس مرکز سے دوسرے مرحلے میں
داخل ہو جاتے ہیں۔
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر شئے کو ماء (پانی) سے پیدا کیا ہے۔ روح کے مرکز سے،
روح کو سمندر کا ادراک تقسیم ہو رہا ہے۔ جب روح اس مرکز کو پہچان لیتی ہے تو ماء
کی حقیقت کو جان لیتی ہے۔ موت وہ لمحۃ ہے جس لمحے روح کے حواس سمندر کے ادراک کو
چھو لیتے ہیں۔ پس اس لمحے روح موت کی آواز بھی سنتی ہے اور موت کا ذائقہ بھی چکھ
لیتی اور پھر ادراک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو جاتی ہے۔ جب تک انسان کائناتی
ادراک کے چھ مراحل جنہیں اللہ تعالیٰ نے چھ دن کہا ہے۔ ان مراحل سے گزر نہیں جاتا
اور ان مراحل کی مرکزیت سے واقف نہیں ہو جاتا۔ اس کے اندر براہ راست اللہ تعالیٰ
کی تجلیات کا مشاہدہ کرنے کی سکت پیدا نہیں ہوتی۔ درحقیقت آدم کی ذات وہ ہستی ہے
جس کو اللہ تعالیٰ کا ادراک منتقل ہوا ہے۔ یہ ادراک آدم کو چھ مراحل میں ذات سے
منتقل ہوا۔ آدم کے اندر چھ مراکز یا چھ لطائف ہیں۔ ان مراکز پر آدم کے حواس ذات کے
ادراک سے متصل ہو جاتے ہیں۔ جس مقام پر آدم کے حواس ذات خالق کے ادراک سے متصل
ہوتے ہیں وہ لمحہ موت کہلاتا ہے۔ موت وہ لمحہ ہے جس لمحہ سمندر کا ادراک قطرے کے
حواس نگل جاتا ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے کو ادراک کے اس سمندر سے حواس تقعیم ہو رہے
ہیں۔ حواس کی تقسیم مقداروں میں ہے۔ یہی مقداریں مخلوق کا انفرادی دماغ یا منفرد
شناخت بنتی ہے۔ لہروں کی اسی تقسیم سے مخلوق کی شکل و صورت بنتی ہے۔ جب یہ لہریں
منتشر ہو جاتی ہے تو جسمانی ساخت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ کائنات کی جسمانی ساخت اور
ظاہری شکل و صورت ادراک کی ظاہری صورت ہے۔ اس ظاہری خول کے اندر ادراک کی روشنی
روح ہے۔ سمندر ذات کی تجلی ہے۔ تجلی کا ادراک روح ہے۔ کائنات کی مخلوق میں آدم
تجلی ذات کے ادراک کا نام ہے۔ سوائے آدم کے اور کوئی مخلوق تجلی ذات سے متصل ہونے
کی سکت نہیں رکھتی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا قابہ قوسین ہونا لمحہ معراج
میں تجلی ذات سے متصل ہونا ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی آواز میری سماعت میں
داخل ہوئی۔
اے
بنت رسولﷺ! کائنات الٹے قدموں واپس جا رہی ہے۔ کائنات کا ہر فرد ابد سے ازل کی
جانب واپس لوٹ رہا ہے۔ ازل وہ مقام ہے جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کن کہہ کر روحوں
کی تخلیق کی اور اپنا دیدار کرایا۔ اب مخلوق یا روح جب ازل کے اسی مقام پر پہنچے
گی تب ہی ذات سامنے آئے گی۔ ازل کے اس مقام پر پہنچنا ذات باری تعالیٰ نے آدم کی
تقدیر میں لکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آدم اپنی تقدیر تک کب رسائی کرتا ہے۔
ہر
ذرہ میں ہے لوح کی تحریر کا باب
ہر
ذرہ ہے آئینہ ہستی کا جواب
پڑھ
سکتے ہو صاف کل جو ہو گا انجام
ہر
ذرہ نے آج کھول رکھی ہے کتاب
(رباعی حضور قلندر بابا اولیاءؒ)
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94