Topics

حضرت علی ہجویریؒ داتا گنج بخش لاہوری

حالات زندگی

ولادت……۰۰۴ بمقام غزنی

وفات……۵۶۴ بمقام لاہور

                حضرت ابوالحسن علی ہجویری اپنے زمانے کے امام یکتا اور اپنے طریق میں یگانہ تھے۔ عملی اصول میں امام اور اہل تصوف میں بہت بڑا درجہ رکھتے تھے۔

                آپ ۰۰۴ھ میں غزنی کے قریب ایک گا ؤں میں پیدا ہوئے آپ کا نام مبارک علی ہے۔ سلسلہ نسب حضرت امام حسن علیہ السلام سے ملتا ہے۔ ہجویر اور جلاب غزنی کے دور علاقے ہیں۔ شروع میں ان جگہوں پر قیام رہا اس لئے انہیں ہجویری اور جلابی کہتے ہیں۔ آپ کے والد صاحب کا نام عثمان جلابی تھا۔ آپ نے علم شریعت کے بعد علم طریقت کی منازل طے کرنے کے لئے آذربائیجان، خوزستان، عراق، بغداد، شام، دمشق، طوس، طرستان، ترکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کا سفر کیا اور وہاں کے جید علماء اور اولیاء کرام سے کسب فیض حاصل کیا۔ آپ ابوالفضل کے مرید تھے اور وہ جنیدی سلسلے میں سے تھے۔ آپ اپنے شیخ کے حکم سے اپنے دور پیر بھائیوں سید لطفی اور ابو سعید کے ساتھ لاہور تشریف لائے۔ ان کے آنے سے قبل ان کے پیر بھائی شیخ حسین زنجانی لاہور میں مقیم تھے۔ جس شب آپ لاہور تشریف لائے اس شب حضرت حسین زنجانی کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے ان کی تدفین میں پوری طرح حصہ لیا۔ آپ لاہور میں رہ کر تصنیف و تالیف کے کام میں مصروف ہو گئے۔ مگر ایک لمحہ کے لئے بھی اشاعت اسلام سے غافل نہ ہوئے۔ آپ کی کوششوں سے سینکڑوں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ تصوف اور علوم دینیہ میں آپ کا درجہ بہت بلند مانا جاتا ہے۔ بعض مشائخ نے اپنے تذکروں میں آپ کو علوم ظاہر و باطن کا جامع قرار دیا ہے۔ آپ نے تصوف پر کشف المحجوب کے نام پر ایک کتاب تصنیف فرمائی۔ اس کے علاوہ حسب ذیل کتابیں بھی آپ کی تصانیف بتائی جاتی ہیں۔

۱۔            منہاج الدین (اس میں اہل صفہ کے مناقب لکھے ہیں)

۲۔           کتاب الفناء و البقاء

۳۔           اسرار الحزق المونات

۴۔           کتاب البیان اہل المسیان

۵۔           بحر القلوب

۶۔           اسر عائیہ الحسوق اللہ

                لیکن ان کتابوں میں سے اب کسی کا بھی پتہ نہیں ہے۔ انکی کتاب صرف کشف المحجوب ہی ملتی ہے۔ جس میں تصوف کے اسرار و رموز پر روشنی ڈالی گئی ہے اور تصوف کے تمام پہلو ؤں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

                دنیا میں اسلامی تصوف پر یہ پہلی کتاب ہے جس میں حضرت داتا گنج بخش نے محققانہ طرز تحریر سے اپنے مجاہدات و مکشافات اور تمام ذاتی تجربات بیان کئے ہیں۔ مباحث سلوک پر بہترین تنقید کی گئی ہے اور کوئی ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر زمانہ میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بے مثل سمجھی گئی ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کا ارشاد ہے کہ جس کا کوئی مرشد نہ ہو اس کو کشف المحجوب کے مطالعہ کی برکت سے مرشد مل جائے گا۔ کتاب کا پہلا باب علم کی بحث سے شروع ہوتا ہے۔ اس باب میں پانچ فصلیں ہیں شروع میں کلام مجید اور احادیث نبوی کی روشنی میں علم کی اہمیت لکھ کر یہ بتایا ہے کہ علم ہی کے ذریعے ایک سالک مراتب اور درجات کے حصول کے قریب ہوتا ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب وہ اپنے علم پر عمل بھی کرتا ہو۔ انہوں نے علم حقیقت کے تین ارکان بتائے ہیں۔

۱۔            خداوند تعالیٰ کی ذات کا علم یعنی وہ علم ہے جو ہر چیز کو جانتا ہے وہ نہ کسی مکان میں ہے نہ ہی اس کی مثل ہے۔            

۲۔           خدا تعالیٰ کی صفات کا علم یعنی وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ دیکھتا ہے اور سنتا ہے۔

۳۔           خداوند تعالیٰ کے افعال کا علم وہ تمام خلائق کا پیدا کرنے والا ہے۔

                دوسرا باب فقر سے شروع ہوتا ہے اس میں فقر کا مرتبہ خدا کے نزدیک بہت بڑا اور افضل ہے اور فقیر کی تعریف یہ ہے کہ اس کے پاس کچھ نہ ہو مگر اس کی کسی چیز میں خلل نہ آئے۔ نہ دنیاوی ساز و سامان ہونے سے مالدار ہو جائے۔ فقیر جتنا تنگدست ہو گا اس قدر اس پر حال زیادہ کشادہ ہو گا اور اسرار زیادہ منکشف ہوں گے۔ وہ جس قدر دنیا کے مال و متاع سے بے نیاز ہوتا ہے اتنا ہی اس کی زندگی لطائف خفی اور اسرارِ روشن سے وابستہ ہوتی جاتی ہے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ ایک فقیر کا کمال فقر یہ ہے کہ اگر دونوں جہاں اس کے فقر کے ترازو کے پلڑے میں رکھے جائیں تو ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوں اور اس کی ایک سانس دونوں عالم میں نہ سمائے۔ دوسری فصل میں صوفیانہ نقطۂ نظر سے فقر و غنا پر بحث کی ہے۔ بعض صوفیائے کرام کا خیال ہے کہ غنا و فقر سے افضل ہے۔ تیسری فصل میں فقر اور فقیر سے متعلق مشائخ عظام کے جو اقوال ہیں ان کی تشریح اور تفصیل کی ہے۔

                حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ جو کچھ فقیر کے دل پر گزرے اس کو ظاہر نہ کرے اور جس کا ظہور ہو جائے اس کو چھپائے نہیں۔ اسی باب میں صوفی کی اصلیت اور اہل تصوف کی تین قسمیں قرار دی گئی ہیں۔

۱۔            صوفی جو اپنی ذات کو فنا کرے خدا کی ذات پر بقا حاصل کرتا ہے اور اپنی طبیعت سے آزاد ہو کر حقیقت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

۲۔           متصوف’ جو صوفی کے درجہ کو مجاہدہ سے تلاش کرتا ہے اور اسی تلاش میں اپنی ذات کی اصلاح کرتا ہے۔

۳۔           مستصوف’ جو محض مال و متاع اور جاہ و حشمت کے لئے اپنے آپ کو مثل صوفی کے بنا لیتا ہے۔ حضرت شبلی کا قول ہے کہ صوفی وہ ہے جو دونوں جہاں میں خدائے عز و جل کے سوا کوئی چیز نہ دیکھے۔

                چوتھے باب میں صوفیوں کے لباس پر بحث کی گئی ہے۔ چھٹا باب ملامت پر ہے۔

 

                روح پرور واقعات

                سفینۃ الاولیاء میں شہزادہ دار شکوہ ایک واقعہ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے لاہور میں ایک مسجد تعمیر کرائی جس کی محراب دوسری مساجد کی بہ نسبت جنوب کی طرف مائل تھی۔ اس وقت کے علمائے کرام نے اس محراب کی سمت سے متعلق اعتراض کیا۔ چنانچہ اک دن آپ نے سب حضرات کو مسجد میں جمع کیا۔ خود امامت کے فرائض سر انجام دیئے اور نماز کے بعد حاضرین سے مخاطب ہو کر دریافت فرمایا کہ دیکھئے کہ کعبہ کس سمت میں ہے۔ درمیان کے تمام حجابات دور ہو گئے اور خانہ کعبہ نظر آ گیا۔

                ایک عورت ہر روز تازہ دودھ لے کر جایا کرتی تھی۔ ایک دن آپ نے اس سے دودھ خریدنا چاہا۔ اس عورت نے کہا کہ یہ دودھ میں جوگی جی مہاراج کے لئے لے جا رہی ہوں۔ دودھ وہاں نہیں جائے گا تو ہمارے جانوروں کے دودھ کے بدلے خون آنے لگے گا۔ آپ نے مسکرا دیا اور فرمایا کہ آ ؤ تم ہمیں دودھ دے جا ؤ خدا نے چاہا تو دودھ میں برکت ہو گی۔ عورت نے سب دودھ دے دیا۔ آپ نے بقدر حاجت لے لیا۔ بقیہ دریا میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اس عورت کے مویشیوں نے کثرت سے دودھ دینا شروع کر دیا۔ دیکھا دیکھی قرب و جوار کے دوسرے لوگ بھی دودھ کی مٹکیاں لئے حاضر ہوئے۔ آپ نے ہر مٹکی میں تھوڑا تھوڑا لے کر دریا میں پھنکوا دیا سب کے دودھ میں اللہ تعالیٰ نے برکت دے دی۔

                جوگی کو جو دودھ نہ ملا تو وہ آپ کو کئی شعبدے دکھانے کے لئے حاضر ہو گیا اور ہوا میں اڑنے لگا اور کہا کہ دودھ تو بند کرا دیا ہے ایسا کوئی کمال دکھا ؤ۔ آپ نے اپنی نعلین کو پھینک دیا اور فرمایا میاں لا ؤ۔ چنانچہ نعلینوں نے ایسی کفش کاری کی کہ وہ اتر کر حاضر ہوا اور اسلام قبول کر لیا۔ آپ نے اپنے فیض صحبت سے نوازا اور شیخ ہندی کا لقب دیا۔

                حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں روایت فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنے مرشد کامل حضرت محمد بن حسن فتیلی رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ دمشق کی طرف جا رہا تھا کہ راستے میں بارش کی وجہ سے زمین پر کیچڑ تھا اور اس کیچڑ کی وجہ سے چلنے میں بڑی مشکل پیش آ رہی تھی۔ ان حالات میں میری نظر اپنے شیخ کے پا ؤں پر پڑی تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ بالکل خشک نظر آئے۔ میں نے اپنے مرشد کریم سے دریافت کیا تو میرے شیخ نے جواب دیا کہ میں نے ہمت کو توکل کے راستے میں اٹھا لیا ہے۔ تب سے اللہ تعالیٰ نے میرے قدموں کو ان آلائشوں سے پاک کر دیا ہے۔

                ایک دفعہ میں خراساں کے ایک گا ؤں جس کا نام کمندور تھا گیا۔ وہاں میں نے ایک آدمی کو دیکھا جس کو ادیب کمندی کہتے تھے۔ یہ بزرگ بیس سال سے ایک پا ؤں پر کھڑے تھے۔ ماسوا نماز کے کبھی نہ بیٹھتا تھا۔ لوگوں نے اس سے اس کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا کہ ابھی مجھے وہ درجہ حاصل نہیں ہوا کہ خدا کے مشاہدہ میں بیٹھنے کی عزت حاصل کر سکوں۔

                حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ ترکستان کے علاقہ میں ایک پہاڑی تھی جس کے اندر آگ لگ گئی۔ اس کے دہکتے ہوئے پتھروں میں سے نوشاد اُبل اُبل کر باہر آ رہا تھا۔ اس آگ میں ایک چوہا تھا۔ جو اس میں زندہ رہ سکتا تھا۔ اگر اس چوہے کو باہر نکال لیا جاتا تو وہ فوراً ہلاک ہو جاتا۔ حضرت علی ہجویری مزید فرماتے ہیں کہ زہر میں ایک کیڑا تھا جو اسی میں زندہ رہ سکتا تھا۔ اگر اس کو زہر سے نکال لیا جائے تو وہ فوراً مر جائے گا۔

                حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ۰۴ روز تک اعتکاف ختم کر کے داتا صاحب کے مزار سے رخصت ہونے لگے تو یہ شعر پڑھا:

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما

۱۔            اعتکاف عبادت کا ایک طریقہ ہے جس میں انسان کچھ عرصہ کے لئے دنیا سے قطع تعلق کر کے صرف عبادت الٰہی میں مصروف ہو جاتا ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ غسل کر کے پاک کپڑے پہن کر عبادت کی نیت کی جاتی ہے اور اس مخصوص عرصہ کے لئے آدمی گھر سے نکل کر مسجد کے کسی گوشہ میں بیٹھ جاتا ہے۔ وہیں عبادت اور شب بیداری کرتا ہے۔ کھانا پینا اور سونا سب وہی ہوتا ہے۔ صرف حوائج ضروریہ کے لئے ادھر ادھر جا سکتا ہے۔ علماء کرام اعتکاف کو سنت قرار دیتے ہوئے بہت بڑا ثواب سمجھتے ہیں۔

روحانی توجیہہ

                خدا کے فرمان پر قائم رہے اور اس کے حکم سے سرتابی نہ کرے۔

                اس قول کی روحانی توجیہہ مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی اس طرح بیان فرماتے ہیں:

                جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے اور کائنات میں ایک بہت چھوٹے یا بہت بڑے سیارے میں آدم تخلیق ہوا ہے، آدم برادری کا ہر باشعور فرد یہ سوچتا ہے کہ کائنات کیسے بنی اور کائنات کو بنانے والا کون ہے۔ انسان جو کائناتی حلقے میں عقل و شعور میں ممتاز ہے۔ یہ بھی سوچتا ہے کہ کائنات میں میری حیثیت کیا ہے میں کیوں پیدا ہوا، مجھے کس نے پیدا کیا۔ اگر میرا پیدا کرنے والا کوئی ہے تو اس وجود کی تعریف کیا ہے؟

                کچھ لوگوں نے عقلی بساط پر وجود کائنات پر غور کیا اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو انہوں نے تخلیق کائنات کے بارے میں نظریات قائم کر لئے ایک گروہ نے کہا:

                خدا کا وجود نہیں ہے۔ کائنات حادثاتی طور پر بن گئی ہے، کائناتی تخلیق میں کسی ہستی کا عمل دخل نہیں ہے۔

                دوسرے گروہ نے یہ رائے قائم کی۔

                کائنات کی ابتدا نہیں ہے۔ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گی، کائنات تخلیق عمل ہے اور حرکت خود مادہ ہے……لیکن تاریخ انسانی کی یہ مجبوری اپنی جگہ قابل توجہ رہی ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں دانشور اور مفکر نہ مانتے ہوئے بھی کسی ہستی کا نام لیتے رہے ہیں۔

                مذاہب نے اگر خالق ہستی کا نام یزدان، ایل، ایلیاء، بھگوان، گاڈ، خدا یا رحمٰن رکھا ہے تو استدلال کے گورکھ دھندے میں مبتلا لوگوں نے اس کا نام حادثہ نیچر، گیس، آتشتی لاوہ یا اتفاق رکھ دیا ہے……ہمارے علم میں یہ حقیقت بھی ہے کہ آدم زاد برادری کی عظیم اکثریت ایک خالق کے وجود کو مانتی چلی آئی ہے۔ کائنات کے اس خالق کو ہی وہ منتظم مدبر اور رب العالمین قرار دیتی ہے۔

                ہم دونوں نظریات کو سامنے رکھ کر علم حضوری کی بنیاد پر یہ تلاش کرتے ہیں کہ خالق کے بغیر کائنات کا وجود ممکن بھی ہے یا نہیں……یہ کائنات اگر حادثاتی طور پر وجود میں آئی ہے تو کائنات کی زندگی اور کائناتی تسلسل کن عوامل پر قائم ہے؟

                دل کہتا ہے اور روشن دماغ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہم سوچیں کہ کسی حادثہ یا اتفاق سے مادے میں حرکت پیدا ہونے کے بعد محض حرکت کیوں نہیں رہی حرکت میں ارتقائی عمل کیسے جاری ہو گیا……؟

                ہر انسان اس وقت انسان ہے جب وہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مادہ اس وقت مادہ ہے جب اس کا ظہور ہوتا ہے ہم کسی بھی طرح اس عمل سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے……کہ مادیت بجائے خود تخلیق ہے ہم مکان بناتے ہیں۔ مکان میں جو میٹریل لگتا ہے۔ وہ سب مادی ظہور ہے لیکن اینٹ اس وقت تک نہیں بنتی جب تک ریت، بجری، سیمنٹ نہ ہو اور ریت کا وجود اسی وقت ممکن ہے جب آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑوں سے بڑی بڑی چٹانیں ٹوٹ کر ہزاروں فٹ کی بلندی سے لڑھکتی ہوئی نیچے آتے آتے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہو جائیں۔ زمین نہ ہو تو یہ پہاڑ نہیں ہونگے۔ پہاڑ نہیں ہوں گے تو سیمنٹ نہیں بنے گا، پانی نہ ہو تو کسی چیز کا وجود ہی عدم ہو جائے گا……سنئے کہ:

                اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اس سلسلے میں آدم زاد برادری کے دانشوروں مفکرین اور سائنسدانوں کے لئے کیا لائحہ عمل متعین کرتی ہے یقیناً تمہارے لئے چوپایوں میں عبرت ہے۔ ان کے پیٹوں میں گوبر اور خون کے درمیان سے ایک خالص دودھ ہم تمہیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔ (النمل۔۶۶)

                وہ لوگ جو اللہ کے علاوہ ان دوسروں کو پکارتے ہیں جو مکھی بھی کبھی پیدا نہیں کر سکتے چاہے سارے اس کام کے لئے اکٹھے کیوں نہ ہو جائیں اور اگر کوئی مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ واپس نہیں لے سکتے۔ (الحج۔۳۷)

                کیا انسان پر زمانے میں ایسا لمحہ بھی آیا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا ہم نے اسے ایک بوند سے پیدا کیا تا کہ اسے آزمائیں چنانچہ ہم نے اس ایک بوند کو سمیع و بصیر بنا دیا۔ (الدھر۔ ۱تا۲)

                مینگنی اونٹ کے اوجود پر دلالت کرتی ہے (یعنی مینگنی کا نظر آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اونٹ ضرور یہاں سے گزرا ہے) اور قدموں کے نشان کسی چلنے والے کا پتہ دیتے ہیں۔ پھر یہ کیا بات ہوئی کہ بڑے بڑے برجوں والا آسمان اور بڑی بڑی گھاٹیوں والی زمین اور موجوں والے سمندر کسی لطیف اور خبیر ذات کے وجود پر دلالت نہ کریں۔ (القرآن)

                کیا تم نے اس پانی پر غور سے دیکھا جسے تم پیتے ہو۔ کیا تم نے اسے بارش کے ذریعے اتارا ہے یا اس کے اتارنے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے (میٹھے پانی کو) کھاری بنا دیں۔ پس تم شکر کیوں نہیں کرتے…………

                (الواقعہ۔ ۸۶تا۰۷)

                ان کے لئے ایک نشانی مردہ زمین ہے جسے ہم نے زندہ کیا اور اس میں سے ایک دانہ نکالا جسے وہ کھاتے ہیں ہم نے اس میں انگور اور کھجور کے باغ پیدا کئے اور اس میں چشمے جاری کر دیئے تا کہ لوگ زمین کے پھل کھائیں اور یہ سب کچھ انسانوں کے ہاتھوں نے نہیں بنایا پس کیا یہ لوگ شکر نہیں کرتے؟……(یٰسین۔ ۳۳تا۵۳)

                بے شک اللہ تعالیٰ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ مردہ میں سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ میں سے مردہ نکال لاتا ہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے تو پھر تم لوگ کہاں پلٹ کے جاتے ہو……(انعام۔ ۵۹)

                انسان اپنی خوراک کی طرف تو دیکھے۔ (کہاں سے آئی) ہم ہی نے پانی برسایا (جی بھر کر) پھر زمین کو پھاڑ دیا۔ (بیج کے اندر سے پودا زمین کو چیرتا ہوا باہر نکلا)……(عبس۔ ۴۲تا۶۲)

                ان کے لئے ایک نشانی رات ہے ہم اس میں سے دن نکالتے ہیں جب کہ وہ اندھیروں میں گم ہوتے ہیں۔ سورج اپنے مدار پر رواں دواں ہے یہ منصوبہ ہے ایک زبردست اور باخبر ہستی کا اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں۔ یہاں تک کہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح باریک رہ جاتا ہے۔ نہ سورج سے یہ ہو سکتا ہے کہ چاند سے جا ٹکرائے اور نہ رات دن سے سبقت کر سکتی ہے۔ (اپنے مقررہ وقت سے آگے پیچھے نہیں ہٹ سکتے) تمام سیارگان فلک اپنے مقررہ راستوں پر چل رہے ہیں۔ (اس سے سرمو انحراف نہیں کر سکتے)……(یٰسین ۷۳ تا ۰۴)

                کیا وہ بغیر کسی شئے کے پیدا کئے گئے ہیں یا وہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ کسی (خالق کے وجود پر) یقین نہیں رکھتے……(الطور۔ ۵۳تا۶۳)

                انسان کو اپنی غذا کی طرف تو دیکھنا چاہئے ہم نے بارش کا پانی اتارا، پھر زمین کو شق کیا اور اس میں ہم نے دانے اگا دیئے دانے انگور، سبزیاں، زیتون، کھجور اور باغات کے جھنڈ کے جھنڈ اور پھل اور گھاس پھونس جو تمہاری غذا کا سامان بھی ہے اور تمہارے چوپایوں کے لئے……(عبس۔ ۴۲تا۶۳)

                کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنا دیا۔ اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ تمہارے لئے نیند کو باعث آرام بنایا، رات کو تمہارے لئے پوشیدگی کا سامان بنایا۔ دن کو روزی کمانے کا سبب بنایا اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنا دیئے۔ ایک چمکتا ہوا چراغ بنایا اور بادلوں سے موسلا دھار بارش نازل کی تا کہ اس سے ہم اناج، سبزیاں اور گھنے باغات اُگائیں۔ (النبا۔ ۶تا۶۱)

                ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پس کیا تم اس کی تصدیق نہیں کرتے؟ کیا تم نے دیکھا ہے وہ قطرہ جو تم عورت کے رحم میں ٹپکاتے ہو؟ کیا ان قطروں کو تم پیدا کرتے ہو یا انہیں پیدا کرنے والے ہم ہیں……(الواقعہ۔۸۵تا۹۵)

                ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے بنایا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ کی شکل میں ایک معینہ مدت تک ایک محفوظ مقام میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفے سے خون کا لوتھڑا پیدا کیا۔ پھر ہم نے خون کے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی کو پیدا کیا۔ پھر اس بوٹی )بعض اجزاء) سے ہڈیاں پیدا کیں پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا پھر ہم نے اس میں (روح ڈال کر) اس کو ایک دوسری طرح کی مخلوق بنا دیا۔ سو کیسی بڑی شان ہے اللہ تعالیٰ کی جو تمام ثنا ؤں سے بڑھ کر ہے۔ (المومنون۔۲۱تا۴۱)

                اس کی بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین پر جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے کسی کو بچیاں عطا فرما دیتا ہے کسی کو لڑکے عطا فرما دیتا ہے کسی کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں عطا فرما دیتا ہے اور کسی کو بانجھ بنا دیتا ہے بے شک وہ خود جاننے والا اور خود قدرت رکھنے والا ہے۔ (الشوریٰ۔ ۹۴تا۰۵)

                اور زمین میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ٹکڑے (جزیرے) ہیں اور انگور کے باغ ہیں جن میں بعض تو ایسے ہیں کہ ایک تنے سے اوپر جا کر دو تنے ہو جاتے ہیں اور بعض میں دو تنے نہیں ہوتے۔ اور سب کو ایک ہی طرح کا پانی دیا جاتا ہے اور ہم ایک کو دوسرے پھلوں میں فوقیت دیتے ہیں۔ ان باتوں میں سمجھداروں کے لئے دلائل موجود ہیں۔ (الرعد۔۴)

                کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس چیز کو جو آسمانوں اور زمین میں ہے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں مکمل فرما دی ہیں۔ (لقمان۔۰۲)

                خدا کی کاریگری میں تم کو کہیں جھول نظر نہیں آئے گا۔ نظر الٹ الٹ کر دیکھو کیا تمہیں کہیں دراڑ یا خرابی دکھائی دیتی ہے۔ (الملک۔۳)

اقوال و ارشادات

۱۔                            علم اس قدر سیکھنا فرض ہے جس سے عمل درست ہو جائے۔ بے فائدہ علم سیکھنے کی حق تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے۔

۲۔                           ایثار یہ ہے کہ تو اپنے ساتھی کا حق نگاہ میں رکھے اور اپنا حصہ اس کو دے دے اور ساتھی کے آرام کیلئے خود تکلیف اٹھائے۔

۳۔                           جس طرح بدن کی پاکیزگی کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی اس طرح دل کی پاکیزگی کے بغیر معرفت درست نہیں ہوتی۔

۴۔           جب وضو کے ہاتھ دھو تو دل کی دنیا کی دوستی سے دھو ڈالو۔

۵۔                           الہام سے معرفت ممکن نہیں۔ اس میں بندے کا یقین کبھی زیادہ ہوتا ہے کبھی کم۔ لیکن اصل معرفت میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس لئے معرفت کی زیادتی بھی نقصان کا باعث ہے۔

۶۔                           خدا کی شناخت پر کسی کی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ اسے اس کے کمال کی صفتوں سے پہچاننا چاہئے۔

۷۔           نفس کی مثال شیطان کی سی ہے اور روح کی مثال فرشتہ کی سی۔

۸۔           علم معرفت کا طلب کرنا سب طالب علموں پر فرض ہے۔

۹۔            محبت خداوندی کے غلبہ کو سکر کہتے ہیں اور مراد کے اصول کو صحو کہا جاتا ہے۔

۰۱۔                         حال وہ حقیقت ہے جو خدا کی طرف سے انسان کے دل میں آئے، تکلف سے حاصل نہ ہو سکے اور کسب سے دفع نہ کی جا سکے۔

۱۱۔          حال خدا کی عطا ہے اور مقام مجاہدہ سے قائم ہوتا ہے۔

۲۱۔         جب تصوف خلق سے منہ پھرنا ہو تو یقیناً اس کے لئے کوئی رسم نہیں ہو سکتی۔

۳۱۔         رضا دو طرح کی ہے حق تعالیٰ کی رضا بندہ سے اور بندہ کی رضا حق تعالیٰ سے۔

۴۱۔                         صوفی اسے کہتے ہیں جو اپنے معاملے اور اخلاق کو مہذب بنائے اور طبیعت کی آفتوں سے کنارہ کرے۔

۵۱۔         فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ اس کی کسی چیز میں خلل نہ آئے۔

۶۱۔                          جو کچھ فقیر پر گزرے اسے کسی پر ظاہر نہ کرے اور جس بات کا اس پر ظہور ہو جائے اسے پوشیدہ نہ رکھے۔ اسرار کے غالب ہو جانے سے وہ اتنا مغلوب نہ ہو جائے کہ احکام شریعت بجا نہ لا سکے۔

۷۱۔         خدا کے راستے کے سالکوں کا پہلا مقام توبہ ہے۔

۸۱۔                         اگر بندہ غنا سے سرفراز کیا جاتا ہے تو یہ اس کے لئے ایک نعمت ہے مگر اس نعمت میں غفلت اس طرح ہے جس طرح فقر میں حرص۔

۹۱۔                          فقر تمنا سے بہتر ہے جب طالب خدا کے سوا دنیا کی ہر شئے سے بے نیاز ہو جاتا ہے تو پھر فقر اور غنا دونوں کی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

۰۲۔        سچا فقیر بن، خواہ کافروں کی سی کلاہ پہن۔

۱۲۔         نفس ایک باغی کتا ہے۔ کئے کے چمڑے کو جب تک دباغت اور رنگ نہ کیا جائے پاک نہیں ہوتا۔         

۲۲۔        انسان کے لئے سب چیزوں سے مشکل خدا کی پہچان ہے۔

۳۲۔                        غنا کا نام خاص خدائے تعالیٰ کے لائق ہے لوگ اس کے نام کے مستحق نہیں ہو سکتے اور فقر کا نام لوگوں کے لئے ہے خدائے برتر کے لئے یہ روا نہیں ہو سکتا۔

۴۲۔        بندہ کی رضا یہ ہے کہ خدا کے فرمان پر قائم رہے اور اس کے احکام سے سرتابی نہ کرے۔

۵۲۔        عارف عالم ضرور ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ عالم بھی عارف ہو۔

۶۲۔         تصوف ایک حقیقت ہے۔ بے نام اور آج ایک نام ہے بے حقیقت۔

۷۲۔        دنیا کے ساتھی (آنکھ، پا ؤں، ہاتھ) جو بظاہر دوست نظر آتے ہیں دراصل تمہارے دشمن ہیں۔

۸۲۔        صوفی وہ ہے جس کی گفتار اور کردار ایک سے ہوں۔

۹۲۔         استاد کا حق ہرگز ضائع نہ کر۔

۰۳۔                        بوڑھوں کو چاہئے کہ وہ جوانوں کا لحاظ رکھیں۔ اس لئے کہ ان کے گناہ کم ہیں اور جوانوں کو چاہئے کہ وہ بوڑھوں کا ادب کریں اس لئے کہ وہ جوانوں سے زیادہ عابد اور تجربہ کار ہیں۔

                آپ نے ۵۶۴ھ کو اس دار فانی سے رخصت فرمائی اور آپ کا مزار لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر مغرب کی طرف واقع ہے اور ہر ۹۱ اور ۰۲ صفر المظفر کو آپ کا عرس منایا جاتا ہے۔

 


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔