Topics

سونا بنانے کا گُر

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمایا ہے کہ

’’انسان ہماری بہترین صناعی ہے۔‘‘

بہترین صناعی کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں انسان ان سب سے افضل ہے۔ انسان کو مخلوق میں فضیلت اس بنیاد پر قائم ہے کہ اس کے اندر مخفی علوم جاننے سمجھنے اور ان علوم سے استفادہ کرنے کے لئے صلاحیتیں موجود ہیں۔ اب سے صدیوں پہلے کی سائنسی ایجادات ہوں یا موجودہ دور میں سائنسی ایجادات یہ سب دراصل مخفی صلاحیتوں کے استعمال کا مظاہرہ ہے۔ زمین پر موجود ہر شے روشنی کے غلاف میں بند ہے اور روشنی کے غلاف میں مقداریں کام کر رہی ہیں۔ انسان جب مخفی صلاحیتوں کو بیدار کر کے کسی شے میں خواہ وہ ایٹم ہی کیوں نہ ہو تفکر کرتا ہے تو اس کے اوپر شئے کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ موجودہ سائنسی ترقی بھی اسی ضابطہ اور قاعدہ پر قائم ہے۔

سائنس دانوں نے جیسے جیسے تفکر سے کام لیا ان کے اوپر شئے کے اندر کام کرنے والی تخریبی اور تعمیری قوتیں آشکار ہو گئیں جس کے نتیجے میں ایٹم کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال یہ ہے کہ کائنات میں جتنی بھی اشیاء ہیں خواہ وہ مائع ہوں یا ٹھوس ہوں یا گیس کی صورت میں ہوں سب کی سب ایٹموں سے بنی ہوئی ہیں اور خود ایٹم زیادہ تر ’’خلا‘‘ پر مشتمل ہے۔

بعض اشیاء میں تمام کے تمام ایٹم ایک جیسے ہوتے ہیں ایسی اشیاء کو عناصر کہا جاتا ہے جن میں ہائیڈروجن، کاربن، لوہا، سونا، سیسہ اور یورینیم جیسے قدرتی عناصر اور پلاٹینیم جیسے انسان کے بنائے ہوئے عناصر شامل ہیں۔ عناصر کے علاوہ مرکبات میں مختلف عناصر کے ایٹم ایک دوسرے میں جذب اور گندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح عناصر کی باہمی پیوستگی سے باضابطہ اور باقاعدہ سانچے میں ڈھلے ہوئے سالمات بنتے ہیں۔

ایٹم یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ناقابل تقسیم شئے‘‘ کے ہیں۔ یونانی زبان میں ’’ٹوم(TOM)‘‘ تقسیم کرنے کو کہتے ہیں۔ آریانی زبانوں میں ’’آ‘‘ نفی کا کلمہ ہے۔ ایٹم کا نام دمقراط نامی سائنس دان کا وضع کردہ ہے۔ دمقراط نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کی ہر شئے نہایت چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذروں یعنی ایٹموں سے بنی ہے۔ ایٹم کا سائز ایک انچ کا ڈھائی کروڑواں حصہ یا ایک سینٹی میٹر کا تقریباً ایک کروڑواں حصہ ہوتا ہے یعنی سوئی کی نوک پر لاکھوں ایٹم رکھے جا سکتے ہیں۔ ہلکی اشیاء کے ایٹم ہلکے اور بھاری اشیاء کے ایٹم بھاری ہوتے ہیں بشمول انسان تمام جانداروں کی روح بھی ایٹموں سے مرکب ہے۔ روح کے ایٹم باقی تمام اشیاء کے ایٹموں سے چھوٹے اور لطیف ہوتے ہیں۔ موت کے بارے میں دمقراط کا خیال تھا کہ جب روح کے تمام ایٹم جسم سے نکل جاتے ہیں تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں جسم میں روح کا ایک ایٹم بھی موجود نہیں رہتا جو خارج شدہ ایٹموں کو واپس لا سکے۔ اس لئے روح نکل جانے کے بعد آدمی زندہ نہیں رہ سکتا۔

ایٹم پر ریسرچ کرنے والے محققین نے تحقیق کی ہے کہ ہر ایٹم میں الیکٹران کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ الیکٹران ایک ترتیب اور توازن سے مرکزے کے گرد تہہ در تہہ مداروں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ الیکٹران کی گردش کے حوالے سے یہ سوالات ابھرے کہ وقت کے ساتھ ساتھ الیکٹران بتدریج تھکتے کیوں نہیں؟ ان کی توانائی میں کمی کیوں نہیں ہوتی؟ وہ تھک کر اور ٹوٹ پھوٹ کر مرکزے کے اندر کیوں نہیں گر جاتے؟ ان سوالات کا جواب یہ دیا گیا کہ الیکٹران مرکزے کے ارد گرد ’’توانائی کی مختلف سطحوں پر‘‘ ایک خاص ترتیب سے بکھرے ہوئے گھوم رہے ہیں۔ وہ ایک سطح سے چھلانگ لگا کر دوسری سطح میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن دو سطحوں کے درمیان معلق نہیں رہ سکتے۔ جب کوئی ایٹم کسی بھی قسم کی شعاع حرارت کو  سمک ریز روشنی کی شعاعوں کے زیر اثر آ جاتا ہے تو اس کے الیکٹرانوں میں توانائی آ جاتی ہے اور وہ چھلانگ لگا کر اونچی سطح میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب بیرونی توانائی ختم ہو جاتی ہے تو الیکٹران چھلانگ لگا کر واپس قریب کی نچلی سطح میں آ جاتے ہیں۔ توانائی ضائع یا فنا نہیں ہوتی اس لئے وہ روشنی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ روشنی کا طول موج توانائی کی اس مقدار کے مطابق ہوتا ہے جو الیکٹران نے قبول کی تھی۔

ایٹم کی تحقیق میں ایک نئے باب کا اضافہ اس انکشاف سے ہوا کہ بعض عناصر سے شعاعوں کی صورت میں توانائی خود بخود خارج ہوتی رہتی ہے۔ ایسے عناصر میں دریافت ہونے والا سب سے پہلا عنصر یورینیم تھا لیکن توانائی کا اس سے بھی بڑا منبع ریڈیم ہے۔ پائرے کیوری اور مادام کیوری نے دریافت کیا کہ ریڈیم سے شعاعیں نکلتی ہیں یعنی ریڈیم تابکار دھات ہے۔ یہ شعاعیں دیکھی جا سکتی ہیں اور ان کی پیمائش بھی کی جا سکتی ہے۔

لارڈ رتھرفورڈ فریڈرک سوڈی کے نظریہ سے اب تک کی جانے والی ایٹم کی تعریف تبدیل ہو گئی ہے۔ سینکڑوں برس سے یہ کہا جا رہا تھا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ریڈیم کا ایٹم مسلسل انتشار اور تقسیم در تقسیم کی حالت میں رہتا ہے۔ فعال ذرات ایک طرف ہٹ جاتے ہیں اور ایک ہلکا پھلکا ایٹم باقی رہ جاتا ہے جو طبعی اور کیمیائی لحاظ سے اصلی ریڈیم سے بالکل مختلف ہے۔

ایٹم پر ریسرچ کرنے والی لیبارٹریوں میں مصروف کار سائنٹسٹوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایٹم کی اندرونی صورتحال پیش کرنے والی تصاویر اتار لی گئیں ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا فوٹو پینسلوانیا یونیورسٹی کی جانب سے جاری کیا گیا۔ یہ تصویر اصل سائز سے دو لاکھ پچھتر ہزار گنا بڑی کر کے دکھائی گئی ہے۔

تحقیق اور تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مادہ اور توانائی ایک ہی شئے کے دو روپ ہیں کیونکہ یہ تمام ذرات جو کہ اب تک معلوم کئے گئے ہیں توانائی کی صورت میں سامنے آئے ہیں یعنی ان بنیادی ذرات پر تجربات سے یا ان کی تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے آخر کار توانائی ہی حاصل ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مالیکیول ایٹم یا بنیادی ذرات جو اب تک دیکھے نہیں جا سکے ان کے بارے میں اتنی مفصل معلومات کن بنیادوں پر جمع کی گئی ہیں۔

سائنس دان اس کے جواب میں کہتے ہیں تجربات کے نتائج سے حاصل ہونے والے تاثر یا خصوصیت کے مظاہرہ کی صورت میں یہ اخذ کیا گیا ہے کہ ایٹم اور اس کے ذرات کیا ہیں۔ مثلاً ٹی وی اسکرین پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ الیکٹران دھار Electronic Beamکے بہائو کی وجہ سے ہوتا ہے جب کہ الیکٹران یا الیکٹران بیم دکھائی نہیں دیتی۔ اس طرح کے تجربات میں ایٹم کو جب کسی بیرونی قوت یا شعاع کے زیر اثر لایا جاتا ہے تو ایٹمی ذرات پر اس کی اثر پذیری کے نتائج ایک اسکرین پر دیکھے جاتے ہیں۔ اسکرین پر نظر آنے والا یہ Responseروشنی کے دھبہ (DOT) رنگ یا ٹمٹماہٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ روشنی کا دھبہ گہرا ہوتا ہے ، ہلکا ہوتا ہے بڑا ہوتا ہے یا چھوٹا ہوتا ہے رنگ یا ٹمٹماہٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس طرح ذرات کی خصوصیات معلوم کر لی جاتی ہیں۔

الیکٹران ایک ایسا ذرہ ہے جو اب تک ناقابل تقسیم ہے۔ باقی دونوں ذروں کا قابل تقسیم ہونا ثابت کیا جا چکا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔

ترجمہ۔’’اور یہ جو بہت سی رنگ برنگی چیزیں اس نے تمہارے لئے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں ان میں نشانی ہے ان کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں یعنی ریسرچ کرتے ہیں۔‘‘

ترجمہ۔ ’’اللہ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی۔‘‘

ترجمہ۔ ’’چھوٹے سے چھوٹی اور بڑے سے بڑی کوئی چیز ایسی نہیں ہے قرآن میں جس کی وضاحت نہ ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے۔

ترجمہ۔ ’’اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجئے کہ اس کتاب کو اس نے اتارا ہے جو زمین اور آسمانوں کا جاننے والا ہے۔‘‘

یعنی کائنات کا ایک ایک ذرہ حتیٰ کہ اس کا ایک ایک ایٹم اور ایک ایک سالمہ (Molecule) اس کے علم میں ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :

’’ترجمہ۔ ’’پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا اور پھر اس تخلیقی فارمولوں سے آگاہ کیا۔‘‘

اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کو معین مقداروں (ایٹم) سے بنایا ہے اور یہ معین مقداریں دراصل اس شئے کے ظاہر اور باطن میں کام کرنے والی صلاحیتیں ہیں جو ایک قانون اور Disciplineکے تحت ایک واحد ہستی کی نگرانی میں برقرار ہیں۔ بڑے بڑے اجرام سماوی معمولی اور ننھے سے ایٹم، ایٹم کے اندرونی خول یا اجزاء الیکٹران پروٹان اور نیوٹران اس ذات واحد کی نظروں کے سامنے ہیں۔ کوئی بھی ذرہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں۔

قرآن پاک میں ہے کہ:

ترجمہ۔ ’’وہ ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے۔ اس کے علم سے کوئی رتی برابر چیز باہر نہیں۔ وہ چیز آسمانوں میں ہو یا زمین میں اور ان تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا اور ان چیزوں کی تمام اقسام کے فارمولے کھلی کتاب میں موجود ہیں۔‘‘ (سبا ۳)

سورۃ سبا کی اس آیت میں تین قسم کے ذرات کا بیان ہوا ہے۔

۱) رتی برابر ذرہ

۲) اس سے چھوٹا

۳) نسبتاً اس سے بڑا

تخلیق میں تین قسم کے ذرات پائے جاتے ہیں۔ ایک ایٹم دوسرے ایٹم کے اندرونی اجزاء اور سوئم ایٹم کے مرکبات۔

۱) ’’مثقال ذرۃ‘‘ یعنی وہ رتی برابر چیز ہے جس میں وزن پایا جاتا ہو۔ سب جانتے ہیں کہ رتی چھوٹے سے وزن کی تشخیص ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذرہ برابر چیز جس میں کوئی وزن ہے۔ جب ہم مادی تخلیق یا کسی بھی عنصر کا تذکرہ کرتے ہیں یا Matterکا لفظ استعمال کرتے ہیں اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ چیز جس میں وزن ہو اور معین مقدار یا مقداریں ہوں۔ ایٹم چونکہ ایک ایسی اکائی ہے جس کے اندر الیکٹران پروٹان اور نیوٹران موجود ہیں۔ اس لئے اس میں مقدار اور وزن دونوں ہیں۔ فزکس کے طالبات اور طلبہ یہ جانتے ہیں کہ ایٹم کا وزن معلوم کر لیا گیا ہے۔ ہائیڈروجن کے ایک ایٹم کا وزن اس کے ایک گرام مقدار کا ایک ہزار چوبیسواں حصہ ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک گرام مادے میں کھربوں ایٹم ہوتے ہیں۔

۲) اس سے چھوٹا یعنی ایٹم سے نسبتاً چھوٹا الیکٹران پروٹان اور نیوٹران وغیرہ اور ایٹموں کے مرکزوں سے خارج ہونے والی الفا بیٹا اور گاما شعاعیں۔

۳) اور اس سے بڑا یعنی ایٹم سے بڑا۔ یعنی قیامت تک دریافت ہونے والے ہر ایٹم کے ذرات اور اجزاء خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے ہوں اور کتنے ہی بڑے ہوں۔

قرآن میں تفکر کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایٹم کا خالق ایٹم کے اندرونی اجزاء کا خالق ارض و سماء کا خالق ایک ہے اور پوری کائنات اس کی ملکیت ہے۔ اس نے اس کائناتی سسٹم کو ایک ضابطہ کے ساتھ تخلیق کیا اور ہر چیز کو معین مقداروں کے ساتھ وجود بخشا ہے۔ مقداروں کا یہ علم وہ لوگ حاصل کر لیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق:

ترجمہ۔ ’’اور جن لوگوں نے میرے لئے یعنی میری تخلیق کو جاننے کے لئے جدوجہد اور کوشش کی میں انہیں اپنے راستے دکھاتا ہوں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں لوہے(دھات) کا تذکرہ کیا ہے۔

’’ہم نے نازل کیا لوہا(اس میں دوسری دھاتیں بھی شامل ہیں جیسے یورینیم وغیرہ) اور اس میں ہم نے انسانوں کے لئے بے شمار طاقت اور فائدے رکھ دیئے ہیں۔‘‘

زمین کے اوپر جتنی گیسیں یا دھاتیں موجود ہیں ان کی پہچان ان مقداروں کی وجہ سے ہے جن مقداروں سے ان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ہم جب لوہے کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس میں جو مقداریں کام کرتی ہیں وہ یہ ہیں:

62+59+24+48+30+42+35+1

اور جب ہم سونے (GOLD) کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس کی مقداریں یہ ہیں۔

51+50+31+35+3

اگر کوئی صاحب بصیرت ان مقداروں سے واقف ہو جائے جو اشیاء کی تخلیق میں کام کر رہی ہیں تو وہ مقداروں کو کم و بیش کر کے شئے میں ماہیت قلب کر سکتا ہے۔ مقداروں کا علم اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ دھات سیسہ (Led) میں ایسی مقداریں موجود ہیں جو ایٹم کی قوت پر غالب آ سکتی ہیں۔ یہ دونوں دھاتیں تسویدی لہروں سے فیڈ ہوتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

’’زمین اور آسمان اور اس کے اندر جو کچھ ہے۔ سب کا سب انسانوں کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔‘‘

اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان میں موجود کسی بھی شئے کے اندر جب تفکر کرے گا تو اس شئے کے اندر کام کرنے والی مقداروں کا علم بھی اسے حاصل ہو جائے گا۔

مذہبی دانشور اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان، چاند سورج اور ہوا پانی کو ہماری خدمت گزاری کے لئے معمور کر دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ چاند سورج زمین صرف انسانوں کی خدمت گزاری میں مصروف نہیں ہیں زمین پر موجود ہر مخلوق کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ جس طرح ایک انسان سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی سے فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح پرندے درندے چرندے اور اشجار بھی فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی چاند سورج زمین پر موجود تمام مخلوق کی خدمت گزار ہیں۔ محکوم اور مسخر ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان کو ان مقداروں کا علم عطا کر دیا گیا ہے جن مقداروں (Formula) پر چاند سورج زمین فرشتے جنات نباتات و جمادات قائم اور متحرک ہیں۔

مختصر یہ کہ ایٹم مقداروں کا ایک مرکب ہے اور یہ مقداریں مادیت کی اکائی ہیں۔ مادیت کی ہر اکائی نور کے غلاف میں بند ہے۔ نور کے اوپر روشنی کا غلاف ہے۔ روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل بتائی جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار سے ہزاروں گنا نورانی لہروں کی رفتار ہے۔ نور اور روشنی مرکب اور مفرد دو لہروں کا ایک جال ہے جس کے اوپر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ذرہ بنا ہوا ہے۔ تفکر جب روشنی کی سطح سے نکل کر نور میں داخل ہو جاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹے ذرہ اور اس کے اندر ناقابل بیان طاقت (Energy) انسانی ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے۔ اس انرجی کو تعمیر اور تخریب دونوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ سائنسی ترقی میں جو عوامل کام کر رہے ہیں ان میں انفرادی سوچ اور مادی مفاد کا عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ ساری ترقی نوع انسانی کے لئے ہلاکت کا پیش خیمہ بن گئی ہے۔ اگر یہی ترقی و ایجاد قرآن و حکمت اور پیغمبرانہ طرز فکر کے مطابق ہو تو سائنس نوع انسانی کے لئے سکون و روشنی کا گہوارہ بن جائے گی۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ ترقی کا فسوں انسانی نسل کو آتش فشاں کے کنارے لے آیا ہے۔ یہ دنیا کسی بھی وقت بھک سے اڑ جائے گی۔

اس لئے کہ جو چیز بن جاتی ہے

اس کا استعمال اور اس کا مظاہرہ ضرور ہوتا ہے۔


Qos O Qazah

خواجہ شمس الدین عظیمی

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  ایک معروف  صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ  لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے  روحانی  وماورائی علوم  اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق  پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل   اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے  تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع  ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش  اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی  لاکھوں مداح آپ  کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔  عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین  ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن  قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔ 

کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے  14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔