Topics
ماضی‘حال‘مستقبل
ماضی قریب‘ماضی بعید‘حال
مستقبل‘ حال‘ ماضی
اتوار کے روز لندن سے جب رخصت ہوا‘ وہاں کا ٹمپریچر نقطہ انجماد سے دو ڈگری کم تھا۔
سینچر کو فورسٹ گیٹ کے ایک بڑے ہال میں الوداعی تقریب تھی۔ہال میں گرمی تھی اور باہر سردی۔ لوگوں کے لئے جتنی کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا وہ کم تھیں۔
مرد و خواتین کا ایک ہجوم تھا جو مجھ ناچیز کو دیکھنے سننے اور ملاقات کرنے کے لئے جمع ہو گیا تھا۔ اس وقت میرے جسم پر ایک سو ڈگری بخار کا غلبہ تھا۔ میڈیکل اصطلاح میں فلو کے وائرس خون میں گردش کر رہے تھے۔
ایسے میں مجھے مہمان خصوصی کی حیثیت سے تقریر کرنا تھی۔
عظیمی بچوں‘دختران‘فرزندان نے اتنے زیادہ پھول نچھاور کئے کہ میز پر اونچا ڈھیر لگ گیا۔ وڈیو کیمرے سے تصویر لینے والوں نے احتجاج کیا اور پھول وہاں سے اٹھا لئے گئے۔
میں نے بخار سے سرگوشی کی۔ اے میرے دوست بے شک جسم اللہ کا ہے‘ تو بھی اللہ کی مخلوق ہے۔ تیرا حق میرے جسم پر زیادہ ہے مگر سامنے دیکھ کہ اللہ کی یہ مخلوق اس لئے جمع ہے کہ وہ کچھ سننا چاہتی ہے۔ کچھ سمجھنا چاہتی ہے……
یا بدیع العجائب۔
بخار بھی شعور رکھتا ہے۔ میری درخواست پر بخار کا دل پسیج گیا‘مسامات کھل گئے……
جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ پیشانی پر ننھی ننھی بوندیں تیز مرکری روشنی میں موتیوں کی طرح چمکنے لگیں۔ تپش کی جگہ ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ پہلے مرحلے پر سر سے قراقلی ٹوپی اتار دی ۔ دوسرے لمحہ لیدر جیکٹ کرسی کی پشت کی زینت بن گئی۔
ام الدماغ میں ایک جھماکہ ہوا……باریک ترین چاندی رنگ لہر آسمان سے اخفیٰ میں اتری اور ریڑھ کی ہڈی کو گزرگاہ بناتی ہوئی پیروں کے تلوئوں سے ارتھ ہو گئی۔
ہڈیوں کے پنجرے میں بند زبان گویا ہوئی۔
میرے بچو‘دوستو‘دور دراز شہروں سے آنے والے عزیزو۔ آج میں اور آپ اس ہال میں موجود ہیں۔ اس وقت ہال میں موجودگی کو ہم ’’حال‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن ابھی چند گھنٹوں کے بعد ہمارا یہ حال ماضی بن جائے گا۔
میں آپ کا دوست‘ آپ کا استاد‘ آپ کا Spiritual Fatherآپ سے پوچھتا ہوں۔
میں اس وقت اڑسٹھ سال کا ہوں۔ یہ اڑسٹھ سال کہاں گئے؟ میں پیدا نہیں ہوا تھا تو کہاں تھا……غیب میں تھا۔ غیب کیا ہے؟ ماضی کے علاوہ ہم اسے کوئی نام نہیں دے سکتے۔ ولادت کے بعد پندرہ سیکنڈ بھی نہیں گزرے تھے کہ میں ماضی میں منتقل ہو گیا اور یہ پندرہ سیکنڈ پھیل کر اڑسٹھ سال کے دن‘رات‘گھنٹوں‘منٹوں‘سیکنڈوں اور لمحات میں غائب ہو گئے۔ ہم زندگی میں جس وقت کو ’’حال‘‘ کہتے ہیں وہ حال ایک لمحہ کے لئے بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھتا۔ حال ماضی میں فنا ہو رہا ہے۔ ہم جسے مستقبل کہتے ہیں وہ حال کے بعد آنے والا لمحہ ہے لیکن حال ہو یا حال کے بعد آنے والالمحہ ہو……ماضی کی آغوش اسے اپنے اندر سمیٹ رہی ہے۔
زندگی کیا ہے؟
زندگی خیال ہے……خیال کہاں سے آتا ہے۔ جہاں سے بھی آتا ہے وہ ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
خواب سے اٹھ جایئے‘ آپ سحر زدہ قوم کے افراد نہیں ہیں‘ بتایئے……!
کیا خیال آئے بغیر کوئی کام کرنا ممکن ہے؟…………
لاکھوں سال کی زندگی میں ایک حرکت بھی خیال یا انفارمیشن کے بغیر ممکن نہیں ہے آدم سے لے کر اب تک ہم خود اور آنے والی نسلیں کہیں موجود ہیں جہاں موجود ہیں وہ سورس آف انفارمیشن ہے۔ سورس آف انفارمیشن غیب ہے اور غیب ماضی ہے۔ ہم ماضی میں سے آتے ہیں اور ماضی میں منتقل ہونے والے لمحات میں زندہ رہتے ہیں۔
ماضی سے جب خیالات یا انفارمیشن کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے تو ہمارا جسمانی نظام معدوم ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ایک معروف صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے روحانی وماورائی علوم اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی لاکھوں مداح آپ کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔
کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے 14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔