Topics
ولادت……بمقام پانی پت ۶ رمضان ۹۱۲۱
وفات……بمقام پانی پت ۶ ربیع الاول ۷۹۲۱
حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ
قلندر قادری ۶
رمضان بروز جمعہ ۹۱۲۱
کو پیدا ہوئے۔ آپ کا نام خورشید علی رکھا تھا اور والد بزرگوار نے ابوالحسن اور
والدہ صاحبہ نے غوث ہی رکھا۔ چونکہ والدہ ماجدہ کو ایک قسم کا جنون تھا۔ اس لئے
قرب و جوار میں ایک پنڈت نیک شعار رام نامی رہتے تھے۔ ان کی بیوی بھی نہایت نیک
تھی اس لئے آپ نے ان کا دودھ پیا۔ اس پنڈتانی نے گنگا بش ہر چند رکھا۔ آپ نے دس
برس کی عمر میں قرآن شریف نصف حفظ کر لیا اور نصف ناظرہ پڑھا۔ مولانا شاہ
عبدالعزیز سے حدیث اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد احمد علی صاحب سے بیعت
کی۔ پھر رسول شاہی خاندان سے بھی فیض حاصل کیا۔ پھر والد بزرگوار بابری لائے اور
حضرت میراعظم بھی شاہ صاحب سے بیعت کرایا۔ بڑے بڑے بزرگوں سے ملے۔ مزاج میں بڑی
ظرافت تھی۔ کئی حج بھی کئے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ ہم شاہ عبدالعزیز صاحب سے درس لے
رہے تھے کہ ایک شخص آیا۔ اور اپنی سرگذشت سنائی کہ میں لکھنؤ سے اودے پور گیا تھا۔
رستے میں ریواڑی کی سرائے میں ٹھہرا۔ خرچ پاس نہ تھا۔ ایک کسبی آئی اور کہنے لگی۔
میاں جوان! نہ گھوڑے کو گھاس ہے۔ نہ تم نے روٹی پکوائی کیا بات ہے اور یہ دس روپیہ
قرض حسنہ لے لو۔ میں نے حلال سے جمع کر رکھے ہیں کفن دفن کو جب خدا دے ادا کر
دینا۔ میں نے لے لئے۔ اودے پور پہنچ کر ملازمت کی اور پانچ سال میں خوب روپیہ
کمایا اور رخصت لے کر لڑکی کی شادی کرنے وطن کو پلٹا۔ پھر سرائے میں آیا تو معلوم
ہوا کہ کسبی کا انتقال بھی آج ہی ہوا ہے۔ میں نے اس کے روپیہ سے کفن دفن کیا اور
اپنے ہاتھوں خود اسے قبر میں اتارا۔ جیب میں پانچ ہزار کی ہنڈی تھی وہ گر گئی۔
دفن کر کے سرائے میں آیا
تو ہنڈی غائب آخر یاد آیا کہ قبر میں گر گئی ہو گی۔ رات کو جا کر قبر کھودی اور اس
کسبی کو بڑی شان سے جنت کے محل میں بیٹھا پایا۔ دیکھتے ہی بولی میاں سپاہی یہ ہنڈی
لو، تمہاری امداد کی تھی۔ اس سے یہ بدلا ملا کہ میں آج خوش ہوں۔ جا ؤ جلد جا ؤ۔
خدا جانے دنیا میں کیا ہو گا۔ میں نکلا تو نہ قبر تھی نہ تکیہ نہ سرائے ملی۔ بلکہ
اک شہر آباد پایا۔ جس سے حال پوچھا۔ اسی نے دیوانہ خیال کیا۔ ایک آدمی کسی بزرگ کے
پاس لے گیا۔ انہوں نے کہا۔ ہاں میرے دادا کہا کرتے تھے کہ اس کے زمانے میں یہاں اک
سرائے تھی اور اک کسبی کے مرنے پر سپاہی نے اسے اتارا تھا پھر وہ رات کو غائب ہو
گیا تھا۔ کوئی تین سو برس اس واقعہ کو ہوئے اب میں حیران ہوں کہ کیا کروں۔ حضرت
شاہ عبدالعزیز صاحب نے اسے خرچ دے کر مکہ بھیج دیا اور کہا کہ جا ؤ بقیہ عمر وہیں
گزارو۔
آپ نے تمام عمر کل و
قناعت کے میدان میں مردانہ وار بسر کی۔ چنانچہ ایک روز فرمایا کہ دنیا میں تین
چیزیں مرغوب و محبوب ہیں اور مشہور ہیں زن، زر اور زمین۔ سو ہم نے زن تو اختیار نہ
کی زمین خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہے، البتہ زر ادھر آیا ادھر گیا۔ لباس رنگین کبھی
پسند خاطر نہ ہوا۔ ہمیشہ سفید پوشی سے رغبت رہی۔ امیر و غریب سب کے ساتھ خلق صنع
کا برتا ؤ کرتے۔ آپ کا معمول تھا کہ رات دو بجے بیدار ہو کر اول وضو پھر تیمم
فرماتے اور پھر نماز تہجد ادا فرما کر فجر تک اوراد معمولی پڑھتے پھر نماز فجر کے
بعد حضرت قلندر صاحب کے روضہ مبارک تشریف لے جاتے۔ نماز اشراق و چاشت وہاں ادا
کرتے۔ پھر خاص و عوام کے سوالوں کا جواب دیتے اور نماز ظہر ادا کرتے پھر اپنے حجرہ
میں عصر تک تلاوت قرآن پاک فرماتے اور عصر اور مغرب تک وہاں ہی رہتے پھر رات کو
نماز عشاء ادا کرتے نوافل پڑھتے رہتے تھے۔
آپ کا وصال ۶ ربیع الاول ۷۹۲۱کو ہوا اور آپ کی عمر ۸۷ سال ۶ ماہ تھی اور آپ کا مزار
شریف پانی پت میں ہے۔
حضرت سید غوث علی شاہ
قلندرؒ فرماتے ہیں کہ جب ہم حج بیت اللہ کا قصد کر کے بمبئی سے جہاز پر سوار ہوئے
تو ہم نے کپتان سے پوچھا۔ میاں تمہیں کوئی مرد خا بھی ملا ہے یا نہیں۔ کپتان نے
کہا جی ہاں ملے تھے۔ ایک مرتبہ ہمارا جہاز حاجیوں کو لے کر روانہ ہوا تو ایک فقیر
اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے والد کے پاس آ بیٹھا اور کہنے لگا۔ اس سفر میں تو بڑی
تکلیف ہوتی ہے، ہم بھلا اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے؟ والد نے جواب دیا۔ سوا
مہینے میں پہنچ جائیں گے۔ فقیر نے کہا۔ اتنا طویل سفر تو ہمارے لئے دشوار ہے۔
ہمارا جی متلاتا ہے، پہلے سے معلوم ہوتا تو ہم کبھی جہاز پر سوار نہ ہوتے۔ والد نے
بطور مزاح کہا۔ اگر کچھ ہمت ہو تو زور لگا ؤ تا کہ جہاز جدہ کے ساحل پر جا لگے۔
فقیر ن ے پوچھا۔ اچھا یہ بتا ؤ کہ پہلے کونسی بندرگاہ آتی ہے۔ والد نے کہا۔‘‘عدن’’
پھر ‘‘مجہ’’ پھر ‘‘جدہ’’ فقیر نے کہا۔ بس لنگر ڈال دو جدہ آ گیا ہے۔ یہ کہہ کر خود
اٹھ کر اپنی جگہ پر چلے گئے۔ والد حیران تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ فوراً ہی ایک
خلاصی کو تحقیق حالی کے لئے بھیجا۔ اس نے واپس آ کر بتلایا کہ جدہ کی بندرگاہ آ
گئی۔ والد نے اس فقیر کو بہت تلاش کیا لیکن پتہ نہ چلا۔
سید غوث علی شاہ قلندر
ارشاد فرماتے ہیں کہ جب ہم پہلی مرتبہ پیران کلیر گئے تو دو وقت کا فاقہ ہوا۔ ہم
نے حضرت مخدوم کے مزار پر جا کر کہا حضرت آپ نے تو عمر بھر گولروں پر گزارا کیا ہم
کو بھوکا ہی رکھئے گا۔ غور سے دیکھا تو قبر پر سیاہ سانپ لپٹا ہوا تھا۔ ہم اپنا
حال کہہ کر چلے آئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک خادم کھانا لایا اور معذرت کرنے لگا کہ میں
بھول گیا تھا۔ آپ معاف فرمائیں۔ ہمیں وہاں سال بھر رہنے کا اتفاق ہوا۔ ایک بار
تمام خادمان درگاہ حضرت عبدالقدوس گنگوہی کے عرس پر چلے گئے تھے۔ وہاں سوائے ہمارے
اور کافر شاہ مجذوبؒ کے کوئی نہ تھا۔ وہ عارضہ اسہال میں مبتلا تھے۔ ایک دن ہم سے
کہا کہ میرا وقت قریب آ گیا۔ میرا بدن اور کپڑے سب ناپاک ہیں۔ کپڑے تالاب پر دھو
لا ؤ اور مجھے نہلا دو، ہم نے کپڑے دھو دیئے اور ان کو خوب نہلا دیا۔ بعد نماز
مغرب چادر تان کر لیٹ گئے اور السلام علیکم کہہ کر جاں بحق ہو گئے۔ اس زمانے میں
مزار کے آس پاس بڑا گھنا جنگل تھا۔ ہم ان کی لاش کی نگہبانی کرتے رہے۔ جب آدمی رات
گزری تو خیال آیا کہ لاش کو تنہا چھوڑتے ہیں تو اس بات کا خوف ہے کہ کوئی جانور
کھا نہ جائے اور اگر لاش کی حفاظت کے لئے بیٹھتے ہیں تو نماز قضا ہوتی ہے۔ ہم اسی
فکر میں تھے کہ وہ مجذوب الا اللہ کہہ کر اٹھ بیٹھے۔ ہم نے لاحول پڑھی اور اپنا
عصا سنبھالا۔ خیال تھا کہ کوئی بھوت لاش کے اندر حلول نہ کر گیا ہو۔ مارنے کا
ارادہ ہی کیا تھا کہ وہ گھبرا کر بولے۔ مایں غوث علی شاہ خبردار! میں کوئی جن بھوت
نہیں، میں تو وہی کافر شاہ ہوں۔ تم فکر مند تھے اس لئے میں دربار الٰہی سے دوپہر
کی رخصت لے آیا ہوں۔ اب تم نماز پڑھو میں دو گھڑی دن چڑھے مروں گا۔ ہم نے اپنا عصا
رکھ دیا اور اس سے باتیں شروع کیں۔ اول تو ہم نے پوچھا کہ آپ کون ہیں۔ دوسرے یہ کہ
آپ کو فیض کہاں سے ہوا۔ تیسرے یہ کہ مرنے کے بعد کیا گزری؟ کافر شاہ نے جواب دیا
کہ میں تیموریہ خاندان کا شہزادہ ہوں اور فیض باطنی مجھ کو حضرت مخدوم علی احمد
صابرؒ کی روح پرفتوح سے ہوا ہے اور وہاں کا حال مختلف ہے۔ مجھ پر خیر گزری۔ زیادہ
حال بیان کرنے کی اجازت نہیں۔ تم جب آ ؤ گے تو خود معلوم کر لو گے۔ اب جا ؤ نماز
پڑھو، دیر ہو رہی ہے۔ مگر اشراق پڑھ کر جلد چلے آنا۔ جب ہم ٹھیک وقت پر آ پہنچے تو
آپ نے فرمایا کہ لو اب ہم جاتے ہیں۔ تم دفن و کفن کا کچھ فکر نہ کرنا۔ مولوی قلندر
صاحب جلال آبادی اور ان کے دو طالب علم آتے ہی ہوں گے، وہ تمہارے مددگار ہوں گے۔
دو چادریں ان کی اور ایک ہماری ان میں لپیٹ کر دفن کر دینا اور میری قبر مخدوم
صاحبؒ کے پا انداز بنانا۔ پھر آپ نے کہا کہ اب انگوٹھوں میں سے جاں نکل گئی، اب
ٹخنوں میں آئی، اب گھٹنوں میں، اب کمر میں، اب سینے میں اور اب حلق میں۔ السلام
علیکم کہہ کر رخصت ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں مولوی صاحب بھی تشریف لائے اور ان کی
وصیت کے مطابق انہیں دفن کر دیا۔ پھر ہم نے تمام حال مولوی صاحب سے بیان کیا۔ وہ
بہت دیر تک متحیر رہے اور کہنے لگے کہ حقیقت میں یہ درویش اپنے فن کا پورا تھا۔
حضرت غوث علی شاہؒ فرماتے
ہیں کہ ایک دفعہ میں اور میرا بھائی دونوں ملک دکن کے اندر ایک راجہ کے سواروں میں
بھرتی ہو گئے۔ چند روز کے بعد وہ راجہ تو مر گیا۔ اس کے دو بیٹوں نے ریاست و سپاہ
آپس میں تقسیم کر لئے۔ اتفاق سے دونوں بھائیوں میں ناراضگی ہو گئی اور آپس میں لڑ
پڑے۔ ہم دونوں بھائی بھی لڑائی میں سخت زخمی ہوئے۔ رات کو میدان جنگ میں پڑے تھے
اور کوئی ہمارے حال کا پرساں نہ تھا۔ آدھی رات کے وقت پیاس لگی، دور سے ایک برہمن
آتا نظر آیا، اس کے ہاتھ میں ایک بالٹی تھی اور دس پندرہ آدمی ساتھ پانی کے بھرے
ہوئے گھڑے سروں پر اٹھائے زخمیوں کو پانی پلا رہے تھے، چونکہ مجھے ہندو ؤں کے ہاتھ
سے کھانے پینے سے ہمیشہ پرہیز رہا تھا۔ اس لئے برہمن کے ہاتھ سے پانی پینے سے
انکار کر دیا۔ برہمن چلا گیا اور پھر تھوڑی دیر بعد واپس آیا۔ مجھ سے مخاطب ہو کر
کہنے لگا۔ خان صاحب! کیوں پیاسے رہتے ہو، پی بھی لو۔ میں نے کہا میں نے کبھی ہندو
کے ہاتھ سے پانی نہیں پیا۔ اب مرتے وقت کیوں پیوں۔ برہمن نے کہا۔ آپ بڑی ضدی ہیں۔
کیا اسی کا نام مسلمانی ہے، لو پانی پیو۔ میں تمہارے بھائی کو بھی پانی پلا آیا
ہوں، ابھی تمہاری عمر بہت ہے، یہ سن کر ہمارے کان کھڑے ہوئے کہ یہ شخص میرے بھائی
کو کیونکر جانتا ہے اور اس کو ہماری عمر کی کیا خبر۔ میں نے کہا۔ پانی تو پی لوں
گا لیکن یہ تو بتایئے گا کہ آپ کون ہیں۔ فرمایا کہ میں خضر ہوں۔ یہ لوگ جن کے سروں
پر پانی کے گھڑے ہیں ابدال ہیں۔ ہم کو حکم ہوا ہے کہ ابھی ان زخمیوں کی عمر زیادہ
ہے، انہیں پانی پلا ؤ۔ میں نے کہا۔ حضرت آپ نے یہ بھیس کیوں بدلا ہے۔ آپ نے
فرمایا۔ میاں چپ رہو۔ مہاراج کہو مہاراج۔ اس لئے کہ بہت سے ہندو بھی اس میدان میں
پڑے ہیں جن کو مسلمانوں کے ہاتھ سے پانی پینے سے انکار ہے۔ میں نے کہا۔ اگر آپ
دوسری ملاقات کا وعدہ کریں تو پانی پیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا ملاقات ہو گی
لیکن تم پہچان نہ سکو گے۔ میں نے پانی پیا، کچھ قوت آئی۔ وہاں سے اٹھ کر مکان پر
آیا۔ پھر نوکری چھوڑ کر اپنے وطن کی راہ لی۔ وطن پہنچ کر مسجد کی امامت اختیار کی
اور پھر لڑکے پڑھانے لگا۔ کوئی پندرہ برس کے بعد ایک روز ایک سپاہی شکستہ حال جس
کی تلوار کا نیام بھی ٹوٹ چکا تھا، مسجد میں آیا۔ السلام علیکم کیا۔ میں نے جواب
دیا وعلیکم السلام۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسے تشریف لائے۔ کہا بہت دنوں
سے آپ کی ملاقات کے لئے دل چاہتا تھا، آج سرکاری کام سے ادھر آ نکلا۔ خیال کیا کہ
آپ سے ملتا چلوں۔ میں نے سوچا کہ ہماری ان سے ملاقات تو ہے نہیں۔ شاید روٹی کے لئے
باتیں بناتے ہیں۔ ہم نے روٹی منگوا کر انہیں کھلا دی۔ جب کھا پی کر چلنے لگے تو
فرمایا کہ لو خان صاحب ہم جاتے ہیں، پندرہ سولہ برس ہوئے کہ تم سے ملاقات ہوئی تھی
اور ہم نے ملاقات کا وعدہ کیا تھا پھر یہ نہ کہنا کہ ہم نے وعدہ خلافی کی۔ ہم روٹی
کھانے نہیں آئے تھے بلکہ آپ سے ملاقات کرنے آئے تھے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ
وہ السلام علیکم کر کے مسجد کے دروازے سے باہر نکل گئے۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ یہ
تو حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ میں دوڑا اور ہر گلی کوچہ میں دریافت کیا کہ کسی نے
اس شکل و صورت کا کوئی آدمی تو نہیں دیکھا ہے۔ مگر کچھ پتہ نہ لگا۔ مجبوراً ہم
افسوس کر کے رہ گئے۔
حضرت غوث علی شاہؒ ارشاد
فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ دوران سفر ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ اس کا حال دریافت کیا
تو کہنے لگا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزار کا جاروب کش ہوں۔ چھ مہینے میں
ایک مہینہ کی رخصت ملتی ہے۔ ہفتہ بھر گھر پر گزار کر پھر آستانہ پر حاضر ہو جاتا
ہوں۔ جب میں بیس سال کی عمر کا ہوا تھا تو مجھے حرم شریف کی زیارت کا خیال آیا۔
جابجا مقدس مقامات کی زیارت کرتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزار متبرکہ پر
پہنچا۔ دل یہاں پہنچ کر کچھ ایسا مانوس ہوا کہ میں یہیں کا ہو رہا اور جاروب کشی
اختیار کر لی۔ سات آٹھ برس کے بعد ایک فقیر میرے وطن کا وہاں آ نکلا اور پیام دیا
کہ تمہاری بیوی نے کہا تھا کہ اگر کہیں مل جائے تو کہہ دینا کہ تمہارے بچوں کی
شادی کا وقت آ گیا ہے اور خوچ کو کوڑی بھی نہیں۔ جس طرح ہو سکے آ جا ؤ۔ اس وقت سے
میں فکر مند تھا کہ میرے پاس زاد راہ بھی نہیں اور سفر دور دراز کا ہے۔ کس طرح اس
مصیبت سے نجات ملے۔ اسی خیال میں سو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خواب میں
ارشاد فرمایا کہ فلاں مقام پر پتھر کے نیچے پانچ سو ریال رکھے ہیں۔ ان کو لو اور
گھر چلے جا ؤ۔ لیکن بچوں کی شادی کر کے جلدی واپس آ جانا، ہم تمہارے منتظر رہیں
گے۔ جب نیند سے بیدار ہوا تو اس خواب کو محض خیال سمجھا۔ دوسری رات پھر یہی واقعہ
پیش آیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس مقام پر جا کر دیکھو تو سہی میں نے اس مقام پر جا کر
دیکھا تو درحقیقت وہاں پانچ سو ریال پائے۔ تیسری شب آپ نے ارشاد فرمایا کہ کل ضرور
چلے جا ؤ اور جلد واپس آ ؤ۔ میں وہاں سے مدینہ منورہ میں آیا۔ وہاں کچھ مدت قیام
کا ارادہ کیا، خواب میں حضور سرور کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہاں سے جلدی چلے جا
ؤ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے منتظر ہیں۔ میں وہاں سے روانہ ہو گیا۔ گھر
پہنچا تو بچوں کی شادی سے فارغ ہوا۔ گھر چھوڑنے کو جی نہ چاہتا تھا کہ ایک رات
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خواب میں فرمایا کہ تو واپس نہیں آ نا چاہتا، میں نے
عرض کیا کہ پیدل چلنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا۔ جب بیدار ہوا تو
دیکھا کہ حضرت کے آستانے پر موجود ہوں۔ اس روز سے میرا یہ حال ہے کہ چھ مہینے کے
بعد عرض کر کے سو رہتا ہوں اور صبح کو اپنے گھر بیدار ہوتا ہوں اور پھر آٹھ دن بعد
اسی طرح حضرت کے آستانے پر پہنچ جاتا ہوں۔ میرے حال پر موسیٰ علیہ السلام کی بہت
مہربانی ہے۔ جس وقت چاہتا ہوں حضرت سے گفتگو کر لیتا ہوں۔
ایک دن عرض کیا کہ حضرت
مجھ کو کچھ تعلیم فرمایئے۔ ارشاد فرمایا تو متحمل نہ ہو گا مگر ہاں بعد انتقال کے
تم کو کچھ دیں گے۔ اب میں اپنے گھر آیا ہوں۔ چار دن تو گزر چکے ہیں تین دن باقی
ہیں پھر اسی پر پہنچ جا ؤں گا۔ نہایت خوشی میں حضرت کے صدقے زندگی بسر کر رہا ہوں۔
ایک شخص کسی فقیر کے پاس
مرید ہونے گیا۔ فقیر نے اس شخص کو چار ٹکے دے کر کہا کہ آج شب کسی کسبی عورت کے
پاس رہو۔ پھر آ ؤ گے تو مرید کر لیں گے۔ وہ شخص چونکہ متشرع تھا، لاحول پڑھ کر چلا
گیا کہ اچھے پیر ملے اور خوب ہدایت کی۔ اتفاقاً وہ شخص اپنی اہلیہ سے شب باش ہوا۔
نو ماہ بعد لڑکی پیدا ہوئی اور سن بلوغ کو پہنچ کر فاحشہ ہو گئی اور بازار میں جا
بیٹھی۔ لڑکی کی اس حرکت سے اس شخص اس کی اس قدر بدنامہ ہوئی کہ منہ دکھانے کے قابل
نہ رہا۔ مجبور ہو کر پھر اسی فقیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا درد دل بیان کیا۔
فقیر نے کہا۔ اس روز چار ٹکے اسی لئے تو دیئے تھے کہ یہ بلا تمہارے گلے نہ پڑے،
رنڈیوں میں پیدا ہوتی تو رنڈی بنتی، تمہارا نام بدنام نہ ہوتا۔ اب جب تم نے ہماری
بات نہ مانی تو اپنے کئے کو بھگتو۔
حضرت غوث علی شاہ قلندر
پانی پتی کے چچا زاد بھائی جناب سید قاسم علی کی ایک انگریز افسر سے شکر رنجی ہو
گئی اور آپ کو سنگین پہرے میں نظر بند ہونا پڑا۔ دو دن تو آپ نے گزار دیئے۔ تیسرے
دن رائفل بدوش پہرہ داروں سے کہنے لگے۔ اب تو اس قید سے جی گھبرا گیا ہے۔ یہاں سے
جاتے ہیں اور فوراً ہی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ پہرے دار سناٹے میں آ گئے۔ انگریز
افسر کے خوف سے ان کے جسم کانپنے لگے کہ حضرت کی آواز آئی۔ دیکھا تو کچھ فاصلے پر
کھڑے کہہ رہے ہیں، ہم جا رہے ہیں اگر ہمارے تعاقب کا حوصلہ رکھتے ہو تو آ ؤ کوشش
کر دیکھو۔ پہرے دار دوڑے تو آپ غائب ہو گئے۔ انگریز افسر کو اطلاع ہوئی تو اس نے
مسلح سپاہیوں کے ایک دستے کو گرفتاری کا حکم دے کر روانہ کیا تو آپ کچھ فاصلے پر
کھڑے تھے۔ سپاہیوں نے چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ کا دائرہ کم کرنا شروع
کیا کہ آپ کو گرفتار کیا جا سکے۔ قریب پہنچے تو حلقے میں آپ نہیں تھے اور وہاں خود
رو جھاڑیوں کا ایک جھنڈ کھڑا تھا۔ اسی طرح دوسری بار محاصرہ کیا تو حضرت کی بجائے
ببول کا جھنڈ نظر آیا۔ سپاہی تھک گئے۔ پیاس لگی تو سامنے کے دریا سے پانی پینے
لگے۔ نظریں اٹھیں تو حضرت اس دریا کے پار کھڑے تھے۔ سپاہیوں نے ان کو مایوس نگاہوں
سے دیکھا تو آپ نے فرمایا۔ کیوں تعاقب کرتے ہو، اب ہم نہیں چاہتے کہ گرفتا ہوں تو
بتلا ؤ ہمیں کون پکڑ سکتا ہے۔ ہم خدا کے بندے ہیں اور خدا ہمارا محافظ ہے اور جس
کی خدا حفاظت کرتا ہے کس کی مجال کہ اسے گرفتار کرے اور حضرت غائب ہو گئے اور اس
طرح خدا کے اس برگزیدہ بندہ کے سامنے مسلح سپاہیوں کی طاقت مفلوج ہو گئی اور
انگریز افسر کا انتظام اور حکومت کی قوت ناکارہ و ناکام بن کر رہ گئی۔
حضرت غوث علی شاہؒ فرماتے
ہیں کہ جب ہم کوٹ پوتلی سے چلے تو راستہ میں ایک مندر ملا۔ ایک سادھو نہایت دلاویز
الحسان سے بھجن گا رہا تھا۔ ہم بھی اس کے پاس جا بیٹھے، بھجن سنتے رہے پھر ان سے
باتیں ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ نماز کا وقت آیا ہم نے مصلے بچھا کر نماز پڑھ لی بعد
نماز وہ سادھو جی مخاطب ہوئے کہ میاں صاحب آپ کی طبیعت میں تو بڑی آزادی معلوم
ہوتی ہے پھر یہ علت کیوں لگا رکھی ہے۔ ہم نے کہا کہ بابا جی علت سے تو نہ تم خالی
ہو نہ ہم خالی ہیں، تم کو اس پتھر کو پوجنے کی علت لگی ہے۔ ہم کو نماز کی تم گھنٹا
بجاتے ہو ہم تسبیح ہلاتے ہیں۔
حضرت غوث علی شاہؒ فرماتے
ہیں کہ پہاڑ کی سیر کرتے ہوئے سری نگر میں پہنچے ایک پہاڑ پر بابا جی رہتے تھے ان
سے ملاقات ہوئی۔ بڑے خلق و مدارات سے پیش آئے۔ دیکھتے ہی بولے کہ ایسی صورت تو بعد
مدت دیکھنے میں آئی ہے۔ ہم کو ایک جدا مکان دیا۔ چارپائی منگائی ہر چند ہم نے
انکار کیا کہ آپ زمین پر سوتے ہیں۔ ہم بھی اسی طور سے بسرام کریں گے ہرگز نہ مانا
اور اصرار کیا کہ نہیں تم کو چارپائی ضرور چاہئے۔ چند روز میں بے تکلفی ہو گئی۔
ایک دن ان کے کسی چیلہ کو پدم ناگ نے جو ہاتھ بھرکا اور نہایت زہریلا ہوتا ہے، کاٹ
لیا اور دوسرے چیلہ نے سانپ کو پتھر کی کونڈی سے ڈھانک دیا اور خود آ کر گروجی کو
خبر دی۔ فرمایا کہ جلدی بھبوت لا(یعنی اکسیر اعظم) اتنے میں ایسا زہر چڑھا کہ چیلہ
کا منہ بند ہو گیا اور گردن کا منکا ڈھل گیا کہا کہ جس طرح ہو سکے اس کے حلق سے
بھبوت اتار دو خیر بڑی مشکل سے ایک خشخاش کی برابر راکھ سنیک سے اس کو کھلا دی۔
حلق سے اس کا اترنا تھا کہ چیلہ جھرجھری لے کر سیدھا ہو گیا اور چیلوں کو حکم دیا
کہ اب اس کو بٹھا ؤ تھوڑی دیر میں اس نے بھوک کی فریاد کی تو دو سیر گھی اس کو
پلوایا اور پھر ٹہلانا شروع کیا اور جب خواہش ہوئی گھی پلا دیا کچھ دیر بعد اس کو
خون کا دست آیا۔ پھر گھی پلا کر ٹہلایا تو کچ لہو کا دست آیا۔ اس کے بعد غذائی آیا
اور بھلا چنگا ہو گیا۔ اب گرو جی نے کہا کہ اس سانپ کو لا ؤ۔ چیلے پکڑ لائے ایک
سنیک سے اس کے منہ میں بھی وہی بھبوت ڈال دی۔ اسی دم اینٹھ کر رہ گیا اور ذرا دیر
میں پانی پانی ہو کر بہہ گیا اور خاک پر تیرنے لگا۔ بابا جی نے کہا کہ دیکھئے اس
کا زہر تو اس کے لئے اکسیر ہے مگر انسان کے لئے قاتل ہے اور انسان کی اکسیر اس کے
حق میں زہر ہلاہل ہے۔
کیمیائے زہر ماران تھی،
برخلاف کیمیائے متقی اور یہ حوصلہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیا ہے کہ اکسیر ہضم
کرتا ہے ورنہ حیوانات کے حق میں تو اکسیر زہر کا حکم رکھتی ہے۔
حضرت غوث علی شاہ اپنی
کتاب تذکرہ غوثیہ میں شیطان کا آدم کو سجدہ کرنے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔
مرشد کریم خواجہ شمس
الدین عظیمی اس واقعہ کی روحانی توجیہہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
خالق کائنات نے کہا کہ
میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے حضور
فرشتوں نے دست بستہ اپنی رائے کا اظہار یوں کیا۔ یہ بندہ بشر زمین پر خون خرابے کی
ایک علامت بن جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی
بات سن کر یہ نہیں فرمایا کہ یہ بندہ زمین پر فساد نہیں پھیلائے گا۔ ارشاد ہوا میں
جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور آدم کو اپنی صفات کا علم سکھا دیا اور اپنے اس
شاہکار کو پیش کر کے فرشتوں سے کہا۔ بیان کرو تم اس کے مقابلے میں کتنا علم رکھتے
ہو۔
فرشتے عظمت و جلال سے لرز
کر پکار اٹھے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا علم آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔ بے شک آپ
علیم اور حکیم ہیں۔
فرشتوں کے مطابق آدم
فسادی اور فتنہ انگیز ہے لیکن اگر اسے علم الاسماء حاصل ہے تو وہ اللہ کا نائب ہے۔
باالفاظ دیگر اگر آدم زاد اللہ تعالیٰ کا نائب نہیں ہے تو یہ جیتا جاگتا شر و فساد
ہے۔ شر اور فساد کا قدرتی نتیجہ اللہ سے دوری ہے اور اللہ سے دوری بندہ کو خوف اور
ملال میں مبتلا کر دیتی ہے۔ خوف زدہ انسان ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ
دوسروں کے مقابلے میں خود کو زیادہ باشعور زیادہ عقل مند اور زیادہ طاقت ور ثابت
کرے۔ دو ہزار سال کے طویل عرصے میں خوف کا یہ جذبہ بتدریج بڑھتے بڑھتے ایک ایسا
پہاڑ بن گیا ہے کہ اس کی وسعت کے سامنے زمین کی اپنی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔
خوف سے نجات پانے کے لئے قوموں نے خود اپنی نوع کو برباد کرنے کے لئے ایسی ایسی
اختراعات کیں کہ ان سے زمین کا کلیجہ منہ کو آتا ہے اور پھر اس زبوں کاری کا نام
ترقی رکھ کر ساری انسانی آبادی کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ آدمی
نے خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے ایسے ایسے ہتھیار تیار کئے کہ دنیا چشم زدن میں
بھک سے اڑ جائے گی۔ نوع انسانی کے ان دانشوروں نے جو بلاشبہ اللہ کے نائب نہیں ہیں
نت نئے مہلک ہتھیاروں کی ایجاد سے اپنی پیشانیوں کو داغ دار بنا دیا ہے۔ ترقی
یافتہ قوم کے باشعور افراد کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت دنیا میں چالیس ہزار
ایٹم بم موجود ہیں دیگر روایتی اسلحہ کا تو کوئی شمارہ و قطار ہی نہیں۔ یہ ترقی کس
لئے ہو رہی ہے، کس کے خلاف یہ ہتھیار بنائے جا رہے ہیں۔ ان خوفناک ہتھیاروں کے
استعمال سے کون تباہ ہو گا۔ کیا یہ خود اپنے گھر کو آگ لگانے کے مترادف نہیں۔ زمین
اللہ کی ملکیت ہے۔ زمین انسان کی فلاح و بہبود کا ایک گہوارہ ہے۔ زمین ہماری جنم
بھومی ہے۔ زمین وہ ہے جس کی کوکھ سے ہمارے لئے قدرت وسائل پیدا کرتی ہے۔ یہ زمین
ہی ہے جس کے اوپر لہلہاتے باغ ہمارے لئے اللہ کی نعمتوں کے دسترخوان بن گئے ہیں۔
ہائے افسوس جس کوکھ میں ہم پرورش پا کر جوان ہوئے ہیں۔ ہم ترقی کے نام پر اسی کوکھ
کو اجاڑ دینا چاہتے ہیں۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ جس سے رنگ رنگ مناظر سرد سمن کوہ و دمن
لالہ و صحرا راکھ کا ڈھیر بن جائیں۔ یہ ترقی نہیں تنزلی ہے۔ ابتلا ہے۔ خوف ہے۔ اس
بات کا خوف کہ ہماری ہی برادری ہمیں تباہ کر دے گی اور اس تباہی سے بچنے کا طریقہ
یہ ہے کہ ایسی کوئی طاقت ہمارے پاس ہو کہ برادری کا دوسرا گروہ ہمیں تباہ نہ کر
سکے لیکن قانون اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب کوئی چیز وجود میں آ جاتی ہے۔ اس
کا استعمال لازمی ہو جاتا ہے یہ جو چالیس ہزار ایٹم بم اور نہیں معلوم کون کون سے
بم وجود میں آ چکے ہیں۔ ایک روز ضرور پھٹیں گے اور دنیا ترقی کے جگمگاتے دھوکے سے
آزاد ہو گی تو زمین پر نہ شجر ہو گا نہ حجر ہو گا اور نہ ہی خوف زدہ انسانوں کی
ترقی کا کوئی ثمر ہو گا۔
خوف زدہ زندگی سے باہر آ
جایئے پھر یہ بربادی کا سامان مہیا کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور زمین کی آغوش
بھی ویران نہیں ہو گی جس کا ایک ایک ذرہ ہمارے لئے حیات ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اللہ کے دوستوں کو خوف
ہوتا ہے اور نہ غم۔
خوف اور غم کا ہونا دوزخ
ہے اور اس سے نجات پا لینا جنت ہے۔
اقوال و ارشادات
۱۔ موت فرق و امتیاز کے دور کرنے والی اور تعلقات اور خواہشات
کے اٹھا دینے والی ہے۔
۲۔ آخری وقت کا اضطراب و استقلال کچھ اور ہوتا ہے۔
۳۔ اگر مال دینے سے جان بچے تو مال کو فدا کر دو اور مال و جان
کے دبنے سے عزت قائم رہے اور جان و مال کو فدا کر دو۔
۴۔ انسان کو جس چیز میں کمال ہوتا ہے اسی میں مرتا ہے۔
۵۔ دنیا ایک میل کچیل ہے اور خدا کا نام تو صرف اس کی برکت سے
دنیا کی محبت دل سے دور کرتا ہے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔