Topics
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی صاحب جب ۱۹۵۰ء میں کراچی پہنچے تو
آپ کے معاشی حالات کمزور تھے۔ آپ کے بڑے بھائی صاحب نے ماہنامہ ’’آفتاب نبوت‘‘ کی رقم
کے لئے پاکستان میں آپ کا پتا دے دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے جب بھی پیسوں کی ضرورت
ہوتی رسالہ کی رقم منی آرڈر کے ذریعے آجاتی تھی۔ ایک مرتبہ رسالہ کی رقم منی آرڈرکے
بجائے ڈرافٹ کی صورت میں آئی ۔ اس وقت آپ کو بینکنگ وغیرہ کا کچھ زیا دہ تجربہ نہیں
تھا۔ آپ کے ایک دوست ڈاکٹر رشید صاحب ڈان اخبار میں سرکولیشن منیجر تھے۔ آپ نے ان سے
ڈرافٹ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہاڈرافٹ مجھے دے دیں۔ میں اکاؤنٹ میں ڈال دوں گا۔ آپ
نے ڈرافٹ ان کو دے دیا۔ جب ڈاکٹر رشید صاحب تین چار دن نہیں آئے تو آپ ان سے ملنے ڈان
اخبار میں چلے گئے۔ رشید صاحب سیٹ پر موجودنہیں تھے۔
ایک صاحب نے شیریں مگر
مردانہ بھاری آواز میں کہا، آےئے تشریف رکھیں ۔ کیا کام ہے ۔ آپ نے سوال کیا۔۔۔ڈاکٹر
رشید صاحب کہا ں ہیں ۔ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ تین چار روز سے دفتر نہیں آرہے۔انہوں
نے آپ کے لئے چائے منگوائی اور پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ انہوں نے آپ کی عمر اور
آپ کے جذبات کی مناسبت سے دو شعر سنائے۔
آپ کی آنکھوں میں چمک
اور خمار کے سرخ ڈورے دیکھ کر انھوں نے دل پر نشتر رکھ دیا۔ محبت کرتے ہو،بے وفائی
کے ساتھ بے وفا بننا محبت کے ساتھ اس دنیا کی ریت ہے ۔ ایک حجاب آپ کے اوپر چھاگیا۔
پلکیں حیا کے بوجھ سے جھک گئیں ۔ آپ کے اندر کا چور پکڑاگیا تھا۔ آپ بوجھل قدموں سے
اٹھے، سلام کیا اور رخصت چاہی تو انہوں نے کہا، پان توکھاتے جاےئے۔ غرض کہ جب آپ ان
کے پاس سے جانے کے لئے اٹھے تو آپ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ابھی دنیا میں محبت باقی
ہے ۔ ابھی محبت کا دور ختم نہیں ہوا۔ آپ ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے کہ دوست کا
دوست ہونے کی بناء پر اتنا احترام کیاہے۔ آپ نے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنا پرسکون چہرہ
دیکھا تھا ، آپ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس زمانے میں کسی بندے کو اتنا سکون میسر
آسکتا ہے ۔
نیا نیا پاکستان بنا
تھا۔ ہندوستان سے آنے والے لوگ اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے تھے۔ شہزادیاں ٹاٹ کے
پردوں میں بندر روڈ کے فٹ پاتھوں پر،معاملات حیات و زیست میں الجھی ہوئی تھیں۔ کبر
و نخوت کی بڑی بڑی تصویریں آرام باغ کی پتھر یلی زمین پر شب بسری پر مجبورتھیں ۔ جن
خواتین کا کسی نے آنچل نہیں دیکھا تھا وہ حوائج ضروریہ کے لئے قطار در قطار کھڑی نظر
آتی تھیں ۔ جن مردو خواتین نے کبھی ناک پر مکھی کو نہ بیٹھنے دیا تھا وہ بھیک کے بڑے
بڑے پیالے لے کر ناشتے اور دوپہر کی روٹی کے لئے انتظار کرتے تھے ۔ زیادہ لوگ ایسے
تھے جو خوردو نوش اور رہائش کے لئے فکر مند تھے۔ ہر آدمی پریشانی کا پیکرتھااور آپ
بھی انہیں میں سے ایک فرد تھے۔
جب آپ نے ڈاکٹر رشید
صاحب سے ان صاحب کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا،اچھا ! بھائی عظیم سے ملے ہو گے ،
یہاں سب ایڈیٹر ہیں ۔ بہت اچھے اور شفیق انسان ہیں، بہت عالم فاضل ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ آپ
معاشی تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔۱۹۵۰ء میں چشتیہ سلسلہ کے
بزرگ اور تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس صاحب کے پیر بھائی حافظ فخر الدین صاحب
تبلیغی جماعت کے ہمراہ سکھر (پاکستان) میں تشریف لائے۔ انہوں نے آپ کے بڑے بھائی مولوی
محمد ادریس انصاری صاحب کو خط لکھا کہ شمس الدین سے کہیں کہ مجھ سے سکھر میں ملاقات
کرے۔ آپ اس وقت صادق آباد میں تھے۔ آپ بھائی صاحب کے ہمراہ سکھر روانہ ہوگئے۔ وہاں
ایک روز عیدگاہ۔ سکھر میں عصر کی نماز کی ادائیگی سے پہلے حافظ صاحب نے آپ سے فرمایا،
نماز کے بعد کہیں جانا نہیں۔ عصر کی نماز کے بعد حافظ صاحب نے وہیں عید گاہ میں اپنے
رومال کو بچھا کر اس پر آپ کو بٹھا کر فرمایا ، میں تجھے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کی
رضا مندی سے انہوں نے آپ کوبیعت کرلیا اور سلسلہ چشتیہ کے اسباق تجویز فرمائے۔
اس زمانہ میں آپ کے
معاشی حالات انتہائی ابتر تھے ۔ اس دوران آپ کے شریک کار نے آپ کو اس بات پر آمادہ
کرنے کی کوشش کی کہ آپ سلسلہ چشتیہ کے اسباق چھوڑ دیں ۔ جب آپ کسی طرح راضی نہیں ہوئے
تو حکیم یعقوب صاحب کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ آپ ان کو بزرگ مانتے تھے۔ وہ ہمیشہ آپ
سے ایک بات ہی کہا کرتے تھے کہ یہ سب کام بڑھاپے میں کئے جاتے ہیں ۔ تم کس چکر میں
پڑ گئے ہو۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ ادھر حالات اتنے دگر گوں ہوگئے کہ روٹی کپڑا
چلانا مشکل ہوگیا۔ حالات نے آپ کی تحریکات کو سرد کردیا، آپ نے حالات کے سامنے ہتھیار
ڈال دےئے اور سلسلہ چشتیہ کا سبق پڑھنا ترک کردیا۔
جس رات آپ نے سبق پڑھنا
چھوڑا ، اسی رات حافظ فخر الدین صاحب کو خواب میں دیکھا۔انہوں نے فرمایا،توصرف تین
مہینے اور صبر کرلے ۔ کپڑوں کی پرواہ نہ کر۔ تین مہینے گھر میں بیٹھ کر گزاردے ۔ کھانے
کا میں ذمہ لیتا ہوں ۔ تجھے بھوکا نہیں رہنے دوں گا۔ مگر آپ نے حافظ صاحب کے فرمانے
پر عمل نہیں کیا۔ آپ کے اس طرز عمل سے حافظ صاحب بہت دل برداشتہ ہوئے اور متواتر ایک
ہفتہ تک خواب میں آکر فرماتے رہے، ارے کم ہمت ! لوگ توبیس بیس سال کو شش کرتے ہیں
۔ تو کس قدر نادان ہے کہ تین ماہ بھی صبرنہیں کرسکتا ۔
اسباق ترک کرنے کے چھ
ماہ بعد آپ کو حافظ صاحب کے وصال کی اطلاع ملی تو آپ کو سخت ملال ہوا۔ اور رہ رہ کر
یہ خیال ستانے لگا کہ تو بہت کندہ نا ترا ش ہے کہ تین مہینے صبر نہیں کرسکا۔ اسی دوران
آپ کو کاروباری سلسلے میں سہروردیہ سلسلہ کے ایک بزرگ چوہدری اقبال حمید صاحب سے تعاون
ملا ۔ ان میں کچھ ایسی کشش تھی کہ آپ ان کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ چوہدری صاحب کے ذریعہ
آپ کو بابا غلام محمد صاحب ، خلیفہ بابا جنگو شاہ قلندری (حضرت چوہدری صاحب کے دادا
پیر ) کے عرس کی تقریبا ت میں شرکت کے لئے لاہور جانے کا موقع ملا اور آپ اپنے شریک
کار کی شدید مخالفت کے باوجود چوہدری صاحب کے ساتھ لاہور روانہ ہوگئے۔ ریل میں انٹر
کلا س میں اوپر نیچے سیٹیں ریزر و کرائی گئی تھیں ۔ بہت اصرار کے ساتھ چو دہری صاحب
نے آپ کو اوپر کی سیٹ پر لٹا دیا۔ آپ نے ہر چند منت سماجت کی کہ حضور یہ بے ادبی اورگستاخی
ہے کہ میں اوپر کی سیٹ پر بیٹھوں اور رات کو آرام کروں مگر انہوں نے فرمایا، یہ میرا
حکم ہے ۔
آپ نے حکم کی تعمیل
کی اور رات کو اوپر سورہے۔ صبح بیدار ہونے کے بعد آپ کو یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی
کے آپ جب بھی اپنی آنکھیں بند کرتے آپ کو باغات ، دریا ، پہاڑ ، خوب صورت پھول اور
دور دور کے شہر نظر آتے تھے لہٰذا آپ نے بھی باقی سفر میں ضرورت کے علاوہ آنکھیں نہیں
کھولیں۔ شام کے وقت لاہور پہنچے۔ اگلے روز صبح کے وقت قلعہ گوجر سنگھ میں حضرت ابو
الفیض قلندر علی سہروردی صاحب کے دربار میں حاضر ی ہوئی ۔
چوہدری صاحب نے آپ کی
طرف اشارہ کرکے فرمایا، حضرت جی ! میں اس کو آپ کی خدمت میں لے آیا ہوں ۔ حضرت صاحب
نے خوشی کا اظہار فرمایا اور آپ کو اپنے قریب بلا کر نہایت گر م جوشی سے مصافحہ فرمایا۔
عرس کی تقریبات شروع ہونے سے قبل خاص طور سے آپ کو انتہائی پچھلی صفوں سے بلا کر اسٹیج
پر بٹھایا۔ کھانا شروع ہوا تو انہوں نے آپ سے فرمایا ، کھانا میرے ساتھ کھانا۔ جلسہ
ختم ہونے کے بعد کمرہ میں اپنے پاس بٹھایا اور بہت سی ہلکی پھلکی باتیں کیں ۔ آپ حیران
و پریشان یہ سب دیکھ رہے تھے کہ ہزاروں کے مجمع میں آخر انہی کے ساتھ یہ التفات کیوں
ہیں۔ اگلی صبح چوہدری صاحب کے کسی دوست کے ہاں موچی دروازے میں ناشتہ کی دعوت تھی۔
ناشتہ کے بعد تمام حضرات چوہدری صاحب کے ہمراہ پاک پٹن شریف کے لئے روانہ ہوئے ۔
پاک پٹن شریف میں حضرت
بابا فرید گنج شکر کے مزار پر حاضری کے دوران آپ کی زندگی کا سب سے اہم واقع پیش آیا۔
فاتحہ خوانی کے دوران دیکھتے ہی دیکھتے قبر شق ہوگئی اور بابا فرید کی زیارت نصیب ہوئی
۔
آپ نے دیکھا کہ حضرت
گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے رحل پر قرآن پاک رکھا ہوا ہے اور وہ تلاوت میں مصروف
ہیں۔ اس مشاہدہ سے آپ کے ذہن میں یقین اور بے یقینی کے دو رخ بیدا ر ہوگئے۔ بہت سے
سوال ایک ساتھ ابھرے ۔ میں نے با با فرید کو دیکھا،کیسے دیکھا،مرا ہوا آدمی کیسے نظرآسکتا
ہے۔میں نے ہی کیوں دیکھا،کسی اور نے کیوں نہیں دیکھا۔
مزار پر حاضری کے بعد،
پاک پٹن میں چوہدری صاحب کے ایک مرید کے گھر کھانے کا انتظام تھا۔ وہاں سب ہنس بول
رہے تھے اور آپ گم سم بیٹھے تھے۔ چوہدری صاحب نے پوچھا،تم کیوں پریشان ہو۔آپ نے فرمایا
،میں حیرا ن ہو ں۔ پوچھا،کیا پریشانی ہے ۔ آپ نے قبر کے شق ہونے اور حضرت بابا فرید
گنج شکر کی زیارت کا واقعہ سنادیا۔ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ حیران ہوگئے بلکہ کچھ صاحبان
پر تو انتہائی مایوسی طاری ہوگئی اور وہ اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکے کہ ہم اتنے پرانے
مرید ہیں۔ ان کو آئے ہوئے ایک دو ہفتے ہوئے ہیں اورمریدبھی نہیں ہوئے۔ان پر شیخ کی
اتنی عنایت کہ بابا صاحب کی زیارت کرادی۔چودہری صاحب نے پوچھا ،تم نے جو کچھ دیکھا
ہے اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ آپ نے عرض کیا ،میں اس کو شعبدہ سمجھتا ہوں
۔ آپ ہپناٹزم میں باکمال ہیں اور آپ نے مجھے ہپناٹائزڈ کردیا تھا۔حضرت چوہدری صاحب
ہنسے اور فرمایا ،ہپناٹزم کا بھی تجھے پتا چلے گا۔
اس کے بعد لاہور ہی
میں ایک دن حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضری کا پروگرام بن
گیا۔ جس وقت کاربادامی باغ میں داخل ہوئی تو آپ کی آنکھیں بوجھل ہو کر بند ہوگئیں۔
آپ نے دیکھا ، ایک دبلے
پتلے بزرگ کا ر کے ساتھ ساتھ پیدل چوہدری صاحب سے باتیں کرتے جارہے ہیں۔ آپ نے گھبرا
کر آنکھیں کھول دیں ۔ دیکھا تو کچھ بھی نہیں تھا۔ آنکھیں بند کیں تو پھر وہی منظر سامنے
تھا۔ آپ کو اس بات پر تعجب ہوا کہ کار کی ۷۰ میل کی رفتار کے ساتھ کوئی آدمی پیدل کیسے
چل سکتا ہے ۔ جب سب حضور قبلہ عالم، ناقصاں را پیر کامل کا ملاں را رہنما ، حضرت داتا
گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضر ہوگئے تو آپ نے چوہدری صاحب سے درخواست
کی کہ حضور ! داتا صاحب کی زیارت ہوجائے تو میں آپ کو قرآن شریف سناؤں گا۔
تمام افراد آنکھیں بند
کرکے مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک میدان ہے ۔ اس میدان میں ایک درخت ہے
۔ درخت کے نیچے چار پائی بچھی ہوئی ہے اور چار پائی پر وہی بزرگ تشریف رکھتے ہیں جو
کار کے ساتھ پیدل چل رہے تھے ۔ ابھی آپ اس حیرانی میں گم تھے کہ حضرت ابو الفیض قلندر
علی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور آپ سے فرمایا، آؤ اور حضور داتا صاحب کی
قدم بوسی کرو۔ آپ نے حضور
داتا صاحب کو سلام کیا
اور قدم چومے۔ داتا صاحب نے فرمایا، ہم نے سنا ہے تم قرآن بہت اچھا پڑھتے ہو۔ ہمیں
بھی سناؤ۔ آپ نے سورۂ حشر کا آخری رکوع قرأت کے ساتھ تلاوت کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے
کہ آپ کی آواز قبر کے باہر بھی ایسے ہی آرہی تھی جیسے قبر کے اندر۔ حضور داتا صاحب
نے قرآن پاک سن کر انتہائی خوشی کا اظہار فرمایا اور آپ کے سر پر ہاتھ رکھا۔ تمام افرادفاتحہ
پڑھ کر واپس آگئے۔ یہ آپ کی تلاش حقیقت کا نقطۂ انقلاب تھا کہ آپ کی ان بزرگان عظام
سے ملاقات کس طرح ہوئی اور آپ نے کس طرح ان کا مشاہدہ کیا۔
ایک دن میکلوڈ روڈ
(کراچی) پر جاتے ہوئے آپ کو آسمان سے آواز آئی ، حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کو سوالاکھ
مرتبہ درودشریف، تین لاکھ مرتبہ کلمہ طیبہ اور پانچ قرآن شریف پڑھ کر بخش دے۔
پھر آواز آئی پانچ قرآن
حضرت ادریس علیہ السلام اور پانچ قرآن حضرت خضر کو پڑھ کر ایصال ثواب کر۔ آپ نے ہاتف
غیبی کی اس آواز کی تعمیل میں عمل شروع کردیا۔ ظہر کی نماز کے بعد سے مغرب تک کلمہ
طیبہ اور عشاء کی نماز کے بعد سے تہجد تک درود شریف پڑھنے کے لئے اوقات مقرر کئے ۔
جب کلمہ طیبہ کی تعداد پوری ہوئی تو آپ پر غیب منکشف ہونے لگا اور دل میں وقفہ وقفہ
سے درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ لیکن آپ دیوانہ وار تعمیل حکم میں مشغول رہے ۔
ایک روز آپ اپنے شریک
کار کو اسٹیشن چھوڑنے گئے تو پلیٹ فارم پر آپ کے دل میں درد نے شدت اختیار کرلی اور
درد کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ دل بڑا ہونا شروع ہوگیا۔جب آپ نے دیکھا کہ آپ کا
دل بتدریج بڑا ہورہا ہے اور درد کی کسک بڑھ رہی ہے تو جسم میں سنسنا ہٹ دوڑ نے لگی
۔ اس مشاہدہ سے آپ خوف زدہ ہوگئے۔ آپ کے شریک کار نے آپ کا چہرہ دیکھا تو ایک دم گھبرا
گئے اور آپ سے بہت بے چین ہو کر پوچھا، تمہیں کیا ہوگیا ہے ۔ تمہارا چہرہ ایک دم پھیکا
پڑ گیا ہے ۔ ایسا معلوم ہو تا ہے کہ کسی نے تمہارا خون نچوڑ لیا ہے ۔ میں اپنا سفر
ملتوی کرتا ہو ں ، چلو گھر چلتے ہیں ۔ آپ نے ان سے کہا کہ کوئی خاص بات نہیں ہے ۔ آپ
اپنا سفر خراب نہ کریں اور یہ کہہ کر اسٹیشن سے باہر آگئے ۔
بس میں بیٹھے تو دل
بڑا ہوتے ہوتے بھینس کے دل جتنا ہونے کے بعد پھٹ گیا۔ اس میں کٹے ہوئے انار کی طرح
قاشیں بن گئیں اور ان قاشوں میں سے تیز روشن لہریں نکلنے لگیں ۔ جہاں تک یہ لہریں جارہی
تھیں وہاں اور اطراف کی سب چیزیں آپ کو نظر آرہی تھیں۔ آپ نے اس مشاہدہ کے دوران یور
پ کے بہت سارے شہر ، کشمیر اور آسام کے برفانی پہاڑ اور زعفران کے کھیت دیکھے۔ جیسے
ہی نظر زعفران کے کھیتوں پر پڑی ، پوری بس میں زعفران کی خوشبو پھیل گئی ۔
رات کو جب درود شریف
پڑھنے بیٹھے تو درود شریف پڑھنے کے دوران محلہ میں سے سلام پڑھنے کی آواز آئی ۔ چند
منٹ بعد آنکھوں کے سامنے سے ایک پردہ ہٹ گیا اور نظریں وہاں جاکر ٹکرائیں جہاں سلام
پڑھا جارہا تھا۔ آپ نے دیکھا ہر طرف سنہری اور روپہلی روشنی پھیلی ہوئی ہے ۔ ایک بہت
صاف شفاف فرش بچھا ہوا ہے ۔ فرش پر تخت ہے اور تخت پر سر کا ر دو عالم مآب علیہ الصلوٰۃ
والسلام تشریف فرما ہیں۔ آپ درود شریف پڑھتے پڑھتے میکا نکی طور پر کھڑے ہوگئے اور
سلام پڑھنا شروع کردیا۔
اگلے روز صبح سلسلہ
سہروردیہ کا سبق پڑھنے کے دوران غنودگی میں دیکھا کہ مولاناخلیل احمد سہارن پو ری صاحب،
حضرت حافظ صاحب اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تشریف لائے اور تھوڑی دیر آپ کے پاس
بیٹھ کر چلے گئے۔ رات کو پھر درود شریف پڑھنے کے دوران دیکھا کہ درود شریف جیسے ہی
پورا ہوتا ہے منہ کے سامنے یاقوت اور زمرد سے مرصع سونے چاندی کی ٹرے آجاتی ہے اور
درود شریف موتئے کے پھولوں کی شکل بن جاتے ہیں۔
یہ ٹرے ایک فرشتہ لائن
میں کھڑے ہوئے دوسرے فرشتے کو پکڑا دیتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ 1-D-1/7 ناظم آباد۔ کراچی سے شروع ہوکر مدینہ منورہ میں مسجد نبوی پر جاکر ختم ہوتا
ہے اور پھولوں کا یہ ہدیہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا
ہے اور حضور پاک اسے ہاتھ لگا کر قبول فرمارہے ہیں ۔
عظیمی صاحب صبح بس میں
باز ار جاتے ہوئے جب لسبیلہ ۔کراچی کے پل پہ پہنچے تو دیکھا کہ چوہدری صاحب ، بابا
غلام محمد صاحب کے ساتھ آئے ۔
اس کے بعد آپ کی یہ
کیفیت ہوگئی کہ آپ کو ہر وقت یہ محسوس ہوتا کہ سر پر کئی ٹن وزن رکھا ہوا ہے۔سڑک پر
چلتے چلتے بیٹھ جاتے ۔ آپ کا جسم تیزی کے ساتھ لاغر ہوتا چلا گیا اور اس حد تک لاغر
ہوا کہ پنڈلیوں کا گوشت ختم ہوگیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کو ’’ سوکھے ‘‘ کی بیماری
ہوگئی ہے ۔ چھ مہینے اس حال میں گزر گئے ۔ ایک روز بازار سے واپسی میں آپ کے پیر کے
اوپر سے ٹرک کا پہیہ گزر گیا اور آپ ٹرک کے نیچے آتے آتے بچے ۔ آپ کے جی میں آیا کہ
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ٹرک کے نیچے آکر ختم ہوجاتا۔ موت کے روٹھ جانے پر گھر میں آکر
بہت روئے اور ہچکیاں بند ھ گئیں۔ خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ آپ کو چشمے کے شفاف پانی
سے نہلا رہے ہیں۔ بزرگ نے آپ کو نہلا دھلا کر سفید چادر میں لپیٹا اور کہا،دادی کے
پاس جاناہے ۔آنکھ کھلی تو کانوں میں دادی اماں کی آواز آنے لگی، بیٹا! تو اتنا بودا
اور کمزور ہے کہ سب بھول گیا۔تو اللہ کی دی ہوئی نعمت کو بھی بھول گیا۔ اس کے بعد آپ
کا ظہر کی نماز سے مغرب کی نماز تک مسجد میں بیٹھنا معمول بن گیا۔
ایک ہی بات ورد زبان
تھی ،اے اللہ! اپنا فر ستادہ عظیم بندہ ملادے ۔ اللہ سے اپنی کوتاہی کی معافی مانگتے
تھے۔ آہ و زاری کرتے اور اللہ کو پکا رتے ،اے اللہ ! عظیم بندہ کہا ں ڈھونڈوں۔ یا د
میں ، فراق میں اور فریا د کرتے دن رات گزرتے رہے ۔ مادی جسم سوکھ کر کانٹا بن گیا۔
آنکھوں کے گرد سیا ہ حلقے نمایاں ہوگئے ۔
دوستوں نے کہا وظیفوں
کی رجعت رہ گئی ہے ۔ عاملوں نے ارشاد کیا آسیب لپٹ گیا ہے ۔ کوئی جادو ٹونے کا چکر
ہے ۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں ۔ آپ کے ایک دوست طفیل احمد چغتائی صاحب ملٹری میں لیفٹینٹ
کے عہدہ پر فائز تھے۔ یہ عموماً تذکرہ کیا کرتے کہ میرے ایک دوست محمد عظیم تھے۔ پتا
نہیں وہ کہاں ہیں۔ بہت تلا ش کیا لیکن کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔
ایک دن عصر کے بعد اور
غروب آفتا ب سے پہلے انہوں نے آپ کو بتایا، میرے وہ دوست مل گئے ہیں اور آج کل ماہنامہ
نقاد میں کام کرتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگے کہ چلو تمہیں بھائی صاحب سے ملواؤں ۔ آپ ان
کے ہمراہ جب نقاد کے دفتر پہنچے تو وہاں شگفتہ ، شاداب اور پرسکون چہرہ، مردانہ وجاہت
کی مکمل تصویر دیکھ کر چار سال پہلے کی ملاقات ذہن میں گھوم گئی ۔ وہی شخصیت ، جو پہلی
ہی ملا قات میں آپ کے دل میں اتر گئی تھی۔ وہی بندہ ، جس نے آپ کے اندرمحبت کے احساس
کو اجاگر کیا تھا ۔
آپ کو دیکھتے ہی محمد
عظیم صاحب نے آپ کو سینے سے لگا لیا۔پیشانی پر بوسہ دیا اورآنکھوں کو چوما ۔آپ پہلی
مرتبہ وصال کی لذت سے آشنا ہوئے۔ اس ملاقات کے بعد مستقل ملا قاتوں کا شروع سلسلہ ہوگیا۔
آپ حالات وواقعات کی وجہ سے شکست وریخت کا شکا ر تھے۔ یقین ، بے یقینی کے اندھیروں
میں گم ہوچکا تھا اور اطمینان قلب تو جیسے ہمیشہ کے لئے چھن گیا ہو۔
اس بے سکونی میں ایک
پرسکون بندہ ملا تو آپ تمام مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعدروزانہ شام کودفتری اوقات
کے ختم ہونے سے کچھ منٹ پہلے ماہنامہ نقادکے دفتر کے سامنے ان کے انتظار میں کھڑے ہوجاتے۔
رتن تالاب، صدر ۔کراچی میں علم دوست حضرات جمع ہوتے تھے۔ روحانیت پر سیر حاصل گفتگو
ہوتی اور مغرب کی نماز کے بعد آپ دونوں بس میں بیٹھ کر 1-D1/7 ناظم آباد آجاتے تھے۔ آپ کے اندر بچپن ہی سے جس خالص
غور و فکر کی تحریک کا آغاز ہوچکا تھا اب سید محمد عظیم صاحب کے ساتھ ہونے والی ان
نشستوں میں آپ کو اس تحریک کے سرے ملنا شروع ہوگئے۔
۱۹۵۶ء میں قطب ارشاد ، حضرت
ابو الفیض قلند ر علی سہروردی صاحب کراچی تشریف لائے ۔ آپ نے ان کی آمد کا تذکرہ سید
محمد عظیم صاحب سے کیا تو انہوں نے فرمایا، ان سے میرا سلام عرض کیجئے گا۔ اس غائبانہ
تعارف کے بعد سید محمد عظیم صاحب تک آپ کے توسط سے سہروردی صاحب کی مصروفیات اور علمی
نشستوں کی معلومات پہنچتی رہیں۔ اسی دوران ایک روز انہوں نے آپ سے فرمایا، میرے سینے
میں دل کی جگہ چبھن ہوتی ہے۔ جب عظیمی صاحب نے اس کا تذکرہ سہروردی صاحب سے کیا تو
انہوں نے فرمایا، ٹھیک ہے، ٹھیک ہوجائے گا۔
ایک روز آپ نے سہروردی
صاحب کی تحریر کردہ کتاب ’’جمال الہیٰ‘‘ سید محمد عظیم صاحب کو مطالعہ کے لئے پیش فرمائی
تو انہوں نے ایک نقشہ بناکر آپ کو بتایا کہ اس نقشہ کی مدد سے اگر کوئی کتاب پڑھی جائے
تو پتا چل جاتا ہے کہ مصنف یا مؤلف صاحب حال ہے یا نہیں اور اسی طرح اس کی لاشعوری
کیفیات بھی اس کی تحریر میں ظاہر ہوجاتی ہیں۔
عظیمی صاحب نے یہ سارا
واقعہ سہروردی صاحب کے گوش گزار فرمایا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ایک روز سید محمد عظیم صاحب
نے آپ سے فرمایا،ان سے پوچھئے گا ۔۔۔کیا وہ مجھے بیعت فرما لیں گے۔ جب عظیمی صاحب نے
بڑے حضرت جی سے سید محمد عظیم صاحب کے لئے عرض کیا توانہوں نے آپ کو ملاقات کے لئے
گرانڈ ہوٹل میں بلایا ( سہروردی صاحب ان دنوں گرانڈ ہوٹل۔ میکلوڈ روڈ میں مقیم تھے)۔
جب آپ ملاقات کے لئے ان کے پاس پہنچے تو کچھ دیر کے بعد ابو الفیض قلندر علی سہروردی
صاحب نے فرمایا عظیم صاحب کے علاوہ سب تھوڑی دیر کے لئے کمرے سے باہر ٹھہریں۔
ہوٹل سے واپسی پر سید
محمد عظیم صاحب نے آپ سے فرمایا کہ سہروردی صاحب نے بیعت کے لئے رات تین بجے کا وقت
دیا ہے۔سید محمد عظیم صاحب سخت سردی کے موسم میں ، رات دو بجے ہی سے ہوٹل کی سیڑھیوں
پر جاکر بیٹھ گئے ۔ ٹھیک تین بجے بڑے حضرت جی نے دروازہ کھولا اور اندر بلالیا ۔ انہیں
اپنے سامنے بٹھاکر ، پیشانی پر تین پھونکیں ماریں اور حضرت ابولفیض قلندر علی سہروردی
صاحب نے قطب ارشاد کی تعلیمات تین ہفتے میں مکمل کرکے آپ کو خلافت عطا فرمادی ۔ بڑے
حضرت جی کے بعد حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ کی روح پر فتوح نے آپ کی روحانی تعلیم شروع
کی ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے براۂ راست علم لدنی عطا فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت اور نسبت کے ساتھ
بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور اسرار ور موز کا علم حاصل ہوا۔ تعلیمات کی تکمیل
پر بطریق اویسیہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاۂ اقدس سے ’’ حسن اخریٰ‘‘ کا خطاب
عطاہوا۔ قلندریت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ملائکہ ارضی و سماوی اور حاملان
عرش میںآپ’’ قلندر بابااولیاء‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ آج بھی یہی عرفیت عامتہ النا
س میں زبان زد عام ہے ۔
گذشتہ سطور میں بتایا
جاچکا ہے کہ عظیمی صاحب حا لات و واقعات کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار تھے ۔ ہر وقت
سر سے دھواں اٹھتا ہوا محسوس ہوتا ، ہر شب بلا ناغہ بدخوابی ہوجا تی جس سے آپ کی ر
ہی سہی جان بھی جواب دے گئی ۔ کھانا کھاتے ہی اجابت کی ضرورت ہوجاتی ۔ ہر وقت یاس اور
ناامیدی کا غلبہ رہنے لگا۔جب آپ لوگوں کو ہنستے دیکھتے تو آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ سوچتے
کیا دنیا میں ہنسی بھی کوئی شے ہے۔ چپ لگ گئی ۔ معمولی سے شور سے دل دہل جاتا ۔ کوئی
زور سے بات کرتا تو دماغ پر ہتھوڑے کی ضرب پڑتی۔ اس نزاع زدہ زندگی میں تین سال گزر
گئے۔ رات کو اندھیرے میں اٹھ کر روتے ۔ مرجانے کی دعائیں مانگتے اور سوچتے کہ موت بھی
مجھ سے کنارہ کرگئی ہے ۔ ایک دن آپ نے حضور قلندر بابااولیاء سے عرض کیا،میر ے لئے
دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس دنیا سے اٹھالے ، میں اب بالکل زندہ نہیں رہنا چاہتا۔
انہوں نے تسلی دی اور فرمایا،میں حافظ صاحب سے بات کروں گا اور بڑے حضرت جی کی خدمت
میں درخواست کروں گا کہ اس معاملہ کو کسی نہ کسی صور ت سے حل کریں ۔
رات کے وقت درود شریف
پڑھنے کے دوران آپ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا،چلو ! بڑی سرکا رصلی اللہ علیہ وسلم
میں آج تمہاری پیشی ہے ۔آپ نے دیکھا کہ فخر انبیاء ، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم
تخت پر تشریف فرما ہیں ۔ بائیں جانب حضرت اویس قرنی ایستادہ ہیں ۔ دائیں جانب حضرت
حسن بصری ، حضرت جنید بغدادی ، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ، حضرت معروف کرخی، حضرت
عبد القادر جیلانی، حضرت امام موسیٰ رضا، حضرت امام حسین اور حضرت ابو لفیض قلندر علی
سہروردی ہیں اور بالکل سامنے چوہدری صاحب اور ان کے پیچھے آپ خود ایستادہ ہیں۔ سید
نا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔ حضرت حسن بصری صف میں سے نکل
کر نگاہیں نیچی کئے ہوئے سامنے آگئے اور درودو سلام کے بعد عرض کیا ،
یارسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ! میرے موکل کے دادا نے آپ کی منظور ی سے اپنے پوتے کے لئے ورثہ چھوڑا ہے
اور اس ورثہ کو حاصل کرنے کی جو شرط انہوں نے عائد کی تھی وہ میرے موکل نے پوری کردی
ہے اور میرے موکل نے سلسلہ چشتیہ میں بیعت بھی حاصل کی ہے اور اس کے شیخ نے چشتیہ ،
سہروردیہ ، نقشبندیہ ، قادریہ میں اپنے اس مرید کو بیعت کیا تھا۔ بیعت کے بعد مرید
کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ تو ان چاروں سلسلہ میں مجھ سے بیعت ہوگیا ہے ۔
اب صورت یہ ہے کہ شیخ
کے انتقال کے بعد مرید سہروردیہ سلسلہ میں پھر بیعت ہوگیا۔ عرض یہ کرنا ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی منظوری کے بعد جب کہ مرید نے شرط پوری کردی ہو ، اس کا ورثہ اسے
قانوناً ملنا چاہئے۔ یاد رہے کہ حافظ فخر الدین صاحب ، مولانا خلیل احمد سہارنپوری
کے روحانی ورثہ کو عظیمی صاحب تک پہنچانے پر مامور کئے گئے تھے ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے اپنے دائیں طرف ایستادہ بزرگوں کو دیکھا، سب نے تائید کی ۔ پھر حضرت چوہدری صاحب
دو قدم آگے آئے اور عرض کیا،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! قانون یہ ہے کہ جب کوئی
شخص کسی کا مرید ہوجا تا ہے تو وہ پیر کا حق بن جاتا ہے اور اس قانون پر آپ کے دستخط
ہیں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر دائیں صف کی طرف دیکھا ،جس کا مطلب یہ نکلتا
تھا کہ کوئی تائید کرتا ہے یانہیں۔
ابو الفیض قلندر علی
سہروردی صف سے باہر آکرچودہری اقبال حمید صاحب کے ساتھ جاکر کھڑے ہوگئے۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے حضرت چوہدری صاحب کے حق میں فیصلہ دے کر درباربرخاست فرمادیا۔
عظیمی صاحب نے ایک روز
حضور قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں عرض کیا، حضور ! کیا آپ کو نماز میں مزہ آتا ہے۔
فرمایا۔۔۔ہاں۔آپ نے عرض کیا ،مجھے تو کبھی یہ پتا نہ چلا کہ میں کیا کررہا ہوں۔بہت
کوشش کرتا ہوں کہ خیالا ت ایک نقطہ پر مرکوز ہوجائیں مگر ذراسی دیر کے لئے کامیابی
ہوتی ہے اور پھر بھٹک جاتا ہوں ۔فرمایا، میں تمہیں ترکیب بتاتا ہوں ، تمہیں خوب مزہ
آئے گا۔
حضور قلندر بابا اولیاء
نے آپ کو نماز کے دوران سجدہ کی حالت میں انگلیوں کی ایک مخصوص حرکت تلقین فرمائی اور
فرمایا کہ صرف عشاء کی نماز میں آخری رکعت کے آخری سجدہ میں یہ حرکت کرنا۔ جب آپ نے
تہجد کے بعد وتروں کی آخری رکعت کے آخری سجدہ میں یہ حرکت کی تو آپ کو بہت سکون ملا۔
دل سے اضطراب ، بے قراری او ربے چینی دھواں بن کر اڑ گئی لہٰذا فجر کی نماز میں بھی
اس عمل کو دہرایا۔ ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور پھر تہجد میں دہراتے چلے گئے اور یہ بھول
ہی گئے کہ یہ عمل صرف ایک وقت کرنا ہے۔
ایک دن جب تہجد کی آخری
رکعت کے آخری سجدہ میں یہ حرکت دہرائی تو سجدہ کی حالت میں آپ کو محسوس ہوا کہ آپ کے
دائیں بائیں کوئی کھڑا ہے ۔ خوف زدہ ہونے کے باوجود آپ نے انگلیوں کی مخصوص حرکت جاری
رکھی اور سجدہ ضرورت سے زیادہ طویل کردیا۔ ڈر کے مارے دم گھٹنے لگا تو جلدی جلدی نماز
ختم کی اور پلنگ پر جاکر لیٹ گئے ۔
اس زمانے میں ناظم آباد
میں بجلی نہیں تھی۔ گھر کے آس پاس کوئی مکان بھی نہیں تھا۔ لیمپ بجھا ہوا تھا اور گھر
میں آپ اکیلے تھے۔ پلنگ پر لیٹے لیٹے آپ نے آیت الکرسی پڑھنا شروع کردی لیکن آیت الکرسی
کے ورد سے دہشت اور زیا دہ بڑھ گئی اور دل کی حرکت بند ہوتی ہوئی معلوم ہونے لگی ،
پھر ایک دم دل کی حرکت تیز ہوگئی ۔ محسوس ہوتا تھا کہ دل سینہ کی دیوار توڑ کر باہر
نکل آئے گا۔
اب آپ نے قل ھو اللہ
شریف پڑھنا شروع کردیا۔ جیسے ہی قل ہو اللہ شریف ختم ہوئی آپ کا جسم اوپر اٹھنے لگا
اور چھت سے جالگا ۔ آپ نے ہاتھ سے چھو کر دیکھا کہ یہ واقعی چھت ہے یا میں خواب دیکھ
رہا ہوں اور واقعی آپ چھت سے لگے ہوئے تھے۔ اب آپ مزید خوف زدہ ہوگئے کہ اگر میں نیچے
گرا تو ہڈی پسلی نہ بھی ٹوٹی تو بھیجا تو ضرور باہر آجائے گا۔ آپ نے دیکھا کہ آپ کی
گردن کی طرف تیزی کے ساتھ دو ہاتھ آئے ۔ ایک نے دل کو سنبھالا اور دوسرے نے آپ کے منہ
کو بند کردیا ۔ اس نادیدہ ہاتھ کی آپ کے اوپر اس قدر دہشت طاری ہوئی کہ آپ بے ہوش ہوگئے
۔
صبح کے وقت سے پہلے
خواب میں دیکھا کہ مولانا خلیل احمد سہارن پو ری ، حضرت ابو الفیض قلندر علی سہر وردی
اور بڑے پیر صاحب، حضور قلندر بابااولیاء کے مکان کے صحن میں گھبرائے ہوئے کھڑے ہیں
۔ قلندر بابااولیاء گھبرائے ہوئے ، بہت بے چین ، اِدھر سے اُدھر ٹہل رہے ہیں اور فرما
رہے ہیں، یہ کیا ہوگیا۔۔۔پھر زور سے فرمایا جیسے کسی سے کہہ رہے ہوں
اس کو ہر حال میں باشعور
زندہ رہنا ہے۔
جب صبح اٹھے تو جسم
کا ایک ایک عضو دکھ رہا تھا ۔ اب دوسری مشکل یہ پیش آئی کہ آپ کو حضرت چوہدری صاحب
روحانی طور پر نظر آنا شروع ہوگئے ۔ وہ بہت جلال میں سرخ سرخ آنکھوں سے آپ کو دیکھ
کر فرماتے ہیں، ہونہہ۔۔۔جیسے ہی ہونہہ فرماتے آپ کے سارے بدن میں لرزہ آجاتا ۔ اس جلال
نے آپ کو ادھ موا کردیا۔ آپ کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور پھر سن ہوگئیں ، آپ کے اندر
چلنے پھرنے کی سکت ختم ہوگئی ۔
شام تک قدرے قرار آیا
تو سائیکل رکشہ پر بیٹھ کر حضور قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا
ماجرا بیان کیا۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے فرمایا ، تم نے میرے کہنے کے خلاف عمل کرکے
سب کو پریشان کردیا۔ اللہ نے فضل فرمایا، نہیں تو کام تمام ہوگیا تھا۔آپ نے عرض کیا
،حضور!معاف فرمادیں۔اب توچوہدری صاحب کے جلال کا نشانہ بنا ہوا ہوں ، اس سے کیسے نجات
حاصل کروں ۔ فرمایا، جاکر معافی مانگ لو۔جیکب لائن کی ایک مسجد میںآپ نے عشاء کی نماز
کے بعد چوہدری صاحب کو سلام کیا۔ انہوں نے بہت جلال سے جواب دیا۔ و علیکم السلام اور
مسجد سے باہر جانے کے لئے قدم بڑھائے ۔ آپ نے عرض کیا ،اس غلام کو کچھ عرض کرنا ہے۔
فرمایا ،کچھ عرض نہیں کرنا،میں تم سے بات نہیں کرتا ،کل آنا۔
آپ نے عرض کیا ،جنا
ب ! ابھی عرض کرنا ہے اور میں آپ کو اپنی بات سنائے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا اور
نہ آپ کو جانے دوں گا۔چودہری صاحب آپ کی اس گستاخی کو نظر انداز کرکے مسجد کے صحن میں
بیٹھ گئے۔ آپ نے گزشتہ شب کی پوری روئداد سنائی ۔ چوہدری صاحب نے فرمایا ،تم نے یہ
سب مجھ سے پوچھے بغیر کیا ہے ۔ اس لئے میں اس سلسلہ میں کچھ نہیں کرسکتا ۔ آپ نے عرض
کیا،حضور سے صرف اتنی استدعا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے صبح سے جو سزا دے رکھی ہے اس سے
مجھے بری کردیں۔
بڑی منت و خوشامد کے
بعد یہ بات طے ہوئی کہ اگر تم نے آئندہ کوئی ایسی بات کی جو پہلے مجھ سے معلوم نہ کرلی
ہو تو نتائج کے تم خود ذمہ دار ہوگے۔ آپ نے سجدہ میں کرنے والا عمل بالکل تو ترک نہیں
کیا البتہ صرف تہجد کے وقت جاری رکھا جس سے آپ کا دل گداز سے معمور ہوگیا، آنکھیں آنسوؤں
سے لبریز ہوگئیں اور دماغ یکسوئی کی طرف مائل ہوتا چلا گیا۔
ایک روز تہجد کی نماز
کے بعد درود خضری پڑھتے ہوئے آپ نے اپنے آپ کو سرور کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ السلام
کے دربار اقدس میں حاضر پایا۔ مشاہدہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تخت پر تشریف
فرما ہیں۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت کے سامنے دو ز انو بیٹھ کر درخواست
کی
یا رسول اللہ! صلی اللہ
علیہ وسلم ! اے اللہ کے حبیبﷺ،اے باعث تخلیق کائنات ﷺ، محبوب پروردگارﷺ ، رحمت للعالمینﷺ،
جن وانس اور فرشتوں کے آقاﷺ ، حاصل کون و مکاںﷺ، مقام محمود کے مکین ﷺ ، اللہ تعالیٰ
کے ہم نشین ﷺ، علم ذات کے امینﷺ ، خیر البشر ﷺ ، میرے آقا ﷺ مجھے علم لدنی عطا فرمادیجئے
۔
میرے ماں باپ آپ ﷺپر
نثار، آپ ﷺکو حضرت اویس قرنی کا واسطہ ، حضرت ابو زر غفاری کا واسطہ، آپ ﷺ کو آپ کے
رفیق حضرت ابوبکر کا واسطہ ، آپ کو حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کاواسطہ
۔آپﷺ کو حضرت فاطمہ ، علی اور حسین کا واسطہ ، اپنے اس غلام پر نظر کرم فرمادیجئے!
میر ے آقا ! آپﷺ کو
قرآ ن کریم کا واسطہ اور آپﷺ کو اسم اعظم کا واسطہ، آپﷺ کو تمام پیغمبروں کا واسطہ
، آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم کا واسطہ اور ان کے ایثار کا واسطہ ۔
میر ے آقا ! میں آپ
ﷺ کے در کا بھکاری ہوں ۔ آپ ﷺ کے سوا کون ہے جس کے سامنے دست سوال دراز کروں ۔ میں
اس وقت تک در سے نہیں جاؤں گا، جب تک آپﷺ میرا دامن مراد نہیں بھر دیں گے۔ آقا ! میں
غلام ہوں ، غلام زادہ ہوں ۔ میرے جدا مجد حضرت ابو ایوب انصاری پر آپ کی خصوصی رحمت
و شفقت کا واسطہ ، مجھے نواز دیجئے ۔
دریائے رحمت جو ش میں
آگیا۔۔۔فرمایا ،کوئی ہے ۔دیکھا کہ حضور قلندر بابااولیاء دربار میں آکر مؤدب ایستادہ
ہیں ۔ اس طرح جیسے نماز میں نیت باندھے کھڑے ہوں۔ نہایت ادب و احترام کے ساتھ فرمایا،یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپﷺ کا غلام حاضر ہوں ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے ارشاد فرمایا،تم اس کو کس رشتہ سے وراثت دینا چاہتے ہو۔ حضور قلندر بابااولیاء نے
فرمایا،اس کی والدہ میری بہن ہیں ۔حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے تبسم فرمایا اور ارشاد
کیا ،خواجہ ایوب انصاری کے بیٹے ، ہم تجھے قبول فرماتے ہیں ۔ اس وقت عظیمی صاحب نے
دیکھا کہ آپ حضور قلندر بابا اولیاء کے پہلو میں کھڑے ہیں ۔
Tazkira Khwaja Shamsuddin Azeemi
خواجہ شمس الدین عظیمی
ایسالگتا ہے کہ جیسے
کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔
مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ
جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش
اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔