Topics

حضرت سید عبدالقادرؒ جیلانی غوث الاعظم

حالات زندگی

ولادت……بمقام گیلان(ایران) یکم رمضان ۰۷۴ھ

وفات……بمقام بغداد(عراق) ۷۱ ربیع الثانی ۱۶۵ھ

                شیخ المشائخ اور شریعت میں امام الائمہ۔ آپ کا نام شیخ عبدالقادر محی الدین، محبوب سبحانی، غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ قصبہ گیلان واقع ملک ایران یکم رمضان ۰۷۴ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ سید حسنی و حسینی ہیں۔ حضور کی ولادت کے وقت والدہ ماجدہ کا سن مبارک ساٹھ برس کا تھا اور یہ پہلی کرامت اس ذات عالی کی قدرت نے اسباب پرستوں اور عقل کے گرفتاروں کو دکھائی تھی کہ جس عمر کو اولاد سے مایوس ہونے والا کہا جاتا ہے۔ آپ کا قد میانہ تھا۔ رنگ گندمی، نحیف و نازک بدن، چہرہ شگفتہ، ریش مبارک گھنی، آواز پر اعجاز کلام پر تاثیر، دل میں خشوع و خضوع اور درد تھا۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ تمام تذکروں اور کتابوں میں بیان ہے کہ حضور غوث پاک کی شیر خوارگی کے زمانہ میں رمضان شریف آیا تو آپ نے دن کے وقت دودھ پینا چھوڑ دیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ سے روایت کی ہے کہ میں نے کئی بار کوشش کی مگر انہوں نے دن کو نہ پیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ کی کنیت ام الخیر ہے۔ اور نام و لقب امتہ الجبار فاطمہ بنت شیخ عبداللہ صومعی ہے جو گیلان میں اپنے وقت کے شیخ مقتدار اور مستجابہ الدعوات بزرگ گزرے ہیں۔ آپ خدا رسیدہ خاتون تھیں۔ ان پر خداوند قدوس کی بڑی عنایات تھیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ بڑی پاک نفس صالحہ اور کمالات باطنی کی حامل تھیں، گھر میں بسر اوقات کے لئے کچھ اثاثہ نہ تھا۔ والدہ، بہن، خود اور ایک لونڈی چار کھانے والے تھے۔ والدہ سوت کات کر فروخت کرتیں تو گزارہ ہوتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا کہ سوت فروخت نہ ہوتا اس کی آمدنی کفایت نہ تو فاقہ پیش آتا۔ جس دن فاقہ ہوتا والدہ صاحبہ فرماتیں ‘‘بابا نظام آج خدا کے مہمان ہیں۔’’ اس فقرہ کو سن کر معصوم بچہ بہت خوش ہوتا اور بھوک کی شکایت اس کی زبان پر نہ آتی بلکہ آرزو مند رہتا کہ پھر فاقہ پیش آئے تا کہ اماں سے خدا کی مہمانی کا لفظ سنوں۔ چنانچہ انہوں نے خود فرمایا ہے کہ جب کئی دن برابر روٹی ملتی رہتی تو دل میں ارمان ہوتا تھا کہ فاقہ ہو اور اماں خدا کی مہمانی کا ذکر کریں۔

                آپ اٹھارہ سال کے تھے کہ جیلان سے عازم بغداد ہوئے اور ۸۸۴ھ میں بمقام بغداد حصول علم میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے سب سے پہلے قرآن حکیم حفظ کیا۔ پھر فقہ و حدیث اور دیگر دینی علوم سے فراغت حاصل کی۔ کچھ ہی دنوں میں آپ اپنے دوسرے ساتھیوں پر سبقت لے گئے اور ان سب پر آپ کو فضیلت حاصل ہو گئی۔ ۱۲۵ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد کی بموجب آنحضرت کا لعاب دہن آپ کے منہ میں ڈالا گیا۔ اس کے بعد سے آپ نے منبر رسول پر وعظ و تلقین اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آپ کی نظر تمام علوم پر تھی اور ہر علم سے متعلق آپ کلام فرماتے تھے۔ وعظ کے دوران آپ فرمایا کرتے تھے۔

                اے اہل آسمان و زمین آ ؤ اور میری بات دھیان سے سنو اور مجھ سے کچھ سبق لو۔ میں اس روئے زمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وارث ہوں۔ آ ؤ میری مجلس وہ مجلس ہے جہاں خلعتیں بخشی جاتی ہیں اور خداوند قدوس میرے قلب پر اپنی تجلی کا پرتو ڈالتا ہے۔

                آپ کی مجلس وعظ میں ستر ستر ہزار کی تعداد میں سامعین شریک ہوتے تھے اور چار چار سو اشخاص آپ کا کلام نقل کرتے جاتے تھے۔ جب مجلس اختتام کو پہنچتی تو شدت تاثر اور وجد و ذوق کے عالم میں دو تین اشخاص جاں بحق تسلیم ہو جاتے تھے۔ آپ کا کلام حقائق و مصارف سے لبریز ہوتا تھا۔ شیخ ابو سعید قیلوی کا بیان ہے کہ میں نے آپ کی مجلس وعظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم انبیاء علیہم السلام اور جن و ملائکہ کو قطار بہ قطار اور صف بہ صف دیکھا ہے۔

روح پرور واقعات

                حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ کے متعلق ایک روایت ہے کہ جن دنوں شکم مادر میں تھے، ایک دن آپ کی والدہ ماجدہ ایک باغ میں تفریح فرما رہی تھیں۔ آپ کے ساتھ آپ کی کنیزیں بھی تھیں، باغ میں سیب کا ایک درخت تھا۔ جس پر بڑے خوشنما اور خوش ذائقہ سیب لگے ہوئے تھے۔ حضرت کی والدہ ماجدہ نے ایک سیب کو توڑنا چاہا۔ چونکہ وہ بلند تھا آپ کا ہاتھ نہ پہنچا۔ خدمت گار سے فرمایا کہ چوکی لائے۔ جب خادم چوکی لائے تو حضرت کی والدہ ماجدہ نے اس پر چڑھ کر سیب توڑنے کو ہاتھ بڑھایا لیکن اس وقت درد جگر اٹھا اور وہ بے تاب ہو کر چوکی پر سے گر پڑیں۔ کنیزوں نے جب یہ دیکھا تو شور مچایا۔ اتنے میں ایک کالا سانپ درخت پر سے گرا۔ اس کو دیکھ کر حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی والدہ ماجدہ کو سکون ہوا۔ کہ یہ حکمت الٰہی تھی اگر ان کا ہاتھ وہاں جا پہنچتا تو ضرور سانپ ڈس لیتا۔

                کچھ عرصہ بعد حضرت اپنی والدہ کی آغوش میں کھیل رہے تھے کہ حضرت کی والدہ ماجدہ نے حضرت کے منہ پر ایک طمانچہ مارا تو حضرت نے والدہ ماجدہ سے فرمایا کہ آج اس گستاخی کی سزا مل گئی ہے جو میں نے آپ کے شکم میں ہوتے ہوئے کی تھی۔ حضرت کی والدہ ماجدہ نے دریافت فرمایا کہ جان مادر تم سے کیا غلطی ہوئی تھی؟ تو حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا کہ آپ کو یاد ہو گا جب آپ سیب توڑنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھا رہی تھیں۔ تو اس وقت میں نے آپ کے جگر میں زور سے ناخن مار دیا تھا۔ جس کی وجہ سے آپ درد سے بے قرار ہو گئی تھیں۔

                ایک عفت ماب خاتون مریدہ تھیں۔ اس خاتون کو جہاں خدا نے عصمت اور پاکدامنی کے جوہر سے نوازا تھا وہیں حسن و جمال کے نور سے بھی زینت دی تھی۔ اس پر ایک فاسق و فاجر شخص فریفتہ تھا اور اس کی ہر ممکن کوشش بھی تھی کہ خلاف شریعت اس سے ملاقاتیں ہونے لگیں لیکن اس عفیفہ کا زہد و تقدس اس کے ارادے کی راہ میں حائل تھا۔ اتفاقاً ایک دن یہ خاتون کسی ضرورت سے جنگل کی طرف گئی اور کسی طرح اس شخص کو بھی پتہ چل گیا کہ وہ فلاں جنگل میں گئی ہے۔ یہ بھی تعاقب میں روانہ ہو گیا چنانچہ ایک جگہ پہنچا اور اس نے دست درازی کا ارادہ کیا تو اس نے حضرت شیخ جیلانیؒ کی طرف توجہ کی اس وقت آپ وضو فرما رہے تھے۔ غصے سے بے تاب ہو گئے اور اپنی کھڑا ؤں کو اشارہ کر کے فرمایا۔ جا ؤ اس عفیفہ خاتون کی حفاظت کرو اور اس بدکار شخص کو خوف خدا سے ڈرا ؤ۔ آپ کا یہ حکم پاتے ہی کھڑاویں اڑ کر وہاں پہنچیں اور اس مرد خبیث اور نامردار کے سر پر پڑنے لگیں۔ یہاں تک کہ اس کا سر پھٹ گیا اور جب وہ اس کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا تو وہ خاتون آپ کے ان کھڑا ؤں کو لے کر حاضر خدمت ہوئی اور آپ کی نیاز مندی عقیدت اور خدا کے فضل و کرم کے گیت گاتی ہوئی عفت و عصمت کی دولت کو صحیح و سالم لے کر اپنے گھر چلی گئی۔

                ایک خلیفہ بغداد نے آپ کی خدمت میں حاضری دی اور ساتھ ہی اشرفیوں کی ۰۱ دس تھیلیاں بھی پیش کیں۔ آپ نے فرمایا مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ جب خلیفہ نے زیادہ اصرار کیا تو آپ نے ایک تھیلی کو اپنے ہاتھ میں اور ایک کو بائیں ہاتھ میں اٹھا لیا۔ پھر جب ان کو دبایا تو ان میں سے خون ٹپکا۔ فرمایا۔ اے ابوالمظفر! خدا سے تجھے شرم آنی چاہئے کہ تو مخلوق کا خون چوستا ہے۔ اور اپنے اوپر ذمہ داری عائد کر لیتا ہے اور پھر میرے پاس آیا ہے۔ خلیفہ پر بے ہوشی طاری ہو گئی پھر آپ نے فرمایا کہ اگر اسے سرور کونین سے نسبت نہ ہوتی تو میں اس کو اتنا نچوڑتا کہ یہ خون بہہ کر اس کے محل تک بہتا ہوا چلا جاتا۔

                ایک دفعہ کی بات ہے کہ ایک چور حضرت غوث الاعظم کے مکان میں گھس گیا۔ اس کی بصارت زائل ہو گئی اور مکان سے کچھ بھی نہ لے سکا۔ اس اثناء میں حضرت خضر علیہ السلام آپ کی خدمت میں آئے اور فرمایا کہ اے اللہ کے دوست ایک ابدال کا انتقال ہو گیا ہے۔ جس کے بارے میں آپ کا ازن ہو اسے منصب پر فائز کر دیا جائے۔ فرمایا۔ ہمارے گھر میں ایک شخص بڑی شکستہ دلی اور محرومی کے عالم میں ہے اور اسے لے آ ؤ۔ اسے ابدال کی جگہ مقرر کرنا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام اسے گھر سے باہر لائے اور حضرت غوث الاعظم کے حضور میں پیش کیا۔ آپ کی ایک ہی نظر اس پر پڑی تھی کہ وہ بینا ہو گیا۔ آپ نے اسے بکمال اعزاز منصب ابدالیت سونپا۔ آپ کے دولت خانہ میں متاع عرفان کے سوائے اور تھا کیا۔ جسے چور چرا کر لے جاتا جو کچھ لینے کی نیت سے آیا تھا چنانچہ آپ نے اسے اس کی خواہش اور توقع سے زیادہ عطا فرمایا یعنی مقام ہدایت پر فائز کر دیا۔

                بیان کیا جاتا ہے کہ اقطاب و ابدال اور اوتار کا تقرر اور ان کی معذولی آپ کے اختیار میں تھی جس کسی کو چاہتے ہیں اس کے عہدہ سے برطرف فرما دیتے اور اس کی جگہ دوسرے کا تقرر فرما دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک ابدال کا انتقال ہوا تو قسطنطنیہ سے ایک کافر کو طلب کیا اور اس کی مونچھیں ہلکی کر کے اس کا نام محمد رکھ دیا۔ اپنا عمامہ اس کے سر پر باندھا اور اسے ابدالوں کی جماعت میں شامل کر دیا۔

                حضور غوث پاکؒ اٹھارہ سال کی عمر میں والدہ ماجدہ کی اجازت سے بغرض تکمیل تعلیم بغداد تشریف لے جانے لگے تو والدہ ماجدہ نے چالیس اشرفیاں ان کی صدری استرا بدلی کے اندر چھپا کر سِی دیں اور ان کو سچ بولنے کی نصیحت کر کے رخصت کر دیا۔ راستہ میں ڈاکہ پڑا، سارا قافلہ لٹ گیا۔ ایک ڈاکو نے ان سے پوچھا کہ تیرے پاس بھی کچھ ہے۔ آپ نے فرمایا چالیس اشرفیاں ہیں جو صدری کے اندر سلی ہوئی ہیں۔ اس ڈاکو کو بہت تعجب ہوا کہ اس لڑکے نے مال کا اقرار کیوں کر لیا۔ چوروں سے ہر شخص دولت کو چھپایا کرتا ہے۔ وہ ڈاکو حضور کو اپنے سردار کے پاس لے گیا۔ آپ نے سردار کے پوچھنے پر بھی اشرفیوں کا حال سچ مچ بیان کر دیا۔ سردار حیران ہو کر بولا تم نے ہم لٹیروں کا خوف نہ کیا۔ تم دیکھتے نہیں کہ ہم قزاق ہیں جو مال ملتا ہے لوٹ لیتے ہیں۔ پھر تم نے ان اشرفیوں کا بھید مخفی کیوں نہ رکھا۔ حضور نے فرمایا۔ والدہ نے چلتے وقت سچ بولنے کی نصیحت فرمائی تھی۔ میں مخفی کیسے رکھتا؟ یہ سنتے ہی ڈاکو ؤں کا افسر رونے لگا اور اس نے کہا کہ یہ لڑکا اپنی والدہ کے حکم پر اتنا چلتا ہے اور میں خدا کے حکم سے غافل ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے حضور کے ہاتھ پر توبہ کی اور لوٹ کا سب مال قافلہ کو واپس کر دیا۔ اس کے ہمراہی بھی سب کے سب تائب ہو گئے۔ یہ پہلی توبہ تھی جو حضور کے ہاتھ پر ہوئی۔

                خود حضور ارشاد فرماتے ہیں کہ میں عراق کے جنگلوں میں ۵۲ برس تک اکیلا پھرتا رہا۔ رات دن یاد حق کے سوا کچھ کام نہ تھا۔ سالہا سال عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھی۔ بے شمار راتیں آنکھوں میں گزر گئیں اور میں نے پلک نہ جھپکنے دی۔ نیند کا غلبہ ہوتا تو پا ؤں پر کھڑا ہو جاتا اور نفلوں میں پورا قرآن شریف ختم کر دیتا۔ یہ تو برسوں ہوا ہے۔ میں نے رات کی نماز میں کھڑے کھڑے قرآن ختم کیا۔ ایک دفعہ نیند نے بہت ستایا۔ دل نے کہا تھوڑی دیر آرام کر لو پھر تازہ دم ہو کر عبادت کرنا مگر میں نے ذرا پرواہ نہ کی اور ایک لمحہ کے لئے بھی نہ سویا۔ میں نے رفتہ رفتہ مجاہدہ کی عادت ڈالی تھی۔ پہلے ایک سال تو میں مدائن کے کھنڈرات میں مقیم رہا۔ وہاں میری معاش یہ تھی کہ جنگل میں جو بھی پھل مل جاتا اس کو کھا لیتا اور رات دن عبادت کرتا رہتا۔ ایک دفعہ سردی کا موسم تھا۔ سردی ایسی سخت تھی کہ میں برداشت نہ کر سکا اور مجبوراً کسریٰ کے ویران محل کے اندر چلا گیا تا کہ سردی سے جسم محفوظ ہو جائے۔ اس حالت میں مجھ کو غسل کی ضرورت ہوئی تو باہر نکلا اور شطر العرب (دریا) میں نہایا۔ اتفاق کی بات اسی رات متعدد مرتبہ یہی حالت پیش آئی کہ جہاں ذرا آنکھ لگی اور نہانا ضروری ہو گیا مگر میں نے ایک مرتبہ بھی کاہلی نہ کی اور ہر دفعہ بیدار ہو کر غسل کر لیا۔ آخر میں نے سونے کا خیال ہی چھوڑ دیا اور نیند سے بچنے کے لئے محل کی چھت پر چڑھ کر نماز شروع کر دی۔ گو سردی کے سبب یہ بات اس وقت بہت دشوار معلوم ہوتی تھی۔

                حضور کے فرزند حضرت عبدالرزاق کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ والدہ ماجدہ حج کے سفر پر تشریف لے گئے۔ خدام کا بڑا مجمع ساتھ تھا۔ راستہ میں ایک آبادی کے قریب شام ہوئی تو آپ نے حکم دیا۔ اس بستی میں تلاش کرو کہ سب سے زیادہ مفلس اور غریب کون ہے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ ایک گھر بہت نادار ہے۔ جس میں دو بوڑھے محتاج عورت اور مرد اور ایک بچہ ہے۔ حضور خود اس مکان پر تشریف لے گئے اور ان دونوں سے پوچھا تمہارے مکان پر ٹھہرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا بسر و چشم مکان حاضر ہے مگر ہم خدمت کے لائق نہیں ہیں۔ آپ وہاں خدام سمیت ٹھہر گئے تو بستی کے مشائخ اور دولت مندوں کو حال معلوم ہوا۔ وہ سب دوڑے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے مکانوں پر تشریف لے چلئے۔ یہ جگہ آپ کے ٹھہرنے کے قابل نہیں مگر حضرت نے کسی کی التجا قبول نہ فرمائی۔ آخر ان لوگوں نے دعوت کا سامان اسی جگہ لا لا کر جمع کر دیا۔ غلہ، بکریاں، سونے چاندی وغیرہ کا ڈھیر لگ گیا تو آپ نے فرمایا۔ میں اس سے کچھ بھی نہ لوں گا نہ میرے ہمراہی کچھ لیں گے۔ یہ سب اسی غریب گھرانہ کا حق ہے۔ جس کے ہم مہمان ہیں۔ چنانچہ آپ نے ہمراہیوں سمیت کچھ تناول نہ فرمایا اور دولت و اجناس کا وہ سب انبار اس غریب گھرانہ کو دے کر آگے روانہ ہو گئے۔

تصنیفات و تالیفات

                فتوح الغیب اور غنیتہ الطالین مشہور کتابیں ہیں۔ غنیتہ الطالین میں مسائل فقہ، صوم و صلوٰۃ و حج و زکوٰۃ کا بیان ہے اور مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے عقائد کی تشریح ہے اور اہل سنت کے عقائد کے بموجب ہر گمراہ فرقہ کی تردید ہے۔ پیر مرید کے آداب حقوق العباد آداب سماع اور ان تمام امور کا ذکر ہے جن کی سالک کو ضرورت پڑتی ہے۔

                گویا یہ کتاب شریعت و طریقت کا لب لباب اور خلاصہ ہے۔ فتوح الغیب میں ترک و تجرید، فنا و بقا، محبوب و محبوب اور امراض قلب و نفسی کے علاج کا بیان ہے۔ یہ بھی طلب گاران سلوک کے لئے ایک نعمت عظمیٰ ہے۔

تلقین طریقت

                آپ نے فرمایا جس پیر میں یہ پانچ اوصاف نہ ہوں وہ دجال ہے پیر نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ پیر ظاہری شریعت کا عالم ہو۔ دوسرے علم حقیقت جانتا ہو۔ تیرے اپنے پاس آنے والوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے برتا ؤ کرتا ہو اور مسافروں کو کھانا کھلاتا ہو۔ چوتھے غربا اور بے حیثیت آدمیوں کے ساتھ قولاً و فعلاً عاجزی اور انکساری سے پیش آتا ہو۔ پانچویں یہ کہ دین کی باطنی تربیت و تعلیم کی لیاقت ہو اور خود ریا حسد طمع خود بینی غفلت عیش طبعی سے پاک ہو۔

                علامہ ابن النجد کا بیان ہے کہ جبائی سے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضور غوث پاک نے فرمایا کہ مجھے فرائض کے بعد محتاجوں اور مہمانوں کو کھانا کھلانے اور عام و خاص کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کے سوا کوئی بہتر کام معلوم نہیں ہوتا۔ اگر ساری دنیا کی دولت کا مالک ہو جا ؤں تو سب کی سب بھوکوں کو کھلا دوں۔ ہزاروں اشرفیاں صبح سے شام تک ہاتھ میں آتی ہیں مگر شام کو کچھ باقی نہیں رہتا۔ مستحقوں کو بانٹ دیتا ہوں۔

                کسی نے پوچھا۔ حضور فقیر کے معنی کیا ہیں۔ فرمایا۔‘ ف’ کہتی ہے کہ ذات الٰہی میں فنا ہو جا۔ اور ماسوا اللہ سے دل کو فارغ کرے۔ ‘ق’ کہتا ہے کہ اپنے قلب کو حبِ خدا سے مضبوط کر اور اس کی رضامندی و رضا جوئی میں قائم ہو جا۔‘ ی’ کہتی ہے کہ ہر لمحہ یاد خدا سے امیدوار رہے اور اس کا خوف دل میں رکھ اور‘ ر’ کی خواہش ہے کہ رقب قلب اور رجوع علی اللہ یعنی نفسانی خواہشوں سے دامن بچا کر خدا کی طرف رجوع ہو جا۔

                فرمایا۔ اپنے دل کے دروازہ پر دربان بن جا ؤ جس کے جانے کا خدا حکم دے اس کو اندر جانے دو۔ جس کو منع کرے اس کو روک دو۔ دلوں کی خواہشوں کو زیادہ نہ بڑھا ؤ ورنہ ہلاک ہو جا ؤ گے۔ کسی مال اور مقام پر بھروسہ کر کے یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمیشہ اس پر قائم رہنا ہے۔ کیونکہ کل یوم ھو فی شان آتا ہے۔ تغیر اور تبدیلی لازمی ہے۔

                فرمایا۔ نہ کسی سے محبت کرنے میں جلدی کرو اور نہ عداوت و نفرت میں پہلے قرآن و حدیث کی کسوٹی پر اس کو پرکھ کر دیکھ لو۔ ایسا نہ ہو تم نفس کی شرارت سے کسی پر بدگمانی کر بیٹھو۔ یہ گناہ ہے۔

                کسی نے پوچھا حسن خلق کیا ہے۔ فرمایا یہ ہے کہ تو عرفان حق میں سرشار ہو کر کسی کے ظلم اور سختی سے رانج کا اثر محسوس نہ کرے۔ پوچھا گیا۔ بقا کیا چیز ہے۔ فرمایا، بقائے رب ہے اور وہ حجاب نفس کی دوری کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور نفس کا حجاب دور نہیں ہوتا۔ جب تک کہ باہر کی دید سے نگاہ نہ اٹھائے اور اپنے نفس کی دید میں مصروف نہ ہو۔

نماز تہجد

                سلسلہ قادریہ میں نماز تہجد کے کئی طریقے ہیں۔ ایک جس کی نسبت روایت ہے کہ حضور غوث پاک کا بھی یہی طریقہ تھا۔ یہاں درج کیا جاتا ہے۔ نماز تہجد ایک ایسی دولت ہے جس کے سامنے تمام نفل عبادتیں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ جس شخص کو یہ نعمت حاصل ہو اس کے دل میں ایک عجیب گداز اور رقت پیدا ہو جاتی ہے اور قطع نظر عقبیٰ کے اجر اور باطنی ترقیوں کے تہجد گداز کا چہرہ دور سے کہہ دیتا ہے کہ میں تہجد پڑھتا ہوں کیونکہ برکات تہجد کا نور اس کی پیشانی اور اس کے چہرہ پر ہر وقت دمکتا رہتا ہے۔ خواہ وہ شخص کیسا ہی بدصورت ہو اور یہ ایک کھلا ہوا اور عقلی ثبوت تہجد کی تائید کا ہے۔ تہجد کا وقت آدھی رات ڈھلنے کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ حضور غوث پاک کے مقلد کو تو لازمی طور سے تہجد کبھی ناغہ نہ کرنی چاہئے۔ طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نماز نفل تہجد کی نیت کرے بارہ یا دس یا آٹھ رکعتیں پڑھی جائیں۔ یعنی اگر توفیق ہو اور زیادہ دیر تک جاگ سکتا ہو تو بارہ رکعتیں دو دو کر کے پڑھے ورنہ کم جو چار تک کم ہو سکتی ہیں۔ پہلی رکعت میں الحمد، سورۃ اخلاص ایک مرتبہ پڑھی جائے اور دوسری میں دو بار پھر جب دوبارہ نیت باندھ کر دو رکعت پڑھے تو پہلی رکعت میں الحمد کے بعد تین مرتبہ سورہ اخلاص اور دوسری میں چار بار اسی طرح بارہ رکعت تک ایک ایک مرتبہ سورہ اخلاص پڑھا جائے یعنی بارھویں رکعت میں سورہ اخلاص بارہ مرتبہ پڑھے۔

                باطنی کشائش اور ترقی سلوک عرفان کا طریقہ برعکس ہے یعنی پہلی رکعت میں بارہ مرتبہ پڑھے اور دوسری میں گیارہ یہاں تک کہ بارہویں میں ایک مرتبہ پڑھے۔ جب نماز سے فارغ ہو جائے تو تین بار یہ استغفار پڑھے۔

                سبحان اللہ و بحمدہ سبحان العظیم و بحمدہ استغفراللہ و اتوب الیہ

تہجد کے ذکر

                اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو نماز تہجد کے بعد یہ ذکر بھی کرے کہ معمولات حضور غوث پاک سے ثابت ہے کہ اول دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ (اس کو نفی اثبات کہتے ہیں) پھر الا اللہ چار سو مرتبہ (اس کو اثبات کہتے ہیں) پھر اللہ اللہ چھ سو بار (اس کو ذات کہتے ہیں) یہ سب ذکر خفی کرنا چاہئے یعنی آہستہ آہستہ لیکن اگر کوئی عارف کامل تعلیم فرمائے اور دوسروں کی تکلیف اور نیند خراب ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ذکر جلی کر لیا جائے۔

وفات

                آخر وہ وقت آ گیا جو ہر بشری صورت کو پیش آنا ضروری ہے۔ ربیع الثانی کی سترہ تاریخ کو ۱۶۵ھ کا زمانہ تھا جب آخری کلمہ پر روح مبارک نے جسم شریف سے مفارقت کی۔

اقوال و ارشادات

                حضرت غوث الاعظم کے چند قیمتی اقوال و ارشادات درج ذیل ہیں:

۱۔            تم نفس کی خواہش پوری کرنے میں لگے ہو اور وہ تمہیں برباد کرنے میں مصروف ہے۔

۲۔           انسان کا بڑا ہم جلیس اس کا بدترین دشمن ہے۔

۳۔           حسن خلق یہ ہے کہ تم پر جفائے خلق کا مطلق اثر نہ ہو۔

۴۔           نہ کسی کے ساتھ محبت کرنے میں جلدی کرو اور نہ عداوت کرنے میں عجلت سے کام لو۔

۵۔           اپنا مال آخرت کے لئے آگے بھیج دے اور موت کے انتظار میں لگ جا۔

۶۔           کوشش یہی کرنی چاہئے کہ اپنی بات جواباً ہو (یعنی اپنی طرف سے کلام کی ابتداء نہ ہو)۔

۷۔           جس طرح تمہارا نفس اللہ کا حکم ماننے سے انکار کرتا ہے اس طرح تم اپنے نفس کا کہا ماننے سے انکار کرو۔

۸۔           مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو لوگوں کی عیب جوئی میں مصروف اور اپنے عیوب سے غافل ہے۔

۹۔            تنگدستی اور بیماری صبر کے بغیر عذاب ہیں اور صبر ہو تو عزت۔

۰۱۔                         حسن خلق یہ ہے کہ تو عرفان حق میں اتنا مستغرق ہو جائے کہ کسی کے ظلم یا سختی سے اپنے دل کو رنجیدہ نہ کرے۔

۱۱۔          جس شخص میں کوئی خرابی نہ ہو تو اسے ابدا بھی کم پہنچتی ہے۔

۲۱۔         اپنی خوشی کو گھٹا ؤ اور رنج و محِسن کو بڑھا ؤ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ایسی ہی تھی۔

۳۱۔         دنیا نے تجھ جیسے ہزاروں کو پالا اور موٹا تازہ کیا پھر خود ہی اپنی خوراک بنا لیا۔

۴۱۔                         مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو یہ جانتا ہے کہ خدا اس کے حال سے واقف ہے پھر بھی گناہ کرتا ہے۔ تعجب ہے اس پر جو یہ جانتا ہے کہ دنیا فنا کی جگہ ہے پھر بھی اس سے محبت رکھتا ہے۔

۵۱۔         لوگ متواضع ہی کو بڑا سمجھتے ہیں تکبر کرنے والے کو نہیں۔

۶۱۔          اگر ہمارا گناہ صرف یہی ہو کہ ہم دنیا سے محبت رکھتے ہیں تب بھی ہم دوزخ کے حق دار ہیں۔

۷۱۔         رحمت نہ مانگ بلکہ رحیم کو مانگ۔

۸۱۔         مومن اپنے اہل و عیال کو اللہ کے سپرد کرتا ہے اور منافق اپنے مال کے سپرد۔

۹۱۔          دنیا سراسر آفتوں اور مصیبتوں کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا صبر اختیار کرو۔

۰۲۔        جس کا انجام موت ہو اس کے لئے خوشی کا کون سا مقام ہے۔

۱۲۔         مومن کے لئے سونا مناسب نہیں جب تک اپنا وصیت نامہ سرہانے نہ رکھ لے۔

۲۲۔                        دنیا کو دل سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لو۔ یعنی دولت کما ؤ مگر اسے ہاتھ میں رکھو۔ اسے دل پر قبضہ نہ کرنے دو۔

۳۲۔        ہنسنے والوں کے ساتھ مت ہنسو۔ مگر رونے والوں کے ساتھ رو ؤ۔

۴۲۔        اپنے لقمے کی اصلاح کر کیونکہ نیک اعمال کی اصل بنیاد یہی ہے۔

۵۲۔                        اگر تو اونچی آواز سے اللہ بھی کہے تو حساب لیا جائے گا کہ تو نے یہ خلوص کے ساتھ کہا تھا یا محض لوگوں کو سنانے کے لئے۔

۶۲۔         اخلاص اسی کا نام ہے کہ لوگوں کی تعریف یا مذمت کا کچھ خیال نہ کیا جائے۔

۷۲۔        جس نے مخلوق کے ساتھ محبت کرنا ہے تو ان کی خیر خواہی کرے۔

۸۲۔                        آخرت کو دنیا پر مقدم رکھنے والے کیلئے دنیا اور آخرت دونوں میں فائدہ ہی فائدہ ہے اور دنیا کو آخرت پر مقدم کرنے والے کے لئے دونوں میں خرابی ہے۔

۹۲۔         قول صورت ہے اور عمل اس کی روح ہے۔

۰۳۔        دولت مندوں کے ساتھ وقار اور غلبہ سے ملو اور درویشوں کے ساتھ عجز و انکسار سے پیش آ ؤ۔

۱۳۔                         جو بادشاہوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اس کا دل سخت اور وہ مغرور ہو جاتا ہے۔ جو لڑکوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اس میں ہنسی مذاق کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ جو عورتوں کے پاس بیٹھتا ہے اس میں جہالت اور بڑی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ جو فاسقوں کے ساتھ نشست و برخاست رکھتا ہے وہ گناہ کرنے میں دلیر ہو جاتا ہے اور توبہ کرنے کی توفیق نہیں رہتی۔ جو عالموں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ پرہیز گار بن جاتا ہے اور علم حاصل کرتا ہے اور جو نیک لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اس میں اطاعت الٰہی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔

۲۳۔        عمل عقائد کی دلیل ہوتا ہے اور ظاہر باطن کی علامت۔

۳۳۔                        جو مخلوق کا ادب نہیں کرتا وہ خالق کا ادب کرنے کا دعویٰ نہ کرے اور جو اپنے نفس کو تعلیم نہیں دے سکتا تو دوسروں کو تعلیم دینے کی سعی نہ کرے۔

۴۳۔                        خدا کا تقویٰ اور اطاعت اختیار کرو۔ ظاہری شریعت کے پابند رہو۔ سینے کو خواہشات سے محفوظ کر لو، نفس میں جوانمردی رکھو۔ خلق خدا کو آزار نہ دو اور آداب درویشاں ملحوظ رکھو اور چھوٹوں کو نصیحت کرو۔

۵۳۔        زمین و آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا نور فیڈ کرتا ہے۔    

روحانی توجیہہ

                زمین اور آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا نور فیڈ کرتا ہے۔ مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی اس قول کی روحانی توجیہہ اس طرح بیان فرماتے ہیں:

                شیخ محی الدین عبدالقادرؒ نے بتایا ہے کہ زمین اور آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا نور فیڈ کرتا ہے۔ اگر نوع انسانی کا ذہن مادہ سے ہٹ کر اس روشنی میں مرکوز ہو جائے تو وہ یہ سمجھنے پر قادر ہو جائے گا کہ انسان کے اندر عظیم الشان ماورائی صلاحیتیں ذخیرہ کر دی گئی ہیں۔ جن کو استعمال کر کے نہ صرف یہ کہ وہ زمین پر پھیلی ہوئی اشیاء کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنا سکتا ہے بلکہ ان کے اندر کام کرنے والی قوتوں اور لہروں کو حسب منشاء استعمال بھی کر سکتا ہے۔ پوری کائنات اس کے سامنے ایک نقطہ یا دائرہ بن جاتی ہے۔ اس مقام پر انسان مادی وسائل کا محتاج نہیں رہتا۔ وسائل اس کے سامنے سربسجود ہو جاتے ہیں۔

                ہم جب قرآن کی تعلیم اور رسول اللہ کی سیرت کو دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ قرآن کی حقیقی تعلیم اور مسلمانوں کے عمل میں بہت بڑا تضاد واقع ہو چکا ہے۔ قرآن جس راہ کا تعین کرتا ہے اور مسلمان جس راہ پر چل رہا ہے یہ دو ایسی لکیریں ہیں جو آپس میں کبھی نہیں ملتیں۔

                اللہ نے انسان کو اپنا نائب بنایا ہے اس کے اندر اپنی صفات کا علم پھونکا ہے۔ اس کو اپنی صورت پر تخلیق کیا ہے۔ نائب کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک مملکت کا صدر اپنے اختیارات کو استعمال کرنے میں کاغذ، قلم کا محتاج نہ ہو تو اس کا نائب بھی اختیارات استعمال کرنے میں کاغذ، قلم کا محتاج نہ ہو۔

                اللہ وسائل کی محتاجی کے بغیر حاکم ہے تو اس کا نائب بھی وسائل کا دست نگر نہیں ہوتا۔ جس طرح خدا نے کن کہہ کر کائنات کو وجود بخشا ہے۔ خدا کا نائب بھی اپنے ذہن کو حرکت دے کر خدا کی تخلیق میں تصرف کر سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ کا نائب اس بات سے واقف ہوتاہے کہ کائنات میں موجود تمام مظاہر ایک ہی ذات سے ہم رشتہ ہیں۔

                مسلمان کے پاس ماورائی علوم کا جتنا بڑا سرمایہ موجود ہے وہ اسی مناسبت سے مفلوک الحال ہے۔ مسلمان کے اسلاف نے اس کے لئے حاکمیت اور تسخیر کائنات کے بڑے بڑے خزانے ترکہ میں چھوڑے ہیں لیکن وہ بدنصیب قوم ہے جس نے ہیرے کو پتھر کہہ کر پھینک دیا ہے اور اس خزانے سے مستفیض ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ مصلحتوں کے پیش نظر مسلمان کو تفکر کی راہ سے دور ہٹا دیا گیا ہے اور اس کے سامنے ایسی نہج آ گئی ہے جہاں اس کا ہر عمل کاروبار بن گیا ہے۔

                کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات کہ قرآن کائنات پر ہماری حاکمیت اور سرداری تسلیم کر رہا ہے۔ ہمارے اوپر حاکمیت اور سرداری کے دروازے کھول رہا ہے اور ہم قرآن کو محض برکت کی کتاب سمجھ کر طاقوں میں سجائے رکھتے ہیں۔ جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو اس کی آیات تلاوت کر کے دنیاوی مصائب سے نجات کی دعائیں مانگتے ہیں مگر اس طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی کہ

                قرآن میں تفکر اگر ہمارا شعار بن جائے اور ہم اس تفکر کے نتیجے میں میدان عمل میں اتر آئیں تو ساری کائنات پر ہماری سرداری مسلم ہے۔

                افسوس کہ ہم ان خزانوں کو نظر انداز کر کے دوسروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق اللہ نے ہمیں شمس و قمر، نجوم، ارض و سماوات سب پر حاکم بنا دیا ہے اور اس حاکمیت کو حاصل کرنے کے طریقے بھی بتائے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ہر شعبہ زندگی میں دوسروں کے پس خوردہ نوالوں کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھ بیٹھے ہیں۔

                ہماری زندگی محض دنیا کے حصول تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہماری عبادتیں بھی دکھاوے اور دنیاوی برکتیں سمیٹنے کے لئے مخصوص ہو گئی ہیں۔ ہم اعمال کے ظاہری پہلو کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں مگر باطن میں بہتے ہوئے سمندر سے ایک قطرہ آب بھی نہیں پیتے۔ آسمان علم و آگاہی کے خورشید منفرد اور تسخیر کائنات کے فارمولوں کے ماہر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

                اے منافقو! کلام نبوت سنو۔

                آخرت کو دنیا کے عوض فروخت کرنے والو!

                حق کو مخلوق کے عوض بیچنے والو!

                باقی کو فانی کے بدلے کاروبار کرنے والو!

                تمہارا بیوپار سراسر خسارے کا سودا ہے۔ تمہارا سرمایہ تمہیں بربادی کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے۔ افسوس تم پر تم اللہ تعالیٰ کے غضب کا ہدف بن رہے ہو۔

 

 


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔