Topics

حضرت میر سید جلال الدین جہانیاں جہاں گشت

حالات زندگی

ولادت……اچہ شریف ۷۰۷ھ

وفات……اچہ شریف۵۸۷ھ

                آپ سید جلال سرخ اوچی کے پوتے تھے اور سید احمد کبیر کے بیٹے تھے۔ ولی مادرزاد تھے۔ لڑکپن سے آثار بزرگی کے جلوہ نما تھے۔ کہتے ہیں ان کی سات برس کی عمر تھی کہ ان کے والدین ان کو شیخ جمال الدین خنداں رو کے روبرو لے گئے۔ اس وقت ان کے پاس ایک طباق کھجوروں کا بھرا رکھا تھا، فرمایا کہ حاضرین کو تقسیم کر دو۔ مخدوم جہانیاں نے اپنا حصہ معہ گٹھلیوں کے کھانا شروع کیا۔ شیخ جمال نے یہ دیکھ کر تبسم فرمایا کہ سید مع گٹھلیوں کے کیوں کھاتے ہو۔ مخدو نے باوجود خوردسالی کے جواب دیا کہ یہ کھجوریں آپ کے ہاتھ سے نصیب ہوئی ہیں، ان کی گٹھلیاں بھی فیض سے خالی نہیں، اس واسطے نہیں پھینکتا۔ یہ سن کر شیخ جمال بہت خوش ہوئے اور ان کے حق میں دعا کی۔ لکھا ہے کہ مخدوم نے پہلے بیعت سلسلہ سہروردیہ میں اپنے والد سے کی، بعد اپنے چچا شیخ صدر الدین محمد غوث سے خرقہ تبرک حاصل کیا۔ اس کے بعد شیخ رکن الدین ملتانی سے خرقہ خلافت پایا۔ بعد اس کے شیخ السلام شیخ غفیف الدین عبداللہ متھرری سے مکہ معظمہ میں خرقہ خلافت حاصل کیا اور دو برس ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کے تمام منزلیں طے کی۔ شیخ عفیف نے ان کو گازردن میں جانے کا حکم دیا۔ جب یہ گازردن میں پہنچے تو شیخ امین الدین گازردنی نے فرمایا کہ تمہارے دادا نے مجھ سے ملنے کا قصد کیا تھا مگر شیطان نے میرے مرنے کی جھوٹی خبر ان کو دی اور وہ مکہ معظمہ کو چلے گئے۔ اب تو میرا سجادہ ہے اور مقراض ان کو دے کر فرمایا کہ یہ حق تیرا ہے۔ پس ان سے خرقہ خلافت حاصل کر کے چند دن ان کی خدمت میں رہ کر مصر اور شام، عراق، بلخ اور خراسان وغیرہ ممالک کا سفر کرتے ہوئے اور چھ حج کر کے ہندوستان میں آئے اور بیت اللہ شریف میں امام عبداللہ یافعی کی خدمت میں رہے اور بحکم امام دہلی میں آ کر حضرت مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی کے مرید ہو کر چند دن ان کی خدمت میں رہے اور فیضان چشتیہ حاصل کیا۔ آپ مخدوم جہانہاں چودہ خانوادوں کے خلیفہ ہیں اور تمام اولیائے وقت سے ملے ہیں اور حضرت غوث پاکؒ سے نہایت عقیدت تھی۔ سید اشرف جہانگیری تحریر فرماتے ہیں کہ جس قدر خوارق اور کرامت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سے صادر ہوئے۔ اولیائے متاخرین میں سے کسی ایک کو بھی حاصل نہیں ہوئے۔ چنانچہ جس روز میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اسی روز اطوار قطبیت و غوثیت سے مشرف ہوا۔ شیخ علا ؤالدین چشتیؒ قطب بنگالی نے انتقال کے وقت فرمایا تھا کہ میرے جنازہ کی نماز مخدوم جہانیاں پڑھائیں گے اور کوئی نہ پڑھائے۔ یہ سن کر تمام مرید حیران تھے کہ مخدوم اوچ میں ہیں کیونکر آپ کے جنازہ کی نماز کے وقت حاضر ہوں گے۔ چنانچہ جب ان کا انتقال ہوا تو لوگوں نے مخدوم جہانیاں کو وہاں حاضر دیکھا اور جنازہ کی نماز پڑھائی اور چند روز رہ کر نور قطب عالم کو تو بیعت کیا اور سجادہ پر بٹھایا۔ وہاں پر بہت سے اکابر حضرت کے مرید ہوئے۔

                حضرت شیخ جلال الدین کی بہت سی اولاد تھی اور ان کے اکثر فرزند ولایت کے درجہ کو پہنچے۔ ان میں سے ایک شاہ جلال بھی تھے جو اپنے بھائیوں کے جھگڑوں کی وجہ سے اوچہ سے قنوج آ گئے تھے اور اسی شہر میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ اپنے کشف و کرامات کی وجہ سے بڑی شہرت پائی۔ ان کے صاحبزادے بھی صوری اور معنوی کمالات کے باعث مشہور ہوئے۔ قنوج اور نواح قنوج کے لوگ ان ہی کے سلسلے ادارت سے منسلک رہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حضرت کے بعض فرزند دہلی کے نواح شکار پور میں محو خواب ہیں۔ ان میں شاہ عمر، شاہ محمود اور شاہ کبیر بڑے صاحب کشف و کرامات تھے اور بہت مشہور ہوئے۔ حضرت کے ایک فرزند شاہ قطب عالم گجرات میں مدفون ہیں۔

                جہاں گشت کے پوتے شیخ کبیر الدین بہت بڑے اولیاء اللہ تھے۔

                ۵۸۷ھ کو بروز چہار شنبہ عیدالاضحیٰ کے دن وفات پائی اور اوچہ شریف میں مدفون ہوئے۔ یہ مقام ریاست بہاولپور میں ملتان سے ستر میل کے فاصلہ پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔

                آپ کے ملفوظات کے نام یہ ہیں:

۱۔            خزانہ جلالی

۲۔           سراج الہدایہ

۳۔           جامع العلوم

روح پرور واقعات

                ایک روز مخدوم اپنی خانقاہ میں بیٹھے تھے کہ یکایک گھاس کی گٹھڑی میں آگ لگی اور اس میں سے شعلہ اٹھا۔ مخدوم نے ایک چٹکی خاک کی اٹھا کر یا شیخ عبدالقادر محی الدین جیلانی بہ آواز بلند پڑھ کر اس طرف پھینکی معاً آگ بجھ گئی۔ ایک روز خان جہاں مرزا وزیر سلطان فیروز شاہ حضرت کی خدمت میں آیا۔ اس نے ایک منشی لڑکے کو قید کیا تھا۔ اس لڑکے نے آپ کی طرف توجہ کی۔ آپ نے نور باطن سے معلوم فرما کر وزیر سے فرمایا کہ اس مظلوم کو چھوڑ دے۔ اس میں تیری خیر ہو گی۔ وزیر نے بموجب حکم عالی رہا کیا۔

                اخبار الاولیاء سے نقل ہے کہ شب عید کو مخدوم جہانیاں روضہ شیخ الاسلام بہا ؤ الدین پر جا کر مستدعی عیدی کے ہوئے مزار سے آواز آئی کہ تیری عیدی یہی ہے کہ خداوند تعالیٰ نے تجھ کو مخدوم جہانیاں کیا۔ بعد اس کے شیخ صدر الدین عارف کے مزار پر عیدی کی التجا کی۔ وہاں سے بھی جواب باصواب پایا۔ خزینہ جلالی میں لکھا ہے کہ ایک بار شیخ ابوالفتح ملتانی زینہ پر سے اترتے تھے۔ مخدوم نے دوڑ کر اپنے کو زینہ پر ڈالا۔ اس لئے کہ قدم پیر کا سینہ پر پڑے۔ یہ دیکھ کر شیخ نے کہا یا سید مرتبہ ولایت تمہارا اپنے مرتبہ کو پہنچ چکا ہے، تم مخدوم جہانیاں ہو گئے اور اپنے ہاتھ سے اٹھا کر سینے سے لگایا اور بہت نعمتیں عطا کیں۔ اس روز سے مخاطب بہ خطاب مخدوم جہانیاں ہوئے۔ چونکہ سیاحت بہت کی تھی اس لئے ‘‘جہاں گشت’’ بھی کہلائے۔ ایک بار مخدوم جامع مسجد اوچ میں مع چند علماء درویشوں کے معتکف تھے، حاکم اوچ حضرت کی زیارت کے لئے آیا۔ حضرت کے گرد ہجوم درویشوں کا دیکھ کر کئی درویشوں کو جھڑک کر مسجد سے باہر نکالا۔ مخدوم نے یہ حال دیکھ کر فرمایا کہ اے بدبخت تو دیوانہ ہوا ہے کہ درویشوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ یہ فرماتے ہی حاکم دیوانہ ہو گیا۔ کپڑے پھاڑ کر مسجد سے باہر نکل کر لوگوں کو پتھر مارتا ہوا باہر پھرنے لگا۔ آخر بمشکل اس کو پابہ زنجیر کر کے اس کا بوڑھا باپ حضرت کی خدمت میں آیا اور اس کی معافی چاہی۔ آپ نے ازراہ رحم فرمایا کہ اس کو غسل دو اور نئے کپڑے پہنا ؤ اور زیارت مزار شیخ جمال الدین خندہ رو کرا کے میرے پاس لا ؤ۔ پس بعد زیارت مزار وہ حضرت کے پاس آتے ہی اچھا ہو گیا اور مرید ہو کر واصلاح حق سے ہوا۔

                آپ غیر شرعی رسوم سے بہت پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ غیر شرعی تعظیم تک پسند نہ تھی۔ اگر کوئی مرید عزت کی خاطر پا ؤں چومنے کی کوشش کرتا تو چومنے نہ دیتے تھے، نہ ہی کسی مرید کو اجازت تھی کہ پا ؤں پر سر رکھے۔ ایک مرید نے آپ کی تعریف میں نظم لکھی اور اس میں انہیں ‘‘سید السادات’’ کہا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے سید السادات نہ کہو بلکہ گدائے عالم کہو۔

                کسر نفسی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ خواجہ شرف الدین احمد منیریؒ نے آپ کے پاس کفش بھیجی، جس کا مطلب یہ تھا کہ میں آپ کا کفش پا ہوں۔ آپ نے اس کے جواب میں اپنی دستار ان کے پاس بھیج دی، جس سے مراد یہ تھی کہ تم میرے سرتاج ہو۔

                غیر مسلم خصوصاً ہندو بہت زیادہ آپ کی خدمت میں آ کر اسلام قبول کرتے۔ ایک ہندو عورت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آپ ہی سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئی اور ولایت کے درجہ کو پہنچی۔ جب کبھی آپ اوچہ سے دہلی جاتے راستے میں بہت سے غیر مسلم آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتے۔

                آپ کی حرم محترم بھی بڑی عابدہ و زاہدہ تھیں۔ آپ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ تہجد کے لئے مجھ سے پہلے اٹھا کرتی تھی اور جب تہجد کی نماز پڑھ لیتی تو مجھے بیدار کرتی، بی بی ایسی ہی ہونی چاہئے۔

                فرمایا۔ ایک مرتبہ وہ عبادت کر رہی تھیں کہ بے ہوشوں کی طرح سجدہ میں گر پڑیں۔ جب ہوش آیا تو سجدہ سے اٹھیں۔ میں نے ان سے کہا جا کر وضو کر لو کیونکہ بے ہوشی سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ کہنے لگیں مجھے بے ہوشی نہ تھی میں نے دل کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا، پھر تعظیم میں کیوں سجدہ نہ کرتی۔ مجازی بادشاہ کے لئے ہزاروں تعظیمیں کی جاتی ہیں، حقیقی بادشاہ کی تعظیم سجدہ سے کیوں نہ کرتی۔

روحانی توجیہہ

                حضرت میر سید جلال الدین جہانیاں جہاں گشت فرماتے ہیں:

                ہر سانس کے ساتھ اللہ کو یاد کرو۔

                مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ اس قول کی روحانی توجیہہ اس طرح فرماتے ہیں۔ ہم جب اندر سانس لیتے ہیں تو ہمارا رخ باطن کی طرف ہوتا ہے۔

                زندگی اور زندگی سے متعلق جذبات و احساسات، واردات و کیفیات، تصورات و خیالات اور زندگی سے متعلق تمام دلچسپیاں اس وقت تک قائم ہیں جب تک سانس کی آمد و رفت جاری ہے۔ زندگی کا دارومدار سانس کے اوپر قائم ہے۔ سانس کی طرزوں پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ذی روح میں سانس کا نظام قائم و دائم ہے۔ لیکن ہر نوع میں سانس کے وقفے متعین ہیں مثلاً یہ کہ اگر آدمی کے اندر سانس کے ذریعے دل کی حرکت متعینہ وقت میں ۲۷ ہے تو بکری میں اس سے مختلف ہو گی۔ چیونٹی میں اس سے بالکل مختلف ہو گی۔ کوئی ایسا آلہ ایجاد کر لیا جائے کہ جس سے درخت کے سانس کی پیمائش ہو سکے۔ تو اس کے سانس کی دھڑکن بولنے والی مخلوق سے مختلف ہو گی اور اگر ہم کوئی ایسا آلہ ایجاد کر لیں جس سے پہاڑ کی نبض کی حرکت ریکارڈ کریں تو وہ درخت کے اندر کام کرنے والی نبض کی حرکت سے مختلف ہو گی۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ایک سانس آتا ہے، ایک سانس جاتا ہے یعنی ایک سانس ہم اندر لیتے ہیں اور ایک سانس باہر نکالتے ہیں۔ یہ بات بھی ہم سب کے سامنے ہے کہ پرسکون حالت میں سانس میں ایک خاص قسم کا توازن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پریشانی، غم یا اضطراب میں سانس کی کیفیت مختلف ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی ڈر جائے تو اس کے دل کی حرکت تیز اور بہت تیز ہو جاتی ہے۔ اگر غور کریں تو نظر آئے گا کہ دل کی حرکت کے ساتھ سانس کی حرکت بھی تیز ہو جاتی ہے۔ سانس کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ ہم سانس اندر لیتے ہیں یعنی سانس کے ذریعے آکسیجن جذب کرتے ہیں اور دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم سانس باہر نکالتے ہیں یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔

                یہاں پر بہت غور طلب نکتہ یہ ہے کہ جب ہم سانس لیتے ہیں تو کوئی چیز اندر جا کر جلتی ہے یعنی فضا میں جو آکسیجن پھیلی ہوئی ہے وہ سانس کے ذریعے اندر جا کر جلتی ہے جس طرح گاڑی کے اندر پیٹرول جلتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بھلا ہوا فضلہ باہر نکل جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پیدائش سے موت تک برقرار رہتا ہے۔ اب ہم اس کو روحانیت کی طرز پر بیان کرتے ہیں۔

                اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ ہم جب اندر سانس لیتے ہیں تو ہمارا رخ باطن (Inner) کی طرف ہوتا ہے۔ ہم جب سانس باہر نکالتے ہیں تو ہماری تمام دلچسپیاں دنیا، دنیا میں پھیلی ہوئی چیزوں اور اپنے گوشت پوست کے حواس کے ساتھ قائم رہتی ہیں جو اس کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکان (Time and Space) میں قید کرتا ہے۔ دوسرا رخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکان سے آزاد کرتا ہے۔ نیند کی حالت میں ہمارے اوپر غالب رہتا ہے یعنی جب ہم سو جاتے ہیں تو ہمارے شعوری حواس کی نفی ہو جاتی ہے اور ہمارے اوپر سے زمان ومکان کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور جب ہم بیدار ہو جاتے ہیں تو زمان و مکان سے آزاد حواس و عارضی طور پر ہم سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق خواب اور بیداری زندگی کے دو رخ ہیں یعنی انسان کی زندگی دو رخ یا دو حواس سے مرکب ہے۔ ایک کا نام دن یا بیداری ہے اور دوسرے کا نام خواب یا رات ہے۔ رات کے حواس میں ہر ذی روح مخلوق زمان و مکان سے آزاد ہو جاتی ہے۔ دن کے حواس میں ہر ذی روح مخلوق زمان و مکان کے حواس میں قید ہو جاتی ہے۔ زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے اور سانس کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ یہ کہ سانس ہم اندر لیتے ہیں اور دوسرا رخ یہ کہ ہم سانس باہر نکالتے ہیں۔ سانس کا اندر جانا ہمیں ہماری روح سے قریب کر دیتا ہے اور سانس کا باہر آنا ہمیں اس حواس سے قریب کرتا ہے جو حواس ہمیں روح کی معرفت سے دور کرتے ہیں۔ جب ہم آنکھیں بند کر کے یا کھلی آنکھوں سے کسی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں تو سانس اندر لینے کا وقفہ زیادہ ہو جاتا ہے یعنی ہماری شعوری توجہ روح کی طرف ہو جاتی ہے۔

                تصوف کے اوپر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں روحانی علوم کا تذکرہ تو کیا گیا ہے لیکن اس علم کو ایک اور ایک دو، دور اور دو چار کی طرح عام نہیں کیا گیا۔ بہت سے رموز و نکات بیان کئے گئے پھر بھی رموز و نکات پردے میں اس لئے ہیں کہ ان رموز و نکات کو وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں جو منزل رسیدہ ہیں یا جو حضرت راہ سلوک میں سفر کر چکے ہیں۔

                ہمارے اسلاف نے یہ بھی فرمایا کہ روحانی علوم چونکہ منتقل ہوتے ہیں اس لئے ان کو محفوظ رہنا چاہئے اور ان کی حفاظت کرنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علوم کا نام علم سینہ رکھ دیا گیا۔ اسلاف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ روحانی علوم حاصل ہونے کے بعد ان کے نتائج (مافوق الفطرت باتوں) کو چھپا لینا چاہئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کے اندر سوچنے سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت اتنی نہیں تھی جتنی صلاحیت آج موجود ہے۔ سائنس کے اس ترقی یافتہ دور سے پہلے دور دراز آوازوں کا پہنچنا کرامت سمجھا جاتا ہے لیکن آج سائنس دانوں نے آواز کا طول موج (Wavelength) دریافت کر لیا ہے۔ خیالات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا بھی کرامت (مافوق الفطرت) بیان کیا جاتا تھا۔

                آج کی دنیا میں ہزاروں میل کے فاصلے پر پوری کی پوری تصویر منتقل ہو جاتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں صرف پچاس سال پہلے لوگوں سے یہ کہا جاتا تھا کہ آدمی روشنیوں کا بنا ہوا ہے تو لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ آج سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آدمی لہروں سے مرکب ہے۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے یہ بات بتا دی کہ آدمی لہروں سے مرکب ہے، وہ آدمی کی ایک جگہ سے گزرنے کے بعد بھی تصویر لے لیتے ہیں۔

                پہلے زمانے میں دادی اور نانی بچوں کو کہانی میں اڑن کھٹولوں کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ ایک اڑن کھٹولہ تھا۔ اس پر ایک شہزادی اور شہزادہ بیٹھے اور اڑ گئے۔ دادی اور نانی کے وہی اڑن کھٹولے آج ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ ہم اس میں بیٹھ کر اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق سفر بھی کرتے ہیں۔

                ان تمام مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ سائنس کی ترقی سے پہلے نوع انسانی کی صلاحیت اتنی نہیں تھی کہ روحانی رموز و نکات اس کی سمجھ میں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے پہلے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور پھر ان کو وہ علوم منتقل کر دیئے لیکن آج کے دور میں انسان کی دماغی صلاحیت اور سکت، فہم اور تفکر اتنا زیادہ طاقتور ہے کہ جو چیزیں پہلے کشف و کرامات کے دائرے میں آتی تھیں آج وہی چیزیں انسان کی عام زندگی میں داخل ہیں۔ جیسے جیسے علوم سے انسان کی سکت بڑھتی گئی، شعور طاقتور ہو گیا۔ ذہانت میں اضافہ ہوا۔ گہری باتوں کو سمجھنے اور جاننے کی سکت بڑھی۔

                سائنس کی ترقی سے یہ بہت بڑا فائدہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شعور کی طاقت بڑھی اسی مناسبت سے آدمی کے اندر یقین کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔

                یقین کی طاقت کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ سے دور ہو گیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کا مطح نظر زیادہ تر دنیاوی آرام و آسائش کا حصول ہے چونکہ دنیا خود بے یقینی کا سمبل (Symbol) اور فکشن (Fiction) ہے اور مفروضہ حواس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لئے یہ ترقی بھی ہمارے لئے عذاب بن گئی۔ اگر اس ترقی کی بنیاد ظاہر اسباب کے ساتھ ماورائی صلاحیت کی تلاش ہوتی تو یقین کمزور ہونے کی بجائے طاقتور ہوتا لیکن اس کے باوجود سائنسی علوم کے پھیلا ؤ سے بہرحال اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے اندر ایسے علوم حاصل کرنے کی صلاحیت کا ذوق پیدا ہوا جو ہمیں روحانیت سے قریب کرتے ہیں۔

                اب سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے جو چیز پچاس پچاس، سو سو سال کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی تھی اب وہی چیز ارادے کے اندر یقین مستحکم ہونے سے چند مہینوں اور چند سالوں میں حاصل ہو جاتی ہے۔

اقوال و ارشادات

                آپ فرماتے ہیں:

۱۔            ہر سانس کے ساتھ اللہ کو یاد کرو۔

۲۔           بے اختیار ہو جا ؤ اور عمل اس طرح کرو کہ رضا حاصل ہو۔

۳۔           درویش کی خدمت بہت بہتر ہے۔

۴۔           جسے یاد کا وصل نصیب ہوا ادب کے باعث نصیب ہوا ہو گا۔

۵۔           ظاہر و باطن میں اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ رکھو۔

 

 


Yaran e Tareeqat

میاں مشتاق احمد عظیمی


عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔