Topics

فخر اولیاء حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ العالی

حالات زندگی

ولادت……۷۱اکتوبر۷۲۹۱ء بمقام سہارنپور(یوپی) انڈیا

                مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی پاکستان کے ممتاز روحانی اسکالر اور سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ آپ ۷۱ اکتوبر ۷۲۹۱ء بروز پیر بمقام قصہ پیرزادگان ضلع سہارنپور (یوپی) بھارت میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام حاجی انیس احمد انصاری تھا اور والدہ ماجدہ کا نام امت الرحمٰن تھا۔ آپ بڑی پاک باز اور عابدہ خاتون تھیں۔ جس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اس وقت فجر کی اذان ہو رہی تھی اور پیر کا دن تھا۔

                آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد ماجد نے خواب دیکھا کہ بہت اندھیری رات ہے چاند نہیں نکلا ہے۔ آسمان کی طرف دیکھا تو آسمان ستاروں سے بھرا ہوا ہے اور روشن روشن ہے۔ دیکھتے دیکھتے آسمان سے ایک ستارہ ٹوٹا۔ آپ کے والد نے اپنا دامن پھیلایا تو وہی ستارہ ان کی گود میں آ گیا۔ اس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ آپ کی اولاد میں کوئی اللہ والا بندہ پیدا ہو گا جس سے ایک عالم روشن و منور ہو گا۔

                آپ کے بزرگ صوبہ ہرات افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لائے۔ ایک دفعہ آپ کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ حضرت خواجہ مبارک انصاری حضرت بو علی قلندر کی زیارت کے لئے پانی پت تشریف لے گئے اور اپنے ساتھ اپنے دونوں فرزند بھی لے گئے۔ حضرت بو علی قلندر کو دونوں صاحبزادگان پسند آ گئے اور انہوں نے دونوں کو اپنے پاس رکھ لیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ انہی بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے ملتا ہے۔ آپ پانچ بہن بھائی تھے۔ جن میں سے آپ سمیت تین بھائی اللہ کے فضل و کرم سے حیات ہیں۔ ایک بھائی حضرت اکبر انصاری ہیں۔ دوسرے بڑے بھائی جناب محمد ادریس انصاری صاحب ہیں۔ جنہوں نے اپنے مرشد پاک کے حکم پر ایک کتاب میری نماز مکمل کی جو ہندوستان کے علاوہ پاکستان میں بھی لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو رہی ہے۔ بہن کا نام آمنہ تھا۔

                تقسیم ہند کے وقت آپ ریاست پٹیالہ میں تھے۔ بچپن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کو خواب میں ملا کرتے تھے اور آپ بے اختیاری طور پر زمین پر ٹھوکر مارتے تھے تو پیسے ملتے تھے لیکن جوانی میں آپ نے مختلف قسم کی مزدوری کی اور کئی کئی من وزنی بوریاں اپنی کمر پر اٹھائیں۔ آپ نے باقاعدہ کسی اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ یہ مرشد کریم قلندر بابا اولیاء کا کرم تھا کہ انہوں نے اپنا تمام روحانی ورثہ آپ کو منتقل کر دیا۔

                جس وقت پاکستان بنا تو بڑی پریشانیوں اور تکلیفوں سے گزر کر پاکستان پہنچے۔ آپ فرمایا کرتے ہیں کہ جس وقت تقسیم ہند کا اعلان ہوا۔ وہاں پٹیالہ میں ہندو مسلم فسادات کی وجہ سے آگ کی ہولی کھیلی گئی اور مسلمانوں کی لاشیں جگہ جگہ بکھری ہوئی تھیں۔ بہت سے واقعات سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان میں لاہور تشریف لائے اور بعد میں صادق آباد چلے گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب میں صادق آباد پہنچا تو کئی دن کا بھوکا تھا اور پا ؤں سے ننگا تھا۔ دل میں خیال آیا کہ ایسی زندگی سے تو مر جانا بہتر ہے اور موت کا ارادہ کر کے اسٹیشن سے باہر آ گیا اور گاڑی کے نیچے آنے کا ارادہ کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی آتی نظر آئی تو فوراً ریلوے لائن پر لیٹ گیا۔ گاڑی سر پر پہنچی تو غیب سے دو ہاتھ نمودار ہوئے جنہوں نے مجھے اٹھا کر باہر پھینک دیا اور میں کئی گز دور تک لڑھکتا چلا گیا اور حسرت سے گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور اپنی بے بسی پر زار و قطار رو رہا تھا۔

                قدرت نے ہمت عطا فرمائی اور دوبارہ اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں پر آپ کے رشتہ کے ماموں سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے پہچان کر گلے سے لگایا اور اپنے گھر لے گئے۔ صادق آباد میں آپ کے والد کی دو مربع زمین بھی تھی۔ جو آپ کے والد نے تین سو روپے میں خریدی تھی۔ گھر لے جا کر نہلا کر سلا دیا۔ جب سو کر اٹھے تو نیا پاجامہ اور کرتا پہن کر کھانے کے لئے بیٹھے تو نوالہ گلے میں اٹک گیا کیونکہ کئی دن کی بھوک پیاس کی وجہ سے گلا خشک ہو چکا تھا۔ ماموں نے ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے بادام روغن گلے میں ڈالنے کو کہا۔ گلے کی مالش اور بادام روغن گلے میں قطرہ قطرہ کر کے کئی دن ڈالتے رہے تو ایک دن بادام روغن گلے سے اتر گیا تو سب گھر والے خوش ہو گئے۔ آہستہ آہستہ کھانا وغیرہ شروع کر دیا۔ تو بھوک خوب کھل گئی۔ اب یہ حالت ہو گئی کہ جو کھانے کو ملتا کھا جاتے۔ اب اسی ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے کھانا بند کر دیا۔ لہٰذا اس کا اثر یہ ہوا کہ جس دوکان سے کوئی چیز کھانے کو ملی اٹھا لی اور بھاگ کھڑے ہوتے اور سارا ہجوم آپ کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوتا۔ تو ماموں نے تمام دکان داروں سے کہہ دیا کہ اسے مت روکا کرو جو چیز کھائے اس کے پیسے مجھ سے لے لیا کرو۔

                صادق آباد میں رہتے ہوئے دل گھبرایا تو ۹۴۹۱ء کے آخر میں کراچی تشریف لائے اور ناظم آباد کے علاقہ میں قیام فرمایا۔ آپ کا گھرانہ مذہبی قسم کا تھا اور سب گھر کے پکے نمازی تھے۔ آپ کے والد نماز میں ذرا سی کوتاہی پر آپ کو سخت سست کہتے۔ اس قسم کی سختی سے آپ کی طبیعت بیزار رہنے لگی۔ آپ کے والد آپ کو اللہ تعالیٰ سے ڈرایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ عصر کی نماز قضا ہو گئی تو والد نے آپ کو بہت ڈانٹا۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ جب وہ مجھے سخت سست کہہ رہے تھے تو اچانک باطنی نظر کھلی تو دیکھا ابا جان مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں لیکن نماز میں گھر کی چھت پر استعمال ہونے والے سریے کا حساب بھی لگا رہے ہیں۔ تو میں نے فوراً جواب دیا۔ ابا جی ایسی نماز کا کیا فائدہ کہ جس میں آدمی گھر کے سریے کا حساب لگاتا رہے۔ میری یہ بات سن کر ابا جی بہت شرمندہ ہوئے۔

                شروع ہی سے ذہن خوف اور ڈر سے متعلق خیالات سے باغی تھا۔ یہ بات ذہن میں راسخ تھی کہ اللہ سے ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ محبت کرنی چاہئے۔ آپ مرشد کامل کی تلاش میں رہتے تھے۔ ایک دفعہ کسی دوست سے ملنے اخبار ڈان کراچی کے دفتر تشریف لے گئے تو وہاں حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے ملاقات کا شرف ملا۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں آپ کے حسن سلوک سے بے حد متاثر ہوا۔ آپ بہت عظیم انسان تھے۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ ڈان میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز تھے بعد میں آپ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے دست حسن پرست پر بیعت ہو گئے اور اس طرح آپ کی روحانی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا۔ ویسے آپ نے تیس سال کا عرصہ روحانی علوم کی تلاش و جستجو میں گزارہ اور بہت سے بلند پایہ روحانی بزرگوں کی زیر تربیت رہے۔ جن میں چوہدری اقبال صاحب کا نام قابل ذکر ہے۔ ایک مرتبہ مرشد کریم چوہدری اقبال صاحب کے ساتھ ایک عرس پر لاہور تشریف لے گئے اور یہ واقعہ وہاں کا ہے۔

                اس زمانہ میں میرے معاشی حالات انتہائی ابتر تھے۔ میرے شریک کار نے مجھے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ میں اسباق چھوڑ دوں۔ جب میں کسی طرح راضی نہ ہوا تو ایک حکیم صاحب کو میرے پیچھے لگا دیا۔ میں ان کو بزرگ مانتا تھا۔ وہ ہمیشہ ایک ہی بات کہا کرتے تھے کہ یہ سب کام بڑھاپے میں کئے جاتے ہیں۔ تم کس چکر میں پڑ گئے ہو۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے!

                ادھر حالات اتنے دگرگوں ہو گئے کہ روٹی کپڑا چلانا مشکل ہو گیا۔ یہ میری بہت بڑی کمزوری تھی کہ میں نے حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور میں نے سبق پڑھنا ترک کر دیا۔

                جس رات میں نے سبق پڑھنا چھوڑا، اسی رات حافظ صاحب کو دیکھا، فرما رہے تھے کہ تو صرف تین مہینے اور صبر کر لے کپڑوں کی پراوہ نہ کر۔ تین مہینے گھر میں بیٹھ کر گزار دے۔ کھانے کا میں ذمہ لیتا ہوں۔ تجھے بھوکا نہیں رہنے دوں گا۔ مگر میں نے حافظ صاحب کے فرمانے پر عمل نہیں کیا۔ میرے اس طرز عمل سے حافظ صاحب بہت دل برداشتہ ہوئے اور برابر ایک ہفتہ تک خواب میں آ کر فرماتے رہے۔

                ارے کم ہمت! لوگ تو بیس بیس سال کوشش کرتے ہیں تو کس قدر نادان ہے کہ تین ماہ بھی صبر نہیں کر سکتا۔

                افسوس! میرے اوپر حافظ صاحب کے فرمانے کا مطلق اثر نہیں ہوا اور میں نے اسباق پڑھنا بالکل ترک کر دیئے۔

                چشتیہ سلسلے کے اسباق ترک کرنے کے چھ ماہ بعد مجھے یہ اطلاع ملی کہ حافظ صاحب نے وصال فرمایا تو میرے دماغ پر سخت چوٹ لگی اور رہ رہ کر یہ خیال ستانے لگا کہ تو بہت ہی نالاق اور کندہ ناتراش ہے کہ تین مہینے صرف نہیں کر سکتا۔ میں اسی کرب میں مبتلا تھا کہ سہروریہ سلسلہ کے ایک بزرگ چودہری صاحب سے نیاز حاصل ہوا۔ اس مرد خدا میں کچھ ایسی کشش تھی کہ میں کھنچتا چلا گیا۔ اسی دوران میں حضرت بابا غلام محمد صاحب خلیفہ جنگو شاہ قلندر کا عرس لاہور میں شروع ہونے کی تاریخوں کی اطلاع ملی۔ حضرت بابا غلام محمد صاحب، حضرت چودہری صاحب کے دادا پیر ہیں۔ میں بھی اپنے شریک کار کی شدید مخالفت کے باوجود چودہری صاحب کے ساتھ لاہور روانہ ہو گیا۔

                لاہور میں انٹر کلاس کی سات یا آٹھ سیٹیں ریزرو کرائی گئی تھیں۔ مجھے بہت اصرار کے ساتھ چودہری صاحب نے اوپر کی سیٹ پر لٹا دیا۔ میں نے ہر چند منت سماجت کی کہ حضور یہ بے ادبی اور گستاخی ہے کہ میں اوپر کی سیٹ پر بیٹھوں اور رات کو آرام کروں۔ مگر مجھ سے فرمایا گیا کہ یہ میرا حکم ہے قہر درویش برجان درویش میں نے تعمیل کی اور رات کو اوپر سو رہا۔

                صبح بیدار ہونے کے بعد یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی کہ میں جب بھی آنکھیں بند کرتا تھا، مجھے باغات، دریا، پہاڑ، خوبصورت پھول، پل، ندی، نالے، دیہات اور دور دور کے شہر نظر آتے تھے۔ کراچی سے لاہور تک سارے راستے میں یہ مناظر دیکھتا رہا۔ اب مجھے بھی مزہ آنے لگا۔ میں نے بھی سفر میں ضرورت کے علاوہ آنکھیں نہیں کھولیں۔ جب بھی چوہدری صاحب سے نظریں چار ہوتی تھیں وہ بہت میٹھی نظروں سے دیکھ کر مسکرا دیتے تھے۔

                لاہور پہنچے تو شام کا وقت تھا۔ جن صاحب کے یہاں قیام کیا وہ کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ بہت خوش اخلاق اور بزرگوں کی عقیدت سے سرشار انسان تھے۔

                آئندہ روز ہماری پیشی صبح کے وقت حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی نور اللہ مرقدہ کے دربار میں ہوئی۔ یہ بزرگ ہستی جن کے چہرے سے معصومیت ٹپکی پڑتی تھی، قلعہ گوجر سنگھ میں قیام فرما تھے۔

                چوہدری صاحب نے فرمایا حضرت جی میں اس کو (میری طرف اشارہ کر کے) آپ کی خدمت میں لے آیا۔

                حضرت صاحب نے خوشی کا اظہار فرمایا اور مجھے اپنے قریب بلا کر نہایت گرمجوشی سے مصافحہ فرمایا۔ کچھ دیر کے بعد لوگوں نے کھانا شروع کیا تو مجھ سے فرمایا کہ تو نے کھانا میرے ساتھ کھانا ہے۔

                میں حیران و پریشان یہ سب دیکھ رہا تھا کہ ہزاروں کے مجمع میں آخر میرے ساتھ یہ التفات کیوں ہے! جلسہ شروع ہونے سے قبل خاص طور پر مجھے انتہائی پچھلی صفوں سے بلا کر اسٹیج پر بٹھایا۔ میں اپنی اس پذیرائی پر بجائے خوش ہونے کے انتہائی شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔

                جلسہ ختم ہونے کے بعد اس بندہ گناہگار کی طلبی ہوئی۔ کمرہ میں اپنے پاس بیٹھنے کو فرمایا۔ بہت سی ہلکی پھلکی باتیں کیں۔

                کراچی سے جانے والے ہم سب لوگ اپنے مقام پر واپس آ گئے۔ اگلی صبح کسی صاحب کے یہاں موچی دروازے میں ناشتہ کی دعوت تھی۔ ناشتہ کرنے کے بعد ایک بڑی شیور لیٹ کار میں ہم چار آدمی چوہدری صاحب کے ہمراہ پاک پتن شریف کے لئے روانہ ہو گئے۔

                پاک پتن شریف میں حضرت بابا فرید کی قبر مبارک پر بیٹھ کا فاتحہ خوانی کی اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبر شق ہو گئی اور بابا صاحب کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ حضرت گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے رحل پر قرآن پاک رکھا ہوا ہے اور وہ تلاوت میں مصروف ہیں۔

                جب میں مزار سے باہر آیا تو چوہدری صاحب نے فرمایا۔ کسی سے کچھ نہ کہنا۔ گھر چل کر بات کریں گے۔ پاک پتن میں چوہدری صاحب کے ایک مرید تھے ، ہم ان کے گھر گئے۔ انہوں نے بہت پرتکلف ناشتہ کرایا۔ میز پر ناشتہ کے دوران چوہدری صاحب نے فرمایا۔ ہاں بھائی! تم بہت بے قرار ہو چلو سنا دو۔ (اور یہ واقعہ یہ ہے کہ میں حضرت بابا صاحب کی زیارت کرنے کا واقعہ بیان کرنے کے لئے بے چین تھا)

                میں نے قبر کے شق ہونے اور حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی زیارت کا واقعہ سنا دیا۔ ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ حیران ہو گئے بلکہ دو صاحبان پر تو انتہائی مایوسی طاری ہو گئی اور وہ اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکے کہ ہم اتنے پرانے ہیں اور مرید بھی ہیں۔ اس کو آئے ہوئے ایک دو ہفتے ہوئے ہیں اور مرید بھی نہیں ہوا، اس پر شیخ کی اتنی عنایت کہ بابا صاحب کی زیارت کرا دی۔

                چوہدری صاحب نے فرمایا۔ تم نے جو کچھ دیکھا ہے اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟

                میں اس کو شعبدہ سمجھتا ہوں اور آپ نے مجھے ہپناٹائزڈ (Hypnotised) کر دیا ہے۔ میں نے کہا۔

                حضرت چوہدری صاحب مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ قصہ کوتاہ سیالکوٹ میں امام صاحب کے مزار کی زیارت کے بعد لاہور واپس آ گئے۔

                لاہور میں کسی صاحب کے یہاں دوپہر کا کھانا تھا۔ کھانے کے دوران میں نے ساتھیوں سے کہا کہ کھانے سے فارغ ہو کر داتا دربار جائیں گے۔

                چوہدری صاحب نے فرمایا۔ پھر کسی دن چلیں گے۔

                ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ حضرت صاحب سے درخواست کر۔

                میں نے کہا۔ یہ تو بری بات ہے۔ جب فرما دیا ہے کہ کسی دوسرے دن چلیں گے تو اب کچھ کہنا خلاف ادب ہے لیکن ان لوگوں نے کانا پھوسی کر کے مجھے اس بات پر مجبور کر دیا کہ میں عرض کروں کہ آج ہی داتا دربار جائیں گے۔

                گاڑی میں بیٹھے اور ڈرائیور نے پوچھا۔ حضور! کہاں جانا ہے؟

                اس سے قبل کہ چوہدری صاحب کچھ جواب دیں۔ میں نے جلدی سے کہہ دیا کہ داتا دربار چلیں گے۔

                چوہدری صاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور مجھے دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا۔ چلو، پھر داتا دربار ہی چلو۔ یہ بھی کیا یاد کرے گا!

                جس وقت موٹر بادامی باغ میں داخل ہوئی تو خود بخود میری آنکھیں بوجھل ہو کر بند ہو گئیں اور میں نے دیکھا ایک دبلے پتلے بزرگ گاڑی کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے ہیں اور حضرت چوہدری صاحب سے باتیں کرتے جا رہے ہیں۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ پھر آنکھیں بند کیں تو پھر وہی منظر سامنے تھا۔ مجھے تعجب اس بات پر ہوا کہ گاڑی کی رفتار کے ساتھ ۵۳ میل کی رفتار سے کوئی آدمی پیدل کیسے چل سکتا ہے مگر جب آنکھیں بند کرتا تو وہی منظر سامنے آ جاتا تھا۔

                باہر گاڑی رکی اور ہم لوگ اتر کر حضور قبلہ عالم ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما، حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضر ہو گئے۔ یہاں آ کر میں نے چوہدری صاحب سے درخواست کی کہ حضور داتا صاحب کی زیارت ہو جائے تو میں آپ کو قرآن شریف سنا ؤں گا۔

                بس صاحب! ہم لوگ آنکھیں بند کر کے مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ دیکھا کہ ایک میدان ہے۔ اس میدان میں ایک درخت ہے۔ درخت کے نیچے چارپائی بچھی ہوئی ہے اور چارپائی پر وہی بزرگ تشریف رکھتے ہیں جو ۵۳ میل کی رفتار سے گاڑی کے ساتھ چل رہے تھے۔ ابھی میں اس حیرانی میں گم ہی تھا کہ میں نے دیکھا بڑے حضرت جی، حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا۔ آ ؤ……حضور داتا صاحبؒ کی قدم بوسی کرو۔

                سبحان اللہ! کیا نوازش اور اکرام ہے اس بندہ نے حضور داتا صاحبؒ کو سلام کیا اور قدم چومے۔ داتا صاحب نے فرمایا۔ ہم نے سنا ہے تم قرآن بہت اچھا پڑھتے ہو ہمیں بھی سنا دو۔ اور میں نے قرآن پاک کا ایک رکوع سنایا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قرآن پاک میں حضور داتا صاحبؒ کو سنا رہا تھا لیکن آواز قبر کے باہر بھی ایسے ہی آ رہی تھی جیسے قبر کے اندر۔ حضور داتا صاحبؒ نے قرآن پاک سن کر انتہائی خوشی کا اظہار فرمایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ ہم فاتحہ پڑھ کر واپس ہو گئے۔

                حضور مرشد کریم حامل علم الدنی ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے پاس مسلسل چودہ سال گزارے۔ خواجہ صاحب کو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی جتنی قربت نصیب ہوئی اتنی قربت کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔

                پیر و مرشد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ ایک رات تہجد کی نماز کے بعد میں نے درود خضری پڑھتے ہوئے خود کو سیدنا حضور سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار اقدس میں حاضر پایا اور مشاہدہ کیا کہ حضور اکرم تخت پر تشریف فرما ہیں۔ اس بندے نے حضور کے تخت کے سامنے دو زانو بیٹھ کر درخواست کی:

                یا رسول اللہﷺ، اے اللہ کے حبیبﷺ، اے باعث تخلیق کائناتﷺ، محبوب پروردگارﷺ، رحمت اللعالمینﷺ، جن و انس اور فرشتوں کے آقاﷺ، حامل کون و مکاںﷺ، مقام محمود کے مکینﷺ، اللہ تعالیٰ کے ہم نشینﷺ، علم ذات کے امینﷺ، خیر البشرﷺ، میرے آقاﷺ! مجھے علم لدنی عطا فرما دیجئے۔ میرے ماں باپ آپ پر نثار، آپ کو حضرت اویس قرنیؓ کا واسطہ، آپ کو حضرت ابو ذر غفاریؓ کا واسطہ، آپ کو آپ کے رفیق حضرت ابو بکر صدیقؓ کا واسطہ، آپ کو حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کا واسطہ، آپ کو حضرت فاطمہؓ، علیؓ اور حسینؓ کا واسطہ اپنے اس بندے پر نظر کرم فرما دیجئے اور علم لدنی عطا فرما دیجئے۔

                میرے آقاﷺ! آپ کو قرآن کریم کا واسطہ، آپ کو اسم اعظم کا واسطہ، آپ کو تمام پیغمبروں کا واسطہ، آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واسطہ اور ان کے ایثار کا واسطہ، میرے آقاﷺ! آپ کے در کا بھکاری ہوں۔ آپ کے علاوہ کون ہے جس کے سامنے دست سوال دراز کروں۔ میں اس وقت تک آپ کے در سے نہیں جا ؤں گا جب تک آپ میرا دامن مراد نہیں بھر دیں گے۔ آقاﷺ! میں غلام ہوں، غلام زادہ ہوں۔ میرے جد امجد حضرت ابو ایوب انصاریؓ پر آپ کی خصوصی شفقت و رحمت کا واسطہ مجھے نواز دیجئے۔

                دریائے رحمت جوش میں آ گیا۔ فرمایا کوئی ہے؟ دیکھا کہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ دربار میں آ کر مؤدب ایستادہ ہیں اس طرح جیسے نمازی نیت باندھے کھڑے ہیں۔ حضور بابا جی نے نہایت ادب و احترام سے فرمایا۔ یا رسول اللہﷺ! میں آپ کا غلام حاضر ہوں۔

                سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔ تم اس کو کس رشتہ سے وراثت دینا چاہتے ہو؟

                حضور قبلہ بابا صاحب نے فرمایا۔ یا رسول اللہﷺ اس کی والدہ میری بہن ہیں۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تبسم فرمایا اور ارشاد ہوا۔ خواجہ ابو ایوب انصاریؓ کے بیٹے! ہم تجھے قبول فرماتے ہیں۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ میں حضور قبلہ بابا صاحب کے پہلو میں کھڑا ہوں۔

روح پرور واقعات

۱۔            مرشد کریم جناب خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ العالی کے بے شمار واقعات ہیں۔ انشاء اللہ اگر زندگی نے ساتھ دیا تو ایک مکمل کتاب مرشد کریم پر لکھوں گا۔ فی الحال چند واقعات پیش خدمت ہیں:

                حضور خواجہ غریب نوازؒ کے پاس بیٹھا ہوا ہوں۔ حضور خواجہ غریب نوازؒ نے تقریباً بیس منٹ تک گفتگو فرمائی۔ زباں مبارک سے جو الفاظ نکلتے تھے وہ میرے لئے مشاہدہ بن جاتے تھے۔

                فرمایا انسان چھ شعور اور سات لاشعور سے مرکب ہے۔ سات لاشعور کا تذکرہ قرآن پاک میں سات آسمانوں سے کیا گیا ہے۔ ہر آسمان ایک بساط ہے اور اس میں فرشتے آباد ہیں۔ ملائکہ عنصری، ملائکہ کروبی، ملائکہ سماوی، حاملان عرش۔ یہ سب فرشتوں کے الگ الگ (گروہ) ہیں۔ جنت کی دنیا سے متعلق فرشتوں کا ایک گروہ الگ ہے۔ دوزخ کا تذکرہ آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک لامتناہی وسیع و عریض جگہ ہے۔ وہاں آگ ہے۔ کھولتے ہوئے پانی کے دریا ہیں۔ خون اور پیپ کے بڑے بڑے تالاب ہیں۔ زمانیاں فرشتے جو دوزخ کے انتظام پر مامور ہیں۔ اس قدر ہیبت ناک ہیں کہ آدمی انہیں دیکھ کر سراپا وحشت اور خوف بن جاتا ہے۔ نظر تک دہشتناک خاردار زقوم کے درخت ہیں، بڑے بڑے اژدہے منہ کھولے کسی کی آمد کے منتظر ہیں۔ گھاس ہے لیکن جلی ہوئی اور خشک دوزخ کی زمین پر سنگلاخ چٹانیں ہیں جہاں ڈھونڈنے سے بھی ہریالی نظر نہیں آتی۔ وہاں کی فضا غمگین، اداس اور نوحہ کناں ہے۔ یخ اور ٹھنڈے پانی کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ یہاں کے ماحول کو کسی ایسی گیس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے جو آدمی کے دل کی حرکت کے لئے ایک عذاب ہے۔ دم گھٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ زمین پر نظر گئی تو وہ تپتے ہوئے تانبے کی طرح محسوس ہوئی۔ اتنی سخت اور گرم کہ تصور سے ہی جسم لرزہ براندام ہو جاتا ہے۔ ایسے ایسے الا ؤ روشن ہیں کہ ان کے تصور سے ہی چربی پگھلنے کی چراند آنے لگتی ہے۔ یکایک ذہن کے کسی گوشہ میں یہ خیال آیا کہ دوزخ کے باسی لوگ آخر کس طرح زندگی گزاریں گے۔ خیال کا آنا تھا کہ آہ و بکا، چیخ و پکار اور دلدوز آوازیں کانوں کے پردے سے ٹکرائیں۔ ان آوازوں سے میں بری طرح سہم گیا، پتہ پانی ہو گیا، جگر خون بن گیا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور میں بے ہوش ہو گیا۔ ہوش آیا تو بدستور حضور خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں موجود تھا۔ حضور نے تبسم فرمایا اور ارشاد کیا۔ یہ جگہ ان لوگوں کا ٹھکانہ ہے جو اپنے رب سے ازل میں کئے ہوئے وعدے سے انحراف کرتے ہیں۔ میں رونے لگا اور روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔ حضور خواجہ غریب نوازؒ نے اس عاجز و مسکین کے سر پر دست شفقت رکھا اور تسلی دی۔ کچھ کھانے کو عطا کیا (جو یاد نہیں کیا چیز تھی) اور فرمایا۔ جنت کیا ہے، یہ ان لوگوں کا مقام ہے جو انعام یافتہ ہیں۔

                جنت کے خوبصورت اور بلند و بالا دروازے پر رضوان کو کھڑے دیکھا۔ رعنائی حسن کیا بیان کروں! ایسا حسن کہ احاطہ تحریر میں لایا جائے تو نوع انسانی کے لاکھوں سال کے ذخیرہ شدہ الفاظ ختم ہو جائیں اور حسن کا بیان پایہ تکمیل کو نہ پہنچے۔ جنت کے فرشتے رضوان پر نظر پڑی تو کشش حسن سے پورا جسم کانپنے لگا۔

                رضوان آگے بڑھا اور مصافحہ کیا۔ قرار آ گیا۔ بولا۔ تم سلطان العارفین خواجہ غریب نواز کے مہمان ہو۔ اندر جا سکتے ہو۔

۲۔           سلسلہ کے ایک دوست قتل کے کیس میں پھنس گئے تھے۔ ان کی روئیداد ان کی زبانی سنئے:

                میں ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم سات بھائی دو بہنیں والدین کے ہمراہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔ مجھ سے تین بڑے بھائیوں کی شادی ہو چکی تھی۔ دس مرلے کے تین منزلہ بہترین مکان میں ہم سب بڑے آرام و سکون سے رہ رہے تھے۔ جون ۲۸۹۱ء میں میرے ایف ایس سی کے پرچے ہو رہے تھے۔

                میں پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے امتحان کی طرف متوجہ تھا۔

                ۶ جنوری ۲۸۹۱ء کا سورج ہمارے ہنستے بستے گھرانے کی بربادی کا پیغام لے کر طلوع ہوا۔ صبح نو بجے میرے چھوٹے بھائی کی کسی بات پر محلے کے چند لڑکوں سے لڑائی ہو گئی۔ میں انہیں چھڑانے کے لئے گیا تو انہوں نے مجھے زخمی کر دیا۔ لوگوں نے بیچ بچا ؤ کرا دیا۔ شام کو بڑے بھائی کام سے واپس آئے تو ان سے ہماری حالت دیکھی نہ گئی۔ سب سے بڑا بھائی اور والدصاحب شکار کے شوقین تھے وہ اس دن شکار کے سلسلے میں دوسرے شہر میں گئے ہوئے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں شام کو پھر لڑائی ہو گئی اور یہی جھگڑا طوالت اختیار کر گیا۔ مخالفین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ہم سب بہت زخمی ہو گئے تھے تو مجھ سے چھوٹے بھائی سے دیکھا نہ گیا اور اس نے مخالفین کو ڈرانے کے لئے ایک شخص کو چھری کے ساتھ شدید زخمی کر دیا۔ یہ سب کچھ اچانک ہوا کہ اس کے علاوہ کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ ایسا کر گزرے گا۔ مجھ سے دونوں بڑے بھائی شدید زخمی تھے۔ انہیں ہسپتال لے کر گئے، فریقین اس شخص کو لے کر تھانے پہنچ گئے جو شدید زخمی تھا۔ پولیس نے اقدام قتل کا پرچہ درج کر لیا۔ پرچے میں میرا اور دونوں بڑے بھائیوں کا نام درج تھا۔ جس نے چھری ماری تھی وہ چونکہ نابالغ تھا اس لئے اس کا نام پرچے میں درج نہ کرایا۔ پولیس نے دونوں بڑے بھائیوں کو ہسپتال سے شدید زخمی حالت میں گرفتار کر لیا اور اسی حالت میں تھانے لے جایا گیا۔ میں یہ صورت حال دیکھ کر وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ اس وقت رات کا ایک بجا تھا۔ ہسپتال سے تین کلومیٹر دوڑتا ہوا گھر پہنچا تو میرے والد اور سب سے بڑا بھائی شکار سے واپس آ چکے تھے۔ تمام صورت حال سے انہیں مطلع کیا۔

                دوسری صبح سات جون کو صبح نو بجے وہ شخص ہسپتال میں انتقال کر گیا اور پولیس نے قتل کا پرچہ درج کر لیا۔ پولیس میری تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ لیکن میں ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہوا جناب چوہدری جلال الدین صاحب کے گھر واقع نیو گارڈن ٹا ؤن پہنچا اور ان کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا اور عرض کیا کہ جیسے بھی ہو سکے حضور خواجہ صاحب کو اطلاع کر دیں کہ ان کا بیٹا ایک ناگہانی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہے۔ کرم فرمایئے۔ چوہدری صاحب نے بذریعہ فون خواجہ صاحب کو کراچی میں تمام صورت سے مطلع فرما دیا۔

                چند دن کے بعد میں نے بھی گرفتاری دے دی۔ چند دن تھانے میں رہے اس کے بعد حوالات میں بھیج دیئے گئے۔ دوسرے مہینے ایک بھائی کی ضمانت ہو گئی۔ یہ دیکھ کر مخالفین نے اپنی برادری کے لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی۔ مدعی حضرات کے ساتھ تین سو گھروں پر مشتمل برادری گروپ تھا جو فی گھر پچاس روپیہ ماہانہ چندہ دیتے تھے۔ تقریباً پندرہ ہزار روپے ماہانہ وہ لوگ ہمارے خلاف استعمال کرتے تھے۔ مجھے سخت تشویش ہوئی تو میں نے مرشد کریم قبلہ خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ کو ایک خط روانہ کیا اور تمام صورت حال سے متعلق لکھا، آپ نے اپنے جوابی خط میں فرمایا۔ مرسلہ خط موصول ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ تمام پریشانیوں سے بحفاظت بحال ہو جائیں گے۔ آپ کے لئے برابر دعا کی جا رہی ہے۔ تجویز کردہ وظیفہ جاری رکھا جائے۔ انشاء اللہ العزیز حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا فیض آپ حضرات کو پہنچ چکا ہے جس کے اثرات بہت جلد آپ پر ظاہر ہو جائیں گے۔ دشمنوں کے شر سے گھبرائیں نہیں۔ صرف اور صرف اپنے اللہ کے کرم پر نظر رکھئے۔

                جس دن خط ملا اس سے دوسرے دن ۷۲ نومبر کو میری بھی ضمانت ہو گئی۔ اب تو مدعیان کو سخت رنج پہنچا لہٰذا انہوں نے اپنی کارروائی مزید تیز کر دی۔ ہماری ضمانت منسوخ کروانے کے لئے استغاثہ دائر کر دیا۔ میں نے فوراً بذریعہ خط خواجہ صاحب کو مطلع کر دیا۔ حضور خواجہ صاحب نے جوابی خط میں تحریر فرمایا کہ آپ مطمئن رہیں۔ انشاء اللہ کامیابی آپ کی ہو گی۔ اللہ کے اوپر پورا پورا یقین رکھیں۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

                حضور مرشد کریم فروری ۳۸۹۱ء کو لاہور تشریف لائے تو مجھ سے خیریت پوچھی اور تسلی و تشفی دی۔ چند دن لاہور میں قیام کے بعد آپ واپس کراچی تشریف لے گئے۔ مخالفین کی سرگرمیاں اور بڑھ گئیں تو میری والدہ بہت پریشان رہنے لگیں اور اکثر روتی رہتی تھیں۔ میں نے جون ۳۸۹۱ء کو مرشد کریم کو خط لکھا اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ جوابی خط میں آپ نے فرمایا کہ زندگی میں بعض واقعات ایسے ہو جاتے ہیں جن کا اثر آئندہ مستقبل کی زندگی پر پڑتا ہے اور تکلیفوں کا نعم البدل ہوتے ہیں۔ جو حالات اس وقت درپیش ہیں یہ آزمائشی دور ہے، نہایت صبر و شکر کے ساتھ وت گزار دیں۔ انشاء اللہ بہت جلد ساری صعوبتیں ختم ہو جائیں گی۔ ہم سب آپ کے لئے دعا گو ہیں۔

                اس خط کے ملنے کے ساتھ ہی حیران کن صورت حال پیدا ہو گئی۔ آبادی کے سرکردہ لوگوں نے مل کر صلح صفائی کی کوشش شروع کر دی۔ جو ابتداء میں ناکام ہوتی نظر آئیں۔ تو میں نے اس صورت حال سے متعلق خواجہ صاحب کو خط لکھا تو آپ نے جواباً تحریر فرمایا کہ انشاء اللہ اس مقدمہ سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ بس آپ اللہ کے بھروسہ پر روٹین کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ میاں بہت بڑے کارساز ہیں۔ تمام لوگ اپنی اپنی کوشش کرتے رہے اور بالآخر مرشد کریم کے فرمان کے مطابق ڈیڑھ سال بعد حیران کن صورت حال کے ساتھ اس مقدمہ سے ہم سب باعزت بری ہو گئے۔ مدعیوں کے ساتھ ہماری صلح ہو گئی۔ جس دن عدالت نے ہمیں باعزت بری کیا وہ بہت عجیب دن تھا کہ ہماری جان کے دشمن ہماری رہائی پر ہمیں گلے لگا کر رو رہے تھے اور مبارکباد دے رہے تھے۔ دشمنی دوستی میں تبدیل ہو چکی تھی۔

۳۔           سلسلہ کی ایک خاتون کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، انہی کی زبانی تحریر ہے۔

یہ جنوری ۰۹۹۱ء کی بات ہے کہ میں سپر ایکسپریس کے ذریعہ کراچی جا رہی تھی۔ راستے میں اچانک میری آنکھ لگ گئی اور میں نے مراقبہ میں دیکھا کہ حضور خواجہ شمس الدین عظیمی تشریف لائے اور فرما رہے ہیں کہ اگلے اسٹیشن پر گاڑی سے اتر جانا۔

میں نے مراقبہ کرنے کے بعد آنکھ کھول دی، اس وقت گاڑی سکھر ریلوے اسٹیشن پر پہنچ چکی تھی۔

                مرشد کی ہدایت کے پیش نظر میں نے اس ٹرین کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور گاڑی کے رکتے ہی اپنے سامان کو سمیٹ کر نیچے اتر گئی۔ کچھ دیر قیام کے بعد گاڑی روانہ ہو گئی اور میں الوداعی نظروں سے جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھ رہی تھی۔ دل عجیب بے چینی کا شکار تھا۔

                اور اس کے بعد آنے والی ٹرین کا انتظار کرنے لگی اور سوچوں میں گم وقت گزرتا گیا تو اچانک یہ آواز کان کی سماعت سے ٹکرائی کہ سپر ایکسپریس کا ایکسیڈنٹ سانگی اسٹیشن پر ہو گیا ہے اور سینکڑوں لوگ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں اور ٹرین بری طرح تباہ ہو چکی ہے۔ جب میں دوسری ٹرین کے ذریعہ سانگی سٹیشن پر رکی تو حادثہ کی تباہ حالی کا منظر دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ میں مرشد کریم کی قبل از وقت وارننگ کی وجہ سے محفوظ رہی۔ ورنہ میرا حال بھی ان لوگوں سے مختلف نہ ہوتا۔ جو اس ٹرین میں سوار تھے۔ خاص طور پر جس بوگی میں، میں سوار تھی سب سے زیادہ خراب حالت اسی بوگی کی تھی۔

اقوال و ارشادات

۱۔            آپس میں محبت سے رہو۔ اپنے اندر محبت پیدا کرو۔

۲۔                           اللہ کی مخلوق سے محبت کے ساتھ پیش آ ؤ۔ ایسی محبت کے ساتھ جو مامتا کی طرح ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرح محبت کرو۔

۳۔           جو اپنے لئے چاہو اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرو۔

۴۔           ہمارا ہر بھائی سکون کی دولت سے مالا مال ہو۔ اللہ ہم کو دیکھے اور ہم اللہ کو دیکھیں۔

۵۔                           ہم رسول اللہﷺ کے دربار میں حاضر ہو کر کہیں السلام علیکم یا رسول اللہﷺ حضور جواب میں وعلیکم السلام یا امتی کہیں۔

۶۔                           اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا رازق سمجھو۔ اس سے اس یقین کے ساتھ مانگو جیسے بچہ اپنی ماں سے مانگتا ہے تو ماں اپنی مامتا سے مجبور ہو کر اپنے بچے کی خواہش کو پورا کرتی ہے۔

۷۔                           اللہ تعالیٰ کو دور نہ جانو وہ تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ تم سے قریب ہے۔ عرش پر تلاش نہ کرو۔ اپنے اندر تلاش کرو۔ اگر تم اکیلے ہو تو دوسرا اللہ ہے اگر تم دو ہو تو تمہارے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔

۸۔           اللہ تعالیٰ سے دوستی پیدا کرو کیونکہ اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔

۹۔                            اللہ تعالیٰ سے ڈرو مت۔ اللہ تعالیٰ کو محبت سے پہچانو۔ کیونکہ اللہ محبت ہے اپنی مخلوق سے ستر ما ؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔

۰۱۔         سکون زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے اور روح کے عرفان کے بغیر سکون ممکن نہیں۔

۱۱۔                          اللہ تعالیٰ کی قربت اور روح کا عرفان حاصل کرنے کا بہترین اور آسان طریقہ مراقبہ ہے۔ مراقبہ حضور کی پہلی سنت ہے۔

۲۱۔                         شک کو دل میں جگہ نہ دو کیونکہ شک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ جس کے ذریعہ وہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتا ہے۔

۳۱۔                         ہر بندے کا اللہ کے ساتھ محبوبیت کا رشتہ قائم ہے، ایسی محبوبیت کا رشتہ جس میں بندہ اپنے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کرتا ہے۔

۴۱۔                         انسان کا اصل جسم روح ہے۔ روح بھی دو رخ پر قائم ہے۔ ایک رخ روح کا مظاہرہ یعنی جسم مثالی Auraاور دوسرا رخ خود روح ہے۔

۵۱۔                         ہر چیز جس کا وجود اس دنیا میں ہے یا آئندہ ہو گا وہ کہیں پہلے سے موجود ہے یعنی دنیا میں کوئی چیز اس وقت تک موجود نہیں ہو سکتی جب تک وہ پہلے سے موجود نہ ہو۔

۶۱۔                          راسخ العلم لوگوں کے ذہن میں یقین کا ایسا پیٹرن بن جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت ہر ضرورت اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ نے جو نعمتیں مخصوص کر دی ہیں وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین ان کے اندر استغنا پیدا کر دیتا ہے۔ استغنا بغیر یقین کے پیدا نہیں ہوتا اور یقین کی تکمیل بغیر مشاہدے کے نہیں ہوتی اور جس آدمی کے اندر استغنا نہیں ہوتا اس وقت کا تعلق اللہ سے کم اور مادی دنیا (اسفل) سے زیادہ رہتا ہے۔ عمل کرنے سے پہلے انسان کی نیت میں جو کچھ ہوتا ہے وہی خیر یا شر ہے۔

۷۱۔                         برائی یا بھلائی کا جہاں تک تعلق ہے کوئی عمل دنیا میں برا ہے نہ اچھا ہے۔ دراصل کسی عمل میں معنی پہنانا اچھائی یا برائی ہے معانی پہنانے سے مراد نیت ہے۔ عمل کرنے سے پہلے انسان کی نیت میں جو کچھ ہوتا ہے، وہی خیر یا شر ہے۔

روحانی توجیہہ

                مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے فرمایا کہ جو نعمتیں اللہ نے ہمارے لئے مخصوص کر دی ہیں وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین انسان کے اندر استغنا پیدا کر دیتا ہے۔

                استغنا کی روحانی توجیہہ ایسے بیان فرمائی ہے۔

                غور و فکر کیا جائے تو سوچنے اور سمجھنے کے کئی رخ متعین ہوتے ہیں۔ تفصیل میں جانے کے بجائے ہم دو رخ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو علمی اعتبار سے مستحکم ذہن ہیں یعنی ایسا ذہن رکھتے ہیں جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یقین ہے کہ ہر چیز اس کی دنیا میں کوئی بھی حیثیت ہو، چھوٹی ہو یا بڑی، راحت ہو یا تکلیف سب اللہ کی طرف سے ہے۔ ان لوگوں کے مشاہدے میں یہ بات آ جاتی ہے کہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے جو ہو رہا ہے جو ہو چکا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے۔ اس کا براہ راست تعلق اللہ کی ذات سے ہے یعنی جس طرح اللہ کے ذہن میں کسی چیز کا وجود ہے اسی طرح اس کا مظاہرہ ہوتا ہے فلسفیانہ طرز فکر کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم اس بات کو چند مثالوں میں پیش کرتے ہیں۔

                زندگی کا ہر عمل اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے۔ اس حیثیت میں معانی پہنانا دراصل طرز فکر میں تبدیلی ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ ہر چیز جس کا وجود اس دنیا میں ہے یا آئندہ ہو گا وہ کہیں پہلے سے موجود ہے یعنی دنیا میں کوئی چیز اس وقت تک موجود نہیں ہو سکتی جب تک وہ پہلے سے موجود نہ ہو کوئی بھی آدمی اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے کہیں موجود ہوتا ہے۔ آدمی کی زندگی کے نشیب و فراز، دن اور ماہ و سال کے وقفے پہلے سے ایک فلم کی صورت میں ریکارڈ ہیں اس فلم کو ہم کائناتی فلم یا ‘‘لوح محفوظ’’ کہتے ہیں۔

                ایک آدمی جب عاقل بالغ اور باشعور ہوتا ہے تو اسے زندگی گزارنے کے لئے وسائل کی ضرورت پیش آتی ہے اور وسائل کو حاصل کرنے کے لئے روپیہ پیسہ ایک میڈیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ بات کچھ اس طرح ہے کہ ایک آدمی کے لئے پیدا کرنے والی ہستی نے ایک لاکھ روپے متعین کر دیئے۔ اس طرح جیسے ایک لاکھ روپے کسی بینک میں جمع کر دیئے جاتے ہیں۔ وسائل کو استعمال کرنے کے لئے آدمی کوشش اور جدوجہد کرتا ہے۔ کوشش اور جدوجہد جیسے جیسے کامیابی کے مراحل طے کرتی ہے اس کو روپیہ ملتا رہتا ہے اور ضرورت پوری ہوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ اگر کائناتی فلم (لوح محفوظ) میں وسائل کا ریکارڈ اور زرمبادلہ متعین نہ ہو تو ڈسپلے (Display) ہونے والی فلم نامکمل رہتی۔ ایک آدمی کے نام سے بینک میں کروڑوں روپے کا زرمبادلہ موجود ہے لیکن وہ اسے نہ استعمال کرتا ہے اور نہ ہی اس طرف متوجہ ہوتا ہے تو یہ زرمبادلہ اس کے کام نہیں آتا۔

                ایک طرز فکر یہ ہے کہ آدمی باوجود اس کے کہ ضمیر ملامت کرتا ہے، اپنی روزی حرام طریقے سے حاصل کرتا ہے۔ رزق حلال سے بھی دو روٹی کھاتا ہے اور رزق حرام سے بھی وہ شکم سیری کرتا ہے لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ اس دنیا میں اسے جو کچھ مل رہا ہے وہ پہلے سے فلم کی صورت میں موجود ہے۔

                ایک آدمی محنت مزدوری کر کے ضمیر کی روشنی میں روپیہ حاصل کرتا ہے۔ دوسرا آدمی ضمیر کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے روپیہ حاصل کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے وہ ہی روپیہ مل رہا ہے جو لوح محفوظ پر اس کے لئے جمع کر دیا گیا ہے۔ یہ عجیب بات ہے اور انتہائی درجہ نادانی ہے کہ ایک آدمی اپنی ہی حلال چیز کو حرام کر لیتا ہے۔

                راسخ فی العلم لوگوں کے ذہن میں یقین کا ایسا پیٹرن بن جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت، ہر ضرورت اللہ کے ساتھ وابستہ کر دیتے ہیں یہی پیغمبروں کی طرز فکر ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمارے لئے اللہ نے جو نعمتیں مخصوص کر دی ہیں وہ ہمیں ہر حال میں میسر آئیں گی اور یہ یقین ان کے اندر استغناء کی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔ قلندر بابا اولیاء کا ارشاد ہے کہ استغناء بغیر یقین کے پیدا نہیں ہوتا اور یقین کی تکمیل بغیر مشاہدے کے نہیں ہوتی اور جس آدمی کے اندر استغناء نہیں ہوتا اس آدمی کا تعلق اللہ سے کم اور مادی دنیا (اسفل) سے زیادہ رہتا ہے۔

                روحانیت ایسے اسباق کی دستاویز ہے جن اسباق میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ سکون کے لئے ضروری ہے کہ قادر مطلق ہستی پر توکل ہو اور توکل کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر استغناء ہو۔ استغناء کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر ایمان ہو اور ایمان کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر وہ نظر کام کرتی ہو جو نظر غیب میں دیکھتی ہے۔ بصورت دیگر کبھی کسی بندے کو سکون میسر نہیں آ سکتا۔ آج کی دنیا میں عجیب صورت حال ہے کہ ہر آدمی دولت کے انبار اپنے گرد جمع کرنا چاہتا ہے اور یہ شکایت کرتا ہے کہ سکون نہیں ہے، سکون کوئی عارضی چیز نہیں ہے۔ سکون ایک کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور جس کے اوپر کبھی موت وارد نہیں ہوتی۔ ایسی چیزوں سے جو عارضی ہیں فانی ہیں اور جن کے اوپر ہماری ظاہری آنکھوں کے سامنے بھی موت وارد ہوتی رہتی ہے۔ ان سے کس طرح سکون مل سکتا ہے۔ استغناء ایک ایسی طرز فکر ہے جس میں آدمی فانی اور مادی چیزوں سے ذہن ہٹا کر حقیقی اور لافانی چیزوں میں تفکر کرتا ہے۔ یہ تفکر جب قدم قدم چلا کر کسی بندے کو غیب میں داخل کر دیتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اندر یقین پیدا ہوتا ہے جیسے ہی یقین کی کرن دماغ میں پھوٹتی ہے وہ نظر کام کرنے لگتی ہے جو غیب کا مشاہدہ کرتی ہے۔ غیب میں مشاہدے کے بعد کسی بندے پر جب یہ راز منکشف ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات کی باگ ڈور ایک واحد ہستی کے ہاتھ میں ہے تو اس کا تمام تر ذہنی رجحان اس ذات پر مرکوز ہو جاتا ہے اور اس مرکزیت کے بعد استغناء کا درخت آدمی کے اندر شاخ در شاخ پھیلتا رہتا ہے۔

                کائنات کی تمام حرکات و سکنات ایک فلم کی صورت میں ریکارڈ ہیں جس جس طرح اس فلم میں کائناتی مظاہر کے نقوش موجود ہیں اس طرح بے شمار کہکشانی نظاموں میں نشر ہو رہے ہیں۔ بات جدوجہد کوشش اور اختیار کی ہے اگر جدوجہد اور کوشش نہیں کی جاتی تو زندگی میں خلا واقع ہو جاتا ہے۔ یہ عمل انفرادی اور قومی دونوں صورتوں میں ازل تا ابد جاری ہے۔

                اللہ کا قانون ہے کہ جب کوئی بندہ جدوجہد اور کوشش کرتا ہے اور اس جدوجہد اور کوشش کا ثمر کسی نہ کسی طرح اللہ کی مخلوق کے کام آتا ہے تو وسائل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ زمین پر اللہ نے جتنی بھی اشیاء تخلیق کی ہیں ان کے اندر بے شمار صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ کوشش سے جب ان اشیاء کے اندر صلاحیتوں کو متحرک کر دیا جاتا ہے یا ان اشیاء میں محفوظ مخفی صلاحیتوں کا کھوج لگا لیا جاتا ہے تو ایجادات کے بے شمار راستے کھل جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے لوہا تخلیق کیا۔ من حیث القوم یا انفرادی طور پر جب لوہے کی صفات اور لوہے کے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کا سراغ لگایا جاتا ہے تو لوہا ایک ایسی چیز بن کر سامنے آتا ہے جس میں لوگوں کے لئے بے شمار فائدے ہیں۔ آج کی سائنس اس کا کھلا ثبوت ہے سائنسی ترقی میں مشکل سے کوئی ایسی چیز ملے گی جس میں کسی نہ کسی طرح لوہے کا عمل دخل نہ ہو۔

                صورت حال کچھ یوں بنی کہ لوح محفوظ میں انفرادی زندگی بھی نقش ہے اور قومی زندگی بھی انفرادی حدود میں کوئی بندہ جب کوشش اور جدوجہد کرتا ہے تو اس کے اوپر انفرادی فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔ قومی اعتبار سے ایک دو چار دس بندے جب کوشش کرتے ہیں تو اس جدوجہد اور کوشش سے پوری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ کہتا ہے۔ ‘‘میں ان قوموں کی تقدیریں نہیں بدلتا جو قومیں خود اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتیں۔’’

                لوح محفوظ پر یہ بات بھی نقش ہے کہ جو قومیں خود اپنی حالت بدلنے کے لئے کوشش کرتی ہیں ان کو ایسے وسائل مل جاتے ہیں جن سے وہ معزز اور محترم بن جاتی ہیں۔ اور جو قومیں اپنی تبدیلی نہیں چاہتیں وہ محروم اور ذلیل زندگی گزارتی ہیں۔

                لوح محفوظ پر لکھے ہوئے نقوش یہ ہیں:

                بندہ اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات کو اگر صحیح سمتوں میں استعمال کرتا ہے تو اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اگر غلط طرزوں میں استعمال کرتا ہے تو منفی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اللہ کے عطا کردہ اختیارات کو اس طرح استعمال کرے کہ جس سے اس کی اپنی فلاح اور اللہ کی مخلوق کی فلاح کا سامان میسر ہو۔ انفرادی فلاح اللہ کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی اس لئے کہ اللہ خالق ہے، رب ہے اور ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے انعامات اور اکرامات اور اللہ کے پیدا کئے ہوئے وسائل سے ساری مخلوق فائدہ اٹھائے۔ مختصراً اس بات کو اس طرح سمجھا جائے کہ یہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب لوح محفوظ میں ریکارڈ ہے اس فلم میں قوموں کا عروج و زوال بھی لکھا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ قومیں اگر ان صحیح طرزوں میں عملی زندگی بسر کریں گی تو ان کو عروج نصیب ہو گا اور اگر غلط طرزوں میں عملی زندگی بسر کریں گی تو غلام بنا دی جائیں گی۔

 


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔