Topics

مساجد

سن ایک ہجری تک اسلامی حکومت مدینہ منورہ کے چند محلوں تک محدود تھی۔ فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو رسول اللہﷺ کی زندگی میں دس سال کے قلیل عرصے میں اسلامی فتوحات میں روزانہ ۲۷۶ میل کا اضافہ ہوتا رہا۔ سن گیارہ ہجری میں جب فخر موجودات رسالت مآبﷺ کا وصال ہوا تو دس لاکھ مربع میل کے علاقے پر اسلامی حکومت قائم تھی اور یہ سب پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات اور امت کے لئے اسلامی پروگرام کی بنیاد پر ہوا۔ ہم جب اسلامی نظام اور امت مسلمہ کے لئے ضابطہ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآن ہماری رہنمائی اس طرف کرتا ہے ……اسلام اجتماعی اقدار اور اجتماعی زندگی گزارنے کا نام ہے۔

اسلام میں جو عبادات فرض ہیں ان میں بھی اجتماعی حیثیت برقرار ہے اسلام نے اجتماعی حیثیت کو قائم رکھنے کے لئے دن میں پانچ وقت کی نماز، سال میں تیس روزے اور صاحب استطاعت لوگوں پر حج فرض کیا ہے۔

نماز……اجتماعی حیثیت میں عبادت کرنے کے لئے مسجد کا اہتمام ہوا۔ مسجد دراصل محلے میں رہنے والے مسلمان افراد کے لئے ایک (Meeting Place) ہے جہاں لوگ اکٹھے ہو کر اجتماعی عبادت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں اور جب یہ نیک نفس حضرات و خواتین نماز با جماعت میں دو مرتبہ السلام علیکم کہتے ہیں تو اس عمل سے اجتماعی محبت‘ اجتماعی ہمدردی اور اجتماعی اخوت کے جذبات لاشعوری طور پر دل میں موجزن ہوتے رہتے ہیں۔

جمعہ کے روز بڑے اجتماع میں یہ رمز مخفی ہے کہ ملت اسلامیہ کے دانشور قوم کے افراد کو ساتھ لے کر مملکت کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کریں اور مملکت کی فلاح و بہبود کے لئے لائحہ عمل متعین کریں۔ قوم کی معاشی حالت کو بہتر بنانے‘ معاشرے کی برائیوں کو دور کرنے اور فسق و فجور سے بچنے کی تدابیر نکالیں۔ نماز جمعہ کی افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم عیدین کی نماز کی حکمت پر تفکر کرتے ہیں تب بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ شہر کے گوشے گوشے مضافاتی بستیوں اور قریہ قریہ سے مسلمان ایک مقام ایک میدان اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر محبت و اخوت کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں۔ گلے ملتے ہیں مبارک باد دیتے ہیں اور خوشی کے جذبات سے ایک دوسرے کو پیار کرتے ہیں۔ صاف ستھرے لباس میں بچے رشتہ دار دوست احباب اور پڑوسی مسرت اور شادمانی سے لبریز دل کے ساتھ بلا امتیاز ذات برادری امارت و غربت نیک و بد اور بلا تخصیص مسلک گھروں میں جا کر شیر خورمہ کھاتے ہیں اور گھر والے انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ بچے اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ انہیں عیدی ملتی ہے۔ چھوٹے اس لئے مسرور ہوتے ہیں کہ ان کے سروں پر بزرگ دست شفقت رکھتے ہیں۔ بزرگ اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ انہیں بچوں میں اپنی گزری ہوئی معصومیت نظر آتی ہے۔ بیوی اس لئے خوش ہوتی ہے کہ اچھا شوہر اس سعید خوشی کے موقع پر اپنی رفیق حیات کو تحفہ پیش کرتا ہے۔ شوہر اس لئے خوش ہوتا ہے کہ پاک دامن نیک سیرت سگھڑ بیوی گھر کی تزئین و آرائش کرتی ہے۔ بچوں کے لئے اجلے کپڑوں کا اہتمام کرتی ہے اور نہایت فراغ دلی سے میزبانی کے فرائض انجام دیتی ہے۔ بیٹیوں کی خوشی ان کے چہرے سے عیاں ہوتی ہے جب وہ Shoppingکرتی ہیں چوڑیاں پہنتی ہیں اور ہاتھوں کو مہندی کے نقش و نگار سے مزین کرتی ہیں۔

روزہ……رمضان المبارک کے مہینے میں تیس روزے ہمیں اس تفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ بندے کا اور اللہ کا ایک براہ راست تعلق قائم ہے خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ روزے کی جزا میں خود ہوں۔

دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اے رسولﷺ میرے بندے جب آپﷺ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپﷺ کہہ دیجئے میں ان سے قریب ہوں جب وہ مجھے پکارتے ہیں تو میں ان کی پکار سنتا ہوں۔‘‘

انسانی زندگی کا مطالعہ ہمارے اوپر یہ باب روشن کرتا ہے کہ ہر انسان دوحواسوں میں زندگی گزار رہا ہے ایک قسم کے حواس اسفل زندگی کی طرف متوجہ رہنے پر مجبور کرتے ہیں اور دوسری قسم کے حواس ہمیں آزاد دنیا (جنت) سے روشناس کرتے ہیں۔

عام دنوں کے برعکس روزہ ہمیں ایسے نقطہ پر لے آتا ہے جہاں سفلی حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور ہم اجتماعی شعور میں داخل ہو جاتے ہیں۔ روزے میں اجتماعیت کا عمل دخل اتنا واضح ہے کہ کوئی آنکھ کا اندھا بھی مشاہدہ کر سکتا ہے۔

سحری کا وقت ختم ہونے کے بعدمسجد میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے تو کروڑوں مسلمان اس ایک آواز پر منہ بند کر لیتے ہیں اور اپنے اوپر حلال چیزوں کو حرام کر لیتے ہیں۔ نہ کھانا کھاتے ہیں‘ نہ پانی پیتے ہیں‘ نہ چائے پیتے ہیں۔ تیرہ چودہ گھنٹے کے بعد مساجد سے پھر آذان نشر ہوتی ہے اور لوگ اجتماعی طور پر اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزہ میں یہ حکمت ہے کہ روزے رکھنے سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس عبادت کے نتیجہ میں انسان کے اندر روح کی بالیدگی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اعلیٰ حواس کا اسفل حواس پر غلبہ ہو جاتا ہے اور اس کے اندر دیکھنے کی سمجھنے کی محسوس کرنے چھونے کی اور غیب کی دنیا میں داخل ہونے کی رفتار ساٹھ ہزار 60,000گنا بڑھ جاتی ہے۔ ساٹھ ہزار گنا پرواز کی رفتار کو تلاش کرنے کے لئے رسولﷺ نے شب قدر کا پروگرام دیا ہے۔

’’ہم نے یہ اتارا شب قدر میں۔

اور آپ کیا سمجھے کیا ہے شب قدر۔

شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے (ساٹھ ہزار دن رات کے حواس) سے۔

شب قدر میں اپنے رب کے حکم سے روح اور فرشتے اترتے ہیں ہر امر پر۔

امان ہے وہ رات صبح کے نکلنے تک۔‘‘ (القرآن)

قرآن پاک نے جس رات کا نام لیلتہ القدر رکھا ہے وہ دراصل رمضان کی تکمیل کا ایک حصہ ہے اس حصہ کی تکمیل سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ روزہ کی جزا میں ہوں بندے پر صادق آ جاتی ہے۔ لیلتہ القدر  کے حصول یعنی حواس کی رفتار ساٹھ ہزار گنا ہونے کے بعد بندے کو اللہ تعالیٰ سے جو قربت حاصل ہوتی ہے اور بندے کے اوپر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں‘ روح اور فرشتوں سے ملاقات کا عمل سامنے آتا ہے تو اس عظیم نعمت کے حصول کے بعد مومن دوگانہ نماز عید ادا کرتا ہے وہ غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کی خوشی میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس خوشی کو اجتماعی طور پر مصافحہ کر کے بغل گیر ہو کر مسلمانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یہی عید کا مفہوم ہے اور یہی عید کی خوشی ہے۔

یہی وہ ملت اسلامیہ کی اجتماعی حیثیت ہے جس کی وجہ سے بازوئوں میں طاقت دلوں میں اخوت اور قدرت نے ان کی تلوار میں ضرب کی اتنی صلاحیت پیدا کر دی تھی کہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود حق و باطل کے پہلے معرکہ بدر کے میدان بدر میں اپنے سے تین گنا طاقت رکھنے والے دشمن کو (جو اس زمانے کے اعتبار سے بہترین اسلحہ سے مسلح تھا) شکست فاش دے دی۔

اغیار یہ بات جان گئے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے ہر عمل میں فوجی اسپرٹ موجود ہے اگر یہ فوجی اور عسکری وقار برقرار رہا تو ایک دن مسلمان سارے عالم پر حکمران ہو جائے گا۔ دس ہزار لاکھ انسانوں کا ایک جان دو قلب قافلہ جس زمین کی طرف رخ کرے گا وہ زمین اس کے لئے گلزار بن جائے گی۔ ہماری طاقت ہماری قوت اور ہماری عسکری تنظیم کا وقار بلند کرنے کے لئے ہر سال عید ہمیں دعوت اتحاد و یگانگت دیتی ہے۔

آیئے! اس مرتبہ عید کی صدا پر کان دھریں اور اپنے اندر سے تفرقہ کو ختم کر دیں۔ اللہ کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اللہ کی رسی کو اجتماعی طور پر متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں تا کہ بدر کے ہمارے اسلاف کی طرح ہماری فتح میں معاون بننے کے لئے ہمارے اوپر فرشتے نازل ہوں۔ (آمین)


اے واعظو……اے منبر نشینو


عیسوی دور کی شماریات میں جنوری کا مہینہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دو ہزار مرتبہ آ چکا ہے۔ اس مہینے میں رنج و الم داغ مفارقت روح کی بیتابی مسرت و شادمانی آہیں آنسو بے سکونی اور سکون سبھی کچھ آتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اس لئے کہ کائنات مسلسل حرکت ہے۔ حرکت ایک لمحہ کو بھی رک جائے گی تو دنیا بقا کے دوش سے فنا کے دوش پر منتقل ہو جائے گی اور اس طرح نیست و نابود ہو جائے گی کہ پھر ماضی حال مستقبل کسی کا تذکرہ نہیں ہو گا۔ لاکھوں کروڑوں سال کا ارتقاء پانی کے بلبلے کی طرح معدوم ہو جائے گا۔

یہ دنیا ایک طرف بقا ہے تو دوسری طرف فنا ہے۔ ایک طرف فنا ہے تو دوسری طرف بقا ہے۔ فنا و بقا کا یہ کھیل ریت کے گھروندے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہی وہ سربستہ راز ہے جس کو بتانے سمجھانے اور عام کرنے کے لئے قدرت روشن اور منور لوگوں کو دھرتی پر بھیجتی ہے اور دھرتی کے یہ روشن چراغ زمین پر بسنے والے لوگوں کو روشنی اور نور سے متعارف کراتے ہیں۔ قلندر بابا اولیائؒ ایسے ہی پاکیزہ اور مقدس گروہ کے افضل ترین ایک فرد ہیں۔

آج کی مجلس میں ہم نے قلندر بابا اولیائؒ کی تعلیمات کو مختصر الفاظ میں لوگوں تک پہنچانے کی سعی کی ہے۔ مستقبل کی نسل عظیمیہ سلسلہ کے افراد اور قارئین کے لئے یہ تحریر ایک مرقع تصویر ہے۔

٭ نوع انسان میں مرد عورتیں بچے بوڑھے سب آپس میں آدم کے ناطے خالق کائنات کے تخلیقی راز و نیاز ہیں۔ آپس میں بھائی بہن ہیں‘ نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا۔ بڑائی صرف اس کو زیب دیتی ہے جو اپنے اند رٹھاٹھیں مارتے ہوئے اللہ کی صفات کے سمندر کا عرفان رکھتا ہو۔ جس کے اندر اللہ کی صفات کا عکس نمایاں ہو‘ جو اللہ کی مخلوق کے کام آئے‘ کسی کو اس کی ذات سے تکلیف نہ پہنچے۔

٭ یہ کیسا المناک اور خوفناک عمل ہے کہ ہم دوسروں کو نقصان پہنچا کر خوش ہوتے ہیں جبکہ آدم و حوا کے رشتے کے پیش نظر ہم خود اپنی جڑ کاٹتے ہیں۔ درخت ایک ہے شاخیں اور پتے لاتعداد ہیں۔

٭ خوشی اگر ہمارے لئے معراج کی تمنا ہے تو ہم اپنے نفسوں کو تکلیف پہنچا کر کس طرح خوش رہ سکتے ہیں۔

٭ دوستو! ایسے کام کیجئے کہ آپ خود مطمئن ہوں۔ آپ کا ضمیر مردہ نہ ہو جائے۔ اور یہی وہ راز ہے جس کے ذریعہ آپ کی ذات دوسروں کے لئے رہنمائی کا ذریعہ بن جائے گی۔

٭ آدمی حالات کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ حالات جس طرح چابی بھر دیتے ہیں‘ آدمی اسی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

٭ موجودہ سائنس تلاش و جستجو کے راستے پر چل کر اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ پوری کائنات ایک ہی قوت کا مظاہرہ ہے۔ یہ انکشاف نیا نہیں ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ چودہ سو بیس سال (۱۴۲۰) پہلے اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ کائنات کے تمام بظاہر کو ایک ہستی کنٹرول کرتی ہے۔ قرآن اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض

’’اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔‘


ہم جانتے ہیں کہ آدم زاد کی طرح چوپائے اور پرندے بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ ان کے اندر بھی احتیاج ہے۔ انہیں بھی بھوک پیاس لگتی ہے۔

اے آدم زاد!

کبھی تو نے سوچا ہے کہ روزی رساں اتنی بڑی مخلوق کو کس طرح روزی فراہم کرتا ہے؟

٭ ہر انسان کے اندر سطحی اور گہری سوچ موجود ہے۔ تفکر جب گہرا ہوتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ ہر آدمی جنت اور دوزخ اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے اور اس کا تعلق طرز فکر سے ہے۔ طرز فکر انبیائؑ کے مطابق ہے تو آدمی کی ساری زندگی جنت ہے۔ طرز فکر میں ابلیسیت ہے تو تمام زندگی دوزخ ہے۔

٭ ترقی کے خوشنما اور پر فریب جال میں دنیا کی عمر گھٹ رہی ہے۔ زمین بیمار ہو گئی ہے۔ کراہتے ہوئے روتے ہوئے کہہ رہی ہے ’’خدارا میرے اور اپنے اوپر رحم کرو۔‘‘ مگر کوئی کان ایسا نہیں ہے کہ اس سسکتی ہوئی اور غم میں ڈوبی ہوئی آواز کو سنے۔

٭ اے لوگو! دانشورو! کچھ تو ہوش و خرد سے کام لو۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ آدمی خود اپنی نسل کو برباد کرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہے اور تباہی کا نام اس نے ترقی رکھ چھوڑا ہے اور ترقی کے خوشنما پودوں میں ذہنی سکون اطمینان اور تحفظ کے احساس کو چھپا دیا ہے۔

٭ اے آدم زاد! میری بات پر دھیان دے……میں جو تیرا ضمیر ہوں……تیرے اندر کی آواز ہوں۔ تیرے باطن کی پکار ہوں۔ دیکھ! میرا گلا نہ گھونٹ، میری طرف متوجہ ہو ورنہ تو اسی طرح مصائب کے اندھیروں میں بھٹکتا پھرے گا۔



Qos O Qazah

خواجہ شمس الدین عظیمی

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  ایک معروف  صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ  لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے  روحانی  وماورائی علوم  اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق  پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل   اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے  تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع  ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش  اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی  لاکھوں مداح آپ  کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔  عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین  ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن  قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔ 

کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے  14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔