Topics
ولادت……۱۲ھ بمقام مدینہ منورہ
وفات…… ۰۱۱ھ بمقام بصرہ
آپ کا اسم گرامی حسن،
کنیت مبارک ابو محمد، ابو سعید اور ابی البصر ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت ۱۲ھ میں مدینہ منورہ میں
پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام موسیٰ راعی تھا جو بصرہ اور واسط کے درمیان
جیلسان نامی ایک جگہ کے رہنے والے تھے۔ آپ نے۲۱ھ میں حضرت صدیق اکبر کے
ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت ام سلمہ کی لونڈی
تھیں۔ جب آپ پیدا ہوئے تو حضرت فاروق اعظمؓ کے حضور میں لائے گئے۔ بڑے خوشرُو اور
خوبصورت تھے۔ اس لئے حضرت عمر فاروقؓ نے آپ کا نام حسن رکھا۔ ابتداء میں آپ
جواہرات بیچا کرتے تھے اور اس پیشہ سے آپ نے بہت روپیہ کمایا۔ پھر جب عشق الٰہی کا
غلبہ ہوا تو آپ نے سارا مال و اسباب راہ خدا میں لٹا دیا اور لوگوں سے بالکل کنارہ
کش ہو کر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں مشغول ہو گئے۔ آپ
دن رات یاد الٰہی میں مصروف رہتے۔ ہر وقت باوضو ہوتے۔ خوف الٰہی سے ہر وقت روتے
رہتے تھے۔ آپ کی آنکھیں کبھی خشک نہیں دیکھی گئیں۔ کثرت گریہ کے باعث آنکھوں میں
گڑھے پڑ گئے تھے۔ نظر کمزور ہو گئی تھی۔ اتنے کمزور ہو گئے تھے کہ بدن پر گوشت نظر
نہ آتا تھا۔
ایک مرتبہ بصرہ میں قحط
پڑا اور تقریباً دو لاکھ آدمی نمازِ استسقاء پڑھنے کے لئے باہر میدان میں نکلے۔
خواجہ حسن بصری کو منبر پر کھڑا کیا کہ دعا فرمائیں آپ نے کہا۔ مجھے بصرہ سے نکال
دو یہ فرمانا تھا کہ پانی برسنے لگا۔ آپ ہفتہ میں صرف ایک مرتبہ وعظ فرمایا کرتے
تھے۔ مگر جس وعظ میں حضرت رابعہ جو اپنے وقت کی بہت بڑی ولیہ نہ ہوتیں۔ راز کی
باتیں نہ کہتے۔ حالانکہ لوگ آپ سے کہتے بھی اگر ایک عورت نہیں ہے تو کیا ہے۔ آپ نے
جواب دیا کہ جو شربت ہاتھیوں کے حوصلہ کے مطابق کیا گیا ہو وہ چیونٹیوں کے سینہ
میں کیونکہ آ سکتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت مالک بن
دینارؒ نے پوچھا لوگوں کی خرابی کس بات میں ہے ۔ فرمایا دل کے مرنے میں۔ پھر پوچھا
دل کا مرنا کیا ہوتا ہے فرمایا کہ دنیا کی محبت۔
حضرت سعیدہ بن جبیر کو
نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تین کام کبھی نہ کرنا:
۱۔ بادشاہوں کی بساط پر قدم نہ رکھنا اگرچہ وہ شفقت کریں۔
۲۔ کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھنا خواہ رابعہ وقت ہو اور
تو اسے کتاب اللہ کی تعلیم دیتا ہو۔
۳۔ مزا میر نہ سننا اگرچہ تو مردان مرد کا درجہ رکھتا ہو؟ اس
لئے کہ آفت سے خالی نہیں بالآخر اپنے زخم لگا دیتے ہیں۔
آپ فرمایا کرتے تھے۔ جب
بندہ گناہ کر کے توبہ کرتا ہے تو اس سے قرب الٰہی بڑھتا ہے اور اسی طرح بار بار
توبہ کرنے سے قربت بڑھتی جاتی ہے۔
آپ باعمل عالم بھی تھے
اور زاہد و متقی بھی۔ سنت نبوی پر سختی سے عمل کرتے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے
رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ شمعوں نامی ایک آتش پرست آپ کا پڑوسی تھا اور جب
وہ مرض الموت میں مبتلا ہوا۔ آپ نے اس کے یہاں جا کر دیکھا کہ اس کا جسم آگ کے
دھوئیں سے سیاہ پڑ گیا ہے۔ آپ نے تلقین فرمائی کہ آتش پرستی ترک کر کے اسلام میں
داخل ہو جا۔ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے گا۔ اس نے عرض کیا کہ میں تین چیزوں کی
وجہ سے اسلام سے برگشتہ ہوں۔ اول یہ کہ جب تم لوگوں کے عقائد میں جب دنیا بری شئے
ہے تو پھر تم اس کی جستجو کرتے ہو۔ دوم یہ کہ موت یقینی تصور کرتے ہوئے بھی اس کا
سامان کیوں نہیں کرتے۔ سوم یہ کہ جب تم اپنے قول کے مطابق جلوہ خداوندی کے دیدار
کو بہت عمدہ شئے تصور کرتے ہو تو پھر دنیا میں رضائے الٰہی کے خلاف کام کیوں کرتے
ہو۔
آپ نے فرمایا کہ یہ تو
مسلمانوں کے افعال و کردار ہیں لیکن آتش پرستی میں وقت ضائع کر کے تمہیں کیا حاصل
ہوا۔ مومن خواہ کچھ بھی ہو کم از کم وحدانیت کو تو تسلیم کرتا ہے مگر تو نے ستر
سال آگ کو پوجا ہے اور اگر ہم دونوں آگ میں پڑیں گے تو وہ ہم دونوں کو برابر جلائے
گی۔ یا تیری پرستش کو ملحوظ رکھے گی لیکن میرے مولا میں یہ طاقت ہے کہ اگر وہ چاہے
تو مجھ کو آگ ذرہ برابر نقصان نہیں پہنچا سکتی اور یہ فرما کہ ہاتھ میں آگ اٹھا لی
اور کوئی اثر دست مبارک پر نہ ہوا۔ شمعوں نے اس کیفیت سے متاثر ہو کر عرض کیا کہ
میں ستر سال سے آتش پرستی میں مبتلا ہوں۔ اب آخری وقت کیا مسلمان ہوں گا۔ لیکن جب
آپ نے اسلام لانے کے لئے دوبارہ اصرار فرمایا تو اس نے عرض کیا کہ میں اس شرط پر
ایمان لا سکتا ہوں کہ آپ مجھے یہ عہد نامہ تحریر کر دیں کہ میرے مسلمان ہو جانے کے
بعد اللہ تعالیٰ مجھے تمام گناہوں سے نجات دے کر مغفرت فرما دے گا۔ چنانچہ آپ نے
اسی مضمون کا اس کو ایک عہد نامہ تحریر کر دیا۔ لیکن اس نے کہا کہ اس پر بصرہ کے
صاحب عدل لوگوں کی شہادت بھی تحریر کروائیں۔ آپ نے شہادتیں سبھی درج کرا دیں اس کے
بعد شمعوں صدق دل کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہو گیا اور خواہش کی کہ میرے مرنے کے بعد آپ
اپنے ہی ہاتھ سے غسل دے کر قبر میں اتاریں اور یہ عہد نامہ میرے ہاتھ میں رکھ دیں۔
تا کہ روز محشر میرے مومن ہونے کا ثبوت میرے پاس رہے۔ یہ وصیت کر کے کلمہ شہادت
پڑھتا ہوا دنیا سے رخصت ہو گیا اور آپ نے اس کی پوری وصیت پر عمل کیا اور اسی شب
خواب میں دیکھا کہ شمعوں بہت قیمتی لباس اور زریں تاج پہنے ہوئے جنت کی سیر میں
مصروف ہے اور جب آپ نے سوال کیا کہ کیا گزری۔ تو اس نے عرض کیا کہ خدا نے اپنے فضل
سے میری مغفرت فرما دی اور جو انعامات مجھ پر کئے وہ ناقابل بیان ہیں لہٰذا اب آپ
کے اوپر کوئی بار نہیں آپ اپنا عہد نامہ واپس لے لیں۔ کیونکہ مجھے اب اس کی حاجت
نہیں اور جب صبح کو آپ بیدار ہوئے تو وہ عہد نامہ آپ کے ہاتھ میں تھا۔ آپ نے اللہ
کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ تیرا فضل کسی سبب کا محتاج نہیں جب ایک
آتش پرست کو ستر سال آگ کی پرستش ک ے بعد صرف ایک مرتبہ کلمہ پڑھنے کے بعد مغفرت
فرما دی تو جس نے ستر سال تیری عبادت و ریاضت میں گزارے ہوں وہ کیسے تیرے فضل سے
محروم رہ سکتا ہے۔
ایک حضرت خواجہ حسن بصریؒ
جامع ابو عاصم میں اعلان حق کی فضیلت بیان فرما رہے تھے کہ اتنے میں حجاج بن یوسف
وعظ کی محفل میں آیا اور ایک امتیازی شان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ حضرت خواجہ حسن بصریؒ
نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا اس محفل میں بعض آدمی ایسے موجود ہیں جو
اپنی شخصیت کو مرتبہ انسانیت سے بالا تر سمجھتے ہیں اور عام انسانوں کو ایک حقیر
مچھر سے بھی زیادہ ذلیل سمجھتے ہیں۔ ان کے سامنے غریب آدمیوں کا بیٹھنا ممنوع ہے۔
ان کے سامنے بولنا گناہ ہے اور ان کے کسی فعل پر ادنیٰ سا اعتراض کرنا موجب قتل
ہے۔ اے فنا ہونے والے انسانو! کیوں تم اپنی ان ذاتی قوتوں پر ناز کرتے ہو۔
حاضرین محفل کو یقین تھا
کہ اس بے باکانہ تقریر پر حجاج بن یوسف حضرت خواجہ کے قتل کا حکم صادر کر دے گا۔
مگر وہ خاموش بیٹھا ہوا آپ کی تقریر سنتا رہا اور پھر اٹھ کر چلا گیا۔ ایک ہفتہ
بعد حجاج بن یوسف نے حضرت خواجہ کو ایک خط تحریر کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔
حضرت نے اس خط کو لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا جس چیز کو ایک ظالم کے ہاتھوں
نے مس کیا ہے۔ میں اس کو چھونا نہیں چاہتا اور اس خط کی پشت پر لکھوا دیا۔ خدا کے
مغرور بندے حجاج کو معلوم ہوا کہ غریب تیرے ظلم سے تنگ آ گئے ہیں۔ میں تجھ سے
ملاقات پسند نہیں کرتا۔ حجاج نے ظلم سے توبہ کی اور وہ حضرت کی نگاہ کرم سے مرد
مومن بن گیا۔
آپ اموی حکومت کی پالیسی
سے بہت سے بنیادی امور میں اختلاف رکھتے تھے۔ لیکن حجاج اس بات پر مُصر تھا کہ آپ
اس اختلاف سے باز رہیں اور اپنی زبردست شخصیت کے اثرات حکومت کی تائید میں صرف
کریں لیکن آپ جیسے حق گو مجاہد کے لئے ناممکن تھا اس لئے آپ نگاہِ عمال سے بچ کر
گوشہ نشین ہو گئے۔ سرکاری جاسوسوں نے ہر چند تلاش کیا مگر ناکامی ہوئی لیکن ایک
خارجی کو کسی نہ کسی طرح آپ کی گوشہ نشینی کا علم ہو گیا اور اس نے آپ کو طرح طرح
سے ڈرانے دھمکانے اور حکومت کو مطلع کرنے کی باتیں شروع کر دیں۔ آپ اولاً تو
برداشت کرتے رہے۔ لیکن ایک دن وہ اسی ارادے سے آپ کے پاس آ رہا تھا کہ اسے دیکھ کر
آپ کو غصہ آ گیا اور بارگاہِ ایزدی میں عاجزی کے ساتھ اس سے چھٹکارا پانے کی
درخواست کی۔ چلتے چلتے وہ خارجی لڑکھڑا کر زمین پر گرا اور خاک کا ڈھیر ہو گیا۔ آپ
راتوں کو جاگتے اور عبادت کرتے تھے۔ اور دن کو ریاضت اور مجاہدہ میں صرف کرتے تھے۔
وہ فقیر بھی تھے اور زاہد بھی وہ عابد بھی تھے اور دنیا سے بیزار بھی۔ وہ دنیا کو
فضول سمجھتے تھے۔ وہ دنیا کی زینت کو ہیچ اور ناکارہ سمجھتے تھے۔ وہ نفس کی
خواہشات سے بغاوت کے خوگر تھے۔ ان کا زہد عبادت تھا حزن دائم سے ان کی آنکھیں ہر
وقت پرنم رہتی تھیں۔ ان کا دل ہر وقت اشکبار رہتا، ان کا خیال تھا کہ عمل صالح کی
تربیت، نشوونما اور تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ آدمی ہنسے کم اور روئے زیادہ۔ تقویٰ
کے ارتقاء اور تکمیل میں سب سے زیادہ جو چیز معین و مددگار ہوتی ہے بلکہ بنیادی
اور اساسی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے، وہ ہے صرف خوف خدا، خشیت الٰہی۔
ایک بار آپ سے کسی نے عرض
کیا۔ آپ کی مجلس میں کچھ لوگ صرف اس غرض سے آتے ہیں کہ دیکھیں آپ کہاں کہاں وعظ
میں غلطی کرتے ہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ محض بیکار سوال کر کے آپ کو پریشان کریں۔ آپ
نے تبسم فرما کر اس شخص سے کہا کہ ان لوگوں کی باتوں کا برا نہ مانو کیونکہ میں
انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ مجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کا خالق و رازق
ہونے کے باوجود دنیا کی بدگمانی و بدزبانی سے نہیں بچا تو پھر میں کیونکر بچ سکتا
ہوں۔ بس یہ ایک عمل خیر ہے جسے نیک نیتی سے کر رہا ہوں۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے میں
کرتا رہوں گا۔
کسی نے کہا اے ابو سعید
یہاں ایک شخص ہے ہم نے اسے ہمیشہ تنہا درختوں کی آڑ میں بیٹھا ہوا دیکھا۔ ایک دن
حسن بصری اس طرف تشریف لے گئے اور اس شخص سے فرمایا۔ اے شخص تم خلوت پسند معلوم
ہوتے ہو کیا وجہ ہے کہ لوگوں سے نہیں ملتے۔ اس شخص نے کہا میں ایک ایسے کام میں مشغول
ہوں جو لوگوں سے ملنے کی مہلت نہیں دیتا۔ حسن بصری نے فرمایا یہاں جو حسن بصری
رہتے ہیں ان کے پاس تو جایا کرو اور ان کے پاس بیٹھا کرو اس شخص نے کہا جس کام کی
وجہ سے لوگوں سے نہیں مل سکتا اسی وجہ سے حسن بصری سے بھی نہیں مل سکتا۔ حسن بصری
نے کہا ایسا کیا کام ہے۔ اس شخص نے کہا جب صبح ہوتی ہے تو اللہ کی نعمتیں اور اپنے
گناہ دیکھتا ہوں۔ نعمتوں کا شکر اور گناہوں سے استغفار کرتا ہوں۔ حضرت بصری نے
کہا۔ اے عبداللہ تو حسن سے بھی زیادہ سمجھ دار ہے۔ میں تیری محفل میں آیا کروں گا۔
۱۔ جو خدا سے ڈرتا ہے سب لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔
۲۔ تفکر خیر اور عمل کی طرف دعوت دیتا ہے۔
۳۔ جو ہر شئے کو دیکھنے میں اپنی آنکھ؍ نظر کو آزاد کئے رہتا
ہے اس کا غم بڑھ جاتا ہے اور جو ہر وہ بات کہہ دیتا ہے جو اس کے جی میں آئے وہ
اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے۔
۴۔ صبر دنیا کی سب نیکیوں کا نچوڑ ہے۔
۵۔ خدا سے ڈرنے والے کو چاہئے کہ اس کے تعرفات میں کلام نہ
کرے۔
۶۔ دنیا کا عذاب یہ ہے کہ تیرا دل مردہ ہو جائے۔
۷۔ جو آج بے خوف ہے کل اسے ڈرایا جائے گا اور جو آج ڈرتا ہے وہ
کل بے خوف ہو گا۔
۸۔ جو خدا سے شرم کرتا ہے۔ لوگ بھی اس سے شرم رکھتے ہیں جو خدا
کے سامنے گناہ کرنے میں دلیری کرتا ہے لوگ بھی اس پر دلیر ہو جاتے ہیں۔
۹۔ جو بات حکمت سے خالی ہے وہ آفت ہے جو خاموشی حکمت سے خالی
ہے وہ غفلت ہے جو نظر عبرت سے خالی ہے وہ ذلت ہے۔
۰۱۔ خالی پیٹ شیطان کا قید خانہ ہے اور بھرا ہوا پیٹ اس کا اکھاڑہ۔
۱۱۔ اگرچہ توبہ سے غیبت کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے مگر اس سے معافی مانگ جس کی تو نے
غیبت کی۔
۲۱۔ جنت کے مقابلہ میں بڑی سے بڑی نعمت حقیر ہے اور دوزخ کے
مقابلہ میں بڑی سے بڑی مصیبت آسان اور قابل برداشت ہے۔
۳۱۔ نفس سے بڑھ کر دنیا میں منہ زور اور بدلگام جانور اور کوئی نہیں۔
۴۱۔ اگر یہ جاننا چاہتے ہو کہ تمہارے مرنے کے بعد دنیا کی کیا
حالت ہو گی تو دیکھ تو کہ دوسروں کے مرنے کے بعد دنیا کی کیا حالت ہے۔
۵۱۔ دولت وہی شخص طلب کرتا ہے جسے خدا ذلیل کرے۔
۶۱۔ اس شخص کا دل کبھی درست نہیں ہو سکتا جس کی پیروی احمق لوگ کریں۔
۷۱۔ جو دوسروں کی باتیں تم سے بیان کرتا ہے وہ تمہاری باتیں دوسروں سے ضرور کہے
گا۔
۸۱۔ فکر تیرے لئے آئینہ ہے جو تجھ پر نیکی اور بدی ظاہر کرتا ہے۔
۹۱۔ جس نے خدا کو پہچانا اس نے اسے دوست رکھا اور جس نے دنیا کو پہچانا اس نے خدا
کو دشمن سمجھا۔
۰۲۔ مومن کی شان یہ ہے کہ اس کی صبح ہوتی ہے تو ملول اور غمگین
ہوتا ہے اور اس کی شام ہوتی ہے تو وہ ملول اور غمگین ہوتا ہے۔
۱۲۔ اے انسان اگر تیرے نفس نے نجات پائی تو تو نے بھی نجات پائی اور اگر تیرا نفس
ہلاک ہو گیا تو تو بھی ہلاک ہو گیا اور تیرے سوا جس نے نجات حاصل کی۔ وہ تجھے کوئی
نفع نہ دے سکے گا۔
۲۲۔ لالچ آدمی کو بدنما بنا دیتا ہے۔
۳۲۔ طعام سے پر معدوں میں حکمت کے موتی نہیں سماتے۔
۴۲۔ صوفی وہ ہے جو وہ بات ہرگز نہ کرے جو اس میں نہ ہو۔
۵۲۔ عبادت کی کنجی فکر اور نفس کی مخالفت ہے۔
آپ
نے رجب ۰۱۱ھ
میں نواسی سال کی عمر میں ہشام بن عبدالمالک بن مروان کے زمانہ میں وفات پائی اور
مزار پر انوار بصرہ میں ہے۔
تفکر خیر اور عمل کی دعوت
دیتا ہے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس
الدین عظیمی مدظلہ العالی تفکر کی روحانی توجیہہ اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
بہت پہلے جب رات دن نہیں
تھے۔ مہینے سال نہیں تھے، نہ آسمان تھا، نہ زمین تھی۔ تاریکی اور روشنی دونوں
معدوم کے پردوں میں تھیں۔ زمان و مکان (Time & Space) کی
اصطلاحیں بھی وجود میں نہیں آئی تھیں پھر کیا تھا؟ ہُو کا عالم تھا ایک ذات کے
علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ ذات نے خود کو تنہا محسوس کیا تو خود اس نے اپنے وجود سے
ایک ہمراز بنایا ہمراز بن گیا تو سرگوشی ہوئی۔ یہ کیسے پتہ ہے کہ حبیب کون ہے اور
ہمراز محبوب کون ہے طے پایا کہ ہمراز محبوب اور حبیب کے تعارف کے لئے ایک فلم
بنائی فلم دکھانے کے لئے پردے (Screens) لازم
قرار پائے۔ فلمی ریکارڈ کی منظر کشی کے پھیلا ؤ کے لئے ایک ماورائی مشین (Projector) بنی۔ اس طرح ایک مربوط
نظام بن گیا نظام کو مربوط رکھنے کے لئے قانون بنا۔ قانون یہ بنا کہ محبوب کو
متعارف کرانے کے لئے وقفہ وقفہ سے سربراہی گروہ تشکیل دیا جائے اور اس طرح ایک
لاکھ سے زائد یا کچھ کم سربراہوں کی نگرانی میں وفود آتے رہے اور اپنی ذمہ داری
پوری کرتے رہے۔ ہر سربراہ نے علمی اعتبار سے اچھائی اور برائی کے تصور کا پرچار
کیا کہ ایک برادری دوسری لاکھوں، برادریوں اور گروہوں سے ممتاز ہو جائے ان سب
کوششوں کے نتیجہ میں ایک معاشرہ قائم ہوا۔
اس مثالی معاشرہ کی پہلی
اساس محبت پر رکھی گئی قانون بنا کہ پہلی محبت اس ذات سے کی جائے گی جس ذات نے سب
کو بنایا۔ جب کہ اس کو کسی نے نہیں بنایا۔
بنانے والی ہستی چونکہ
خود حسین ہے اس لئے حسن معیار بنا۔ اس طرح معاشرہ کی دوسری اساس خوبصورتی بنی۔
جہاں حسن ہوتا ہے وہاں محبوب اور مقصود کی جستجو فطری امر بن جاتی ہے چونکہ محبوب
و مقصود خوبصورت ہے اس لئے ہر چیز خوبصورت لبادہ میں سجائی گئی۔ اور جمالیاتی حسن
ودیعت ہونے سے انسان طبعاً حسن پرست ہو گیا۔ انسان حسن سے محبت کرنے لگا اور
بدصورتی اس کے لئے ناپسندیدہ شئے بن گئی۔ محبت کو پروان چڑھانے کے لئے عدل و انصاف
کی میزان قائم کی گئی۔
مثالی معاشرہ کی تیسری
اساس مکافات عمل ہے۔ قانون کی شق میں وضاحت کی گئی کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔
آدم زاد جو بوئے گا وہی کاٹے گا۔ اس دنیا میں اور عارضی دنیا کے اس پار دوسری دنیا
میں ایک ہی قانون نافذ رہے گا۔ مکافات عمل کے قانون کی مزید تشریحات و توضیحات کے
لئے اور اس قانون کو جاری و ساری رکھنے کے لئے انسانی اختیارات کی دستاویز تیار
ہوئی۔ اختیارات کے سلسلہ میں اچھائی اور برائی کا تصور بنیادی اساس بنا۔ اچھائی اس
لئے اچھائی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ عمل اچھا ہے۔ برائی اس لئے برائی ہے کہ ہم نے
تسلیم کر لیا ہے کہ یہ برائی ہے مفہوم یہ نکلا کہ اچھائی یا برائی اس پر قائم ہے
کہ ہم اچھائی اور برائی کے تصور کو قبول کر چکے ہیں۔
برائی اور اچھائی کے
تصورات کو عام کرنے اور اس کے نتائج مرتب ہونے کے عمل کو آخرت کا نام دیا گیا۔ ایک
غیر منقسم واحد ذات نے اپنے فرستادہ دوستوں کے ذریعے یہ پیغام عام کر دیا کہ دنیا
مزرع حیات ہے۔ زندگی میں جو کچھ بویا جائے گا یہاں وہاں دونوں عالمین میں وہی
کاٹنا پڑے گا۔
حیات کے اوپر غور کرنے کے
نتیجہ میں یہ انکشاف ہوا کہ نفس کو بخوشی یا کراہ کے ساتھ موت سے بغلگیر ہونا ہے
اور فرد کو موت سے پنجہ آزمائی کرتی ہے اور موت اسے بہرحال شکست دے دے گی۔ البتہ
آدم زاد کو فنا نہیں کر سکتی۔ اگر موت کو فانی تسلیم کر لیا جائے تو نظام حیات اور
کائنات کا وجود باقی نہیں رہے گا اور اختیارات کی دستاویز کالعدم ہو جائے گی۔
اختیارات سے مراد یہ ہے کہ فرد اپنی اس زندگی میں جو کچھ کرتا ہے سزا یا جزاء کا
خود تعین کرتا ہے۔ اگر موت کے اوپر فنا وارد ہو جائے تو پھر جزا اور سزا حساب اور
کتاب کی کوئی حقیقت نہیں رہے گا۔ ہوتا یہ ہے کہ موت مادی وجود کو ہلاک کر کے روح
کو آزاد کر دیتی ہے۔ موت اور حیات کے نظام کے تحت فرد نے اپنی زندگی کو علیحدہ
علیحدہ شعبوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ فرد جب حیات ممات کے دو شعبوں میں تقسیم ہو گیا
تو بہت زیادہ پیچیدگی عمل میں آ گئی اور اس پیچیدگی نے عقائد کا روپ دھار کر
بیشمار نظریات کو جنم دیا اور جیسے جیسے نظریات کا ہجوم ہوتا رہا۔ فرد اپنی انا سے
دور ہوتا چلا گیا اور ایک وقت ایسا آ گیا کہ وہ پہلی ہستی کے وجود سے باغی ہو گیا
وقت گزرتا رہا۔ سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا فرد مزید گمراہی میں غرق ہو گیا۔ اس علم
کی بنیاد پر جس علم سے اسے اختیارات منتقل ہوئے تھے۔ فرد نے اپنے لئے روشنی کی جگہ
تاریکی کا انتخاب کر لیا اور یہ انتخاب پوری ایک برادری کے لئے ادبار بن گیا۔
پرسکون قلعہ کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ دھوپ کی تمازت سے محفوظ رکھنے والی
چھت زمین بوس ہو گئی۔
دیواروں کی دراڑوں میں سے
گرد و غبار کا طوفان اور گرم ہوائیں قلعہ میں داخل ہو گئیں اور فرد کے پاس چیخنے
چلانے کے علاوہ کوئی آسرا نہ رہا۔ آسرا کیوں نہ رہا اس لئے کہ پرسکون ہونے کے لئے
جن جذبات و احساسات کی ضرورت ہے۔ ان سے فرد نے منہ موڑ لیا ہے۔
پہلی ہستی نے اپنے محبوب
کو جس فطرت پر بنایا ہے وہ یہ ہے کہ فرد کے اندر آپس میں ایک دوسرے سے محبت ہو۔
پوری نوع سے محبت ہو طلب و جستجو میں صداقت ہو ایسی صداقت جو تناور درخت بن جائے
اور اس درخت سے حسن و احسان، اکرام و بخشش اور عفو و درگذر کی شاخیں پھوٹیں۔
پہلی ہستی نے جب اپنے
محبوب کو بنایا اور اسی کے تعارف کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار دوستوں کو مامور کیا
تو اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما تھا کہ فرد کی حیثیت ایک سے ختم ہو کر اجتماعی ہو
جائے۔ اجتماعی نشوونما اور ارتقاء کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ فرد اپنی ہستی کو
افراد میں مدغم کر کے اجتماعی طور پر سوچے اور عمل کرے۔ فرد چونکہ فطرتاً مجبور ہے
یہ مجبوری فرد سے تقاضا کرتی ہے کہ اس مالک و خالق و ہستی کو تلاش کیا جائے۔ اس کی
جستجو کی جائے جس کے قبضہ میں ہماری زندگی اور موت ہے۔ بظاہر اس لاینحل پیچیدگی کو
ختم کرنے کے لئے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ ہم مثالی معاشرہ کی
اساس کو مضبوط اور مستحکم کریں اور یہ مثالی معاشرہ اسلام کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔
اسلام کہتا ہے
احترام انسانی ہر شخص پر
لازم ہے۔
جملہ بنی نوع انساں نسلاً
ایک ہیں ان میں رنگ و نسل، علاقائی، قبائل یا قومی امتیازات غیر فطری ہیں۔
تمام نوع انسان اللہ کے
بندے ہیں ان کے حقوق کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔
ایک انسان کا قتل کل نوع
انسانی کے قتل کے برابر ہے۔
ایک انسان کی جان بچانا
پورے نوع انسانی کی جان بچانے کے برابر ہے۔
امن و سلامتی کو برباد
کرنا سب سے بڑی برائی ہے۔
فرد اور افراد دونوں آزاد
پیدا ہوتے ہیں۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔
خدمت خلق اور ملت سے
وابستگی ضروری ہے۔
ہمسایوں کے حق کا بالخصوص
احترام کیا جائے۔
دولت کی تقسیم عدل و
انصاف کے اصول پر ہونی چاہئے۔
بھوک، بیماری، بیکاری دور
کرنا مثالی معاشرہ کی ذمہ داری ہے۔
حسن سے محبت اور خوب سے
خوب تر کی تلاش۔
نیت ہر حال میں حسین ہونی
چاہئے۔
ہر شخص پر دوسروں کی
آزادی اور دیگر سیاسی حقوق کا احترام لازم ہے۔
افراد کی تعلیم و تربیت
وقت کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہئے اس طرح کہ مثالی معاشرہ اور اسلام کا تشخص
مجروح نہ ہو۔
علم و حکمت کا سیکھنا ہر
مرد اور عورت پر فرض ہے اور انسان کو مرتے دم تک طالب رہنا چاہئے۔
اسلامی معاشرے کے افراد
بھائی بھائی ہیں ان کا سود و زیاں ایک ہے۔
تقویٰ اور ایمان لازم و
ملزوم ہیں ایمان مشاہداتی ہونا چاہئے۔
جسم کی طرح روح کے اوپر
بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا علاج ہونا چاہئے اور علاج پہلی ذات اللہ سے قربت کا
طریقہ قیام صلوٰۃ ہے۔ قیام صلوٰۃ مراقبہ ہے۔ مراقبہ تعلق اللہ کے لئے ذہنی مرکزیت
ہے۔
ضمیر کی آواز کمزور اور
جمالیاتی حسن مفلوج نہیں ہونا چاہئے ضمیر کے اندر نور باطن کی ہر حالت میں حفاظت
کی جائے۔
رحمت بن کر انسانوں سمیت
تمام مخلوقات سے محبت کی جائے۔
زمین اللہ کی ملکیت ہے۔
زمین کے اندر اور زمین کے اوپر جو کچھ بھی ہے وہ تمام نوع انسانی اور دیگر مخلوقات
کے مشترکہ استفادہ کے لئے ہے۔
بداخلاقی ترشروئی کرخت
لہجہ برائی ہے، خوش خلقی اور شیریں مقال ہونا سعادت ہے۔
ملک و ملت کو خارجی اور
داخلی دشمنوں سے محفوظ رکھنا مثالی معاشرے کی اولین ذمہ داری ہے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔