Topics

ترتیب و پیشکش

مرشدِ کریم کے کتابچوں پر مبنی کتاب ’’اسمِ اعظم‘‘ کے نام سے آپ نے پڑھی۔ مجھے امید ہے کہ اس کتاب کو آپ نے اپنے استاد کی نگرانی میں پڑھتے وقت تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل یعنی مراقبہ پر بھی توجہ دی ہو گی۔

اس کتاب میں مرشدِ کریم کے مزید ۱۴ عدد کتابچوں کو کتابی شکل دے کر ’’قوس قزح‘‘ کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔ باقی کتابچوں کو مزید دو عدد جلدوں میں تیار کر لیا ہے۔ انشاء اللہ وہ بھی جلد پیش خدمت ہونگے۔

وہ طالب علم اور سلسلہ کے معزز خواتین و حضرات جن کے پاس مرشدِ کریم کے کتابچے نہیں ہیں ان کو کتابی شکل میں پا کر ضرور خوش ہونگے۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ انسان کو علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ یعنی اللہ نے انسان کے لاشعور میں علم ذخیرہ کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ علم سکھا دیا ہے جس علم سے انسان کے علاوہ کائنات میں کوئی دوسری نوع واقف نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے آدم کو اپنے اسماء (صفات) کا (براہ راست طرز فکر یعنی کائناتی شعور) کا علم سکھا دیا۔‘‘

فرمان باری تعالیٰ راہنمائی کرتا ہے کہ کائنات میں انسان وہ ہستی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست طرز نگاہ کا علم دیا ہے۔

علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو رسولوں کو عطا کی گئی اور دوسری قسم وہ ہے جو انبیاء کرام کو عطا کیا جاتا ہے۔ ایک بندہ وہ ہے جو اللہ کے قانون کے مطابق نوع انسانی کو راہ راست پر لانے کی نہ صرف جدوجہد کرتا ہے، بلکہ اپنی زندگی بھی ایثار کرتا ہے۔ بڑی بڑی تکالیف برداشت کرتا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ نوع انسانی میں اچھائی برائی کے تصور کو عام کر دے اور ان راستوں سے دور لے جائے جو راستے بندے اور اللہ کے درمیان پردہ بنتے ہیں۔ دوسرے بندے کی شان ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں پہلے اللہ کی مشئیت دیکھتا ہے اور مشئیت میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر بلا چوں و چرا عمل کرتا ہے۔ اس کے سامنے نہ اچھا ہوتا ہے اور نہ برا وہ صرف اور صرف یہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کیا چاہتے ہیں اور اس میں اس کی اپنی مرضی شامل نہیں ہوتی وہ ہر حال میں راضی رہتا ہے۔ اس کی سوچ کبھی اس طرف نہیں جاتی کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کیوں چاہتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور بندہ اس پر عمل درآمد کرتا ہے۔

میرے مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؔ صاحب فرماتے ہیں کہ جب ہم علم کی ہیئت، اصلیت اور حقیقت پر غور کرتے ہیں تو ہمارے پاس یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ علم کی بنیاد دراصل کسی چیز کی خبر یا کسی چیز کی شکل و صورت کو یا کسی چیز کے وصف کو جاننا ہے۔ علم کے معنی بھی یہی ہیں کہ آدمی کے اندر جاننے اور کسی چیز سے واقف ہو جانے کا عمل پیدا ہو جائے۔ جب تک ہمیں کسی چیز کے بارے میں علم حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک وہ چیز ہمارے لئے معدوم کی حیثیت رکھتی ہے۔

میرے مرشد کریم مزید فرماتے ہیں کہ علم حاصل کرنے کے لئے بندے کے اندر یقین مستحکم ہونا چاہئے اور اس کے روحانی استاد میں نہ صرف یہ صلاحیتیں ہونی چاہئیں بلکہ وہ روحانی استاد ان صلاحیتوں کا استعمال بھی جانتا ہو……اس لئے کہ روحانی علم کا حصول اور غیب بینی کی صلاحیت کا بیدار ہونا یقین پر منحصر ہے۔ بے یقین آدمی روحانی راستہ میں سفر نہیں کر سکتا۔

یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ کسی بھی بات کا یقین (حق الیقین) اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ مشاہدے سے گزر کر محسوسات میں داخل نہ ہو جائے اور محسوسات سے ہوتی ہوئی اپنا باطن ظاہر نہ کر دے۔ یعنی قانون یہ بنا کہ کسی بھی معاملے میں حق الیقین تک پہنچنے کے لئے مشاہدہ بغیر پریکٹیکل یعنی مراقبہ کے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔

یہ ساری بات بتانے کا منشاء یہ ہے کہ آپ علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل ضرور کریں تا کہ آپ کے مشاہدے میں ساری بات آ جائے۔

اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ مجھ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ایک ادنیٰ سے کارکن کی حیثیت سے میری یہ کاوش مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؔ کی نظر میں قبول ہو اور ان کا روحانی فیض میرے اوپر محیط ہو۔

آخر میں میاں محمد بخش صاحب کھڑی شریفؒ کے اس شعر پر قلم روکتا ہوں:

پڑھنے دا نہ مان کریں تو، نہ آکھیں میں پڑھیا

او جبار ستار کہاوے متاں روڑھ سٹے دودھ کڑھیا


میاں مشتاق احمد عظیمی’

روحانی فرزند

الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمیؔ

مراقبہ ہال۔ ۱۵۸مین بازار مزنگ لاہور

فون:7243541



Qos O Qazah

خواجہ شمس الدین عظیمی

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  ایک معروف  صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ  لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے  روحانی  وماورائی علوم  اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق  پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل   اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے  تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع  ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش  اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی  لاکھوں مداح آپ  کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔  عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین  ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن  قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔ 

کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے  14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔