Topics

مجلس

مرکزی مراقبہ ہا ل تقریباََ تین ہزار اسکوائر یارڈ پر ایک خطہ ہے۔اس خطہ میں روشیں ہیں،گلاب کے تختے ہیں،مخملیں گھاس ہے،کیاریاں ہیں جو پھولوں سے اٹی پڑی ہیں،اس خطے پر سایہ دار او ر پھل دار درخت ہیں۔ان درختوں پر صبح و شام چڑیاں چہچہاتی ہیں،پرندے اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں اور دھوپ نکلنے پر تتلیاں پھولوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتی ہیں۔یہاں ایسے بھی لوگ آتے ہیں جو دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی بے کیف ہوجاتے ہیں۔۔۔وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں ،اف اف ! ۔۔۔کتنا سناٹا ہے۔۔۔اور ایسے صاحب دل خواتین و حضرات بھی تشریف لاتے ہیں جو گہرا سانس لے کر بو ل اٹھتے ہیں۔۔۔سبحان اللہ۔۔۔یہاں کتنا سکون ہے۔۔۔اوردماغ صوت سرمدی کی تلاش میں گم ہوجاتے ہیں۔مرکزی مراقبہ ہال میں راتیں جاگتی ہیں۔شہروں میں بجلی کے قمقموں ،ٹیوب لائٹس کی روشنیوں سے رات میں دن کا سماں ہوتا ہے اورمراقبہ ہال تاریکی میں چھپی ہوئی روشنیوں سے منور ہوتا ہے۔یہ عجیب زمین ہے جہاں دن کی روشنی میں رات کی تاریکی کا انتظار رہتاہے۔جیسے ہی سورج تاریکی کی ردا میں منہ چھپا تا ہے مرکزی مراقبہ ہال کے احاطہ پر نورانی چادر محیط ہوجاتی ہے۔

عظیمی صاحب کے حلقہ ارادت میں تقریباََ ہر شعبہ کے لوگ شامل ہیں، انجینئرز،ڈاکٹرز ،ٹیچرز،پروفیسرز،صنعت کار،سوداگر ،اعلیٰ عہدوں پرفائز اور ماتحت سرکاری افسران۔۔۔سب لوگ ہی حاضر ہوتے ہیں۔

آپ کے کمرے کے سامنے ایک تخت بچھا ہواہے۔تخت کے اوپر ایک چٹائی اور دوتکئے یا بعض اوقات ایک گول تکیہ رکھا رہتا ہے۔مرکزی مراقبہ ہال میں عشاء کی نماز، اجتماعی ورد اور مراقبہ کے بعد عشائیہ سے فارغ ہوکر لوگ جب حاضر خدمت ہوتے ہیں تو گفتگو کا سلسلہ کبھی آپ شروع کرتے ہیں اور کبھی حاضرین میں سے کوئی ایک سوال کرتاہے،اس طرح سوال جواب کی یہ مجلس گھنٹوں جاری رہتی ہے۔یہ مجلس یک طرفہ نہیں ہوتی بلکہ سب ہی اس میں شریک ہوتے ہیں ۔ہر علم کے بارے میں سوال کرنے کی عام اجازت ہے لیکن روحانی ،تحقیقی اور سائنسی علوم کے بارے میں سوال کرنے کو پسند فرماتے ہیں اور سوال کا تسلی بخش جوا ب دینا آپ اپنا فرض جانتے ہیں۔آپ سوالات کے جوابات کے دوران اس کی خاص نوعیت کو نہیں بلکہ عمومی صورتوں کو پیش نظر رکھ کر مثالوں کے ذریعے سمجھاتے ہیں۔جس میں اکثر اوقات آپ نے قوانین قدرت سے متعلق بنیادی نکات کو عام فہم زبان میں بیان فرمایا ہے۔آپ اسرار کائنات کے شناسا اورحامل علم الٰہی ہیں اور آپ پر حقائق آئینہ کی طرح روشن ہیں مگر جب آپ عام انسانوں کی طرز میں گفتگوفرماتے ہیں تو اس سے مدعا ہماری روز مرہ کی زندگی کے ان پہلوؤں کی نشاندہی ہوتا ہے جنہیں ہم اپنے شب و روز کے مشاغل کا حصہ قرار دے سکتے ہیں۔

اکثر اوقات آپ خود ہی کوئی بات کرکے سننے والوں سے پوچھتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہوا، جواب پرکوئی نیا سوال اٹھاتے ہیں اور اس طرح مخاطب کو سوال کی حقیقت سے قریب تر لاتے ہیں۔اس طرح مخاطب کو حقیقت کے دروازے تک پہنچاکر راز حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔اس خاص طریقہ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ لوگ حقیقت بھی جانیں اور حقیقت تک پہنچنے کے لئے غور و فکر کیسے کیا جاتا ہے یہ بھی سمجھیں۔ آپ کی گفتگو آپ کے وسعت علم اور ماخذ پر گرفت کا اظہار ہوتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ آپ کی معجز بیانی کو احاطۂ تحریر میں لانا عام ذہن کے بس کی بات نہیں۔ ان صفحات میں عظیمی صاحب کے ارشادات کو مجلس کے عنوان سے پیش کیا جارہا ہے۔

یہ بات اب پردہ نہیں رہی کہ پانچ ہزار ایک سو دس دن رات کو اگر گھنٹوں سے ضرب دیا جائے اور بائیس ہزار چھ سو چالیس گھنٹوں کو منٹ سے ضرب کیا جائے اور ہر منٹ پر ایک بات چیلے نے گرو سے سنی ہو تو بہتر لاکھ اٹھاون ہزار چار سو (۴۰۰،۵۸،۷۲) باتیں مرشد سے مرید کو منتقل ہوئیں ہیں۔ یہ سب باتیں اس وقت علم بن جاتی ہیں جب گرو چیلے کی دماغ کی اسکرین کو واش کردے۔ ایسی کچھ باتیں میں آپ کو ضرور سنانا چاہتا ہوں جو اسفل میں گرے ہوئے انسانوں کو ’’احسن تقویم‘‘ بنادیتی ہے۔

مرشد نے فرمایا،جو کھوتا ہے وہ پاتا ہے اور جو پالیتا ہے وہ خود کھو جاتا ہے۔ازل سے زمین تک آنے میں اور زمین سے ازل تک پہنچنے میں ہر انسان کو تقریباً سترہ مقامات سے گزرنا پڑتا ہے۔ آبادی زمین کے اندر نہیں زمین کے اوپر ہے۔زمین دس ہزار سال کے بعد اپنی پوزیشن تبدیل کردیتی ہے،جہاں پانی ہے وہاں آبادیاں اور جہاں آبادیاں ہیں وہ جگہیں زیر آب آجاتی ہیں۔

کسی کو بنانے کے لئے اپنا سب کچھ کھونا پڑتا ہے۔سخاوت اعلیٰ ظرف لوگوں کا شیوہ ہے، دسترخوان وسیع ہونا چاہیے۔ ماں کی خدمت انسان کو حضرت اویس قرنی بنادیتی ہے۔ بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے، استاد تراش تراش کر اسے ہیرا بنادیتا ہے۔ ہر انسان کے اندر کم و بیش گیارہ ہزار صلاحتیں ایسی ہیں کہ جن میں ہر ایک صلاحیت پورا علم ہے۔

انسان کو کبھی یہ کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ خود کو دوسروں سے بر تر ثابت کرے، کسی کو اپنے سے کم تر نہیں سمجھنا چاہئے۔ انسان جب دوسروں میں برائی دیکھے تو ان کی برائی پر غور کرنے کے بجائے خود اپنی برائی پر نظر ڈالنی چاہئے۔ انسان کو دوسروں پر وہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے جس کو وہ خود نہ اٹھا سکے۔کاہلی بھی ایک قسم کی شیطنت ہے۔ ضد تمام تکلیفوں کی بنیاد ہے اور ضد پیدا ہوتی ہے کبر سے۔

انسان کو کسی کا کام کرکے یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ میں نے دوسروں پر کوئی احسان کیا ہے۔ اپنی بھلائی اور دوسروں کی برائی بھلادینا ضروری ہے،اپنی برائی اور دوسروں کے بھلائی یاد رکھنا ضروری ہے ۔ انسان اپنی جس نیکی کو یاد رکھتا ہے وہ نیکی بدی بن جاتی ہے۔

انسان کو ہر حال میں خوش رہنا چاہئے۔ تکلیف میں صبر و ضبط سے کام لے تکلیف کی شکایت یا تذکرہ صبر، ضبط کے خلاف ہے۔ افسردگی اور مایوسی بہت بڑا گناہ ہے۔ انسان کو زندگی بہت ہوشیار رہ کر گزارنی چاہئے۔ یہ دنیا آنکھیں بند کرکے چلنے کی جگہ نہیں ہے۔ اگر انسان تلاش کرے تو غموں کے برداشت کرنے میں کوئی خوشی کا پہلو نکل ہی آتا ہے۔ خوشی ایک جذبہ ہے جس سے انسان اپنا اثر دوسروں پر ڈال سکتا ہے۔ ایک رنجیدہ انسان دوسروں کا اثر قبول کرتا ہے۔

صدر الصدور حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں،میرے بچے عظیمی خوش گفتار، خوش اخلاق، خوش الحان اور خوش باطن ہیں۔ عظیمی بچہ کبھی ایک نہیں ہوتا، جہاں وہ ایک ہوتا ہے وہاں دوسرا اﷲ ہوتا ہے، جہاں دو عظیمی ہوتے ہیں وہاں تیسرا اﷲہوتا ہے۔ عظیمی ایک اور ایک دو نہیں ہوتے، ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔حضور قلندر بابا اولیاء منادی کرتے ہیں، رب راضی۔ سب راضی

پاکیزگی،خلوص، ایثار، روحانی شعور کی علامت ہے۔ روحانی زندگی گزارنے والا شخص بے حد حساس ہو جاتا ہے۔ جب زندگی کے نشیب و فراز اس کے لئے اضطراب بن جاتے ہیں تو وہ اپنے معاملات اورمشاغل کومنظم کر لیتا ہے۔ زندگی کا دھارا اس طرح سے بہنے لگتا ہے کہ وہ روحانیت کے خلاف کچھ برداشت نہیں کرتا۔ اخلاقی احساس کے ساتھ اس کے اندر ایثار کا جذبہ نمایاں ہوجاتا ہے اور جو عمل انسان کو خدا سے دور کر دیتاہو اور جو عمل ایثار اور ضمیر کی آواز کے خلاف ہووہ اس کے قریب نہیں جاتا لیکن یہ سب بتدریج ہوتا ہے۔روحانی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے انسان جن اعمال سے گزر چکا ہوتا ہے ان میں بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ اسے سکون قلب نہیں ملتا۔ مذہبی معاملات، عبادت و ریاضت میں انہماک بھی اسے سکون قلب سے آشنا نہیں کرتے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مذہب کیا ہے، مذہب کو سمجھنے کے لیے جب آسمانی کتابوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ان کتابوں میں سات اہم عناصر کا سراغ ملتاہے۔

قربانی

کسی نہ کسی قسم کی قربانی کا تصور مذہب کا ایک دائمی عنصر ہے۔ ہر مذہب میں ذاتی ایثار، جسمانی مشقت اور اسفل نفس کشی کو لازمی بتایا گیا ہے۔

اعتراف گناہ

مذہب کا دوسرا اہم عنصر اعتراف گناہ ہے۔ مذہبی نقطۂ سے ضروری ہے کہ عبد اپنے معبود کے سامنے توبہ کرے، بخشش کا طالب ہو اور گناہوں کا کھلے دل سے اعتراف کرے۔

دعا

مذہب کا تیسرا عنصر دعا ہے۔ دعا کے حقیقی ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ جو نتائج کسی طریقہ سے پیدا نہیں ہو سکتے وہ دعا سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ دعا کرنے والے بندہ پر ’’فطرت‘‘اپنے دروازے کھول دیتی ہے۔

تاریخی حقائق

مذہبی کتابوں کی روشنی میں تاریخی حقائق یہ ہیں کہ زمین ایک سٹیج ہے جس پر ڈرامہ کے لئے نئے نئے کردار آتے ہیں اور اپنا کردار پیش کر کے پردہ کے پیچھے گم ہو جاتے ہیں۔ کائناتی کہانی یا کائناتی ڈرامہ ایک ہے، کردار مختلف ہیں اور یہ کردار اپنے مخصوص انداز میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن ڈرامہ کے پلاٹ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

قوموں کا عروج و زوال

ہزاروں سال کی تاریخ دراصل اس راز کی پردہ کشائی ہے کہ قومیں ترقی کے خوشنما دعوؤں میں اور نئی نئی ایجادات کے پردۂ زنگاری میں خود کو تباہ و برباد کرتی رہتی ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کے مشاہدات یہ ہیں کہ جو قوم سب سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دے وہ ترقی یافتہ ہے اور جب اس کی ترقی کا فسوں ٹوٹتا ہے تو زمین آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتی ہے۔

پیدا ہونے سے پہلے اور مرنے کے بعد کے عالمین

ایک نیوٹرل آدمی ذہنی طور پر اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے کہ انسان پیدائش سے پہلے کہاں تھا اور مرنے کے بعد کہاں چلا جاتا ہے، جو پیدا ہوتا ہے با لآخر وہ اس دنیا کو اور دنیا میں جمع کئے ہوئے تمام وسائل چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

ایک ماوریٰ ہستی اور اس کا تعارف

تجر باتی دنیا یہ ہے کہ انسان کہیں سے آتا ہے یعنی وہ پہلے کہیں پر موجود تھا۔ جب وہاں کی موجودگی ختم ہوئی تو اس دنیا میں پیدا یعنی اس دنیا میں آنے سے پہلے اس پر موت وارد ہوئی پھر پیدا ہوا۔ اور اسی طرح دنیا سے جانے کے بعد دوسری دنیا میں پیدا ہوا۔ اس کا منطقی استدلال یہ ہوا کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی ہم کہیں پیدا ہوئے تھے ۔ وہاں مرے تو یہاں پیدا ہوئے اور یہاں سے مرے تو موت کے بعد دوسرے عالم میں پیدا ہوئے۔ اس کو اس طرح سے بھی کہا جاتا ہے، موت زندگی میں داخل ہو گئی اور زندگی موت میں داخل ہو گئی۔ زندگی سے موت کا پیدا ہونا اور موت کا زندگی سے پیدا ہونا، زندگی کا موت میں داخل ہو جانا یا موت کا زندگی میں داخل ہو جانے کا پروسیس یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہے جو اس پروسیس کو قائم رکھے ہوئے ہے اور بغیر تبدیلی اور تعطل کے جاری رکھے ہوئے ہے۔

وہ لوگ جو قول و فعل ، عقیدہ اور عمل کے درمیان ذرا سا بھی تفاوت اور خلجان قبول نہیں کرتے وہ تفکر کا ایسا راستہ اختیار کر لیتے ہیں جس پر خدا کا عطا کردہ نور ہدایت ان پر واضح کر دیتا ہے کہ اگر بندہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا اور اخلاقی گندگی سے اس کا دامن پاک ہوتا ہے تو خداخود بندہ سے ہم کلام ہو جاتا ہے، اور بندہ خدائی مملکت میں ایک فعال کارکن بن کر خدا کے تفویض کردہ اختیارات کو استعمال کرتا ہے۔کائنات میں خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ زمان و مکان اس کے لیے مسخر ہو جاتے ہیں۔طرز فکر کے بارے میں یہ بات واضح طور پر سامنے آچکی ہے کہ زندگی کا ہر عمل اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے۔ اس حیثیت میں معنی پہنانا دراصل طرز فکر میں تبدیلی ہے۔

ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہرچیز جس کا وجود اس دنیا میں ہے یا آئندہ ہو گا وہ لوح محفوظ پر لکھی ہوئی ہے یعنی قانون یہ ہے کہ جو چیز لوح محفوظ پر نقش ہو گئی اس کا مظاہرہ لازم بن جاتا ہے۔ راسخ فی العلم لوگ اس بات کا مشاہدہ کر لیتے ہیں کہ ہر مظہر کا تعلق، ہر وجود کا تعلق، ہر عمل کا تعلق، ہر حرکت کا تعلق لوح محفوظ سے ہے۔ اس لئے وہ برملا اس کااعلان کرتے ہیں کہ ہرچیز اللہ کی طرف سے ہے۔راسخ فی علم لوگ چونکہ لوح محفوظ کے نقوش کامشاہدہ کر لیتے ہیں اس لئے وہ کسی تکلیف کو یا کسی بے آرامی کو عارضی تکلیف یا عارضی کمی سمجھتے ہیں اور مشاہدے کے بعد ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں مخصوص کر دی ہیں وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین ان کے اندر استغناء پیدا کر دیتا ہے۔ استغنا ء بغیر یقین کے پیدا نہیں ہوتا اور یقین بغیر مشاہدے کے تکمیل نہیں پاتا اور جس آدمی کے اندر استغنا ء نہیں ہے اس آدمی کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کم اور مادیت سے زیادہ رہتا ہے۔

تصوف یا روحانیت دراصل ایسے اسباق کی دستاویز ہے جن اسباق میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ سکون کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر استغناء ہو ۔ استغناء کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے اوپر توکل ہو۔ توکل کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر ایمان ہو اور ایمان کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر وہ نظر کام کر رہی ہو جونظر غیب میں دیکھتی ہے، بصورت دیگر کسی بندے کو کبھی سکون میسر نہیں آ سکتا۔سکون ہرگز کوئی عارضی چیز نہیں ہے۔ سکون ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور جس کے اوپر کبھی موت وارد نہیں ہوتی۔ ایسی چیزوں سے جو چیزیں عارضی ہیں، فانی ہیں اور جن کے اوپر ہماری ظاہرہ آنکھوں کے سامنے بھی موت وارد ہوتی رہتی ہے، ان سے ہرگز سکون حاصل نہیں ہو سکتا۔

حضرت عمر کی خدمت میں جب کہ وہ دربار خلافت میں تشریف فرما تھے، ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی اورعرض کیا،امیر المومنین! میرا بیٹا گڑ زیادہ کھاتا ہے۔ گھر میں گڑ نہیں ہوتا تو ضد کرتا ہے اور مجھے بہت زیادہ پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔امیرالمومنین حضرت عمر نے چند ساعت غور فرمایا اور کہا، اپنے بیٹے کو ایک ہفتہ کے بعد لے کر آنا۔خاتون ایک ہفتہ کے بعد پھر آئی۔ حضرت عمر نے بچے کو مخاطب کر کے فرمایا، بیٹے! گڑ کم کھایا کرو اور ضد نہ کیا کرو، تمہارے اس عمل سے تمہاری ماں بہت پریشان ہوتی ہے اور بچے کی ماں سے کہا، اس کو گھر لے جاؤ، اب یہ پریشان نہیں کرے گا۔

حاضرین مجلس نے عرض کیا، امیر المومنین!اتنی سی بات کہنے کے لئے آپ نے اس عورت کو ایک ہفتہ انتظار کی زحمت دی، یہ بات آپ پہلے روز بھی فرما سکتے تھے۔ حضرت عمر نے ارشاد فرمایا، میں خود گڑ زیادہ کھاتا تھا، میں نے گڑ کھانا کم سے کم کر دیا اور ایک ہفتہ تک اس ترک پر عمل کر کے اس عادت کو پختہ کر لیا، پہلے ہی روز اگر میں بچے سے یہ کہتا کہ تم گڑ کم کھایا کرو تو اس کے اوپر میری نصیحت کا اثر نہ ہوتا۔ اب اس کے اوپر اثر ہو گا اور وہ عمل کرے گا۔بے یقینی ، درماندگی، پریشانی اور عدم تحفظ کے اس دور میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص اپنے چھوٹو ں اور احباب کو برائی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا تو ہمارے سامنے یہ بات آجاتی ہے کہ نصیحت کا اثر اس لئے نہیں ہوتا کہ ہم خود بے عمل ہیں۔ ہر طرف یہ شور و غوغا برپا ہے کہ موجودہ نسل اسلام سے دور ہو گئی ہے۔اسلاف کی پیروی نہیں کرتی۔ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ موجودہ نسل کے اسلاف میں ہمارا بھی شمار ہے۔

جہاں آپ دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ۔وہاں اپنے دوستوں کوبھی یہ موقع دیجئے کہ وہ آپ کے اندر اٹھتے ہوئے تعفن اور کثافت کو آپ کے اوپر نمایاں کریں۔ اور جب وہ یہ تلخ فریضہ ادا کریں تو انتہائی اعلیٰ ظرفی، خوش دلی، اور احسان مندی سے ان کی تنقید کا استقبال کیجئے اور ان کے اخلاص وکرم کا شکریہ ادا کیجئے ۔

روحانی قانون کے تحت ہر آدمی ایک آئینہ ہے۔ آئینہ کی شان یہ ہے کہ جب آدمی آئینہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو آئینہ تمام داغ دھبے اپنے اندر جذب کر کے نظر کے سامنے لے آتا ہے اور جب آدمی آئینہ کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے تو آئینہ اپنے اند جذب کئے ہوئے یہ دھبے یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔

جس طرح آئینہ فراخ حوصلہ ہے آپ بھی اسی طرح اپنے دوست کے عیوب اس وقت واضح کریں جب وہ آپ کو فراخ دلی سے تنقید و احتساب کا موقع دے۔ نصیحت کرنے میں ہمیشہ نرمی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیجئے۔ اگر آپ یہ محسوس کر لیں کہ اس کا ذہن تنقیدبرداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اپنی بات کو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھیں۔ اس کی غیر موجودگی میں آپ کی زبان پر کوئی ایسا لفظ نہ آئے جس سے اس کے عیب کی طرف اشارہ ہوتا ہو۔ اس لئے کہ یہ غیبت ہے اور غیبت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔

دوست کی تمام زندگی میں جو عیوب آپ کے سامنے آئیں صرف ان کی نشاندہی کیجئے۔پوشیدہ عیبوں کے تجسس اور ٹوہ میں نہ لگئے۔ پوشیدہ عیبوں کو کریدنا بد ترین، تباہ کن اور اخلاق سوز عیب ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار منبر پر چڑھے اور بلند آواز میں حاضرین مجلس کو تنبیہ فرمائی،

مسلمانوں کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں کے پوشیدہ عیوب کے درپے ہوتا ہے تو پھر خدا اس کے چھپے ہوئے عیوب کو طشت ازبام کر دیتا ہے اور جس کے عیب افشا کرنے پر خدا متوجہ ہو جائے تو اس کو رسوا کر کے ہی چھوڑتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اند گھس کر ہی بیٹھ جائے۔

عیدالفطر ایک اعلیٰ وارفع پروگرام کی کامیابی کی خوشی منانے کا دن ہے۔ رب کریم کا کرم ہے کہ اس نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ماہ شوال کی پہلی تاریخ کو دنیا و آخرت کی لازوال اور بے کراں مسرتوں اور نعمتوں سے ہمکنار فرمایا۔ جب کہ اسی مہینہ میں سابقہ امتوں کی نافرمانیوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیاگیا تھا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ ماہ شوال کی پہلی تاریخ بروز شنبہ قوم نوح غرقاب ہوئی۔جس دن قوم لوط پر عذاب نازل ہوا، اس روز شوال کی پہلی تاریخ تھی۔ فرعون اپنے لشکر سمیت سہ شنبہ کودریا میں غرق ہوااس روز بھی شوال کی پہلی تاریخ تھی۔قوم عاد چہار شنبہ کو ہلاک ہوئی اور جب قوم صالح پر پنجشبہ کو عذاب نازل ہواتو یہ مہینہ بھی شوال کا تھا۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نظام تکوین میں ممثل کے درجہ پر فائز ہیں اور نظامت کے امور میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وزیر حضوری ہیں۔ رجال الغیب اور تکوینی امور پر فائز تمام حضرات کا بڑے پیر صاحب سے بحیثیت وزیر حضوری ہر وقت کا واسطہ رہتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار میں بڑے پیر صاحب کا مقام ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے آج تک ان کی کوئی درخواست نامنظور نہیں فرمائی۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے پیر صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے مزاج شناس ہیں کہ وہ ایسی کوئی بات کرتے ہی نہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت اور مزاج کے خلاف ہو۔

یہی صورت حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے ۔آپ ﷺ کی کوئی درخواست اللہ تعالیٰ نامنظور نہیں فرماتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ا للہ کے مزاج اور ان کی مشئت سے اتنے واقف ہیں کہ ایسی کوئی بات اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہی نہیں کرتے جو اللہ کی مشئت کے خلاف ہو۔

دنیا میں افراتفری کا ایک عالم برپا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی الجھن میں گرفتار ہے، ذہنی سکون ختم ہو گیا ہے، عدم تحفظ کے احساس سے حزن و ملال کے سائے گہرے اور دبیز ہو گئے ہیں۔ اخبارات میں آئے دن حادثات اور انسانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہونے کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں، اس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ ہم آفات ارضی و سماوی کی یلغار کی زدمیں ہیں۔ فرمان خداوندی کے بمو جب انسانی معاشرہ میں آباد لوگوں کے جرائم اور خطا کاریاں، ارضی و سماوی آفات اور ہلاکتوں کو دعوت دیتی ہے۔جب کوئی قوم قانون خداوندی سے انحراف وگریز کرتی ہے اور خیر و شر کی تفریق کو نظر انداز کر کے قانون شکنی کا ارتکاب کرنے لگتی ہے تو افراد کے یقین کی قوتوں میں اضمحلال شروع ہو جاتا ہے۔ آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یقین کی قوت بالکل معدوم ہو جاتی ہے اور عقائد میں شک اور وسواس در آتے ہیں۔

تشکیک اور بے یقینی کی بنا پر قوم توہمات میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ توہماتی قوتوں کے غلبے سے انسان کے اندر طرح طرح کے اندیشے اور وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ حرص و ہوس پر منتج ہوتا ہے۔ یہ حرص اورہوس انسان کو اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں بے یقینی اور توہماتی قوتیں مکمل طور پر اس کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان زندگی کی حقیقی مسرتوں سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کی حیات کا محور اللہ تعالی کی بجائے ظاہری اور مادی وسائل بن جاتے ہیں۔ اور جب کسی قوم کا انحصار دروبست مادی وسائل پر ہو جاتا ہے تو آفات ارضی و سماوی کا لامتناہی سلسلہ عمل میں آنے لگتا ہے اور بالآخر ایسی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ شک اور بے یقینی کو دماغ میں جگہ دینے سے منع فرماتے ہیں۔ یہ وہ شک اور وسوسہ ہے جس سے آدم علیہ السلام کو باز رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ بالآخر شیطان نے بہکا کر آدم علیہ السلام کو شک اور بے یقینی میں گرفتار بلا کر دیا۔ جس کے سبب آدم کو جنت کی نعمتوں سے محروم ہونا پڑا۔

حضرت عبد اللہ حنیف کے دو مرید تھے۔ ایک کو احمد کہہ اور دوسرے کو احمد مہہ کہہ کر پکارتے تھے اور احمد کہہ کے حال پر زیادہ شفقت تھی۔ دوسرے مرید ان سے حسد کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ نے نور فراست سے ان کے دلوں میں بھرے ہوئے غبار کو دیکھ لیا۔ ایک دن اپنے سب مریدوں کو جمع کر کے اپنے سامنے بٹھا لیا۔ پہلے احمد مہہ(جوبڑا تھا) سے کہا کہ خانقاہ کے دروازے پر اونٹ بیٹھا ہوا ہے، اس کو مکان کی چھت پر پہنچادے ۔ اس نے کہا، حضرت!اونٹ جیسا قوی الجثہ جانور مکان کی چھت پر کیسے جا سکتا ہے۔

یہ بات تو ناممکن ہے۔ آپ نے فرمایا، اچھا بیٹھ جاؤ۔ اتنے میں احمدکہہ آ گیا۔ اس سے بھی حضرت نے یہی بات فرمائی کہ اونٹ کو چھت پر پہنچا دے۔ احمد کہہ آستین چڑھا کر تعمیل حکم میں لگ گیا۔ ہر چند کوشش کی کہ اونٹ کو گود میں اٹھا کر چھت پر لے جائے مگر وہ کسی طرح سے اٹھا نہیں سکا۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ بس اب بیٹھ جاؤ۔

پھر سب کو مخاطب کے کے فرمایا کہ آپ سب صاحبان نے دیکھ لیا کہ احمد کہہ کے اوپر میں کس لئے زیادہ شفقت کرتا ہوں۔ اس نے میرے حکم کے امکان یا ممکن ہونے پر غور ہی نہیں کیا اور نہ بحث کر کے باتوں میں وقت ضائع کیا مگر بڑے احمد نے ایسا نہیں کیا۔ آپ سب ایسی بات سے اپنے اپنے باطن کا حال سمجھ لیں،بارگاہ الٰہی میں تعمیل حکم کی قدر کی جاتی ہے۔ عبادت و ریاضت یا کج بحثی کی اللہ تعالیٰ کو ضرورت نہیں ہے اور یاد رکھوکہ تعمیل حکم ہی اصل عبادت ہے۔

حضرت منصورحلاج عاشق الٰہی تھے، ہر وقت سوزوفراق میں مست و بے قرار رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ جنید بغدادی کی مجلس میں تشریف لائے اور حضرت جنید سے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔مگر حضرت جنید نے کوئی جواب نہیں دیا اور فرمایا، منصور! تم بہت جلد قتل کر دئیے جاؤ گے۔ حضرت منصور حلاج نے کہا، میں اس دن قتل کیا جاؤں گا جس دن آپ اپنی مسند سے اتر کر اہل ظاہر کا لباس پہن لیں گے۔ چنانچہ’’انا الحق‘‘ کہنے پر جب آپ کو گرفتار کیا گیا اور علمائے ظاہر سے فتویٰ طلب کیا گیا تو سب نے آپ کو قتل کرنے کا فتویٰ دے دیا لیکن حضرت جنید نے فتویٰ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ خلیفہ وقت نے اسی بات پر اصرار کیا کہ آپ کو ہر حال میں فتویٰ پردستخط کرنا ہوں گے۔

حضرت جنید نے خانقاہ کی سکونت ترک کر کے علمائے حق(صوفیوں) کا لباس اتار دیا اور مدرسہ میں جا کر علمائے ظاہر کا لباس پہن لیا اور فتویٰ پر لکھ دیا کہ ہم لوگ ظاہر پر حکم کرتے ہیں۔حضرت منصورحلاج فرماتے ہیں کہ فقر کے معنی یہ ہیں کہ فقیر ماسویٰ اللہ سے بے نیاز ہو جائے اور مخلوق سے قطعاً کوئی توقع نہ رکھے۔

ایک مرتبہ لوگوں نے سوال کیا ، حضرت ! دعا افضل ہے یا عبادت۔ فرمایا، ان دونوں کا کوئی مقام نہیں ہے ،عبادت اور دعا کا ہاتھ دامن مراد سے آگے نہیں بڑھتا اور یہ سلوک کی راہ میں سفر کرنے والے کے لئے شرک ہے۔ اللہ تعالی کو اس لئے یاد کرنا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور مقصد ہو سلوک کے مذہب میں کفر ہے۔

آدمی کے اندر دو دماغ کام کرتے ہیں ، ایک دماغ ظاہرہ حواس بناتا ہے اور دوسرا دماغ ظاہرہ حواس کے پس پردہ کام کرنے والی اس ایجنسی کی تحریکات کو منظر عام پر لاتا ہے جو ظاہرہ حواس کے الٹ ہے۔جن حواس کے ذریعہ سے ہم کشش ثقل میں مقید چیزوں کو دیکھتے ہیں اس کا نام شعور ہے اور جن حواس میں ہم کشش ثقل سے آزادہو جاتے ہیں اس کا نام لاشعور ہے۔ شعوراور لاشعور دو لہروں پر قیام پذیر ہیں۔ شعوری حواس میں کام کرنے والی لہریں مثلث ہوتی ہیں اور لاشعوری حواس میں کام کرنے والی لہریں دائرہ ہوتی ہیں۔

سائنس دان یہ سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ زمین اور زمین کے اوپر موجود ہر شے دراصل لہروں کا مجموعہ ہے۔ زمین کی حرکت دو رخ پر قائم ہے۔ ایک رخ کا نام طولانی حرکت ہے اور دوسرے رخ کا نام محوری حرکت ہے۔

زمین جب اپنے مدار پر سفر کرتی ہے تو طولانی گردش میں ترچھی ہو کر چلتی ہے اور محوری گردش میں لٹو کی طرح گھومتی ہے۔ طولانی گردش مثلث اور محوری گردش دائرہ ہے۔ طولانی گردش مشرق اور مغرب کی سمت سفر کرتی ہے اور محوری گردش شمال سے جنوب کی طرف رواں دواں ہے۔ہماری زمین پر تین مخلوق آباد ہیں۔

۱۔ انسان

۲۔ جنات

۳۔ ملائکہ عنصری

انسان کی تخلیق میں بحیثیت گوشت پوست، مثلث غالب ہے۔ اس کے برعکس جنات میں دائرہ غالب ہے اور فرشتوں کی تخلیق میں جنات کے مقابلے میں دائرہ زیادہ غالب ہے۔انسان کے دو رخ ہیں۔ غالب رخ مثلث اور مغلوب رخ دائرہ۔ جب کسی بندہ پر مثلث کا غلبہ کم ہو جاتا ہے اور دائرہ غالب آجاتا ہے تو وہ جنات، فرشتوں اور دوسرے سیاروں میں آباد مخلوق سے متعارف ہو جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ متعارف ہو جاتا ہے بلکہ ان سے گفتگو بھی کر سکتا ہے۔

ماورائی علوم حاصل کرنے کے لئے شمال کی سمت اس لئے متعین کی جاتی ہے کہ شمال میں سفر کرنیوالی تخلیقی لہروں کا وزن صاحب مشق کے شعور پر کم سے کم پڑے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی دریا میں اپنے ارادہ سے اترتا ہے تو اس کے حواس معطل نہیں ہوتے لیکن اگر کسی آدمی کو بے خبری میں دریا میں دھکا دے دیا جائے تو اس کے حواس غیر متوزن ہو سکتے ہیں۔ خود اختیاری عمل سے انسان بڑی سے بڑی افتاد کا ہنستے کھیلتے مقابلہ کر لیتا ہے جبکہ ناگہانی طور پر کسی افتاد سے وہ پریشان ہو جاتا ہے۔

آدمی متعفن اور سڑئی ہوئی غذائیں کھانے کے بعد بیماریوں ، پریشانیوں اور بے چینیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کیا سیاہ کارانہ زندگی میں رہتے ہوئے ارادوں میں کامیابی ممکن ہے۔ ایسی کامیابی جس کو حقیقی کامیابی اور مستقل کامیابی کہا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ برے کام کا برا نتیجہ مرتب ہوتا ہے اور اچھے کام کا نتیجہ اچھائی میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس اصول کو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسانی فلاح خیر میں ہے اور شر کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

دنیا میں ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ ظالم کو دیر سویراس کے ظلم کا بدلہ نہ ملا ہو۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بدمعاش اور بدکار آدمی کوزندگی میں سکون قلب کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔ مکافات عمل کا قانون یہ ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک رنگ وبو کی اس دنیا سے رشتہ منقطع نہیں کر سکتا جب تک وہ مکافات عمل کا کفارہ ادا نہیں کر دیتا۔ کیا کوئی بندہ یہ کہہ سکتاہے کہ خیانت اور بد دیانتی سے اس کی مسرت میں اضافہ ہوا ہے۔یہی قانون اجتماعی زندگی کا ہے۔ اجتماعی طور پر اگر کوئی معاشرہ سیاہ کارانہ زندگی میں مبتلا ہو جائے تو اس کا نتیجہ بھی اجتماعی تباہی مرتب ہوتا ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ مسلمان من حیث القوم ادبارزدہ زندگی گذار رہا ہے۔ اس کی حکومت ایک عالم کو محیط تھی۔ آج یہ ان لوگوں کا محتاج کرم ہے جو قومیں اس کی کفالت میں زندگی گذارتی تھیں۔

آسمانی صحائف اور تمام اللہ کے فرستادہ پیغمبروں نے نوع انسانی کو یہی پیغام دیا ہے کہ راست بازی، دیانت اور حقیت پسندی انسانی زندگی کی معراج ہے ۔ جب کسی قوم کو یہ معراج حاصل ہو جاتی ہے تو اس کو سکون قلب مل جاتا ہے۔

سکون قلب ایک ایسی کیفیت ہے جس کی موجودگی میں انسان کے اندر سوئے ہوئے دو کھرب خلئے بیدار ہو جاتے ہیں اور وہ قوم جس کے اندر سوئے ہوئے خلئے جس مناسبت سے بیدار ہوتے ہیں اسی مناسبت سے اس کے اندرنت نئی ایجادات کی صلاحیتیں کام کرنے لگتی ہیں۔یہ صلاحیتیں کیا ہیں، یہ صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ ایسی صفات جن کے اندر یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ انسان زمین اور آسمان اور پوری کائنات کا حاکم ہے ۔ اللہ کا قانون سچا ہے ، برحق ہے ۔ جو قومیں اللہ تعا لیٰ کی دی ہوئی صفات یعنی انسانی صلاحیتیں اپنے اندر بیدار کر لیتی ہیں وہ زمین پر حکمرانی کرتی ہیں اور جو قوم ان صلاحیتوں سے کام نہیں لیتی وہ محکوم اور غلام بن جاتی ہے۔

ایک مرتبہ محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظا م الدین اولیاء کی محفل میں حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کا تذکرہ چل نکلا تو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے لوگوں کو بتایا، ایک روز حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کے محل پر ایک بارعب اور روشن چہرہ شخص حاضر ہوا اور ایک لفافہ حضرت شیخ الاسلام کے بڑے صاحبزادے شیخ صدر الدین عارف کو دے کر کہا کہ اپنے والد بزرگوار کو دے دیں ۔انہوں نے اپنے والد بزرگوار کو وہ لفافہ دیا۔حضرت شیخ نے لفافہ کھول کر خط پڑھا اور تکیئ کے نیچے رکھ کر فرمایا،ان صاحب سے کہو کہ آدھے گھنٹے کے بعد تشریف لائیں۔

پھر یہ کہہ کر حضرت شیخ الاسلام نے اپنے تمام اہل خانہ سے خلاف معمول ملاقات کی ،روحانی مشن کے حوالے سے ضروری امور نمٹائے۔مال دولت اور اثاثوں کے حوالے سے وصیتیں اور نامزدگیاں تحریر کروائیں۔

ان تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر اللہ سے لو لگائی اور پھر حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کی روح عالم ناسوت سے پرواز کرگئی اور ایک غیبی آواز بلند ہوئی،دوست بدوست رسید ۔یہ آواز سن کر شیخ صدر الدین حجرے میں گئے تو دیکھا کہ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی وصال بحق ہوچکے ہیں۔آپ کے وصال کی خبر دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف پھیل گئی۔ہزاروں لوگ اشکبار آنکھوں سے آپ کی خانقاہ کے قریب جمع ہوگئے۔شیخ صدر الدین نے آپ کی نماز جنازہ کی امامت کی اور حضرت شیخ الاسلام کوآپ کی خانقاہ میں ہی سپرد خاک کردیا گیا۔

تدفین کے بعد حضرت صدر الدین کو اس روشن چہرہ قاصد اور اس کے دیئے ہوئے لفافے کا خیال آیا کہ آخر وہ کون تھا اور کیا پیغام لایا تھا۔لفافہ کی تلاش شروع ہوئی،لفافہ ملا تو اس میں ایک پرچے پر تحریر تھا،بڑی سرکار سے آپ کا بلاوا آیا ہے،میں حاضر ہوں میرے لئے کیا حکم ہے۔عزرائیل ملک الموت

آدمی ،آدمی کی دوا ہے۔آدمی آدمی کا دوست ہے۔محبت اور دوستی کو پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے دوستوں کے معاملات میں دلچسپی لیں،ان کے کام آئیں اور مالی اعانت کی استطاعت نہ ہو تو ان کے لئے وقت کا ایثار کریں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے معاملات میں صحابہ کرام سے مشورہ لیا کرتے تھے اور یہ بات پسند فرماتے تھے کہ لوگ باہمی معاملات مشورے کے بعد سرانجام دیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اس کو لازم ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے اس کام میں مشورہ کرلے،اس صورت میں اس کو صحیح راستہ دکھادے گا۔

ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے لوگو! عقل مندوں سے رائے لیا کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ اور ان کی نافرمانی نہ کیا کرو کیونکہ اس صورت میں تم کو ندامت اٹھانی ہوگی۔کسی معاملے میں مشورہ کرلینا آدمی کو کئی ممکنہ پریشانیوں سے بچالیتا ہے ۔جب کسی مسئلے پر کئی ذہن غور کرتے ہیں تو تجربہ یہ ہے کہ اس کا نتیجہ زیادہ بہتر صورت میں سامنے آتا ہے۔کسی معاملہ کی انجا م دہی میں سمجھدار لوگوں سے مشورہ ضرور کیجئے۔مشورے کے لئے سنجیدہ اور صاحب الرائے لوگوں سے رجوع کیجئے۔مشورہ لیتے وقت یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا یہ شخص اس شعبے تعلق رکھتا بھی یا نہیں۔آپ کو مکان کی تعمیر کرنی ہے تو ایسے لوگوں کا مشورہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے جو تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کی معلومات اس بارے میں وسیع ہوں۔کمپیوٹر کا کوئی مسئلہ ہو تو اسے کوئی بڑھئی حل نہیں کرسکتا۔

کوئی شخص آپ سے مشورہ طلب کرلے تو اس کی غلط رہنمائی ہرگز مت کریں۔ اگر آپ کو اس بارے میں معلومات نہیں اچھے طریقے سے معذرت کرلیں۔اس کا مشورہ آپ کے پاس امانت ہے۔کسی تیسرے فریق کو یہ راز بتاکر اس امانت میں خیانت مت کیجئے۔سیدنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، جس کسی سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کو امین ہوناچاہئے۔

آدمی کیا ہے ،اس کے اندر جذبات کیا ہیں،وہ کیوں کسی کو چاہتا ہے اور کیوں اس کے اندر یہ خواہش ہے کہ کوئی اسے بھی چاہے، یہ سب کوئی معّمہ نہیں ہے ۔بات سیدھی اور سادی ہے کہ آدمی کے اندر جو روح کام کررہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے معمور ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب کائنات تخلیق کی تو اس کے اندر اللہ کا پہلا وصف ،محبت منتقل ہوا۔محبت ایک ایسا وصف ہے جو ہر ذی روح اور غیر ذی روح میں موجود ہے اور یہی وہ وصف ہے جس کے اوپر یہ کائنات گردش کررہی ہے۔اس محبت کا ذائقہ چکھنے کے لئے کہیں ماں کے دل میں اولاد کی محبت ڈال دی گئی ،کہیں شمع کے لئے پروانے کو جاں نثار بنادیا۔محبت نہ ہو تو یہ سارا جہان ایک آن کے ہزارویں حصّہ میں کھنڈر بن جائے ۔

محبت کی کنہ کو سمجھنے کے لئے میرے تجربے میں صرف ایک بات آئی ہے کہ آدمی صرف اللہ کے لئے اللہ کی مخلوق سے محبت کرے۔اور بلا تفریق مذہب و ملت نوع انسانی اور اللہ کی دوسری مخلوق کی خدمت کو اپنی زندگی بنالے۔یہ نسخہ کیمیا اثر ہے، پس تجربہ شرط ہے۔

حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ کی حیاتی میں ایک بچہ میرے پاس لایا گیا جو پولیو کا مریض تھا۔میں نے اللہ کا نام لے کر اس کا علاج شروع کردیا،جب دوا دارو سے افاقہ نہیں ہواتو روحانی علاج شروع کیا۔اس میں تو جہ کا طریقہ بھی آزمایا گیامگر کئی مہینے کی کوشش کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تو میں بچے کو ان کے والد کے ساتھ حضور قلندر بابا اولیا ء کے پاس لے گیا۔عرض کیاکہ ہر قسم کا علاج ہوچکا ہے بچہ کی ٹانگیں نہیں کھلتیں۔حضوربابا صاحب نے فرمایا ENT ڈاکٹر کو دکھلاؤ۔

ہم لوگ وہاں سے چلے آئے۔ لڑکے کے باپ نے بے یقینی کا اظہار کیا کہENT کا پولیو سے کیا تعلق ، با با صاحب نے ایسے ہی فرمادیا۔میں نے ان سے کہا کہ آپ ENT کو دکھادیں ،آپ کا کیا حرج ہے۔ لیکن بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی ۔

ایک مجلس میں بابا صاحب نے اس کیس کا تذکرہ فرمایا کہ ٹونسلز خراب ہونے سے کئی پیچیدہ بیماریاں ہوجاتی ہیں۔ مثلاََ بچوں کو پولیو ہوجاتا ہے، بڑوں کے خون میں زہریلے مادے پیدا ہوجاتے ہیں، نظام ہضم خراب ہوکرالسر ہوسکتا ہے،سماعت بھی متاثر ہوجاتی ہے،ٹونسلز ایک عرصہ تک خراب رہیں تو نظر بھی کمزور ہوجاتی ہے۔بڑوں کے جوڑوں میں درد ہونے لگتا ہے اور جوڑ منجمد ہوجاتے ہیں اور آدمی چلنے پھرنے سے معذور ہوجاتا ہے۔

کردار کے تعین کو اگر مختصر کرکے بیان کیا جا ئے تو طرز زندگی کی دو قدریں قائم ہوتی ہیں ۔ایک طرز وہ ہے جس میں آدمی شیطنیت سے قریب ہوکر شیطان بن جاتا ہے اور دوسری انبیاء کی طرز وہ ہے جس طرز کے اندر داخل ہو کر آدمی سراپا رحمت بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں شریک ہوجاتا ہے۔وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہیں شیطانی طرزیں ہیں اور وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرتی ہیں پیغمبرانہ طرزیں ہیں۔

شیطانی طرز یہ ہے کہ آدمی کے اوپر خوف و ہراس سوار رہتا ہے ۔ایسا خوف و ہراس جو زندگی کے ہر مقام کو ناقابل شکست و ریخت زنجیروں سے جکڑے ہوئے ہے۔شیطانی طرزوں میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی ذہنی اور نظری طور پر اندھا ہوتا ہے وہ چند سو گز سے زیادہ کی چیز نہیں دیکھ سکتا اوریہی چیزیں اس کو دردناک عذاب میں مبتلا رکھتی ہیں۔اس کے برعکس پیغمبرانہ طرزوں میں آدمی کے اوپر خوف اور غم مسلط نہیں ہوتا ، وہ عدم تحفظ کے احساس سے دور رہتا ہے۔

بات وہی ہے کہ ایک طرز فکر کے آدمی دوسری طرز فکر کے آدمیوں سے ممتاز رہتے ہیں ۔شیطانی طرز فکر میں زندگی گزارنے والا بندہ انبیاء کے گروہ میں داخل نہیں ہوسکتا اور انبیاء کی طرز فکر سے آشنا بندہ شیطانی گروہ میں کبھی داخل نہیں ہوتا۔ شیطانی طرز فکر میں ایک بڑی خراب اور لا یعنی بات یہ ہے کہ بندہ ہر عمل اس لئے کرتا کہ اس عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے یعنی وہ عمل کرنے کا صلہ چاہتا ہے اور صلہ کا نام اس نے ثواب رکھا ہے۔ تصوف ایسے عمل کو جس عمل کے پیچھے کاروبار ہو، جس عمل کے پیچھے کوئی ذاتی غرض وابستہ ہو ،ناقص قرار دیتا ہے اور یہی انبیاء کی بھی طرز فکر ہے۔

تاریکیوں سے نکلنے ،حزن و ملال کی زندگی سے آزاد ہونے،اقوام عالم میں مقتدر ہونے ،دل و دماغ کو انوار الٰہیہ کا نشیمن بنانے اور نظام ربوبیت و خالقیت کو سمجھنے کے لئے صحیفۂ کائنات کے ذرے ذرے کا مطالعہ امر لازم ہے۔اللہ کا قانون ہمہ گیر ہے، سب کے لئے ہے۔ جس طرح ہر آدمی متعین فارمولے سے کوئی چیز بنالیتا ہے اسی طرح صحیفۂ ہدایت میں غور وفکر کرکے اپنے لئے ایک منزل متعین کرلیتا ہے۔

افسوس ! مسلمان کے اندر سے غورو فکر کا پیٹرن نکل گیا ہے ،سوخت ہوگیا ہے۔ مسلمان کو ذہنی ،شعوری ،فکری اور اساسی بنیاد پر ایسی راہ پر چلنے پر مجبور کردیا گیا ہے جہاں فکر وتدبیر کا دم گھٹ جاتا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ نے ناہموار ،ناکام اور نامراد راستے پر مسلمان کو اس لئے ڈال دیا ہے کہ اس طبقہ کی اجارہ داری قائم رہے۔صحیفۂ آسمانی ہمیں زمین کے اندر بھرے ہوئے خزانوں اور سمندر کے اندر موجود دولت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے، حکم دیتا ہے ۔

مگر ہم نے اپنے دلوں کو زنگ آلود کرلیا ہے۔کان بند کرلئے ہیں اور آنکھوں پر دبیز پردے ڈال لئے ہیں اور اس طرح وہ قوم جو تسخیر کائنات کے فارمولوں کی امین بنی تھی ،تہی دست اور مفلوک الحال بن گئی ہے۔

سورۃ الغاثیۃ میں ہے کہ کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اونٹ کی تخلیق کیسے ہوئی ۔ آسمان کیونکر مرتفع کیا گیا۔پہاڑ کیسے نصب کئے گئے اور زمین کیونکر بچھ گئی۔ اے رسول! اعمال الٰہی کی ایمان افروز داستان ان کو سنا کہ یہ تیرا فرض ہے۔

علم کی درجہ بندی کی جائے تو ہمیں تین حقیقتوں کا ادراک ہوتا ہے

۱۔ سورس آف انفارمیشن سورس آف انفارمیشن کہاں ہے۔

۲۔ انفارمیشن انفارمیشن کیا ہے۔

۳۔ مظاہرہ انفارمیشن مظاہرات میں کیسے تبدیل ہوتی ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا محور تین حقیقی دائرے ہیں

۱ ۔ شرک سے انکار،توحید کا اثبات۔

۲۔ نفس کی اصلاح۔

۳۔ آخرت کی یاد دہانی۔

ہر پیدا ہونے والا بچہ جب وہ بالغ اور باشعور ہوتا ہے یہ ضرور سوچتا ہے کہ

۱ ۔ پیدا ہونے سے پہلے میں کہاں تھا۔

۲۔ پیدا کیوں ہوا۔

۳۔ مرنے کے بعد کون سی دنیا میں جانا ہے۔

اس معمہ کو سلجھانے کے لئے عقیدہ کی ضرورت پیش آتی ہے اور جب صحیح عقیدہ زیر بحث آتا ہے تو پیغمبروں کا علم سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے اور پیغمبروں کے علم سیکھنے کا واحد اور مؤثر ذریعہ قرآن ہے۔

جب ہم آدم کا ذکر کرتے ہیں تو دراصل آدم کی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں اور آدم کی صفات علم کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔آدم کے پاس علم کا وہ ورثہ ہے جو کائنات کے خالق اور مالک نے آدم کو منتقل کیا ہے۔آدم کے اندر تین علوم کام کررہے ہیں

۱۔ لامحدود علم کا سورس

۲۔ لامحدود علم

۳۔ محدود علم

محدودعلم میں مسلسل درجہ بندی لامحدود علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور لامحدودعلم کا حصول لامحدود سورس کا علم ہے۔

محدود علم دنیا کے مظاہرات ہیں

لا محدود علم کائنات کی حقیقت ہے

علم کے سورس کا علم کائنات پر حکمرانی ہے

دشمنوں کی فتنہ انگیزی اور ظلم و ستم سے گھبرا کر بے ہمت ،بزدل اور پریشان ہوکر بے رحموں کے سامنے سرنگوں ہوکر اپنے قومی وقار کو داغدار کرنا دراصل احساس کمتری اور خود کو ذلیل کرنے کی علامت ہے ۔اس کمزوری کا کھوج لگائیے کہ آپ کے دشمن میں آپ پر ستم ڈھانے اور آپ کے ملّی تشخص کو پائمال کرنے کی جرأت کیوں ہوئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دو و جہیں بتائی ہیں

۱۔ مسلمان دنیا سے محبت کرنے لگیں گے۔

۲۔ موت ان کے اوپر خوف بن کر چھائے گی۔

کیا اتباع سنّت یہی ہے کہ ہم کرسی اور میز پر کھانا کھانے سے پرہیز کریں کیونکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔لیکن کبھی بھولے سے اس بات کا خیال بھی نہ آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غذا کیا تھی اور جو کچھ تھی وہ کس و جہ سے تھی۔ چمچے کے استعمال سے پرہیز مگر کھانا لذیذ سے لذیذ تر کھانا،کھانا حلق تک ٹھونس کر کھانااور اپنے بھائیوں اور فاقہ زدوں سے ایسی لاپرواہی اور بے اعتنائی برتنا کہ جیسے ان کا زمین پر وجود ہی نہیں ہے۔پائنچے ٹخنوں سے ذرا نیچے ہوجائیں تو گناہ کبیرہ،لیکن اگر لباس کبر و نخوت ،ریا اور نمائش کا ذریعہ بن جائے تو کوئی اعتراض نہیں ۔یہ کونسا اسلام ہے کہ ہم نمازیں قائم کریں مگر برائیوں سے باز نہ آئیں ۔روزے رکھیں مگر صبر کے بجائے حرص و ہوس ،غصہ اور بد مزاجی کا مظاہر کریں۔جب کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بندے کی ایک بار غیبت کرنے سے روزہ، نماز اور وضو سب کچھ فاسد ہوجاتا ہے۔

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مشرکین کے لئے بد دعا کیجئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں برا چاہنے کے لئے نہیں آیا ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے رحمت بناکر بھیجا ہے۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق حسنہ یہ تھا کہ مدینہ میں لوگ اکثر صبح ہی صبح پانی لے کر آ پ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے تھے تاکہ آپ اس میں برکت کے لئے ہاتھ ڈال دیں۔کتنی ہی زیادہ سردی کیوں نہ ہو،آپ لوگوں کو مایوس نہیں فرماتے تھے اور پانی میں ہاتھ ڈال دیتے تھے۔

میرے دوستو! اللہ بڑا رحیم ہے بڑا کریم ہے معاف کرنے والا ہے۔مگر دانستہ غلطیاں،ناقابل معافی جرم ہیں۔ محض اتباع سنّت کے بڑے بڑے دعوؤں سے کچھ نہیں بنتا۔اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کرنے میں اگر صداقت اور خلوص نہ ہو تو یہ سب ریا اور دکھاوا ہے۔ یاد رکھیں! حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجموعی زندگی میں سے چند اعمال کو اختیار کرکے اتباع سنّت کا دعویٰ کرنے والوں کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔

اولیاء اللہ جب اس دنیا سے پردہ کرتے ہیں اور اپنی قبروں میں جاسوتے ہیں تو زندگی کی طرح عوام کا رجوع ان کی طرف برقرار رہتا ہے۔لوگ ان کی قبورپر اس لئے جاتے ہیں کہ انہیں وہاں سکون ملتا ہے اور ان بزرگوں سے روحانی رشتہ کی بنیاد پر ان کا تعلق اللہ سے قائم ہوتا ہے۔جہاں تک منت مرادوں اور دعاؤں کا تعلق ہے اگر کوئی شخص اس لئے دعا کرتا ہے کہ صاحب مزار نعوذ باللہ خدائی درجہ پرفائز ہے تو یہ شرک ہے لیکن کوئی صاحب اگر ان بزرگوں کی روحوں کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں یا ان بزرگوں کی روحوں سے دعائیں کراتے ہیں تو یہ ایک انسانی ضرورت ہے ،انبیاء، اللہ کے دوست اور شہداء کے اجسام بدستور قائم رہتے ہیں۔ان کی ارواح متحرک اور فعال رہتی ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت اہتمام کے ساتھ قبرستا ن تشریف لے جاتے تھے۔وہاں قیام فرماتے تھے اور فرماتے تھے،السلام علیکم یا اہل القبور ۔حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد عالی مقام ہے کہ جب تم قبرستان جاؤ توسلام کرواور قبر میں رہنے والے تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں لیکن تم نہیں سنتے۔

صاحب حال اور کشف القبور والے حضرات اس سے اچھی طرح واقف ہیں اور یہ بات ان کے مشاہدہ میں ہے کہ دنیا سے جانے والا ہر شخص اعراف میں رہتا ہے اور وہاں اس دنیا کی طرح زندگی گزارتا ہے۔وہاں کے لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے آتے ہیں اور ان کے لئے اللہ سے دعائیں کرتے ہیں۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ایک روز حضرت حافظ ضامن شہید کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو گھبرا کر ہاتھ چھوڑ دیئے ۔مریدین نے پوچھا ،حضرت جی !

کیا ہوا۔حضرت نے فرمایا،حضرت حافظ صاحب نے مجھے ڈانٹ دیا اور کہا چل جا کسی مردے کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھ۔

حضرت سلطان الہند غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر چلہ کیا اور فرمایا

گنج بخش فیض عالم مظہرنورخدا

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

جب ہم موت اور زندگی کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے کی ہے کہ جسم انسانی کی ہر حرکت روح کے تابع ہے ۔روح جب تک جسم کو سنبھالے رکھتی ہے جسم میں حرکت رہتی ہے اور جب روح جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے تو جسم ناکارہ ہوجاتا ہے۔مطلب یہ ہوا کہ گوشت پوست کے جسم کی اپنی کوئی حرکت نہیں ہے۔حرکت تابع ہے روح کے،آدمی مرجاتا ہے تو روح قائم رہتی ہے۔روح سنتی ہے روح بولتی ہے،روح محسوس کرتی ہے۔ روح اپنے اور غیروں کو پہچانتی ہے۔ جب ہم کسی اولیاء اللہ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں تو دراصل ولی کی روح کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ۔

روح چونکہ مرتی نہیں ہے،صرف اتنی تبدیلی ہوجاتی ہے کہ روح نے گوشت کے عارضی جسم سے اپنا رشتہ منقطع کرلیا ہے۔کسی مزار یا قبرستان میں حاضر ہوکر ہم روحوں کو سلام کرتے ہیں اور بزرگوں کی روحوں سے اپنے لئے دعا کراتے ہیں۔تجربہ یہ ہے کہ روحیں نوع انسانی کے رشتہ کے تعلق کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔گوشت پوست کے جسم کے ساتھ رہتے ہوئے روح دعا مانگے یا گوشت پوست سے آزاد ہوکر نور سے معمور روح دعا مانگے اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق قبول فرماتے ہیں۔

حضرت امام ابو حنیفہ کپڑے کے بڑے سوداگر تھے۔ایک روزمنشی نے آکر اطلاع دی کہ کپڑے سے بھرا ہوا جہاز سمندر میں غرق ہوگیا ہے۔امام ابوحنیفہ نے ذرا سی دیر دل میں جھانکا اور کہاالحمدللہ ،اللہ کا شکر ہے ۔کچھ دنوں کے بعد منشی نے بتلایا کہ ڈوبنے والا جہازکوئی دوسرا جہاز تھا ۔ہمارا جہاز ساحل پرلنگر انداز ہوگیا ہے اور جہاز پر لدا ہوامال نفع بخش ثابت ہوا ہے۔حضرت نے پھر گردن جھکائی اور کہا الحمد للہ ،اللہ کا شکر ہے۔مجلس میں کسی نے سوال کیا،یاحضرت ! نفع ہونے کی صورت میں شکر کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن نقصان کے اوپر شکر کرنے میں کیا حکمت ہے۔ حضرت نے کہا،میں نے دونوں مرتبہ اپنے دل میں دیکھا،نقصان ہونے کا کوئی غم نہیں ہوااور نفع ہوجانے سے میرے اندر کوئی بڑائی یا کبر پیدا نہیں ہوا۔دونوں حالتوں میں یہی بات سمجھ میں آئی کہ اللہ کا مال تھا ،اس نے چاہا تو نقصان ہوگیا،اس نے چاہا تونفع ہوگیا۔نفع ہو یانقصان دونوں صورتوں میں مال و زر سے ہمارا رشتہ عارضی ہے۔

انسانی زندگی ایک ایسا معمہ ہے جس کو جس قدر الجھادیا جائے وہ الجھ جاتا ہے اور جب اس کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ سلجھ جاتا ہے۔خیالات کے تانے بانے پر بنی ہوئی زندگی ایک طلسماتی زندگی ہے۔کوئی خیال ہمارے لئے مسرت کے جذبات فراہم کرتا ہے اور دوسرا کوئی خیال ہمیں آزردگی ،پریشانی اور ٹینشن کے جذباتی سمندر میں دھکیل دیتا ہے۔خیال اگر ایک دائرے سے باہر نہ آئے اور دائرے کے اندر محدود ہوجائے تو یہ محدودیت انسان کو نفسیاتی مریض بنادیتی ہے۔نفسیاتی مرض سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو داغدار کر دیتا ہے،ایسے مریض کے اوپر عدم تحفظ کا احساس مسلط ہوجاتا ہے۔طبی نقطۂ نگاہ سے ایسا آدمی مالیخولیا کا مریض ہوتا ہے۔خیال میں اپنی ذات شامل ہواور ذات میں انفرادی سوچ کے علاوہ اجتماعیت نہ ہو تو آدمی مینٹل کیس ہوجاتا ہے۔

اس کے برعکس خیال کسی ایک نقطہ کو اپنی مرکزیت بنالے اور انا کی حدود میں محدود نہ ہو تو شعور، لاشعور کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔جیسے جیسے شعوری حواس لاشعوری حواس سے رد و بدل ہوتے ہیں ،ذہنی سکت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔بیشمار مومن افراد کا تجربہ ہے کہ شام،سویرے،دوپہر،رات ،بیداری اور خواب میں ایک ذات کی مرکزیت ان کے لئے کامل اطمینان و سکون کا باعث بنتی ہے۔یکتا،واحد اور تخلیق کرنے والی ہستی کے قرب کا احساس ایسے لوگوں کے لئے جائے پناہ بن جاتا ہے اور انا کے اندر ایسی لہریں موجزن ہوتی رہتی ہیں کہ ان کے اندر سے عدم تحفظ کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ایسا بندہ ایسی کیفیات سے آشنا ہوجاتا ہے جن کیفیات میں نقصان اور نفع دونوں کے لئے خوشی خوشی آمادہ رہتا ہے۔

مال و زر اس لئے ہے کہ آدمی اس کو استعمال کرکے اپنے لئے راحت و آسائش کا سامان بنائے۔اس لئے نہیں کہ آدمی مال و زر کی دلدل میں پھنس کر تحت الثریٰ میں پہنچ جائے۔موجودہ زمانے کی روش یہ ہے کہ آدمی مال و زر کو نہیں کھارہا ہے ،مال و زر آدمی کو کھارہا ہے۔مومن جب مشاہداتی قوت سے آراستہ ہوجاتا ہے اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ دنیا ہمارے لئے بنائی گئی ہے ہم دنیا کے لئے نہیں بنائے گئے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے باطن میں شانتی،آنند،سکون قلب،استغناء،توکل،تسلیم و رضا،صبر،قوت برداشت اور کیف و سرور کی ایک جنت قائم ہوجاتی ہے۔غم آمیز پریشان کن کوئی خیال آبھی جاتا ہے تو آناََ فاناََ جنت کا خوشگوار ماحول آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔خدا کے حضور حاضر ہونے کا احساس مشاہداتی مومن کے اندرامن و حفاظت ،ایقان اور خود سپردگی کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔اس کیفیت کے طاری ہونے کے بعد اعصابی کشاکش اور دماغی کشمکش سے نجات مل جاتی ہے۔اضطراب و بے چینی دم توڑ دیتی ہے۔طبیعت کا پیچ و تاب محو ہوجاتا ہے۔اس کے مزاج میں صبروقناعت کا عنصر غالب ہوجاتا ہے۔اسے اور اس کے آس پاس رہنے والے لوگوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ خدا جو کچھ کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے۔ یہ سب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر دنیاوی اور مفروضہ حواس کی ماورائی شعور کی رہنمائی میں ترتیب اور اعتدال کے ساتھ حرکت ہواور جب ایسا ہوجاتا ہے تو زندگی پاکیزگی کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ عرق گلاب کی بوتل میں اگر مٹی کے تیل کے چند قطرے ملادئے جائیں تو گلاب کی خوشبو کا دم گھٹ جاتا ہے، اس کے اوپر موت وارد ہوجاتی ہے اور خوشبو اپنا باطن سمیٹ کر روشنی اور ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے ۔جسم(گلاب کا پانی) رہ جاتا ہے ۔باطن، شامہ حواس سے نیست ہوجاتا ہے۔

کوئی انسان اپنے مشاغل کو دنیاوی اعتدال کے ساتھ روحانی جذبے کے تحت مغلوب کردیتا ہے(ختم نہیں) تو روحانی دنیا، روحانی زندگی ،روحانی جذبات و احساسات میں تلاطم پیدا ہوجاتا ہے اور یہ تلاطم موجوں کی شکل میں جب انسان کے اندر بہتے ہوئے علمی سمندر کے ساحل کو چھوتی ہیں تو دل کا کنول کھل جاتا ہے۔کنول کے اندر روشن قندیل کا نور عالمین میں پھیلتا ہے تو آدم کی اولاد آدم، آدم کی سعید اولاد انسان،اٹھارہ ہزار عالمین،اٹھارہ ہزار عالمین میں ایک لاکھ چوالیس ہزار نظام شمسی میں اٹھارہ لاکھ بہتر ہزار سیارے (دنیائیں ) دیکھ لیتا ہے۔پاکیزگی کے اس راستے پر پہلا قدم جوئے شیر لانے کے برابر ہے لیکن جب آدم زاد اس راستے (صراط مستقیم) پر ایک قدم اٹھا دیتا ہے تو راستہ خود دس قدم سمٹ جاتا ہے اور جب یہ راستہ پیروں سے مانوس ہوجاتا ہے تو جسم(گوشت پوست کا بنا ہوا مادی جسم ) کشش ثقل سے آزاد ہوجاتا ہے۔محدودیت لامحدودوسعتوں میں پرواز کرتی ہوئی ابعاددنیا سے اس پار اپنا روحانی وجود دیکھ لیتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں نوع انسانی وہ مخلوق ہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی حامل ہے جن کے متحمل ہونے سے سماوات،ارض و جبال نے عاجزی کا اظہار کردیا تھا۔اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق جب کوئی قوم صراط مستقیم سے بھٹک جاتی ہے تووہ امتحان کی چکی میں پسنے لگتی ہے۔

یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔یہاں ہر شخص دانستہ یا نادانستہ امتحان میں مصروف ہے،مقصد یہ ہے کہ آدمی امتحان میں کامیاب ہوکر زندگی کا کوئی رخ متعین کرے۔کوئی دولت مندہے ،کوئی غریب و نادار اور بیمار ہے اور کوئی ایسا بھی ہے جس کے ذہن میں بزرگوں اور ماں باپ کی عزت و توقیر نہیں، یہ سب باتیں امتحان کادرجہ رکھتی ہیں۔کائنات دورخوں پر سفر کررہی ہے،ایک رخ سے دوسرا رخ ایک مرحلہ ہے اور ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں قدم رکھنا امتحان ہے۔

آپ ذرا اس بچے کا تصور تو کیجئے جو کمرہ امتحان میں بیٹھ کر جب پرچہ سامنے آئے تو بجائے پرچہ حل کرنے کے رونا شروع کردے،فریاد کرنے لگے اور احتجاج کرے کہ میرا امتحان کیوں لیا جارہا ہے۔نشو و نما اور انسانیت کی فلاح و ترقی امتحان میں مرحلہ وار کامیابی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔آگ اور تپش کے بھٹیوں سے گزر کر ہی سونا کندن بنتا ہے۔نوع انسانی ان بھٹیوں سے نہ گزری ہوتی تو لوگ آج بھی غاروں کے مکیں ہوتے۔کوئی مسئلہ اس وقت تک قابل حل نہیں ہے جب تک صاحب مسئلہ خود اس مسئلے کو حل کرنے پر آمادہ نہ ہو۔ساری دعائیں ،وظیفے صرف ایک ہی کام انجام دیتی ہیں وہ یہ کہ سائل بیمار ہو یا پریشان حال اس کے اندر قوت ارادی میں اضافہ ہوتاکہ وہ مسائل و معاملات کی بھول بھلیوں سے نکل کر ذہنی یکسوئی حاصل کرلے۔

دنیا میں جتنے عظیم لوگ پیدا ہوئے وہ بھی کسی نہ کسی مسئلے سے دوچار رہے ہیں لیکن وہ اس نقطہ سے باخبر ہوتے ہیں کہ مسائل اس وقت تک مسائل ہیں جب تک انسان ذہنی یکسوئی اور سکون کی زندگی سے نا آشنا ہے۔ان لوگوں کے اوپر سے مسائل و تکالیف کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے جو اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیتے ہیں۔ کسی ایسے شخص کی خدمت کیجئے جو نادار ہے،ضرورت مند ہے،پھر دیکھئے کہ آپ کو کتنا سکون ملتا ہے۔دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے کام آنا انسانیت کی معراج ہے اور یہی وہ مشن ہے جس کو عام کرنے لئے اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ہیں۔جن کا پیغام ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا مثل بنایا اور انسانیت کی خدمت ،اللہ کی خدمت ہے۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم صرف دعاؤں کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے کوشش کرتے ہیں۔ہم عمومی دعائیں اور خصوصی دعائیں بھی مانگتے ہیں۔آدھی صدی سے زیادہ کا زمانہ ہمارے سامنے ہے۔ہم نے من حیث القوم کافروں کے اوپر فتح وکامرانی کی کوئی دعا قبول ہوتے نہیں دیکھی،آخر ایسا کیوں ہے۔ایسا کیوں ہورہا ہے اور وہ قوم جس سے قدرت نے فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھاآج زمین پر بوجھ کیوں بن گئی ہے۔فتح و نصرت اور کامرانی کی بشارت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور حصول نصرت کا راستہ بھی متعین کردیا تھا۔

کیوں ہم نے اپنے دلوں پر مہریں لگا لی ہیں اور کیوں ہم نے اپنی آنکھوں پر دبیز پردے ڈال لئے ہیں۔ہم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کے ساتھ دعاؤں کا سہارا لیا ہے۔مکہ کی زندگی میں دعا اور عمل ساتھ ساتھ قائم رہے ہیں۔

عمل کے بغیر اگر دعاؤں سے کام ہوجاتے تومکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی کیا ضرورت تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دندان مبارک کیوں شہید ہوا۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے مکہ کی طرف فوج کشی کیوں کی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری زندگی سے قطع تعلق کیوں منظور فرمایا۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہمیں بتاتی ہے کہ حاصل کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی عمل اور تدبیر کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔تدبیر اور عمل کے مثبت نتائج کے لئے دعائیں کیں۔

عمل کے بغیر دعا ایک ایسا جسم ہے جس میں روح نہیں ہے اور جب جسم میں سے روح نکل جاتی ہے تو اس کی حیثیت ایک لاش کی ہوتی ہے جو کسی کام نہیں آتی۔اسی طرح وہ دعا جس کے پیچھے عمل نہیں ہوتا قوموں کے لئے ادبار بن جاتی ہے۔

تخلیق کا راز یہ ہے کہ عمل بجائے خود تخلیق ہے ۔ہم اپنی معاش کے لئے دھوپ کی تپش میں سرگرداں رہتے ہیں اور سردی کی یخ بستہ راتوں میں اپنی نیندیں خراب کرتے ہیں ۔افزائش نسل کے لئے شادیاں کرتے ہیں۔زندگی کے ان سب ہنگاموں کی کیا ضرورت ہے ۔کسان کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ زمین کے سینے کو چیر کر اس سے غذائی ضروریات پوری کرے۔

دھوپ کی تمازت اور ژالہ باری سے بچنے کے لئے آخر ہم مکان کیوں بناتے ہیں۔ جب عمل کے بغیر دعا سے ہر کام ہوسکتا ہے تو ہم زندگی سے متعلق معاملات میں جدو جہد اور کوشش کرنے کے بجائے مانگ لیا کریں۔یا اللہ! ہمیں اولاد دے،یا اللہ ! ہمارا مکان بنادے ، یا اللہ ! ہم سے محنت مزدوری نہیں ہوتی، ہمارے منہ میں روٹی کے لقمے ڈال دے۔آخر یہ کس قسم کا مذاق ہے کہ جب انفرادی زندگی زیر بحث آتی ہے تو ہمارا عضو عضو مصروف عمل ہوجاتا ہے اور جب اجتماعی زندگی درپیش ہوتی ہے تو ہم دعا کے لئے ہاتھ باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔اگر صرف دعا ہی سے کافر جہنم رسید ہوجاتے تو جہاد کس لئے فرض کیا گیا۔

یا د رکھئے! جو لوگ صرف دعائیں کراتے ہیں اور دعاؤں کے ساتھ عملی اقدامات کا مظاہرہ نہیں کرتے وہ ہرگز قوم کے دوست نہیں۔بزعم خود یہ وہ نادان دوست ہیں جن کی تدبیریں ہمیشہ رسوا اور ذلیل کرتی ہیں۔کون نہیں جانتا کہ بے عملی قوم کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے اور ہر فرد اپنی ذات میں بند ہوجاتا ہے۔بے عمل بندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا مرتکب بھی ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سے اللہ کی رسی چھوٹ جاتی ہے اور سیسہ پلائی قومی دیوار میں دراڑیں پڑجاتی ہیں۔عمل سے جی چرانے والی قومیں ناکارہ،مفلوج اور مغضوب بن جاتی ہیں۔

بے عمل قومیں غلام بن جاتی ہیں۔جب سے عمل کو ترک کیا گیاہے اور صرف دعاؤں کا سہارا لینا شروع کیا گیا ہے ،قوم سے نور نکل گیا ہے اور نار نے اسے اپنا لقمہ تر سمجھ لیاہے۔خالق کائنات نے اس کائنات کو متحرک اور فعال بنایا ہے ۔

اللہ کے فرستادہ پیغمبروں اور اس راہ پر چلنے والے تمام اولیاء اللہ نے ہمیشہ عمل کی تلقین کی ہے اور بے عملی سے اجتناب کی نصیحت کی ہے۔آدمی اپنی کوششوں اور متعین طریقوں پر مشقیں کرنے کے بعد اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے خرق عادت کا اظہار کرسکے۔اگر کسی بندے میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق پیدا نہیں ہوا ہے اور اس کے اندر استغناء کی قوتیں نہیں ابھریں تو اس سے جو خرق عادت صادر ہوگی وہ استدراج ہے ،جادو ہے۔مذہبی عبادت کا بھی یہی قانون ہے۔مذہب نے جو عبادتیں فرض کردی ہیں ان فرائض کی ادائیگی میں اگر بندے کا ذہن اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہے تو یہ عبادت ہے ورنہ یہ عبادت نہیں ہے۔نماز،روزہ ، حج ،زکوٰۃ یہ سب ارکان اس بنیاد پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس طرح چاہتے ہیں اس لئے ہم پر لازم ہے کہ ان فرائض کی ادائیگی میں ہم کوئی کوتاہی نہ کریں لیکن اگر فرض کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ یقین قائم نہ ہوتو یہ فرض کی ادائیگی نہیں ہوگی اور بندہ بالاآخر نقصان اور خسارے میں ہوگا۔

 

 

  ضروریات کے واحد کفیل اللہ تعالیٰ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم رازق ہیں۔ وہ بہر حال رزق پہنچاتے ہیں اور اللہ کے وہ کارندے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فی الارض خلیفہ کہا ہے اس بات پر کاربند ہیں کہ وہ مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے وسائل فراہم کریں۔

بہت عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے پیدا کرتے ہیں، جب تک وہ چاہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے اور جب وہ نہیں چاہتے تو آدمی سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں بھی زندہ نہیں رہ سکتا لیکن آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ میں اپنے اختیار سے زندہ ہوں۔معاشی سلسلہ میرے اپنے اختیار سے قائم ہے۔

اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ حضور قلندر بابا اولیاء نے فرمایا،کسان جب کھیتی کاٹتا ہے تو جھاڑو سے ایک ایک دانہ سمیٹ لیتا ہے اور جو دانے خراب ہوجاتے ہیں یا گھن کھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بھی اکھٹا کرکے جانوروں کے آگے ڈال دیتا ہے۔جس زمین پر گیہوں بالوں سے علیحدہ کرکے صاف کیا جاتا ہے وہاں اگر آپ تلاش کریں مشکل سے چند دانے نظر آئیں گے لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پرندے اربوں اور کھربوں کی تعداد میں دانہ چگتے ہیں۔ان کی غذا ہی دانہ ہے تو یہ معمہ حل نہیں ہوتا کہ کسان تو ایک دانہ نہیں چھوڑ تا، ان پرندوں کے لئے کوئی مخصوص کاشت نہیں ہوتی پھر یہ پرندے کہاں سے کھاتے ہیں۔ حضورقلندر بابا اولیاء نے فرمایا کہ قانون یہ ہے کہ پرندوں کا غول جب زمین پر اس ارادے سے اترتا ہے کہ ہمیں یہاں دانہ چگنا ہے ،اس سے پہلے کے ان کے پنجے زمین پر لگیں قدرت وہاں دانہ پیدا کردیتی ہے ۔اگر پرندوں کی غذا کا دارو مدار حضرت انسان یعنی کسان پر ہوتا تو سارے پرندے بھوک سے مرجاتے ۔

دوسری مثال حضور بابا صاحب نے یہ ارشاد فرمائی کہ چوپائے بہر حال انسانوں سے بہت بڑی تعداد میں زمین پر موجود ہیں ۔بظاہر وہ زمین پر اگی ہوئی گھاس کھاتے ہیں ، درختوں کے پتے چرتے ہیں لیکن جس مقدار میں گھاس اور درختوں کے پتے کھاتے ہیں زمین پر کوئی درخت نہیں رہنا چاہئے۔

قدرت ان کی غذا کی کفایت پوری کرنے کے لئے اتنی بھاری تعداد میں درخت اور گھاس پیدا کرتی ہے کہ چرندے سیر ہوکر کھاتے رہتے ہیں۔گھاس اور پتوں میں کمی واقع نہیں ہوتی،یہ ان درختوں اور گھاس کا تذکرہ ہے جس میں انسان کا کوئی تصرف نہیں ہے قدرت اپنی مرضی سے پیدا کرتی ہے۔اپنی مرضی سے درختوں کی پرورش کرتی ہے اور اپنی مرضی سے انہیں سرسبز و شاداب رکھتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جو زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں دوچارواقعات ایسے ضرور پیش آتے ہیں جن کی وہ کوئی عملی ،عقلی ،سائنسی توجیہہ پیش نہیں کرسکتا۔انہونی باتیں ہوتی رہتی ہیں،آدمی اتفاق کہہ کر گزرتا رہتا ہے حالانکہ کائنات میں کسی اتفاق، کسی حادثہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔

استغناء اور یقین میں جو بنیادی باتیں ہیں وہ یہ ہیں کہ انسانی زندگی میں ایسے واقعات پے در پے صادر ہوتے ہیں جن واقعات کی وہ کوئی توجیہہ پیش نہ کرسکے اور نہ ہی ان واقعات کے صدور میں اسکی کوئی عملی جد و جہد اور کوشش شامل ہو۔

غور طلب بات ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ غذا حاصل کرتا ہے اور اس غذا سے مسلسل اور متواتر اعتدال کے ساتھ توازن کے ساتھ پرورش پاتا رہتا ہے۔یہاں یہ بات بھی عجیب ہے کہ بچے کو غذا پہنچانے کا جو ذریعہ ہے یعنی ماں، اس ذریعے کو بھی غذا پہنچانے میں کوئی ذاتی اختیار حاصل نہیں ہے ۔بچے کی پیدائش کے بعد بچے کو غذا فراہم کرنے کا طریقہ یکسر بدل جاتا ہے۔وہی خون جو بچے کو ماں کے پیٹ میں براہ راست منتقل ہورہا ہے اب دوسرا صاف شفاف طریقہ اختیار کرتا ہے اور یہی خون ماں کے سینے میں بہترین غذا دودھ بن جاتا ہے۔ یہ بات پھر اپنی جگہ اہم ہے کہ خون دودھ کیسے بنا،کس نے بنایا، اس میں آدمی کا کون سا اختیار کام کررہا ہے۔

اس کے بعد بچہ دودھ کی منزل سے ذرا آگے بڑھتا ہے تو اسے دودھ کی مناسبت سے کچھ بھاری غذاؤں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ان بھاری غذاؤں کو چبانے اور پیسنے کے لئے قدرت دانت فراہم کرتی ہے۔دنیا میں کون سا ایسا علم ہے،ایسی کون سی سائنس ،ایسا کون سا بندہ ہے جو اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ ایسا کرسکے۔جیسے جیسے بچے کی نشوونما بڑھتی ہے اور بچے کے جسمانی نظام کو بھاری اور قوت بخش غذاؤں کی ضرورت پیش آتی ہے اس کی آنتیں ،معدہ اور دوسرے اعضاء اسی مناسبت سے کام کرنا شروع کردیتے ہیں۔عقل و شعور کے پاس ایسا کونسا علم ہے جس علم کی بنیاد پر وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مشین کی نقالی کرسکے یعنی وہ آنتیں بنادے ،معدہ بنادے،دل پھیپھڑے تخلیق کردے۔چونکہ غذاؤں میں کثافت ہے اور یہ غذائیں وہ غذائیں نہیں ہیں جن غذاؤں کو اللہ تعالیٰ نے لطیف کہا ہے تو ان غذاؤں سے نکلی ہوئی کثافت کے اخراج کا بھی اہتمام ہے۔آدمی اگر اپنے اندر خود مشین کا معائنہ کرے تو اس پر بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی زندگی میں انسانی اختیار کو اور انسانی علم کو کوئی دخل نہیں ہے۔

بنیاد ی ضروریات میں سب سے اہم پانی،ہوا،دھوپ ،چاند کی چاندنی شامل ہیں۔اگرانسان اپنی ضروریات کا خود کفیل ہے تو اس کے پاس ایسی کون سی طاقت ہے،ایساکون سا علم ہے کہ وہ دھوپ کو حاصل کرسکے ،پانی کو حاصل کرسکے ۔زمین کے اندر اگر پانی کے سوتے خشک ہوجائیں تو انسان کے پاس ایسا کون سا علم ہے ،طاقت ہے ،عقل ہے کہ وہ زمین کے اندر پانی کی نہریں جاری کردے۔یہی حال ہوا کا ہے ،ہوا اگر بند ہوجائے ،اللہ تعالیٰ کا نظام ،وہ نظام جو ہوا کو تخلیق کرتا ہے اور ہوا کو گردش میں رکھتا ہے اس بات سے انکار کردے کہ ہوا کو گردش نہیں دینی تو زمین پر موجود اربوں کھربوں مخلوق تباہ ہوجائے گی ،برباد ہوجائے گی۔

یہ کیسی بے عقلی اور ستم ظریفی ہے کہ بنیادی ضروریات کا جب تذکرہ آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارا اس پر کوئی اختیار نہیں ہے اور جب روٹی کپڑے اور مکان کا تذکرہ آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنا اختیار استعمال نہ کریں تو یہ چیزیں ہمیں کیسے فراہم ہوں گی۔ان معروضات سے منشاء یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان یہ سمجھ کر کہ میں بے اختیار ہوں ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہے۔ ا س کے اعضاء منجمدہوجائیں ،منشاء صرف یہ ہے کہ زندگی میں ہر عمل اور ہر حرکت کو منجانب اللہ سمجھا جائے۔جد و جہد اور کوشش اس لئے ضروری ہے کہ اعضاء منجمد نہ ہوجائیں، آدمی اپاہج نہ ہوجائیں۔آدمی جس مناسبت سے جد و جہد کرتا ہے،جس مناسبت سے عملی اقدامات کرتا ہے،بے شک اسے وسائل بھی اسی مناسبت سے نصیب ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قانون قدرت پر اسے دسترس حاصل ہوگئی ہے۔قانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے زمین ، آسمان اور زمین کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب مسخر کردیا ہے۔طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس تسخیر کو صرف اور صرف مادی حدود میں استعمال کیا جائے اور دوسرا احسن طریقہ یہ ہے کہ وسائل کو اس لئے استعمال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام وسائل انسان کے لئے پیدا کئے ہیں۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد عالی ہے کہ خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔اس فرما ن کے پیش نظر یہ بات ظاہر ہے کہ خواب کسی ایسے شخص سے بیان کرنا چاہئے جو نبوت کے علوم سے بطفیل سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام فیض یاب ہو۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خواب ایسے شخص سے بیان کیجئے جو خواب کی جزئیات سے واقف ہو۔خواب دراصل لاشعوری زبان ہے۔

آدمی شعور اور لاشعور، دو دائروں میں سفر کرتا ہے یعنی جب آدمی خواب دیکھتا ہے تو دیکھنے کی رفتار عا م ڈگر سے ہٹ کر ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہوجاتی ہے۔خواب کی جزئیات سے واقف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خواب کی تعبیر بتانے والے شخص کا ذہن ساٹھ ہزار گنا رفتار سے سفر کرسکے۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے روحانی انسان کی تعریف بیان کی ہے کہ پندرہ منٹ تک روحانی آدمی کے پاس بیٹھنے سے اگر بارہ منٹ تک غیر اللہ کی طرف دھیان نہ جائے تو وہ آدمی روحانی ہے۔اللہ کے بندے کی پہچان یہ ہے کہ اس کی صحبت میں بیٹھ کر آدمی کا ذہن ماسوائے اللہ یکسو ہوجاتا ہے۔جب تک اللہ کے دوست کی مجلس میں آدمی موجود رہتا ہے اللہ کی خشیت کا عکس منعکس ہوتا رہتا ہے۔

دکھ ،سکھ،چین اور پریشانی،بیماری اور صحت،خوشی اور غم زندگی کی کڑیاں ہیں۔ساری زندگی ایک زنجیر کی طرح ہے اور زنجیر کی ہر کڑی زندگی کے لوازمات ہیں۔

ہر خوشی ایک وقفہ تیاری سامان غم

ہر سکون مہلت برائے امتحان و اضطراب

خوشی ایک وقفہ ہے اس بات کے لئے کہ اس کے بعد غم آنے والا ہے اور سکون مہلت ہے اس بات کے لئے کہ سکون کے بعد اضطراب اور پریشانی آنے والی ہے ۔ نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ انسان خوشی اور غم دونوں سے گذر جائے۔نور اور روشنی میں گم ہوکر انسان اس لذت کو حاصل کرلیتا ہے جو غم اور خوشی دونوں سے ماوراء ہے۔

حکیم جالینوس نے اپنے شاگردوں سے کہا ، فوراََفلاں دوا لاؤ۔شاگردوں نے حیرت سے کہا ،آپ کو اس دوا کی کیا ضرورت پیش آگئی۔وہ تو پاگل اور فاتر العقل لوگوں کو دی جاتی ہے۔حکیم جالینوس نے کہا وقت مت ضائع کرو،دوا لاکر دو۔مجھے راستے میں ایک پاگل ملا تھا۔تھوڑی دیر تک وہ مجھے پلک جھپکائے بغیر گھورتا رہا،اس کے بعد آگے بڑھا اور میرے کرتے کی آستین تار تار کردی۔میں نے غور کیا تو معلوم ہواکہ مخبوط الحواس شخص مجھے اپنا ہم جنس جان کر میری جانب ملتفت ہوا تھا۔حکیم جالینوس نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کی ،خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ جب دو آدمی آپس میں ملتے ہیں تو ان دونوں میں کوئی نہ کوئی قدر مشترک ہوتی ہے۔

کند ہم جنس باہم جنس پرواز

کوئی پرندہ دوسری جنس کے پرندوں کے غول کے ساتھ نہیں اڑتا۔میں نے صحرا میں کوے اور کلنگ کو بڑی محبت اور شوق سے پاس پاس بیٹھے دیکھاجیسے دونوں ایک جنس کے فردہوں ۔بہت سوچا مگر کوئی قدر دونوں میں مشترک نظر نہیں آئی۔ میں حیرت میں گم ،دبے پاؤں ان کے قریب گیا،انہیں دیکھا،دونوں لنگڑے تھے۔

اللہ تعالیٰ سب کچھ معاف کرتے رہتے ہیں۔معاف کرنا ان کی سنت ہے لیکن جب کوئی بندہ نظام قدرت کے اصولوں کی خلاف ورز ی کرتا ہے تو وہ ایسے چکر میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ہر امید روشنی بن کر ابھرتی ہے اور اس کا اختتام تاریکی اور مایوسی پر منتج ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ و اما ن میں رکھیں۔لاکھوں کا ڈھیر خاک ہوجاتا ہے،عزت و جاہ کی جگہ ذلت و خواری مقدر بن جاتا ہے۔بڑے بڑے بادشاہ بھکاری بن جاتے ہیں اور لاکھوں پتی کی تو حیثیت ہی کیا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا نظام ہے جو ہر وقت اور ہر آن جاری و ساری ہے۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کے اندر خود نمائی ،بڑائی، کبر اور خود ستائی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی مخلوق کو اپنے سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر والدین سے خلاف قدرت یہ عمل صادر ہوتا رہے اور وہ معافی تلافی سے پہلے مر جائیں تو اس کا نتیجہ اولاد کو بھگتنا پڑتا ہے۔اس لئے کہ اولاد ماں باپ کے ورثہ کی حقدار ہوتی ہے۔قانون قدرت اس طرز فکر کو تسلیم نہیں کرتا کہ ماں باپ کا چھوڑا ہوااثاثہ تو اولاد کو ملے اور ان کے اعمال کی سزا صرف ماں باپ بھگتیں۔جس طرح مال و دولت اور نیکی اور اس کا ثمرہ اولاد کے لئے ورثہ ہے اسی طرح ماں باپ کی برائیوں کے نتائج میں بھی اولاد برابر کی شریک رہتی ہے۔

شیخ سعدی کی ایک روایت ہے کہ ایک تاجر تھا اس کے پاس ایک طوطا تھا جو انسانوں کی طرح باتیں کرتا تھا۔تاجر کا دل اس کی باتوں سے خوش ہوتا تھا۔وہ طوطا اس کو بہت پیارا تھا۔ایک روز وہ کاروبار کے سلسلے میں کہیں باہر جانے لگا تو اس نے طوطے سے پوچھا کہ میں کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر جارہا ہوں واپسی میں تمہارے لئے کیا تحفہ لاؤں۔طوطے نے کہا اگر تمہارا گزر کسی جنگل میں سے ہو او ر تمہیں وہاں طوطوں کا کوئی غول نظر آئے تو انہیں میرا سلام کہہ دینا اور کہنا کہ تمہارا ایک ساتھی جو قفس میں بند زندگی کے دن گزار رہا ہے تمہیں سلام کہتا ہے۔

سوداگر سفر پر چلا گیا اس کا گزر ایک باغ میں سے ہوا تو اس میں بہت سارے طوطے موجود تھے۔طوطوں کا غول دیکھ کراسے یاد آیا کہ طوطے کا پیغام پہنچانا ہے۔سوداگر نے طوطوں کو مخاطب کرکے پنجرے میں قید طوطے کا پیغام دیا،پیغام کا سننا تھا کہ ایک طوطا پٹ سے زمین پر گرا اور مر گیا۔تاجر کو اس بات کا بہت افسوس ہوا۔واپسی پر اس نے سارا ما جرا اپنے طوطے کے گوش گزار دیا۔اتنا سننا تھا کہ وہ طوطا بھی پنجرے میں گرا اور مرگیا،تاجر کو اس کا بہت ہی افسوس ہوا۔اس نے پنجرے سے مردہ طوطا نکالا اور باہر پھینک دیا،آناََ فاناََ مردہ طوطے نے حرکت کی اور اڑ کر ایک اونچی شاخ پر جابیٹھا۔تاجر نے جب یہ دیکھا تو حیران ہوااور طوطے سے پوچھا بھئی !یہ تم نے کیا حرکت کی ہے ۔طوطے نے جواب دیا وہ طوطا جو پیغام سن کر گرا اور مرگیااس نے مجھے پیغام بھیجا ہے،مرکر ہی آزادی حاصل کی جاسکتی ہے۔اس واقعہ میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ جب تک تم اپنی انا میں ابلیسیت کو مار نہیں دوگے تمہیں قید و بندکی زندگی سے آزادی نہیں ملے گے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث ’’مرجاؤ مرنے سے پہلے‘‘ کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جب تک تمہیں اپنے نفس کا عرفان نصیب نہیں ہوگا،جب تک تم اپنی انا، اپنی ذات کی نفی نہیں کروگے ،زمان و مکان سے آزاد نہیں ہوسکتے۔بندہ جب اپنے شعوری علم کی نفی کردیتا ہے تو اس پر لاشعوری دنیا کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

بعض اوقات مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے میں آدمی کے اپنے نصیب کا عمل دخل ہوتاہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک صحابی حاضر ہوئے اور اپنے بھائی کے پیٹ میں تکلیف کا ذکر کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہد میں شفا ہے اسے شہد کھلاؤ۔چند دن بعد صحابی دوبارہ حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا،بھائی کے پیٹ میں درد ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہد میں شفا ہے اسے شہد کھلاؤ۔کچھ عرصے بعد صحابی نے آکر بتایا کہ بھائی کی تکلیف ختم نہیں ہوئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے شہد کھلاؤ،اللہ تعالیٰ نے شہد کو شفا بنایا ہے

اور نکلتی ہے ان کے پیٹ سے ایک چیز رنگ برنگ جس میں شفاء ہے۔القرآن

صحابی پھر تشریف لائے اور انہوں نے پیٹ میں درد کی شکایت کی ۔آنحضرت

صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ سچا ہے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔جاؤاسے شہد کھلاؤاور پیٹ کا درد ختم ہوگیا۔

پانی میں دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن ہے۔اگر اس کی مقدار کو ذرہ بھر گھٹا یا بڑھا دیا جائے تو ایک زہر تیار ہوگا۔اگر یہ دونوں عناصر مساوی مقدار میں جمع کردئے جائیں تب بھی ایک مہلک مرکب بنے گا۔آکسیجن اور ہائیڈروجن ہر دو قاتل اور مہلک گیس ہیں جن کے مختلف اوزان سے لاکھوں مرکبات تیار ہوسکتے ہیں اور ہر مرکب زہر ہلاہل ہوتاہے۔لیکن اگر دو حصے ہائیدروجن اور ایک حصہ آکسیجن کو ایک جگہ کردیا جائے تو ان دونوں زہروں سے جو پانی تیار ہوگاتمام عالمین کے لئے حیات و ممات کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ الانبیاء میں ارشادہے

اور ہم نے پانی سے ہر شے کو حیات عطاکی۔

سورۃ قمر میں ارشادہے

ہم نے ہر چیز کو معین مقداروں سے پیدا کیا۔

سورۃ حجر میں ہے کہ

ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم معین مقدار میں ہر چیز کو ناز ل کرتے ہیں۔

سبحان اللہ ،کیا کیا نشانیاں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر کرنے والوں کے لئے بتائی ہیں۔لیموں اور کالی مرچ دونوں چیزیں ہائیڈروجن دس حصے اور کاربن بیس حصے سے تیار ہوتے ہیں لیکن مقداروں کی تفاوت اور الگ الگ تعین سے دونوں کی شکل ،رنگ ، ذائقہ،حجم اور تاثیر بدل گئی۔اسی طرح کوئلہ اور ہیرا کاربن سے وجود میں آتے ہیں لیکن مقداروں کے الگ الگ تعین سے ایک کا رنگ کالا اور دوسرے کا سفید بن گیا ہے۔ایک قابل شکست اور دوسرا ٹھوس ہے،ایک کم قیمت اور دوسرا نایاب ہے،ایک نوع انسانی کو حیات نو عطا کرتا ہے اور دوسرا انگشتری میں زینت و زیبائش کے کام آتا ہے۔

اولیاء اللہ کے دل ہدایت،خلوص،ایثار ،محبت او ر عشق کے چراغ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کہ دشمنی رکھے خدا کے کسی دوست کے ساتھ بے شک اس نے اللہ کے ساتھ لڑائی کا ارادہ کیا۔دوسری جگہ ارشاد عالی ہے،مجھ کو اپنے فقیروں میں ڈھونڈوبس ان ہی کی بدولت روزی اور نصرت نصیب ہوتی ہے یعنی فقیر میرے دوست ہیں۔ میں ان کے پاس بیٹھتا ہوں اور وہ ایسے ہیں کہ ان کے طفیل تم کو رزق یا نصرت ملتی ہے۔

ایک روز امر ا ء عرب میں سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، ہمار ا دل چاہتا ہے کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوں لیکن یہ شکستہ حال اصحاب صفہ آ پ کے ہم نشین ہیں ۔اگر ہمیں تنہائی فراہم کردی جائے تو ہم آپ سے دینی مسائل حاصل کرلیا کریں گے۔

اللہ تعالیٰ دانا و بینا،علیم و خبیر ہے۔جیسے ہی یہ بات ان کے منہ سے نکلی،اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم! ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کریں جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں اور اس کی دید کے متمنی رہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے ان کے حساب میں سے کچھ اور نہ آپ کے حساب میں سے ان پر ہے کچھ کہ آپ ان کو دور کرنے لگیں۔پس ہوجائیں آپ ﷺبے انصافوں میں سے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ان فقراء کو تھوڑی دیر کے ہٹادیا جاتا تو عرب کے بڑے بڑے امراء مسلمان ہوجاتے لیکن اللہ کی غیرت نے اس کو پسند نہیں کیا کہ اس کے دوستوں کو کوئی حقارت سے دیکھے۔

کسی چیز کی تصویر الٹی ہوکر دماغ کے پردے پر گرتی ہے اور وہی آدمی دیکھتا ہے۔قانون یہ ہے کہ ایک منظر پندرہ منٹ تک دماغ کی اسکرین پر قائم رہتا ہے اور اس وقفے میں اس ایک منظر سے متعلق تمام تفصیلات معلوم ہوجاتی ہیں۔آنکھ سے منتقل ہوکر جہاں روشنی پڑتی ہے وہاں لیئرز ہوتی ہیں ۔پہلی لیئر کے عکس میں رنگ ہوتا ہے۔دوسری لیئر کے عکس میں تفصیل ہوتی ہے اور تیسری لیئر کے عکس میں ماضی سے متعلق حواددث و واقعات ہوتے ہیں۔

وہ روشنیاں جو باہر سے آنکھوں کے ذریعے دماغ پر منتقل ہوتی ہیں ان تمام مناظر کو مائکرو فلم سے اٹھاکر انلارج کرتی ہیں ۔جس سے دیکھنے والے کی آنکھیں ہر چیز کو تفصیل سے دیکھنے لگتی ہیں ۔اس عکس کو دیکھنے والے کا ارتکاز ذہن جس قدر ہوتا ہے اتنی ہی وہ تصویریں بڑی اور واضح ہوجاتی ہیں۔ان تصویروں میں ایک ترتیب ہوتی ہے۔اس ترتیب کو دیکھنے والی آنکھیں ان تصویر کو اپنے ذہن پر مرتکز کرلیتی ہیں اور ان میں انتخاب کرتی ہیں۔عام واقعات کو الگ اور حوادث کو الگ۔ حوادث جو ماضی میں ہوچکے ہیں جداگانہ مرتب ہوتے ہیں اور اس کا تعلق دیکھنے والے کی فراست سے ہے۔ وہ چہرے سے یہ اندازہ کرلیتا ہے کہ یہ ماضی ہے یا مستقبل۔

ماضی کی بڑی بڑی تصویروں کو بھی تصور بہت چھوٹا پیش کرتا ہے۔اس لئے حواس تصویروں کو جداگانہ ورق پر منتقل کردیتے ہیں۔ان میں اہم واقعات بہت چھوٹی تصویر پیش کرتے ہیں اور جو زیادہ اہم ہوں وہ اس سے بڑی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض چہرہ شناس لوگ چند واقعات صحیح بتادیتے ہیں وہ اس علم کو عام طور پرپامسٹری،جوتش ،رمل اور جفر وغیرہ کا نام دیتے ہیں ۔کچھ ہاتھوں کی لکیروں سے اندازہ لگاتے ہیں لیکن ہاتھوں کی لکیروں سے اندازہ لگانابھی چہرے کی لیئرز سے ہی تعلق رکھتا ہے۔

رمل والے عام طور سے پانسے پھینکتے ہیں اور اس گہرائی میں جانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان لیئرزمیں ہے۔یہی کوشش جوتشیوں کی ہوتی ہے جو اس کو ستاروں سے وابستہ کرتے ہیں ۔جفر والوں علم بھی یہی ہوتا ہے۔لیئرز کا ماضی اور مستقبل سے ارتباط ہے۔جب سننے، دیکھنے اور سوچنے کی حسیات یکساں ہوجاتی ہیں تو لیئرز سرخ رنگ کے نقوش میں رونما ہوتے ہیں ۔

یہ نقوش بہت مختصر ہوتے ہیں۔حواس یکجا ہوکر انہیں انلارج کرتے ہیں۔ان میں بہت سے واقعات عامیانہ ہوتے ہیں اور بہت سے حالات روز مرہ زندگی سے مربوط ہوتے ہیں اور بہت سے حوادث ہوتے ہیں۔ان حوادث پر توجہ مرتکز کرنا تصویر کی شکل میں پیش کرنا ہے۔ان تصویروں کو دیکھنے والا مستقبل کے حالات اور واقعات کا اندازہ لگالیتا ہے۔دراصل یہ ایک طرح کا مطالعہ ہے۔یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ ان تصویروں کا مطالعہ کرنے والے نے بالکل صحیح نتائج اخذ کئے ہیں۔اعلیٰ سے اعلیٰ فہم و فراست رکھنے والے حضرات کا نتیجہ بھی ۸۰ فی صد سے زیادہ درست نہیں ہوتا۔ان تصویروں سے سو فیصد درست نتیجہ صرف اہل شہود حضرات ہی نکال سکتے ہیں۔

قرآن میں تفکر رہنمائی کرتا ہے کہ تمام انبیاء کرام نے دین حنیف اور توحید باری تعالیٰ کا درس دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ رسولوں اور نبیوں کے پیروکاروں نے تعلیمات پر صحیح طور پر عمل نہیں کیا۔ مفادات کو پیش نظر رکھا اور پیغمبران کرام کی تعلیمات میں تحریف کردی۔ طریقت سے مراد یہ ہے کہ تعلیمات پر اس طرح عمل کیا جائے کہ اعمال کے اندر مخفی حکمتیں اور رموز سامنے آجائیں۔حضرت جنید بغدادی کے پاس ایک شخص آیا۔آپ نے پوچھا کہاں سے آنا ہوا۔جواب ملا، حج پر گیا تھا ،وہیں سے آیا ہوں۔حضرت جنیدنے پوچھا،اس وقت سے لے کر جبکہ تم نے اپنے گھر کو خیر باد کہا،کیا تم نے تمام گناہوں کو بھی خیر باد کہا تھا۔ اس شخص نے کہا،نہیں ایسا نہیں ہوا۔پھر تم نے کیسا حج کیا۔اچھا یہ بتاؤ کہ اس سفر کے دوران میں تم نے جس منزل پر بھی پڑاؤ کیا،کیا اس موقع پر تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کوئی منزل طے کیں۔۔۔نہیں پھر تم نے راہ حج کا سفر تو نہیں کیا۔اچھا یہ بتاؤ کہ جب تم نے مقام متعین پر احرام باندھا تو کیا تم نے اپنی ذات سے عام انسانی صفات کا جامہ بھی اسی طرح اتار پھینکا تھا جس طرح تم نے اپنا دنیاوی لباس اپنے جسم سے اتاردیا تھا۔۔۔نہیں

پھر تم نے احرام کہاں باندھا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ جب تم نے مقام عرفات میں قیام کیا تو کیا تم نے ایک لمحہ بھی خدا کی طرف کامل دھیان میں گزارا۔۔۔ نہیں

پھر تم نے عرفات کا قیام کہاں کیااور جب تم مذدلفہ گئے اور اپنی دلی مراد پالی تو کیا تم نے تمام جسمانی خواہشات کو اپنے سے الگ کردیا تھا۔۔۔نہیں

تو پھر تم مذدلفہ نہیں گئے اور پھر جب تم نے کعبتہ اللہ کا طواف کیا تو کیا اس خانہ پاک میں جمال خداوندی کا مشاہدہ کیا۔۔۔ نہیں

تو پھر تم نے درحقیقت کعبہ کا طواف ہی نہیں کیا۔جب تم نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو کیا کیا تم نے صفا (پاکیزگی) اور مروت (نیکی) کا مقام حاصل کرلیا۔۔۔نہیں

تو اس مطلب ہے کہ تم نے سعی نہیں کی ۔جب تم منٰی میںآئے کیا تمہاری تمام خواہش ختم ہوگئیں۔۔۔نہیں

تو پھر تم منٰی کہاں گئے اور جب تم مقام ذبح پر گئے اور قربانی دی تو کیا تم نے خواہشات جسمانی کی تمام صورتوں کو قربان کردیا۔۔۔نہیں

پھر تم نے قربانی نہیں کیاور جب تم نے کنکریاں پھینکنے کا عمل کیا تو جتنے دنیاوی معمولات تم سے چمٹے ہوئے تھے کیا ان سب کو اپنے سے الگ کرکے پھینک دیا۔۔۔نہیں ۔پھر تم نے کنکریاں نہیں پھینکیں اور حج کے شعائر ادا نہیں کئے۔واپس جاؤ اور اس طریقے پر حج کرو جس طریقے پر کہ میں نے تمہیں بتایا ہے تاکہ تم مقام ابراہیم تک پہنچ سکو۔

کینسر خون کو نقصان پہنچانے والا ایک مرض ہے۔اس کی وجوہات میں چند وجوہ یہ ہیں کوئی انسان جب ایک ،دو یا چند خیالات میں خود کر گرفتار کرلیتا ہے تو وہ برقی رو جو خیالات کے ذریعے عمل بنتی ہے زہریلی ہوجاتی ہے۔یہ زہریلی رو چونکہ خون کے اندر بھی زہر پیدا کردیتی ہے اس لئے اس رو کے عدم توازن کی بناء پر خون میں خوردبین سے بھی نظر نہ آنے والے وائرس بن جاتے ہیں ۔یہ کیڑے کسی ایک جگہ گھر بنالیتے ہیں ۔ وہ برقی رو جو زندگی کے مصرف میں آنی چاہئے ان کیڑوں کی خوراک بن جاتی ہے۔نتیجہ میں خوراک کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ جو برقی رو کے ساتھ خون میں دور کرتا ہے بجائے فائدے کے نقصان پہنچاتا ہے۔ان کیڑوں کی خوراک خون کے وہ ذرات ہوتے ہیں جو سرخ ذرا ت یا RBCکہلاتے ہیں ۔

رفتہ رفتہ مریض کے اندر سرخ ذرات ختم ہوکر سفید ذرات کی کثرت ہوجاتی ہے اور یہ جسم کے لےئے قابل قبول نہیں رہتے چنانچہ یہ سفید ذرات لعاب یا بلغم بن کر خارج ہونے لگتے ہیں اور اتنی مقدار میں خارج ہوتے ہیں کہ آدمی بالآخر ہڈیوں کاڈھانچہ بن کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

کینسر کی دوسری قسم یہ بھی ہے کہ زہریلے ذرات ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں۔ان کے جمع ہونے سے وہ رگیں کھل جاتی ہیں جو اس ذخیرہ کے قریب ہوتی ہیں ۔ نتیجہ میں خون کے نظام میں ایک بہت بڑا خلا واقع ہوجاتا ہے اوراس سے موت واقع ہو جاتی ہے۔یہ تو کینسر کے مظہرات یا ظاہری علامات ہیں ۔ علم روحانی کی رو سے کینسر ایک ایسا مرض ہے جو شریف النفس اور بااختیار ہوتاہے،سنتا ہے اور حواس رکھتا ہے۔

اگر اس سے دوستی کرلی جائے اور کبھی کبھی تنہائی میں بشرطیکہ مریض گہری نیند سورہا ہو۔ا س کی خوشامد کی جائے اور یہ کہا جائے’’ میاں کینسر!تم بہت اچھے ہو،بہت مہربان ہو،یہ آدمی بہت پریشان ہے،اسے معاف کردو،اللہ تمہیں اس کی جزا دے گا‘‘ تو کینسر مریض کو چھوڑدیتا ہے اور دوست داری کا ثبوت دیتاہے۔

علاوہ ازیں سرخ رنگ میں جو برقی رو دوڑتی ہے وہی کینسر کی خوراک ہے۔اس لئے خون کے سرخ ذرات کے اندر دور کرنے والی برقی رو کینسر کی خوراک بن جاتی ہے اور کینسر کا مریض زندگی کو قائم رکھنے والی برقی رو سے محروم ہوکر ختم ہوجاتا ہے ۔ چونکہ خون میں دور کرنے والی سرخ رنگ کی برقی رو ہی کینسر کی خوراک بنتی ہے، اس لئے اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مریض کے ماحول کو پوری طرح سرخ کردیا جائے ۔ مثلاََ جس کمرے میں مریض کا قیام ہے،اس کمرہ کی دیواریں ،دروازے اور کھڑکیوں کے پردے،پلنگ کی چادریں ، تکیوں کے غلاف حتیٰ کہ مریض کے پہننے کے کپڑے سب سرخ کردئیے جائیں۔

ایک رات دو صاحبان حضور قلندربابا اولیاء سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔میں نے ان سے عرض کیا،اس وقت بابا صاحب سے ملاقات ممکن نہیں ہے،رات زیادہ ہوگئی ہے۔میرے یہ کہنے پر ایک صاحب نے اپنا منہ کھول دیا۔میں یہ دیکھ کر گھبرا گیا کہ ان کا منہ خون سے لبالب بھرا ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے زمین پر خون تھو ک دیا۔حالت کیوں کہ غیر معمولی تھی میں نے ان صاحب کو بابا صاحب کی خدمت میں پیش کردیا۔

با با صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد وہی صورت پیش آئی،کہ ان صاحب نے منہ کھول کر دکھایا تواتنی دیر میں منہ پھر خون سے بھرا ہو ا تھا۔بابا صاحب کے پوچھنے پر ان کے ساتھی نے بتایا کہ ایک ہفتہ سے ان کو یہ بیماری لاحق ہوگئی ہے کہ منہ میں خون آجاتا ہے اور پھر یہ پانی کی طرح خون کی کلیاں کرتے ہیں۔ڈاکٹر خون کی بوتل چڑھاتے رہتے ہیں اور منہ سے خون خارج ہوتا رہتا ہے۔ابھی تھوڑی دیر ہوئی خون کی ڈرپ ختم ہوئی تھی کہ میں انہیں یہاں اٹھایا لایا۔بابا صاحب نے آدھے منٹ کے لئے غور فرمایا اور جو علاج تجویز کیا وہ یہ ہے کہ پرانے سے پرانا ٹاٹ لے کر اس کو جلا دیا جائے۔جب ٹاٹ اچھی طرح آگ پکڑ لے تو اس کے اوپر توا الٹادیا جائے۔تھوڑی دیر میں ٹاٹ کوئلہ بن جائے گا۔اس جلے ہوئے ٹاٹ کو کھرل میں پیس کر شہد ملایا جائے اور صبح شام رات تین وقت یہ شہد مریض کو چٹایا جائے۔

وہ دونوں صاحبان شکریہ ادا کرکے چلے گئے ۔میں کئی دن تک یہ سوچتا رہا کہ اس مریض کا کیا بنااور اس بات پر بار بار افسوس کرتا رہا کہ اگر میں پتہ پوچھ لیتا تو خیریت معلوم ہوجاتی۔چوتھے روز وہ دونوں صاحبان تشریف لائے،اب ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ اور بابا صاحب کے گلے میں ڈالنے کے لئے گلاب کا ہار تھا۔

جن حضرات نے علمائے باطن کے نصاب کے مطابق باطنی علوم سیکھے ہیں انہوں نے ان تمام چیزوں سے کنارہ کرلیاجو اس راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھیں۔ اس طرح ان کا ذہنی ، قلبی اور روحانی رابطہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قائم رہا۔

قرآن کہتا ہے’’جو لوگ ہماری راہ میں جد وجہد کرتے ہیں۔ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں‘‘۔جب ان لوگوں پر عرفان نفس اور معرفت الٰہی کے دروازے کھل گئے تو انہیں روحانی ادراک اور مشاہدات کی نعمتیں میسر آئیں۔َِ

صحابہ کرام سے تابعین تک،تابعین سے تبع تابعین تک اور تبع تابعین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز فکر کے حامل علمائے باطن حضرات نے عرفان نفس اور معرفت الٰہی کو مقصد زندگی بنانے کے لئے مجوزہ نصاب میں قرآنی احکامات کی روشنی میں اضافے کئے اور تقریباََ دو سو پچاس ہجری تک انبیاء کے وارث علمائے باطن روحانی تصرف اور وجدانی کلام کے ذریعے لوگوں میں روحانی شعور بیدار کرتے رہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس دور میں کم و بیش پچیس فیصد لوگوں میں روحانی شعور بیدار تھااور وہ مشاہدات کی دنیا سے واقف تھے۔

حضرت ابراہیم بن ادھم دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے اپنی گدڑی سی رہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا،شیخ ابراہیم!بلخ کی سلطنت چھوڑ کر آپ کو کیا ملا۔ حضرت ابراہیم بن ادھم نے سوئی دریا میں ڈالی اور آواز دی ،مچھلیو! میرے پاس ایک ہی سوئی ہے ۔

یہ تو اللہ کو معلوم ہے کہ آواز اس کنارے سے کہاں تک پہنچی لیکن اس شخص نے چشم دید سے دیکھا کہ ایک مچھلی گہرے پانی سے اچھلی اور حضرت ابراہیم بن ادھم کی گود میں آگری۔ حضرت نے اس کے منہ سے سوئی دھاگہ نکال لیا اور مچھلی کو دم سے پکڑ کو واپس دریا میں پھینک دیا۔اس قسم کے بے شمار واقعات کتابوں میں درج ہیں۔

اس طرح کے واقعات کا مطلب ہے کہ علوم باطنی حاصل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق سمٰوات ، زمین اور ان کے اندر جو کچھ ہے سب کا سب انسان کے لئے مسخر کردیا جاتا ہے۔

جتنے بھی رائج علوم موجودہیں ان کی ابتداء شعور سے ہوئی ہے۔دانشوروں کا ایک گروہ ہمیں دنیا وی علوم سکھاتا ہے۔دنیاوی علوم سے آراستہ کرتا ہے اور نئے نئے علوم نوع انسانی کے لئے تخلیق کرتا ہے۔دانشوروں کا دوسرا گروہ دنیاوی علوم کی افادیت کو قبول کرکے دونوں نامعلوم دنیاؤں کی مبادیات کو تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ دنیاوی علوم سیکھنے ،دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کرنے اور دنیاوی علوم سے استفادہ حاصل کرنے میں آدمی پیش پیش ہے۔جبکہ دونوں نامعلوم دنیاؤں کے علم سے وہ ناآشنا ہے۔

دانشوروں کا رویہ اس سلسلے میں جانبدارانہ ہے۔ جس شد و مد کے ساتھ دنیاوی علوم کے استفادے کے لئے ذہنی،جسمانی اور مالی ایثار کیا جاتا ہے اس کا عشر عشیربھی نامعلوم دنیاؤں کے علوم کو حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا جاتا۔ناقدر شناسی اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ غیب کے علوم سیکھنا جوئے شیر لانا ہے جبکہ دنیاوی علوم کا سیکھنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔

بالغ شعور ذہن اور سنجیدہ طبیعت لوگ یہ پوچھتے ہیں جب انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ علم سیکھے اور فطرت کے اس تقاضے کو اپنی استطاعت کے مطابق پورا بھی کرتا ہے تو نامعلوم یعنی غیب کی دنیا کے علوم سیکھنے میں کون سی دیوار حائل ہے۔

ہر انسان نومولود کی حیثیت سے قدم قدم آگے بڑھتا ہے اور ہر قدم اس کے لئے تجربہ ،مشاہدہ اور علم ہے۔ بیس سال کے انسان کا مفہوم یہ ہے کہ وہ بیس سال کے شب و روز کے ماضی کاریکارڈ ہے یعنی ایک گریجویٹ انسان کے اوپر ماضی کے بیس سال محیط ہیں۔ماضی کے بیس سال کو اگرٹکڑے ٹکڑے کرکے شب و روز میں تقسیم کیا جائے تو ۳۰۰،۷دن رات بنیں گے۔یعنی ۳۰۰،۷دن رات کے ماضی کے اوپر سے پھلانگ کر کوئی بچہ گریجویٹ بنتا ہے۔اگر اس تقسیم کو تقسیم در تقسیم کرکے گھنٹوں میں شمار کیا جائے تو ۲۰۰،۷۵،۱گھنٹے کا ماضی غیب میں چھپا تو آدمی گریجویٹ بنا۔

کوئی انسان دانشوروں کے دوسرے گروہ کی تقلید کرتے ہوئے اس دنیا سے پار دوسری دنیا کا ادراک کرنا چاہتا ہے اور وہاں کے علوم سیکھنا چاہتا ہے تو اسے بیس سال کی عمر سے پہلے دن کے شعور میں پلٹناپڑے گا۔یعنی کوئی آدمی پردے میں چھپے ہوئے ۲۰۰،۷۵،۱ گھنٹوں کو عبور کرکے اس دنیا کا علم سیکھ سکتا ہے جس دنیا سے وہ اس دنیا یعنی عالم ناسوت میں آیا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم مادی علوم سیکھتے ہیں تو ہمارے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ مادی علوم سیکھنے سے ہمارے اوپر آرام و آسائش کے دروازے کھل جائیں گے۔دروازے کھلیں یا نہ کھلیں یہ بالکل الگ بات ہے۔ساری دنیا امیر نہیں ہوتی اور دنیا کے سارے باسی غریب نہیں ہوتے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ شب و روز اپنے مرشد کریم حضرت خواجہ عثمان ہارو نی رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ میں بائیس سال رہے۔بائیس سال میں ۰۳۰،۸دن رات ہوتے ہیں ۔ایک مزدور کوآٹھ گھنٹے کے دو سو روپے ملتے ہیں۔تین شفٹوں کے چھ سوروپے ہوئے۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے دوسری دنیاؤں ، غیب کے علوم سیکھنے کے لئے ۰۰۰،۱۸،۴۸روپے کا ایثار کیا۔والدین،عزیز و اقرباء اور خاندان کو چھوڑنا اس کے علاوہ ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے جو دولت سرمدی عطا فرمائی ہے اس کے پیچھے چالیس سال کے ریاضت و مجاہدات ہیں۔حساب کتاب سے حضور قلندر بابا اولیاء نے غیبی اور روحانی علوم سیکھنے کے لئے ۰۰۰،۶۰،۸۷روپے کا ایثار کیا۔

ہر شخص روحانی علوم کے بارے میں یہ تصور کرتا ہے کہ یہ پھونکوں کا علم ہے۔پھونک ماردی دنیا روشن ہوگئی۔پھونک ماردی آدمی گریجویٹ ہوگیا۔کسی بزرگ کی پھونک لگ گئی Ph.Dکی ڈگری اس کے ہاتھ آگئی۔سوال یہ ہے کہ جب پھونک سے آدمی میٹرک نہیں کرسکتا توروحانی علوم کے سلسلے میں یہ خام خیالی کیوں جائز رکھی گئی ہے۔دنیا کا ہر کام محنت سے ہوتا ہے۔آدمی جتنی محنت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا صلہ عطا فرمادیتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، اور وہ لوگ جو میرے ہی لئے جد و جہد کرتے ہیں میں ان کو راستوں کی ہدایت ضرور دیتا ہوں۔

ترک دنیا یہ ہے کہ انسان دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے سارے لوازمات پورے کرکے اللہ کی طرف رجوع رہے۔آپ نے یقیناًبطخ کو دیکھا ہے۔بطخ ساری زندگی پانی میں رہتی ہے لیکن اس کے پر نہیں بھیگتے۔آپ ریل میں بھی سفر کرچکے ہیں۔کراچی سے پشاور سینکڑوں میل سفر کرتے ہیں لیکن مطلوبہ اسٹیشن آنے پر ریل کو چھوڑ دیتے ہیں،ریل کا آرام ،ریل کی تفریح مزاحم نہیں ہوتی۔

مسافر فائیو اسٹار ہوٹل میں حسب ضرورت قیام کرتا ہے۔وہاں ہر قسم کی آسائش ہوتی ہے ۔ہر شے گھنٹی بجانے پر مہیا ہوتی رہتی ہے۔گرمی اور سردی کا پورا خیال رکھا جاتا ہے لیکن ہوٹل چھوڑتے وقت آپ کو ذرا سا ملال نہیں ہوتا۔یہ ایک قسم کا ترک دنیا ہے جس سے ہر انسان گزرتا رہتا ہے۔جب کوئی بندہ دنیا کی نعمتیں بھر پور استعمال کرتا ہے اور یہ سوچ لیتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کے متعین کردہ حقوق پورے کردیتا ہے تو یہی ترک دنیا ہے۔ترک دنیا کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی بھوکا پیاسا مرجائے،اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل شدہ چیزوں سے فائدہ نہ اٹھائے ۔

ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادی کے ایک شاگرد نے حضرت سے پوچھا، حضرت ! ترک دنیا کیاہے۔ حضرت جنید بغدادی نے جوا ب دیا، دنیا میں رہتے ہوئے آدمی کو دنیا نظر نہ آنا۔شاگرد نے پوچھا، یہ کس طرح ممکن ہے۔ حضرت جنید نے مسکرا کر جواب دیا، جب میں تمہاری عمر کا تھا ،میں نے اپنے پیر و مرشد سے یہی سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا، آؤ بغداد کے سب سے مشہور بازار کی سیر کریں۔ چنانچہ میں اور شیخ بغداد کے مصروف ترین بازار کی طرف نکل گئے۔جیسے ہی ہم بازار کے صدر دروازے میں داخل ہوئے میں نے دیکھا کہ میں اور میرے شیخ ایک ویرانے میں کھڑے ہیں۔حد نظر تک ریت کے ٹیلوں اور بگولوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔میں نے حیرت سے کہا، شیخ ! یہاں بازار تو نظر نہیں آرہا۔

شیخ نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ جنید یہی ترک دنیا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے، دنیا میں سارے کام کرتے ہوئے دنیا میں انہماک نہ ہو۔ اون کے لبادے اوڑھ لینا،جو کی روٹی کھالینا، عالی شان مکانوں سے منہ سے موڑ کر جنگلوں میں نکل جانا ترک دنیا نہیں ہے۔

ترک دنیا یہ ہے کہ لذیذ ترین اشیاء بھی کھاؤ تو جو کی روٹی کا ذائقہ ملے،جو کی روٹی کھاؤ تو شیر مال کا ذائقہ محسوس ہو۔اطلس و دیبا اور حریر بھی پہنو تو ٹاٹ کا لباس محسوس ہو،اور ٹاٹ کا لباس پہنو تو اطلس و کمخواب محسوس ہو۔گنجان بازاروں اور خوبصورت محلات کے درمیان سے گزروتو بیاباں نظر آئے لیکن جنید ! یہ سب باتیں پڑھنے سے اور دوسروں کے سمجھانے سے اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئیں گی جب تک ترک دنیاکے تجربے سے نہ گزرو۔آؤ،اب گھر چلتے ہیں۔پھر جیسے ہی ہم اس ہولناک ویرانے سے گھر روانہ ہوئے ہم بغداد کے بارونق بازار کے صدر دروازے پر کھڑے تھے۔

شداد نے پہلے خدائی کا دعویٰ کیا اور پھر جنت کی تعمیر شروع کردی۔حیرت اس بات پر ہے کہ شداد کو کبھی خیال نہیں آیا کہ اس کی پیدائش کس طرح ہوئی، نو مہینے ماں کے پیٹ میں اس نے کون سی غذا حاصل کرکے نشونما پائی، پیدائش کے بعد خون کی بدلی ہوئی صورت ماں کا دودھ پیتا رہااور خدائی کا دعویٰ کرتے وقت اسے یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ ہر وقت اس کے پیٹ میں دو ڈھائی سیر پاخانہ بھرا رہتا ہے۔پیشاب کی حاجت اسے ہوتی ہے،پسینہ سے اسکے بد بو آتی ہے،نہاکر بالوں میں کنگھی نہ کرے تو کوئی اس کے قریب نہیں بیٹھ سکتا۔بہر حال اس ظالم اور جاہل اور ناشکرے انسان نے پہلے خدائی کا دعویٰ کیا۔اللہ کی مخلوق سے خود کو سجدہ کرایا اور ان لوگوں کے لئے جن سے وہ خوش تھا جنت بنانا شروع کردی۔جنت بناتے وقت اسے خیال آیا ہوسکتا ہے۔ میں جنت کو دیکھ ہی نہ سکوں ۔ جنت کی تعمیر پوری ہونے سے پہلے مرجاؤں تو اس نے محل سے نکل کر جنگل کی راہ لی۔

وہاں شاہی لباس اور قیمتی زیورات اتارکر معمولی کپڑے زیب تن کئے ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑایا۔ عاجزی اور انکساری سے بارگاہ ایزدی میں التجا کی،بار الہاٰ! میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ میری موت میرے چاہنے کے مطابق آئے۔

اللہ تعالیٰ بڑے ہیں اور بہت بڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا،مانگ ! کیا مانگتا ہے۔شداد نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا، میری موت اس طرح آئے کہ نہ میں بیٹھا ہوں ،نہ کھڑا ہوں،نہ لیٹا ہوں۔نہ چل رہا ہوں نہ گھر میں ہوں،نہ باہر ہوں نہ دروازے پر ہوں۔نہ اندر ہوں نہ خلاء میں ہوں۔نہ زمین پر ہوں نہ میں سواری پر ہوں۔ غرض یہ کہ اس نے اپنی دانست میں وہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیں جس سے اس کو یقین ہوگیاکہ اب میں مر نہیں سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں قبول فرمالیں۔شداد بڑا خوش ہوا کہ اب میں کبھی مر ہی نہیں سکتا ۔زیادہ سے زیادہ میرے بندے ہوں گے،میں ان کا خدا ہوں گا۔میں جس طرح چاہوں گا لوگوں پر حکم چلاؤں گا،جسے چاہوں گا قتل کروں گا،جسے چاہوں گا جنت میں بھیج دوں گا۔

قصہ کوتاہ،جنت تیار ہوگئی اور جنت کے معائنہ کے لئے ایک دن مقرر ہوگیا۔دبدبے اور پوری شان و شوکت سے حشم و خدم ،فوج اور درباریوں کے ساتھ جنت دیکھنے کے لئے گھوڑے پر سوار شداد صاحب خراماں خراماں محل سے باہر آئے۔جنت کے دروازے میں ابھی گھوڑے نے اگلے دو پیر رکھے تھے کہ گھوڑا اڑیل ٹٹو بن گیا۔اسے جب مارا پیٹا گیا ،لگام کھینچی تو گھوڑا منہ زور ہوگیااور دو ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔جب اس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ شداد گر کر نہ مر جائے تو رائے یہ ہوئی کہ شداد کو گھوڑے پر سے اتار لیا جائے۔

غلام آگے بڑھے ،شداد نے رکاب میں سے پیر نکالااورپیر غلاموں کے ہاتھوں پر رکھا۔ایک پیر غلاموں کے ہاتھوں پر تھا دوسرا پیر رکاب میں تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔یہ سب کچھ ہوا تو ملک الموت کو رحم آیااور ملک الموت نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا،یا اللہ ! آپ بڑے ہیں۔کائنات سے بھی بڑے،سب سے ہی بڑے ہیں۔اگر آپ اس کو جنت دیکھنے دیتے تو یہ حسرت میں نہ مرتا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا،تو جانتا ہے یہ کون ہے اور دیکھ زمین پر۔ ملک الموت نے دیکھا کہ پانی کا ایک بہت بڑا جہاز ہے ۔اس جہاز پربحری قذاق چڑھ دوڑے ہیں۔انہوں نے وہاں لوٹ مار کی۔اس لوٹ مار میں اور شور غوغا میں جہاز کا توازن برقرار نہیں رہااور مسافروں اور قذاقوں سمیت جہاز پانی میں غرق ہوگیاجہاز میں ایک نوزائیدہ بچہ بھی تھا۔اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے کہا ، اس بچے کو تختے پر لٹاکر سمندر میں چھوڑ دو۔ ملک الموت نے حکم کی تعمیل کی لیکن ساتھ ہی یہ خیا ل بھی آیا کہ یہ بچہ کیسے محفوظ رہے گا۔اللہ تعالیٰ نے کہا ، یہ وہی بچہ ہے جس کے بارے میں تجھے خیال تھا کہ یہ کس طرح زندہ رہے گا۔ہم نے اسکی حفاظت کی ،اس کی پرورش کی ،اس کو طاقت دی اور اس نے خدائی کا دعویٰ کرکے جنت بنالی اور دعا مانگی کہ اس کو موت نہ آئے۔اس نے ہمارے ساتھ مکر کیا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جنوں کا تذکرہ فرمایا ہے لیکن بہت مجمل ۔صرف اتنا فرمایا ہے، میں نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور جنات کو آگ سے۔جنات کی دنیا ہماری زمین کے گلوب کی حدود میں ہے ۔

جنات کی دنیا زمین سے تقریباً دس لاکھ چھپن ہزار فٹ اوپر خلاء میں ہے جہاں ماں کے بطن سے بچہ، انسانی اعداد و شمار کے مطابق نو سال میں پیدا ہوتا ہے۔ اس ہی اندازہ کے مطابق جنات کی عمریں ہوتی ہیں۔

کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ جنات نظر کیوں نہیں آتے تو ہم سوال کرنے کی جرأت کرتے ہیں کہ انسان کو وائرس کیوں نظر نہیں آتا، بیکٹریا کیوں نظر نہیں آتالیکن اگر کوئی Sensitive Device بنالی جائے تو اس سے بیکٹریا یا وائرس کا ادراک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر انسان مفرد لہروں کا علم حاصل کرلے تووہ جنات کو اور جنات کی دنیا کو دیکھ سکتا ہے۔

بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں جنات کی بستیاں آباد ہیں جو زیادہ تر ویرانے میں ہوتے ہیں۔ جنات کے بارہ طبقے ہیں اور یہ وہ طبقے ہیں جو ہماری زمین پر آباد ہیں ۔ ہر طبقے کے جنات الگ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی جگہ ایک ہی طبقہ آباد ہو۔کئی جگہیں ایسی ملتی ہیں جہاں جنات کے کئی طبقے آباد ہیں۔ ہر طبقے کی شکل و صورت میں فرق ہوتا ہے۔

ابدال حق حضورقلندر بابا اولیاء جنات کی دنیا سے متعلق حقائق پر ایک روئداد تحریر کروا رہے تھے کہ حضوری کا پیغام آگیا اور وہ روئداد مکمل نہیں ہوسکی۔ جو اس طرح سے ہے کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے مدرسے میں جس طرح انسانوں کے لڑکے پڑھتے تھے اسی طرح جنات کے لڑکے بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔مدرسے میں تعلیم پانے والے جنات کے لڑکوں کو سخت ہدایت تھی کہ وہ ہر گز کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے انسانوں کے لڑکے خوفزدہ ہوں۔ان میں زیادہ تعداد جنات کے ان لڑکوں کی تھی جو کالے پہاڑ کی تلہٹی میں آباد تھے۔ جہاں کئی طبقوں کے جنات رہتے تھے ۔

اکثر جنات تحفے تحائف لے کر اس غرض سے شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے کہ آپ ان کے بچوں کو مدرسے میں داخل کرلیں۔شاہ صاحب کی چند شرطیں تھیں اگر جنات کو وہ شرطیں منظور ہوتیں تو شاہ صاحب ان کے بچوں کو مدرسے میں داخل کرلیتے تھے اور اس طرح وہ بچے اسباق میں شریک ہوجاتے۔

اسباق کے علاوہ ان بچوں کے سپرد دیگر خدمات بھی ہوتیں تھیں کہ وضو کے لئے لوٹے بھریں ،سقاوے میں پانی کا انتظام کریں اور باقائدہ نماز باجماعت پڑھیں ۔ ایک روز عشاء کی نماز کے بعدچند لڑکے شاہ صاحب کی خدمت میں مصروف تھے ۔ شاہ صاحب نے کسی لڑکے سے فرمایا ، چراغ گل کردو۔ تیل ضائع ہورہا ہے اور تم لوگ اپنے اپنے گھر جاکر آرام کرو۔جہاں وہ لیٹے تھے چراغ اس جگہ سے کم از کم چھ گز کے فاصلے پر ایک کونے میں رکھا ہوا تھا۔ایک لڑکے نے وہیں سے ہاتھ بڑھا کر چراغ گل کردیا۔انسانوں کے لڑکوں نے یہ انہونی بات دیکھی تو ڈر کے مارے چیخنے لگے۔ شاہ صاحب نے اٹھ کر انہیں تسلی دی اور اس جن لڑکے کو بہت ڈانٹا ۔اس روز لڑکوں پر یہ بات منکشف ہوگئی کہ ہمارے ساتھ جنات کے لڑکے بھی پڑھتے ہیں۔

جب اتفاق سے لڑکوں پر یہ انکشاف ہوگیا کہ ہمارے ساتھ جنات بھی پڑھتے ہیں تو شاہ صاحب نے ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اس سے پوچھا کہ تونے ایسا کیوں کیاتو جن لڑکے نے جرات کرکے کہا،یہ سب میں دانستہ کیا ہے تا کہ چند لڑکے اس امر سے واقف ہوجائیں۔ نیز آج میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ کسی دن میرے گھر ماحضر تناول فرمائیں آپ میرے استاد ہیں میرا آپ پر حق ہے اس لئے میں نے یہ جسارت کی ہے۔اول تو شاہ صاحب کو بہت غصہ آیا مگر وہ بہت نرم مزاج تھے اس لئے خاموش ہو گئے لیکن وہ دعوت پر بضد رہا۔

شاہ صاحب کے مکان کی پشت پر ایک سوداگر رہتا تھا ۔یہ لڑکا جس سے یہ حرکت سرزد ہوئی تھی اس سوداگر کی لڑکی سے محبت کرتا تھا لیکن اس نے اس بات کو اب تک چھپا رکھا تھا اور رات دن اسی ادھیڑ بن میں مصروف رہتا تھا کہ کسی طرح استادمحترم کی تائید حاصل کرلے۔اسی غور و فکر میں کئی سال گزرگئے لیکن وہ اپنے ماں باپ سے نہیں کہہ سکا۔کافی عرصہ گزرنے کے بعد اس جن لڑکے نے اپنے ماں باپ سے کہا میں ہر قیمت پر شاہ صاحب کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ میرے ساتھ چل کر انہیں مدعو کریں۔اس نے بڑے خوشامدانہ لہجے میں رو رو کر یہ بھی کہا، مجھے سوداگر کی لڑکی سے والہانہ محبت ہے میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا آپ شاہ صاحب سے درخواست کریں کہ وہ سوداگر کے گھر والوں کو بھی ساتھ لائیں۔

لڑکے کی اس بات پر اس کے ماں باپ بہت برہم ہوئے ۔اسے مار پیٹ کر تنبیہہ کی مگر وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور اس نے کھانا پینا ترک کردیا۔یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ انتہائی نحیف اور لاغر ہوگیا اور اس کے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو ماں کے دل کا قرار ختم ہوگیا اور وہ بے ہوش ہوکر گر پڑی ۔باپ کے دل پر بھی چوٹ لگی اور اس نے اپنے لخت جگر سے کہا ، بیٹا!ہم سوچیں گے کہ کیا ترکیب ہوسکتی ہے اور ہم کس طرح شاہ صاحب کی خدمت میں اس نوعیت کی درخواست کریں ۔

لڑکے نے جب یہ مژدہ سنا تو اس پر سے نزع کا عالم ٹل گیا اور اس نے ایک عالم سرخوشی میں باپ کو جواب دیا،آپ کسی طرح کے تردد میں مبتلا نہ ہوں چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے میں اس قسم کی صورت حال پیدا کردوں گا کہ آپ کو بات کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے گی اور پھر ایک دن اس جن لڑکے نے سوداگر کی لڑکی کے سامنے خود کو ظاہر کردیااور وہ بھی اس طرح کہ لڑ کی کے علاوہ اسے اور کوئی نہ دیکھ سکے۔

لڑکی ا یک بار خوف زدہ ہوکر سہم گئی۔اس نے چیخ کر گھر والوں کو آواز دی اور بتایا کہ ایک خوبصورت لڑکا میرے سامنے کھڑا ہے اور مجھے اپنے پاس بلا رہا ہے۔ گھر والوں نے جزبز ہو کر کہا یہ تیرا وہم ہے یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ کس جگہ ہے، کہاں ہے، آخر ہمیں وہ کیوں نظر نہیں آتا۔لڑکی نے جھنجھلا کر کہا ، جھٹلانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ لوگ چاہتے ہیں میں وہم میں مبتلا ہوجاؤں اور یہ سمجھوں کہ میرا وہم یہ صورت بناکر میرے سامنے لے آیا جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔دیکھو! وہ لڑکا اب بھی میرے سامنے ہے ۔

سوداگر نے پہلے تو اس زمانے کے طبیب حاذق سے مشورہ کیا اور اپنی لڑکی کو حکیم صاحب کے پاس لے گیا ۔حکیم صاحب جو بھی سمجھنا چاہتے تھے اسے جانچا لیکن کوئی نشان ایسا موجود نہیں تھاجس سے اس لڑکی کا کسی طرح غیر متوازن ہونا ،پاگل ہونا ،یا وہمی ہونا ظاہر ہوتا ہو۔جب سب کچھ دیکھ چکے تو حکیم صاحب نے لڑکی سے سوالات شروع کئے، جرح کرتے ہوئے استفسار کیا ،تم نے کیا دیکھا ہے اور جو کچھ بھی دیکھتی ہو اس کی تفصیل پورے وثوق سے بیان کرتی چلو۔

لڑکی نے بتایا جس طرح آپ سامنے بیٹھے ہیں یہ ایک حقیقت ہے اس میں کسی واہمہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔بالکل اتنے ہی یقین اور اعتماد کے ساتھ میں کہتی ہوں کہ مجھے ایک بہت ہی خوبصورت لڑکا نظر آتا ہے ۔کبھی کسی لباس میں ہوتا ہے اور کبھی کسی اور لباس میں۔ اپنی وضع قطع کے لحاظ سے کوئی رئیس زادہ معلوم ہوتا ہے ۔

حکیم صاحب خدا کے لئے آپ میرے ساتھ چلئے ۔یہ سب کے سب مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں شاید آپ اسے دیکھ سکیں۔حکیم صاحب لڑکی کے کہنے کے مطابق سوداگر کے گھر گئے اور اس کمرے میں کافی دیر تک بیٹھے رہے اور اس لڑکی سے پوچھتے رہے۔

لڑکی اشاروں سے بتاتی رہی کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہے ۔اب وہ میرے قریب آرہاہے ۔اب وہ دیوار سے لگا ہو ا میری طرف دیکھ رہا ہے لیکن حکیم صاحب کو کچھ نظر نہیںآیا۔آخر حکیم صاحب نے یہ فیصلہ دیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو ا میں اس کا علاج کروں گا لیکن دورہ کی حالت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی۔آخر حکیم صاحب نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس لڑکی کا علاج ممکن ہے کوئی تعویز گنڈے والا کردے،میں تو عاجز آگیا ہوں ۔اب میرے پاس اس کے لئے کوئی دوا نہیں ہے۔محلہ کے چند آدمیوں نے سوداگر کو مشورہ دیا کہ تم شاہ عبدالعزیز کے پاس جاؤ،دیکھو وہ کیا کہتے ہیں ۔

شاہ صاحب نے یہ تو مناسب نہیں سمجھا کہ وہ لڑکی مدرسہ میں آئے البتہ وہ وقت نکال کے سوداگر کے یہاں تشریف لے گئے ۔لڑکی کو دیکھا۔اس سے باتیں کیں اور اس کا نام پوچھا۔جب شاہ عبدالعزیزاس کے گھراور اس کمرے میں تھے لڑکی بالکل ٹھیک اور ہوش وحواس میں رہی ۔اس نے لڑکے کے متعلق کچھ نہیں بتایا ۔اس نے کہا ، ایسا کسی کسی وقت ہوتا ہے لیکن اس وقت وہ لڑکا میرے سامنے نہیں ہے ۔شاہ صاحب نے اس کے باپ سے فرمایا کہ تمہاری لڑکی بالکل بھلی چنگی ہے بتاؤاب میں کیا کروں ۔اس کو اپنے کمرے میں کچھ نظر نہیں آتا۔اپنی لڑکی سے کہو کہ وہ اس لڑکے کو آواز دے تاکہ وہ لڑکا سامنے آئے ۔لڑکی نے جن لڑکے کو آواز یں دیں ۔اس کا نام لے کر بھی پکارا لیکن کوئی واقعہ ظہور نہیں ہوا۔ شاہ صاحب واپس آگئے وہ برابر سوچتے رہے کہ اگر کوئی جن اس لڑکی پر آتا ہے تو کس طرح معلوم کیا جائے ۔وہ اپنی جگہ بیٹھ کر اس معاملے کو گہرائی تک سوچتے رہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔اس کے بعد لڑکی غائب ہونا شروع ہوگئی وہ کئی کئی دن تک غائب رہتی اور پھر یا تو چھت پر سے اترتی نظر آتی یا لوگ دیکھتے کہ کسی کمرے میں سے باہر آرہی ہے۔

اب لوگوں نے لڑکی سے پوچھاکہ تو اتنے دن کہاں غائب رہتی ہے۔اس لڑکی نے صاف صاف بتادیا کہ مجھے جنات لے جاتے ہیں اور وہاں میری بہت تواضع کرتے ہیں مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے اورجب میرا دل گھبراتا ہے تو وہ مجھے یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ جس وقت میں وہاں نیند سے بیدار ہوتی ہوں ایک عورت مجھے وضو کراتی ہے ۔وضو کے بعد میں نماز ادا کرتی ہوں ۔تھوڑی دیر میں ناشتے کا وقت ہوجاتا ہے ۔ ناشتہ سے فارغ سے ہوکر کئی لڑکیاں جو میری ہم عمر ہیں قریب گھروں سے میرے پاس آجاتی ہیں ۔اگرچہ بعض اوقات میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ یہ لڑکیا ں جنات میں سے ہیں اور میں انسان ہوں پھر بھی کوئی غیریت میرے دل میں نہیں آتی ۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہی نسل اور ایک ہی قوم ہیں ۔ ہماری گفتگو بھی اسی طرح ہوتی ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میں نے اس لڑکے کو آج تک وہاں نہیں دیکھا ۔شاہ صاحب نے جب انہی دنوں اس جن لڑکے کو اپنے مدرسے میں نہ دیکھا اور چراغ گل کرنے کا واقعہ ان کے ذہن میں آیا اور اس جن لڑکے کا یہ کہنا کہ یہ کام میں نے دانستہ کیاہے اوراس کا مدرسہ چھوڑ دینا یہ سب چیزیں شاہ صاحب کے ذہن میں ٹکراتی تھیں لیکن ان تمام حالات میں کوئی چیز ایک دوسرے سے وابستہ نظر نہیں آتی تھی اور آپ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتے تھے۔

لڑکی کے غائب ہونے کی خبریں برا بر شاہ صاحب کے پاس آتی رہیں ۔ شاہ صاحب اس کے سد باب کے لئے غور و فکر کرتے رہے۔سوچتے سوچتے ان کے ذہن میں ایک ایسا جن آیا جو باغ کی دیوار کے نیچے خارش زدہ کتا بن کے پڑا رہتا تھا۔اس کتے کے بارے میں شاہ صاحب کو بالتحقیق بہت سی باتیں معلوم تھیں۔

شاہ صاحب نے سوداگر کو بلوایا اور اس سے استفسار کیا کہ اس کے پاس کچھ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں ۔سوداگر نے جواب دیا ایک تو میرا بہت پرانا ملازم ہے اس کے علاوہ ایک میرا ہم عمر دوست ہے یہ دونوں میرے لئے معتبر ہیں۔شاہ صاحب نے فرمایا میں یہی چاہتا ہوں اب تم ان دونوں میں سے ایک کو میرے پاس لے آؤ۔ساتھ ہی یہ فرمایا کہ دوروٹیاں خالص ماش کی دال پیس کر انہیں ایک طرف سے پکایا جائے اور کچی سمت میں گھی چپڑ دیا جائے اور ایک پرچہ لکھ دیا جس کی کئی تہیں کیں اور پرچے میں اتنی بڑی ڈوری باندھی جو کتے کی گردن میں آسکے۔

سوداگر جب روٹیاں اور اپنے وفادار ملازم کو لے کر حاضر خدمت ہوا تو شاہ صاحب نے روٹیاں دیکھیں اور وہ پرچہ ان کو دے کر فرمایا،باغ کی دیوار کے پاس ایک خارش زدہ کتا پڑا ہواہے۔ تم سیدھے اس کے پاس جاؤ ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔وہ کتا تمہیں دیکھتے ہی بھونکے گا اور کاٹنے کے لئے دوڑے گا اسی لمحے ایک روٹی اس کے ایک آگے ڈال دینا اور جب وہ روٹی کھانے میں مصروف ہو یہ پرچہ اس گردن میں باندھ دینا اور جب وہ یہ روٹی کھاچکے تو دوسری روٹی بھی اس کے آگے ڈال دینا جب وہ کتا باغ کی دیوا ر سے چلے تو اس کے پیچھے ہولینا ۔آخر چلتے چلتے وہ کتا کالے پہاڑ کے پیچھے میدان میں ایک مقام پر بیٹھ جائے گا وہاں تم دونوں بھی رک جانا اور اس بات کا انتظار کرنا کہ اس پرچے کا کیا جواب ملتا ہے اب یہ تمہاری ہمت ہے اور اس ہمت کی لازمی طور سے ضرورت بھی ہے کوئی زلزلہ آئے ،کسی قسم کا طوفان آئے ،ہواؤں کے جھکڑ اور آندھیاں چلیں تم اپنی جگہ جمے رہنا ۔شاہ صاحب کے ارشادکے مطابق سوداگر اور اس کے ملازم نے خارش زدہ کتے کو روٹیاں کھلائیں اور وہ پرچہ اس گلے میں باندھ دیا۔

وہ کتا وہاں سے چل پڑا اور الٹے سیدھے راستوں سے گزرتا رہا اور بالآخر کالے پہاڑ کے پیچھے والے میدان میں جاکر بیٹھ گیا اور چشم زدن میں شاہ صاحب کا لکھا ہوا وہ پرچہ اس کے گلے سے غائب ہوگیا۔تھوڑی دیر تک تو سوداگر اور اس کا ملازم سکون سے بیٹھے رہے اور کتا بھی ساکت و جامد رہا ۔لیکن ابھی انہیں بیٹھے ہوئے چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ آسمان و زمین زلزلے کی طرح لرزتے ہوئے محسوس ہوئے اور خوفناک آوازیں آنے لگیں۔دونوں پریشان ہوکر چاروں طرف دیکھنے لگے لیکن انہیں کچھ نظر نہیں آیا ابھی وہ ان خوفناک آوازوں کی سمت متعین نہ کرپائے تھے کہ آندھی کے ساتھ ایک بگولہ اٹھا جو گرد و پیش کو لپیٹ میں لے کر تمام ماحول کو تاریک کرگیا۔

تھوڑی دیر بعد آندھی اور زلزلہ اور طوفان ختم ہوگیا اور چاروں طرف کی فضاء صاف ہوگئی توکیا دیکھتے ہیں کہ نہ وہ پہاڑ ہے نہ وہ میدان ہے بلکہ اب انہیں ایک خوبصورت شہر دکھائی دیا ۔جو بہت بڑی آبادی پر مشتمل تھا۔بڑے بڑے مکانات تھے کشادہ سڑکیں تھیں اور عام طور سے جیسے بڑے شہروں میں محلے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح یہ شہر بھی محلوں میں تقسیم تھا۔ ابھی یہ شہر کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا ، تمہارے مقدمے کی پیشی ہے ۔چلو عدالت میں فیصلہ ہوگا۔پہلے تو یہ ڈرے پھر انہیں شاہ صاحب کا قول یاد آگیا ۔انہوں نے سوچا اب جو کچھ بھی ہو مقدمے میں تو پیش ہونا ہی ہے ۔جب انہوں نے شاہ صاحب کا لکھا ہوا پرچہ اس آدمی کے ہاتھ میں دیکھ لیا تو انہیں کچھ اطمینان ہوا۔یہ دونوں اس شخص کے ساتھ ہولئے ۔عدالت نے پرچہ پڑھ کر حکم جاری کیا کہ اس جن کو پیش کیا جائے جس کے خلاف یہ شکایتی پرچہ شاہ صاحب نے لکھا ہے ۔کورٹ انسپکٹر نے پرچہ الٹ پلٹ کر دیکھا اور کہا ، حضور ہمیں اس شخص کو تلاش کرنا پڑے گا اس لئے ہمیں مہلت دی جائے۔

عدالت نے کہا ،شاہ صاحب تو اس مقدمے کا فیصلہ فوراََ چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ جس جن سے یہ حرکت سرزد ہوئی ہے اسے ان کے سامنے پیش کیا جائے ۔ پیش کار نے جواب دیا ،ہمارے یہاں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ کسی جن کو پکڑ کر انسانوں کے حوالے کردیا جائے ۔جنات کا معاملہ تو ہم ہی طے کرسکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جس جن نے یہ حرکت کی ہے وہ خود کو ضرور چھپائے گا ،ظاہر نہیں کرے گااور جنوں کی سی آئی ڈی کے تعاون کے بغیر اس کا پتہ چلانا ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ معزز عدالت اس جن کے ذریعے جس نے شاہ صاحب کے قاصد کے فرائض انجام دئے ہیں مناسب جواب لکھ بھیجے۔تا کہ شاہ صاحب کسی حد مطمئن ہوجائیں کہ ان کا مقدمہ عدالت میں پہنچ چکا ہے اور زیر تفتیش ہے ۔

چنانچہ پیش کار نے عدالت کی طرف سے ایک رقعہ لکھا جس میں مختصر طریقے پر ہر بات لکھی گئی اور اس کواسی طرح لپیٹ کر جس طرح شاہ صاحب نے لپیٹا تھا اس جن کو دے دیا گیا جو اس رقعے کو لایا تھا ۔پھر شاہ صاحب کے اس پرچے کی کئی نقلیں تیار کی گئی جو جنوں کی سی آئی ڈی کو دے دی گئیں اور یہ تاکید کردی گئی کہ جلد از جلد اس جن کا پتہ چلائیں جس نے یہ حرکت کی ہے ۔سوداگر اور اس کاملازم اپنے طور پر ان تمام خاطر ومدارات کے باوجود پریشان تھے اور اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ ان کے سامنے کوئی کاروائی نہ ہوئی۔انہیں اس بات کا بھی علم نہ ہوسکا کہ شاہ صاحب کے پرچے پر کیا کاروائی ہورہی ہے اور اس کاجواب کس طرح دیا جائے گا۔بہر کیف ان دونوں حضرات کی الجھن روز بروز بڑھتی جارہی تھی ۔آخر ان دونوں نے یہ طے کیا کہ کسی راستے سے بھاگ چلو لیکن جب کبھی یہ شہر میں نکلتے اور فرار کا پروگرام بناتے تو نہ کوئی دروازہ ملتا ،نہ کوئی ایسا اشارہ ہاتھ آتا جس کے ذریعے وہ شہر سے باہر جاسکیں البتہ شہر کے اندر گھومنے پھرنے کی انہیں آزادی تھی ۔

ایک روز مجبور ہوکر ان دونوں حضرات نے خدمت گاروں کو ایک درخواست دی ۔جس میں لکھا گیا تھا کہ انہیں ان کے شہر واپس پہنچادیا جائے ۔شام کو خدمت گار اجنہ کا افسر اعلیٰ شاہی مہمان خانے میں آیا اور نرم الفاظ میں گویا ہوا، ایسی کسی درخواست کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو آپ کو شہر سے نکالنے پر مبنی ہو۔ میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اس مقدمے کے سلسلے میں انتہائی مثبت کوششیں جاری ہیں ۔ امید واثق ہے اس مقدمے کا فیصلہ جلد از جلد ہوجائے گاپھر آپ آزاد ہیں ۔آپ ہمارے مہمان ہیں ،قیدی ہرگز نہیں ہیں ۔آپ مدعی ہیں فی الحال مشکل یہ ہے کہ بغیر تحقیقات کے یہ فرض کرلینا بعید از انصاف ہوگا کہ سارا قصور اسی جن کا ہے جس پر اس حرکت کا الزام ہے وہ ایک فریق ہے تو دوسرا فریق آپ صاحبان ہیں ۔

چند دن کے بعد سوداگر اور اس ملازم کو عدالت میں پیش کیا گیااور عدالت کے پیش کار نے شاہ صاحب کا لکھا ہوا پرچہ پڑھ کر سنایا۔ اس میں تحریر تھا،میرا ہمسایہ سوداگر اور اس کا ایک ساتھی جنہیںآپ کی خدمت میں خدمت میں پیش ہونا ہے ان دونوں سے آپ مفصل روئداد سن سکتے ہیں جو اس مقدمہ کے سلسلے میں ضروری ہے ۔اول تو یہ ہے کہ انسانوں میں یا جنات میں آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا اس کے باوجود سوداگر کی لڑکی کو اغوا کیا گیا ہے ۔

دوسری ایک بات اور زیر غور ہے اور میرے نزدیک اس کا سامنے رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ جس دن سے لڑکی غائب ہوئی یا غائب ہونے کا سلسلہ شروع ہواہے میرا ایک جن شاگرد بھی لاپتہ ہے ۔بظاہر ان دونوں کڑیوں کا تعلق ایک دوسرے سے یقینی ہے ۔میری درخواست ہے کہ اس جن کا پتہ چلائیں جو مدرسے میں پڑھتا تھا اور پڑھتے پڑھتے یکایک غائب ہوگیا۔

ممکن ہے میرا خیال صحیح ہو اور ہوسکتاہے کہ بالکل صحیح نہ ہو بلکہ تقریباََ صحیح ہو یہ جرم غائب ہونے والے جن نے خود کیا ہے یا دوسرے جنات کو اس جرم میں شامل کرکے یہ واردات کی ہے۔

خط پڑھا جاچکا تو عدالت نے کہا اب آپ حضرات اپنا اپنا بیان قلم بند کرائیں اس پر سوداگر نے کہا ،میری لڑکی پردہ دار ہے ،نہ ہی اسے شہر سے باہر جانے کا کبھی اتفاق ہوا ہے ۔ اگر ضرورت پڑے تو وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ جاتی ہے اوروہ بھی زیادہ سے زیادہ بازار تک۔دوسری بات یہ ہے ہمارے گھر میں صرف وہ اعزہ آتے ہیں جن سے کوئی پردہ نہیں ہے اور ان کے سامنے لڑکی چھوٹی سے جوان ہوئی ہے۔ جب ہم یہ معاملہ شاہ صاحب کے سامنے لے گئے تو انہوں نے بہت دیر تک آنکھیں بند کرکے مراقبہ کیا لیکن اس قسم کا کوئی شبہ ظاہر نہیں کیا کہ لڑکی کو اغو ا کرنے والے انسان ہیں اس لئے ہمیں اس بات کا کلی یقین ہے کہ یہ کام بجز اجنہ کسی اور نے نہیں کیا۔ یہ کہہ کر سوداگر خاموش ہوگیا۔

 

 

 

O یہی واقعہ تفصیلاً کتاب ’’احسان وتصوف‘‘ میں شائع ہوچکا ہے۔

 

روایت ہے کہ یمن میں ایک قبیلہ آباد تھا جس کا سردار حاتم طائی تھا۔حاتم طائی کی سخاوت کے ضمن میں ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے۔روم کے بادشاہ کے دربار میں ایک دن حاتم طائی کی سخاوت کا تذکرہ تھا۔حاتم طائی کی تعریف سن کر بادشاہ بولا، جب تک کسی آدمی کو خودآزمایا نہ جائے اس وقت تک اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا خلاف عقل و شعور ہے۔

بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ تم خود جاؤ اور حاتم طائی کی سخاوت کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کرو اور اس سے کوئی ایسی چیز طلب کرو جو اس کی نظر میں سب سے زیادہ قیمتی ہے۔دربار میں سے ایک درباری نے کہاحاتم طائی کے لئے سب سے زیادہ عزیز اور سب سے زیادہ قیمتی صبا رفتارایک گھوڑا ہے۔بادشاہ کو درباری کی یہ بات پسند آئی اور اس نے وزیر سے کہا تم خود حاتم طائی کے پاس جاؤ اور اس سے اس کا گھوڑا مانگو۔اگر وہ گھوڑے کا ایثار کردیتا ہے تو حاتم طائی یقیناًسخی ہے۔

روم سے چلا ہوا یہ وفد منزلیں طے کرتا ہوارات کے وقت حاتم طائی کے گھرپہنچا۔جس وقت یہ وفد وہاں پہنچا موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ایسے خراب موسم میں گھر سے نکلنا بھی ممکن نہیں تھا۔مہمانوں کے کھانے کا انتظام کرنا امر محال اور مشکل کام تھالیکن حاتم طائی نے میز بانی کا حق ادا کیا اور مہمانوں کی تواضع اور آرام و آسائش کا پو راپورا انتطام کردیا۔دستر خوان پر لذیذ بھنا ہوا گوشت کھاکر مہمان خوش ہوئے اور انہوں نے اپنے اندر سفر کی تھکان کی جگہ توانائی محسوس کی اور گہری نیند سوگئے۔

صبح کے وقت بارش تھم چکی تھی۔فضا گرد و غبار سے صاف تھی۔ہوا خنک آلوداور دل خوش کن تھی۔ناشتہ کے دوران وزیر نے مہمان نوازی اور اظہار تشکر کے بعد آنے کا مقصد بیان کیا۔وزیر نے کہا ہمارے بادشاہ کو آپ کے گھوڑے کے بارے میں بہت کچھ بتایا گیا ہے۔گھوڑے کی تعریف سن کر بادشاہ چاہتا ہے کہ آپ اپنا گھوڑا بادشاہ کی خدمت میں نذر کردیں۔

وزیر کی بات سن کر حاتم افسوس کے ساتھ ہاتھ ملنے لگا اور بہت افسردہ ہوکر بولا،اگر آپ گھوڑا ہی لینے آئے تھے تو یہ بات آتے ہی مجھے بتادینی چاہئے تھی لیکن اب میں مجبور ہوں اس لئے کہ میرا پیارا گھوڑا اس دنیا میں نہیں ہے۔

آپ کو پتہ ہے کہ پوری رات طوفانی بارش برستی رہی ۔میرے لئے ممکن نہیں تھا کہ اتنے سارے لوگوں کے طعام کا انتظام کرسکوں۔یہ بھی ممکن نہ تھا کہ چراگاہ یا گاؤں سے ضیافت کے لئے کوئی جانور منگواسکتالہٰذا میں نے گھوڑے کو ذبح کردیا اور اس کا بھنا ہواگوشت دستر خوان کی زینت بن گیا۔وزیر حاتم طائی کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا۔بادشاہ کو جب یہ سارا واقعہ سنایا گیا تو اس نے بھی حاتم طائی کی سخاوت کی تعریف کی۔

حضرت بابا فرید گنج شکر کا مشہورواقعہ ہے کہ حضرت کی والدہ صاحبہ مصلے کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیتی تھیں۔حضرت بابا فرید بچپن میں مصلے پر بیٹھ کر اللہ سے دعا کرتے تھے، اللہ میاں مجھے شکر دیں اور مصلیٰ اٹھاکر دیکھتے تھے کہ شکر کی پڑیا مصلے کے نیچے رکھی ہوئی ہے۔ایک روز باہر دوستوں نے شکر کھانے کی خواہش کا مطا لبہ کیا ۔

فرید مسعود گنج شکربھاگے بھاگے گھر میں گئے اور مصلیٰ اٹھاکر لے آئے ۔مصلے پر بیٹھ کر دعا کی اور مصلیٰ اٹھا یا تو اس کے پیچھے شکر موجود تھی۔سب دوستوں میں تقسیم کی اور خود بھی کھائی۔

شیخ عبدالقادر جیلانی کی والدہ نے ان کی تربیت اس طرح کی تھی کہ بیٹا جھوٹ نہیں بولتا تھا۔جب ڈاکوؤں نے پکڑااور انہوں نے پوچھاتمہارے پاس کچھ ہے تو انہوں نے بتادیا کہ میری واسکٹ میں روپے ہیں جو اماں نے سی دئیے تھے۔ڈاکوؤں کا سردار اس بے مثال تربیت اور سچ کی وجہ سے تائب ہوگیا۔

دنیا میں جتنے لوگ آباد ہیں ان کاتعلق مخصوص روایات اور مخصوص طرز فکر سے ہے۔یہی طرز فکر آدمی کا کردار بن جاتی ہے۔کردار کے تعین میں دو طرزیں کام کررہی ہیں۔ایک یہ کہ آدمی شیطان بن جاتا ہے اور دوسری طرز یہ کہ آدمی محبت کے سائے میں سراپا محبت بن جاتا ہے۔نفرت اور تفرقہ شیطانی گروہ کا سرمایہ ہے ۔محبت ،خدمت اور ایثار رحمانی گروہ کی متاع زیست ہے۔رحمانی گروہ کے اوپر خوف اور غم مسلط نہیں ہوتا۔یہ گروہ عدم تحفظ کے احساس سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اللہ اس کی احاطہ کرلیتا ہے۔ یہ پیغمبرانہ وصف یا پیغمبرانہ طرز فکر جب بندے کے اندر متحرک ہوجاتی ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کوئی شے براہ راست موجود نہیں ہے اورہر چیز کا وجود اللہ کی حاکمیت پر قائم ہے۔سارے جہانوں کا بادشاہ اللہ ہے ۔

اگر آپ ،اپنے خالق سے متعارف ہوکراس کی قربت اختیار کرکے کائنات میں ممتاز ہونا چاہتے ہیں تو اللہ کی مخلوق کی خدمت کیجئے۔بلاشبہ اللہ کی مخلوق سے محبت رکھنے والے لوگ اللہ کے دوست ہیں اور دوست پر دوست کی ہمیشہ نوازشات ہوتی ہیں۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مجلس میں تشریف فرما تھے۔ ایک اونٹ حضور ﷺ کے پاس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا، یہ اونٹ اپنے مالک کی شکایت کر رہا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اونٹ کو اس کے مالک سے خرید لیا۔

روحانی نقطۂ نظر سے جب کوئی بچہ بطن مادر سے زمین کی بساط پر آتا ہے تو اس کے اندر پانچ ہزار سال تک کی عمر گزارنے کے لئے روشنیوں(کیلوریز)کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ جس کو وہ اپنی نادانی ،جھوٹے وقار، خود نمائی اور اعتدال سے ہٹ کر دنیاوی دلچسپیاں قائم کرکے اتنا زیادہ خرچ کردیتا ہے کہ پانچ ہزار سال کی عمر ساٹھ یاسترسال کی عمر بن جاتی ہے ۔یعنی پانچ ہزار سال زندہ رہنے والا آدمی اپنی عمر کا اسراف بے جا کرکے ساٹھ سترسال میں زندگی کا ذخیرہ ختم کردیتاہے۔

انسان کے اچھے اور برے اعمال کا عکس چہرے میں منتقل ہوتا رہتاہے اور جو بندہ جس قسم کے کام کرتا ہے اسی مناسبت سے اس کے چہرے پر تاثرات مرقوم ہوتے رہتے ہیں۔نفسیات داں یہ بات جانتے ہیں کہ ہر انسان روشنیوں سے مرکب ہے اور روشنی کی یہ لہریں انسان کی ہستی سے غیر محسوس طریقے سے نکلتی رہتی ہیں۔

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ایک پریشان حال ،مصیبت کے مارے اور غم کی چکی میں پسنے والے آدمی کے چہرے پر پریشانی اور غم و آلام کے پورے پورے تاثرات موجود ہوتے ہیں۔یقیناًآپ نے ایسے بھی آدمی دیکھے ہیں کہ ایک آدمی خوش باش لوگوں کے ہجوم میں داخل ہوتا ہے تو ساری محفل افسردہ اور پراگندہ دل ہوجاتی ہے اور یقیناًاس دنیا میں ایسے پاکیزہ نفس حضرات بھی موجودہیں کہ ان کے وجود سے خوشی ،مسرت اور سکون قلب کا بھرم پایا جاتا ہے۔اپنی تصویر سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے سب کاموں سے فارغ ہونے کے بعد رات کو سونے سے پہلے قد آدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوجائیے۔

چند منٹ آنکھیں بند کرکے یہ تصور کیجئے کہ میری زندگی کے پورے اعمال کا ریکارڈ میرے اندر موجود ہے اور میں اس ریکارڈ یا اپنے اندر موجود فلم کو دیکھ رہا ہوں ۔ آنکھیں کھول لیجئے اور آئینہ کے اوپر بھر پور نظر ڈالئے ۔اگر آپ کا چہر ہ روشن ہے،چہرہ پر نور ہے، معصومیت ہے اور چہرے کے خد وخال میں مسکراہٹ کی لہریں دور کررہی ہیں تو بلاشبہ آپ نیکی کی تصویر ہیں۔

اگر آپ کا چہرہ سوگوار ہے،خشک ہے،چہرے پر نفرت وحقارت کے جذبات موجودہیں ،کبر و نخوت کے آثار ہیں اور آپ کاچہرہ خود آ پ کو برا لگتاہے توآپ برائی کی تصویر ہیں ۔ قانون فطرت یہ ہے کہ انسان کے ہر عمل کی فلم بنتی رہتی ہے اور ہر آدمی کی اپنی اس فلم کے لئے اس کا اپنا چہرہ اسکرین ہے ۔کراماََ کاتبین کی بنائی ہوئی فلم انسانی چہرہ پر چلتی رہتی ہے۔

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!مجھے شہد چاہئے۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،عثمان کے پاس چلے جاؤ۔جب یہ شخص حضرت عثمان کی خدمت میں پہنچا تو وہاں بہت سارے اونٹ بیٹھتے ہوئے تھے۔گیہوں کی بوریاں لادی جارہی تھیں۔ایک بوری کا منہ کھل کر چند کلو گیہوں زمین پر گر گیا۔حضرت عثمان نے جب یہ دیکھا تو انہوں نے اپنے ملازم سے باز پرس کی اور اس کوڈانٹا ڈپٹاکہ یہ گیہوں زمین پر کیوں گرا ہے۔شخص مذکور یہ دیکھ کر واپس رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شہد چاہئے ۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پھریہی ارشاد فرمایا ،عثمان کے پاس جاؤ۔اس نے ساری روئداد سنادی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جاؤ تو سہی،تم جاکر شہد مانگو تو۔یہ شخص دوبارہ حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوااور ان کے ملازم سے شہد مانگا۔ملازم نے حضرت عثمان سے کہا کہ اس آدمی کو شہدچاہئے۔

حضرت عثمان نے فرمایا اسے شہد دے دو۔ملازم نے برتن مانگا، شخص مذکور نے کہا میرے پاس برتن نہیں ہے۔ملازم نے پھر حضرت عثمان سے عرض کیا ، حضور ! اس کے پاس شہد لینے کے لئے برتن نہیں ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا شہد کا کپا اٹھادو(ایک کپے میں تقریباََ ڈیڑھ کنستر شہد آتا ہے)۔سائل نے کہا میں کمزور آدمی ہوں، اتنا زیادہ وزن نہیں اٹھا سکتا۔ملازم پھر حضرت عثمان کے پاس پہنچا اورعرض کیا ایک کپا شہد اٹھانا سائل کے لئے ممکن نہیں ہے۔حضرت عثمان کو ملازم کی بار بار مداخلت ناپسند آئی ،ذرا تیز لہجے میں فرمایا اونٹ پر لاد کر دے دواور سائل اونٹ اور شہد لے کر چلاگیا۔یہ واقعہ بیان کرکے حضور قلندر بابا اولیاء نے فرمایا ،مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ ہر مسلمان دولت مند بننا چاہتا ہے لیکن کوئی آدمی حضرت عثمان کے طرز عمل کو اختیار کرنا نہیں چاہتا۔

میں نے حضور قلندر بابا اولیاء سے ایک روز سوال کیا کہ سب کے ساتھ بشری تقاضے ہیں ،کمزوریاں ہیں،مجبوریاں ہیں۔پھر ہر شخص کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ تو انہوں نے مجھے تین باتیں بتائیں کہ ان تینوں کو اختیار کرکے آدمی ہمیشہ خوش رہ سکتا ہے۔ فرمایا ،پہلی بات یہ ہے کہ جو تمہارے پاس ہے اس کا شکر ادا کرو،جو تمہا رے پاس نہیں ہے اس کاشکوہ نہ کرو۔

دوسری بات یہ ہے کہ جد و جہد کرو،اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ میں کسی کی کوشش رائیگاں نہیں کرتا۔ان دونوں باتوں کو ملائیں تو یہ فارمولہ بنتا ہے کہ بالفرض آپ کے پاس ریڈیو ہے ،ٹی وی نہیں ہے۔آپ ریڈیو پر شکر ادا کریں اور ٹی وی کے لئے جد و جہد شروع کردیں ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو چیز پاس ہے اس کا شکر ادا کرو ،جو نہیں ہے اس پر شکوہ نہ کروبلکہ اس کے لئے جد و جہد اور کوشش کرو۔پھر فرمایا کہ تیسری بات یہ ہے کہ کسی سے توقع قائم نہ کرو۔

برسوں پرانی بات ہے ایک بزرگ تھے جن کاسلسلہ سہروردیہ سے تعلق تھا۔پڑھے لکھے ،تعلیم یافتہ شخص تھے۔ایک روزداتا صاحب کے مزار پر حاضری دی۔ صاحب مراقبہ تھے،داتا صاحب کی زیارت ہوئی ۔سلام دعا کے بعد عرض کی کہ میں فلاں کام کرنا چاہتا ہوں کرلوں اور کیا مجھے فائدہ ہوگا۔

داتا صاحب نے فرمایا،ہاں کرلو۔ان صاحب نے یہ کیا کہ گھر کی جمع پونجی اکھٹی کی اور دوست احباب سے بھاری قرض بھی لے لیا۔سب سے کہہ دیا ، جب داتا صاحب نے کہہ دیا ہے تو فائدہ تو ضرور ہوگا۔جو کام ایک لاکھ روپے کا تھا وہ پندرہ بیس لاکھ روپے سے کیا۔

ظاہر ہے آدمی دنیا میں رہتا ہے تو لالچ بھی آجاتا ہے پھر داتا صاحب کا سہارا مل گیاتھا۔ہوا یہ کہ سارا کیا کرایا الٹ ہوگیا۔اتنا بڑا نقصان ہوا کہ اپنی رقم گئی سوگئی، الٹا ادھار قرض چڑھ گیا۔وہ صاحب، داتا صاحب سے ناراض ہوگئے اور لاہور جانے کے باوجود ان کے مزار پر حاضری نہیں دی۔

ان کے پیر صاحب بھی لاہور ہی میں مقیم تھے جب وہ داتا صاحب کے ہاں گئے تو داتا صاحب نے فرمایا کہ وہ ہم سے اتنا ناراض ہوگیا کہ ہمارے مزار کے سامنے سے گزر گیا اور ہمیں سلام تک نہ کیا۔

پیر صاحب نے کہا حضور ! اس نے آپ سے مشورہ کے بعد اپنا سارا سرمایہ اور ادھار قرض جمع کرکے لگادیا۔داتا صاحب نے فرمایا، جب ہم نے کہا یہ کام کرلو تو ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ اللہ تعالیٰ سے ہم دعا کریں گے۔اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہیں ہماری قبول فرمالیں گے۔ہم نے اللہ سے دعا کی مگر اللہ نے قبول نہ کیا۔اللہ مالک،خود مختار اور عالم الغیب ہیں ۔انہیں سب معلوم ہے ۔جس وقت اس نے ہم سے دعا کے لئے کہا تھا اس وقت اس کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی زیور فروخت کردوں گا یا دوست احباب سے قرض بھی لے لوں گا۔اس نے لالچ کیا ۔ فقیر کی دعا سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔

اگر دس ہزار میں دوہزار کا فائدہ ہوسکتا ہے تو بزرگ سے مشورے کے بعد آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں کاروبار ایک لاکھ سے کیوں نہ کروں جبکہ اس کام کی مالیت اتنی نہیں ہے، نقصان تو ہونا ہی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دعا قبول کرتے ہیں تو کام ہوتاہے ورنہ نہیں۔دنیا میں کوئی ایسا روحانی بزرگ نہیں ہے جس نے یہ کہا ہو کہ میں جو چاہے کرسکتا ہوں۔وہ یہی کہتا ہے کہ ہم دعا کریں گے ،تم بھی دعا کرو ،محنت کرو تو انشاء اللہ کام ہوجائے گا۔

سقراط افلاطون کا مرشد ہے اور ارسطو کا مرید ہے۔سقراط نے اپنی ساری زندگی باتوں میں گزاردی اور باتوں ہی باتوں میں ایسا فلسفہ چھوڑ گیا جس سے آنے والی نسلیں دو ہزار سال سے استفادہ کررہی ہیں۔دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جو زیور علم سے آراستہ ہو اور یونان کے ان تین مفکرین کو نہ جانتا ہو۔سقراط کے فلسفے میں یہ صداقت پنہاں ہے کہ ہر آدمی کا وجود اس کے باطن کے تابع ہے۔

سقراط کا باپ سنگ تراش تھا۔وہ کسی خوبصورت پارک کے لئے فوارے کا منہ شیر کی شکل کا بنارہا تھا۔اس نے سنگ مرمر کا ایک گول ٹکڑا لے کراسے تراشنا شروع کردیا۔چوکور، نوکیلی اور تیز میخوں سے پتھر پر ضرب لگائی تو آہستہ آہستہ پتھر میں سے شیر کا منہ نمودار ہوا،پہلے منہ بنا پھر چپٹی ناک بنی اوراس کے بعد شیر کی خوفناک آنکھیں ظاہر ہوئیں۔سقرا ط بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔وہ جانتا تھا کہ اس کے باپ نے برسوں ریاضت کی ہے اور یہ ریاضت کا ہی نتیجہ ہے کہ پتھر میں سے شیر نکل آیا ۔سقراط نے اپنے والد بزرگوار سے پوچھا،آپ کو کس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ تیشہ کہاں کہاں رکھیں اور اس پر کتنی سخت یا نرم چوٹ لگائیں۔

باپ نے کہا، یوں سمجھو کہ شیر بنانے اور پتھر میں سے شیر باہر نکالنے کے لئے ہمیں پتھر کے اندر شیر دیکھنا پڑتا ہے۔جب ہم پتھر کے اوپر اپنی پوری توجہ مرکوز کردیتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ پتھر کی تہہ در تہہ کے نیچے شیر قید ہے۔جتنے یقین کے ساتھ ہم پتھر کی سطح میں شیر کو دیکھ لیتے ہیں اسی مناسبت سے تیشہ پر ہاتھ کی گرفت کم یا زیادہ ہوجاتی ہے۔پتھر کے اندر شیر کی کھوپٹری سخت ہے جبکہ پتھر کے اندر شیر کی آنکھ نرم و نازک ہے۔ہمارے اندر ہمارا وجود ہمیں بتاتا رہتاہے کہ کون سا عضو کتنی ضرب برداشت کرسکتا ہے اور ازخود ہاتھ کی حرکت کم و بیش ہوجاتی ہے اور پتھر میں قید شیر آزاد ہوجاتا ہے۔

سقراط کی تعلیمات کوسامنے رکھ کر سوچا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شیر پرت در پرت پتھر کے اندر ہے ۔پتھر میں سے شیر باہر لانے کے لئے نقشہ ،سنگ تراش کے دماغ میں ہے۔دنیا کی نظر میں سقراط ایک فلسفی ہے اور فلسفے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اندھے لوگ اندھیرے میں ایک کالی بلی کو ڈھونڈرہے ہیں۔

بڑی عجیب بات ہے کہ عقل و دانش کے دعویدار لوگ ہر اس بات کو جو عقل کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی اسے کالی بلی کہہ دیتے ہیں جو اندھیرے میں اندھوں کو نظر نہیں آتی لیکن اس سے بھی بڑا طرفہ تماشہ یہ ہے کہ فلسفے کے بغیر عقل و دانش کی تکمیل نہیں ہوتی۔کون نہیں جانتا کہ ایک شاندار عمارت تعمیر کرنے کے لئے پہلے سے نقشہ موجود نہ ہو تو شاندار عمارت تو کجا معمولی عمارت بھی نہیں بنتی لیکن کوئی بصیرت سے اندھا فرد عقل ود انش سے یہ سوال نہیں کرتا کہ عمارت کا نقشہ کہاں ہے ،نقشہ کس طرح بنا، کاغذ پر دیواروں کے خطوط کیسے قائم ہوئے۔

چھ ارب انسان کہتے ہیں ظاہر الوجود۔پانچ ارب ننانوے کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار نوسو ننانوے لوگوں کے برعکس ایک فلسفی کہتا ہے کہ عقل کیوں تسلیم نہیں کرتی ظاہر الوجود فانی ہے اور باطن الوجود کو بقاء ہے ۔ کیا ایک کم چھ ارب انسان اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ مصور کو موت چاٹ جاتی ہے اورسنگ تراش مٹی کے ذرات میں مل کر مٹی بنتا رہتا ہے۔سوچنا یہ ہے کہ شداد کی جنت اور نمرود کی ایجادات کہاں ہیں۔فراعین مصر کے اہرام تو ابھی تک نوحہ کناں ہیں کہ ہمارے خداؤں کی میوزیم میں جگہ جگہ ٹکٹ لگا کر تذلیل کی جارہی ہے۔بادشاہ نہیں ہوئے بند ر کا تماشہ بن گئے۔تفکر جھنجھوڑتا ہے،دنیا میں ظاہر الوجود کا ڈرامہ اور باطن الوجود کی حقیقت ،نکلتے سورج اور ڈوبتے آفتاب کے ساتھ ہمارے اوپر عیاں ہوتی رہتی ہے۔

یہ دنیا کیا ہے،ایک اسٹیج ڈرامہ ہی تو ہے۔ مختلف افراد اپنے اپنے کردار کا مظاہرہ کرکے گمنام ہورہے ہیں اور سیریل ڈرامہ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتاکیونکہ ڈرامے میں سے ایک اور نیا ڈرامہ ظاہر الوجود کے ساتھ ڈسپلے ہورہا ہے۔فلسفے کی موشگافیوں سے قطع نظر اگر باطن الوجود نہیں ہوگا تو ظاہر الوجود کہاں سے ظاہر ہوگا۔باطن الوجود کیا ہے۔

باطن الوجود۔۔۔برکھا رت ہے

باطن الوجود ۔۔۔شاعر کا تخیل ہے

باطن الوجود ۔۔۔مصور کی شاہکار تصویر ہے

باطن الوجود ۔۔۔پتھر کے اندر قیدی شیر کو آزاد کرنے کا عمل ہے

ظاہر الوجود ،باطن الوجود سے ہمیشہ دست و گریباں رہتا ہے

اس جنگ میں سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا

اس جنگ میں سرمد کا سر قلم ہوا

اس جنگ میں منصور حلاج نے سنگسار ہو کر قیمت چکائی

اس جنگ میں ابراہیم بن ادھم نے بادشاہت چھوڑ دی

اس جنگ میں بدھاصاحب جنگ ہار کر امر ہوگئے

کوئی مانے یا نہ مانے،ظاہر الوجود عقل کی بھٹی میں بھسم ہورہا ہے ۔یہی عقل اگر باطن الوجود سے ہم رشتہ ہوجائے تو چھ ارب انسان زمین پر سلگتی اور بھڑکتی ہوئی آگ سے محفوظ ہوجائیں گے ۔کومل ،معصو م بچوں اور ہمارے نونہالوں کو ابدی سکون حاصل ہوجائے گا۔

حضور قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں ایک لڑکی کو پیش کیا گیاجو پیدائشی طور پر گونگی اور بہری تھی۔جن لوگوں نے حضور قلندر بابا اولیاء کو قریب سے دیکھا ہے وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مزاج میں احتیاط بہت تھی اور وہ کرامات سے طبعاََ گریز فرماتے تھے۔اس دن نامعلوم کو ن سا وقت تھا کہ حضور بابا صاحب نے لڑکی کو مخاطب کرکے فرمایا ، تیرا نام کیا ہے۔ظاہر ہے گونگی بہری لڑکی کیا جواب دیتی،خاموش رہی۔دوسری دفعہ آپ نے پھر فرمایا ،بتا تیرا نام کیا ہے۔لڑکی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔تیسری بار انہیں جلال آگیا۔سخت جلال کے عالم میں مارنے کے سے انداز میں ہاتھ اٹھایا اور فرمایا، بتا تیرا نام کیا ہے اور لڑکی نے بولنا شروع کردیا۔میرا اندازہ ہے اس وقت لڑکی کا سن سولہ ،سترہ کا ہوگا۔

عقل و دانائی کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو اس نقطے پر ذہن ٹہر جاتا ہے کہ عقل کہاں سے آتی ہے،عقل کا ماخذکیا ہے،عقل کہاں پیدا ہوتی ہے ،عقل کیا پیداہوکر پھیلتی ہے، سمٹتی ہے،محدود ہوتی ہے یا محدودیت کے دائرے میں قید اور مجبور محسوس کرتی ہے۔سوچنے والے بہت کچھ سوچتے ہیں،نہیں سوچنے والے کچھ بھی نہیں سوچتے۔ایک بچہ ایک سال سے چار سال تک کس طرح سوچتا ہے اور وہی بچہ چار سے بارہ سال کی عمر تک زندگی کو کس طرح سمجھتا ہے اور یہی بچہ بارہ سا ل سے اٹھارہ سال کی عمر تک زندگی گزارنے میں کیا تدابیر اختیار کرتا ہے اور اٹھارہ سال کی عمر سے ساٹھ سال کی عمر تک معاشرے کی ذمہ داریوں کو جس میں شادی بیاہ ،اولاد،والدین کے حقوق ،قوم کے حقوق کو کس طرح سمجھتا ہے،کس طرح پورے کرتا ہے۔پورے کرتا ہے یا خود غرضانہ زندگی کو اپنا نصب العین بنا لیتاہے۔

ان عوامل پر یونیورسٹیوں میں بہت سارے لیکچرز دیئے جاتے ہیں، بہت ساری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں،ڈگریاں ملتی ہیں،لوگ Ph.D کرتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب کسی یونیورسٹی نے نہیں دیا کہ عقل کیا ہے، کہاں سے آتی ہے اور اگر کسی آدمی کے اندر عقل نہیں ہوتی تو کیوں نہیں ہوتی۔

بہت آرام سے کہہ دیا جاتا ہے کہ پڑھنے لکھنے اور مطالعہ کے ذوق سے آدمی کے اندر عقل آجاتی ہے،آدمی دانشور بن جاتا ہے لیکن ایسا سو فیصد نہیں ہے۔ہم اس بات واقف ہیں کہ بعض کم پڑھے لکھے لوگ Ph.D ڈاکٹرز اور پروفیسر صاحبان سے زیادہ سمجھ بوجھ کی بات کرتے ہیں۔سارے Ph.D کالج اور یونیورسٹی میں پڑھانے والے تمام پروفیسرز یکساں ذہانت نہیں رکھتے ۔

اگر پڑھنے لکھنے ،مطالعے کے شوق سے ذہانت حاصل ہوجاتی تو آج کی دنیا میں سارے لوگ غالب،ذوق ،مومن ،علامہ اقبال نظر آتے جبکہ ان معزز او ر علم و فضل والے لوگوں کے مقابلے میں اور حضرات بھی ایسے ہیں کہ جنہوں نے زیادہ علم حاصل کیا اور جن کا مطالعہ زیادہ وسیع ہے۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بہت زیادہ غور طلب ہے کہ

ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے ،اس کے والدین اسے یہودی ،عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق،فطرت میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اور جس دنیا میں نامعلوم مقام سے آتے ہیں اس میں دوباتیں قابل توجہ ہیں ۔ جب بچہ اس دنیا میں پہلا قدم رکھتا ہے تو وہ دراصل ایسے مقام میں داخل ہوتا ہے جس کا اپنا ایک ماحول ہے،اس ماحول کی پہلی سیڑھی محدودیت ہے۔

پیدائش کے بعد ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچہ جس لامحدود مقام سے آیا ہے اس لامحدود مقام کو بھول گیا ہے۔لامحدود مقام کی لامحدود صفات اس کے اندر موجود ہوتی ہیں۔جیسے جیسے بچہ محدودیت میں زندگی بسر کرتا ہے اسی مناسبت سے محدودیت کا پردہ تہہ در تہہ موٹا ہوتا رہتا ہے اور لامحدودیت اس پردے کے پیچھے چھپتی رہتی ہے ۔پردہ کتنا ہی موٹا اور دبیز ہوجائے لیکن سوچ اور فکر کی بساط لامحدود یت ہی رہتی ہے۔محدود ددنیاکے محدود حساب کے تحت میٹرک تک کا وقت تقریباََ چالیس ہزار گھنٹے بنتا ہے یعنی ہمارا بچہ اپنی زندگی کے چالیس ہزار گھنٹے گزار کر صرف اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرسکے اسے معاش کے لئے کو ن سا شعبہ اختیار کرنا ہے۔زیادہ تر شعبہ کے اختیار میں سرپرست کا عمل دخل ہوتا ہے۔

جب بچہ دنیا داری کو سمجھنے لگتا ہے،کاروبار کرتا ہے یا ملازمت اختیار کرتا ہے توتقریباََ بائیس سال کی محدودیت اس کی رہنمائی کرتی ہے ۔وہ اس محدودیت کو مزید استعمال کرکے زندگی گزارتا ہے اور اس زندگی کو کامیاب زندگی قرار دیا جاتا ہے۔لامحدود حواس کے تحت مذہب یا مذاہب عالم کی تعریف یہ ہے کہ انسانی ذہن لامحدود اور محدود حواس کو سمجھتا ہواور آدھی زندگی لامحدود حواس میں اور آدھی زندگی محدود حواس میں گزرتی ہو۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، میں تمہارے اندر ہوں ،تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں ہو۔

آدمی کی شان بھی نرالی شان ہے ۔وہ کہتا کچھ ہے،سمجھتا کچھ اور ہے۔ ایک طالب علم کو والدین ،کالج یا یونیورسٹی کے ہاسٹل میں بھیجتے ہیں ۔وہ بچہ چارسال ، پانچ سال، ماں باپ سے الگ،معاشرے کی ذمہ داریو ں سے آزاد ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرتا ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ بچہ نے علم حاصل کیا ہے۔ ایسا علم جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکتا ہے ،پیٹ کا ایندھن اکھٹا کرسکتا ہے،بیوی بچوں کو پال سکتا ہے ۔دوسرے باپ نے اپنے بیٹے کو طالب علم کی حیثیت سے خانقاہ کے ہاسٹل میں بھیج دیا تاکہ وہ محدود علوم کے ساتھ ساتھ لامحدود علوم بھی حاصل کرے۔خاندان کے افراد کہتے ہیں بچے کو راہب بنادیاہے جبکہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔بتائیے،اس کا مطلب کیا ہوا۔ہماری دانست میں مطلب یہ ہوا کہ ہم لامحدود اورلا شعوری علوم سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔چوں کہ اس زمانے میں لڑکیوں کو حقارت سے دیکھا جاتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی بنت زینب کو گود میں لے کر یا کاندھے پر بٹھاکر نماز قائم فرماتے تھے۔جب رکوع میں جاتے تو ایک طرف بٹھادیتے تھے اور جب قیام فرماتے اٹھاکر گود میں بٹھالیتے تھے۔

حضرت انس کہتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ کھیلا کرتے تھے ۔ ابو عمیر نے ایک بلبل پال رکھی تھی اور اس سے اسے بہت محبت تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرمایا کرتے تھے،اے عمیر ! بلبل کیسی ہے،اس کا کیا حال ہے۔ام خالد بنت خالد کہتی ہیں کہ ایک دن میں اپنے والد کے ساتھ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔میں اس وقت زرد قمیض پہنے ہوئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا یہ بہت اچھی ہے،بہت اچھی ہے۔پھر میں آپ ﷺکی پشت میں جاکر مہر نبوت سے کھیلنے لگی۔میرے والد نے مجھے ڈانٹا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد سے فرمایا ، اسے کھیلنے دو۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب مکہ تشریف لائے تو حضرت عبدالمطلب کے بچے آپ ﷺ کے استقبال کے لئے بھاگے ہوئے آئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے ان میں سے ایک کو اپنے آگے اور دوسرے کو اپنے پیچھے سوار کرلیا۔

مکہ میں ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص جنات سے ملاقات کرنا چاہتا ہے آج رات میرے پاس آجائے۔ ابن مسعود رضی تعالیٰ عنہ کے سوا اورکوئی نہیں آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر مکہ کی ایک اونچی پہاڑی پر پہنچے اورحصار کھینچ کر فرمایا کہ تم حصار سے باہر نہ آنا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کھڑے ہو کر قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح گھیر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بیچ میں چھپ گئے۔ جنات کے گروہ نے کہا کہ تمہارے پیغمبر ہونے کی گواہی کون دیتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ درخت گواہی دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخت سے پوچھا میں کون ہوں۔ درخت نے گواہی دی کہ آپ اللہ کے فرستادہ بندے اور آخری نبی ہیں۔ یہ دیکھ کر سارے جنات ایمان لے آئے۔

ایک روز حضور قلندر بابا اولیاء نے اللہ کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ مجھے شوق پیدا ہواکہ اللہ کو دیکھنے والے، اللہ کی ذات کا عرفان رکھنے والے جو بندے ہیں، میں ان کی ایک فہرست بناؤں کہ کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کو دیکھا ہے۔ اللہ سے باتیں کی ہیں،انہیں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل ہواہے۔

پھر دیکھوں کہ کتنے حضرات قدس ایسے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو ایک ہی روپ میں دیکھا ہے۔مثلاََ یہ کہ حضرت خواجہ غریب نوازنے اللہ تعالیٰ کو کس جلوے میں دیکھا،داتا صاحب نے اللہ تعالیٰ کو کس روپ میں دیکھا،بری امام صاحب نے اللہ تعالیٰ کو کس رنگ میں دیکھا۔قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں، میں اس کام میں لگ گیا اور میں نے ایک لاکھ سال میں جتنے بھی اولیاء کرام اللہ تعالیٰ کے عارف گزرے ہیں ان سب سے ملاقات کی ۔سب سے پوچھا جناب، آپ نے اللہ تعالیٰ کو کس روپ میں دیکھاتو ایک لاکھ سال میں جتنے بھی عارف ذات اولیاء اللہ گزرے تھے ان میں سے دو بندے بھی ایسے نہیں ملے جنہوں نے اللہ کو ایک ہی روپ میں دیکھا ہو۔ہر بندے نے اللہ تعالیٰ کو مختلف روپ میں پایا۔یہ دیکھ کر مجھ پر ایک دیوانگی اور پریشانی طاری ہوگئی اور جب میں بے حال ہوگیاتو میرے بڑے نانا حضرت نجم الدین کبری ٰکی روح مبارک ظاہر ہوئی اور انہوں نے مجھ سے فرمایا،پاگل ہوجائے گا،اس بات کو چھوڑ دے،ایسی کوششیں بہت سے لوگ کرچکے ہیں۔کھربوں سال گزر گئے جتنے بھی اللہ کے عارف بندے گزرے ہیں ہر ایک نے اللہ کو الگ روپ میں دیکھا ہے۔

ایک طالب علم جو باشعور ہے اور دوسرے علم میں اعلیٰ مہارت رکھتا ہے ۔جب روحانیت کا علم حاصل کرنا چاہے گا تو اس کے اندر بچے کی افتاد طبیعت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ روحانیت میں اس کی حیثیت ایک بچے سے زیادہ نہیں۔امام غزالی بہت بڑے فقیہہ،بہت بڑے اصولی،بہت بڑے متکلم،مدرس، مصنف، واعظ اورمناظر تھے۔اپنی فکر کی بلند پروازیوں کی وجہ سے ایک مکتبہ فکر کے بانی تھے۔شہرت و عزت کے جس مقام پر امام غزالی پہنچے یہ مقام آدم کی اولاد میں چند خوش نصیبوں کو ملا ہے۔

انہیں اپنے عہد کی سب سے بڑی حکومت کے فرمانروا،کرتا دھرتا وزیر،نظام الملک طوسی کی نگاہوں میں نہایت قدر و منزلت حاصل تھی۔زرنگار ریشمی عبا اور چوغے ان کا لباس تھا۔غزالی کے گھر میں ایک خوبصورت باغ تھا۔جس گھوڑے پر غزالی سوار ہوتے تھے ا س کی لگام،رکاب ،زین کی قیمت ہزار سال پہلے پانچ سو اشرفی تھی۔غزالی کے دوست الفارسی نے لکھا ہے فطرتاََ غزالی بڑے تند خو،تنگ مزاج آدمی تھے۔عام آدمیوں کو حقارت سے دیکھتے تھے۔نخوت و خود پسندی کا جذبہ غالب تھا۔قوت گویائی ،ذہنی فکر اور دلیل پر ان کو بڑاناز تھا۔علم کا

یہ حال تھا کہ مناظروں میں ان کے شاگرد کہتے تھے پہلے ہم سے بات کرو ۔اگر ہم تمہیں مطمئن نہ کرسکے پھر غزالی کے پاس جانا۔

ابن جوزی نے لکھا ہے جب غزالی پہلی مرتبہ بغداد میں آئے تو ان کا حال یہ تھا کہ جتنے القاب و آداب ان کے نام کے آگے پیچھے لگائے جاتے تھے وہ ان کو کم خیال کرکے چاہتے تھے کہ لوگ ان القاب و آداب میں اور اضافہ کریں۔امام غزالی نے علم فقہ، اصول فقہ و کلام، منطق و فلسفہ، تصوف و اخلاق پر عربی اور فارسی زبان میں پچاس بہترین کتابیں لکھی ہیں۔ ان کتابوں میں چالیس جلدو ں پر مشتمل قرآن کی تفسیربھی ہے۔

غزالی نے جب ظاہر ہ علوم کی بلندیوں کو چھو لیا تو انہیں خیال آیا کہ ظاہرہ علوم کے علاوہ بھی دوسرے علوم ہیں ان کو بھی دیکھنا چاہئے ۔اس زمانے کے فقراء کے پاس گئے اور دس سال اس تلاش و جستجو میں سیاحی کی اور تھک کر بیٹھ گئے اور فیصلہ کیا کہ علوم باطن کی کوئی حیثیت ایسی نہیں ہے جس کا ظاہری علوم سے موازنہ کیا جائے ۔غزالی کے ایک دوست نے کہا ایک علوم باطن کے عالم ابوبکر شبلی رہ گئے ہیں جن کے پاس آپ نہیں گئے۔غزالی نے سوچا ان کے پاس بھی ہو آنا چاہئے ورنہ یہ خیال دامن گیر رہے گا کہ سفر پور ا نہیں ہوا۔ امام غزالی ابوبکر شبلی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔

جس وقت ابوبکر شبلی کے پاس پہنچے وہ مسجد کے صحن میں بیٹھے گڈری سی رہے تھے۔ امام غزالی حضرت ابوبکر شبلی کی پشت کی جانب کھڑے ہوگئے۔ حضرت ابوبکر شبلی نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر فرمایا کہ غزالی آگیا، تونے بہت وقت ضائع کردیا ہے۔ علم سیکھنے کے لئے پہلے عمل کیا جاتا ہے پھر علم آتا ہے۔ اگر تو اس بات پر قائم رہ سکتا ہے تو میرے پاس قیام کر ورنہ واپس چلا جا۔ امام غزالی نے کچھ توقف کیا اور کہا میں آپ کے پاس قیام کروں گا۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر شبلی نے فرمایا کہ سامنے مسجد کے کونے میں جاکر کھڑا ہوجا اور امام غزالی نے حکم کی تعمیل کی۔ کچھ دیر کے بعد اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ تین روز نہایت اعلیٰ پیمانے پر مہمان نوازی ہوئی۔ امام غزالی بہت خوش ہوئے کے مجھے بہت اچھا استاد مل گیا ہے ، جس نے میرے اوپر آرام و آسائش کے دروازے کھول دیئے ہیں۔

حضرت ابو بکر شبلی نے امام غزالی سے فرمایا اب کام شروع ہوجانا چاہیے اور کام کی ابتداء یہ ہے کہ ایک بوری کھجور لے جا کر شہر کے بازار میں بیٹھ جاؤ اور بوری کھول کر یہ اعلان کردو کہ جو آدمی میرے سر پر ایک چپت رسید کرے گا اسے ایک کھجور ملے گی۔ امام غزالی تین سال تک بازار میں کھجور کی مفت دکان لگائے بیٹھے رہے۔

تین سال کے مراقبات و مجاہدات نے، لوگوں کے تلخ و تند الفاظ کے ہتھوڑوں نے جھوٹی عزت و شوکت کے چھلکوں کواتار دیا۔پھر لوگوں نے دیکھا کہ پانچ سو اشرفیوں کے لباس اور زرو جواہر سے مرصع زین اور رکاب کے ساتھ مزین سواری پر نکلنے والا امام ،بغداد کا ایک فقیر ہے ۔جب لوگوں کا ہجوم جمع ہوا اور قال کے مقابلے میں حال کے بارے میں استفسار کیا تو امام غزالی نے فرمایا، اللہ کی قسم! یہ وقت میرے اوپر نہ آتا تو میری ساری زندگی ضائع ہوجاتی ۔ امام غزالی کے الفاظ نہایت فکر طلب ہیں ۔اپنے زمانے کا یکتا عالم فاضل ودانشور یہ کہہ رہا ہے کہ روح کا سراغ نہ ملتا تو زندگی ضائع ہوجاتی ۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ایک دن کفن کے کپڑے ہاتھ میں پکڑے امام غزالی یہ کہتے ہوئے باہر نکلے،بہ سرو چشم بندہ حاضر ہے اور اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔اس واقعہ میں یہ حکمت ہے کہ بندہ کے اندر جب تک اپنی انا کا زعم اور علم موجود ہے وہ استاد سے کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا۔ جب تک شعوری واردات و کیفیات اور روایتی پابندی ،روابط و تعلقات کو ذہن سے نکال کر پھینک نہیں دیا جاتا، علم کے حصول میں مزاحم ہوتا ہے۔

امام غزالی کھجور کی تقسیم پر علمی مناظرہ شروع کردیتے تو انہیں یہ علم حاصل نہیں ہوسکتا

تھا۔ باریک بین نظر، گہرے تفکر اور براہ راست طرز فکر سے غور کیا جائے تو مفہوم بالکل واضح

ہے۔ پابندی چاہے خود اختیاری ہو یا روایتاً ورثہ میں ملی ہو کوئی شخص اس سے نجات حاصل کئے بغیر آزاد طرزفکر، آزاد دنیا اور غیب میں داخل نہیں ہوسکتا۔


Tazkira Khwaja Shamsuddin Azeemi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ایسالگتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔ مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔