Topics
عظیمی صاحب کا سلسلہ
نسب میزبان ر سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری سے ملتاہے جو
ان منتخب بزرگان مدینہ میں ہیں جنہوں نے عقبہ کی گھاٹی میں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ
و سلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ آپ کا نسبی سلسلہ حضرت خواجہ مبارک انصاری بن حضرت
امام ناصرالدین جالندھری سے ہے۔
میزبان رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم کے خاندان سے تعلق کی بناء پر خاندانی روایات کے مطابق آپ کے اندر
مہمان نوازی ، ایثار اور قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجودہے۔ خاندانی روایات میں سے
ایک روایت یہ بھی ہے کہ خاندان کا ایک فرد ہجرت کرکے مکہ یا مدینہ چلاجاتا ہے ۔ سب
سے پہلے آپ کے دادا الحاج انیس احمد انصاری صاحب کے چچاحاجی مقبول صاحب ہجرت کرکے مکہ
چلے گئے۔ بیت اللہ شریف میں جاروب کشی کی ملازمت کی۔
عظیمی صاحب کے دادا
مولانا خلیل احمد سہارنپوری، قطب ارشادمولانازکریا صاحب شیخ الحدیث کے مرشد کر یم تھے
اورمولا نا رشید احمد گنگوہی بھی ان کے خلیفہ تھے۔ حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے ان
کو خصوصی فیض حاصل تھا۔درس و تدریس میں احا دیث پڑھا نا اوراحادیث کی تشریح کرنا ان
کا مو ضوع تھا۔
آ پ نے دس سال کی محنت
شاقہ کے بعد حدیث مبارک کی کتاب سنن ابی داؤد کی ایک عظیم الشان شرح ’’بذل المجہود
فی حل سنن ابی داؤد‘‘ عربی زبان میں تحریر فرمائی ہے۔ ابھی شرح کے دو ہزار صفحات مکمل
ہوئے تھے کہ آپ کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی اور حکم ملا،آپ میرے
پاس مدینہ آجائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل میں دوسرے دن ہی مدینہ
منورہ روانہ ہوگئے اور شرح کا بقیہ حصہ وہاں جاکر مکمل کیااور جنت البقیع میں مدفون
ہوئے۔ دادا صاحب کے بعد عظیمی صاحب کے بڑے بھائی مولوی محمد الیاس انصاری ہجرت کرکے
مکہ چلے گئے، وہیں آپ کا انتقال ہوا اور جنت المعلٰی میں حضرت زبیر کے برابر میں مدفون
ہیں۔
عظیمی صاحب کے دوسرے
بڑے بھائی مولانا محمد ادریس انصاری صاحب ملک کے مایہ ناز عالم دین اور حضرت مولانا
عبد الغفور مہاجر مدنی کے خلیفہء مجاز تھے۔ انہوں نے کئی معرکتہ الاراء کتابیں لکھیں
اور کئی کتابوں کے ترجمے کئے ۔
والدہ کے انتقال پر
قبر کے قریب ایک جگہ زمین خریدی اور وہا ں خانقاہی نظام قائم کرنے کے لئے ایک مسجد
اور مدرسہ بنایا۔ اس مسجد کا نام مسجد ابو ایوب انصاری ہے۔بتایا جاتا ہے عالم اسلام
میں اس وقت دو مساجد حضرت ابو ایوب انصاری کے نا م سے منسوب ہیں۔
۱۔ استنبول ۔ ترکی ۲۔ صادق آباد ،بہاولپور۔ پاکستان
جب حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو ہر شخص منتظر تھا کہ سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ
و سلم کی میزبانی کا شرف اسے حاصل ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگو ں سے فرمایا،
میری اونٹنی مامور من اللہ ہے ۔ جس گھر کے سامنے بیٹھ جائے گی میں اس گھر میں قیام
کروں گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کی کیفیت
طاری تھی اور آپ قیام کے لئے حکم الہی کے منتظر تھے۔ناقہ، حضرت ابوایوب انصاری کے گھر
کے سامنے بیٹھ گئی۔ حضرت ابو ایوب انصاری کا گھر دو منزلہ تھا۔
آپ نے عرض کیا، یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ادب و احترم کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اوپر کی منزل میں تشریف
فرما ہوں اور میں نیچے قیام کروں اور آپ کے آرام کاتقاضا یہ ہے کہ آپ پہلی منزل میں
تشریف فرماہوں تاکہ جو مہمانان گرامی اور قبائل کے سردار وغیر ہ آپ سے ملنے آئیں ان
سے ملاقات کے لئے آپ کو بار بار نیچے نہ اترنا پڑے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے
فرمایا، میں نیچے کی منزل میں رہوں گا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آپ کے گھر میں تقریباً
چھ ماہ فروکش رہے ۔
عظیمی صاحب کے آباؤ
اجداد صوبہ ہرات(افغانستان)سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔روایت ہے کہ ایک بزرگ حضرت
امام ناصر الدین اپنے ایک صاحبزادے کے ہمراہ حضرت بوعلی قلندر کی زیارت کے لئے پانی
پت تشریف لائے۔ حضرت بوعلی قلندر کو ان کے یہ صاحبزادے پسند آگئے۔ انہوں نے حضرت امام
ناصر الدین سے کہا کہ اپنے بیٹے کویہاں چھوڑ جاؤ۔ حضرت امام ناصر الدین نے عرض کیا،
میں بیٹے کو کیسے چھوڑجاؤں ، اس کی ماں یہ صدمہ کیسے برداشت کرے گی۔ حضرت بوعلی قلندر
کے ہاتھ میں عصاتھا، انہوں نے جلال میں زمین پر مارا تو وہ زمین میں دھنس گیا اور انہوں
نے فرمایا، تم لے جاسکتے ہو تو لے جاؤ۔حضرت اپنے بیٹے کوان کے پاس چھوڑ کر جالندھر
آگئے اور جالندھر میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ جالندھر میں آج بھی ان کا مزار مرجع خلائق
ہے۔ عظیمی صاحب کا نسبی سلسلہ حضرت خواجہ عبدالملک بن حضرت امام ناصرالدین جالندھری
سے ہے۔
عظیمی صاحب کے والد
الحاج انیس احمد انصاری معروف عالم دین حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمتہ اللہ
علیہ کے بھتیجے اور حضرت کے مرید تھے۔ حاجی صاحب یتیم ہوگئے تھے۔ مولانا خلیل احمدسہارنپوری
نے ان کی پرورش کی۔ الحاج انیس احمد انصاری صاحب کشف بزرگ تھے۔ اکل حلال کا بطور خاص
اہتمام کرتے تھے۔ وکالت کے پیشے سے منسلک تھے۔
ایک دن خیال آیاکہ وکیل
کی کامیابی اس بات میں ہے کہ جھوٹ کو سچ ثابت کردے اور سچ کو جھوٹ ثابت کردے اور مقدمہ
جیت لے۔ یہ بات انہوں نے اپنی بیگم صاحبہ کو سنائی توانہوں نے کہا ، اس طرح تو ہمارے
بچوں کی تربیت صحیح نہیں ہوگی ۔
دونوں میاں بیوی نے
فیصلہ کیا کہ وکالت کا پیشہ ترک کردیا جائے۔ حالات جب نامساعد ہوگئے تو ایک روپیہ روز
اجرت پر لکڑیاں پھاڑنے کی مزدوری شروع کردی۔ اﷲ نے یہ کرم کیا کہ درخت کی جانچ آگئی
کہ اس درخت میں اتنی سوختہ لکڑی ہے، اتنے تختے نکلیں گے اور جڑوں میں سے اتنا کوئلہ
بن جائے گا۔اس فن میں اس قدر مہارت ہوگئی کہ جنگل خریدنے والے سوداگر ان کی خدمات حاصل
کرتے تھے۔ اﷲ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ پانچ حج کئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک حج پیدل
(جدہ سے مکہ اور مکہ سے مدینہ منورہ تک) کیا تھا جس میں پیر شدید زخمی ہوگئے تھے۔ آپ
لیاقت آباد، کراچی کے قبرستان میں محو استراحت ہیں۔
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی صاحب کی والدہ محترمہ امت الرحمن بڑی صابر و شاکر اور عبادت گزار خاتون تھیں۔
ڈیوڑھی میں آپ نے مہمان خانہ بنایا ہوا تھا، بلا تخصیص کوئی بھی شخص تخت پر آکر بیٹھ
جاتا تھا۔ مہمان کو تازہ روٹی پکا کر کھلاتی تھیں۔ مہمانوں کے لئے راشن ایک الماری
میں مقفل رہتا تھا، الماری اس وقت کھلتی تھی جب مہمان آئے یا اس میں سامان رکھا جائے۔
بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی آپ اﷲ کے اوپر شاکر رہتی تھیں۔ شکر کا عالم یہ تھا کہ جب
آپ کو اپنی بیٹی کے انتقال کی خبر ملی تو زبان سے بے ساختہ نکلا ، یا اﷲ ! تیرا شکر
ہے اور کچھ توقف کے بعد رونے لگیں۔
ایک رات عظیمی صاحب
نے خواب میں دیکھا کہ مٹی کا بنا ہوا ایک کچا گھر ہے۔ چار دیواری پر چکنی مٹی پوتی
ہوئی ہے۔ وہاں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک خاتون سے خوش ہوکر باتیں کررہے
ہیں۔ ساتھ ہی عظیمی صاحب کی والدہ محترمہ کھڑی ہیں۔
عظیمی صاحب اس وقت سات
، آٹھ سال کی عمر کے ہیں اور نہایت حیرت کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ
رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ خاتون کتنی خوش نصیب اور مقدس ہیں کہ حضور ان سے شفقت
سے بات کررہے ہیں ۔آپ کا یہ خیال حضور صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ گیا۔ حضور نے مسکراتے
ہوئے فرمایا، یہ خاتون بی بی خدیجہ ہیں۔۔۔یہ سن کر بی بی خدیجہ نے فرمایا، یارسول اﷲ!
صلی اللہ علیہ و سلم یہ عورت ( عظیمی صاحب کی والدہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) اس کی
ماں ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، ہاں ! میں جانتا ہوں یہ امت الرحمن
ہے اور بہت صابر ہ خاتون ہے۔
میزبان رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم کے خاندان سے تعلق کی بناء پر خاندانی روایات کے مطابق آپ کے اندر
مہمان نوازی ، ایثار اور قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجودہے۔ خاندانی روایات میں سے
ایک روایت یہ بھی ہے کہ خاندان کا ایک فرد ہجرت کرکے مکہ یا مدینہ چلاجاتا ہے ۔ سب
سے پہلے آپ کے دادا الحاج انیس احمد انصاری صاحب کے چچاحاجی مقبول صاحب ہجرت کرکے مکہ
چلے گئے۔ بیت اللہ شریف میں جاروب کشی کی ملازمت کی۔
عظیمی صاحب کے دادا
مولانا خلیل احمد سہارنپوری، قطب ارشادمولانازکریا صاحب شیخ الحدیث کے مرشد کر یم تھے
اورمولا نا رشید احمد گنگوہی بھی ان کے خلیفہ تھے۔ حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے ان
کو خصوصی فیض حاصل تھا۔درس و تدریس میں احا دیث پڑھا نا اوراحادیث کی تشریح کرنا ان
کا مو ضوع تھا۔
آ پ نے دس سال کی محنت
شاقہ کے بعد حدیث مبارک کی کتاب سنن ابی داؤد کی ایک عظیم الشان شرح ’’بذل المجہود
فی حل سنن ابی داؤد‘‘ عربی زبان میں تحریر فرمائی ہے۔ ابھی شرح کے دو ہزار صفحات مکمل
ہوئے تھے کہ آپ کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی اور حکم ملا،آپ میرے
پاس مدینہ آجائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل میں دوسرے دن ہی مدینہ
منورہ روانہ ہوگئے اور شرح کا بقیہ حصہ وہاں جاکر مکمل کیااور جنت البقیع میں مدفون
ہوئے۔ دادا صاحب کے بعد عظیمی صاحب کے بڑے بھائی مولوی محمد الیاس انصاری ہجرت کرکے
مکہ چلے گئے، وہیں آپ کا انتقال ہوا اور جنت المعلٰی میں حضرت زبیر کے برابر میں مدفون
ہیں۔
عظیمی صاحب کے دوسرے
بڑے بھائی مولانا محمد ادریس انصاری صاحب ملک کے مایہ ناز عالم دین اور حضرت مولانا
عبد الغفور مہاجر مدنی کے خلیفہء مجاز تھے۔ انہوں نے کئی معرکتہ الاراء کتابیں لکھیں
اور کئی کتابوں کے ترجمے کئے ۔
والدہ کے انتقال پر
قبر کے قریب ایک جگہ زمین خریدی اور وہا ں خانقاہی نظام قائم کرنے کے لئے ایک مسجد
اور مدرسہ بنایا۔ اس مسجد کا نام مسجد ابو ایوب انصاری ہے۔بتایا جاتا ہے عالم اسلام
میں اس وقت دو مساجد حضرت ابو ایوب انصاری کے نا م سے منسوب ہیں۔
۱۔ استنبول ۔ ترکی ۲۔ صادق آباد ،بہاولپور۔ پاکستان
عظیمی صاحب فرماتے ہیں
کہ۱۹۵۴ء میں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ ہمارا خاندانی
نام انصاری ہے لیکن کون جانے کہ میں واقعی انصاری ہوں ۔۔۔
تذکرہ غوثیہ میں حضرت
قلندر غوث علی شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ میں بغدادمیں حضرت بڑے پیر صاحب کے دربار میں
ان کے سجادہ کے پاس بیٹھا تھا کہ پانی پت کے کچھ لوگ آئے کہ ہمارے شجرہ کی تصدیق کردیں۔سجادہ
نشین صاحب نے مہر لگاکر تصدیق کردی۔غوث علی شاہ صاحب کو خیال آیا کہ شاید میرے بزرگ
بھی یہاں آئے ہوں اور سجادہ صاحب کے بزرگوں نے ہمارے شجرہ پر مہر لگادی ہوگی۔
بہر حال یہ خیال اتنی
شدت سے بار بارآنے لگا کہ میں پریشان ہوگیا اور یہ پریشانی آہستہ آہستہ مایوسی میں
تبدیل ہوگئی۔ اس طرح پتا نہیں کتنا عرصہ بیت گیا۔ آخر اللہ تعالیٰ کو رحم آگیا اور
میری تشفی اس طرح فرمائی کہ میں نے مراقبہ کی حالت میں دیکھا کہ حضرت مولانا خلیل احمد
سہارن پوری تشریف لائے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک بزرگ ہیں جن کا قد زیادہ لمبا نہیں اور
ان کی ریش مبارک مہندی سے رنگی ہوئی ہے ۔ یہ ہستی بڑی بار عب ہے ۔ حضرت نے فرمایا ،
اٹھو اور قدم بوسی کرو، تمہارے جد امجد حضرت ابو ایوب انصاری تشریف لائے ہیں۔میں خوشی
اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ آپ کے قدموں سے لپٹ گیا۔ حضرت ابو ایوب انصاری نے
مجھے اپنے سینے سے لگا لیا او ر بہت ہی شفقت و محبت سے فرمایا، ہمارے پاس تمہارا روحانی
ورثہ امانت ہے۔ آکر اپنی امانت لے جانا۔
اس دعوت کے ۴۶ سال بعدعظیمی صاحب کو حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار شریف پر حاضری کا موقع ملا۔ جب روحانی طور پر حضرت ابو ایوب انصاری سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ حضرت ابو ایوب انصاری بہت خوش ہیں اور ان کے سینۂ مبارک سے نور کی ایک شعاع نکلی جو عظیمی صاحب کے سینے میں جذب ہوگئی۔ حضرت ابو ایوب انصاری نے فرمایا ’’سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہونے والا یہ نور جومیرے پاس تمہاری امانت تھا۔آج میں نے تمہیں منتقل کردیا۔‘‘
Tazkira Khwaja Shamsuddin Azeemi
خواجہ شمس الدین عظیمی
ایسالگتا ہے کہ جیسے
کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔
مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ
جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش
اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔