Topics

حضرت ابراہیم ادھمؒ

حضرت ابراہیم ادھمؒ شاہانہ عظمت و جلال کے ساتھ تخت شاہی پر جلوہ افروز تھے۔ وزراء و امراء اور خادم دربار میں حاضر تھے اور عوام ادب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ شاہی رعب سے دربار میں سناٹا تھا کہ ایک شخص دربار میں داخل ہوا۔ اس شخص کا لباس موٹے کھدر کا ایک چولا (لانبا کُرتا) اور پیروں پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ بالوں میں گرد و غبار کی تہہ تھی، وہ شخص کے تخت کے قریب آ کر رُک گیا۔ حضرت ابراہیم ادھمؒ نے پوچھا:

’’تم کون ہو؟‘‘

اس آدمی نے کہا:

’’میں مسافر ہوں۔‘‘

بادشاہ نے کہا:

’’ہم نے اپنی سلطنت میں مسافر خانے تعمیر کرائے ہیں تا کہ مسافر اس میں راحت و آرام سے رہیں۔‘‘

شخص نے کہا:

’’یہ دربار بھی تو مسافر خانہ ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم ادھمؒ نے کہا:

’’یہ شاہی دربار ہے۔ مسافر خانہ نہیں۔‘‘

اس شخص نے سوال کیا:

’’اس تخت پر آپ سے پہلے کون براجمان تھا؟‘‘

حضرت ابراہیم ادھمؒ نے کہا:

’’میرے باپ۔‘‘

اس شخص نے پوچھا:

’’آپ کے والد سے پہلے یہ تخت کس کے قبضے میں تھا؟‘‘

حضرت ابراہیم ادھمؒ نے کہا:

’’اس تخت پر میرے دادا بیٹھتے تھے۔‘‘

اس شخص نے پوچھا:

’’اور اس سے پہلے یہ تخت کس کے پاس تھا؟‘‘

حضرت ابراہیم ادھمؒ نے کہا:

’’اس سے پہلے اس شخص کے پاس سلطنت تھی جس سے میرے پرکھوں نے یہ سلطنت حاصل کی۔‘‘

وہ شخص بولا:

’’پھر مسافر خانہ کسے کہتے ہیں؟‘‘

یہ کہہ کر وہ شخص جس شان بے نیازی سے دربار میں داخل ہوا تھا اسی بے نیازی سے دربار سے چلا گیا۔

حضرت ابراہیم ادھمؒ نیک بادشاہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے دعا کرتے تھے۔ تہجد گزار تھے۔

ایک رات تہجد کی نماز کیلئے اُٹھے تو انہیں آواز آئی کہ:

’’چھت پر کوئی چل رہا ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم ادھمؒ نے رعب دار آواز سے پوچھا:

’’چھت پر کون ہے؟‘‘

آواز آئی:

’’میں ہوں۔‘‘

حضرت ابراہیم ادھمؒ نے پوچھا:

’’میں کون؟ اور چھت پر کیا کر رہے ہو؟‘‘

اس شخص نے کہا:

’’میرا اونٹ کھو گیا ہے اسے تلاش کر رہا ہوں؟‘‘

حضرت ابراہیم ادھمؒ نے غصہ سے پوچھا:

’’محل کی چھت پر اونٹ کہاں ملے گا؟‘‘

اس بندے نے جواب دیا:

’’اے بادشاہ! شاہی محل میں اللہ کہاں ملے گا؟‘‘

 

پیارے بچو!

حضرت ابراہیم ادھمؒ پر اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے اپنی باقی کی زندگی اللہ تعالیٰ کی تلاش میں گزار دی اور انہیں اللہ تعالیٰ مل گئے۔

 

 


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی