Topics

شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ناگپوری

حالات زندگی

ولادت……بمقام(کامٹی) ناگ پور۷۲جنوری ۱۶۸۱ء

وفات……بمقام ناگ پور ۷۱اگست ۵۲۹۱ء

                آپ کا اسم گرامی تاج الدین تھا اور پیار سے چراغ دین کہلاتے تھے۔ آپ کا لقب شہنشاہ ہفت اقلیم ہے۔ تمام عالم کو اللہ تعالیٰ کے نظام تکوین میں سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم باعث تکوین کائنات ہیں اور حضرت بابا تاج الدین ان کے نائب ہیں۔ جس کے انتظام و اختیار میں ساتوں اقلیم ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو شہنشاہ ہفت اقلیم کہا جاتا ہے۔ حضرت بابا تاج الدین کا سلسلہ نسب امام حسن عسکری سے ملتا ہے اور ان کی اولاد میں ایک بزرگ مہدی عبداللہ عرب سے ہندوستان تشریف لائے اور جنوبی ہند کے ساحلی علاقے مدراس میں قیام کیا۔ ان کے دو صاحبزادے حسن مہدی جلال الدین اور حسن مہدی رکن الدین سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ حضرت بابا تاج الدین حسن مہدی جلال الدین کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام مریم بی صاحبہ تھا۔ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کی والدہ ماجدہ نے ایک خواب دیکھا جس میں دیکھا کہ چاند آسمان پر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے اور ساری فضا چاندنی سے معمور ہے۔ یکایک چاند آسمان سے گیند کی طرح لڑھک کر ان کی گود میں آ گرا۔ اور کائنات اس کی روشنی سے منور ہو گئی۔ آپ ۵ رجب المرجب ۷۷۲۱ھ مطابق ۷۲جنوری ۱۶۸۱ء کو ناگ پور میں پیدا ہوئے۔

                بچپن میں حضرت بابا صاحبؒ کو ابتدائی تعلیم کے لئے مکتب میں داخل کیا گیا تو ایک دن سید عبداللہ شاہ مجذوب مکتب میں تشریف لائے اور آپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

                ‘‘یہ لڑکا پڑھا پڑھایا ہے۔ اسے پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔’’

                پھر بھی بابا صاحبؒ نے اردو، انگریزی، عربی، فارسی کی معمولی تعلیم حاصل کی۔ انگریزی اس روانی سے بولتے تھے کہ مادری زبان کا گمان ہوتا تھا۔ لڑکپن میں ان کا زیادہ تر وقت مطالعہ میں صرف ہوتا تھا۔ ان کے مزاج میں شروع ہی سے استغراق اور دنیا سے لاتعلقی غالب تھی۔

                نوجوانی کے زمانے میں حضرت بابا تاج الدین فوج میں بھرتی ہو گئے۔ آپ کا تقرر ساگر ڈپو میں کیا گیا۔ رات نو بجے گنتی سے فارغ ہو کر حضرت بابا دا ؤد مکیؒ کے مزار پر تشریف لے جاتے اور وہاں صبح تک مراقبہ و مشاہدہ میں مصروف رہتے تھے۔ صبح سویرے پریڈ کے وقت ڈپو پہنچ جاتے اور اپنے فرائض انجام دیتے۔ یہ مشغلہ پورے دو برس تک جاری رہا۔     

                حضرت بابا تاج الدینؒ کے نواسے اور ان کے علم کے وارث حضرت سید محمد عظیم برخیا المعروف حضور بابا قلندر اولیاءؒ نے اپنی کتاب ‘‘تذکرہ تاج الدین باباؒ حصہ اول’’ میں اس ریاضت کے دور پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:

                ‘‘مسلسل دو برس تک تمام رات جاگنا اور تمام دن کام کرنا بھی ان کی کرامت ہے۔’’

                ایک صحابیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اپنی طویل شب بیداری کے تذکرے میں عرض کیا:

                ‘‘یا رسول اللہﷺ! میں آسمان پر فرشتوں کو چلتے پھرتے دیکھتا تھا۔’’

                حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم شب بیداری کو اور قائم رکھتے تو فرشتے تم سے مصافحہ کرتے۔

                اس روایت کی روشنی میں اگر بابا تاج الدینؒ کی مسلسل شب بیداری پر غور کیا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ غیبی مشاہدات ان کا معمول بن گئے تھے۔

روح پرور واقعات

                جس زمانے میں حضرت بابا تاج الدین ناگپور کے قریب کامٹی ملٹری کیمپ میں اسلحوں کے ذخیرے پر پہرہ دینے کے لئے متعین تھے۔ ایک رات دو بجے کے قریب ملٹری کا ایک انگریز کیپٹن اچانک معائنہ کے لئے آیا۔ بابا تاج الدینؒ پوری تندہی اور انہماک سے پہرہ دینے میں مصروف تھے۔ کیمپ کا جائزہ لینے کے بعد کیپٹن واپس ہوا۔ نصف فرلانگ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ ایک چھوٹی سی مسجد کے برابر سے گزرا۔ مسجد کا صحن سڑک سے صاف نظر آ رہا تھا اور چاندنی میں نہایا ہوا تھا۔ کیپٹن نے دیکھا کہ وہ جس سپاہی کو پہرے پر دیکھ کر آیا ہے نہایت خشوع و خضوع سے نماز میں مشغول ہے۔ سپاہی کو اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتنے پر اسے نہایت غصہ آیا اور وہیں سے واپس کیمپ کی جانب چل پڑا۔

                کیمپ پہنچا تو اس کے قدموں کی چاپ سن کر سپاہی پکارا ‘‘ہالٹ’’۔ وہ آگے بڑھا تو حیران رہ گیا۔ سپاہی (بابا تاج الدینؒ) اپنی جگہ پر موجود ہے وہ کچھ کہے بغیر واپس اسی مسجد تک پہنچا جہاں سپاہی کو دیکھ کر آیا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سپاہی اسی طرح محویت اور استغراق کے عالم میں عبادت میں مصروف تھا۔ اس نے مزید تصدیق کے لئے دوبارہ کیمپ کا رخ کیا اور حضرت بابا تاج الدینؒ کو پہرہ دیتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ سہ بارہ مسجد کے پاس پہنچا تو بابا تاج الدینؒ حسب سابق عبادت میں مشغول نظر آئے۔

                کپتان اس وقت کچھ نہیں بولا۔ لیکن دوسرے روز اپنے بڑے افسر کے سامنے بابا تاج الدینؒ کو طلب کیا اور رات کا واقعہ سنانے کے بعد کہا۔ ہم نے تم کو دو دو جگہ دیکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تم خدا کا کوئی خاص بندہ ہے۔ اتنا سننا تھا کہ حضور بابا صاحبؒ پر جلال طاری ہو گیا۔ اسی وقت واپس جا کر اپنی سرکاری وردی اور دوسرا سامان لا کر کیپٹن کے سامنے ڈال دیا اور اپنے مخصوص مدراسی لہجے میں فرمایا۔

                لو جی حضت! اب دو دو نوکریاں نہیں کرتے جی حضت۔

                یہ کہہ کر آپ وہاں سے رخصت ہو گئے اور جذب کے عالم میں ست پڑا کے پہاڑی جنگلات میں گم ہو گئے۔

                اس واقعہ کو کئی سال گزر گئے اور لوگوں کے ذہن سے حضور بابا صاحب کی یاد بھی دھندلی ہوتی چلی گئی۔ تین چار سال بعد حضور بابا صاحبؒ کبھی کامٹی اور کبھی ناگپور میں دکھائی دینے لگے۔ اس زمانے میں ان پر استغراق کا شدید غلبہ رہتا تھا اور لوگ ان کو مخبوط الحواس سمجھ کر چھیڑتے اور تنگ کرتے تھے۔ پھر بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو بابا صاحبؒ کی مجذوبانہ کیفیات میں ولایت کا رنگ دیکھ کر ان کا احترام کرتے تھے۔

                ایک دن حضور بابا تاج الدینؒ نے فرمایا۔ لوگ ہمیں بہت ستاتے ہیں۔ اب ہم پاگل جھونپڑی چلے جائیں گے۔ چنانچہ خود بخود ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ حضور بابا تاج الدینؒ کو ناگ پور کے پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا۔ انہوں نے اس پاگل خانے کو ولی خانے میں تبدیل کر دیا۔ اور جلد ہی پاگل خانے کے منتظمین اور ڈاکٹر سمجھ گئے کہ پاگل خانے میں وارد ہونے والی یہ ہستی مقبول بار گاہ الٰہی ہے۔ پاگل خانے کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ماروتی را ؤ آپ کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کے بستر کی صفائی اور خورد و نوش کا انتظام بذات خود کرتے تھے۔

                پاگل خانے کے قیام کے زمانے میں حضور بابا تاج الدینؒ پر جذب و استغراق کا غلبہ کم ہو گیا اور آپ اکثر شعوری حالت میں رہنے لگے۔ شعوری حالت میں بھی ان سے اس تواتر اور تسلسل سے کرامات کا ظہور ہوتا تھا کہ گویا وہ ان کے نزدیک خرق عادت نہیں بلکہ معمول ہے۔

                ایک دن شام کو مقررہ وقت پر بابا تاج الدینؒ کو ان کے کمرے میں پہنچا کر دروازہ مقفل کر دیا گیا۔ اور پاگل خانے کا صدر دروازہ بھی بند کر دیا گیا۔ اگلی صبح محافظ نے صدر دروازہ کھولا تو بابا تاج الدینؒ باہر سے اندر آنے کے منتظر کھڑے تھے۔ محافظ بابا صاحب کو باہر دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ فوراً منتظمین اور ڈاکٹر ماروتی کو اطلاع دی۔ وہ فوراً آئے اور بابا تاج الدینؒ کو ساتھ لے کر ان کے کمرے کے پاس پہنچے۔ کمرے کا دروازہ ہنوز مقفل تھا۔ وہ لوگ پہلے ہی سمجھ چکے تھے کہ حضور بابا تاج الدینؒ ایک عام آدمی نہ تھے۔ اس لئے انہوں نے اس وقت کچھ نہیں کہا لیکن ان کی عقیدت اور زیادہ بڑھ گئی۔ اس غیر معمولی واقعے کا چرچا پورے ناگ پور میں عام ہو گیا اور لوگ جوق در جوق زیارت کے لئے حاضر ہونے لگے۔

                اس کے بعد بابا صاحب اکثر صبح کو باہر تشریف لاتے اور اپنے کمرے کے پیچھے لان پر پڑی ہوئی کرسیوں اور بنچوں میں سے کسی ایک پر بیٹھ جاتے۔ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اپنے مسائل کا حل چاہتے۔ حضور بابا صاحب ان کے مسائل کا حل بتاتے۔

                اس زمانے میں شکردرا، داکی اور بہت سے علاقے مرہٹہ راجہ رگھو جی را ؤ کی ملکیت تھے۔ اس کا عالی شان محل اور اس سے متصل کئی میل لمبا باغ شکردرا میں تھا۔ راجہ رگھو جی را ؤ کے بیٹے ونایک را ؤ کی رانی حاملہ تھی۔ وضع حمل کا وقت قریب آیا لیکن پیدائش عمل میں نہیں آئی۔ موقع پر موجود سرجن اور لیڈی ڈاکٹروں کی ہر ممکن کوشش کے باوجود کامیابی نہیں ہوئی۔ رانی تکلیف سے بے ہوش ہو گئی اور شام تک اس کی حالت میں کوئی خوش گوار تبدیلی نہیں آئی۔ شام کو ڈاکٹروں نے متفقہ فیصلہ دے دیا کہ بچے کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اور اگر آپریشن کے ذریعے بچے کو نہیں نکالا گیا تو رانی کی موت واقع ہو جائے گی۔

                راجہ رگھو جی را ؤ ڈاکٹروں کے اس فیصلے سے تذبذب میں پڑ گئے اور رانی ڈاکٹروں کے سامنے عریاں ہو، راجہ کے ذہن نے اس بات کو قبول نہیں کیا۔ اگلی صبح چھ بجے راجہ رگھو جی پوجا سے فارغ ہوئے تھے کہ ان کا موٹر ڈرائیور حاضر خدمت ہوا اور کہا۔

                حضور! میں جو کچھ کہتا ہوں اس پر عمل کیجئے۔ آپ میرے ساتھ پاگل خانے چلئے۔ وہاں ایک بہت بڑے ولی اللہ تشریف فرما ہیں۔ سب لوگ ان سے فیض اٹھا رہے ہیں۔ آپ بھی چھوٹی رانی کے سلسلے میں ان کی خدمت میں عرض کیجئے۔

                راجہ رگھو جی را ؤ اسی وقت اٹھے اور ننگے پیر موٹر میں سوار ہو گئے۔ اور ڈرائیور ممکنہ تیز رفتاری سے گاڑی چلاتا ہوا پاگل خانے کے صدر دروازے پر جا رکا۔ پاگل خانے کے منتظمین اور سپرنٹنڈنٹ کو راجہ صاحب کی آمد کا علم ہوا تو وہ فوراً بھاگے ہوئے استقبال کو آئے۔ ڈرائیور نے راجہ صاحب کو وہیں موٹر کے پاس رکنے کو کہا اور خود لان میں حضرت بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا۔

                حضور! شکردرا اسٹیٹ کے راجہ رگھو جی را ؤ حاضر خدمت ہونے کی اجازت اور قدم بوسی کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

                بابا صاحب نے فرمایا۔ ہم فقیر جی حضت، ہمارے سے راجہ کا کیا کام جی حضت۔

                ڈرائیور نے بہت منت سماجت کی تو بابا صاحب خاموش ہو گئے۔ خاموشی کو اجازت سمجھ کر وہ دوڑا ہوا راجہ رگھو جی را ؤ کے پاس پہنچا اور کہا۔

                فوراً چلئے اور حضور بابا صاحب کے قدم پکڑ لیجئے۔

                راجہ جلدی سے اندر پہنچا اور حضور بابا صاحب کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔ بابا صاحب نے اس کو ایک نظر دیکھ کر فرمایا۔

                ادھر کیا کرتے جی حضت! ادھر جانا، لڑکا پیدا ہوا تو خوشیاں منانا۔

                ڈرائیور حضور بابا جی کا بہت معتقد تھا۔ اور اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ وہ بابا صاحب کے مخصوص لب و لہجہ سے بخوبی واقف تھا۔ اس نے راجہ سے کہا۔

                راجہ صاحب! بس کام ہو گیا۔ واپس چلئے۔

                اس کے ساتھ ہی اس نے گھڑی دیکھ کر وہ وقت نوٹ کر لیا جس وقت بابا صاحب نے متذکرہ بالا جملے ادا کئے تھے۔

                واپسی میں راجہ رگھو جی را ؤ کی موٹر محل کے صدر دروازے کے قریب پہنچی تو انہیں شہنائیوں اور نفیریوں کی آواز سنائی دی۔ آنے جانے والے ملازمین کے چہروں پر خوشی کے آثار نظر آ رہے تھے اور وہ سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ موٹر کے رکتے ہی سب لوگوں نے راجہ کی موٹر کو گھیر لیا اور کنور صاحب کی پیدائش کا صحیح وقت معلوم کرا دیجئے۔

                پنڈتوں اور ڈاکٹروں نے جو وقت بتایا وہ بالکل وہی تھا جس وقت حضور بابا صاحبؒ نے فرمایا تھا۔ ادھر کیا کرتے جی حضت، ادھر جانا لڑکا پیدا ہوا تو خوشیاں منانا۔

                حضور بابا تاج الدینؒ کی کرامت دیکھ کر راجہ رگھو جی را ؤ ان کا گرویدہ ہو گیا اور بابا صاحب کی محبت و عقیدت اس کے دل میں گھر کر گئی۔ چیف کمشنر ناگ پور کی وساطت سے ایک لاکھ روپے کی ضمانت دے کر بابا صاحب کو پاگل خانے سے شکردرا اپنے محل میں لے آیا۔ راجہ بابا صاحب کو ایک جلوس کی شکل میں اپنے محل میں لے گیا۔ جلوس میں ہر مذہب و ملت کے لوگ شریک تھے۔ راجہ رگھو جی بابا صاحب کو ساتھ لے کر ایک ہاتھی پر سوار تھا۔ اس کے آگے سجے سجائے گھوڑوں اور اونٹوں کی قطاریں تھیں اور جلوس کے آگے آگے شاہی بینڈ نغمہ سرائی کرتا ہوا چل رہا تھا۔ راستے کے دونوں طرف لوگوں کا ہجوم موجود تھا اور لوگ اپنی محبت اور شیفتگی کے مظاہرے میں پھول نچھاور کر رہے تھے۔

                راجہ رگھو جی را ؤ نے اپنے محل کا بیرونی بڑا حصہ حضور بابا صاحب کے قیام کے لئے مخصوص کر دیا اور اب فیض کا چشمہ پاگل خانے کی بجائے شکردرا کے محل سے جاری ہو گیا۔ دن رات حضور بابا صاحب کے اطراف سائلین اور عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا تھا۔ بابا صاحب اپنے مخصوص انداز میں ان سے مخاطب ہوتے اور سکروصحو کی ملی جلی کیفیت میں جواب دیتے۔ متعلقہ افراد جنہیں فوراً سمجھ جاتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ بابا صاحب کوئی ذکر فرماتے یا کسی کا نام لیتے اور اس کے متعلق کچھ کہتے اور کچھ دیر بعد وہ شخص حاضر ہوتا اور بالکل وہی باتیں جس کا انکشاف بابا صاحب پہلے ہی کر چکے تھے۔

                راجہ رگھو جی را ؤ روزانہ حضور بابا صاحب کے درشن کو آتا تھا۔ وہ بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کوئی درخواست پیش کرتا تو اس طرح جیسے دیوتا ؤں کے حضور پیش کی جاتی ہے۔ راجہ مخفی علوم سے مس رکھتا تھا اور اس کے اندر فیضان حاصل کرنے کی صلاحیت موجود تھی اور اس نے بابا صاحب سے فیضان حاصل کیا۔ ایک مرتبہ بابا صاحب نے راجہ کے مندر کا بت توڑ ڈالا۔ پجاریوں نے شور مچا دیا لیکن راجہ اس صورت حال سے بالکل متاثر نہیں ہوا۔ محل والوں کی شکایت پر راجہ نے مسکرا کر صرف اتنا کہا۔

                باباصاحب بھی دیوتا ہیں۔ یہ معاملہ دیوتا ؤں کا ہے۔ آپس میں خود نمٹ لیں گے۔ ہمارا تمہارا بولنا بے ادبی ہے۔

                شکردرا کے محل کے دروازے پر دائیں اور بائیں دو کمرے بنے ہوئے تھے۔ جن میں راجہ رگھو جی را ؤ نے دو شیر پالے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی حضور بابا صاحب ان کمروں کے جالی دار دروازوں کے پاس جا کھڑے ہوتے دونوں شیر کبھی ان کے قدموں پر لوٹتے اور پیر چاٹتے، کبھی اپنا منہ پالتو بلی کی طرح بابا صاحب کے قدموں پر رگڑتے۔

                ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اس سے ملتا جلتا واقعہ بیان کر کے اس کی بنیاد پر قوانین قدرت کے بہت سے راز بیان کئے ہیں۔ جو اس کائنات کے نظم اور اس کی بنیاد میں اساسی کردار ادا کر رہے ہیں۔

                ایک دن واکی شریف کے جنگل میں پہاڑی ٹبے پر چند لوگوں کے ہمراہ چڑھتے چلے گئے۔ بابا مسکرا کر کہنے لگے یہاں جس کو شیر کا ڈر ہو وہ چلا جائے۔ میں تو یہاں ذرا سی دیر آرام کروں گا۔ خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا۔ جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی۔ تم لوگ خواہ مخواہ انتظار میں مبتلا نہ رہو۔ جا ؤ کھا ؤ پیو اور مزا کرو۔ بعض لوگ ادھر ادھر چھپ گئے اور زیادہ چلے گئے۔

                میں نے حیات خاں سے کہا کہ کیا ارادہ ہے؟ پہلے تو حیات خاں سوچتا رہا۔ پھر زیر لب مسکرا کر خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر سوال کیا چلنا ہے یا تماشہ دیکھنا ہے؟

                بھلا بابا صاحب کو چھوڑ کر کہاں جا ؤں گا۔ حیات خاں بولا۔

                گرمی کا موسم تھا۔ درختوں کا سایہ اور ٹھنڈی ہوا خمار کے طوفان اٹھا رہی تھی۔تھوڑی دور ہٹ کر میں ایک گھنی جھاڑی کے نیچے لیٹ گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر حیات خاں اس طرح بیٹھ گیا کہ بابا تاج الدین کو دیکھتا رہے۔ اب وہ دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں بند تھیں۔ فضا میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔

                چند منٹ گزرے ہی تھے کہ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا۔ آدھ گھنٹہ، پھر اس کے بعد ایک گھنٹہ، اس کے بعد بھی کچھ وقفہ ایسے گزر گیا۔ جیسے شدید انتظار ہو۔ یہ انتظار کسی سادھو، کسی جوگی، کسی ولی، کسی انسان کا نہیں تھا بلکہ ایک درندے کا تھا جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بہ قدم حرکت کر رہا تھا یکایک بابا کی طرف نگاہیں متوجہ ہو گئیں۔ ان کے پیروں کی طرف ایک طویل القامت شیر ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا۔ بڑی آہستہ خرامی سے، بڑے ادب کے ساتھ۔ نیم وا آنکھوں سے بابا تاج الدین کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آ گیا۔

                بابا گہری نیند سو رہے تھے۔ شیر زبان سے تلوے چھو رہا تھا۔ چند منٹ بعد اس کی آنکھیں مستانہ واری سے بند ہو گئیں۔ سر زمین پر رکھ دیا۔

                بابا تاج الدین ابھی تک سو رہے تھے۔ شیر نے اب زیادہ جرأت کر کے تلوے چاٹنا شروع کر دیئے۔ اس حرکت سے بابا کی آنکھیں کھل گئیں، اٹھ کر بیٹھ گئے، شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

                کہنے لگے، تو آ گیا۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اچھا با جا ؤ۔ شیر نے بڑی ممنونیت سے دم ہلائی اور چلا گیا۔

                میں نے ان واقعات پر بہت غور کیا۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ شیر پہلے کبھی ان کے پاس آیا تھا۔ مجبوراً اس بات کا یقین کرنا پڑتا ہے کہ بابا اور شیر پہلے سے ذہنی طور پر روشناس تھے۔ روشناسی کا طریقہ ایک ہی ہو سکتا ہے۔ انا کی جو لہریں بابا اور شیر کے درمیان رد و بدل ہوتی تھیں وہ آپس میں اطلاعات کا باعث بنتی تھیں۔ عارفین میں کشف کی عام روش یہی ہوتی ہے لیکن اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جانوروں میں بھی کشف اسی طرح ہوتا ہے۔ کشف کے معاملے میں انسان اور دیگر مخلوق یکساں ہے۔

                انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے باتیں کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ آواز کی لہریں جن کے معنی متعین کر لئے جاتے ہیں، سننے والوں کو مطلع کرتی ہیں۔ یہ طریقہ اس ہی تبادلہ کی نقل ہے جو انا کی لہروں کے درمیان ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے۔ اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی پہلے طریقہ کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی انا کی لہریں کام کرتی ہیں۔ درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں، پتھروں، مٹی کے ذروں میں من و عن اسی طرح تبادلہ خیال ہوتا ہے۔

                حضرت بابا تاج الدین سے ہر مذہب و ملت اور ہر عقیدہ کے لوگوں نے فیض پایا۔ ان کے فیض کا دریا بنجر و خشک اور زرخیر زمین دونوں کو کسی امتیاز کے بغیر سیراب کرتا تھا۔ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق بابا کی نظر کرم سے مالا مال ہوتا تھا۔

روحانی توجیہہ

                حضرت بابا تاج الدین کے چند اشعار کی روحانی توجیہہ کچھ اس طرح سے ہے۔

مانس ہے سب آتما مانس ہے سب راکھ

بندی کی گنتی نہیں بندی میں سو لاکھ

                ترجمہ: آدمی سب کا سب روشنی (آتما) ہے اور سب کا سب مٹی (راکھ) بھی ہے۔ صفر اگرچہ شمار نہیں کیا جاتا لیکن عنصر سے گنتی کی قیمت لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔

                تشریح: بابا صاحب آدمی کو محض مٹی (گوشت پوست) سے مرکب تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی بظاہر مٹی معلوم ہوتا ہے لیکن مٹی کے ساتھ وہ روشنیوں کا مجموعہ بھی ہے۔ ایسا مجموعہ جو کائنات کی ترجمانی کرتا ہے۔ مایوس کن بات یہ ہے کہ انسان نے خود کو مظاہر (مٹی) کا پابند رکھا ہے۔ اگر انسان اپنی ذات (روشنی) سے واقف ہو جائے تو مظاہر (اسپیس) کی گرفٹ ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اپنی مرضی اور اختیار سے مظاہر میں تبدیلی کر سکتا ہے۔ یہی عرفان نفس ہے۔

اقوال و ارشادات

                حضرت بابا تاج الدین اولیاء صرف شاعرانہ ذوق کے حامل نہ تھے بلکہ خود شعر گو بھی تھے۔ چند اشعار ارشاد خدمت کہیں باقی کلام لا علمی اور عدم دستیابی کے اندھیروں میں گم ہو گیا ہے۔ آپ کا داس ملو کا تخلص تھا۔

اجگر کریں نہ چاکری پنچھی کریں نہ کام

داس ملو کا کہہ گئے سب کے داتا رام

مانس ہے سب آتما مانس ہے سب راکھ

بندی کی گنتی نہیں، بندی میں سو لاکھ

دام دور کی ریس میں رام کرت گن گائے

پر بھوکی سوگند سے دشٹ اسے مل جائے

تن پاپی، من کا ہرہ اجیارے سب کیس

مندر کا دیپک نہیں، رشیوں کا سا بھیس

سائے بن کی رات بن باسی بن جائیں

داس ملوکا ساتھ میں جاگیں اور لہرائیں

 

 


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔