Topics

اے واعظو اے منبرنشینو


٭ اے واعظو!

اے منبر نشینو!

اے قوم کے دانشورو!

برائے خدا سوتی قوم کو جگائو اور بتائو کہ بے عمل قومیں غلام بن جاتی ہیں۔

٭ آدمی جب اپنی روح کا عرفان حاصل کرلیتا ہے تواس کی رفتار کے آگے بجلی کی رفتار صفر ہو جاتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں سال پہلے کی باتیں اس کے سامنے آ جاتی ہیں۔

٭ کوئی چیز براہ راست ہم سے ہم رشتہ نہیں ہے بلکہ ہر رشتہ میں اللہ کی صفت کا عمل دخل ہے۔

٭ من سے دوستی کا رشتہ مستحکم کرنے کے لئے ہمارا اِنر(Inner) ہمیں راستہ دکھاتا ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ یہاں ہمارا کوئی دشمن ہے نہ کوئی دوست ہے۔ ہم خود ہی اپنے دوست ہیں اور خود ہی اپنے دشمن ہیں۔

٭ روح رہنمائی کرتی ہے کہ ساری کائنات ایک ڈرامہ کی طرح ہے۔ کوئی باپ ہے کوئی ماں ہے کوئی بچہ ہے کوئی دوست ہے کوئی دشمن ہے کوئی گنہگار ہے کوئی پاکباز ہے۔ دراصل یہ اسٹیج پر کام کرنے والے کرداروں کے مختلف روپ ہیں۔ جب ڈراپ سین ہو جاتا ہے تو کوئی کچھ نہیں رہتا۔

٭ فتح کی آنکھ دیکھتی ہے کہ اللہ کی ساری مخلوق ایک نقطہ میں بند ہے۔ جس طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں جھانکنے سے پانی کے اندر اپنی شکل نظر آتی ہے اسی طرح اس نقطہ کے اندر دیکھنے سے کائنات کے سارے افراد فرشتے جنات انسان اور دوسری تخلیقات باہم دیگر جڑے ہوئے ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست نظر آتے ہیں۔

٭ حقیقی مسرت سے ہم آغوش ہونے کے لئے انسان کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ زندگی کا دارومدار صرف جسم پر نہیں ہے بلکہ اس حقیقت پر ہے جس حقیقت نے خود اپنے لئے جسم کو لباس بنا لیا ہے۔

٭ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی مر گیا تو دراصل کہنا یہ چاہتے ہیں کہ فلاں آدمی کا کردار فلاں آدمی کی زندگی یا فلاں آدمی کی آواز ایک دستاویزی ریکارڈ بن گئی ہے۔

٭ جب تک آدمی کے یقین میں یہ بات رہتی ہے کہ چیزوں کا موجود ہونا یا چیزوں کا عدم میں چلے جانا اللہ کی طرف سے ہے اس وقت تک ذہن کی مرکزیت قائم رہتی ہے اور جب یہ یقین غیر مستحکم ہو کر ٹوٹ جاتا ہے تو آدمی ایسے عقیدے اور ایسے وسوسوں میں گرفتار ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ ذہنی انتشار ہوتا ہے پریشانی ہوتی ہے غم اور خوف ہوتا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار انسان روزانہ مرتا ہے اور روزانہ جینے کے بعد پھر مر جاتا ہے۔

٭ روح اور جسم کے مشترک نظام سے جب کوئی بندہ واقف ہو جاتا ہے تو وہ خود کو خوش اور ایثار کے جذبہ میں ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے۔ وہ ہر فرد کو اس نظر سے دیکھتا ہے جس نظر سے ماں اپنے بچوں کو دیکھتی ہے۔

٭ سکون ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جس سے پوری کائنات بندھی ہوئی ہے۔ حقیقت فکشن نہیں ہوتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بندے کے اندر وہ کون سی طاقت ہے جو ٹوٹ پھوٹ اور گھٹنے بڑھنے سے محفوظ ہے۔ وہ طاقت ہر بندے کی‘ اس کی اپنی روح ہے۔ نسلی اعتبار سے اگر ہم اپنے بچوں کو ان کے اندر موجود روح سے آشنا کر دیں تو وہ مذہب سے دور نہیں ہونگے۔

٭ اس رنگ و بو کی دنیا میں ہر طرح ایک اور دنیا بھی ہے جو مرنے کے بعد ہمارے اوپر روشن ہوتی ہے۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ہم نے کبھی اس نادیدہ دنیا کی طرف سفر نہیں کیا۔ اگر ہم اس دنیا سے روشناسی حاصل کر لیں تو اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ ناشاد و نامراد زندگی کو مسرت و شادمانی میسر آ جائے گی۔

٭ یہاں ہر چیز لہروں کے دوش پر رواں دواں ہے۔ یہ لہریں جہاں زندگی کو خوش آرام بناتی ہیں۔ مصیبت و ابتلا میں بھی مبتلا کر دیتی ہیں۔ نور کے قلم سے نکلتی ہوئی ہر لکیر نور ہے اور نور جب مظہر بنتا ہے تو روشنی بن جاتا ہے۔ روشنی کم ہو جائے تو اندھیرا ہو جاتا ہے۔ آدم نے اس اندھیری دنیا میں قید ہونے کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔

٭ انسانی نگاہ کے سامنے جتنے مناظر ہیں وہ شعور کی بنائی ہوئی مختلف تصویریں ہیں……اس لئے اس کے مشاہدات و تجربات بھی مفروضہ ہیں۔ ایک چیز کے بارے میں مختلف لوگوں کی سینکڑوں مختلف آراء ہوتی ہیں۔ حالانکہ حقیقت ایک اور صرف ایک ہوتی ہے……عام مشاہدہ ہے کہ ہماری نگاہ کے سامنے مظاہر میں ہر وقت تغیر ہوتا رہتا ہے۔ آبادی ویرانہ میں اور ویرانہ آبادی میں بدل جاتا ہے……

یہ متغیر دنیا کس طرح حقیقی ہے؟

جب کہ حقیقت میں تغیر نہیں ہوتا۔


Qos O Qazah

خواجہ شمس الدین عظیمی

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  ایک معروف  صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ  لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے  روحانی  وماورائی علوم  اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق  پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل   اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے  تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع  ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش  اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی  لاکھوں مداح آپ  کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔  عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین  ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن  قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔ 

کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے  14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔