Topics

عرج داشت۔ محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

 

کچھ عرض ہے؟

                یہ کتاب ‘‘یاران طریقت’’ 1990ء میں تیار ہو کر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظا تعالیٰ کی خدمت میں پیش کی گئی۔ مرشد کریم نے اس کتاب کو محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی صاحبہ کے پاس مانچسٹر انگلینڈ روانہ کر دیا۔ اس کتاب کا دیباچہ پیاری بہن محترمہ سیدہ خاتون عظیمی نے لکھا اور اس کتاب کو بغور پڑھنے کے بعد مجھے لاہور ارسال کر دی۔

                محترمہ سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی 23مارچ بروز اتوار2003؁ء کو مانچسٹر میں رحلت فرما گئیں۔

                انا للہ و انا الیہ راجعون۔

                مرحومہ نے ایک طویل عرصہ تک سلسلہ عظیمیہ کے مشن کے فروغ میں نہایت ہی شاندار خدمات سر انجام دیں۔ آپ نے برطانیہ میں سلسلے کے فروغ میں انتہائی اہم اور سرگرم کردار ادا کیا۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی اور امام سلسلہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے ساتھ باجی صاحبہ کی وابستگی اور محبت بہت زیادہ تھی۔

                سلسلہ عظیمیہ کے اراکین محترمہ سعیدہ خاتون عظیمی سے بے حد عقیدت اور محبت رکھتے ہیں۔ آپ جب بھی پنجاب کے دورے پر تشریف لاتیں تو میں اُن کے ساتھ ہمیشہ جاتا۔ آپ نے سلسلہ عظیمیہ کے پیغام کو یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں پھیلانے میں کافی کام کیا۔ آپ سالفوڈ یونیورسٹی مانچسٹر میں روحانی علوم پڑھنے پر بھی مامور رہی تھیں۔

                روحانی دنیا کا ایک دستور ہے کہ جب بندہ دنیا میں زندہ رہتا ہے، وہ اپنا کام صرف اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق سر انجام دیتا رہتا ہے مگر وصال کے بعد اس کا دنیا میں ایک خلا ہمیشہ رہے گا۔ باجی صاحبہ کا بھی خلا باقی رہے گا۔ مگر ان کا فیض ہمیشہ جاری اور ساری رہے گا۔

                اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ مرحومہ کو نبی کریمﷺ کے صدقہ میں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

                                                                                                                                                ‘‘دعا گو دعا جُو’’

                                                                میاں مشتاق احمد عظیمی

                                                                روحانی فرزند

                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی


 

 سعیدہ خاتون عظیمی کی عرض داشت

اسرار محبت کا ہر دل نہ بود قابل

درنیت بہ ہر دریا زرنیت بہ ہر کان

                مومن کا دل گنجینہ اسرار مصارف ربانیہ ہے۔ یہی وہ امانت ہے جس کے پہاڑ اور آسمان متحمل نہ ہو سکے۔ سینہ مومن چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور آسمان سے زیادہ وسیع ہے۔ جو اللہ کی ا مانت کا بوجھ اٹھا کر اس کے اسرار کا رہن بن جاتا ہے۔ رموز خداوندی کا مرکز دل ہے۔ اور دل خانہ محبت ہے۔ جس میں محبوب بستا ہے۔ جمال یار کے انوار خانۂ دل سے منتشر ہو کر دنیا کے تاریک گوشوں کو منور کرتے رہتے ہیں۔ ایک بندہ مومن سراجاً منیرا بن کر احدیت کے آسمان پر جگمگانے لگتا ہے۔ اور سارا عالم اس کی تجلیات سے بقعہ نور بن جاتا ہے۔ اسی سراجاً منیرا کا عکس اولیاء اللہ کی نورانی ہستیاں ہیں۔ جو آسمان دنیا پر شمس و قمر بن کر جلوہ افروز ہوتی رہتی ہیں۔ جن کے حکم سے ہوا ؤں کے رخ بدل جاتے ہیں۔ جن کی نگاہوں سے دلوں کے بند قفل کھل جاتے ہیں۔ جو موت کو اسی طرح دوست رکھتے ہیں۔ جس طرح دنیا دار اپنی زندگی کو عزیز رکھتے ہیں۔

                عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔

                آنجناب میاں مشتاق احمد عظیمی کی یہ ایک اچھی کاوش ہے۔ ان کا اس کتاب میں بہت سے اولیاء کے واقعات کو اکٹھا کرنے کا مقصد یہی ہے کہ لوگ ان قصوں کی گہرائی میں ان کے قول ارشادات اور روحانی صلاحیتوں پر خاص توجہ کریں۔ اور ان کے ذریعے سے اپنے اندر مخفی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کریں و ما تو فیضی الا باللہ

                                                                                                                               

                                                                                                                                حضرت سعیدہ خاتون عظیمی

                                                                                                                                مانچسٹر، انگلینڈ


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔