Topics

دیباچہ

ایسالگتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔ مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔

ابتدائی منصوبہ کے دوران نومبر۱۹۹۶ء کی ایک شب میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ سے ان کے انٹرویو کے لئے درخواست کررہا ہوں۔ آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلا خیال آیا کہ مرشد کریم کو خواب سناؤں۔صبح سویرے حاضر خدمت ہوگیا۔ مرشد کریم اس وقت اخبار کا مطالعہ فرمارہے تھے اور قریب ہی ایک پلیٹ میں نیم کی نبولیاں رکھی ہوئی تھیں جس میں سے کچھ آپ نے مجھے کھانے کے لئے عنایت فرمائیں۔ خواب بیان کرتے وقت میں نے دیکھا کہ غیر محسوس انداز میں آپ نے اخبار کو اپنے چہرہ کے سامنے کرلیا لیکن اس دوران آپ کی مسکراہٹ میری آنکھوں سے پوشیدہ نہیں رہی۔

آپ نے شفقت فرمائی اور میری درخواست کو شرف قبولیت بخشا۔ اس طرح ۱۳ نومبر ۱۹۹۶ء سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا جو کہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ میں قابل اعتبار ذرائع سے مرشد کریم کی زندگی کے بارے میں معلومات جمع کرنا تھیں اور دوسرے حصہ میں الہٰی مشن کی ترویج کے لئے آپ کی کاوشوں کا مکمل ریکارڈ مرتب کرنا ہے۔

تنہا آدمی کبھی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑا کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مطلوبہ کام کی پشت پر کئی افراد کی صلاحیتیں کار فرما ہو۔ اس معاملے میں میں خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ اس منصوبے کے آغاز سے ہی مجھے ایسے دوستوں کی رفاقت میسر آگئی کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل، مرشد کریم کی نظر کرم سے الحمد اﷲ ! منصوبہ کا پہلا حصہ احسن طریقہ سے پایۂ تکمیل کو پہنچا اور تذکرہ خواجہ شمس الدین عظیمی بصد احترام و ادب پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

روحانیت کے بارے میں لوگوں کا عمومی یہ نظریہ ہے کہ روحانیت کا مطلب کشف و کرامت ہے۔ دوسری بات جو معاشرے میں حقیقت کے خلاف بیان کی جاتی ہے کہ تسخیر کائنات یا روحانی علوم حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان دنیا بیزار ہوکر جنگل میں جا بیٹھے۔ یہ تذکرہ قارئین پر آشکار کرے گا کہ مرشد کریم نے نہایت مصروف زندگی گزاری ہے۔ جس کے ذریعے آپ نے رہبانیت کو مکمل مسترد کیا ہے۔ بحیثیت استاد آپ نے اپنے شاگردوں میں اس جذبہ کو راسخ کیا ہے کہ اُنہیں دینی اور دنیاوی اعتبار سے علم و فنون میں ماہر ہونا چاہئے۔ آپ کی تعلیمات بتاتی ہیں کہ اگرانسان زندگی اور حیات کی ہم آہنگی کا ادراک کرلے تو اس پر حیات ابدی کا راز منکشف ہوجاتا ہے۔

تذکرہ خواجہ شمس الدین عظیمی مرتب کرنے کے لئے میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مرشد کریم کے جملوں کو استعمال کیا جائے تاکہ طرز تحریر کو روایتی رکھ رکھاؤ سے دور رکھ سکوں۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ قارئین الفاظ کا صحیح تاثر قبول کریں گے۔

مسودہ مرتب کرنے کے دوران میرے سامنے ایک بات تھی کہ کسی طور پر اس کو مکمل کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے میں شوق اور دیگر فرائض کے درمیان توازن برقرار نہیں رکھ سکا۔ میں اپنے اہل خانہ سمیت احباب کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے میری کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے میری بھرپور حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ بالخصوص میں اراکین سلسلہ عظیمیہ، نگراں مراقبہ ہالز ، لائبریرین برائے عظیمیہ روحانی لائبریز کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مرشد کریم کے حوالے سے معلومات کی فراہمی میں میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔

اس کام کے دوران میں نے شدت سے محسوس کیا ہے کہ مرشد کریم کے افکار و نظریات اور راہ حق پر چلنے کی دعوت متوسلین و سالکین کے لئے مشعل راہ ہے۔ مختلف نشستوں میں آپ کے لیکچرز، خطابات انسان کو غور و فکر کی طرف راغب کرتے ہیں۔ اجتماعی اور انفرادی تربیت کے لئے آپ کے لکھے ہوئے مضامین، مکتوبات ایسی بارش ہے جو روحانی پیاسوں اور متلاشیان حقیقت کو ابد تک سیراب کرتی رہے گی۔ مرشد کریم کی تحریریں، تقریریں صرف ایک قوم یا گروہ کے لئے مخصوص نہیں ہیں۔ یہ سرمایہ پوری نوع انسانی کے لئے ورثہ ہے اور اس علمی سرمایہ کو یکجا کرنے کے لئے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کے کارکنان تازہ دم ہیں۔

ہم مرشد کریم کے خادم مسرور ہیں کہ آپ کی سرپرستی ہمیں حاصل ہے اور تائید ایزدی ہمارے شامل حال ہے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے ایک خط میں امام سلسلہ عظیمیہ

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اﷲ علیہ سے اپنے وجدانی تعلق کی بنا پر صاحب خط کو تحریر فرمایا ہے کہ ’’محبوب کے وصل کی لذت آج بھی میرے اندر زندہ ہے اور یہی وہ وصل ہے اور لذت ہے جو مجھے دن رات بے قرار کئے ہوئے ہے۔ میں اس لذت کی تلاش میں کہاں کہاں نہیں پہنچا۔

میں نے جنت کا ایک ایک گوشہ دیکھا۔ آسمانوں کی رفعتوں میں فرشتوں کے خوشنما صفاتی پروں کا جمال دیکھا۔ ملائے اعلیٰ کے قدسی اجسام میں تجلی کا عکس دیکھا۔ دوزخ کے طبقات میں گھوم کر آیا۔ موت کو دیکھا ۔ موت سے پنجا آزمائی کی۔ وہ کچھ دیکھا جن کے لئے الفاظ نہیں ہیں کہ بیان کر دیا جائے لیکن مرشد کے وصل کی لذت نہیں ملی۔ ہر لمحہ مرنے کے بعد اس لئے جیتا ہوں کہ مرشد سے قربت ملے گی۔ جینے کے بعد ہر آن اس لئے مرتا ہوں کہ مرشد کا وصال نصیب ہوگا۔ اندر جھانکتا ہوں مرشد نظر آتے ہیں۔ باہر دیکھتا ہوں مرشد کی جھلک پڑتی ہے۔

ہائے! وہ کیسی لذت وصل تھی کہ زمانے گزرنے کے بعد بھی روح میں تڑپ ہے، اضطراب ہے، انتظار ہے۔ اس یقین کے ساتھ زندہ ہوں، اس یقین کے ساتھ مروں گا، اس یقین کے ساتھ دوبارہ زندہ ہوں گا کہ حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اﷲ علیہ مجھے ایک بار اپنے سینے سے لگائیں گے اور مجھے اس طرح اپنے اندر سمیٹ لیں گے کہ میرا وجود نفی ہوجائے گا اور کوئی یہ نہیں جان سکتا کہ مرشد اور مرید دو الگ الگ پرت ہیں۔

روحانی راستہ کے مسافر ، میرے فرزند ! میں آپ کو چند سطریں لکھنا چاہتا تھا مگر میرے اندر مرشد کریم کی محبت کا رکا ہوا طوفان برملا ظاہر ہوگیا اور میں داستان جنون لکھتا گیا۔ خدا کرے میرا جنون آپ کا جنون بن جائے۔آمین‘‘

دنیا میں بہت کم مواقع ایسے ہوتے ہیں جب کچھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کی نظر کرم ہے کہ آپ نے مجھے یہ سعادت بخشی ہے کہ میں شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی پر کام کرسکوں لہٰذا میں اس موقع پر اﷲ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ مجھے یہاں اور وہاں مرشد کریم کی رفاقت نصیب ہو۔ آمین

 

شہزاد احمد عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال ۔ کراچی

۱۲ دسمبر ۲۰۰۷ء


Tazkira Khwaja Shamsuddin Azeemi

خواجہ شمس الدین عظیمی

ایسالگتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔ مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔