Topics
خالق کائنات نے پہلے انسان کو آدم علیہ السلام کی شکل میں پیدا کیا اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے آدم کی پسلیوں سے حضرت حوا کو تخلیق کیا اس سے ظاہر ہوا کہ اللہ نے آدم اور حوا کو الگ الگ تخلیق نہیں کیا یعنی یہ دونوں اللہ کی دو الگ الگ تخلیق نہیں ہیں بلکہ حوا آدم کا جزو ہیں۔ آدم کے بدن کا ٹکڑا ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی تخلیق کے دو جزو ہیں اللہ نے پہلے مذکر تخلیق کیا اور اسی سے اس کی مونث کو پیدا کیا۔
’’اے انسانو! تم سب کو اللہ نے ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو قبیلوں اور خاندانوں میں اس لئے بنایا تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو یقیناً اللہ کے نزدیک وہ شریف ہے جو پرہیز گار ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات)
متعدد مقامات پر کیا ہے چنانچہ سورۃ النسائ، سورۃ انبیاء اور سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کا ذکر خیر موجود ہے۔ سورۃ طہٰ میں حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا ذکر ہے۔ اسی طرح سورۃ القصص اور سورۃ تحریم میں آسیہ کا ذکر اور سورۃ ہود میں حضرت سارہؓ اور سورۃ النساء میں حضورﷺ کی ازواج مطہرات کو قرآن نے مخاطب کیا ہے۔
جنت سے نقل مکانی کی ذمہ دار تنہا حوا نہیں ہے بلکہ آدم اور حوا دونوں ہی اس لئے مورد الزام بھی دونوں ٹھہرے۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ:
’’عورت شیطان کا آلہ کار نہیں۔ اس کے برعکس عورت شیطان کی یورش کے خلاف ایک مضبوط قلعہ ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے یہ فرما کر عورت کو انتہائی اعزاز کا مرتبہ عطا کیا ہے کہ:
’’جنت ماں کے قدموں میں ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ نے بیوی سے محبت اور احترام کی بار بار تاکید فرمائی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں سے بہتر سلوک کرتے ہیں۔‘‘
نبی کریمﷺ کا خواتین پر احسان عظیم ہے کہ رسول اللہﷺ نے عورت کو اسفل سافلین سے نکال کر ایسا مقام عطا کر دیا جہاں تقویٰ میں وہ مردوں کے برابر آ گئی۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود عورت نے کبھی اپنی صلاحیتوں کے بارے میں غور نہیں کیا۔ عورت نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ اس بے جا غلبہ سے آزاد ہو کر اپنا روحانی تشخص تلاش کرے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ روحانی طور پر عورت اور مرد دونوں ایک ہیں کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ عورت اور مرد کی روح الگ الگ ہے۔ دونوں کی روح ایک ہے البتہ روح کا مظاہرہ یا روپ الگ الگ ہے۔ اور وہ مظاہرہ ایک تخلیق ضرورت ہے۔ تخلیقی ضرورت کی طرف دیکھا جائے تو وہاں عجیب صورت نظر آتی ہے کہ عورت وہ کام کر رہی ہے جو بحیثیت خالق اللہ کر دہا ہے، جس طرح اللہ خالق ہے اسی طرح عورت بھی ذیلی خالق ہے۔ اللہ بلا معاوضہ مخلوق کی خدمت کرتا ہے مفت وسائل فراہم کرتا ہے اسی طرح ماں اپنی استطاعت سے بڑھ کر اولاد کے لئے سب کچھ کرتی ہے۔ اور خدمت کا صلہ یا معاوضہ نہیں لیتی کہا جاتا ہے کہ عورت کمزور اور ناقص ہے لیکن ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عورت میں بھی وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں اور اسی طرح کام کر رہی ہیں جس طرح مرد کرتے ہیں اگر عورت کمزور اور ناقص ہوتی تو مرد کی طرح عورت کے سامنے فرشتے کا ظاہر ہونا، ملاقات کرنا، گفتگو کرنا، جنت سے اس کے لئے کھانے آنا، رابعہ بصری کے لئے خانہ کعبہ کا استقبال کرنا۔ جیسی باتیں منظر عام پر نہ آتیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب وقت پڑا تو عورت نے ایک سپاہی اور بہادر جرنیل کا کام بھی کیا ہے بڑی بڑی مملکتیں اس کے زیر تصرف رہی ہیں اور ان مملکتوں نے ترقی بھی کی ہے۔
تعلیم کا میدان ہو، کھیل کود ہو، صنعت و حرفت ہو، سیاست ہو، معلمہ کے فرائض ہوں، ایجادات و ترقی کا شعبہ ہو یا لاسلکی نظام کی تحقیق ہو، عورت نے ہر جگہ بہترین قابلیت اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ اپنی والدہ کے فرزند ارجمند تھے خداداد صلاحیتوں کو استعمال کر کے کائناتی امور پر غور کیا تو سب سے پہلے اپنے سرپرست’’آذر‘‘ کو سمجھایا۔ پھر جمہور کے سامنے حق کی روشنی کو پیش کیا اور آخر میں نمرود سے مظاہرہ کر کے اس کے سامنے حق کو بہتر سے بہتر طریقے سے پیش کیا۔ ہر لمحہ سب کو یہی تلقین کی کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی پرستش جائز نہیں اور بت پرستی اور ستارہ پرستی کا نتیجہ نقصان اور ذلت کے سوائے کچھ نہیں۔ اس لئے شرک سے باز آنا چاہئے اور ’’ملت حنفیہ‘‘ ہی کو صراط مستقیم سمجھنا چاہئے جس کی اساس و بنیاد’’توحید الٰہی‘‘ پر قائم ہے۔
مگر بدبخت قوم نے کچھ نہ سنا اور کسی طرح رشد و ہدایت کو قبول نہ کیا اس وقت ایک عورت حضرت ابراہیمؑ کی بیوی حضرت سارہؓ اور ایک مرد حضرت ابراہیمؑ کے برادر زاد حضرت لوطؑ کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا۔ پوری قوم نے حضرت ابراہیمؑ کو جلا دینے کا فیصلہ کر لیا اور دہکتی آگ میں ڈال دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے ارادوں کو ذلیل و رسوا کر کے حضرت ابراہیمؑ کے حق میں آگ کو ’’باغ‘‘ بنا دیا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے ارادہ کیا کہ کسی دوسری جگہ جا کر پیغام الٰہی سنائیں اور دعوت حق پہنچائیں۔ یہ سوچ کر مقام ’’فدان آرام‘‘ سے ہجرت کا ارادہ کر لیا۔ بہرحال حضرت ابراہیمؑ ملک و قوم سے جدا ہو کر فرات کے مغربی کنارے ایک بستی میں چلے گئے جو ’’اورکلارفین‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس سفر میں حضرت سارہؓ اور حضرت لوطؓ ہمسفر تھے۔ اور کچھ دنوں کے بعد یہاں سے ’’حران‘‘ یا ’’حاران‘‘ کی جانب روانہ ہو گئے اور وہاں ’’دین حنیف‘‘ کی تبلیغ شروع کر دی۔ حضرت ابراہیمؑ کا یہ سفر جاری رہا اس طرح تبلیغ کرتے کرتے فلسطین پہنچے کچھ عرصے کے لئے فلسطین کے مغربی اطراف میں سکونت اختیار کی۔ قریب ہی نابلس تھا کچھ عرصہ وہاں قیام کیا۔ یہاں بھی زیادہ عرصے قیام نہیں کیا۔ بلکہ مغرب کی طرف چلے گئے یہاں تک کہ مصر جا پہنچے۔
مصر پہنچنے پر ملک جیاد کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے مصر پہنچنے سے پہلے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سارہؓ سے فرمایا کہ یہاں کا بادشاہ جابر و ظالم ہے۔ اگر کسی حسین عورت کو دیکھتا ہے تو زبردستی چھین لیتا ہے اور اس کے ساتھی مرد کو اگر وہ شوہر ہے تو قتل کرا دیتا ہے اور اگر عورت کے ساتھ اس کا کوئی عزیز ہو تو اس سے تعرض نہیں کرتا۔ تم چونکہ میری دینی بہن ہو اور اس سرزمین میں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے اس لئے تم اس سے کہہ دینا کہ یہ میرا بھائی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب رات کے وقت بادشاہ نے تصرف کا ارادہ کیا تو اس کا ہاتھ شل ہو گیا اور وہ کسی طرح حضرت سارہؓ کو ہاتھ نہ لگا سکا۔ یہ دیکھ کر اس نے حضرت سارہؓ سے کہا: اپنے اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ صحیح ہو جائے اور اگر ایسا ہوا تو میں تجھے رہا کر دوں گا۔ حضرت سارہؓ نے دعا کی اور اس کا ہاتھ ٹھیک ہو گیا۔ مگر وہ پھر شیطانیت سے باز نہ آیا اور دوبارہ اس کا ہاتھ فالج زدہ ہو گیا۔ تیسری مرتبہ پھر یہی واقعہ پیش آیا تو اس نے یہ کہا کہ جن ہے انسان نہیں ہے۔ اس کو میرے پاس سے جلدی لے جائو اور ساتھ ہی حضرت ہاجرہؓ کو حوالہ کر کے کہا کہ اس کو بھی ساتھ لے جا میں نے اسے بھی تیرے حوالے کیا۔ حضرت سارہؓ حضرت ہاجرہؓ کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیمؓ کے پاس پہنچیں تو آپؑ نے حال دریافت کیا۔ حضرت سارہؓ نے مبارکباد دی اور کہا اللہ کا شکر ہے اس نے ہماری حفاظت کی اور آپؑ کے لئے ایک خادمہ اور ساتھ کر دی۔
ہاجرہ اصل میں عبرانی لفظ ’’ہاغار‘‘ ہے جس کے معنی بیگانہ اور اجنبی کے ہیں۔ ان کا وطن چونکہ مصر تھا اس لئے نام پڑ گیا۔ لیکن اسی اصول کے پیش نظر زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ ’’ہاغار‘‘ کے معنی ’’جدا ہونے والے‘‘ کے ہیں اور عربی میں ہاجر کے معنی بھی یہی ہیں۔ یہ چونکہ اپنے وطن مصر سے جدا ہو کر یا ہجرت کر کے ابراہیمؑ کی شریک حیات اور حضرت سارہؓ کی خدمت گزار بنیں اسی لئے ہاجرہ کہلائیں۔
حضرت ابراہیمؑ ابھی تک اولاد سے محروم تھے ایک روز حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فرزند کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبولیت بخشی اور یہ دعا اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت ابراہیمؑ کی چھوٹی بی بی حضرت ہاجرہؓ امید سے ہو گئیں۔ جب حضرت سارہؓ کو پتہ چلا تو انہیں بہ تقاضائے بشریت حضرت ہاجرہؓ سے حسد پیدا ہو گیا اور انہوں نے حضرت ہاجرہؓ کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ حضرت ہاجرہؓ مجبور ہو کر ان کے پاس سے چلی گئیں۔
حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے حضرت اسماعیلؑ کا پیدا ہو جانا حضرت سارہؓ پر بے حد شاق گزارا حضرت ابراہیمؑ کی پہلی اور بڑی بیوی ایک عرصے سے گھر کی ملکہ۔ ہاجرہؓ چھوٹی بیوی اور ان کی خدمت گزار، یہ سب باتیں تھیں جنہوں نے اسماعیلؑ کی ولادت کو حضرت سارہؓ کے لئے مسئلہ بنا دیا تھا۔ اس لئے حضرت سارہؓ نے حضرت ابراہیمؑ سے اصرار کیا کہ ہاجرہؓ اور اس کا بچہ اسماعیلؑ میری نگاہ کے سامنے نہ رہیں۔ ان کو علیحدہ کسی جگہ لے جائو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسماعیلؑ کے بعد حضرت سارہؓ سے حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کی بشارت بھی دی تھی۔
حضرت ابراہیمؑ ہاجرہؓ اور اس کے شیر خوار بچہ اسماعیلؑ کو لے کر چلے اور جہاں کعبہ ہے اس جگہ ایک بڑے درخت کے نیچے زمزم کے موجودہ مقام سے بالائی حصہ پر ان کو چھوڑ کر چلے گئے وہ جگہ ویران اور غیر آباد تھی اور پانی کا کہیں نام و نشان نہ تھا اس لئے ابراہیمؑ نے ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور ان کے پاس چھوڑ دی اور پھر منہ پھیر کر روانہ ہو گئے۔ ہاجرہؓ ان کے پیچھے پیچھے یہ کہتی ہوئی دوڑیں اے ابراہیمؑ تم ہم کو ایسی وادی میں کہاں چھوڑ کر چل دیئے جہاں آدم ہے نہ آدم زاد اور نہ کوئی مونس و غم خوار۔ ہاجرہؓ یہ کہتی جاتی تھیں مگر ابراہیمؑ خاموش چلے جا رہے تھے، آخر ہاجرہؓ نے دریافت کیا کہ تیرے خدا نے تجھے یہی حکم دیا ہے؟ تب حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا ’’ہاں‘‘ یہ خدا کے حکم سے ہے۔ ہاجرہؓ نے جب یہ سنا تو کہنے لگیں اگر یہ خدا کا حکم ہے تو بلاشبہ وہ ہم کو ضائع اور برباد نہیں کرے گا اور پھر واپس لوٹ آئیں۔ ابراہیمؑ چلتے چلتے جب ایک ٹیلے پر ایسی جگہ پہنچے کہ ان کے اہل و عیال نگاہ سے اوجھل ہو گئے۔ تو اس جانب جہاں کعبہ ہے رخ کیا اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی۔
ترجمہ: ’’اے ہم سب کے پروردگار ایک ایسے میدان میں جہاں کھیتی کا نام و نشان نہیں میں نے اپنی اولاد تیرے محترم گھر کے پاس لا کر بسائی ہے کہ نماز قائم رکھیں پس تو ایسا کر کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہو جائیں اور ان کے لئے زمین کی پیداوار سے سامان رزق مہیا کر دے۔ تا کہ تیرے شکر گزار ہوں۔‘‘ (سورۃ ابراہیم)
ہاجرہؓ چند روز تک مشکیزہ سے پانی اور خورجی سے کھوجوریں کھاتی اور اسماعیلؑ کو دودھ پلاتی رہیں۔ لیکن وہ وقت بھی آ گیا کہ پانی رہا نہ کھجوریں۔تب وہ سخت پریشان ہوئیں۔ چونکہ وہ بھی پیاسی تھیں اس لئے دودھ بھی نہ اترتا تھا اور بچہ بھی بھوکا پیاسا رہا۔ جب حالت دگرگوں ہونے لگی اور بچہ بیتاب ہونے لگا تو ہاجرہؓ اسماعیل کو چھوڑ کر دور جا بیٹھیں تا کہ اس حالت زار میں اس کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھیں، کچھ سوچ کر قریب کی پہاڑی صفا پر جا چڑھیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ نظر آ جائے یا پانی نظر آ جائے مگر کچھ نظر نہ آیا۔ پھر بچہ کی محبت میں دوڑ کر وادی میں آ گئیں۔ اس کے بعد دوسری جانب پہاڑی مروہ پر چڑھ گئیں اور وہاں بھی جب کچھ نظر نہ آیا تو پھر تیزی سے لوٹ کر وادی میں بچہ کے پاس گئیں اور اس طرح سات مرتبہ کیا۔
نبی اکرمﷺ نے اس مقام سے متعلق فرمایا کہ یہی وہ ’’سعی بین الصفا و مروہ ‘‘ ہے ۔ جو حج میں لوگ کرتے ہیں۔ آخر میں جب وہ مروہ پر تھیں تو کانوں میں ایک آواز آئی، چونکیں اور دل میں کہنے لگیں کہ کوئی پکارتا ہے۔ کان لگایا تو پھر آواز آئی، ہاجرہؓ کہنے لگیں۔ اگر تم مدد کر سکتے ہو تو سامنے آئو۔ تمہاری آواز سنی گئی دیکھا تو خدا کا فرشتہ (جبرئیلؑ) ہے۔ فرشتے نے اپنا پیر یا ایڑی اس جگہ ماری جہاں زمزم ہے (یہ بھی روایت ہے کہ حضرت اسماعیلؑ نے جب زمین پر ایڑی ماری) اس جگہ سے پانی ابلنے لگا۔ ہاجرہؓ نے یہ دیکھا تو پانی کے چاروں طرف باڑ بنانے لگیں۔ پانی برابر ابلتا رہا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ام اسماعیلؑ پر رحم کرے۔ اگر وہ زمزم کو اس طرح نہ روکتیں اور اس کے چار جانب باڑ نہ لگاتیں تو آج وہ زبردست چشمہ ہوتا۔ ہاجرہؓ نے پانی پیا اور پھر اسماعیلؑ کو دودھ پلایا۔ فرشتہ نے ہاجرہؓ سے کہا خوف و غم نہ کر اللہ تعالیٰ تجھ کو اور اس بچہ کو ضائع نہ کرے گا، یہ مقام ’’بیت اللہ‘‘ ہے جس کی تعمیر اس بچہ اور اس کے باپ ابراہیمؑ کی مقدر ہو چکی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس خاندان کو ہلاک نہیں کرے گا۔ بیت اللہ کی یہ جگہ قریب کی زمین سے نمایاں تھی۔ اسی دوران بنی حریم کا ایک قبیلہ اس وادی کے قریب آ کر ٹھہرا، دیکھا تھوڑے فاصلے پر پرندے اڑ رہے ہیں۔ جرہم نے کہا کہ یہ پانی کی علامت ہے۔ وہاں ضرور پانی موجود ہے۔ جرہم نے قیام کی اجازت مانگی۔ ہاجرہؓ نے فرمایا قیام کر سکتے ہو لیکن پانی کی ملکیت کے حصہ دار نہیں ہو سکتے۔ جرہم نے یہ بات بخوشی منظور کر لی اور وہیں مقیم ہو گئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہاجرہؓ خود بھی باہمی انس رفاقت کے لئے یہ چاہتی تھیں کہ کوئی یہاں آ کر مقیم ہو۔ اس لئے انہوں نے مسرت کے ساتھ بنی جرہم کو قیام کی اجازت دے دی۔ جرہم نے آدمی بھیج کر اپنے باقی ماندہ اہل خاندان کو بھی بلا لیا اور وہ مکانات بنا کر رہنے لگے۔ انہی میں اسمعیلؑ بھی رہتے اور کھیلتے اور ان سے ان کی زبان سیکھتے، جب اسمعیلؑ بڑے ہو گئے۔ ان کا طرز انداز اور ان کی خوبصورتی بنی جرہم کو بہت بھائی اور انہوں نے اپنے خاندان کی لڑکی سے ان کی شادی کر دی اس کے کچھ عرصے بعد حضرت ہاجرہؓ کا انتقال ہو گیا۔
حضرت ابراہیمؑ کی عمر سو سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بشارت دی کہ سارہؓ کے بطن سے بھی تیرے ایک بیٹا ہو گا اس کا نام اسحاق رکھنا۔
قرآن پاک میں ہے:
ترجمہ: ’’اور بلا شبہ ہمارے ایلچی (فرشتے) ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے، انہوں نے ابراہیم کو سلام کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ابراہیم بچھڑے کا بھنا گوشت لایا اور جب اس نے دیکھا ان کے ہاتھ اس کی طرف نہیں بڑھتے تو ان کو اجنبی محسوس کیا اوران سے خوف کھایا۔ وہ کہنے لگے خوف نہ کرو، ہم لوگ کی قوم پر عذاب کے لئے بھیجے گئے ہیں اور ابراہیم کی بیوی کھڑی ہوئی ہنس رہی تھی،پس ہم نے اس کو اسحاق کی اور اس کے بعد یعقوب کی بشارت دی، سارہ کہنے لگی کیا میں بڑھیا بچہ جنوں گی اور جب کہ ابراہیم میرا شوہر بھی بوڑھا ہے، واقعی یہ تع عجیب بات ہے فرشتوں نے کہا کہ خدا کے حکم پر تعجب کرتی ہے۔ اے اہل بیت تم پر خدا کی رحمت و برکت ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر طرح سے قابل حمد ہے اور بہت بزرگ ہے۔‘‘ (سورۃ ہود)
’’پس محسوس کیا (ابراہیم نے) ان سے خوف وہ (فرشتے) کہنے لگے خوف نہ کر اور بشارت دی اس کو ایک سمجھدار لڑکے کی، پس آئی بی بی (سارہ) ابراہیم کی سخت بے چینی کا اظہار کرتی ہوئی پھر پیٹ لیا اس نے اپنا منہ اور کہنے لگی بانجھ بڑھیا اور بچہ فرشتوں نے کہا تیرے پروردگار نے یہی کہا ہے، ایسا ہی ہو گا۔ وہ دانا حکمت والا ہے۔‘‘ (سورۃ الزریات)
’’ابراہیم نے کہا بیشک مجھ کو تم سے خوف معلوم ہوتا ہے۔ فرشتوں نے کہا ہم سے نہ ڈر بلاشبہ ہم تجھ کو ایک سمجھدار لڑکے کی بشارت دینے آئے ہیں، ابراہیم نے کہا کیا تم مجھ کو اس بڑھاپا آ جانے پر بھی بشارت دیتے ہو۔ یہ کیسی بشارت دے رہے ہو۔ فرشتوں نے کہا ہم تجھ کو حق بات کی بشارت دے رہے ہیں۔ پس ناامید ہونے والوں میں سے نہ ہو۔ ابراہیم نے کہا۔ اور نہیں ناامید ہوتے اپنے پروردگار کی رحمت سے مگر گمراہ۔‘‘ (الحجر)
حضرت ہاجرہؓ اور حضرت سارہؓ کے حالات میں بعض ایسے اہم نکات موجود ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ دونوں خواتین انسانی تاریخ میں قابل فخر اور اہم خواتین ہیں۔ جس پر دنیا جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔
درج ذیل میں اہم نکات بیان کئے جا رہے ہیں۔
۱۔ حضرت ہاجرہؓ حاکم مصر کی بیٹی تھیں مگر انہیں حضرت سارہؓ اور حضرت ابراہیمؑ کی خدمت میں دے دیا گیا تھا اس واقعہ میں جہاں حضرت سارہؓ اور حضرت ابراہیمؑ کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے وہاں حضرت ہاجرہؓ کی غیر معمولی شخصیت سامنے آتی ہے۔
۲۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ تھیں۔ نبی کی زوجہ ہونا خود ایک امتیاز اور فخر کی بات ہے اور وہ بھی ایسے نبی کی جو خلیل اللہ ہے۔
۳۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت اسمٰعیلؑ کی والدہ ہیں نبی کی والدہ ہونا بڑی عظمت کی بات ہے وہ بھی ایسے نبی کی والدہ، جن کے اوپر انبیاء کی طرز فکر کی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ ایسے نبی جو اپنی قربانی کی وجہ سے تاریخ کا اہم باب بن گئے ہیں۔
۴۔ حضرت ابراہیمؑ نے جس جگہ حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسمٰعیلؑ کو چھوڑا تھا۔ اس سرزمین کے چپہ چپہ اور گوشے گوشے میں نمکین پانی کے سوائے شیریں پانی کا نام و نشان نہیں ہے۔ موجودہ دور میں جدید آلات کی مدد کے باوجود شیریں پانی تلاش نہیں کیا جا سکا۔ حضرت ہاجرہؓ کی وجہ سے دنیا کو زمزم نصیب ہوا۔ چشمہ زمزم کی موجودگی حضرت ہاجرہؓ کی مرہون منت ہے۔
۵۔ حضرت ہاجرہؓ کا دو پہاڑیوں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا اللہ کو اتنا پسند آیا کہ رہتی دنیا تک اس کو یادگار بنا دیا۔
۶۔ زمزم کے ظاہر ہونے سے پہلے حضرت ہاجرہؓ اور فرشتے کے درمیان گفتگو ہوئی فرشتے کا تسلی دینا کہ اللہ تم کو ضائع نہ کرے گا۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ حضرت ہاجرہؓ اللہ کی پسندیدہ خاتون ہیں اور ایک بڑی روحانی شخصیت ہیں۔
۷۔ اس ویران مقام پر حضرت ہاجرہؓ کے قیام کی وجہ سے مکہ شہر آباد ہوا اور مکہ شہر میں بیت اللہ شریف بنا۔
۸۔ خانہ کعبہ کو بھی حضرت ہاجرہؓ سے ایک خاص نسبت حاصل ہے کہ ان کے شوہر اور بیٹے نے مل کر اسے تعمیر کیا۔
۹۔ حضرت ابراہیمؑ جب حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسمٰعیلؑ کو ویرانہ میں چھوڑ کر جانے لگے تو حضرت ہاجرہؓ نے بار بار پوچھا کہ ہمیں کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہو۔ اس وقت حضرت ابراہیمؑ نے کوئی جواب ہیں دیا۔ مگر جب حضرت ہاجرہؓ نے کہا کہ کیا ہمیں اللہ کے حکم سے چھوڑ کر جا رہے ہو۔ تب حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ نے جواب دیا۔ ’’ہاں اللہ کے حکم سے ایسا کر رہا ہوں‘‘ اس وقت جو اطمینان حضرت ہاجرہؓ کو حاصل ہوا وہ اللہ پر بھروسہ، کامل یقین اور اللہ کے ساتھ تعلق ظاہر کرتا ہے۔
۱۰۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ تھیں۔ رسول اللہﷺ کے محبوب نے اس بات پر فخر کیا کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں۔
۱۱۔ حضرت ابراہیمؑ سے حضرت سارہؓ نے حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسمعیلؑ کو دور چھوڑ کر آنے کو کہا۔ حضرت ابراہیمؑ نے ایسا کرنے میں پس و پیش سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت سارہؓ کی حمایت کی اور حضرت سارہؓ کی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی ہدایت کی۔ اس امر سے حضرت سارہؓ سے اللہ تعالیٰ کو جو تعلق خاص تھا وہ ظاہر ہوا۔
۱۲۔ حضرت سارہؓ کے بیٹے حضرت اسحاقؑ کی نسل میں ہزاروں انبیاء معبوث ہوئے یہ امتیاز صرف حضرت سارہؓ ہی کو حاصل ہوا۔
۱۳۔ حضرت سارہؓ کا فرشتوں کو دیکھنا، ملنا گفتگو کرنا، ان کی عظمت اور تقدس کی علامت ہے۔
۱۴۔ حضرت سارہؓ کے یہاں نوے(۹۰) سال کی عمر میں حضرت اسحاقؑ کی ولادت کی بشارت یہ اللہ کے خصوصی کرم کا ایک کھلا ثبوت ہے۔
۱۵۔ حضرت سارہؓ کی طرف حاکم مصر کا بری نیت سے ہاتھ بڑھانا اور ہاتھ کا مفلوج ہو جانا اور ایسا باربار ہونا یہ حضرت سارہؓ کی کرامت ہے۔
ان تمام وضاحتوں اور تفصیلات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خواتین صلاحیتوں میں کسی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کریں۔ اپنے روحانی تشخص کو روشن کریں۔ یقین کیجئے کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو حقوق سے آشنا کرنے میں کوتاہی، ہماری اپنی ہے۔ اللہ نے عورتوں کو بہت نوازا ہے۔ موجود علم و آگہی کے زمانے میں خواتین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ جب تک خواتین اللہ کے قانون کے تحت اپنی روحانی صلاحیتوں سے کام نہیں لیں گی معاشرہ نہیں سدھرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں سے محروم رہنا بلا شبہ ناشکری ہے۔
خواتین اپنی خداداد صلاحیتوں سے کام لے کر معاشرہ میں عورت کا مقام اونچا کر سکتی ہے۔ عورت اور مرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کے ہیں۔ سب کے اندر ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’میں تمہارے اندر ہوں تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں۔‘‘
’’میں مرد و عورت دونوں کی رگ و جان سے زیادہ قریب ہوں۔‘‘
اچھا عمل مرد کا ہو یا عورت کا دونوں کو جزا ملے گی۔
برا عمل مرد کا ہو یا عورت کا دونوں کو زا ملے گی۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا بخش دینے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ بلا تخصیص مرد و عورت کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ایک معروف صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے روحانی وماورائی علوم اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی لاکھوں مداح آپ کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔
کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے 14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔