Topics

شعبہ نشر و اشاعت

مقتدراخبارا ت و جرائد میں کالم نویسی

معاش کے حصول کے دوران عظیمی صاحب نے۱۹۶۸ء میں ناظم آباد ،کراچی میں رہائش گاہ کے قریب حور مارکیٹ میں کرایہ کی ایک دکان میں پرانے کوٹ اورسویٹروں کا کام شروع کیا جس میں فارغ اوقات میں آپ مختلف کتب کا مطالعہ فرماتے تھے۔ مطالعہ کے ذوق کے ساتھ ساتھ کتابوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ دکان میں کپڑے کم ہوگئے اور چند ہفتوں میں دکان ایک چھوٹی سی لائبریری بن گئی ۔ایک دن آپ نے ’’عالم تمام حلقہ دامن خیال ہے ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر فرمایا۔ اس زمانے میں آپ کے ایک عزیز روزنامہ ڈان میں ایڈیٹر تھے ۔ انہوں نے جب یہ مضمون دیکھا تو انہوں نے فرہاد زیدی صاحب (ایڈیٹر روزنامہ حریت ) سے اخبار میں اس مضمون کی اشاعت کے لئے بات کی۔

دوران ملاقات فرہاد زیدی صاحب نے عظیمی صاحب سے استفسار کیا کہ اخبار میں آپ کس موضوع پر کالم لکھیں گے۔ آپ نے بتایا کہ آپ پیرا سائیکولوجی پرکالم تحریر کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کالم شروع کرنے سے پہلے آپ کا امتحان لیں گے۔ وہ اس طرح کہ آپ فزکس ، سائیکو لوجی اور پیرا سائیکو لوجی کی ۱۲ سطروں میں وضاحت کردیں کہ یہ کیا ہیں۔ جب آپ نے تحریر کرنا شروع کیاتو ۹ سطروں میں بات مکمل ہوگئی۔ آپ پریشان ہوگئے کہ مجھے فیل کردیا جائے گا۔ آپ کے قلم کو رکا ہوا دیکھ کر فرہاد زیدی صاحب نے ازراہ مذاق کہا

عظیمی صاحب ! کیوں پریشا ن ہیں۔ کیا دماغ نہیں چل رہا۔

آپ نے فرمایا، جی ! دما غ چل کے رک گیا۔

آپ نے ۱۲ سطروں میں لکھنے کو کہا تھا، یہ تو ۹ سطروں میں بات مکمل ہوگئی ۔

فرہاد زیدی صاحب بہت خوش ہوئے اور کہا، یہ تو اور زیادہ اچھا ہوگیا۔

آپ نے فرمایا،تو پھر تحریر دیکھ لیں۔ آپ نے تحریر فرمایا تھا

فزکس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں جو کچھ اس کے جذبات ، احساسات کا تعلق ہوتا ہے اسے طبیعات کہتے ہیں ۔ وہ جو کچھ اپنی زندگی میں کررہا ہے ، نشیب و فراز سے گزررہا ہے ، اس نشیب و فراز سے گزرنے میں اس کے ذہن میں تبدیلیاں آتی ہیں ۔ کبھی خوش ہوتا ہے ، کبھی غمگین ہوتا ہے اور اس کا کچھ فیصلہ نہیں کرسکتا ہے ، اسے نفسیات کہتے ہیں ۔ فزکس اور نفسیات کے مسائل کو جو چیز حل کررہی ہے، جہاں سے مسائل آرہے ہیں، اسے پیراسائیکو لوجی کہتے ہیں ۔

فرہاد صاحب نے تحریر پڑھنے کے بعد کہا آپ کا اس ہفتہ سے کالم چھپے گا۔ اٹھتے اٹھتے فرہاد زیدی صاحب نے پوچھا کہ آپ مضمون کیسے لکھے  ہیں، مضمون کی آمد کا سلسلہ کیسے ہوتا ہے، کیا آپ پہلے کوئی پلان بناتے ہیں، کیا آپ مضمون لکھنے سے پہلے الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں۔

یہ سوال آپ کے لئے حیرت کا باعث بنا، اس لئے کہ انٹرویو کے وقت آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ آپ کا امتحان کس طرح ہوگا۔ آپ سے لکھنے کو کہا گیا، آپ نے اﷲ سے دعا کی اور لکھنا شروع کردیا۔ جو مضمون ۱۲ سطروں میں لکھنے کے لئے کہا گیا تھا وہ ۹ سطروں میں پورا ہوگیا۔ قصہ کوتاہ عظیمی صاحب نے عرض کیا کہ فرہاد صاحب ! میرے دماغ میں ایک خیال آتا ہے۔ وہ خیال پھلجھڑی کے پھولوں کی طرح دماغ کی اسکرین پر پھیل جاتا ہے۔ میں ان پھولوں کو چن کر ایک لڑی میں پرودیتا ہوں، وہ لڑی جملے بن جاتی ہے، جملوں سے پیرابن جاتا ہے اور پیرے سے مضمون بن جاتاہے۔

فرہاد زیدی صاحب بولے ، اگر آپ کے ذہن میں خیال نہیں آیا تو ہم آپ کے مضمون کے انتظار میں بیٹھے رہیں گے، کاپی لیٹ ہوجائے گی۔ بات ہنسی مذاق میں گزرگئی۔ آپ خوشی خوشی مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے، ساری روئداد آپ کے گوش گزار کی۔ حضور قلندر بابا اولیاء مسکرائے اور فرمایا

خواجہ صاحب ! آپ ساری عمر لکھتے رہیں گے اور ہر مضمون تھیم ( Theme ) ایک ہونے کے باوجودنیا ہوگا۔ آپ کے اوپر اﷲ کا فضل سایہ فگن ہے۔

اور اس طرح۱۹۶۹ ء میں روزنامہ حریت سے باقاعدہ نشر و اشاعت کا آغاز ہوا۔ قارئین نے سائیکولوجی اور پیرا سائیکولوجی کے ان مضامین کو ناصرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط بھی لکھنے شروع کردےئے جن میں زیادہ تر خطوط خواب کے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہرہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد نومبر ۱۹۷۱ء میں روزنامہ جسارت میں آپ کے کالم کا آغاز ہوا ۔اب تک جن اخبارات و جرائد میں آپ کے کالم شامل اشاعت ہوتے رہے ہیں ان کی فہرست کچھ اس طرح ہے

۱۔ روز نامہ اعلان ۲۔ روزنامہ مشرق

۳۔ روز نامہ ملت (گجراتی ) ۴۔ روزنامہ جنگ۔ کراچی

۵۔ روزنامہ جنگ ۔لندن ۶۔ ہفت روزہ میگ (انگریزی )

۷۔ ماہنامہ مشعل ڈائجسٹ ۸۔ ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ

آپ نے ان اخبارات و جرائد میں عوام کے ان گنت معاشی ، معاشرتی ، نفسیاتی مسائل اور الجھنوں کا حل پیش کیا ہے اور مظاہر قدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دےئے ہیں۔

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ

۱۹۷۸ ء کے وسط تک آپ کو ایک ماہ میں موصول ہونے والے خطوط کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کرچکی تھی۔ کسی روزنامہ کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ہفتہ میں ایک یادو کالم سے زیادہ علاج معالجہ کے لئے مخصوص کرسکے۔ جب کہ ہر پریشا ن حال شخص کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مسائل جلد از جلد حل ہوجائیں ۔

دسمبر ۱۹۷۸ء میں صفحات کے لحاظ سے مختصر مگر مضامین کے اعتبار سے مکمل ، سماوی علوم پر مشتمل ایک دستاویز روحانی ڈائجسٹ کے نام سے منظر عام پر لائی گئی ۔ بحیثیت چیف ایڈیٹر عظیمی صاحب نے روحانی ڈائجسٹ کے ڈیکلریشن فارم میں تعلیم کے خانے میں ’’ علم لدنی ‘‘ تحریر فرمایا۔ روحانی ڈائجسٹ کے سرورق پر بحیثیت سرپرست اعلیٰ حضور قلندر بابا اولیاء نے تحریر کروایا

یہ پرچہ بندہ کو خدا تک لے جاتا ہے

اور بندہ کو خدا سے ملا دیتا ہے

اشاعت اول سے لے کر تا دم تحریر روحانی ڈائجسٹ کے سرورق پر یہ تحریر مسلسل چھپ رہی ہے ۔ روحانی ڈائجسٹ کا پہلا شمارہ تجربہ نہ ہونے کے باوجود اچھا تھا۔ جنوری ۱۹۷۹ء کا شمارہ چھپ کر تیار ہوچکا تھا کہ ۲۷ جنوری کی شب حضور قلندر بابا اولیاء کی روح و اصل بحق ہوگئی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

شمارہ کے ٹائٹل کی چھپائی ہنگامی حالت میں رکوا کر ان سائیڈ ٹائٹل پر حضور قلندر بابا اولیاء کے وصال کی خبر شائع کی گئی ۔ ۱۹۸۴ء میں روحانی ڈائجسٹ، روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل کے نام سے برطانیہ میں بھی شائع ہونا شروع ہوگیا ۔

روحانی ڈائجسٹ میں سائنس ، ادب ، تاریخ ،قدیم وجدید علوم اور روحانیت پر مبنی مضامین ، خواب کی تعبیر ، صحت اور خوب صورتی سے متعلق آسان نسخے ، مختلف مسائل کا روحانی اور نفسیاتی حل ، پیچیدہ اور لاعلاج بیماریوں کا مفت علاج ہر ماہ پیش کیا جاتا ہے ۔ اس رسالہ میں مافوق الفطرت کہانیا ں بھی شائع کی جاتی ہیں جن میں قسط وار کہانیاں بھی ہوتی ہیں۔ بچوں کے لئے صفحات مخصو ص ہیں ۔اولیا ء اللہ کے روحانی علوم کو سائنسی، علمی توجیہہ کے ساتھ روحانی ڈائجسٹ کے ذریعے عوام الناس تک پہنچایا جارہا ہے ۔

تصنیف و تالیف

کسی بھی پیغام کو پھیلانے کے لئے ہمیشہ دو طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی صلاحیت کو سامنے رکھ کر اس سے گفتگو کی جائے اور حسن اخلاق سے اس کو اپنی طرف مائل کیا جائے ۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ اس کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر تدارک کیا جائے۔

جب کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تحریر و تقریر سے اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جائے ۔ موجودہ دور تحریر و تقریر کا دو رہے ۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں ، زمین کا پھیلا ؤ ایک گلوب (Globe) میں بند ہوگیا ہے ۔ آواز کے نقطۂ نظر سے امریکہ اور کراچی کا فاصلہ ایک کمرے سے بھی کم ہوگیا ہے ۔ کراچی میں بیٹھ کر لندن اور امریکہ کی سرزمین تک اپنا پیغام پہنچا دینا روز مرہ کا معمول ہوگیا ہے ، یہی صورت حا ل تحریر کی ہے ۔ نشر و اشاعت کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے ۔ عظیمی صاحب نے ملک اور بیرون ملک قائم مراقبہ ہالز کے رابطے کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی علوم کی ترویج کے لئے علم دوست حضرات کا زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کرنے کے لئے تصنیف و تالیف کا آغاز فرمایا ۔

آپ کی تحریر میں فکر کی گہرائی اور فن کی زیبائی بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ممتاز دانشور اور ادیب اشفاق احمد صاحب آپ کی طرز تحریر کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’آپ کی تحریر بہت سادہ ، بہت توجہ طلب اور جاذب نظر ہے ۔ آپ ایک صاحب طرز رائٹر ہیں ۔ آپ کی تحریر کا اپنا اسلوب ہے ۔ میں نے آپ کو اوائل دور میں کام کرتے دیکھا ہے ۔ ان کی میز کرسی فضول اور ٹیڑ ھی تھی ۔ پھر میں نے نوٹ کیاکہ آدمی کے اندر Truth ہواپنی طرز کا تو وہ ٹیڑھی جگہ پر بیٹھ کر بھی سیدھے جواب دے سکتا ہے ۔ آپ نے میلوں کا سفر ایک جست میں طے کیا ہے ۔

انسان صرف روٹی ، کپڑا اور مکان ہی نہیں ہے ۔ ہم ایک تین منزلہ ایسی عمارت ہیں جس میں ہمارا جسم، روٹی ،کپڑا اور مکان ہے ۔ اس کے اوپر ایک چوبارہ ہے جو Intellect کا چو بارہ ہے ، جو ذہن کا ہے۔ بھیڑیا ، کتا، شیر ببر ، عقاب ، مچھلی ، بھینس یہ سب روٹی ، کپڑا اور مکان ہیں ۔ میں اوور منزل چوبارہ رکھتا ہوں جو ذہن سے تعلق رکھتا ہے۔ میں سردیوں کی رات میں ٹھٹھرتا سائیکل پر چڑھ کر سات میل کا فاصلہ طے کرکے نصرت فتح کا ایک سر سننے جاتا ہوں ۔ اس میں نہ روٹی ہے ، نہ کپڑا ہے ، نہ مکان ہے ، نہ بینک بیلنس بڑھتا ہے ۔ میں تو بلکہ کوئی نقصان کرکے آتاہوں لیکن میں جاتا ہوں ۔ میں مشاعرہ سننے جاتا ہوں۔ اس میں مجھے کیا ملتا ہے۔۔۔یہ Human being کا، Intellect کا چو بارہ ہے ۔ جس کو وہ بھر تا رہتا ہے اگر وہ کاٹ کر پھینک دیا جائے تو وہ مرجائے گا ۔ بھینس نہیں مرتی۔بھینس اگر مشاعرہ میں نہ جائے تو کچھ نہیں ہوتا اس کو، ٹھیک ہے ، زندہ ہے وہ ۔ شیر ببر ہے ، وہ اگر پکا راگ نہ سنے تو ٹھیک رہتا ہے ۔ اب اس چو بارے کے اوپر ایک اور چوبارہ ہے ، جو Intellect سے بھی اونچا ہے وہ روحانیت کا ہے ۔

اس کے اندر گندبلا، گدڑپھونس ، ٹوٹے ہوئے چرخے، پرانی چارپائیاں ، بان کے پنے، پرانے ٹین کنستر ، بوریا ں، سیمنٹ کے تھیلے پڑے ہوئے ہیں اور اس کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں ۔ تالا ڈالا ہوا ہے اس کے اندر کبھی کبھی کوئی اوپر چڑھ کر کہتا ہے کہ امی ! یہ اچھا بھلا توکمراہے، اس کو تو صاف کرائیں ۔ کہنے لگیں ،دفع کر و۔ کوئی اوپر نہیں جاتا ، چھوڑ دو۔ اس نے کہا ،میں اسے صاف کرکے اس میں دری بچھا لوں۔ کہنے لگیں ،نہ نہ ، خبردار ! یہاں جاکر کیا کرنا ہے ،اتنے سارے کمرے ہیں اسی میں رہو۔ہمارا تیسرا چو بارہ تو ہے لیکن وہ آسیب زدہ ہے ۔ تو جب کوئی بھی بندہ اس کے قریب کھڑا ہو کر بات کرے تو وہ کہتا ہے کہ ہاں !آج پہلی دفعہ اس کے دروازے جھنجھنائے ہیں یا اس کے اوپر بارش ہوئی ہے ۔ اس میں سے سوندھی خوشبوں نکلتی ہے ۔ عظیمی بھائی کا کما ل یہ ہے کہ انہوں نے وہ پرانے چو بارے ، گد ڑ پھونس والے ، گند بلاوالے صاف کئے ہیں ‘‘۔

عظیمی صاحب نے سلسلہ عظیمیہ کی دعوت حق کو پھیلانے کے لئے اپنی تحریر و تقاریر میں ۲۸۷ سے زائد موضوعات پر اظہار خیال فرمایا ہے۔ عظیمی صاحب کی اب تک زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آنے والی تصانیف و تالیفات اور مجموعوں کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔

روحانی علاج : تاریخ اشاعت : ۱۹۷۸ء

اگر امراض اور بیماریوں کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کرجاتی ہے ۔ ان امراض کی نوعیت اور وجوہات بھی الگ الگ ہیں ۔ روحانی نظرےۂ علاج کے مطابق امراض کے دو رخ ہیں۔ ایک جسمانی اور دوسرا ذہنی یاروحانی ۔جسمانی نظام میں کسی بے اعتدالی ، کیمیائی یاطبعی تبدیلی کانام مرض ہے ۔

روحانی نظرےۂ علاج میں ہر مرض کے خدو خال ہوتے ہیں اور ہر مرض کا روحانی وجود بھی ہوتا ہے۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ۔ موجودہ دور میں نفسیاتی اور طبعی امراض کا جو کردار سامنے آیا ہے اس کی روشنی میں اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ روحانی علم کا نظرےۂ علاج یہ ہے کہ امراض کی جسمانی وجود کے ساتھ ساتھ روحانی یا ذہنی وجود پر ضرب لگائی جائے اور ذہنی طور پر اس کی نفی کی جائے تو بہت جلد شفاء حاصل ہوجاتی ہے ۔نا صرف جلد شفاء حاصل ہوجاتی ہے بلکہ پیچیدہ و لا علاج امراض سے نجات بھی ممکن ہے ۔اس کتا ب میں شک اور بے یقینی کے طوفان سے پیدا ہونے والی تقریبا دو سو (۲۰۰) بیماریوں اور مسائل کو یکجا کرکے تعویذات اور وظائف کے ذریعہ ان کا حل پیش کیا گیاہے ۔

رنگ اور روشنی سے علاج : تاریخ اشاعت : مارچ ۱۹۷۸ء

زمین پر موجود ہرشے میں کوئی نہ کوئی رنگ نمایا ں ہے، کوئی شے بے رنگ نہیں ہے۔ کیمیائی سائنس بتاتی ہے کہ کسی عنصر کو شکست و ریخت سے دوچار کیا جائے تو مخصوص قسم کے رنگ سامنے آتے ہیں ۔ رنگوں کی یہ مخصوص ترتیب کسی عنصر کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ چنانچہ ہر عنصر میں رنگوں کی ترتیب جدا جدا ہے۔ یہی قانون انسانی زندگی میں بھی نافذ ہے۔ انسان کے اندر بھی رنگوں اور لہروں کا مکمل نظام کام کرتا ہے ۔ رنگوں او رلہروں کا خاص تواز ن کے ساتھ عمل کرنا کسی انسان کی صحت کا ضامن ہے ۔ اگر جسم میں رنگوں اور روشنیوں میں معمول سے ہٹ کر تبدیلی واقع ہوتی ہے تو طبیعت اس کو برداشت نہیں کرپاتی ہے اور اس کا مظاہرہ کسی نہ کسی طبعی یا ذہنی تبدیلی کی صورت میں ہوتا ہے ۔

ہم اس کو کسی نہ کسی بیماری کا نام دیتے ہیں مثلاً بلڈ پریشر ، کینسر ، فسادخون، خون کی کمی ، سانس کے امراض ، دق و سل ، گٹھیا ،ہڈیوں کے امراض ، اعصابی تکالیف اور دیگر غیر معمولی احساسات و جذبات وغیرہ۔

اس کتاب میں آدمی کے دوپیروں پر چلنے کا وصف بیان کیا گیا ہے اوراس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ انسان اور حیوان میں روشنی کی تقسیم کا عمل کن بنیادوں پر قائم ہے اور تقسیم کے اس عمل سے ہی انسان اور حیوان کی زندگی الگ الگ ہوتی ہے ۔ روشنی ایک قسم کی نہیں ہوتی بلکہ انسانی زندگی میں دور کرنے والی روشنیوں کی بے شمار قسمیں ہیں ۔ یہ روشنیاں انسان کو کہاں سے ملتی ہیں اور انسانی دماغ پر نزول کرکے کس طرح ٹوٹتی اور بکھرتی ہیں۔ ٹوٹنے اور بکھرنے کے بعد دماغ کے کئی ارب خلئے ان سے کس طرح متاثر ہوکر حواس تخلیق کرتے ہیں۔ مختلف رنگوں کے ذریعے بیماریوں کے علاج کے علاوہ عظیمی صاحب نے اس کتاب میں انسانی زندگی پر پتھروں کے اثرات کے حوالے سے بھی معلومات فراہم کی ہیں۔

ٹیلی پیتھی سیکھئے : تاریخ اشاعت : ۱۹۸۱ء

ٹیلی پیتھی یعنی انتقال خیال کا طریقۂ کار، سری علوم کی وہ شاخ ہے جسے عصر حاضر میں سب سے زیادہ عام توجہ حاصل ہوئی ہے ۔ آپ نے یہ کتاب اس وقت لکھی جب روس ، امریکہ اور دیگر ممالک میں ٹیلی پیتھی کا بہت زور تھا۔ ایک مجلس مذاکرہ میں کہا گیا کہ غیر مسلموں نے ٹیلی پیتھی کا علم ایجاد کرلیا ہے، مسلمانو ں نے کیا کیا۔ یہ بات آپ کے دل کو لگ گئی اور آپ نے ٹیلی پیتھی پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کا مقصد یہ تھا وہ لوگ جو غیر مسلموں سے متاثر ہو کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں، جن لوگوں کی طرز فکر میں عیسائیت اور دہریت غالب آگئی ہے ، ان لوگوں کے اندر فکر سلیم پیدا ہوجائے ۔

غیر مسلموں نے ماورائی علوم میں جو ترقی کی ہے، مسلمان بھی فکر سلیم کے ساتھ ترقی کریں ۔ اس کتا ب کو پڑھنے سے بلا شبہ بے شما ر لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے ۔ اس کتا ب میں آٹھ اسباق ہیں ۔ جن پر پہلے آپ نے خود عمل کیا اور پھر ان سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں کتاب تحریر فرمائی ۔

تذکرہ قلندر بابا اولیاء : تاریخ اشاعت : ۲۷،اکتوبر ۱۹۸۲ء

اس کتاب میں امام سلسلہ عظیمیہ ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاء کے حالات زندگی، کشف و کرامات، ملفوظات و ارشادات کا قابل اعتماد ذرائع معلومات کے حوالے سے مرتب کردہ ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔

روحانی نماز : تاریخ اشاعت : جنوری ۱۹۸۳ء

آج کل کے دور میں کوئی بات اس وقت قابل قبول ہوتی ہے جب اسے سائنسی فارمولوں اور فطرت کے قوانین کے مطابق دلیل کے ساتھ پیش کیا جائے ۔ زبان ایسی ہو جو عوام کی سمجھ میں آجائے ، اسلوب ایسا ہو جو دل میں اتر جائے ۔

کتاب روحانی نماز اس ہی اصول کوسامنے رکھ کر ترتیب دی گئی ہے ۔ اس کتاب میں آپ نے کوشش کی ہے کہ ’’ الصلو ۃ معراج المومنین ‘‘ کا سائنسی مفہوم اور قانون قدرت کے فارمولوں کی وضاحت ہوجائے۔

جنت کی سیر : تاریخ اشاعت : جنوری ۱۹۸۴ء

تاریخی ادوار پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پانچ ہزار سال کی تاریخ میں اقتدا ر پر زیادہ عرصہ مردوں کا قبضہ رہا ہے ۔ ایسا دو ر بھی آیا ہے کہ جس میں عورتوں کو اقتدار منتقل ہوا ۔

مردوں کی ذہانت اور مردوں کی چالاک عقل نے اس دور کو یعنی خواتین کے دور کو کبھی مستحکم نہیں ہونے دیا لیکن قدرت کی فیاضی مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ مخصوس نہیں ۔جب بھی خواتین نے خود کو Brain Wash ہونے سے بچایا اور اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں ان کو قدرت کی طرف سے تعاون ملا۔

اس کتا ب میں بتایا گیا ہے کہ عورت کے اندر بھی وہ تمام صلاحیتیں اور صفات موجو د ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں ۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدا ر کرکے ولی اللہ بن سکتی ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں سید حبیب مصطفےٰ صاحب (قلمی نام : سرکار زینی جار چوی ) اپنی تالیف مادر کائنات ، حصہ دوم ۔صفحہ نمبر ۱۱۱میں تحریر کرتے ہیں

اس وقت پاکستان میں روحانی امور سے متعلق ایک ایسی جانی پہچانی اور مشہور شخصیت موجود ہے جو بلاشبہ روحانی امور میں ید طولیٰ رکھتی ہے ۔ اس شخصیت کو ’’ خواجہ شمس الدین عظیمی ‘‘ کے نام سے یا د کیا جاتاہے ۔ آپ نے روحانیت سے متعلق کئی کتابیں تحریر کی ہیں اور بے شمار روحانی مسائل کے حل پیش کئے ہیں ۔ روحانیت سے متعلق ہزاروں سوالات کے جوابات آپ اخبار اور خطوط کے ذریعے دے چکے ہیں ۔ حال ہی میں آپ کی ایک اور کتاب ’’ جنت کی سیر ‘‘ کے نام سے منظر عام پرآئی ۔ جس میں آپ نے عورت کی روحانی صلاحیت پر معقول اور موثر گفتگو کی ہے اور روحانی واردات کے اثر کار پیش کئے ہیں ۔ میں نے اپنے وسیع مطالعہ اور اپنی پوری زندگی میں خواجہ صاحب کو پہلا عالم و فاضل اور روحانی مرد پایا ہے جنہوں نے کھل کر عورت کی صلاحیت پر بے باکانہ بات کی ہے اور عورت کے صحیح مقام و منصب کو ظاہر کیا ہے ۔ آپ کی اس کتاب کا دیباچہ جو ’’ اظہار حال ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا گیا ہے ۔

ہم ضروری اور متعلقہ اقتباسا ت اس لئے پیش کررہے ہیں کہ اس سے ایک طرف گزشتہ صفحات میں بیان کردہ موقف و خیال کی تائید ہوتی ہے اور دوسرے آپ روحانی مرد قلندر بھی ہیں ۔ آپ لکھتے ہیں

’’جب کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے تفکر کیا جاتا ہے تو بہت سی ایسی باتیں شعور کی سطح پر ابھرتی ہیں جن کا تجزیہ اگر کیا جائے تو بہت تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ عفت و عصمت کا تذکرہ آتاہے تو وہاں عورت اور صرف عورت زیر بحث آتی ہے ۔ کیا مرد کو عفت و عصمت کے جوہر کی ضرورت نہیں ہے ؟ عورت کے تقدس کو یہ کہہ کر پامال کیا جاتا ہے کہ وہ کمزور ہے ۔ عقل و شعور سے اسے کوئی واسطہ نہیں۔ علم و ہنر کے شعبہ میں اب تک عورت کو عضو معطل بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے ۔ دانشور، واعظ ، گدی نشین حضرات کچھ ایسے تاثرات بیان کرتے ہیں کہ جن سے عورت کا وجود بہر حال مرد سے کم تر ظاہر ہوتا ہے ۔

قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے ہر چیز جوڑا جوڑا بنائی ۔ مذہبی حلقہ کہتا ہے کہ عورت کو مرد کی اداسی کم کرنے اور اس کا دل خوش کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ بلاشبہ یہ کھلی ناانصافی اور احسان فراموشی ہے ۔ ناشکری اور نا انصافی کا رد عمل اس قدر بھیانک اور المناک ہوتا ہے کہ تاریخ اس سے لرزہ براندام ہے ۔ دنیا کے علوم سے آراستہ دانشوروں کا وطیرہ کم عقلی پر مبنی قرار دیا جاسکتا ہے ۔مگر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روحانی علوم کے میدان میں بھی عورت کونظر انداز کیا گیا ہے تو اعصاب پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ سینکڑوں سال کی تاریخ میں مشہورو معروف اولیا ء اللہ کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو صرف ایک عورت کی نشاندہی ہوتی ہے اور اسے بھی آدھا قلندر کہہ کر اس کی بے حرمتی کی گئی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا عورت اور مرد کے اندر الگ الگ روحیں کا م کرتی ہیں ۔کیا روح میں تخصیص کی جاسکتی ہے ۔ کیا روح بھی کمزور اور ضعیف ہوتی ہے ؟

اگر ایسا نہیں ہے تو عورت کی روحانی اقدار کو کیوں محجوب رکھا گیا ہے ؟ مردوں کی طرح ان خواتین کا تذ کرہ کیوں نہیں کیا گیا جو اللہ کی دوست ہیں۔ وہ کون سی صفات ہیں جو قرآن میں مردوں کے لئے بیان ہوئی ہیں اور عورتوں کو ان سے محروم رکھا گیا ہے؟ اگر قرآن حکیم کے نزدیک عورت کا مقام مرد سے کم تر ہوتا اور اس کی بزرگی و عظمت مرد کے مساوی نہ ہوتی تو قرآن پاک کی سورہ مریم، حضرت مریم کے بجائے حضرت عیسیٰ سے منسوب کی جاتی۔۔۔یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا وی معاملات میں تو عورت مرد کے برابر ہو سکتی ہے لیکن روحانی صلاحیتوں اور ماورائی علوم میں وہ مردوں سے کمترہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تاریخ نے عورت کے معاملہ میں انتہائی بخل سے کام لیا ہے۔ اس کی و جہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ قلم اور کاغذ پر ہمیشہ مردوں کی اجارہ داری قائم رہی ہے ‘‘۔ پھر آ پ نے بڑے موثر انداز اور خوبصورت الفاظ میں عورت سے متعلق اپنے باطنی و روحانی جذبات کا اظہار کیا ہے ۔

’’یہ عورت وہ ماں ہے جو نو ماہ اور دو سال تک اپنا خون جگر بچے کے اندر انڈیلتی رہتی ہے ۔ یہ کیسی بدنصیبی اور ناشکری ہے کہ وہی مرد جس کی رگ رگ میں عورت کی زندگی منتقل ہوتی رہتی ہے وہی اس کو تفریح کا ذریعہ سمجھتا ہے اور مردوں کے مقابلہ میں کم تر ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا تا ہے۔بے روح معاشرہ نے عورت کو مرد کے مقابلہ میں ایسا کردار بنایا ہے جن کو دیکھ کر ندامت سے گردن جھک جاتی ہے۔ ہائے یہ کیسی بے حرمتی ہے، اس ہستی کی جس نے اپنا سب کچھ تج کر مرد کو پروان چڑھایا۔قرآن پاک کے ارشادات ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتی ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے ۔

اس طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کرکے مظاہر قدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرار ور موز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بناء پر استفادہ کرتی ہے ‘‘۔

کتاب ’’ روحانی نماز ‘‘ کے انتساب میں عظیمی صاحب نے تحریر فرمایا ہے،ان خواتین کے نام جو بیسویں صدی کی آخری دہائی ختم ہونے سے پہلے پوری دنیا کے اقتدار اعلیٰ پر فائز ہوکر نو ر اول ، باعث تخلیق کائنا ت ، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی پیش رفت میں انقلاب برپا کردیں گی ۔

O اس وقت اراکین سلسلہ عظیمیہ میں ۷۰ فیصد خواتین اور ۳۰ فیصد مردحضرات ہیں ۔

قلندر شعور : تاریخ اشاعت : مئی ۱۹۸۶ء

کتاب قلندر شعور میں آپ نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم کو ن سا طرز عمل اختیار کرکے ذہن کی ہر حرکت کے ساتھ اللہ کا احساس قائم کرسکتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ذہن انسانی، اللہ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا ہے ۔ اس کتاب کے بارے میں رئیس امروہوی صاحب نے روزنامہ جنگ۔ کراچی میں ۳۱ ، اکتو بر ۱۹۸۶ ء کے کالم میں تحریر کیا تھا’’برادر عزیز خواجہ شمس الدین عظیمی ، حضرت تاج الاولیاء با باتاج الدین قد س اللہ سرہ العزیز کے سلسلہ عالیہ سے وابستہ اور اپنے ذہن اور قلم سے اخلاق عالیہ ، تطہیر نفس ، تزکیہ قلب اور عرفان نفس کی گرا نقدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ روحانی علاج کے ماہر اور راہ سلوک کے باعمل طالب ہیں ۔ ان کی ہمت و کوشش سے مکتبہ روحانی ڈائجسٹ 1-K-13ناظم آباد، کراچی ۱۸۔ مختلف مسائل عرفان پر بلند پایہ تصانیف شائع کرچکا ہے ۔

مثلاً کائناتی نظام، تخلیقی فارمولوں اور روحانی سائنس پر مشتمل کتاب لوح وقلم ، روحانی نماز، قلندر شعور ، تذکرہ قلندر بابا اولیاء ،تذکرہ تاج الدین بابا ، رنگ اور روشنی سے علاج ، ٹیلی پیتھی سیکھئے ، روحانی علاج وغیرہ وغیرہ۔ خواجہ صاحب ، حضرت سید محمد عظیم برخیا حضور قلندر بابا اولیا ء کے فیوض روحانی کو عام کرنے میں دن رات منہمک ہیں ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی عصر حاضر کی روحانی ضروریات سے بخوبی واقف ہیں اور ان کتابوں کو انہوں نے سائنسی نقطۂ نظر سے تحریر کیا ہے ۔ مجھے امید ہے کہ طالبان سلوک وروحانیت کے لئے ان تصانیف کا مطالعہ غیرمعمولی فوائد کا سبب ہوگا‘‘۔

تجلیات : تاریخ اشاعت : جنوری ۱۹۹۰ء

قرآن ہمیں ایسی اخلاقی اور روحانی قدروں سے آشنا کرتا ہے جن میں زمان و مکان کے اختلاف سے تبدیلی نہیں ہوتی اور ایسے ضابطۂ حیات سے متعارف کراتا ہے جو دنیا میں رہنے والی ہر قوم کے لئے قابل عمل ہے۔اگر قرآن کی مقرر کی ہوئی اخلاقی اور روحانی قدریں سوئٹزر لینڈ کی منجمند فضاؤں میں زندہ اور باقی رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو افریقہ کے تپتے ہوئے صحراء بھی ان قدروں سے مستفیض ہوتے ہیں۔

قرآن پاک ایک ایسی دستاویز ہے جن دستاویز میں معاشرتی قوانین کے ساتھ ساتھ ایسے فارمولے درج ہیں جن کے اوپر تسخیر کائنات کا دار و مدار ہے۔ارشاد خداوندی ہے کہ ہم نے قرآن کا سمجھنا آسان کردیا ہے،کیا ہے کوئی سمجھنے والا۔اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہم پر یہ لازم ہے کہ اس عطیہ خداوندی سے فیض اٹھاتے ہوئے قرآن پاک میں غور و فکر کو اپنا شعار بنائیں تاکہ ہماری روحیں نور ہدایت سے منور ہوجائیں اور ہم ان صفات کو حاصل کرسکیں جن سے بندے کے لئے آسمان و زمین مسخر ہوجاتے ہیں۔

قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کے نقشے کو صحیح ترتیب نہیں دیا جاسکتا ۔ہر مسلمان صحیح خطوط پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا ہے جب و ہ قرآن حکیم کے بیان کردہ مطالب اور مفہوم کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی میں سموئے ۔

اللہ رب العزت کے ہاں وہی دین صحیح دین ہے جو قرآن مجید میں بالوضاحت بیان کردیا گیا ہے اور جس کی عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا یہ کمال ہے کہ وہ بیک وقت زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کسی جماعت،کسی خاص قوم ،کسی خاص ملک اور کسی خاص زمانے کے لئے نہیں تھی اور نہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت رب ا لعالمین کے بنائے ہوئے سارے عالمین کے لئے ہے۔

دنیاکا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ﷺ کی منور زندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بنا سکتا ہے۔قرآن نے غور و فکر اور تجسس و تحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اور حضو ر صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غور و فکر فرمایا اور روحانی نقطۂ نظر سے ان کی توجیہہ اور تفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ ’’نور الٰہی نور نبوت‘‘ کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے۔کتاب’’ تجلیات‘‘ اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے۔

کشکول : تاریخ اشاعت : دسمبر ۱۹۹۰ء

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔

آواز دوست : تاریخ اشاعت : دسمبر ۱۹۹۰ء

عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو میری ساری توجہ اس آواز کی طرف ہوتی ہے جو آواز لہروں میں منتقل ہو کر اطلاع بنتی ہے۔

ایک قاری جن مضامین کو پندرہ منٹ میں پڑھ لیتا ہے،اس کی تیاری میں سات سے آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔پہلے حافظے کا بند دروازہ کھلتا ہے،پھر انسپائریشن کی لہریں دماغ کے مخصوص خانے میں وصول ہوتی ہیں اور انسپائریشن کو کاغذ پر منتقل کرنے کے لئے الفاظ کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔

انسانی دماغ میں حواس خمسہ کی اطلاعات موجود رہتی ہیں یا اطلاعات حواس خمسہ بنتی ہیں۔حواس خمسہ اعصاب کے ذریعے دماغ کے نصف کروں تک پہنچ کر نقش ہوجاتے ہیں ۔یہی وہ یادداشتیں ہیں جنہیں حافظہ کہا جاتا ہے۔دماغ کے یہ دو کر ے جو دائیں طرف اور بائیں طرف واقع ہیں انسانی زندگی کے تمام احساسات کو جو پیدائش سے موت تک کے حالات پر مشتمل ہیں، یاد رکھتے ہیں۔انسانی زندگی کا کوئی عمل ،کوئی فعل ،کوئی حرکت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک دماغ کے پچھلے حصے میں جہاں گردن کے اوپر سر میں ابھار ہوتا ہے ،تحریکات نہ ہوں جو کہ لہروں کی شکل میں وارد ہوتی ہیں۔ آواز کیا ہے۔۔۔آواز لہروں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔۔۔اور یہ ساری کائنات آواز کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔۔۔ اطلاع کے بغیر کائنات کے وجود کا تذکرہ ممکن نہیں ہے۔

انسان کی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں اطلاع کے علاوہ زندگی میں کچھ بھی نہیں ملتا۔ہماراپیدا ہونا،جوان ہونا،بوڑھا ہونا،خورد و نوش کی ضروریات کا پورا کرنا،سونا جاگنا،رزق تلاش کرنا،پڑھنا لکھنا،عروج و زوال کی راہ کا متعین ہونا،سب اطلاع پر قائم ہے۔ اوسط عمر اگر ساٹھ سال ہو تو ایک آدمی بارہ کروڑ اکسٹھ لاکھ چوالیس ہزار اطلاعات میں زندگی گزارتا ہے ۔یعنی اوسط عمر میں انفارمیشن کا دورانیہ بارہ کروڑ اکسٹھ لاکھ چوالیس ہزار ہوا۔ تقریباََ پونے تیرہ کروڑ اطلاعات پیدائش سے موت تک انسانی زندگی کا سرمایہ ہیں۔

چونکہ انسان زندہ رہنے کے قانون سے واقف نہیں ہے اس لئے پچانوے فیصد اطلاعات یا پچانوے فیصد زندگی ضائع ہوجاتی ہے ۔یہی اطلاعات اگر قدرت کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق اگر قبول کی جائیں اور ان پر عمل درآمد ہوجائے تو انسان اشرف المخلوقات ہے۔اگر ایسا نہ ہو( جیسا کہ عام طور پرہوتانہیں ہے) تو انسان اشرف المخلوقات کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا۔

اللہ کے کرم ،سیدنا حضور علیہ الصلواۃ والسلام کی رحمت اور حضور قلندر با با اولیاء کی نسبت سے عظیمی صاحب ۲۸۷ سے زائد موضوعات پر طبع آزمائی کرچکے ہیں ۔ ہر عنوان اس بات کی تشریح ہے کہ انسان اور حیوانات میں فرق یہ ہے کہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتا ہے جبکہ حیوانات یا کائنات میں موجود دوسری کوئی مخلوق اس علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آواز دوست ،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آواز دوست ( دسمبر ۱۹۷۸ء تا دسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سے منتخب شدہ کالمز کا مجموعہ ہے۔کتاب کی اشاعت کے بعد جنوری ۱۹۹۰ء سے یہی کالم ‘‘ صدائے جرس ‘‘ کے عنوان سے شائع ہورہا ہے۔

روحانی ڈاک

قریباً ۲۰ سال کے عرصہ میں مسائل کے حل اور علاج معالجہ کے سلسلے میں اخبارات اور جرائد میں عظیمی صاحب کے شائع شدہ کالموں میں سے چیدہ چیدہ کالموں کو چار جلدوں کی کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

جلد اول تاریخ اشاعت : ۱۹۹۱ء جلد دوئم تاریخ اشاعت : ۱۹۹۲ء

جلد سوئم تاریخ اشاعت : ۱۹۹۳ء جلد چہارم تاریخ اشاعت : ۱۹۹۴ء

پیرا سائیکولوجی : تاریخ اشاعت : ۱۹۹۲ء

اس کتاب میں عظیمی صاحب کے ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۲ء کے دوران مختلف موضوعات پر دیئے گئے لیکچرز میں سے چند کو مضامین کی صورت میں ’’پیراسائیکولوجی‘‘ کے عنوان سے قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔

توجیہات : تاریخ اشاعت : ۱۹۹۳ء

۱۹۷۸ء تا اپریل ۱۹۹۴ء تک مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ منتحب کالموں میں عظیمی صاحب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کو کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

نظریہ رنگ و نور : تاریخ اشاعت : جنوری ۱۹۹۴ء

سائنسی دنیا نے جو علمی اور انقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اور سائیکولوجی سے آگے پیرا سائیکولوجی کا علم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر ، فہم اور ارتکا ز کے فارمولوں کی دستاویز ہے ۔

آپ نے اس کتاب میں طبیعات اور نفسیات سے ہٹ کر ان ایجنسیوں کا تذکرہ کیا ہے جو کائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اور کائنات کے قوانین عمل کا احاطہ کرتی ہیں اور اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنے والے فارمولوں سے کہاں تک واقف ہے ۔ یہ فارمولے اس کی دسترس میں ہیں یا نہیں اور ہیں تو کس حد تک ہیں ۔ انسان کے لئے ان کی افادیت کیا ہے اور ان سے آگاہی حاصل کرکے وہ کس طرح زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بناسکتا ہے ۔

مراقبہ : تاریخ اشاعت : جنوری ۱۹۹۵ء

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے ۳۵ سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ دور علم و فن اور تسخیر کائنا ت کے شباب کا دور ہے۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی و سعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی اناکی ان گنت صلاحیتیں اور صفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرار ہیں۔انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتا ہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک و مشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طور سے بند رہتے ہیں۔انہی حواس سے انسان آسمانوں اور کہکشانی نظاموں میں داخل ہوتا ہے ۔ غیبی مخلوقات اور فرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدا ر کرنے کا مؤثر طریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اور طبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ زندگی کے معاملات میں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعے آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اور مراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قو توں کو کس طرح بیدا ر کرسکتا ہے ۔

خواب اور تعبیر : تاریخ اشاعت : جنوری ۱۹۹۶ء

چھ ارب انسانوں میں ایک بھی ایسا انسان نہیں ہے جو خواب نہ دیکھتا ہو اور خواب کے تاثرات سے متاثر نہ ہو۔ قرآن اور تمام آسمانی کتابوں میں خوابوں کا تذکرہ موجود ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد ہے ،خوا ب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ تالیف خواب اور تعبیر میں آپ نے عرض کیا ہے کہ دانشوروں کا یہ کہنا کہ خواب محض خیالا ت کی پیداوار ہے ، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ایک مخصوص گروہ کے اس خیال کو اہمیت دی جائے کہ خواب محض خیال کی پیداوار ہے تو یہ ایک غیر سائنسی ، غلط روےئے کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا ۔ آپ نے اس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہخواب کیوں نظر آتے ہیں،رنگین خواب کیوں نظرآتے ہیں،خواب کیوں نظر نہیں آتے،مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کے بعد خوابوں پر ان بیماریوں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اس کتاب میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کے ساتھ ساتھ انبیاء، خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعین کرام ، اولیاء اللہ اور مشاہیر وغیرہ کے خواب بھی شامل اشاعت ہیں ۔

محمد رسول اللہ جلد اول : تاریخ اشاعت : جنوری ۱۹۹۶ء

عظیمی صاحب کی دانست میں سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چار پہلو ایسے ہیں جن پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

۱۔ اللہ کے محبوب رسول ﷺکی روحانی زندگی ۔

۲۔ معجزات رسول اللہ ﷺکی سائنسی توجیہات ۔

۳۔ کہکشانی دنیاؤں سے خاتم النبینﷺ کا براہ راست تعلق ۔

۴۔ قرآن پاک میں تخلیق کا ئنات کے فارمولوں ( معاد ) کی تشریح ۔

یہ کتاب سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے میں ۲۳ سال جدو جہد اور کوشش فرمائی ۔

الہی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اور ذہنی اذیتوں میں گزر گئی اور بالآخر آپﷺاللہ کا پیغام پہنچانے میں کامیاب و کامران ہوگئے ۔ آپ ﷺاللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ آپ ﷺسے راضی ہوگیا ۔

یہاں عظیمی صاحب کی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خصوصی نسبت کے حوالے سے چند اہم واقعات کا تذکرہ ضروری ہے ۔ وسط ۱۹۶۶ ء میں آپ نے آقائے کو نین حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں التجا کی ، یارسول اللہﷺ! میں آپ کا غلام ہوں ، مجھے اپنے ذاتی خدمت گاروں کی حیثیت میں قبول فرمالیجئے۔ حضرت اویس قرنی سے ہاتھ جوڑ کر نہایت عاجزانہ گزارش کی کہ آپ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے اس غلام کی سفارش فرمادیجئے۔حضرت اویس قرنی نے وعدہ فرمالیا۔

حضرت بلال حبشی تشریف لائے ۔ آپ نے ہاتھ جوڑ کر اور گڑ گڑ ا کر درخواست کی ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے ہیں ، عاشق رسول ہیں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدام کے بڑے ہیں ۔ میری التجا ، اور عرض ہے کہ آپ اس غلام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلمکے ذاتی خدمت گاروں میں جگہ دلوادیں ۔ میں آپ کی خدمت میں رہ کر آداب رسول اللہ سیکھ لوں گا۔ اور انشاء اللہ آپ کو شکا یت نہیں ہوگی ۔ حضرت بلال حبشی نے بھی رضامندی ظاہر فرمادی ۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں آپ کی غلامی کا مسئلہ پیش ہوا ۔ کچھ توقف کے بعد سید البشر ، فخر کائنات ، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو غلامی میں قبول فرمالیا۔ تقریبا ایک سال کے عرصہ کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو خادم خاص کی حیثیت عطا فرمائی ۔

ایک موقع پر باعث تخلیق کائنا ت سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں حاضری کے دوران اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک آنکھوں سے لگانے اور لرزتے ہونٹوں سے چومنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ آپ سراپائے اقدس ومطہر و مکرم میں اس قدر غرق ہوگئے کہ خود کو بھول گئے اور عالم کیف و وجدان میںآپ کو اللہ تعالیٰ نے مہر نبوت کا مشاہدہ کرایا۔ آپ نے مہر نبوت کو دیکھ کر والہانہ انداز سے بوسہ دیا اور آنکھوں سے چھوا۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکَ وَسَلَِّم

شیخ طریقت محمد قاسم مشوری شریف رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید محترم وزیر حسین شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ میرے مرشد کامل نے فرمایا تھا کہ تاریخ میں حضرت عکاشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بعد خواجہ صاحب دوسری شخصیت ہیں، جنہیں مہر نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر بوسہ دینے کی سعادت حاصل ہے ۔

محمد رسول اللہ جلد دوئم : تاریخ اشاعت : فروری ۱۹۹۷ء

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پر ان گنت صفحات لکھے جاچکے ہیں اور آئندہ لکھے جاتے رہیں گے لیکن چودہ سوسال میں ایسی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی روحانی اور سائنسی توجیہات اور حکمت پیش کی گئی ہو ۔ یہ سعادت آپ کے نصیب میں آئی ہے ۔ ایک سعید رات آپ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ۔ دربار رسالت میں ایک فوجی کی طرح Attention، جاں نثار غلاموں کی طرح مستعد، پرجوش اورباحمیت نوجوان کی طرح آنکھیں بند کئے دربار میں حاضر تھے۔

آہستہ روی کے ساتھ ، عشق و سرمستی کے خمار میں ڈوب کر دو قدم آگے آئے اور عرض کیا ،

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

بات بہت بڑی ہے، منہ بہت چھوٹا ہے ۔۔۔

میں اللہ رب العالمین کا بندہ ہوں اور۔۔۔

آپ رحمت للعالمینﷺکا امتی ہوں۔۔۔

یہ جرأت بے باکانہ نہیں، ہمت فرزانہ ہے۔۔۔

میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں ۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

یہ عاجز ، مسکین ، ناتواں بندہ ۔۔۔

آپ ﷺ کی سیرت مبارک لکھنا چاہتا ہے ۔۔۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !

سیرت کے کئی پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔۔۔

مجھے صلاحیت عطا فرماےئے کہ۔۔۔

میں معجزات کی تشریح کرسکوں۔

آپ نے بند آنکھوں سے محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ملاحظہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ ہے ۔ آپ اس سرمستی میں سالوں مد ہوش رہے ۔ خیالوں میں مگن ، گھنٹوں ذہن کی لوح پر تحریریں لکھتے رہے ۔ سیرت کے متعلق ہر وہ کتاب جو آپ کو دستیاب ہوسکی اللہ نے پڑھنے کی توفیق عطا کی اوربالآ خر ایک دن ایسا آیا کہ کتاب محمد رسول اللہ جلد دوئم کی تحریر کا آغاز ہوگیا۔

معمولات مطب : تاریخ اشاعت : جنوری ۱۹۹۸ء

اس کتاب میں رنگ، روشنی، دعا اور جڑی بوٹیوں سے تجویز کردہ ۴۰ سے زائد طریقۂ علاج کو مرتب کیا گیا ہے۔

کلر تھراپی : تاریخ اشاعت : نومبر ۱۹۹۸ء

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے رنگوں کی تاریخ ، رنگوں میں روشنی کا طول موج اور فریکوئنسی ، رنگوں کی تخلیق ، رنگ فی الواقع کیا ہیں ، رنگوں سے متعلق موجودہ سائنسی نظریات،رنگوں سے متعلق روحانی نظریہ، کائنات میں رنگ اور لہروں کا نظام ، لہروں کی تقسیم سے حواس کا بننااور لہروں کی کمی بیشی سے انسان کے اندر لاشمار خلیات میں ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں وغیرہ پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے ۔

اس کتاب کو نصاب کی طرز پر مرتب کیا گیا ہے جس سے مستقبل کے غیر جانبدار محقق کے لئے تحقیق و تلاش کے نئے روزن کھلیں گے۔

شرح لوح و قلم : تاریخ اشاعت : مارچ ۱۹۹۹ء

امام سلسلہ عظیمیہ کی تصنیف ’’ لوح و قلم ‘‘ روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس میں کائناتی نظام اور تخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے عظیمی صاحب نے متوسلین و سالکین کے لئے یکم فروری ۱۹۸۴ء میں باقاعدہ لیکچرز کا آغاز کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواتر جاری رہے۔ علم دوست افراد کے لئے آپ کے ان لیکچرز کو کتابی صورت میں ترتیب دے کر پیش کیا گیا ہے۔یہ کتاب سالفورڈ یونیورسٹی (برطانیہ ) میں ڈپارٹمنٹ آف Rehabilitation کے بی ایس سی آنرز کے نصاب میں شامل ہے ۔

بڑے بچوں کے لئے : تاریخ اشاعت : جنوری ۲۰۰۱ء

۲۰۸ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں عظیمی صاحب کی تحریر کردہ کتب اور دیگر اخبارات و جرائد میں شائع شدہ تحریرات میں بیان کردہ اسرار و رموز کو اقوال زریں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

محمد رسول اﷲ جلد سوئم : تاریخ اشاعت : جنوری ۲۰۰۲ء

قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔

اﷲ کے محبوب : تاریخ اشاعت : ۲۰۰۲ء

اس کتاب میں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین ،سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو ؤں پر عظیمی صاحب کے خطابات کو جمع کیا گیا ہے۔

ایک سوایک اولیاء اﷲخواتین : تاریخ اشاعت : جون ۲۰۰۲ء

عورت اور مرد دونوں اﷲ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتا ہے۔

صنف نازک کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مرد کرلیتا ہے۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے۔ سو سال پہلے علم و فن میں بھی عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے۔ غیر جانبدار زاویے سے مرد اور عورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے۔

آپ نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے عطا کردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اور اس کوشش کے نتیجے میں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک سو ایک اولیاء خواتین کے حالات ،کرامات اور کیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے۔ یہ کہنا خود فریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے۔ دو ہزار چھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اور اکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے۔

صدائے جرس : تاریخ اشاعت : ۲۰۰۳ء

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم ’’صدائے جرس‘‘ کو کتابی صورت میں پیش کرنے کیلئے ڈائجسٹ کے ۶۵ سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

روحانی حج و عمرہ : تاریخ اشاعت : جنوری ۲۰۰۳ء

چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول میں تمام مقدس مقامات کا تعارف پیش کیاگیا ہے۔ باب دوئم میں حج و عمرہ کا طریقہ اور باب سوئم میں اراکین حج و عمرہ کی حکمت بیان کی گئی ہے۔

جب کہ باب چہارم میں چودہ سو سال میں گزرے ہوئے اور موجودہ صدی میں موجود ایسے مرد و خواتین بزرگوں کے مشاہدات و کیفیات جمع کئے گئے ہیں جن کو دوران حج و عمرہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فیض حاصل ہوا ہے اور جن خواتین و حضرات کو خالق اکبر، اﷲ وحدہ لاشریک کا صفاتی دیدار نصیب ہوا ہے۔

خواتین کے مسائل : تاریخ اشاعت : اکتوبر ۲۰۰۳ء

اس کتاب میں مسائل کے حل کے لئے آپ کے شائع شدہ کالموں کو دو حصوں، خواتین کے مسائل اور حضرات کے مسائل میں تقسیم کرنے کے بعد پہلے مرحلے میں خواتین کے مسائل کے عنوان کے تحت منتخب کالموں کو شامل اشاعت کیا گیا ہے۔

ذات کا عرفان : تاریخ اشاعت : ۱۷،اکتوبر ۲۰۰۳ء

اس کتاب میں عظیمی صاحب کے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ منتخب کالمز کو شامل اشاعت کیا گیا ہے۔

احسان و تصوف : تاریخ اشاعت : جنوری ۲۰۰۴ء

کتاب کے تعارف میں پروفیسر ڈکٹر غلام مصطفی چوہدری صاحب ۔ وائس چانسلر ، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ،ملتان۔پاکستان تحریر کرتے ہیں

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن ا س کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔

گزشتہ صدی میں اقوام مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے۔ اب چاہۂ تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک روشن خیالی اور جدت کی راہ اپناکر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے۔ ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کرلئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی او ربے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرہ ور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہ خدا کا مسافر بنادیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد و مستند کتاب ہے۔

جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیان ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے تصوف کو جدید سائنیٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پراسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تاکہ قاری کے ذہن پر بارنہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہورہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کوبجھانے کے لئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعاء کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ النسلمی  اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہش مند افراد سب کے لئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الہٰی تعلیمات کو اپنا کرہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوسکیں۔ آمین

خطبات ملتان : تاریخ اشاعت : جنوری ۲۰۰۷ء

حضرت خوا جہ شمس الدین عظیمی صاحب نے بہاء الدین زکریا یو نی ورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ میں فیکلٹی ممبر کی حیثیت سے تصوف اور سیر ت طیبہ کے موضوعات پر لیکچرزڈلیور کئے ہیں۔

ان لیکچرز میں شعبہ علوم اسلامیہ کے طالبات اور طلبا ء کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے ڈین ، پروفیسر زاور لیکچرار بھی اپنے طالب علموں کے ساتھ شریک درس ہوتے رہے ہیں۔اس کتا ب میں عظیمی صاحب کے لیکچر ز اور ان کے بعد سوال وجواب کی نشستوں کو اُنیس عنوانات کے تحت شامل اشاعت کیا گیا ہے۔

اسلامیات : تاریخ اشاعت : ۲۰۰۷ء

’’حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے ایک بزرگ کی حیثیت سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کے مذہبی افکار کی تطہیر ، دین اور دنیا میں ہم آہنگی وتوازن پیدا کرنے کے لئے، اخلاق کوسنوارنے کے لئے، شک اور وسوسوں کی جگہ ان کے اندر یقین پیدا کرنے کے لئے، غیظ وغضب کی جگہ محبت والفت سے مانوس کرنے کے لئے، بڑوں کا احترام کرنے کے لئے پہلی تا آٹھویں جماعت کے لئے درسی کتابیں ’’اسلامیات‘‘ تحریر فرمائی ہیں۔ آٹھ جلدوں پر مشتمل یہ درسی کتب پاکستان کے متعدد اسکولوں کے نصاب میں شامل ہیں۔‘‘ عظیمی صاحب فرماتے ہیں

بسم اﷲالرحمن الرحیم

قسم ہے زمانہ کی ، انسان خسارہ اور نقصان میں ہے مگر وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جو رسالت اور قرآن کی تعلیمات کو اپنا کر اس پر عمل پیرا ہوگئے۔ القرآن

پیدائش کے بعد انسان کا تعلق تین نظاموں سے ہے ۔پہلا نظام وہ ہے جہاں اس نے خالق حقیقی کو دیکھ کر اس کے منشاء کو پورا کرنے کا عہد کیا ۔ دوسرا نظام وہ ہے جس کوہم عالم ناسوت ، دارالعمل یا امتحان گاہ کہتے ہیں اورتیسرا نظام وہ ہے جہاں انسان کو امتحان کی کامیابی یا ناکامی سے باخبر کیا جاتا ہے ۔

انسان کی کامیابی کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ وہ جان لے کہ اس نے اللہ کے سامنے عہدکیا ہے کہ اللہ اس کا خالق اور رب ہے ۔ علمائے باطن کہتے ہیں کہ انسان سترہزارپرت کا مجموعہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق انسان جب عالم ناسوت میں آتا ہے تو اس کے اوپر ایسا پرت غالب آجاتا ہے جس میں سرکشی، بغاوت، عدم تحفظ،عدم تعمیل، کفران نعمت ، ناشکری ، جلد بازی ، شک ، بے یقینی اور وسوسوں کا ہجوم ہوتا ہے ۔ یہی وہ ارضی زندگی ہے جس کو قرآن پاک نے اسفل السافلین کہا ہے ۔

انبیاء کرام کی تعلیمات یہ ہیں کہ پوری کائنات میں دوطرزیں کام کررہی ہیں۔ ایک طرز اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور دوسری طرز اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے۔ ناپسندیدہ طرز جو بندے کو اللہ سے دور کرتی ہے اس کانام شیطنت ہے اور پسندیدہ طرز فکر جو اللہ سے بندے کو قریب کرتی ہے اس کانام رحمت ہے۔

انسان کا کردار اس کی طرزفکر سے تعمیر ہوتا ہے ۔ طرز فکر میں اگرپیچ ہے تو آدمی کا کردار بھی پرپیچ بن جاتا ہے ۔ طرز فکر الہٰی قانون کے مطابق راست ہے تو بندے کی زندگی میں سادگی اور راست بازی کا رفرماہوتی ہے ۔ طرز فکر اگر سطحی ہے تو بندہ سطحی طریقہ پر سوچتا ہے۔ طرزفکر میں گہرائی ہے تو بندہ شے کی حقیقت جاننے کے لئے تفکر کرتا ہے ۔

جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اسی طرز کے نقوش کم وبیش ذہن میں نقش ہوجاتے ہیں۔جس حد تک یہ نقوش گہرے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسانی زندگی میں طرزفکر کی تشکیل ہوتی ہے ۔ ماحول اگر ایسے کرداروں سے بنا ہے جو ذہنی پیچیدگی ،بے یقینی ، بد دیانتی ، تخریب اور ناپسندیدہ اعمال کا مظاہرہ کرتے ہیں توفردکی زندگی ابتلا میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔ ماحول میں اگر راست بازی اور اعلیٰ اخلاقی قدریں موجود ہیں تو ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والافرد پاکیزہ نفس اور حقیقت آشنا ہوتا ہے ۔

جتنے بھی پیغمبر علیہم السلام تشریف لائے سب کی طرز فکر یہ تھی کہ ماورائی ہستی کے ساتھ ہمارا رشتہ قائم ہے ، یہی روحانی طرزفکر ہے ، یہی مثبت طرزِ فکر ہے اور یہی رشتہ کائنات کی رگ جان ہے ۔ مثبت طرز فکر مسلسل ایک عمل ہے جو بندہ کے اندر خون کی طرح دورکرتا رہتا ہے۔

صدیوں پرانی روایات اور جہالت کی گردسے اٹا ہوا ماحول آدمی کے اندر سے فہم کا چشمہ خشک کردیتا ہے ۔ہم جب بچوں کو جہالت سے معمور ماحول سے الگ کرکے علمی ماحول میں داخل کرتے ہیں۔۔۔تو۔۔۔دراصل جہالت کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہیں۔

طالبات اور طلباء کے لئے پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک مرتب کی گئی ہر کتاب کو نصاب کی طرز پر پانچ سے چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی ترتیب کچھ اس طرح ہے ۔

باب اول ۔قرآن مجید

الف۔ ناظرہ ب۔حفظ قرآن معہ ترجمہ

قرآن پاک اللہ کا کلام ہے اور ان حقائق ومعارف کابیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے بوسیلہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہرپر نازل فرمائے ۔ قرآن مجید کا ہرلفظ انواروتجلیات کا ذخیرہ ہے۔ ان الفاظ میں نوری تمثلات اور معانی کی وسیع دنیا موجودہے۔ اس باب میں طالبات اور طلباء کو پابند کیاگیاہے کہ آیات قرآنی کو معانی کے ساتھ یاد کیا جائے تاکہ ان پر قرآن پاک کی آیات اپنی پوری جامعیت اور معنویت کے ساتھ روشن ہوجائیں ۔

باب دوئم ۔ ایمانیات وعبادات

بندے کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ بندے کو اللہ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہو ۔اس کا دل اللہ کی محبت سے سرشارہو، اس کے اندر عبادت کا ذ وق اور اللہ کے عرفان کا تجسس کروٹیں لیتا ہو۔ بندے کا اللہ کے ساتھ اس طرح تعلق استوار ہوجائے کہ بندگی کا ذوق اس کی رگ رگ میں رچ بس جائے اور بندہ پورے ہوش وحواس کے ساتھ جان لے کہ اللہ کے ساتھ میرا ایسا رشتہ ہے جو کسی آن، کسی لمحہ اور کسی وقفہ میں نہ ٹوٹ سکتا ہے ، نہ معطل ہوسکتا ہے اور نہ ختم ہوسکتاہے ۔

عظیمی صاحب نے اس باب میں ایمانیات وعبادات کے حوالے سے بنیادی معلومات تحریر فرمائی ہیں۔

باب سوئم ۔ حیات طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم

اس باب میں کوشش کی گئی ہے کہ جوکچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے

بچے اس پر عمل کریں اور جن چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے ان تمام چیزوں سے احتراز کریں۔حضو ر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ساز سیرت طیبہ کو حرزجان بنا کر بلاشبہ ہم دنیا میں کامران اور آخرت میں اﷲ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرخرو ہوسکتے ہیں۔

باب چہارم ۔ نور کے مینار

عظیمی صاحب نے اس باب میں انبیاء علیہم السلام اور امہات المومنین کی حیات طیبہ کے حوالے سے مختصر تذکرے تحریر فرمائے ہیں۔

باب پنجم ۔ اللہ کی نشانیاں

مطالعہ کائنات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ قرآن میں وضو، نماز ، صوم وزکوٰۃ، حج ، طلاق ، قرض وغیرہ پر ڈیڑھ سو آیات ہیں اور تسخیری فارمولوں ، مطالعہ کائنات سے متعلق سات سو چھپن آ یات ہیں۔اپنے اسلاف کے ورثہ علم کوفطری قوانین اورسائنسی توجیہات کے مطابق سمجھانے اور قرآن کریم کی ہر ہر قدم پر تفکر کی کھلی دعوت قبول کرانے کے لئے عظیمی صاحب نے اس باب میں کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی طرف متوجہ کرکے شاگردوں میں تحقیق وتفکر کے ذوق کو بیدار کرنے کی کوشش فرمائی ہے تاکہ اس تفکر کے نتیجہ میں وہ نورعلیٰ نور فہم وفراست سے واقف ہوکر میدان عمل میں اتریں اور اس بات سے واقف ہوجائیں کہ علم بے عمل، جہالت ہے ۔


 

 

باب ششم ۔ اخلاقیات

اسلام کسی ایک شعبہ کانام نہیں ہے ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اسلام نظام زندگی کامرکز ہے ،ایک وحدت ہے ، ایک یونٹ ہے ، ایک روشن شاہراہ ہے ۔ اسلام ایک ایسادریا ہے جس میں سے ہدایت کی شفاف نہریں نکلتی ہیں۔یہ نہریں زبان اور دل کے یقین کے ساتھ ایمان ہیں۔ مٹی کی سڑاند سے بنے ہوئے اسفل جذبات کو کنٹرول کرکے اعلیٰ جذبات میں داخل ہونا اسلام ہے ۔اللہ کی مخلوق کے لئے راحت اور آسائش کے وسائل فراہم کرنا اسلام ہے ۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اس باب میں طالبات اور طلباء کو اخلاقیات کے حوالے سے معلومات فراہم کی ہیں۔

تصانیف و تالیفات کے تراجم

اردو زبان کے علاوہ دیگر زبانوں سے تعلق رکھنے والے علم دوست خواتین و حضرات تک مثبت طرز فکر کی ترسیل کے لئے عظیمی صاحب کی تصانیف وتالیفات کا مختلف زبانوں میں تراجم کا آغاز ۱۹۹۲ء میں کیا گیا ۔جس کے تحت اب تک منظر عام پر آنے والے تراجم کی فہرست درج ذیل ہے۔

انگریزی

۱قلندر شعور۱۹۹۲ء

۲لوح و قلم۱۹۹۲ء

۳پیر اسائیکو لوجی۱۹۹۴ء

۴ٹیلی پیتھی سیکھئے۱۹۹۳ء

۵محمد رسول اﷲ جلد اول۲۰۰۰ء

۶روحانی علاج ۲۰۰۱ء

۷شرح لوح و قلم ۲۰۰۲ء

۸مراقبہ ۲۰۰۵ء

۹محمد رسول اﷲ جلد اول ، دوئم۲۰۰۵ء

۱۰محمد رسول اﷲ جلد سوئم۲۰۰۷ء

۱۱کلر تھراپی۲۰۰۷ء

عربی

۱تجلیات۱۹۹۵ء

۲روحانی نماز۱۹۹۸ء

فارسی

۱روحانی علاج ۱۹۹۴ء

۲قلندرشعور۱۹۹۵ء

۳تذکرہ قلندر بابا اولیاء۱۹۹۹ء

سندھی

۱تذکرہ قلندر بابا اولیاء۲۰۰۰ء

۲محمد رسول اﷲ جلد اول۲۰۰۵ء

روسی

۱قلندر شعور۲۰۰۳ء

۲ٹیلی پیتھی سیکھئے۲۰۰۴ء

تھائی

۱قلندر شعور۲۰۰۴ء

پنجابی

۱محمد رسول اﷲ جلد اول۲۰۰۴ء

کتابچوں کی اشاعت

تصنیف و تالیف کے تحت منظر عام پر آنے والی کتب سے روشناس کرانے کے لئے عظیمی صاحب نے سادہ اور سلیس طرز تحریر میں مختلف موضو عات پر۸۰ کتابچے تحریر فرمائے ہیں ۔

آپ کے تحریر کردہ کتابچوں کے مجموعے درجِ ذیل عنوانات کے تحت کتابی صورت میں بھی دستیاب ہیں

۱ اسم اعظم ۱۹۹۵ء

۲ قوس قزح ۲۰۰۲ء

۳ محبوب بغل میں ۲۰۰۳ء

عظیمیہ روحانی لائبریریز کا قیام

لوگوں کو جدید و قدیم اور روحانی علوم سیکھنے کی طرف راغب کرنے اور ان کے اندر تحقیق و تلاش کا جذبہ بیدارکرنے کے لئے ۱۳ ، اکتوبر ۱۹۹۷ء کو کراچی میں پہلی عظیمیہ روحانی لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا۔الحمد اللہ! عظیمیہ روحانی لائبریریز کے قیام سے پریشان حال مخلوق کواس نفسا نفسی کے عالم میں سکون ملاہے اور ان کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے روحانی قدریں اجاگر ہوئی ہیں ۔ انفرادی افسوں ختم ہواہے اور اجتماعی شعو ر پیدا ہوا ہے۔ملک اور بیرون ملک عظیمی صاحب کی زیر سرپرستی ۱۰۰ سے زائد لائبریریز قائم ہیں جبکہ مرکز ی مراقبہ ہال میں ایک مرکزی لائبریری قائم ہے جس میں تحقیق کے لئے کتب کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔

آڈیو ویڈیو کیسٹس

اس شعبہ کے تحت عظیمی صاحب کے مختلف مواقع پر دیئے گئے لیکچرز اور خطابات کے۱۷۰ سے زائد آڈیو، ویڈیو کیسٹس دستیاب ہیں۔


Tazkira Khwaja Shamsuddin Azeemi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ایسالگتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔ مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔