Topics

حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءؒ

حالات زندگی

وفات……بمقام دہلی ۸۱ ربیع الثانی ۵۲۷ھ

ولادت……بمقام بدایوں ۷۲ صفر ۶۳۶ھ

                حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کو عموماً محبوب الٰہی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کا اسم مبارک محمد ہے اور سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ آپ کا خاندان بخارا سے ہجرت کر کے لاہور آیا پھر آپ کے دادا خواجہ علی اور نانا خواجہ عرب اپنے اہل و عیال سمیت بدایوں لے گئے اور وہیں سکونت اختیار کر لی۔ یہ دونوں بزرگ قریبی عزیز تھے۔ خواجہ عرب کی ایک صاحب زادی بی بی زلیخا تھیں جن کا نکاح احمد بن علی کے ساتھ ہوا۔

                وہ نہایت نیک اور متقی شخص تھے چنانچہ بادشاہ وقت نے انہیں بدایوں کا قاضی مقرر کیا۔ حضرت محبوب الٰہی بدایوں میں ۷۲ صفر ۶۳۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔

                پانچ برس کے ہوئے تو والد بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چنانچہ والدہ ماجدہ کے زیر تربیت پرورش پانے لگے۔ والدہ خود بڑی عابدہ اور نیک خاتون تھیں۔ انہوں نے اس دریتیم کو مدرسہ میں بٹھا دیا۔ مولانا علا ؤ الدین اصولی سے قدوری پڑی۔ انہوں نے دستار فضیلت باندھی اور اس موقع پر علما اور مشائخ کو مدعو کر کے فرمایا۔ اس بچہ کا سر کسی انسان کے سامنے خم نہ ہو گا۔ مولانا علا ؤالدین اصولی سے استفادہ کرنے کے علاوہ آپ نے قرآن پاک بھی ختم کر لیا اور قطب متداولہ پڑھنا شروع کیں پھر علم لغت میں مشق بہم پہنچائی اور مزید تعلیم کے لئے والدہ کے ہمراہ دلی چلے گئے۔ جب آپ دہلی پہنچے اس وقت آپ کی عمر سولہ سال تھی۔ دہلی اس زمانے میں علماء اور فضلا کا گہوارہ تھا۔ فضل و کمال کے لحاظ سے مولانا شمس الدین وامغانی بہت ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ اور وقت کا بادشاہ غیاث الدین بلبن بھی ان کا بے حد قدردان تھا۔ چنانچہ اس نے انہیں (شمس الملک) کا خطاب دے رکھا تھا۔ اور ‘‘مستنوی ممالک’’ کا عہدہ بھی انہیں حاصل تھا۔ یہ باکمال بزرگ درس و تدریس کے شعبہ میں بہت شہرت رکھتے تھے۔ خواجہ محبوب الٰہی نے دہلی پہنچ کر ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کئے۔ مولانا شمس الدین نے بھی گوہر نایاب کو ایک ہی نظر میں پہچان لیا۔ چنانچہ پوری توجہ سے تربیت کرنے لگے۔ اور اپنے دوسرے دو عزیز ترین شاگردوں کے ساتھ خواجہ صاحب کو بھی اپنے حجرے میں بلا کر درس دیا کرتے تھے۔ مولانا شمس الدین کی عادت تھی کہ جب کوئی شاگرد درس سے غیر حاضر ہو جاتا تو اس سے یوں سوال کرتے:

                ‘‘میں نے تمہارا کیا قصور کیا تھا کہ تم درس میں نہ آئے۔ مجھے میرا قصور بتا دو تا کہ میں پھر وہی قصور کروں اور تم درس میں نہ آ ؤ۔’’

                یہ فقرہ وہ مذاق کے طور پر ہر غیر حاضر ہونے والے شاگرد سے کہا کرتے تھے۔ غرض خواجہ محبوب الٰہی نے مولانا سے حریری کے چالیس مقامات پڑھے۔ دہلی میں ایک اور باکمال متقی اور متدین بزرگ مولانا کمال الدین تھے جو اپنے عہد کے جید علما میں شمار ہوتے تھے۔ خواجہ صاحب نے ان سے حدیث پڑھی اور اسی علم میں بڑا درجہ حاصل کیا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ نے علم حدیث مولانا احمد تبریزی سے بھی سیکھا۔ اور ان سے سند حاصل کی۔ اور اس علم میں اتنے ماہر ہو گئے کہ وقت کے تمام محدثین پر سبقت لے گئے تھے۔ مختلف مشاہیر سے علم ہیت علم فقہ اصول، علم تفسیر اور علم ہندسہ میں مشق بہم پہنچائی۔

                خواجہ محبوب الٰہی دہلی میں حلال طشت دار کی مسجد کے نیچے جس حجرہ میں قیام فرما تھے اس کے قریب ہی بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے چھوٹے بھائی شیخ نجیب الدین متوکل بھی رہا کرتے تھے۔ یہ بزرگ علوم ظاہری اور باطنی سے مزین تھے۔ خواجہ صاحب کی ان سے اکثر صحبتیں رہتی تھیں۔ چنانچہ ان مراسم کے نتیجہ میں خواجہ صاحب کے دل میں حضرت بابا صاحب کی عظمت گھر کرتی چلی گئی۔ اور آپ بابا صاحب سے ملنے کے لئے بے تاب رہنے لگے۔ خواجہ محبوب الٰہی کا اپنا ارشاد ہے کہ میں ابھی چھوٹا ہی تھا یعنی میری عمر تقریباً بارہ برس کی ہو گی کہ میں علوم لغت پڑھتا تھا۔ ان دنوں ابوبکر خراط (جو ابوبکر قوال بھی کہلواتے ہیں) ملتان سے تشریف لائے۔ اور میرے استاد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے شیخ بہا ؤ الدین زکریا کے اوصاف و کمالات بیان کئے۔ لیکن میرے دل پر ان کا زیادہ اثر نہ ہوا۔ پھر انہوں نے گنج شکرؒ کی بزرگی بیان کی جسے سنتے ہی میں بے اختیار ہو گیا اور آپ کی محبت میرے دل میں موجزن ہونے لگی۔ کیفیت یہ ہوئی کہ میں ہر نماز کے بعد حضرت گنج شکرؒ کے نام کی تسبیح کرتا تھا اور سونے سے پیشتر دس مرتبہ شیخ فرید اور دس مرتبہ مولانا فرید نام لیتا تھا۔ جب سولہ سال کی عمر ہوئی تو اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی کے ہمراہ دہلی آیا اور اتفاقاً حضرت گنج شکرؒ کے چھوٹے بھائی نجیب الدین متوکل کے پڑوس میں مکان لیا۔ پھر ان کی محبت کے باعث حضرت گنج شکرؒ کی پابوسی کا شوق روز بروز بڑھتا رہا۔ تاہم میں مزید چار سال تک شہرمیں رہا۔ بڑی کوشش سے تعلیم حاصل کی اور سند حدیث لی۔

                چنانچہ جب قدرے روشنی پھیلی تو توکل کر کے بابا شکر گنجؒ کو ملنے کے لئے اجودھن کے سفر پر روانہ ہوا۔ کسی قسم کا کوئی زاد راہ پاس نہ تھا۔ عین شباب کا زمانہ تھا یعنی سن مبارک بیس سال سے زیادہ نہ تھا۔ اجودھن پہنچے تو حضرت بابا صاحب نے انہیں دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا:

اے آتش فراقت و لہا کباب کردہ

سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ

                اس ملاقات کا حال ‘‘راحت القلوب’’ میں آپ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ:

                چہار شنبہ ‘‘بعض کتابوں مثلاً سید العارفین میں پنج شنبہ لکھا ہے’’ کے روز ماہ رجب کی دس تاریخ اور ۵۵۶ہجری تھا کہ دعاگوئے مسلمانان سلطان الطریقتہ فی الارض کا ایک ادنیٰ غلام نظام احمد بدایونی جو اس مجموعہ کا جمع کرنے والا ہے۔ سید العابدین حضرت شیخ فرید الدین گنج شکرؒ مسعود اجودھنی قدس سرہ العزیز کے شرف قدم بوسی سے سرفراز ہوا۔ آپ نے اسی وقت کلا چہار ترکی جو سرمبارک پر تھی دعا گو کے سر پر رکھ دی اور خرقہ خاص و نعلین چوبیں عطا کیں۔ پھر فرمایا کہ میری خواہش تھی نعمت سجادہ اور ولایت ہند کسی اور کو دوں مگر تم راستے مین تھے۔ اس وقت میرے سر پر ہاتف نے آواز دی کہ ٹھہر جا ؤ نظام بدایونی آ رہا ہے۔ ولایت اسے دے دو۔ دعا گو کو خواہش ہوئی کہ پابوسی کے اس اشتیاق کا اظہار اور حال عرض کرے۔ جو حد سے بڑھا ہوا ہے مگر آپ کا دبدبہ اتنا غالب تھا کہ کچھ بیان نہ کر سکا۔ یہ کیفیت دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ تم جتنا اشتیاق بیان کرتے ہو، اس سے زیادہ ہے۔ حضرت سلطان المشائخ اپنے پیر و مرشد حضرت بابا صاحب کے پاس پندرہ رجب ۵۵۶ ہجری میں پہنچے اور تین ربیع الاول ۶۵۶ہجری تک یعنی ساڑھے سات ماہ کے قریب ان کی خدمت میں رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے۔ بابا صاحب کی خانقاہ کے سارے درویش بڑی عسرت اور تنگی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اکثر فاقوں سے گزر ہوتی تھی۔ مولانا بدرالدین اسحاق و شیخ جمال الدین ہانسوی جیسی بزرگ اور مقدس ہستیاں بھی اس درگاہ میں تربیت حاصل کر رہی تھیں۔ اور وہ بھی عسرت اور تنگی سے دن گزارتے تھے۔ مولانا بدرالدین لنگر خانہ کے لئے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لایا کرتے تھے اور شیخ جمال الدین جنگل سے ویلہ لایا کرتے تھے۔ حسام الدین کابلی کے ذمہ پانی لانے کا کام تھا۔ برتنوں کی صفائی بھی اسی کے ذمے تھی۔ خواجہ نظام الدین ترکاری پکایا کرتے تھے۔

                حضرت بابا صاحب نے خواجہ نظام الدین کو جو پندہ نصائح اور ہدایات فرمائیں وہ پوری تفصیل کے ساتھ ‘‘راحت القلوب’’ میں درج ہیں۔ یہ بابا صاحب کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جسے خواجہ صاحب نے مرتب کیا تھا۔ ایک مرتبہ پیر و مرشد کی خدمت میں تنہا تھے اس کے متعلق فرماتے ہیں:

                دعاگو نشستہ مگس می راند گنج شکر بیدار رشد فرمودیاراں کجا اند گفتم قیلولہ کردہ اند فرمود بیاتا ترا چیز ہے بگویم۔ آغاز کرد چودر دہلی بروی ور مجاہدہ باشی بیکار بودن ہیچ نیست روزہ داشتن نیمے راہ راست و اعمال و گرچوں نماز و حج نیمے راہ۔’’

                فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ پیر و مرشد نے فرمایا۔ ‘‘من از حق تعالیٰ خواستہ ام ہرچہ توز حق بخواہی دیبابی۔

                فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بابا صاحب اپنے حجرہ میں یہ ارشاد کر رہے تھے:

خواہ ہم کہ ہمیشہ در وفائے توزیم

جا کے شوم و بزیر پاے توزیم

مقصود من بند زکونین توئی

از بہر تو میرم و از برائے تو زیم

                خواجہ نظام الدین فرماتے ہیں کہ بابا صاحب مذکوہ اشعار پڑھتے اور سر مبارک سجدہ میں لے جاتے۔ میں نے یہ دیکھ کر اپنا سر آپ کے قدموں میں رکھ دیا۔ آپ نے مہربانی فرمائی اور پوچھا۔ ‘‘جو مانگتے ہو مانگو۔’’ میں نے استقامت طلب کی جو آپ نے عنایت فرمائی۔ رخصت کرنے سے قبل بابا صاحب نے اپنا لعاب خواجہ صاحب کے منہ میں لگایا اور حفظ کی وصیت فرمائی۔ فرمایا نظام اللہ نے دنیا اور دین دونوں دیئے ہیں۔ یہاں سب موجود ہیں۔ لہٰذا تم ہندوستان کا ملک لو پھر خلافت عطا کر کے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے علم، عقل اور عشق بخشا ہے اور جس میں یہ تین صفتیں ہوں۔ خلافت کے لائق بھی وہ ہی ہے۔ پھر یہ وصیت بھی فرمائی کہ اگر کسی سے قرض لینا ہی پڑے تو اسے جلد لوٹانا اور اپنے دشمنوں کو ہر حال میں خوش رکھنے کی کوشش کرنا۔ انہیں دکھ نہ دینا اور نہ ہی انہیں ناراضگی کا موقع دینا چاہئے۔

                خلافت کا شرف تیرہ رمضان المبارک ۹۶۶ ہجری یا دو ربیع الاول ۶۵۶ہجری کو حاصل ہو۔ خواجہ نظام الدین فرماتے ہیں کہ تیسری مرتبہ میں رمضان ۹۶۶ہجری یا ۸۶۶ہجری میں باباصاحب سے ملنے اجودھن گیا۔ یہ آخری ملاقات تھی تو واپسی کے وقت بابا صاحب نے دعا دیتے ہوئے فرمایا۔ اللہ تجھے نیک بخت کرے۔

                پھر فرمایا۔ تم ایسے درخت ہو گے جس کے سایہ میں مخلوق آرام پائے گی پھر نصیحت فرمائی کہ حصول استعداد کے لئے برابر مجاہدہ کرتے رہنا۔ بابا صاحب کے وصال کے وقت خواجہ نظام الدین اجودھن میں بابا صاحب کے پاس موجود نہ تھے۔ چنانچہ بابا صاحب نے اپنا عصا اور خرقہ جو خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ سے ملا تھا مولانا بدرالدین اسحاق کے ذریعہ جو وہاں موجود تھے، خواجہ صاحب کے پاس دہلی بھجوا دیئے۔ خواجہ نظام الدین مرشد سے رخصت ہو کر جب پہلی مرتبہ دہلی واپس تشریف لائے تو مرشد کی ہدایت کے مطابق مجاہدہ و ریاضت اور زہد عبادت میں منہمک ہو گئے۔ مرشد کی یہ بھی ہدایت تھی کہ مجاہدے کے ساتھ ساتھ تحصیل علم بھی جاری رہے چنانچہ آپ ان دنوں قرآن کریم بھی حفظ کر رہے تھے چونکہ آپ کا قیام شہر کی آبادی میں تھا اس لئے لوگ اس کثرت سے آنے لگے کہ آپ کے کاموں میں حرج ہونے لگا اور عبادت یا تحصیل علم کے لئے وقت نہ نکلتا تھا۔ چنانچہ آپ شہر کے ہنگامہ خیز ماحول سے دور کسی پر سکون مقام پر جانے کا ارادہ رکھتے تھے تا کہ وہاں رہ کر اطمینان سے یاد الٰہی کر سکیں۔ قرآن کریم حفظ کرنے کے لئے آپ جنگل میں چلے جایا کرتے تھے۔ اس اثناء میں آپ کی ملاقات ایک درویش سے ہوئی۔ دوران گفتگو درویش نے کہا کہ دہلی کا شہر فسق و فجور کا مرکز بنا ہوا ہے وہاں رہنے سے تو اپنا ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ درویش کی ان باتوں سے خواجہ صاحب نے نتیجہ نکالا کہ کسی قیمت پر بھی شہر میں رہنا مناسب نہیں چنانچہ آپ شہر سے اٹھ کر قریب ہی ایک موضع غیاث پور میں چلے آئے جو دریائے جمنا کے کنارے واقع تھا۔ یہاں چند جھونپڑیاں ڈال کر اپنے درویشوں کے ہمراہ رہنے لگے پھر یہیں ساری عمر بسر کر دی۔

روح پرور واقعات

                ایک بار حضرت بابا صاحب نے فرمایا نمک خریدیں تا کہ ترکاری میں ڈال لیں۔ قریب ہی ایک بقال رہتا تھا۔ نمک اس سے خریدا جاتا تھا۔ ایک دن خریدنے کے لئے پیسے نہ تھے۔ خواجہ نظام الدین نے ایک درہم کا نمک اسی بقال سے ادھار لے لیا اور ترکاری تیار کر کے پیر و مرشد اور تمام دوسرے درویشوں کے سامنے حاضر کر دی۔ مولانا بدرالدین اسحاق، شیخ جمال الدین ہانسوی اور خواجہ نظام الدین تینوں ایک ہی پیالہ میں کھایا کرتے تھے۔ جب بابا صاحب نے لقمہ اٹھانے کے لئے پیالہ میں ہاتھ ڈالا تو ہاتھ میں گرانی محسوس ہوئی اور لقمہ نہ اٹھا سکے۔ فرمایا ‘‘ازیں بوئے اسراف می آید’’ اس میں سے اسراف کی بو آتی ہے۔ پھر دریافت فرمایا کہ نمک کہاں سے لیا۔ خواجہ نظام الدین پر بابا صاحب کے اس سوال نے ہیبت اور لرزہ طاری کر دیا۔ بڑی مشکل سے جواب دیا کہ قرض لیا تھا۔ بابا صاحب نے فرمایا۔ درویش فاقے سے مر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے نفس کی خواہش پورا کرنے کے لئے کسی سے قرض لے۔ توکل اور قرض میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یاد رکھو اگر مقروض درویش کو اچانک موت آ جائے اور اس پر قرض ابھی باقی ہو تو قیامت کے دن قرض کے بوجھ سے اس کی گردن جھکی رہے گی۔ اس ارشاد کے بعد بابا صاحب نے حکم دیا کہ تمام سالن غریبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت خواجہ نظام الدین فرماتے ہیں کہ میں نے اسی وقت سے دل میں عہد کیا کہ آئندہ کبھی کسی سے قرض نہ لوں گا اور اپنے سابقہ فعل پر ندامت اور توبہ کا اظہار کیا۔ بابا صاحب کو خواجہ صاحب کی اس توبہ کا کشف ہوا تو اپنی کملی جس پر وہ تشریف فرما تھے۔ خواجہ صاحب کو دے دی اور فرمایا۔ انشاء اللہ آئندہ تمہیں قرض کی کبھی ضرورت نہ پڑے گی۔

                حضرت بابا محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء کی زیارت کے خیال سے ایک عقیدت مند چل پڑا۔ جب بوندی میں آیا تو وہاں ایک شیخ مومن بزرگ تھے ان کی زیارت کو گیا۔ شیخ مومن نے پوچھا کہاں جائے گا؟ اس شخص نے عرض کیا کہ حضرت نظام الدین اولیاء کی زیارت کو جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا شیخ نظام الدین کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ شب جمعہ میں آپ سے کعبہ میں ملتا ہے۔ وہ مجھ کو پہچان لیں گے۔ یہ شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان درویش کا پیغام دیا۔ آپ نے آزردہ ہو کر فرمایا کہ وہ درویش عزیز ہے مگر زبان نہیں رکھتا، اپنے آپ کو چھپائے رکھتا ہے۔

                نقل ہے کہ سلطان علا ؤ دین بڑا مدبر، فاضل اور پابند شریعت تھا۔ اس نے بائیس سال عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی۔ ایک بار امتحان کے ارادے سے چند باتیں امور سلطنت کے متعلق تحریر کر کے فاضل محبوب الٰہی کو لکھا کہ آپ تمام عالم کے مخدوم ہیں۔ دین و دنیا کی حاجتیں آپ کی ذات بابرکات سے آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مملکت دنیا میرے ہاتھ میں دی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ سلطنت کے متعلق آپ سے چند مشورے لوں۔ آپ مجھے مشورے سے نوازیں اور ہر حکم کے نیچے حدیث نبویﷺ تحریر فرما کر میرے پاس روانہ کر دیں۔ یہ تحریر سلطان نے اپنے چھوٹے بیٹے خضر خان کو دی حضرت کی خدمت میں لے جا کر اس کا جواب لا ؤ۔ خضر خان اپنے باپ کا حکم بجا لاتے ہوئے سلطان کا خط لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت نے مطالعہ فرما کر حاضرین مجلس سے فرمایا کہ فاتحہ پڑھو۔ اس کے بعد فرمایا فقیروں کو بادشاہوں کے کاروبار سے کیا دلچسپی۔ میں درویش ہوں، شہر کے کونے میں پڑا ہوں۔ بادشاہ اور مسلمانوں کے لئے دعائے خیر میں مشغول ہوں۔ اگر بادشاہ نے کاروبار سلطنت کے سلسلے میں ہم سے دوبارہ رجوع کیا تو ہم یہاں نہیں رہیں گے۔

                جب یہ جواب لے کر خضر خان سلطان کے پاس پہنچا تو سلطان بہت خوش ہوا اور متعقد ہوکر دوبارہ اطلاع بجھوائی کہ میں حضرت کی زیارت کو حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا۔ سلطان کو آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دعائے غیب میں مشغول ہیں۔ غیب کی دعا میں زیادہ اثر ہوتا ہے۔ میرے مکان کے دو دروازے ہیں اگر سلطان ایک دروازے سے داخل ہوا تو میں دوسرے دروازے سے چلا جا ؤں گا۔

                حضرت نظام الدین اولیاء کے فضائل و برکات کا جب عام شہرہ ہوا تو اہل مکہ نے ایک دن کہا کہ افسوس مولانا نظام الدین نے اب تک حج ادا نہیں کیا۔ اس موقع پر وہ بزرگ بھی تشریف فرما تھے جو چالیس برس سے خانہ کعبہ کے مجاور تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں یہ بات غلط ہے۔ مولانا نظام الدین ہمیشہ صبح کی نماز اول وقت خانہ کعبہ میں ہی ادا کرتے ہیں۔ اس بات کا شہرہ پورے مکہ معظمہ میں ہوا۔ جسے دہلی کے حاجیوں نے بھی سنا لیکن حضرت کی عظمت و جلال کی وجہ سے آپ سے کوئی اس بات کو دریافت کرنے کی جرأت نہ رکھتا تھا۔

                ایک مرتبہ جب حضرت اپنے حجرہ میں تھے۔ آپ کا ایک مرید وضو کے لئے پانی لئے ہوئے حجرہ کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا۔ جب کافی دیر ہو گئی تو وہ سمجھا کہ حضرت اوپر چھت پر تشریف فرما ہوں گے۔ یہ سمجھ کر وہ حجرے کے اندر گیا۔ لیکن وہاں بھی حضرت موجود نہ تھے۔ پھر وہ چھت کے اوپر گیا، وہاں بھی نہ پایا۔ ناچار حجرے کا دروازہ بند کر کے بدستور کھڑا ہو گیا۔ کہ اسی وقت حضرت نے وضو کے لئے پانی طلب فرمایا۔ اسی اثناء میں اور مرید بھی آ گئے تھے۔ نماز ادا کرنے کے بعد اس مرید نے عرض کیا کہ یا حضرت میں چھت پر گیا تھا۔ مگر آپ وہاں موجود نہ تھے لیکن جب میں باہر آیا تو آپ نے پانی طلب فرمایا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نماز کی ادائیگی کے لئے کعبہ شریف گئے ہوں گے۔ اور جو کچھ اس مرید نے حاجیوں سے سنا تھا عرض کر دیا۔ اس پر حضرت نے چشم پر آب ہو کر فرمایا میں اس قابل کب ہوں۔ مگر یہ رحمت پروردگار ہے کہ ایک سانڈ غیب سے پیدا ہو کر مجھے حجرے کی چھت سے اپنے اوپر سوار کر کے کعبہ میں لے جاتی ہے۔ اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد واپس پہنچا دیتی ہے۔

                حضرت امیر خسرو کو آپ سے بڑی محبت تھی۔ جب آپ پیدا ہوئے تو حضرت کے والد حضرت کو ایک مجذوب کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت کو دیکھتے ہی مجذوب نے فرمایا کہ یہ لڑکا طوطی ہند اور ملک الشعراء یگانہ روزگار ہو گا۔ جب حضرت خسرو نو برس کے ہوئے تو سلطان المشائخ سے بیعت کی۔ ایک روز ایک فقیر سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دست سوال دراز کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ آج جو کچھ آئے گا تجھ کو دوں گا۔ اس روز کچھ نہ آیا۔ پھر فرمایا کہ کل جو کچھ آئے گا تجھ کو دوں گا۔ کل بھی کچھ نہ آیا۔ حضرت نے اپنے جوتے اس درویش کو دیئے اور رخصت کیا۔ فقیر جوتے لے کر چلا، اتفاقاً حضرت خسرو راستے میں فقیر سے ملے۔ حضرت خسرو نے پوچھا۔ کہاں سے آ رہے ہو۔ اس نے کہا دہلی سے۔ حضرت نے پوچھا سلطان المشائخ کا کیا حال ہے۔ درویش نے کہا۔ خیریت سے ہیں۔ حضرت نے کہا تیرے پاس سے بوئے شیخ آتی ہے۔ شاید کوئی چیز ان کی تیرے پاس ہے۔ درویش نے کہا کہ کفش خواجہ میرے پاس ہیں۔ سلطان المشائخ نے مجھے عطا کئے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کو تم فروخت کرنا چاہتے ہو۔ فقیر نے کہا۔ ہاں۔ حضرت نے پانچ لاکھ روپیہ اس درویش کو دے کر کفش خواجہ اس سے حاصل کر لئے اور ان کو سر پر رکھے ہوئے سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سلطان المشائخ نے فرمایا کہ خبردار! یہ کفش تو نے سستی خریدی ہیں۔ آپ نے عرض کیا کہ یا حضرت اس درویش نے اسی پر اکتفا کیا۔ اگر وہ تمام جان و مال اس کفش کے بدلے طلب کرتا تو میں سب کچھ دے کر لے لیتا۔

                ایک بار ایک مرید اپنے شیخ سے یہی سوال کیا کرتا تھا کہ پیر کا حق مرید پر کیا ہے اور مرید کا حق پیر پر کیا ہے۔ شیخ کچھ جواب نہ دیتے تھے۔ چند روز بعد وہ مرید راسخ العقیدہ حاضر ہوا تو شیخ نے حکم دیا۔ تم فوراً چلے جا ؤ۔ وہ مرید فوراً کسی طرف کو چل دیا۔ ساتویں روز ایک شہر کے قریب پہنچا۔ اس شہر کا حاکم بھی اسی بزرگ کا مرید تھا۔ اس پر اس مرید مسافر کا حال منکشف ہوا۔ اس نے اس کو بلا کر دریافت حال کیا۔ اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔ حاکم نے کہا تم کو میرے ہی پاس بھیجا گیا ہے۔ چند روز میرے پاس ٹھہرو۔ چند روز کے بعد اس شہر کے حاکم نے ایک ہزار روپیہ دے کر اسے رخصت کیا۔ اثنائے راہ میں وہ شخص ایک شہر میں پہنچا تو وہاں ایک بازاری عورت پر جو حسن و جمال میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھی۔ دل و جاں سے فریفتہ و شیدا ہو گیا۔ ایک ہزار روپے پر ملاقات طے ہوئی۔ جب خلوت میں جا کر ارادہ فاسد کیا تو غیب سے زور دار طمانچہ منہ پر لگا۔ تین بار یہی معاملہ گزرا۔ عورت نے پوچھا۔ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو اور یہ معاملہ کیا ہے؟ اس شخص نے ساری سرگزشت بیان کی۔ وہ بولی معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا شیخ مرد کامل ہے۔ اس خیال باطل کو چھوڑ دو۔ آ ؤ ہم تم دونوں ان کی خدمت میں چلیں۔ یہ لو اپنا روپیہ کمر سے باندھو۔ دونوں اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عورت نے افعال بد سے توبہ کی۔ شیخ نے اس عورت کا نکاح اسی مرید سے کر دیا اور وہ ہزار روپیہ بھی ان کو عطا فرما دیا۔ چند روز بعد اس مرید نے پھر اپنے مرشد سے وہی پرانا سوال کیا۔ شیخ نے جواب دیا کہ پیر کا حق وہ تھا جو تو نے بے چوں و چرا ادا کیا اور مرید کا حق وہ تھا جو فلاں شہر میں تجھ پر اس عورت کے ساتھ گزرا تھا۔

روحانی توجیہہ

                حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء نے فرمایا:

                دعا کے وقت مصیبت کا خیال نہیں کرنا چاہئے۔

                اس قول کی روحانی توجیہہ میرے مرشد کریم نے اس طرح فرمائی ہے۔ دعا ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدل دوسری عبادت نہیں ہے۔ دعا ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان فی الواقع اپنی نفی کر دیتا ہے اور اپنے پروردگار کے سامنے وہ کچھ بیان کر دیتا ہے جو کسی قریب ترین عزیز سے نہیں کہہ سکتا۔ بے شک حاجت روائی اور کارسازی کے سارے اختیارات اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں۔ کائنات میں جاری و ساری نظام پر غور کیا جائے تو اللہ کے سوا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں اور یہ جو اختیار کی بات کی جاتی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کا ہی اختیار کام کر رہا ہے۔ اس نے بندہ کو اختیار استعمال کرنے کی توفیق دی ہوئی ہے۔ سب اپنے خالق کے محتاج ہیں۔ کوئی نہیں جو بندوں کی پکار سنے اور ان کی دعائیں قبول کرے۔

                قرآن مجید میں ارشاد ہے:

                اے لوگو، تم سب اللہ کے محتاج ہو۔ اللہ ہی ہے جو غنی اور بے نیاز اور اعلیٰ صفات والا ہے۔

                سورہ اعراف میں ارشاد ہے:

                اور ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک اس کی طرف رکھو اور اسی کا پکارو اور اس کے لئے اپنی عبادت کو خاص کر لو۔

                اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

                میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کر لیا ہے تو تم بھی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کو حرام سمجھو۔

                ‘‘میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں، پس تم مجھ ہی سے ہدایت طلب کرو کہ میں تمہیں ہدایت دوں۔’’

                ‘‘میرے بندو! تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس شخص کے جس کو میں کھلا ؤں، پس تم مجھ ہی سے روزی مانگو تو میں تمہیں روزی دوں۔’’

                ‘‘میرے بندو! تم میں سے ہر ایک ننگا ہے سوائے اس کے جس کو میں پہنا ؤں، پس تم مجھ سے لباس مانگو، میں تمہیں پہنا ؤں گا۔’’

                ‘‘میرے بندو! تم رات میں بھی گناہ کرتے ہو اور دن میں بھی اور میں سارے گناہ معاف کر دوں گا۔’’

                خدا سے وہی کچھ مانگئے جو حلال اور طیب ہے۔ دعا میں خشوع و خضوع ضروری ہے۔ خشوع و خضوع سے مراد یہ ہے کہ بندے کے دل میں خدا کی عظمت موجود ہو اور سر اور نگاہیں جھکی ہوئی ہوں، آنکھیں نم ہوں انداز و اطوار سے مسکینی اور بے کسی ظاہر ہو رہی ہو۔ دعا چپکے چپکے اور دھیمے انداز میں مانگئے۔

اقوال و ارشادات

۱۔            عاقل وہ ہے جو پیش آنے والے سفر کا توشہ تیار کرے۔

۲۔           پیر کو مرید سے کوئی طمع نہ رکھنی چاہئے۔

۳۔           سماع میں وجد لانے والے کے متعلق ارشاد تھا کہ جو کوئلہ انگیٹھی میں چٹختا ہے نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔

۴۔           دعا کے وقت مصیبت کا خیال نہیں کرنا چاہئے۔

۵۔           سلامتی ایمان کی علامت وقت وفات چہرے کا زرد ہونا ہے۔

۶۔           سورۃ فاتحہ بسم اللہ کی میم ملا کر پڑھنی حل المشکلات ہے۔

۷۔           یا اللہ یا رحمٰن یا رحیم پڑھنا رنج و بلا سے نجات دیتا ہے۔


 

حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانیؒ

حالات زندگی

ولادت……بمقام سرہند شریف ھ۱۷۹ء

وفات……بمقام سرہند شریف ھ۵۳۰۱ء

                ابوالبرکات امام ربانی شیخ احمد مجدد الف ثانیؒ نقشبندیہ سلسلہ کے مشہور صوفی بزرگ اور عالم ہیں۔ اور اس طریقہ میں بھی تجدید کر کے مجددیہ سلسلہ جاری کیا چونکہ اس زمانے میں اسلام کی آبرو مٹ رہی تھی اور حضرت شیخ سرہندی نے تجدید اسلام کی اس لئے آپ کو مجدد الف ثانی کہا جاتا ہے۔

                ہندوستان میں جہاں آج کل سرہند کا شہر آباد ہے۔ یہ کسی زمانہ میں جنگل تھا اور یہاں شیر رہتے تھے۔ جب شہر آباد ہوا تو اس مقام کا نام ‘‘شیر ہند’’ رکھا گیا جو بعد ازاں ‘‘سرہند’’ ہو گیا۔

                شیر ہند کی بنیاد فیروز شاہ تغلق نے رکھی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب فیروز شاہ تغلق پنجاب کا خزانہ لے کر دہلی جا رہا تھا تو اس مقام پر پہنچا۔ لشکر میں ایک ولی اللہ بھی تھے۔ انہیں کشف سے معلوم ہوا کہ یہاں ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہزار سال بعد ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جو اپنے کمالات کے باعث وحید الامت ہو گا۔ چنانچہ فیروز شاہ تغلق نے اس کی بنیاد اسی وجہ سے رکھی۔ اس کی بنیاد حضرت امام رفیع الدینؒ جو حضرت امام ربانیؒ کے اسلاف سے نہایت باورع اور ولی اللہ ہیں اور حضرت بو علی قلندرؒ کے ہاتھوں سے رکھی گئی۔

                آپ کے والد ماجد مخدوم شیخ عبدالواحد حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ کے مرید اور بڑے صاحب نسبت اور اہل علم بزرگ تھے۔ حضرت مجدد اپنے تین بھائیوں سے چھوٹے اور تین بھائیوں سے بڑے تھے۔ آپ کا نسب مبارک اٹھائیس واسطوں سے حضرت امیر المومنین فاروق اعظم سیدنا عمر بن الخطابؒ تک پہنچتا ہے اور طریقہ نقشبندیہ میں آپ کی ارادت حضرت خواجہ باقی باللہ دہلوی سے تھی۔ طریقہ عالیہ قادریہ میں شاہ سکندر کتھیلی سے وابستہ تھے۔ طریقہ عالیہ چشتیہ و سہروردیہ میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی قدس سرہ العزیز سے ارادت تھی۔

                حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی سیدنا شیخ احمد سرہندی نے اکثر کتابیں اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں اور کچھ سرہند شریف کے دوسرے علما سے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے قرآن مجید حفظ کر لیا اور سترہ برس کی عمر میں تمام علوم سے فارغ ہو گئے اور پھر کچھ عرصہ درس و تدریس دینے کے بعد آپ آگرہ تشریف لے گئے اور ابوالفضل اور فیضی سے ملاقات کی۔ ان دونوں نے آپ کے تبحر علمی اور بے پایاں قابلیت کا اعتراف کیا۔

                شروع میں آپ سلسلہ چشتیہ میں بیعت ہوئے اور ان سے تعلیم باطنی حاصل کی۔ خلافت حضرت شاہ سکندر کتھیلیؒ سے حاصل ہوئی۔ حضرت شاہ سکندر ہندوستان میں سلسلہ قادریہ کے بہت بڑے مشائخ میں سے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر بزرگوں سے بھی آپ نے باطنی تعلیم حاصل کی اور ترقی فرماتے رہے۔ غرض صرف سترہ سال کی عمر میں آپ ظاہری و باطنی کمالات میں جامع بن چکے تھے۔

                قد مبارک متوسط، چہرہ انور باوجاہت، رنگت گندمی مائل سفیدی۔ پیشانی کشادہ، داڑھی گھنی اور آنکھیں بڑی بڑی۔ صورت اقدس انوار ولایت سے تاباں۔ خوبصورتی اور ملاحت کے ساتھ آثار رعب و ہیبت نمایاں جو کوئی آپ کی زیارت کرتا بے اختیار کہتا سبحان اللہ احسن الخالقین۔

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں ایک شخص پیدا ہو گا جس کو صلہ کہیں گے یعنی دو چیزوں کو ملانے والا۔ یہ حدیث شریف حضرت امام ربانی پر پوری صادق آتی ہے اور آپ ہی کے طفیل ظاہر و باطن جس کو زمانے نے الگ الگ سمجھ رکھا تھا۔ ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔

                سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے ایک جنگل میں ایک مراقبہ کے دوران ساعت بہ ساعت بڑھنے والے نور کا مشاہدہ فرمایا۔ القا ہوا کہ اس نور کا صاحب وہ عزیز امت ہے جو پانچ سو سال بعد ہمارے پیغمبر کی تجدید کرے گا اور اس کے فرزند خلفا بارگاہ احدیت کے صدر نشینوں میں سے ہوں گے۔ حضرت غوث پاک قدس سرہ نے اس مشاہدہ کے بعد اپنا ایک خرچہ اپنے خلیفہ اکبر کے سپرد کیا اور کہا کہ یہ خرقہ امانت ہے اس شخص کی جس کے متعلق یہ القا ہوا۔ چنانچہ وہ خرقہ حضرت امام ربانی کو حضرت شاہ کمال کتھیلی کی وساطت سے پہنچا۔ ان کے علاوہ اور بھی بزرگان دین سے اس قسم کی بہت سی پیش گوئیاں حضرت امام ربانی کے متعلق منقول ہیں۔

                والد صاحب کے انتقال کے بعد حضرت امام ربانی حج کے ارادے سے دہلی تشریف لائے۔ وہاں حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمتہ کے کمالات کی شہرت سن کر حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمتہ ہندوستان میں سلسلہ نقشبندیہ کے بانی ہیں۔ حضرت خواجہ صاحب بڑی شفقت سے پیش آئے اور رہنے کی فرمائش کی چنانچہ حضرت امام ربانی حضرت خواجہ صاحب کی فرمائش پر ٹھہر گئے اور خواجہ صاحب سے بیعت ہو گئے۔ حضرت خواجہ صاحب نے اپنے ایک مرید کو حضرت امام ربانی کی آمد پر تحریر فرمایا۔

                ‘‘شیخ احمد نامی ایک عالم باعمل سرہند سے آئے ہیں۔ چند دن اس فقیر کے ساتھ اٹھے بیٹھے، عجیب و غریب کمالات ان کے دیکھنے میں آئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک چراغ ہوں گے جس سے سارا عالم روشن ہو جائے گا۔’’

روح پرور واقعات

                حضرت امام ربانی نے اڑھائی ماہ دہلی میں قیام فرمایا۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمتہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو آپ کو خلعت خلافت عطا کی گئی اور خاص خاص اصحاب کو تعلیم کے لئے حضرت خواجہ صاحب نے حضرت امام ربانی کے سپرد کر دیا۔ تیسری مرتبہ حضرت نے چند قدم چل کر حضرت امام ربانی کا استقبال فرمایا اور بڑی بڑی بشارتیں سنائیں۔ اور بہت کچھ اعزاز و اکرام کیا۔ چوتھی مرتبہ جب حضرت امام ربانی اپنے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ سے رخصت ہونے لگے تو حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے ہندوستان آنے سے قبل استخارہ کیا۔ جس میں مجھے معلوم ہوا کہ ایک شیریں نغمہ خوبصورت طوطا میرے ہاتھ پر آ کر بیٹھ گیا ہے۔ میں اپنے لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال رہا ہوں اور وہ اپنی چونچ سے میرے منہ میں شکر ڈال رہا ہے۔ میں نے یہ استخارہ اپنے مرشد حضرت شیخ خواجہ مکنگی رحمتہ اللہ علیہ سے بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہندوستان میں تمہاری تربیت سے کوئی ایسا شخص اٹھے گا جس سے ایک عالم منور ہو گا اور تم کو بھی اس سے حصہ ملے گا۔ خواجہ صاحب نے اس کا مصداق حضرت امام ربانی کو فرمایا۔

                حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمتہ فرمایا کرتے تھے کہ شیخ احمد (حضرت امام ربانی) ایک آفتاب ہیں کہ ہم جیسے ہزاروں ستارے اس کی روشنی میں گم ہو جائیں۔ آسمان کے نیچے ان کی نظیر نہیں ہے اور ان جیسے اس امت میں چند ہی آدمی گزرے ہیں۔

                ایک بار حضرت خواجہ نے حضرت امام ربانی سے فرمایا کہ ہم نے یہاں (سرہند میں) ایک بہت بڑا چراغ روشن کیا۔ اس کی روشنی آناً فاناً بڑھنے لگی پھر ہمارے جلائے ہوئے چراغ سے بیسیوں چراغ جل گئے اس سے مراد تم ہو۔

                ادھر مغل بادشاہ اکبر تخت سلطنت پر تھا۔ بے دینی اور شرک کا دور دورہ تھا۔ چنانچہ کفار نے بے خوف و خطر کئی مساجد کو شہید کر کے وہاں مندر بنا لئے۔ اکاوشی کے دن (جو کہ ہندو ؤں کے برت کا دن ہے) کے لئے بادشاہ نے یہ اہتمام کیا تھا کہ اس دن شہروں میں کوئی مسلمان دن کو روٹی نہ پکائے۔ برعکس اس کے رمضان شریف میں کھلے بندوں کھانا پکایا جاتا اور فروخت کیا جاتا اور اہل اسلام کی پستی کے سبب کوئی مزاحم نہ ہو سکتا تھا۔ علماء اور فقراء کے ہاتھ میں عوام کی اصلاح ہوتی ہے۔ علماء تو آپس کے حسد کا شکار ہو گئے تھے اور جو فتنہ سے بچے تھے ان کے پاس اقتدار نہ تھا۔ اور جن نام نہاد فقرا کو خطابات اور نوازشات سے نوازا جاتا تھا ان میں سلوک کے عروج و نزول کی خبر تک کسی کو نہ تھی اور عیش پسندی اور ہوا پرستی کے خار دار صحرا میں بھٹک رہے تھے۔ یہی نہیں بلکہ نا اہل اشخاص کو مرشد اور ولی اللہ اور قطب جیسے جلیل الشان خطابات سے نوازا گیا اور ان تن آسان اور اغراض پرستوں نے عوام کے خیالات سے شریعت کی پیروی کی اہمیت مٹا دی اور سنت نبویﷺ کا احیا مشکل ترین ہو گیا۔

                ایسے تاریک دور میں حضرت امام ربانی مجد الف ثانی قدس سرہ العزیز ہی ایک ایسی شخصیت تھی جو اعلانیہ کلمتہ الحق میں مشغول تھی چنانچہ آپ سرہند سے آگرہ پہنچے ان دنوں اس کا نام اکبر آباد تھا اور اکبر کے مقربین کو بلوا کر ارشاد فرمایا:

                بادشاہ اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہو گیا ہے۔ جا ؤ میری طرف سے اسے کہہ دو کہ اس کی بادشاہی اس کی طاقت اس کی فوج سب کچھ ایک دن مٹ جانے والی ہے۔ وہ توبہ کر کے خدا اور رسول کا تابعدار بنے ورنہ اللہ کے غضب کا انتظار کرے۔

                ان لوگوں نے جا کر بادشاہ سے کہا لیکن اکبر جو اپنے نئے دین کے عروج کے خواب دیکھ رہا تھا، اس نے حضرت امام ربانی کے پیغام کی کچھ پروا نہ کی اور اپنے فتنہ کی کامیابی کے اظہار کے لئے خاص دن مقرر کر کے دربار اکبری سجایا۔ دوسری طرف بارگاہ محمدی بنایا۔ اکبر کا خیال تھا کہ میری بادشاہت اور سلطنت کے مقابلہ میں پرانے اور بوسیدہ مذہب کے پیرو کہاں باہر نکلیں گے اور اس طریق سے ہی فخر الاولین، سید المرسلین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کے مقابلہ میں اپنے شیطانی مسلک کو سرفراز کر سکوں گا اور آنے والی نسلیں میرے رعب و دبدبہ کا سکہ مانیں گی۔ اسے کیا خبر تھی کہ امام ربانی مجدد الف ثانی جیسے ظاہری اور باطنی کمالات کے جامع اس دنیا کو اپنی آمد سے منور کر چکے ہیں۔ چنانچہ اکبر نے اپنے دربار میں بوالہوسوں کی چرب زبانی کے لئے نہایت پرتکلف کھانے تیار کروائے تا کہ شکم کے بندوں کا گروہ گدھوں کی طرح اس مردار دنیا کی طلب میں اکٹھا ہو جائے اور ایسا ہی ہوا کہ اکبر اور اس کے حاشیہ نشین خوشامدی چاپلوس اور ڈپلومیٹک لوگ جن کے نفس نے انہیں شرعی احکام کی تکلیفوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے دین سے باغی ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس دربار میں اکٹھے ہو گئے۔

                دوسری طرف دربار محمدی لگایا گیا، جو ان تمام تکلفات سے سجا ہوا تھا۔ لیکن حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی کی غیرت اسلامی یہ کب گوارا کر سکتی تھی کہ شہنشاہ اکبر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و سلم کی نعوذ باللہ تذلیل کرے۔ چنانچہ حضرت مجدد اپنے چند غریب دوستوں کے ساتھ اس کے دربار میں جلوہ افروز ہوئے۔ تھوڑی دیر گزری کہ ہوا کا ایک سخت طوفان آیا اور اکبری دربار تہ و بالا ہو گیا۔ خیموں کی چوبیں اس زور سے اکھڑیں کہ ہزار حفاظتوں کے باوجود اکبر بھی ان کی زد سے نہ بچ سکا اور زخمی ہو گیا لیکن مجدد صاحب کی قیام گاہ بالکل محفوظ رہی اور ذرا سا بھی نقصان نہ ہوا۔

                تھوڑے ہی دن اسے حلقہ ارادت میں آئے ہوئے تھے۔ طبیعت کی کجی اور نفس کی شرارت میں مبتلا ہو کر اس نے ناراضگی کا بدلہ حضرت امام ربانی سے لینے کی ٹھان لی۔ چنانچہ اس نے مکتوبات شریف میں تحریف کر کے کفریہ اور زندیقانہ عبارتوں کے اضافہ کے ساتھ بیس نقلیں مرتب کیں اور ہندوستان و افغانستان کے مشہور علماء اور مشائخ کے پاس وہ نقلیں بھیج کر ان سے فتوے طلب کئے۔ یہ ایک زبردست فتنہ تھا، ہندوستان کے جلیل القدر اور صاحب علم و فضل حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بھی اس فتنہ میں مبتلا ہو گئے اور آپ نے مجدد کی تردید میں چند رسالے اور مضامین لکھ ڈالے۔

                حضرت امام ربانی کی مخالفت میں ذاتی اقتدار حسد اور غلط فہمیاں تینوں اپنی اپنی جگہ کام کر رہی تھیں، جس کے نتیجہ کے طور پر حضرت امام ربانی کو دربار میں طلب کیا گیا تھا مگر دشمنوں کی چال کارگر نہ ہوئی۔

                مخالفین نے جب یہ دیکھا کہ ہمارا کیا کرایا سب بیکار ہو گیا اور بادشاہ امام ربانی کی طرف سے مطمئن ہو گیا ہے تو انہوں نے جہانگیر کو حضرت مجدد کے خلاف سیاسی رنگ میں بھڑکانہ شروع کر دیا اور اسے خائف کرنا شروع کر دیا کہ:

                احمد سرہندی حکومت کا باغی ہے، بڑا سرکش اور خطرناک آدمی ہے۔ دربار میں سجدہ کا رواج جو شاہ اکبر کے وقت سے آ رہا ہے، اس کے خلاف فتوے بھی دے چکا ہے اور اس کے پاس ایک لاکھ زرہ پوش سوار موجود ہیں، یہ کسی نہ کسی وقت بغاوت کر دے گا۔

                جہانگیر کے لئے یہ سیاسی خطرہ مذہبی خطرہ سے بھی زیادہ تشویشناک تھا۔ مکتوبات کی تحریف شدہ عبارتیں اور حضرت مولانا عبدالحق محدث دہلوی کے تردیدی مضامین بھی حاسدوں نے بادشاہ کی نظروں سے گزارے ہوئے تھے۔ جہانگیر نے امراء و اراکین کو جمع کیا اور حضرت امام ربانی کے متعلق مشورہ کیا۔ مختلف آرا ؤں کے بعد بادشاہ نے اپنے وزیر آصف جاہ (جو کہ شیعہ تھا) کی رائے پر اتفاق کیا کہ جو امراء حضرت امام ربانی کے حلقہ بیعت میں آ چکے ہیں انہیں دور دور علاقوں پر تنخواہیں بڑھا کر تبدیل کر دیا جائے اور اس کے بعد جو کارروائی کی جائے بہتر رہے گی چنانچہ خانخاناں کو ملک دکن پر سید صدر جہاں کو مشرقی ممالک پر خان جہاں لودھی کو مالوہ پر اور مہابت خان کو کابل پر تعینات کیا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی امراء اسی طرح الگ الگ علاقوں کی گورنری پر مقرر کر کے روانگی کا حکم دے دیا اور پھر دوسری بار حضرت امام ربانی کو بادشاہ نے طلب کیا اور آداب شاہانہ یعنی سجدہ کا مطالبہ کیا۔ مگر خدائے قدوس کی بارگاہ میں جھکنے والا سر دنیا کے بادشاہوں کے دربار میں کب جھک سکتا ہے۔ حضرت امام ربانی نے اس غیر شرعی تعظیم سے سختی سے انکار کر دیا اور ارشاد فرمایا کہ:

                سوائے خدا کے کسی کو سجدہ جائز نہیں اور اے جہانگیر کیا یہ کھلی ہوئی حماقت نہیں کہ میں اپنے ہی جیسے ایک بے بس اور مجبور انسان کو سجدہ کرو۔

                جہانگیر یہ الفاظ سن کر غیظ و غضب سے بھر گیا۔ وہ کبھی یہ باور ہی نہیں کر سکتا تھا کہ میرے پر ہیبت دربار میں کسی کو جرأت ہو سکے گی کہ میرے حکم کی خلاف ورزی کرے اور اتنی بے بابکی اور بے خوفی سے گفتگو کرے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ آج تک سچی بات کہنے والا اس کے ہاں آیا ہی کون تھا۔ جو لوگ اس وقت اسلام کے پاسبان اور نگہبان ہونے کے مدعی تھے وہ صرف بادشاہ جہانگیر کی خوشی کے خواہاں تھے، انہیں احکم الحاکمین کی رضا سے کیا واسطہ تھا، لیکن خدا کی زمین پر ستاران توحید اور شمع نبوت کے پروانوں سے کبھی خالی نہیں ہوئی اور پھر حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ جیسا عظیم البرکت انسان جو محبوبیت کے گہوارے میں پلا ہو اور الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون کا صحیح مصداق ہو اور جہانگیر جیسے بے پرواہ بادشاہوں کو راہ پر لگانے کے لئے پروردگار عالم نے جسے قبولیت کی خلعت سے نوازا ہو، دنیوی جاہ و جلال، رعب و دبدبہ سے کیسے مرعوب ہو سکتا تھا۔

                دشمنوں نے اپنی چال کامیاب ہوتے دیکھ کر بغلیں بجانی شروع کیں۔ وہ اسی تاک میں تھے کہ اگر امام ربانی سجدہ تعظیمی سے انکار کریں گے تو بادشاہ کے معتوب ہوں گے اور اور سجدہ کر گئے تو مریدین کی نظروں سے گر جائیں گے اور عوام المسلمین بھی انہیں ساقط الاعتبار سمجھیں گے۔

                علماء نے ان امراء کے پاس خاطر حضرت امام ربانی کے قتل کا فتویٰ دے دیا، جن میں شاہ عبدالحق محدث دہلوی بھی شامل تھے لیکن بعد میں اپنے کئے پر پچھتائے اور حضرت امام ربانی کے کمالات کے معترف ہو گئے۔ قدرت کاملہ نے اس عظیم المرتبت جامع کمالات ہستی کو ایک جہان کی ہدایت و رشد کا ذریعہ بنایا تھا۔ جہانگیر نے بھی موت کا حکم تو دے دیا مگر تھوڑی دیر بعد مقلب القلوب نے اس کے دل کو اس حکم سے لوٹنے کی توفیق دی اور کچھ سوچ کے بعد حضرت امام ربانی کو جیل بھیج دینے پر اکتفا کیا۔

                قدرت الٰہی کا کرشمہ سمجھئے کہ جہاں نور جہاں کی شیعیت کی وجہ سے بعض افسر اس فتنہ میں مبتلا تھے۔ وہیں اکثر امراء سلطنت حضرت امام ربنی کی عقیدت اور محبت دل میں رکھتے تھے، حتیٰ کہ شہزادہ خرم جو بعد میں شاہجہاں کے نام سے موسوم ہوا، آپ سے خاصی عقیدت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے خاص الخاص دو معتمد افضل خاں اور خواجہ عبدالرحٰمن کو حضرت امام ربانی کی خدمت میں بھیجا اور فقہ کی کتابیں جن میں سجدہ تعظیمی کی اباحت بتائی گئی تھی، ساتھ کیں اور کہلا بھیجا کہ اگر جناب بادشاہ سے ملاقات کے وقت سجدہ کر لیں تو میں ذمہ لیتا ہوں کہ آپ کو کوئی گزند نہ پہنچ سکے گی۔

                اس پیغام کے جواب میں حضرت امام ربانی نے جو ارشاد فرمایا وہ یہ ہے:

                ‘‘جان بچانے کے لئے یہ بھی جائز ہے، مگر عزیمت اسی میں ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کیا جائے۔’’

                جہانگیر نے آپ کو قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالنے کے حکم کے علاوہ آپ کے دولت کدہ کو بھی لوٹنے کا حکم دیا مگر صبر و تسلیم کے اس مجسمہ نے اف تک بھی زبان سے نہ نکالی۔ پروردگار حقیقی پر کامل ایمان رکھنے والے پیکر نور اور اخلاقی محمدی کی زندہ تصویر نے تکلیف دینے والوں کے حق میں بددعا تک نہ کی بلکہ اپنے متوسلین کو اسی اخلاق محمدی کا مظہر بننے کی تلقین کی۔

                قید خانہ سے پہلے حضرت امام ربانی اپنے دوستوں سے فرمایا کرتے تھے کہ عنقریب ہم پر ایک بلا نازل ہو گی جو ہمارے لئے مقامات ولایت کی ترقی کی باعث ہو گی کیونکہ امتحانات کی کڑی منزلیں گزرنے کے بعد ان ترقیوں کا حصول ممکن نہیں۔

                مختصر یہ کہ حضرت امام ربانی کو اجین (ریاست گوالیار) کے قید خانہ میں بھیج دیا گیا۔ گوالیار کا یہ قید خانہ ان لوگوں کے لئے مخصوص تھا جن کو حکومت کا باغی قرار دیا جاتا تھا۔ حضرت امام ربانی جب وہاں پہنچے تو کئی ہزار نفوس کو وہاں پایا جن میں ہزار ہا غیر مسلم بھی تھے۔ آپ کے قدوم میمنت لزوم اس جیل خانہ کے قیدیوں کے لئے رشد و ہدایت کا باعث ہوئے۔ غیر مسلم اسلام کی لازوال دولت سے مالا مال ہوئے اور باقیوں نے حسب استعداد ظاہری و باطنی کمالات کے خزائن سے جھولیاں بھر بھر کر اپنے سینوں کو مالا مال کیا۔ جیل خانہ میں کوئی قیدی ایسا نہ رہا جسے امام ربانی کے دست سخا نے علم کی دولت اور کمالات روحانی سے محروم رکھا ہو۔ وہ قیدی جو قید خانہ کی غیر مانوس زندگی کو اپنے لئے ایک لعنت کا طوق سمجھتے تھے۔ حضرت امام ربانی کی موجودگی کے باعث اسی قید خانہ کو جنت ارضی کا واحد مرکز سمجھتے ہوئے عیش و طرب کی محفلیں سجائے ہوئے تھے اور قید خانہ کی دیواریں ان کے راستے میں حائل تھیں۔ حضرت امام ربانی کے فیوض و برکات کی بدولت عشق الٰہی کی سرمدی نعمت کو دلوں میں سمیٹ کر رات کی تاریکیوں میں خدائے الم یزل کی بارگاہ میں سر جھکانے کے مشتاق بن گئے۔ مجدد الف ثانیؒ ایسے مسیحا نے چشم زدن میں ان کی کایا پلٹ دی اور انہیں تانبے سے کندن بنا دیا۔

                جہانگیری سلطنت کے عمائدین جو کہ حضرت امام ربانی سے عقیدت رکھتے تھے، انہیں پہلے ہی دور مقامات پر تعینات کر دیا تھا۔ یہ بھی سلطنت کی ایک سیاسی چال تھی تا کہ امام ربانی سے عقیدت رکھنے والے یہ صاحب اقتدار کوئی ایسا قدم نہ اٹھا سکیں جس سے سلطنت کی عمارت دھڑام سے نیچے آ گرے اور حقیقت بھی یہی تھی۔

                چنانچہ حضرت امام ربانی کی قید کی خبر سن کر خانخاناں، خان اعظم، سید صدر جہاں، اسلام خاں، مہابت خاں، مرتضیٰ خاں، تربیت خاں، خان جہاں لودھی، سکندر خاں، حیات خاں، دریا خاں جو سلطنت جہانگیری کے ممتاز رکن تھے، سخت بے چین ہو گئے اور بغاوت پر تیار ہوئے۔ آپس میں خط و کتابت کی اور سب نے متفق ہو کر مہابت خاں کو جو کابل کی گورنری پر متعین تھا اپنا سربراہ تسلیم کر لیا اور اسے فوج و خزانہ سے مدد دی۔ مہابت خاں نے بادشاہ کی اطاعت سے سر پھیر لیا اور بادشاہان بدخشاں و خراسان اور توبران سے امداد لے کر جہانگیر پر فوج کشی کا حکم دے دیا۔ خطبہ اور سکہ سے بادشاہ کا نام نکال لیا۔ جہانگیر بھی اپنا لشکر لے کر مہابت خاں کے مقابلہ کو کابل کی طرف روانہ ہو گیا۔ جہانگیر کے کابل کی طرف جانے کے بعد باقی امراء جو بادشاہ کے باغی ہو گئے انہوں نے بھی انحراف کر کے ملک پر قبضہ کر لیا۔

                ہزاروں کی تعداد میں طلباء آپ کی خانقاہ میں حاضر ہو کر درس پاتے۔ لنگر کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں افراد مفت کھانا کھاتے۔ لاکھ کے قریب مرید اور سو کے قریب آپ کے خلفا ہیں۔ آپ کے مریدوں میں پٹھانوں کی کثرت تھی۔

                حضرت مجدد کے دوسرے مشہور خلیفہ شیخ محمد معصوم ہیں جو حضرت مجدد کے فرزند تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب بھی آپ کا مرید تھا۔ آپ نے اپنے فرزند شیخ سیف الدین کو شاہی لشکر کی رشد و ہدایت پر مامور کر رکھا تھا۔ نواب مکرم خاں گورنر لاہور بھی آپ کا بڑا معتقد تھا اور سب کچھ چھوڑ کر شیخ کی خدمت میں رہنے لگ گیا تھا۔

                فارسی کا مشہور شاعر ناصر علی سرہندی بھی شیخ معصوم کا مرید تھا، اس نے آپ کی تعریف میں کئی شعر کہے۔

                شیخ معصوم اورنگ زیب کے دسویں سال ۹۷۰۱ھ میں فوت ہوئے۔

                مزار مبارک سرہند میں ہے۔ یہ مزار اورنگزیب کی بیٹی روشن آرا نے تعمیر کرایا تھا۔

                حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ نفس کے لئے سب سے مشکل کام شریعت کی پابندی ہے۔

روحانی توجیہہ

                خواجہ شمس الدین عظیمی نے نفس یعنی مثالی جسم کی روحانی توجیہہ اس طرح بیان فرمائی ہے۔

                ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی دوست ہوتا ہے۔ کسی کے پاس دوستوں کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے اور کوئی کسی دوست کی تلاش میں سرگرداں رہ کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ میرا بھی ایک دوست ہے وہ دوست مجھ سے اس وقت سرگوشی کرتا ہے جب میرے اوپر سے حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ اس دوست کے دوست بھی بہت ہیں۔ میں نے سوچا کوئے یار میں دوست کے دوستوں سے جمال یار تذکرہ ہو جائے۔ ایک لاکھ سے زیادہ ان گریباں چاک مخمور نظر دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ پتہ چلا۔ ایک لاکھ حق پرست دوستوں نے یار کا جلوہ الگ الگ روپ میں دیکھا ہے۔ دوست نے یار کو جس جلوہ میں دیکھا۔ دوسرے دوست نے اس سے مختلف تجلی میں مشاہدہ کیا۔ ان دوستوں میں ایک دوست شمس تبریزی کے غلام مولانا روم بھی ہیں۔ ان کی روح گویا ہوئی:

آدمی دید است باقی پوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است

                کوئی اطلاع یا کسی شئے کا علم ہمیں لازمانیت سے موصوم ہوتا ہے۔ یہی لازمانیت نئی نئی اطلاعات زمانیت کے اندر ارسال کرتی رہتی ہے۔ اگر ہم لازمانیت کو ایک نقطے سے تشبیہہ دیں تو یوں کہیں گے کہ اس نقطہ میں کائنات کا یکجائی پروگرام نقش ہے۔ لہروں کے ذریعے اس نقطے سے جب کائنات کا یکجائی پروگرام نشر ہوتا ہے تو انسانی حافظے سے ٹکرا کر بکھرتے ہیں۔ بکھر کر ہی ہر لہر ایک مختلف شکل و صورت میں تصویری خدوخال اختیار کر لیتی ہے۔ لہروں کا حافظے کی سطح پر آ کر بکھرنا ہی وقت کو وجود میں لاتا ہے۔ چونکہ حافظہ جبلی طور پر (فطری طور پر نہیں) محدود ہے اس لئے تصویر کے مابین فاصلہ بن جاتا ہے۔ اسی فاصلے کا دوسرا نام احساس اور وقت کی طوالت ہے اگر ہم بیس (Base) یا اس نقطہ کو تلاش کر لیں جہاں کائنات کا یکجا پروگرام نقش ہے تو فاصلہ کالعدم ہو جاتا ہے۔

                آپ نے سینما گھروں میں دیکھا ہو گا کہ اسکرین کے بالمقابل ایک جگہ پر پروجیکٹر نصب ہوتا ہے۔ آپریٹر اس پروجیکٹر پر فلم لگا کر سوئچ آن کر دیتا ہے۔ فلم کے فیتے پر محفوظ نقوش روشنی کی لہروں کے ذریعے سفر کرتے ہوئے اسکرین پر مظاہر بن جاتے ہیں۔ اگر آپ پروجیکٹر اور اسکرین کے درمیان خلاء میں نظر دوڑائیں تو صرف روشنی کا ایک دھارا نظر آئے گا۔ روشنی کی ان لہروں میں تمام تصویریں موجود ہیں جو روشنی کے دوش پر سفر کرتی ہوئی اسکرین تک پہنچ رہی ہیں۔ اس طرح تین رخ قائم ہوتے ہیں۔ ایک فلم پر نقش شدہ نقوش دوسرا روشنی یا لہروں کا نظام جس کے ذریعہ تصاویر سفر کرتی ہیں اور تیسرا وہ اسکرین جہاں یہ لہریں ٹکرا کر تصویری خدوخال بن جاتی ہیں۔ دو رخوں کو ہم لازمانیت کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں میں وہ تمام نقوش موجود ہوتے ہیں جو اسکرین سے ٹکرا کر مظاہر بنتے ہیں۔ اسی طرح لازمانیت میں کائنات سے متعلق تمام اطلاعات موجود ہیں۔ زندگی کا کوئی نقش یا کوئی حرکت لازمانیت کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ یہ اطلاع تیسرے رخ میں جب ذہن کی سطح پر وارد ہوتی ہیں تو انسان اپنی شعوری ساخت کی بنا پر انہیں فاصلے اور وقت کے خانوں میں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔

                سمجھا یہ جاتا ہے کہ گوشت پوست سے مرتب اور رگ پٹھوں سے بنے ہوئے جسم کی صلاحیتوں کی انتہا ہے۔ گوشت پوست کے جسم سے ہی تمام انسانی صلاحیتیں متحرک ہیں۔ ایسا نہیں ہے اس بات کو مثال سے بیان کیا جائے تو کہا جائے گا کہ گوشت پوست سے بنے ہوئے جسم کی حفاظت کے لئے لباس بناتا ہے۔ فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے یعنی اس کی حرکت جسم سے منتقل ہو کر اسے ملتی ہے لیکن حقیقت میں وہ جسم کے اعضاء کی حرکت ہوتی ہے۔ اگر اس لباس کو جسم پر سے اتار دیا جائے تو اس کے اندر کوئی حرکت باقی نہیں رہتی۔

                اب ہم اس لباس کا مادی جسم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ آدمی مر گیا۔ اس کے مردہ جسم میں زندگی کا کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اگرچہ زندگی کے تمام عوامل ہوا، پانی، غذا، روشنی وغیرہ موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرنے کے بعد جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے۔ اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا۔ اگر جسم اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نوعیت سے اس کے اندر زندگی کا کوئی شائبہ ضرور پایا جاتا۔ اس صورت حال میں ہم اس انسان کا تجسس کرنے پر مجبور ہیں جو جسم کو چھوڑ دیتا ہے جو انسان مادی زندگی چھوڑ دیتا ہے وہی تمام صلاحیتوں کا مخزن و منبع ہے۔ یہی وہ انسان ہے جس کی حرکات و سکنات کو ہم زندگی کہتے ہیں۔

                مادیت کے دائرے میں کتنی چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ بہت چھوٹے ذرات، ایٹم اور ایٹم میں الیکٹران، پروٹان اور دیگر ایٹمی ذرات ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ جیسے جیسے فاصلہ بڑھتا ہے۔ ہم اشیاء کی صحیح ہیئت اور ان کی تفصیلات نہیں دیکھ سکتے۔ چند سو گز دور کا درخت اور اس کے پتے نظر نہیں آتے۔ عمارتیں اور ان کے خدوخال نگاہ کی ناتوانی کی وجہ سے دھندلے کھائی دیتے ہیں۔ سائنسی علوم کہتے ہیں کہ ایٹم میں ارتعاش ہوتا ہے اور بعض حالتوں میں الیکٹران ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں۔ مائع میں مالیکیول بے ترتیب حرکت کرتے ہیں اور گیس میں ایٹم اور مالیکیول ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑتے پھرتے ہیں۔ لیکن اشیاء ہمیں ساکت نظر آتی ہیں اور وہ چیزیں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں لیکن ان کے اثرات سے انہیں پہچانا جاتا ہے۔ مثلاً بجلی کا بہا ؤ، مقناطیسی میدان اور دوسری بہت سی لہریں۔

                جب ہم طبعی فارمولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ایجاد کی مدد لیتے ہیں تو بہت سی چھپی ہوئی چیزیں اور مستور زاویے نظر آ جاتے ہیں۔ جب خوردبین کا لینز آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹا جراثیم، وائرس اور دیگر باریک ذرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ الیکٹران مائیکروسکوپ کے ذریعے الیکٹران کا ہیولا نظر آ جاتا ہے۔ دوربین کا عدسہ نگاہوں پر فٹ ہو جائے تو دور دراز کی چیزیں قریب نظر آنے لگتی ہیں اور جس قسم اور جس طاقت کا لینز آنکھوں پر لگ جائے اسی مناسبت سے ان دیکھی چیزیں مشاہدہ میں آ جاتی ہیں۔

                روحانیت آدمی کی دو مادی آنکھوں کے علاوہ ایک اور نگاہ کا تذکرہ کرتی ہے۔ یہ نگاہ گوشت پوست کی دو آنکھوں پر انحصار نہیں کرتی اور اس کا دائرہ عمل مادی آنکھوں کی نسبت لامتناہی ہے۔ یہ نگاہ روحانی علوم میں مشاہدے کا ذریعہ یا بصارت کا لینس ہے۔ جب نگاہ کام کرتی ہے تو نگاہ پر غیب بینی کا لینس فٹ ہو جاتا ہے۔ غیب میں کیا حرکات ہو رہی ہیں وہ نگاہ کے سامنے آ جاتی ہیں۔ آدمی چھپی ہوئی چیزوں کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے اور اشیاء کے باطنی خدوخال نظر آ جاتے ہیں۔ یہ نگاہ ٹائم اور اسپیس (Time and Space) کے دائروں میں جہاں چاہے۔ بہ یک وقت اور لمحات کا احساس ہوئے بغیر دیکھ لیتی ہے۔

                مادی حواس یا شعوری حواس میں ہم گوشت پوست کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اگر آنکھیں بند کر لی جائیں تو وہ اطلاعات جو روشنی کے ذریعے عام بصارت تک پہنچتی ہے، رک جاتی ہیں اور ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ مادی آنکھوں کا عمل ہے جسے ظاہری بینائی بھی کہا جاتا ہے۔

                عام طور سے مشہور ہے کہ ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دیکھنے کے لئے صرف آنکھوں کا ہونا کافی نہیں ہے۔ اعصاب کا وہ نظام حذف کر دیا جائے تو بصارت کے پردے سے اطلاع کو دماغ تک پہنچاتا ہے تو آنکھ کے موجود ہوتے ہوئے بھی آدمی کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بصارت کے میکانزم میں آنکھیں جزو ہیں کل نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص سویا ہوا ہے اور اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ لیکن وہ ماحول کی چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا۔ روشنی، آنکھیں اور دماغ کا اعصابی نظام سب کچھ موجود ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اسے کچھ نظر نہیں آتا۔

                روزمرہ زندگی میں یہ بات مشترک ہے کہ مناظر کو دیکھتے وقت یا مناظر کے عکس کو محسوس کرتے وقت ہماری مادی آنکھوں کا ردعمل صفر ہوتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ انسانی نگاہ اپنے عمل میں مادی عوامل کی احتیاج سے آزاد ہے۔ ایک طرز میں وہ مادی آنکھ کے وسیلے سے حرکت کرتی ہے اور دوسری نظر میں اس کا عمل مادی آنکھوں کے عمل سے ماوراء ہے۔ نگاہ کا وہ رخ جو مادی آنکھ کے بغیر کام کرتا ہے باطنی نگاہ، اندرونی نظر یا دید دوست ہے۔

                روحانی علم کی روشنی میں آدمی کی تعریف بیان کی جائے تو اس کو نگاہ کا نام دیا جائے گا۔ اور نگاہ کا دارومدار اطلاعات پر ہے۔ اطلاعات نگاہ میں آتی رہتی ہے اور ذہن میں آ کر نگاہ بن جاتی ہیں۔

                خیال، ادراک، تصور، حافظہ، بصارت (ظاہری و باطنی) یہ سب نگاہ کی مختلف شکلیں یا مختلف درجات ہیں اور انہی کے مظہر کا نام انسان اور انسانی زندگی ہے۔ اس حقیقت کو مولانا روم نے اس طرح بیان کیا ہے۔ آدمی نگاہ ہے۔ گوشت پوست مفروضہ (Fiction) ہے اور نگاہ یہ ہے کہ آنکھ دوست (اللہ) کی تجلی کا مشاہدہ کرتی ہے۔

اقوال اور ارشادات

۱۔            گناہ کے بعد شرمندگی بھی توبہ ہی کی ایک شاخ ہے۔

۲۔           جو شخص صبح و شام توبہ نہ کرے وہ ظالم ہے۔

۳۔           مومن ہو یا کافر کسی کی دل آزاری نہ کر اس لئے کہ کفر کے بعد یہی سب سے بڑا گناہ ہے۔

۴۔           اپنی حاجت پر دوسروں کی حاجت کو مقدم رکھنا ہی حقیقی کرم ہے۔

۵۔           آخرت کے کام آج ہی کرو اور دنیا کے کام کل پر چھوڑ دو۔

۶۔           تمام مخلوقات میں انسان ہی سب سے زیادہ محتاج ہے۔

۷۔           جو شخص کافروں کو عزیز رکھتا ہے اس نے اہل اسلام کو ذلیل کیا۔

۸۔           لوگوں کے ساتھ زیادہ میل جول رکھنا اذیت کا باعث ہوتا ہے۔

۹۔            برے علماء وہ ہیں جو لوگوں سے عزت کے طالب رہتے ہیں۔

۰۱۔                         جب تک کوئی شخص قلبی امراض میں مبتلا ہے کوئی عبادت اور اطاعت فائدہ نہیں دے سکتی بلکہ مضر ہے۔

۱۱۔                          گوشہ نشینی یہ ہے کہ تو عبث اور بے کار کاموں سے منہ موڑے رکھے اور ترک دنیا سے مراد یہ ہے کہ تجھے دنیا سے کوئی رغبت نہ ہو نہ کسی شئے کے چلے جانے کا غم۔

۲۱۔                         جب تک عقائد صحیح نہ ہوں احکام شریعت سے آگہی فائدہ مند نہیں اور جب تک یہ دونوں نہ ہوں قلب کی صفائی ممکن نہیں۔

۳۱۔         نفس کے لئے سب سے مشکل کام شریعت کی پابندی ہے۔

۴۱۔         کمال اسلام یہ ہے کہ دنیوی غرض کو چھوڑ دیا جائے جو کفار کے ساتھ وابستہ ہو۔

۵۱۔         بہترین احسان وہ ہے جو ہمسائے کے ساتھ کیا جائے۔

۶۱۔          خدا کے دشمنوں کے ساتھ دوستی خدا اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کی طرف لے جاتی ہے۔

۷۱۔         مغروروں کے ساتھ تکبر سے پیش آنا صدقہ ہے۔

۸۱۔         پیغمبر کی بات کے مقابلہ میں حکماء کے اقوال چھوڑ دو۔

۹۱۔          اہل اللہ زمین والوں کے لئے امان اور زمانہ کے لئے غنیمت ہیں۔

۰۲۔        ظاہری ولادت کی زندگی چند روزہ ہے اور ولادت معنوی کی زندگی ابدی ہے۔

۱۲۔                         عوام کے نزدیک ایک مردہ جسم کو زندہ کرنا بڑی بات ہے اور خواص کے نزدیک قلب و روح کو زندہ کرنا بڑی قاطع دلیل ہے۔

۲۲۔        جسم کا زندہ کرنا چند روزہ زندگی کا سبب ہے اور قلب کا زندہ کرنا دائمی زندگی کا وسیلہ ہے۔

۳۲۔        اہل اسلام کی عزت کفر اور اہل کفر کی ذلت میں ہے۔

 

 


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔