Topics

معرفت ذات


                رات کو مراقبہ میں بیٹھتے ہی استغراق کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ عرش پر نور کی فضا میں چالیس دروازے ہیں۔ روح ایک دروازے سے نکل کر دوسرے دروازے میں داخل ہوتی ہے، پھر دوسرے سے نکل کر تیسرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ان دروازوں میں آ جا رہی ہے۔ میں تعجب میں پڑ گئی کہ روح ان دروازوں میں کیوں آ جا رہی ہے؟ تعجب کے ساتھ ساتھ تجسس نے بھی گھیر لیا کہ ان عظیم الشان دروازوں کے پیچھے کیا ہے؟ میرا جی چاہا۔ میں بھی اڑ کر روح کے قریب پہنچ جائوں اور روح کے ساتھ ان دروازوں میں داخل ہو جائوں یہی سوچ کر میں نے اوپر اٹھنے کی کوشش کی، مگر فوراً یاد آ گیا کہ روح نے مجھے خاص طور پر تاکید کی تھی کہ بغیر میری اجازت غیب میں جانے کی کوشش نہ کرنا۔ میں نے جلدی اپنے ارادے کو سمیٹا اور پوری قوت سے آواز دی کیونکہ عرش بہت دور میری حد نگاہ پر تھا۔

                اے روح! میں بھی تمہارے ساتھ ان دروازوں میں داخل ہونا چاہتی ہوں۔ میری آواز راکٹ کی طرح سیدھی روح کے قریب پہنچ گئی۔ میری نظر آواز کی روشنی کو انتہائی تیز رفتاری سے سفر کرتا دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی روشنی روح کی سماعت سے ٹکرائی روح نے چونک کر میری جانب نظر کی۔ شاید وہ میری آمد کی متوقع نہ تھی۔ اس کے چونکنے کا انداز بھی بڑا دلربا تھا۔ چلتے قدم ایک دم سے رک گئے اور کھجور کی شاخ کی مانند لہراتا بدن اسی انداز میں تھم گیا۔ سنہری زلفیں فضا میں لہرا گئیں۔ آنکھیں حیرت سے پوری کھل گئیں۔ میں ایک لمحے کو اسے مبہوت تکتی رہی، پھر اپنے حواس مجتمع کر کے اس سے التجاً عرض کی۔ پلیز روح! مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ اس نے کچھ اور آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھا جیسے سوچ رہی ہو کہ میں اس کا ساتھ دے بھی سکوں گی یا نہیں۔ میں نے پھر ایک بار اس سے ضد کی۔ اچھی روح! میرا ہاتھ تھام لو، مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ تم کو بالکل تنگ نہیں کروں گی۔ مجھے معلوم تھا۔ روح میری ہر ضد بالآخر مان ہی لیتی ہے۔ اس کی محبت میں ممتا کا اثر ہے۔ میں نے سوچا اب روح مسکرا کر فوراً میرا ہاتھ پکڑ لے گی۔ اچھا چلو…………مگر روح کی روشن پیشانی پر ذمہ داری کی فکر ابھرنے لگی۔ جس نے اس کے مسکراتے چہرے کو سنجیدہ بنا دیا۔ اس نے میری ضد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مجھے اپنے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ کہنے لگی۔ تم پاگل ہوئی ہو، تمہیں پتہ بھی ہے کہ چالیس باب کیا ہیں اور ان کے پس پردہ کون سے عالم آباد ہیں۔ تم تو بس ہر جگہ ساتھ چلنے کی ضد کرنے لگتی ہو۔ چاہے وہ جگہ تمہارے جانے کی ہو یا نہ ہو۔ مجھے روح سے اس سخت رویے کی توقع نہ تھی۔ اس کے انکار نے میرے شوق پر تازیانے کا کام کیا۔ میں نے مصمم ارادہ کر لیا خواہ کچھ بھی ہو ان دروازوں میں جھانکنا ضرور ہے۔ میں نے بھی تیز ہو کر روح کو جواب دیا۔ تم تو ابھی تک مجھے بچہ ہی سمجھتی ہو۔ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو۔ اب میں بچی تو ہوں نہیں جو تم مجھ پر اتنی پابندیاں عائد کرتی ہو۔ کچھ بھی ہو میں نے جانا ضرور ہے۔ جب تم اتنی آسانی سے وہاں آ جا سکتی ہو تو میں کیوں نہیں جا سکتی۔ میں آ رہی ہوں۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ بولی اچھا بابا چلو۔ مگر تم کو یہاں آنے کے لئے نہا دھو کر تیاری کرنی ہو گی۔ میں نے کہا مجھے منظور ہے۔ بولی وہ جو سامنے نور کا دریا بہہ رہا ہے اس کے اندر اچھی طرح نہا دھو کر اپنے آپ کو پاک کر لو۔ میں تیزی سے دوڑتی ہوئی دریا تک پہنچی۔ کہیں روح اپنا ارادہ نہ بدل دے اور میں رہ جائوں۔ نور کا دریا ایک بہت اونچے پہاڑ سے نکل رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دریا کی روانی میں آبشار کی سی تیزی تھی۔ مجھے تو بس یہی دھن تھی کہ کسی طرح جلدی سے روح کے پاس پہنچوں۔ اس دھن میں دریا کی تیزی کا خیال تک نہ آیا اور میں ایک دم سے اس کے پانی میں کود گئی۔ ایک لمحے تو لہروں کے تھپڑوں نے میرے نازک جسم کو زور سے جیسے دھکا دے دیا مگر پھر میں سنبھل گئی۔ پانی ٹھنڈا اور لطیف تھا، اس کی ٹھنڈک میرے روئیں روئیں میں داخل ہوتی محسوس ہوئی۔ جلدی جلدی میں نے غسل لیا اور باہر نکل آئی۔ جسم پہلے کی نسبت نہایت ملائم اور شفاف تھا۔ طبیعت میں بھی لطافت و شگفتگی محسوس ہونے لگی۔ اتنے میں روح میرے پاس آ گئی۔ اس کے ہاتھ میں بالکل ویسا ہی لباس تھا جیسا وہ خود پہنے ہوئے تھی۔ اس نے یہ لباس مجھے دے کر کہا۔ یہ پہن لو، یہ تجلی کا لباس ہے بغیر اس لباس کے تمہیں کوئی ان دروازوں میں داخل نہ ہونے دے گا۔ میرا چہرہ خوشی سے روشن ہو گیا۔ میں نے جلدی سے لباس لے کر پہن لیا۔ یہ لباس مجھے اچھی طرح فٹ آ گیا۔ اس قدر حسین اور لطیف لباس میں نے کبھی نہ پہنا تھا۔ اس کے پہنتے ہی خوشیوں کی لہریں جسم میں دوڑنے لگیں اور سارا جسم چاند کی طرح روشن ہو گیا۔ میں نے دریا کے نور میں اپنا عکس دیکھا اور خوشی سے مسکرا اٹھی۔ میں ہوبہو روح کا عکس لگ رہی تھی۔ روح کی بے پناہ محبت کے ساتھ میں روح کی بالکل بغل میں کھسک آئی اور اس کی تقلید کرنے کی کوشش میں اس کے ساتھ ساتھ اسی انداز پر چلنے لگی۔ چند قدم چلنے پر سیڑھیاں آ گئیں۔ میں نے اوپر نظر ڈالی تو جہاں تک نظر گئی سیڑھیوں کے سوا کچھ نہ دکھائی دیا۔ میں نے روح کا بازو خوب مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا اور سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ پہلے تو ہم بہت تیزی کے ساتھ چڑھتے رہے مگر اس کے بعد میرے پائوں جواب دے گئے۔ باوجود ہزار کوشش کے بھی زمین سے جیسے چپک کر رہ گئے۔ روح آگے بڑھنے لگی۔ میں نے گھبرا کر اسے آواز دی۔

                اے روح! میرے پائوں چپک گئے ہیں۔ اس کے بڑھتے قدم رک گئے۔ شفیق مسکراہٹ کے ساتھ اس نے میرے پائوں پر نظر ڈالی۔ میرے پائوں میں ایک سجیب سی سنسناہٹ سی ہوئی اور اسی وقت پائوں میں قوت آ گئی۔ چند سیڑھیاں چڑھنے پر میرا سانس اس قدر پھول گیا کہ یوں لگا جیسے دم اکھڑنے لگا ہے۔ سارا جسم بے جان ہو کر گرنے کو تھا کہ ایک دم روح نے تھام لیا۔ میں نے نظروں ہی نظروں میں روح سے سانسوں کی التجا کی۔ اس نے بہت جلدی سے میرا منہ اپنے سے ملا دیا اور تب آہستہ آہستہ میرے منہ میں پھونک مارنے لگی۔ اگلے ہی لمحے میں بالکل تازہ دم تھی۔ میں نے شکر کے طور پر اس کا منہ چوم لیا اور پھر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔

                روح نے بتایا کہ اب منزل بالکل قریب ہے۔ صرف چند سیڑھیاں باقی ہیں۔ میں نے آخری سیڑھی پر قدم رکھا ور یہ کیا۔ میرے منہ سے ایک خوفزدہ چیخ نکل گئی۔ اچھی روح میری آنکھیں اندھی کیوں ہو گئیں، میری بینائی کہاں چلی گئی۔ مجھے اپنی نظر عطا کر دو۔ میں بے بسی سے چیخ پڑی۔ روح نے جلدی سے مجھے گلے لگا لیا اور پیار کے ساتھ میری دونوں آنکھیں چوم لیں۔ بولی پگلی خواہ مخواہ چلا رہی ہے۔ ٹھیک تو ہیں تمہاری آنکھیں اور سچ مچ میری آنکھیں تو پہلے سے بھی زیادہ روشن تھیں۔ میں ایک دم ہنس پڑی۔ ہم دونوں نے آخری سیڑھی چڑھی۔ سامنے ایک دروازہ تھا۔ وہی دروازہ جو میں نے نیچے دیکھا تھا۔ اس کی وسعت زمین و آسمان جتنی تھی۔ ایک ہیبت دل پر طاری ہو گئی۔ میں نے دیکھا روح اس دروازے پر سجدے میں گر گئی۔ میں نے بھی فوراً روح کی تقلید کی اور بارگاہ الٰہی میں سر بسجود ہو گئی۔ دل میں عجیب سا احساس تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا رعب و دبدبہ اور ہیبت دل پر طاری تھی، مگر اس کے ساتھ ہی اس کی بے پناہ محبت اس کی کشش بن کر اس کی جانب کھینچ رہی تھی۔ ہم نے سر سجدے سے اٹھایا۔ روح نے مجھ سے کہا۔

                اے بنت رسولﷺ! یہ ذات کے عالمین کا ایک باب ہے۔ ان عالمین کو اپنے رب سے براہ راست ملاقات کرنے کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔ روح کے اتنا کہنے پر خوشی کے مارے میرا دل دھڑکنے لگا۔ کون جانتا ہے۔ ان پردوں میں ذات کے کیسے کیسے رموز پنہاں ہیں۔ روح نے دروازے کے اوپر ہاتھ رکھا۔ ایک خوبصورت نوجوان نے دروازہ کھولا اور مسکراتے ہوئے جھک کر سلام کیا۔ ہم نے بھی جواباً سلام کیا اور اشارہ پاتے ہی دروازے کے اندر قدم رکھ دیا۔ دروازے میں داخل ہوتے ہوئے میرے ذہن میں یہ آیت گونجی۔

                ترجمہ: ‘‘داخل ہونا دروازے سے سر جھکائے ہوئے اور کہتے جانا بخش دے ہمیں۔’’

                (سورہ البقرہ آیت نمبر60)

                اور میری زبان پر بھی یہی الفاظ آ گئے۔ ایک روشن سیدھے راستے پر ہم چل پڑے۔ تھوڑی دور چلنے پر ایک عظیم الشان عمارت آ گئی اس کے دروازے پر پہنچے تو روح نے اندر داخل ہونے سے پہلے مجھ پر ایک جائزانہ نظر ڈالی۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور دوازے پر ہاتھ رکھا۔ دروازہ کھل گیا۔ ہم اندر داخل ہو گئے۔ یہ ایک کمرہ تھا، بے حد بڑا۔ اس کمرے میں بیچوں بیچ ایک میز کرسی تھی۔ میز کے اوپر ایک شمع جل رہی تھی۔ ایک کتاب اسی میز پر شمع کے قریب رکھی تھی۔ کمرے میں کوئی نہ تھا۔ ہم دونوں کے سوا روح کے اشارے پر میں کرسی پر بیٹھ گئی اور کتاب کو کھولا۔ میری حیرانی کی حد نہ رہی جب یہ دیکھا کہ کتاب کے سارے ورق کورے ہیں ان پر ایک لفظ بھی نہیں ہے۔ میں نے حیرت زدہ نظروں سے روح کی جانب دیکھا جس نے کتاب کھولنے کا اشارہ کیا تھا۔ اس کا یہ اشارہ بھی بڑے پراسرار انداز میں تھا۔ میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آنے لگا یہ ذات کے عالمین ہیں۔ یہاں ذات کے اسرار پوشیدہ ہیں۔ روح نے میری حیرت کو پہچانتے ہوئے سکوت توڑا۔

                اے بنت رسولﷺ! یہ کتاب آپ کا دل ہے جو ہر علم سے خالی ہے، شمع کی ذات آپ کا تفکر ہے جو دل کے خلاء کو تسلیم نہیں کرتا۔ شمع کی لو آپ کی نظر ہے جو خلاء میں داخل ہو کر تفکر میں یقین کی روشنی اور رنگ بھر دیتی ہے۔ اپنی ذات کو شمع میں منتقل کر دیں تب آپ کی نظر کتاب کے اسرار کو پا جائے گی۔ روح کے یہ کہنے پر میں نے نہایت ہی غور سے شمع کی جانب دیکھا۔ مجھے روح کی ایک ایک بات پر پورا یقین تھا۔ میں نے سوچا شمع میں داخل ہونے کا راستہ یہیں کہیں ضرور ہے اور میں نے بغیر پلک جھپکائے شمع کی لو پر نظریں گاڑ دیں۔ کون جانتا ہے کتنی دیر میں اس عالم میں رہی۔ نہ مجھے اپنا ہوش تھا نہ روح کا۔ بس میری نظر میں تو شمع کی لو تھی، اس کی روشنی تھی، اس کی حرارت تھی۔ شمع کے اندر ایک در کھلا اور میں اس کے اندر سما گئی۔ میں نے اپنی ذات کو شمع کی حیثیت سے پہچان لیا۔ میں خود شمع ہوں، شمع کی لو میری نگاہ ہے۔ یہ نگاہ سیدھی کتاب پر پڑی۔ نظر نے جو کچھ دیکھا جھوٹ نہ دیکھا۔ کتاب کا ہر صفحہ نظر کی روشنی کی زد میں تھا اور ہر صفحہ قرآن کی ایک تحریر تھی۔ نگاہ ہر صفحہ پر ٹھہر جاتی اور قرآن کے صفحے عالمین کی صورت میں سامنے آ جاتے اور قرآن کے الفاظ ان عالمین کے اندر کی اشیاء کی صورت اختیار کر لیتے۔ ‘‘میری آیتوں کو مت جھٹلائو۔’’ ذات کا تفکر شمع کی ذات کے اندر متحرک تھا۔ شمع جل جل کر اپنی روشنی پھیلاتی رہی اور اس روشنی میں عالمین جگمگاتے رہے۔ وحدت فکر نے ایک بار پھر کروٹ بدلی۔ وحدت کی نظر خود اپنی ذات کو دیکھنا چاہتی تھی۔ وحدت نظر اپنی تلاش میں ذات کے پردوں سے گزرنے لگی شمع کے اندر تفکر کی روشنی چالیس پردوں سے گزر کر خلاء میں داخل ہوئی۔ لاعلمی کے خلاء میں یہی وحدت فکر کا اجالا ہوا۔ ذات کے تفکر نے لامحدودیت میں ذات کا عکس منتقل کر دیا۔ شمع کی لو (وحدت نگاہ) ذات کے عکس کو دیکھنے کے لئے بیتاب ہو گئی۔ آج ذات کا راز ظاہر ہونے کو ہے۔ اے پردوں میں چھپنے والے سامنے آ۔ وحدت نگاہ نے دیکھا۔ لامحدودیت کے خلاء میں ایک شمع روشن ہے۔

من تو شدم تو من شدی تن شدم تو جان شدی

تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

 

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94