Topics

رب راضی۔۔۔۔۔۔سب راضی

مائی صاحبہ بہت خوب صورت تھیں، کتابی چہرہ تھا، ہرن جیسی آنکھیں تھیں۔ بال چاندی کے تاروں جیسے تھے۔ مائی صاحبہ ہر وقت گھومتی پھرتی رہتی تھیں۔ ان کا معمول تھا کہ کبھی کسی کے گھر چلی گئیں اور کبھی کسی کے گھر۔ جس کے گھر جاتی تھیں اس کے گھر میں خیر و برکت ہو جاتی تھی۔ لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ مائی صاحبہ زیادہ دن ان کے گھر میں رہیں۔

ایک دن جب مائی صاحبہ میرے (خواجہ شمس الدین عظیمی) گھر آئیں تو گھر میں بچوں نے شور مچا دیا:

’’دادی آ گئیں۔ دادی آ گئیں۔‘‘

دادی نے بھی اپنے معصوم پوتے پوتیوں کو کلیجے سے لگا لیا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔

بڑی بیٹی ناصرہ مدنان نے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہا:

’’دادی اپنی زندگی کے بارے میں بتائیں؟‘‘

مائی صاحبہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئیں، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور انہوں نے اپنی آپ بیتی اس طرح سنائی:

’’میرا نام جیاتی تھا، میں چودہ سال کی تھی کہ میری شادی ہو گئی۔ ابھی دلہن بنے کچھ دن ہی گزرے تھے کہ شوہر کا انتقال ہو گیا۔ سسرال والوں نے مجھے ستی(شوہر کی لاش کے ساتھ بیوی کو جلانا) کرنے کے مشورے شروع کر دیئے۔ میرے کانوں میں بھنک (اُڑتی ہوئی خبر) پڑ گئی۔ میں گھپ اندھیرے میں رات کو سسرال سے میکے پہنچی۔ ماتا جی نے مجھے سینے سے لگایا لیکن میرے والد نے میرا اس طرح سسرال چھوڑ کر میکے آنا پسند نہیں کیا۔ جب آدھی رات گزر گئی تو ماں نے مجھے پچھلے دروازے سے باہر نکال دیا۔ میں چلتی رہی، چلتی رہی۔ یہاں تک کہ افق سے سورج نمودار ہوا۔ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئی۔ جب نیند سے بیدار ہوئی تو پھر چل پڑی۔۔۔۔۔۔میری منزل تو کوئی تھی نہیں اس لئے چلتی رہی۔ پیر لہولہان ہو گئے اور حلق خشک ہو گیا۔ لگتا تھا کہ حلق میں کانٹے چبھ رہے ہیں۔ چلتے چلتے معلوم نہیں کس طرح خواجہ غریب نوازؒ کے دربار میں پہنچ گئی۔ ڈر اور خوف کا غلبہ اتنا تھا کہ مزار کے اندر جا کر میں نے کنڈی لگا لی اور خواجہ غریب نوازؒ کی قبر سے لپٹ گئی۔ سکون ملا۔ لگتا تھا کہ میں دو چار سال کی بچی ہوں اور خواجہ غریبؒ کی قبر ماں کی گود ہے۔ ادھر میں محبت و پیار کی کیفیت سے سرشار تھی کہ باہر لوگ چیخنے لگے، دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔دروازہ کھولو اور دروازہ پیٹنے لگے۔

میں نے دروازہ کھول دیا اور وہاں جھاڑو دینے کی خدمت میں معمور کر دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد پاکستان بنا تو یہاں آ گئی۔‘‘

چھوٹی بیٹی حنا نے پوچھا:

’’دادی اماں آپ کو ہمارے گھر کا پتہ کس نے بتایا ہے؟‘‘

مائی صاحبہ زور سے ہنسیں اور فرمایا:

’’بیٹی جس بندے کو اپنے اصل مالک کا پتہ مل جاتا ہے اس کے لئے کوئی ٹھکانہ کوئی مقام ڈھونڈنا مشکل نہیں ہوتا۔‘‘

سبحان اللہ کیا سعید دن تھے کہ پورے دن محسوس ہوتا رہا کہ نور کی بارش برس رہی ہے۔

رات کو رخصت ہوتے وقت میں نے مائی صاحبہ سے عرض کیا:

’’اماں کوئی نصیحت کیجئے؟‘‘

مائی صاحبہ آسمان کی طرف تکنے لگیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی مقام پر نگاہ ٹھہر گئی ہے۔ یکایک ایک آواز بلند ہوئی، شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھی اور مائی صاحبہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے:

’’بیٹا!۔۔۔۔۔۔رب راضی۔۔۔سب راضی۔‘‘


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی