Topics
قدیم ہندو تحریروں میں اتر پردیش
کا نام برہم رشی دیش یا مدھیہ پر دیش لکھا گیا ہے۔ عہد قدیم کے بہت سارے علماء
نے اترپردیش میں ہی ترقی کی منزلیں طے کیں۔ آریاؤں کی بہت ساری متبرک کتابیں بھی یہیں
لکھی گئیں۔ رامائن اور مہا بھارت جیسے دو عظیم رزمئے(جنگ نامے)بھی اتر پردیش میں ہی
تخلیق کئے گئے۔چھٹی صدی قبل مسیح میں اترپردیش کا دو نئے مذاہب جین مت اوربدھ مت سے
واسطہ پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ جین مت کے بانی ’’مہاویر‘‘ نے اپنی آخری سانس اترپردیش کے
شہرڈورہ میں ہی لی تھی۔ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ نے بھی اترپردیش کے شہر سارا ناتھ
میں ہی اپنا پہلا وعظ دیا تھا اور وہیں اپنے سلسلے کی بنیاد رکھی۔
قرون وسطیٰ میں اتر
پردیش مسلمانوں کی حکمرانی میں چلاگیا جس کے نتیجہ میں ہندو اورمسلم تہذیبوں کے ملاپ
سے ایک نئی تہذیب تشکیل پانے کا راستہ نکل آیا۔رماندا اور اس کے شاگرد کبیر ، تلسی
داس، بیر بل اور کئی دوسرے صاحب علم و دانش لوگوں نے ہندی اور اردوزبانوں کی ترقی کے
لئے بہت کام کیا۔
انگریز دور حکومت میں
آگرہ اور اودھ کو ملا کر ایک صوبہ بنادیا گیا جس کا نام ’’یونائیٹڈ پرونسز آف آگرہ
اینڈ اودھ ‘‘رکھا گیا تھا۔ ۱۹۳۵ ء میں یہ نام مختصر کرکے ’’یونائٹیڈ پرونسز
‘‘ کردیا گیا جس کا مخفف ’’یو ۔پی‘‘ ہے ۔ ہندو ستان کی آزادی کے بعد جنوری ۱۹۵۰ ء میں "United Provinces" کا نام بدل کر ’’اتر پردیش ‘‘ رکھ دیا گیا، جس کا مخفف بھی’’
یو ۔ پی‘‘ ہی بنتا ہے ۔ اس صوبہ میں واقع ضلع سہارن پور کے مغرب میں دریائے جمنا اور
مشرق میں دریائے گنگا بہتے ہیں ۔ ۲۱۶۵ مربع میٹر پر پھیلے سہارن پور کی بنیاد ۱۳۴۰ ء میں ایک مسلمان صوفی درویش ’’شاہ ہارون چشتی ‘‘ نے رکھی ۔ اس ضلع کا قصبہ
’’انبہٹہ ‘‘فیروز تغلق بادشاہ کے زمانے میں آباد ہوا۔ ہندوستان میں یہ خاندان تغلق
میں تیسرا بادشاہ ہواہے ۔ فیروز تغلق کے سپہ سالار سعد اللہ بیگ نے ۷۷۴ ہجری میں اس قصبہ کو آباد کرکے اسے فوج کا کیمپ قرار دیا اور بادشاہ کے نام
پر اس کا نام ’’فیروز آباد‘‘ مشہور کیا۔ جب آباد ی کے سبب گردونواح میں زراعت بکثرت
ہونے لگی تو اس کا نام ’’انبانا ‘‘ رکھا۔قصبہ کے چار اطراف باغا ت ہیں۔ان میں زیادہ
تر آم کے باغات ہیں۔ بعض محققین کے نزدیک ’انبہٹہ ‘‘ اصل میں ’’آم ہٹہ ‘‘ کا بگڑا ہوا
نام ہے یعنی اس قصبہ میں بہترین آم بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ گیارہ ہجری کے آخر میں حضرت
سید شاہ ابوالمعالی چشتی صابری رحمتہ اﷲ علیہ اس قصبہ میں رونق افروز ہوئے ۔ان کے نورولایت
سے اس قصبہ کو ’’قصبہ پیر زادگان ‘‘ کہا جانے لگا۔ تقسیم ہندو پاک کے وقت اس کی آبادی
تقریباً ۰۰۰،۵ نفوس پر مشتمل تھی۔ جس میں ۳۵ فیصد انصاری خاندان آباد تھا۔
Tazkira Khwaja Shamsuddin Azeemi
خواجہ شمس الدین عظیمی
ایسالگتا ہے کہ جیسے
کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔
مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ
جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش
اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔